Home نقدوتبصرہ تحریر کی تاثیر -نایاب حسن

تحریر کی تاثیر -نایاب حسن

by قندیل

عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ لکھنا ایک پروفیشن ہے اور یہ صرف اسی کے سر سجتا ہے، جو ادیب ہے، رائٹر ہے یا مصنف و تخلیق کار ہے؛حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش ہر ذی ہوش انسان کے اندر لکھنے کی بالقوہ صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اس لکھنے کا مطلب ادیب یا مصنف ہی ہونا نہیں ہے؛ بلکہ مطلقاً لکھنا ہے، یعنی دن بھر کی مصروفیات کو ڈائری میں درج کرنا، روزنامچہ لکھنا، ضروری اور ترجیحی امور کو نوٹ کرکے رکھنا؛تاکہ انھیں بروقت انجام دیا جاسکے، اپنے گھر اور خاندان کے یادگار واقعات ، سانحات کو لکھتے رہنا، زندگی کے اہم پلانز کو تحریری شکل دینا، حتی کہ بازار سے شب و روز کے استعمال کی اشیا خریدنے سے پہلے اس کی لسٹ بنانا بھی اس ’لکھنے‘ میں شامل ہے اور ایسی تحریریں ہی انسان کے لیے باضابطہ تخلیق کار/رائٹر بننے کی راہیں آسان کرتی ہیں ، اس کی سمتِ زندگی بدلتی ہیں،اسے مسرتوں سے ہم کنار کرتی ہیں،بڑی سے بڑی مصیبت ،سخت ترین ناکامیوں کو جھیل جانے کا حوصلہ بخشتی ہیں ،جاں کاہ سانحات کو سہارنے کی ہمت عطا کرتی ہیں اور اپنے عطایا و منافع سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

ایک دلچسپ کتاب The Power of Writing it Down اسی موضوع کے مختلف پہلووں پر بڑی خوب صورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ اس کی مصنفہ Allison Fallon ہیں، جو مشہور امریکی رائٹنگ کوچ ہیں اور ایک ادارہ Find Your Voice کے نام سے چلاتی ہیں۔اس ادارے کے پلیٹ فارم سے انھوں نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں مرد و خواتین کی ،اپنی تحریری/تخلیقی صلاحیت کی دریافت و اکتشاف میں مدد کی ہے، یعنی ایسے بہت سے لوگ جو ان کی تربیت میں آنے یا ان کی ورکشاپ کا حصہ بننے سے پہلے ایک لفظ بھی لکھنے سے ہچکچاتے تھے،وہ ان کے ہاں زیرِ تربیت رہ کر یا ان کی ورکشاپس میں حصہ لینے کے چند ماہ بعد بلاکسی جھجھک کے لکھنے لگے اور اچھا لکھنے لگے؛بلکہ ان میں سے کئی صاحبِ کتاب بن گئے ۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کے ان کے تجربات، مشاہدات اور ذاتی سرگزشت سے حاصل ہونے والے اسباق و نتائج پر مشتمل ہے۔

کتاب کو انھوں نے چودہ ابواب میں منقسم کیا ہے اور ہر باب میں کسی ایک ایسے اہم پہلو کو آشکار کیا ہے،جو انسان کو لکھنے کی ترغیب دیتا اور اس حوالے سے پیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کی تدبیریں بتاتا ہے ؛چنانچہ مصنفہ نے پہلے باب میں عام انسانی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ہر انسان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے،بس ضرورت اس کے ادراک اور ایک ایسے خوب صورت طریقے کی دریافت کی ہے،جس کے ذریعے وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کا ابلاغ کر سکے۔انھوں نے بتایا ہے کہ زیرِ نظر کتاب کس طرح قدم بہ قدم اس حوالے سے اپنے قاری کی مدد کرتی ہے۔دوسرا باب بھی ایک عمومی انسانی رویے سے بحث کرتا ہے۔یعنی یہ کہ بہت سے لوگ جو لکھنے کے عادی نہیں ہیں،جب ان سے کچھ لکھنے کو کہا جائے تو کہتے ہیں کہ میں تو رائٹر نہیں ہوں یا مجھے تو لکھنا نہیں آتا، مگر فی الحقیقت ایسا نہیں ہے،ہر باشعور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے،بس اس کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔مصنفہ مثالوں سے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے پاس آنے والے بہت سے افراد نے ابتداءاً یہ کہا کہ میں رائٹر نہیں ہوں،مگر ذرا سی تحریک پر انھوں نے بہترین تحریریں لکھیں؛بلکہ کئی لوگ تو صاحبِ کتاب بن گئے۔ تیسرا باب لکھنے کی عادت ڈالنے کے لیے اپنی زندگی میں،گرد و پیش کے ماحول میں،اپنے ذہن میں اور شب و روز کی مصروفیات میں ضروری اسپیس پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔یعنی آپ زندگی کے تمام تر ہنگاموں کے بیچ روزانہ کم از کم دس بیس منٹ لکھنے کے لیے ضرور نکالیں اور کوئی ضروری نہیں کہ آپ بہت سنجیدہ مضمون،کہانی یا کوئی تخلیقی تحریر لکھیں، کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔ چوتھے باب میں یہ بتایا ہے کہ کیسے ایک سادہ کاغذ کو تحریری کاوشوں کا خوب صورت نمونہ بنایا جاسکتا ہے۔ پانچویں باب میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لکھنے کی عادت ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا ذہن سوال کرنے کا عادی ہو، کہ سوالات جوابات کی تلاش پر اکساتے ہیں اور یہ جوابات آپ کے تحریری سرمایے میں مسلسل اضافہ کر سکتے ہیں۔ چھٹے باب میں ذاتی زندگی کی سرگزشت کو کہانیوں میں ڈھالنے اور انھیں تحریری روپ دینے کی شکلیں اور طریقے بیان کیے گئے ہیں۔

کتاب کا ساتواں باب ایک اہم انسانی ذہنی کیفیت سے بحث کرتا ہے، یعنی یہ کہ کیوں بسا اوقات انسان کا ذہن کسی ایک حالت میں اَٹک سا جاتا ہے اور اس سے باہر نکلنے کی تدبیریں کیا ہیں؟ آٹھواں باب یہ بتاتا ہے کہ اچھا لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی تسوید یعنی پہلی تحریر ہی آخری اور فائنل ہو؛ بلکہ اس میں حذف و اضافہ اور ترمیم و ادارت ضروری ہوتی ہے۔بعض لوگ اس لیے نہیں لکھ پاتے کہ دو چار سطروں کے بعد ہی ان کی سانس اکھڑنے لگتی ہے اور انھیں اپنی تحریر پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ تو بکواس ہے، حالاں کہ وہ ابتدائی تسوید کے بعد اسے ایڈٹ کرکے بہتر بناسکتے ہیں، مگر اس طرف ان کا ذہن نہیں جاتا اور چند سطروں میں ہی وہ ہار مان جاتے ہیں۔ اس باب میں مصنفہ بتاتی ہیں کہ اگر آپ اپنی تحریری صلاحیت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں اور زندگی کے سفر میں اس سے نفع اٹھانا اور مسرت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، تو پہلے لکھنے ،پھر ایڈٹ کرنے کی عادت ڈالیے۔ نواں باب یہ بتاتا ہے کہ کیسے لکھنا آپ کو آپ کی ذات میں چھپی خرد افروزیوں سے روبرو کرواتا ہے اور زندگی کی پیچ دار راہوں کو ہموار کرتا ہے۔دسویں باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر فطری عمل کے مانند نتیجہ خیز ، بامعنی اور ثمرآور رائٹنگ اسکل یا تحریری صلاحیت کے اکتشاف کی بھی ایک مدت ہوتی ہے، جس کی تکمیل کا آپ کو انتظار کرنا چاہیے۔ جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہی کوئی پودا یا تناور درخت سامنے کھڑا نظر نہیں آتا، ایک فطری پروسیس کے بعد وہ بیج ایک تناور درخت یا پودے کی شکل میں ڈھلتا ہے، اسی طرح ایک معتدبہ عرصہ درکار ہوگا،جس میں آپ کی تحریری صلاحیت پوری توانائی کے ساتھ نکھر کر سامنے آئے گی۔ گیارہواں باب دلچسپ ہے جس میں مصنفہ نے بتایا ہے کہ اگر آپ لکھنا شروع کر رہے ہیں،تو اس طرح لکھیے جیسے Love Letters یعنی محبت نامے لکھے جاتے ہیں، انھیں لکھنے والے غور و فکر نہیں کرتے،ان کا زور صرف اپنے جذبات کے اظہار پر ہوتا ہے اور پھر الفاظ کا بہاؤ بھی خود بخود اپنی راہ لے لیتا ہے،بالکل اسی طرح آپ لکھنے کے سنجیدہ سفر کی شروعات کر سکتے ہیں۔ بارہواں باب یہ بتاتا ہے کہ آپ اپنی تحریر/تخلیق/کہانی کے اختتامی حصے کو کس طرح اچھے سے اچھے انداز میں تحریر کرسکتے ہیں۔

تیرہواں باب تحریری/قلمی زندگی کی خوب صورتیوں کو درشاتا ہے اور اس پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح لکھنا اور لکھتے رہنا انسان کی زندگی میں حسن و جمال، معنویت اور مسرتیں لاتا ہے اور چودھواں باب اس پہلو پر بحث کرتا ہے کہ آج کے سوشل میڈیا کے بے محابا رواج کے دور میں بھی، جبکہ ہر شخص Influencer بننے کی ریس میں ہے، کیسے الفاظ کی حقیقی قوت اپنے لکھنے والے کو دوام عطا کرتی ہے اور بعد ازمرگ بھی لوگ اس کے لکھے ہوئے لفظوں سے انسپریشن لیتے رہتے ہیں۔ الغرض یہ کتاب تحریر کی ابجد سے لے کر تخلیق کی آخری منزلوں تک پہنچنے کی پوری عملی گائڈ لائن فراہم کرتی ہے اور لکھنے/لکھتے رہنے کی کرشمہ کاریوں کو دلچسپ انداز میں عیاں کرتی ہے۔ ایلیسن فیلن کتاب کے آخری پیراگراف میں لکھتی ہیں ’ ’اپنے الفاظ کے ذریعے درحقیقت ہم ایسی دنیا آباد کرتے ہیں ، جس میں ہم خود رہنا چاہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اپنے الفاظ کے ذریعے ہم اپنے دکھوں کو کچھ کم کرسکیں اور اگر ہمارے الفاظ صرف اتنا کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں، تو کیا یہ کافی نہیں ہے؟ ویسے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ چمتکار ہوجائے اور ہم اپنے الفاظ کے ذریعے دوسروں کے دکھوں کا بوجھ بھی ہلکا کر سکیں، ہوسکتا ہے کہ ہمارے الفاظ قارئین کے دلوں میں لطف اور ہمدردی کے عمیق جذبات پیدا کردیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے الفاظ کی اس سحرکاری کی وجہ سے ہم بعد از مرگ بھی زندہ رہیں…یہ ساری چیزیں محض تحریر کی قوت سے ممکن ہیں‘‘۔

You may also like