ملک کے کسی بھی ذمہ دار شہری کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری جمہوریت تقریبا ایک سال سے لاک ڈاؤن میں ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے اس حقیقت کواور بے نقاب کردیا۔ادھر اُدھر کی باتوں کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو یہ سیاسی لاک ڈاؤن بڑی حد تک اپوزیشن جماعتوں کے مزاحمت نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اپنی انتخابی کامیابی کی خوشی میں نریندر مودی -امت شاہ حکومت ایک ایسی سیاسی کائنات بنانے کی کوشش کررہی ہے جس میں مستقل تصویر کھنچوانے کے موقعے ہوں،جسے چاپلوسی کرنے والوں کے سہارے آگے بڑھایا جائے اور تخلیقی مزاحمت کرنے والوں کے لیے جس میں کوئی جگہ نہ ہو۔ نریندر مودی اور امت شاہ کا یہ منصوبہ تقریباً کامیاب ہوتا بھی نظر آرہا تھا۔اقتدار کے ذریعے چھوڑا گیا یہ استعاراتی گھوڑا بنا کسی مخالفت یا بغاوت کے پورے ملک میں گھومتا رہا لیکن ایک یونیورسٹی کیمپس اورشہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ قومی شہریت رجسٹر کے خلاف ملک گیر تحریک میں بلند ہوتے نعروں کی آواز سے ’بِدَک‘ گیا۔ کورونا وبائی مرض نے اس تحریک کو وقتی طور پر خاموش کردیالیکن اس کے باوجود CAA کے خلاف تحریک کی سیاسی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔ایک ایسے وقت میں جب مودی اور شاہ کو یقین ہوگیا تھا کہ جیتنے کے لیے اب کچھ بچا ہی نہیں ہے، ان کو چیلنج کرنے کے لیے مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر اتر آئی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک چھیڑ دی۔اس تحریک کا چھیڑا جانا ہی کیا کم تھا کہ ملک میں جمہوریت پسند غیرمسلم افراد کی اس تحریک کو حمایت بھی حاصل ہوگئی جس نے سرکار کے دروبام کو ہلا کر رکھ دیا۔ جمہویت اور آئین کی حفاظت کے لیے یہ ملک میں بلند ہونے والی وہ آوازیں تھیں جن کے بارے میں اپنی پہلی میعاد کے پانچ برس مکمل ہوجانے کے بعد مودی اور شاہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔امت شاہ اور ان کے پیادے اب کچھ بھی کہتے رہیں لیکن یہ ایک سچائی ہی نہیںبلکہ تاریخ کا حصہ ہے کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف اس تحریک نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی اور حکومت نے اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے۔
یہ انوکھی تحریک جس کی علامت نئی دہلی کا شاہین باغ مقام بن گیا، بار بار اکسانے کے باوجود بھی اس تحریک سے وابستہ افراد نے صبر و تحمل کی مثال قائم کردی۔یہ لوگ پوری طرح اپنی مسلمانیت کو اوڑھے رہے۔ انھوں نے اس تحریک کے لیے اپنے ضابطے بنائے اور اسی کے تحت تحریک کو آگے بڑھاتے رہے ، کسی ایک مقام پر بھی انھوں نے اپنے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ان کی زبان پر آئین تھا اور ان کا پورا زور سیکولر شہریت پر ۔اس تحریک پر پورے ملک میں ردعمل ہو۔بڑی تعداد میں غیر مسلم طبقے کی توجہ اپنی جانب مبذول کی جو اب تک خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔یہ ایک غیر رسمی اور جامع مہم ثابت ہوئی جس نے اپنی غیر متزلزل اخلاقی قوت برداشت سے سب کو حیران کردیا۔اس تحریک کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اس نے بحسن و خوبی اپنا دفاع کیااور پورے ملک کے سامنے ایک مثال قائم کردی۔
مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کی سرپرستی میں منظم فسادات کے ذریعے فروری 2020میں اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی حکومت کو کامیابی نہیں ملی ۔ یہ تو غنیمت جانئے کہ آسمانی وبا کورونا کے قدم جب اس ملک میں داخل ہوگئے تو وزیر اعظم نے بنا کسی پلاننگ کے یاشاید ان ہی آوازوں کو دبانے کے لیے ملک میں ایک دن کے جنتا کرفیو اور پھر لاک ڈائون کا اعلان کردیا۔جس کی وجہ سے شاہین باغ مظاہرین نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے کورونا کا پھیلائو کم ہوگا ویسے ویسے پورے ملک میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک پھر سے اپنے پائوں پھیلانا شروع کردے گی۔
یونیورسٹی کیمپس کے ذریعے پیدا ہونے والا چیلنج کوئی نئی بات نہیں۔حزب اختلاف کو خاموش کرنے اور رائے عامہ کو اپنے Favor میں کرلینے میں تو مرکزی حکومت کامیاب رہی لیکن یونیورسٹیز کے کیمپس میں اپنا قبضہ جمانے یا اپنی گرفت مضبوط کرنے میں حکومت کوکافی جدو جہد کرنا پڑرہی ہے۔مثال کے طور پر علی گڑھ، الہ آباد، بنارس، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکاتہ، ممبئی اور پونے کی یونیورسٹیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
دراصل یونیورسٹیوں کے کیمپس اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک کا رشتہ بڑا قریبی ہے اور اس قربت کو لے کر حکومت کو تشویش لاحق ہے، خاص کراس حکومت کے لیے جو حال ہی میں’ خود مختار یا خود کفیل‘ ہوچکی ہو۔طلبایونین لیڈرز اپنے کیمپس میں خواہ کتنے ہی مقبول کیوں نہ ہوں ، انھیں انتخابی میدان میں بہت آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے۔ایسے میں غیر متوقع طور پر کامیاب ایک تحریک کے ساتھ طلباء کارکنوں کی شمولیت نے حکومت کے سامنے ایک نیا اور بے چین کردینے والا چیلنج پیش کردیا۔جسے حکومت ہر حال میں دبانا چاہتی ہے۔ اسی لیے طلباء لیڈر روہت ویمولااور کنہیاکمار ، عمر خالد سے لے کر صفورا زرگر، میران حیدر، آصف تنہا، دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال تک، جو بڑی تحریکوں سے وابستہ تھے ،کے خلاف مرکزی حکومت نے مستقل ایک مہم چھیڑ رکھی ہے۔کچھ کو گرفتار کیا جاچکا ہے تو کچھ کے لیے باریک جال بنا جارہا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو اس تحریک میں شامل تھے ، ان کی ایسی تصویر پیش کی جارہی ہے کہ جیسے انھیں سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ ان کا کسی قانون کی مخالفت کرنا دہشت گردی ہے۔اس لیے طلباء اور معاشرتی تحریکوں کے مابین تعلقات کو ایک سازش کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ یہ ہماری جمہوریت کی اساس ہے۔اب ان طلبہ کو ڈرایا جارہا ہے، انہیں دھمکایا جارہا ہے۔گذشتہ ۳؍ماہ سے ملک لاک ڈائون میں تھا لیکن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی گرفتاری ، ان پر ظلم میں کوئی لاک ڈائون آڑے نہ آیا۔ وزارت داخلہ اس لاک ڈائون میںپیدل اپنے گھروں کو لوٹ رہے مہاجر مزدوروں کے لیے تو کچھ کرنہ سکی البتہ اس تحریک سے وابستہ طلباء اور ان کے رہنما لیڈران کی گرفتاری کے سلسلے میں خوب ایکٹو رہی۔دہلی فساد کے لیے CAA کے خلاف آواز اُٹھانے والے طلبہ کو ہی ذمہ دار بتا کر چارشیٹ تیار کردی گئی ہے۔یہ پوچھنا بے معنی ہے کہ کیا اقتدار کے نشے میں چور حکمراں طبقہ کو اس پر کوئی شرم محسوس ہوتی ہے ۔کیوں کہ یہی حکمراں طبقہ اپنی پولیس کے ذریعے گرفتاری کے بعد ان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ ہم نے جو کچھ جارج لگائے ہیں انھیں قبول کرو۔افسوس ! ہم (عوام) سے یہ یقین کرنے کو کہا جارہا ہے کہ ہمارے بہترین نوجوان دراصل دہشت گرد ہیں۔
جب طاقت(حکومت) من گڑھت داستانوں پر یقین رکھتی ہو تو حق اور باطل کے درمیان فرق خود ہی کم ہو جاتا ہے۔لیکن کیا حق کو دبایا جاسکتا ہے؟نہیں ہرگز نہیں ، آج دس طلباء گرفتار کرلیے گئے ہیں تو مجھے امید ہے کل ایک ہزار طلباء و جمہوریت پسند افرادمیدان میں ہونگے اور جب تک حکومت اپنا غیر آئینی راستہ ترک نہیں کرتی،وہ آئین کی حفاظت کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)