Cell : 9891726444
Email:[email protected]
قدیم روایتی گھرانوںمیں شاعری ممنوعات میں شامل تھی ۔ نسائی اظہار کے سارے راستے مسدود تھے۔ نسائی سطح پر ایک خموشی کی کیفیت طاری تھی رفتہ رفتہ زنجیریں ٹوٹیں اور خموشیاں آوازوں میں بدلتی گئیں مگر رنگ وہی روایتی تھا پھر نسائی اظہار میں داخلی رنگ و آہنگ کی شمولیت ہوئی اور اس طرح کے شعر لکھے جانے لگے۔
خاک ہو زندگی بھلا تیرے مریضِ عشق کی
میں ہوں دوا سے دُور دُور مجھ سے دوا الگ الگ
اے باد صبا تو ہی تن زار کو لے چل
گلزار میں آیا ہے وہ گلفام ہمارا
اسی دور میں مولانا فضل حق خیر آبادی کی صاحبزادی سید النساء حرماں نے ایک شعر کہا:
دردِ دل دردِ جگر کاوشِ دل کاوشِ جاں
اتنے آزار ہیں اور ایک کلیجہ میرا
اس کے بعد داخلی جذبات و احساسات اور نسائی کیفیات کو ایک راہ مل گئی۔ نسائی شاعری میں گھر، آنگن کے باہر کی فضا بھی روشن ہونے لگی ۔ نسائی آنکھیں دیوار ودر سے باہر سب کچھ دیکھنے لگیں۔اور اس طرح آنکھوں کا اضطراب شعری اظہار کی صورت میں ڈھلنے لگا۔ نیا عہد آیا تو عورتوں کا مزاج بھی بدلا اور موضوعات بھی۔ خانگی اور عائلی ہی نہیں بلکہ عالمی مسائل بھی نسائی فکر وشعور کا حصہ بننے لگے۔
عظیمہ نشاط نگینوی خوش نصیب ہیں کہ انھوں نے قید وقفس سے قدرے آزاد ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے سامنے تخلیقی امکانات کے بہت سے دروازے وا تھے سو انھوں نے اپنے داخلی احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے کہانیوںکی راہ اختیار کی اور پھر شاعری کے دیار میں کچھ اس طرح داخل ہوئیں کہ مشاہدات اور محسوسات کا ساتواں در کھلتا گیا۔ انھوں نے انہی محسوسات کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔ان کے محسوسات کا رشتہ ان کے انفرادی وجود کے علاوہ اُس معاشرت سے بھی ہے جہاں ان کے شب وروز گزرے ہیں۔انھوں نے اپنے اطراف و اکناف میں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے شاعری کی صورت عطا کی ۔ ان کی یہ شاعری جہاں ان کے وجود کا انعکاس اورارتعاش ہے وہیں سماجی حقائق کا روزنامچہ بھی۔
انھوں نے اپنی شاعری میں جس موضوع کو مرکزی محور بنایا ہے وہ مادر وطن سے والہانہ محبت وعقیدت ہے۔
عظیمہ نشاط کی شاعری میں حب الوطنی قومی یکجہتی کی مضبوط اور مستحکم روایت کا تسلسل اور تحرک ہے انھیں اپنی زمین اوراپنی زبان سے بے پناہ عقیدت ہے۔ اپنی مٹی کی محبت میں جہاں اس طرح کے شعر کہے ہیں:
تمنا کیوں کریں جنت ملے بعد فنا ہم کو
ہم اپنے جیتے جی اس دیش کو جنت بنائیں گے
فردوس کا نمونہ ہو میرا پیارا بھارت
سارے جہاں سے اچھا اس دیش کو بنائیں گے
اے وطن اے وطن میرے پیارے وطن
میری جنت و آنکھوں کے تارے وطن
تو وہیں اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کے حوالے سے ہندوستان کی تہذیبی تکثیریت اور تنوع میں وحدت کو خوبصورت خراج پیش کیا ہے :
وہ ہندو ہوں مسلماں جین سکھ عیسائی ہوں اک دن
زمیں اپنی وطن اپنا ہے سب مل کر سجائیں گے
سبھی نے پیار سے سینچا ہے مل کر یہ چمن اپنا
یہاں پر نفرتوں کی بیج ہم بونے نہیں دیں گے
اپنے ملک اور اپنی مٹی کے ذرّہ ذرّہ سے انہیں بے پناہ محبت ہے اسی لیے انھوں نے اپنی شاعری میں مادرِ ہند سے محبت اور وفا داری کا مکمل ثبوت پیش کیا ہے۔حب الوطنی پر ان کی شاعری پڑھتے ہوئے علامہ اقبال، برج نرائن چکبست، حامداﷲافسر اورحب وطن کی روایت سے جڑے ہوئے بہت سے شعراء یاد آتے ہیں۔ حامد اﷲ افسر کا ایک شعر ہے :
بھارت نام کے عاشق ہیں ہم بھارت کے سودائی ہیں
بھارت پیارا دیش ہمارا سب دیشوں سے نیارا ہے
مادروطن سے افسر کے احساسِ محبت کا یہی الاؤ عظیمہ کی شاعری میں بھی روشن ہے۔حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے تعلق سے ان کے یہاں بہت سے اشعار ملتے ہیں جو اس بات کاثبوت ہے کہ عظیمہ نشاط کے لیے خاک وطن کاایک ایک ذرہ کتنا عزیز ہے اور یہاں کی تہذیبی قدریں ان کے لیے بہت معنی رکھتی ہیں ۔ اسی لیے جب وہ اپنی آنکھوں سے قدروں کی شکست وریخت دیکھتی ہیں تو ان کادل تڑپ اٹھتا ہے اور وہ اس طرح کے شعر کہتی ہیں :
بھرشٹاچار اور رشوت خوری پھیل رہی ہے تیزی سے
آؤ مل کر دیش بچائیں اس مہلک بیماری سے
انھیں جہاں مادرِ وطن سے عشق ہے تووہیں ماں کی ممتا سے بھی بے پناہ لگاؤ ہے۔تبھی تو اس طرح کے شعران کے تخلیقی آہنگ میں ڈھلے:
خوشی بھی لوٹ آتی ہے محبت مسکراتی ہے
میں ماں کا نام لیتی ہوں سکوں سے نیند آتی ہے
دشواریاں نہ مشکلیں مجھ کو ڈرا سکیں
ماں کی دعا سے میری مصیبت نکل گئی
اپنی زمین کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی مادری زبان اردو سے بھی محبت ہے۔ اسی لیے اردو کے حوالے سے انھوں نے بہت سے شعر کہے ہیں :
اردو ہے میرا نام میں شاہوں کی زباں ہوں
نظموں کی محفلوں میں ہوں غزلوں میں عیاں ہوں
اردو ہے میرا نام میں سلجھی سی پہیلی
نانک ہے میری جان میں منٹو کی پہیلی
سکھ جین یا عیسائی ہوں ہندو یا مسلمان
سب کی ہوں جان میں تو سبھی کی ہوں سہیلی
عظیمہ نشاط کی آنکھوں نے جو معاشرتی مناظر دیکھے ہیں انھیں بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ دیکھئے کتنا کرب انگیز شعر ہے :
پیٹ کی خاطر ننھے منے بچوں کو
بھاری بھرکم بوجھ اٹھانا پڑتا ہے
اسی طرح کرونا کے دور کی کیفیات کو بھی انھوں نے اپنی شاعری میں ڈھالا ہے :
نہ جانے کن گناہوں کی ہم کو ملی سزا
تھم سی گئی ہے دیکھئے دنیا بھی آج کل
باہر وبا ہے گھر میں ہیں بے تابیاں بہت
قصبہ و شہر مسجدیں ویراں ہیں آج کل
ان تمام اشعار میں عظیمہ نشاط ایک حساس اور باشعور تخلیقی وجود کی حیثیت سے نظر آتی ہیں ۔ انھیں معاشرتی کوائف اور کنہیات کا پورا ادراک ہے۔ ان کی شاعری صرف وجودیاتی کشمکش کا اظہار نہیں بلکہ سماجی تضادات اور تصادمات کا آئینہ بھی ہے۔
عظیمہ نشاط کی شاعری میں جہاں حیات وکائنات سے جڑے ہوئے موضوعات اور مسائل ہیں وہیں ان کی داخلی زندگی کے وہ موضوعات بھی ہیں جن میں بچپن کی یادیں، محبتیں، قربتیں، دوریاں ، خواب، خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں سبھی شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں شورش دوراں بھی ہے اورغم جاناں بھی :
تمہاری یاد میں گھٹ گھٹ کے مرنا چھوڑ دیں گے ہم
تمہیں دل میں بسانے کی تمنا چھوڑ دیں گے ہم
کبھی نکلو ذرا گھر سے کبھی آیا کرو ملنے
بہت دوری بنانے سے بھی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
عظیمہ نشاط نے حمد، نعت، قطعات اور نظمیں بھی کہیں ہیں۔ ان کے مکمل کلام میں قلب ونظر کی طہارت کا عکس ہے۔ پوری شاعری میں ان کے باطنی وجود کی شمع روشن ہے کہ ان کا ذہن ہمیشہ روشنی کی تلاش میں رہتا ہے ۔ ان کی محبت ایسی روشنی سے ہے جو نفرت کے اندھیروں کو دور کرسکے اور نفرت انھیں ان تاریکیوں سے ہے جو معاشرے کی صحتمند اور صالح قدروں کو نگلتی جارہی ہیں ۔
عظیمہ کی شاعری ان کی باطنی روشنی اور داخلی خوشبو کا سفر نامہ ہے۔ ’’برگِ گل‘‘ ان کے فنکارانہ ذہن کا خوبصورت اظہاریہ اور تخلیقی موسم کی پہلی بارش ہے۔