ممبئی کے اردو کتاب میلہ میں ، محمد عرفان جونپوری سے میں پہلی بار ملا تھا ، لیکن مجھے یہ ملاقات پہلی ملاقات نہیں لگی ، یوں لگا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ ایسا اس لیے تھا یا اس لیے ہے کہ ، محمد عرفان جونپوری ملک میں اردو ادب کی سرگرمیوں ہی سے نہیں ، صحافتی سرگرمیوں سے بھی واقف رہتے ہیں ، اور ملک کے اکثر ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں سے ان کا علیک و سلیک بھی ہے ۔ اُن سے بات کرتے ہوئے یوں لگا تھا جیسے وہ جونپور کے نہیں ممبئی ہی کے رہنے والے ہیں ۔ ان کی ایک کتاب ’ مضامینِ عرفان : ادبی و تحقیقی مضامین ‘ چند ماہ پہلے مجھے ’ ادب گاؤں ‘ کے مدیر ، افسانہ نگار اشتیاق سعید کی معرفت ملی تھی ، کتاب میلہ میں ملاقات نے اس کتاب کی یاد تازہ کر دی ، اور اسے پڑھ کر اس پر کچھ لکھنے کا موقع ملا ۔ عرفان صاحب کی پانچ کتابیں ’ جونپور کے چند شعراء ‘ ، ’ فکر و شعور ‘ ، ’ کائناتِ ضیاء ‘ ، ’ حفیظ جونپوری : اربابِ ادب کی نظر میں ‘ اور ’ ضیائے غزل ‘ شائع ہو چکی ہیں ، اور چار کتابیں شائع ہونے والی ہیں ۔ زیر تعارف کتاب ، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ، ادبی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے ، مضامین کی تعداد ۱۳ ہے ، تقاریظ اور مرتبہ کتابوں پر لکھی گئی ۸ تحریریں اور ’ جہانِ تبصرہ ‘ کے تحت ۲۷ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں ۔ آخر میں مصنف کی کتاب ’ حفیظ جونپوری : اربابِ ادب کی نظر میں ‘ پر سات اہلِ علم کے تبصرے دیے گیے ہیں ۔
عرفان صاحب کے مضامین مختصر مگر پُراثر ہیں ، وہ کم لفظوں میں بڑی اور مُحقَق باتیں کہہ جاتے ہیں ۔ ایک مضمون ’ خطوطِ اکبر الہٰ بادی میں پردے کا ذکر ‘ کی چند سطریں ملاحظہ کریں ؛ ’’ اکبرؔ نے اپنے خطوط اور شاعری میں مغربی تہذیب کی لعنت بے پردگی کے متعلق جن خدشات کا اشارہ کیا تھا وہ بعد کے حالات میں سو فی صد درست ثابت ہوئے اور اکبرؔ کی شاعری اور ان کے خطوط کا سب سے مثبت پہلو اس صورت میں نمایاں ہوا کہ بعد کے حالات میں مسلمانوں نے اپنی تعلیم کے لیے درس گاہوں کے قیام اور لڑکیوں کے علاحدہ تعلیم کے بندوبست کی طرف توجہ دی ۔ آج ہندوستان اور پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جو علاحدہ اسکول و کالج کا رواج ہے اس کی مزاج سازی میں اکبرؔ کی شاعری اور اُن کے خطوط کو یکسر طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ عرفان صاحب نے جن خطوط کا ذکر کیا ہے وہ خواجہ حسن نظامی کے نام لکھے گیے تھے ، اور مجموعے کی صورت میں ’ مشائخ بک ڈپو ، نئی دہلی ‘ سے شائع ہوئے ہیں ۔ ایک خط کی ایک سطر ملاحظہ فرمائیں ؛ ’’ یورپ کی کمیٹیاں تعلیم و تہذیب نسواں پر بڑا زور دے رہی ہیں چوں کہ پردہ توڑنا مقصود ہے لہٰذا یہ بنیاد قائم کی گئی ہے ۔‘‘ یہ ایک وقیع اور اپنے موضوع پر مدلل مضمون ہے ۔ ایک مضمون کا عنوان ہے ، ’ غالبؔ کا ایک گمنام شاگرد زیدی جونپوری ‘ ، اس مضمون میں زیدیؔ کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے ، اُن کے کچھ کلام کے نمونے بھی پیش کیے گیے ہیں ، لیکن افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ’’ اس باکمال تاریخ گو اور شاعر کا کلام دستیاب نہیں ہے ورنہ غالبؔ اور جلال لکھنئوی جیسے اساتذہ کے اس اہم شاگرد کا نام آج ادبی تاریخ کے روشن صفحات پر نمایاں اور جلی حروف میں لکھا جاتا ۔‘‘ کیا کوئی محقق زیدیؔ کے کلام کی کھوج کرے گا ؟ کتاب کے باقی مضامین ہیں ’ سرشاہ سلیمان کی اردو خدمات ‘ ، ’ شرقی دور کے فارسی شعراء کی ہندی نظمیں ‘ ، ’ اردو صحافت پر پہلی کتاب : ہماری صحافت ‘ ، ’ مولانا شوکت علی کی ملّی فعالیت ‘ ، ’ محمد خالد عبادی اپنی کتابوں کے آئینے میں ‘ ، ’ ایس ایم عباس : کچھ یادیں ، کچھ باتیں ‘ ، ’ شاکر کریمی کا افسانہ ’ چور پر مور ‘ کا تجزیاتی مطالعہ ‘ ، ’ اثرؔ انصاری کی تصنیفات کا اجمالی جائزہ ‘ ، ’ ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی کی کتابوں کا اجمالی تعارف ‘ اور ’ شاعری کی دنیا میں ایک ابھرتا نام اسیم مچھلی شہری ‘۔ تمام مضامین کے موضوعات متنوع ہیں ، اور یہی عرفان صاحب کی تحریروں کا وصف ہے ۔ جملے گنجلک نہیں چھوٹے چھوٹے ہیں ، ابہام سے پاک ، حوالوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ کوئی سُنی سُنائی بات نہ لکھی جائے ۔
عرفان صاحب کی تقاریظ اور تؓبصرے جو اس کتاب میں شامل ہیں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہیں پڑھ کر یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ تقریظ اور تبصرے ایک جیسے نہیں ہوتے ، دونوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ اس مجموعے کے مضامین اور دیگر تحریروں پر پروفیسر عبدالحق ( سابق صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی ، دہلی ) نے ’ تبریک ‘ کے تحت بالکل صحیح لکھا ہے کہ اس مجموعے میں ’’ بہت ہی نئے اور خیال افروز مضامین موجود ہیں جن سے استفادہ کے بعد ان کے قلم کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔‘‘ پروفیسر صاحب نے یہ لکھ کر کہ ’’ غالبؔ کے ایک شاگرد کا تعارف ایک نئی تحقیق ہے ‘‘، عرفان صاحب کی تحقیقی صلاحیتوں پر ایک ماہر کی حیثیت سے اپنی مہر ثبت کی ہے ۔ ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی اپنی ’ تقریظ ‘ میں لکھتے ہیں ’’ بلاشبہ عرفان جونپوری علم و ادب کے دلدادہ اور عاشق محض ہیں ، لیکن ان کے مجموعۂ مضامین ’ مضامین عرفان ‘ سے اندازہ ہوا کہ وہ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ۔ زبان صاف ستھری سادہ اور دلکش ہے ، مگر خرابی یہ ہے کہ جس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے اس پر بھی لکھ دیتے ہیں ، جس سے یقیناً ان کا وقت ضائع ہوتا ہے ۔ وہ اگر جونپور اور متعلقاتِ جونپور پر لکھیں تو بہت اچھا لکھیں گے اور اس سے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ بہت اچھا لکھا ہے ۔ ان کے مجموعہ میں متعدد مضامین کا تعلق جونپور کی تاریخ اور اُس کے شعر و ادب سے ہے اور سچ یہ ہے کہ عرفان صاحب نے ان کا حق ادا کر دیا ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ایک نیک مشورہ دیا ہے ، عرفان صاحب کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی لکھنے والے کے پاس کوئی مواد آجائے تو اس کا قلم کیسے رُکے ! عرفان صاحب ’ مقدمہ ‘ میں اس کتاب کی وجۂ اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ مضامین بکھرے ہوئے تھے ، دوستوں کا اصرار تھا کہ انہیں یکجا کرکے شائع کیا جائے ، اور دوستوں کے اصرار پر یہ مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے ۔ کتاب کے آخر میں مرحوم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمیؔ کا کتاب پر منظوم کلام ہے ، ایک شعر ملاحظہ کریں ؎
مضامینِ عرفاں ہیں یہ دلنواز
نہ کیوں ان پہ ہو اہلِ دانش کو ناز
کتاب کا انتساب اہلیہ اور بیٹوں ، اور جناب سیفی جونپوری کے نام ہے ۔ کتاب 240 صفحات کی ہے ، قیمت 250 روپیے ہے ، اسے موبائل نمبر 9044424208 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
محمد عرفان جونپوری کے ادبی و تحقیقی مضامین – شکیل رشید
previous post