دی کارواں میگزین کی خصوصی رپورٹ
رپورٹ: ساگر
ترجمہ: عمیر اعظمی
"میڈیا والے وہی کہ رہے ہیں جو سرکار ان سے کہلوانا چاہ رہی ہے، سچ نہیں دکھا رہے وہ” یہ الفاظ کھجوری خاص مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر شرافت علی کے ہیں۔ فروری کے آخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے بری طرح متاثر علاقوں میں کھجوری خاص بھی تھا۔ اس سے متصل تمام علاقے، بھجن پورا، شو وہار، چاند باغ، چندو نگر، کراول نگر، اور مصطفیٰ باد ۲۴ اور ۲۵ فروری کو یعنی ۴۸ گھنٹے تک راجدھانی سے کٹے رہے۔ یہاں کے باشندوں نے مجھے بتایا کہ ان دو دنوں میں سڑکوں پر بلوائیوں کا راج رہا اور دہلی پولیس یا تو تماشائی بنی رہی یا تشدد میں ان کی مدد کرتی رہی۔
مسلم اکثریت محلہ کھجوری خاص کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ میڈیا سے مایوس ہیں اور انھیں لا اعتبار سمجھتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی توجہ دو ہی معاملوں پر مرکوز ہے،۲۳ سالہ ینٹیلیجینس بیورو(Intelligence Bureau) کے ملازم انکت شرما کے قتل پر جس کی لاش چاند باغ کے ایک نالہ سے برامد ہوئی اور عام آدمی پارٹی کے کاونسیلر طاہر حسین پر جسے دو دن بعد اس قتل کے الزام میں نامزد کیا گیا۔ حسین کا گھر کراول نگر روڈ پر واقع ہے جو کھجوری خاص کا مرکزی راستہ ہے اور انکت شرما کا گھر تقریباً پانچ سو میٹر دور گلی میں ہے۔ یہاں کے باشندوں کے مطابق میڈیا قصداً حسین کو بدنام کر رہی ہے اور دونوں معاملات کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مسلمانوں کو حملہ آور اور ہندووں کو مظلوم کی شکل میں پیش کرنا چاہ رہی ہے۔
یہاں کے آس پاس کے محلہ میں بھی میں جس مسلمان سے بھی ملا اس کایہی کہنا تھا کہ صحافی مسلمانوں کو مجرم ٹھہرانے پر مصر ہیں باوجودیکہ زمینی حقائق، چن چن کر نشانہ بنائے گئے مسلم مکانات اور دکانیں شاہد ہیں کہ نقصان کس کا ہوا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ حسین اور شرما کو مرکزِ توجہ بنا کر میڈیا کے بیانیہ سے مسلمانوں کے جان مال کے نقصان کو بالکل خارج کر دیا گیا ہے۔
کھجوری خاص کراول نگر ایسمبلی حلقہ میں واقع ہے جب کہ اس کے آس پاس کے علاقے مصطفیٰ باد حلقہ میں آتے ہیں۔ جو علاقہ مصطفیٰ باد میں آتے ہیں وہ بھی ۲۰۰۸ تک کراول نگر حلقہ میں ہی شامل تھے۔ ہر محلہ کا الگ نام ہے مگر گنجان سڑکوں اور گلیوں پر مشتمل محلات ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد زیادہ تر مصطفیٰ باد حلقہ کے علاقوں تک ہی محدود تھا۔
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق مصطفیٰ باد میں ۷۸ فی صد مسلم آبادی ہے جب کہ ۲۲ فی صد ہندو ہیں۔ اس کے بر عکس کراول نگر میں ۸۸ فی صد ہندو اور ۱۰ فی صد مسلم ہیں۔ کجھوری خاص کراول نگر کے چند مسلم اکثریتی محلات میں سے ہے اور حلقہ میں تشدد سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ ہے۔ کراول نگر ۱۹۹۳ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ مصطفیٰ باد کے نمائندے کانگریس اور بی جے پی سے رہے ہیں اور اس وقت عام آدمی پارٹی نمائندگی کر رہی ہے۔ ۲۰۱۵ میں کپِل مِشرا کی کراول نگر سے بحیثیت عام آدمی پارٹی امیدوار جیت ہوئی تھی۔ ۲۰۱۹ میں پارٹی مخالف سرگرمیوں کی بنا پر پارٹی سے نکالے جانے پر بی جے پی کی رکنیت اختیار کی تھی۔ مشرا نے ۲۳ فروری کو پاس کے علاقہ بابرپور میں ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کی وجہ سے شمال مشرقی دہلی کے تشدد کے لئے اسے ذمہ دار کہا گیا ہے۔ کھجوری خاص کے بہت سے مسلم باشندوں نے بتایا کہ ۲۰۱۵ میں انھوں نے مِشرا کو ہی ووٹ دیا تھا اور انھیں یہ توقع نہیں تھی کہ محض پارٹی بدلنے کی وجہ سے وہ ان کی دشمنی پر اتر آئے گا۔
۲۸ اور ۲۹ فروری کو میں متاثر ہندو اور مسلم محلوں میں گیا جس میں کھجوری خاص، بھجن پورا، چاند باغ، بھگیرتھ وہار، مصطفیٰ باد، مونگا نگر اور چندو نگر شامل ہیں۔ مصطفیٰ باد میں میری ملاقات انعام علی سے ہوئی جو کاروباری آدمی ہیں۔ ان کے علاوہ تقریباً ایک درجن اور سرکردہ افراد سے ملاقات ہوئی جن میں مارکیٹ ایسوسییشن کے صدر شرافت، سماجی کارکن انیس انصاری، اور وکالت کا پیشا کرنے والے محمد اکرام شامل ہیں۔ یہ لوگ کھجوری خاص کی حاج شاہ شبیر صاحب مسجد کے سامنے واقع ایک دوست کے گھر میں اکٹھا ہوئے تھے۔ یہ مسجد عموماً جامع مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ گھر گلی نمبر ۲، مونگا نگر میں واقع ہے۔
ان حضرات نے مجھے بتایا کہ تین دن تک مصطفیٰ باد کے محلوں پر بشمولیت کھجوری خاص کے جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے بلوائیں کا راج تھا۔ ۲۴ فروری سے ۲۶ فروری تک چن چن کر مسلمانوں کے گھر، دکانیں، گاڑیاں اور مساجد کو نظرِ آتش کیا گیا۔ سب کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہلی پولیس کے سپاہیوں نے بلوائیوں کی پتھر اکٹھا کرنے میں مدد کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس نے خود بھی مسلمانوں کے گھروں پر پتھربازی کی۔ ہندو بلوائیوں نے الہند ہسپتال کے سارے راستے بھی بند کر دیے تھے۔ یہ ہسپتال نئے مصطفیٰ باد میں واقع ہے اور زخمیوں کے علاج میں پیش پیش تھا۔ آخر کار دہلی ہائی کورٹ نے آدھی رات کی شنوائی کے بعد ۲۶ فروری کو دہلی پولیس کو حکم دیا کہ ناکہ بندی توڑیں اور ہسپتال سے آنے جانے والی ایمبولینس کو حفاظت فراہم کریں۔
سب کا کہنا تھا کہ ہندو بلوائیوں کو جو بھی مسلمان دکھا اس پر ٹوٹ پڑے۔ انصاری کے اندازہ کے مطابق مصطفیٰ باد حلقہ سے کم از کم ۵۰۰ افراد ابھی لا پتہ ہیں۔ گمان ہے کہ ان میں سے بہت سے جلا دئے گئے ہوں گے یا قتل کر دیے گئے ہوں گے۔ انصاری کا کہنا ہے کہ بہت سی گلیوں سے مسلمان غائب ہیں۔ لوگ فرض کر رہے ہیں کہ کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی ریلیف کیمپ میں پناہ لی ہوگی۔ مگر ایسے لوگوں کی کوئی معتبر گنتی ابھی معلوم نہیں ہے۔ آے دن پتہ چلتا ہے نالوں سے لاشیں برامد ہوئی ہیں۔ ان لوگوں پر کیا بیتی یہ ابھی تک نہیں معلوم۔
دل دہلانے والے قصوں میں سے ایک انعام کے بھتیجہ محمد محسن کا ہے۔ ۲۵ فروری کو ۲۹ سالہ محسن اتر پردیش کے شہر ہاپوڑ میں تھا جو دہلی سے ۶۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ محسن کی شادی کو دو مہینہ گزرے تھے اور کاروباری سلسلہ میں ہاپوڑ گیا تھا۔ صبح ناشتہ کرکے محسن کھجوری خاص میں واقع اپنے گھر سے نکلا اور اپنی گاڑی سے ہاپوڑ گیا۔ انعام نے بتایا کہ محسن کو اس روز کے ہندو بلوائیوں کے حملہ کا علم نہیں تھا۔ وہ خود اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دن بھر چھپا رہااور انھیں کوئی خبر نہیں تھی کہ محسن کہاں تک پہنچا۔ انعام کا گھر محسن کے گھر کے پاس ہی واقع تھا۔ دونوں خاندان پورے دن چھپے رہے۔ جب ۲۶ فروری کی صبح کو پولیس کے آنے کے بعد وہ نکلے تب بھی محسن کی کوئی خبر نہیں تھی۔
محسن کو تلاش کرنے انعام اور محسن کے گھر والے نکلے اور پاس کے محلہ کھجوری پشتا پہنچےجہاں انھیں محسن کی گاڑی ملی۔ یہ پوری طرح سے جل چکی تھی اور اس کے پاس ایک لاش تھی جو اتنی جھلس چکی تھی کہ شناخت ناممکن تھی۔ انعام نے بتایا کہ اگلے چار روز تک وہ لاش کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لئے آٹھ کلومیٹر دور واقع گرو تیغ بہادر ہسپتال اور دیال پور پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتا رہا۔
انعام نے بتایا کہ” فورینسک سینٹر(Forensic Science Laboratory, Nangloi) والوں کا کہنا تھا کہ انویسٹیگیٹنگ آفیسر کی اجازت کے بغیر وہ ڈی این اے جانچ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ IO کی موجودگی ضروری ہے۔ تین دن سے میں درخواست کر رہا ہوں مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ میرے بھتیجہ کی لاش ابھی بھی ہسپتال میں ہی ہے۔” شمال مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمیشنر وید پرکاش سوریا کا کہنا ہے کہ ڈی این اے جانچ میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور سب کچھ standard operating procedure کے مطابق ہو رہا ہے۔
محلات کا جائزہ لے کر میں نے تصدیق کی کہ لوگوں کے بتانے کے مطابق مسلمانوں کی جائداد کو چن چن کر تہس نہس کر دیا گیا تھا۔ دیال پور روڈ سے کراول نگر روڈ کے قدم قدم پر واضح تھا کہ صرف مسلمانوں کے مکان ودوکان جلائے گئے تھے۔ ایسے بھی چند ہندووں کے گھر اور دکانیں تھیں جن کو کچھ نقصان پہنچا تھا مگر ان کا تناسب نا کے برابر تھا۔
کھجوری خاص کی گلی نمبر ۴ اور ۲۹ میں کم از کم مسلمانوں کے ۳۰ گھروں اور فاروقی مسجد کوجلایا گیا۔ گلی کے باشندوں کے مطابق تشدد رات کے ساڑھے نو بجے شروع ہوا اور ریپڈ ایکشن فورس رات کے ساڑھے تین بجے آئی۔ ان چھہ گھنٹوں میں اکثر آبادی چھتیں پھلانگ کر یہاں سے بھاگی۔
مقیمین نے بلوائیوں کے ہاتھوں، جن میں ان کے پڑوسی بھی شامل تھے، قرب از موت پہنچانے والے حملہ اور تذلیل وتحقیر کی روداد سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا سرکار پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ انھوں نے دیکھا کہ گلیوں میں موجود پولیس نے بلوائیوں کی آگزنی کے سامنے منہ موڑ لیا۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ پولیسن والے خود بھی حملہ کرنے میں شامل تھے۔ کھجوری خاص کے ساکن محمد امجد کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں نے بھی دیکھ لیا کہ ملک کی پولیس ان کے لئے نہیں ہے۔ امجد کا گھر بھی تشدد میں ضائع ہو گیا ہے۔
اس گلی میں ہندووں کے گھر بھی تھے مگر وہ بالکل محفوظ رہے۔ ۲۸ فروری کو یہ گلی خالی تھی اور مرکزی پولیس اس کے داخلہ پر تعینات تھی۔ انھوں نے مجھے اندر جانے دیا اور مجھے صرف ایک باشندہ ملا۔ محمد شاہد جلی ہوئی مسجد میں کھڑے ہوئے رو رہے تھے۔ وہ مسجد کے متولی تھے اور بیوی بچوں کے ساتھ مسجد میں ہی رہتے تھے۔ "بھائی، مسجد جلا دی۔ قرآن بھی جلا دیا۔” مجھے جلے ہوئے اوراق دکھائے۔ انھوں نے بتایا کہ دو تین سو آدمی جے شری رام کے نعرہ لگاتے ہوئے گلی میں آئے اور گھروں کو جلانے لگے۔
انھوں نے بتایا کہ ان سے بھیک مانگی کہ گھروں کو جلا دو مگر مسجد کو چھوڑ دو مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔ شاہد کے مطابق اس وقت مسجد میں تقریباً ۸۰ مسلمان تھے۔ جب بھیڑ وہاں تک پہنچ گئی تو کچھ بغل کے نالہ میں کود گئے اور کچھ دوسرے گھروں کی چھت پر کود گئے۔ شاہد، ان کی اہلیہ اور دو بچے جن کی عمر سات برس سے زیادہ نہیں ہے، دوسری منزل پر ہی چھپے رہے یہاں تک کہ ان کے ایک ہندو دوست دیویندر سنگھ نے آکر انھیں بچایا۔ تب تک ایک بچہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ سب کے ہاتھ اور پیٹھ جگہ جگہ جل گئے تھے۔ شاہد خوش قسمت تھے ورنہ دوسرے باشندوں نے پولیس اور ہندو پڑوسیوں کو اپنے خلاف پایا۔
۲۹ فروری کو جب پولیس کی حفاظت میں گلی کے کچھ لوگ واپس آئے تو میں نے ان سے ملاقات کی۔ مسجد کے بغل میں رہنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ وہ ۴۵ سال سے وہیں مقیم تھے اور ہندو پڑوسیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ مگر ۲۵ فروری کی رات کو ایسے لوگوں کو فسادات میں شریک پایا جنھیں وہ پہچانتے ہیں۔ جب تباہی شروع ہوئی تو وہ گھر کی زمینی منزل پر تھے۔ آگ لگنے پر وہ چھت پر بھاگے۔ انھوں نے دیکھا کہ ہندو پڑوسیوں کے گھروں پر ہاتھوں میں پیٹرول بم لئے بھیڑ کھڑی ہے۔ مسلمانوں کی چھتوں پر پتھراو ہو رہا تھا۔ "مگر نیچے رکنا بھی ناممکن تھا۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر بخشے جانے کی بھیک مانگی۔ تبھی ایک بلوائی نے نقاب ہٹا کر میرا نام لیا۔ میں اسے پہچانتا نہیں مگر خیال آیا کہ مجھے پہچان رہا ہے تو چھوڑ دے گا۔ مگر تبھی اس نے میری طرف پیٹرول بم پھینک دیا۔” رات کو ساڑھے تین کے آس پاس آر اے ایف نے عالم کو بچایا۔
گلی کے ایک اور ساکن محمد خطیب اللہ کا تجربہ بھی اس سے ملتا جلتا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہندو بھیڑ ان کے ہندو پڑوسی کے گھر سے پتھر برسا رہی تھی جس کے ساتھ وہ تہوار منایا کرتے تھے۔ "میں جانتا ہوں کہ بھیڑ باہر سے آئی ہے مگر ہم پر حملہ کے لئے آپ اپنی چھت کیسے دے سکتے ہیں؟” انھوں نے بتایا کہ اگلے مہینہ ان کی بھتیجی کی شادی طے پائی تھی اور جمع کیا ہوا سارا زیور پیسہ آگ میں ضائع ہو گیا۔
۲۰ سالہ سلیم کی بہن کی شادی بھی اگلے مہینہ ہونی تھی۔ محنت مشْقت سے اکٹھا کیا ہوا سب کچھ ضائع ہو گیا۔ سلیم نے بتایا کہ چھت پر اس نے رحم کی بھیک مانگی۔ "بھائی گھر میں شادی ہے۔ مت جلاو، سب برباد ہو جائیگا۔” ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ سب کچھ برباد کرنے کا حکم ملا ہے۔ سلیم نے بتایا کہ گھر جلنے سے پہلے بھیڑ نے اس کے والد کو پکڑ لیا تھا اور انھیں جلانے والے تھے مگر سلیم کے ایک دوست نے انھیں بچا لیا۔
ہندو محلوں کا بیانیہ اس کے برعکس تھا۔ ہندووں کی نظر میں وہ خود مسلمانوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس کی بنیاد ٹی وی چینل تھے خاص طور سے زی ٹی وی، ریپبلیک ٹی وی اور سدرشن ٹی وی۔ ہندو باشندوں کا کہنا تھا کہ ہندووں کا بھاری نقصان ہوا تھا اور یہ سب طاہر حسین کا کیا دھرا تھا۔ اندازہ لگا کہ ان خیالات کو فروغ دینے میں زی ٹی وی، ریپبلیک ٹی وی اور سدرشن ٹی وی کا اہم کردار تھا۔ مونگا نگر میں مقیم دسویں جماعت میں پڑھنے والے سچِن کشیپ کے مطابق یہاں صرف ہندووں کا قتل ہوا تھا۔ مگر مسلم باشندوں کے بر عکس جنھوں نے لا پتہ لوگوں کے نام اور پتہ کی تفصیل بتائی تھی، ہندو باشندے انکِت شرما کے علاوہ کوئی نام نہیں بتا سکے۔ اس کے باوجود انھیں یقین تھا کہ مصطفیٰ باد کے مقتولین میں زیادہ تر ہندو ہی تھے۔
بہت سے ہندو باشندے زی نیوز کے سدھیر چودھری کی زبان بول رہے تھے۔ ۲۷ فروری کو چودھری نے کھجوری خاص پر پروگرام کیا تھا جس میں طاہر حسین کی "فسادی فیکٹری” کا "ڈی این اے ٹیسٹ” کیا گیا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ حسین کے گھر میں ایک عورت ماری گئی ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں یہ کیسے پتہ چلا تو انھوں نے زی نیوز یا سدرشن ٹی وی کا حوالہ دیا۔ حسین کے گھر میں عورت کے قتل کا دعوہ سدرشن ٹی وی پر کیا گیا تھا اور پھر دوسرے چینلوں پر بھی دہرایا گیا تھا مثلاً ABP کی ویب سائٹ صرف نیوز پر۔ Boomlive نامی ویب سائٹ نے اس دعوہ کی تحقیق کر کے جھوٹا قرار دیا تھا۔ سدرشن ٹی وی کا مالک سریش چوہانکے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا میمبر ہے۔ جتنے بھی ہندو باشندوں سے بات ہوئی سب کا کہنا تھا کہ حسین کا گھر "فسادی فیکٹری” تھا۔ سب کو یقین تھا کہ حسین ہی تشدد کا سرغنہ تھا اور اس نے ہندووں کے قتل عام کے منصوبے بنائے تھے۔
ان میں سے کوئی بھی نہ تو کبھی حسین کے گھر گیا تھا نہ ہی کبھی اس سے ملا تھا اور نہ ہی انھوں نے وہ ویڈیو دیکھے تھے جو حسین نے ۲۴ فروری کی شام کو آج تک چینل کو بھیجے تھے جس میں وہ بلڈنگ کے باہر بھیڑ سے بچائے جانے کی التجا کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو آج تک نے نشر بھی کیا تھا۔ حسین کے متعلق معلومات کے ان لوگوں کے ذرائع صرف زی نیوز یا سدرشن ٹی وی جیسے چینل ہی تھے۔قابل غور ہے کہ پولیس کی تفتیش شروع ہونے سے قبل ہی یہ چینل حسین کے گھر پہنچ چکے تھے اور اسے سرغنہ قرار دے چکے تھے۔
مسلمان باشندوں کا ماننا تھا کہ مسلم مخالف بیانیہ کے فروغ کے لئے حسین کو بے جا پھنسایا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن انصاری نے کہا کہ "طاہر حسین ۲۴ فروری کو اپنی چھت پر کھڑا مدد مانگ رہا تھا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اور اسی شام اس کو پولیس بچا کر لے گئی۔ اگر حسین سرغنہ تھا تو پھر بھاری تعداد میں مسلمانوں کے گھر اور دکان کیسے جلے؟”
مونگا نگر میں نوجوان گرجروں کے بیچ میں ایک ادھیڑ عمر مسلمان نے، جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتا تھا، حسین کا دفاع کیا۔ "اگر حسین ہی فساد کا سرغنہ تھا تو اس کا اپنا گھر کیسے جلا؟” مونگا نگر کے ایک گرجر، پروین کمار نے جواب دیا کہ اس نے خود ہی اپنا گھر جلایا۔ مسلمان نے سوال کیا کہ کوئی اپنا گھر کیوں جلائے گا؟ اس پر گرجروں نے چلا کر اسے چپ کرا دیا اور کہا کہ وہ اندھا ہے جو اسے ٹی وی چینلوں پر دکھائے گئے حسین کی چھت پر پیٹرول بم نہیں نظر آرہے۔ ایک گرجر نے بڑے وثوق سے کہا "کیمرا جھوٹ نہیں بولتا۔”
مسلمان باشندوں کا ماننا تھا کہ حسین ۲۴ فروری کو اپنا گھر چھوڑ چکا تھا جب کہ شرما کا قتل ۲۵ فروری کو ہوا۔ مارکیٹ ایسوسییشن کے صدر شرافت کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلوں پر حسین کی چھت پر جو پیٹرول بم اور پتھروں کے انبار دکھائے گئے ہیں وہ ویڈیو ۲۵ فروری کا ہے جب کہ اس سے قبل ہی حسین اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ "دیکھئے، یہاں سیکڑوں کی بھیڑ آ رہی تھی تو لوگ کیا کرتے؟ تو وہ چھت پر گئے۔ تب جا کر بھیڑ کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ بس بھیڑ کو روک ہی پائے، وہ بھی اپنی جان بچانے کے لئے۔ چھت پر یہی نظر آرہا ہے۔”
مونگا نگر، کھجوری خاص اور مصطفیٰ باد کے جن ہندووں سے بات ہوئی ان میں اکثر کا کہنا تھا کہ حسین کے گھر سے نکلے گروہ نے شرما کو پکڑ کر مار ڈالا۔ مگر میں نے بیس سے زائد ہندووں سے پوچھا اور ہر ایک نے یہ بات کسی دوسرے سے سنی تھی اور انھوں نے کسی اور سے۔ سب کو یہی بتایا گیا تھا کہ شرما کو اس کے دو قریبی دوستوں کے ساتھ بھیڑ نے پکڑا تھا، وہ دونوں بھاگنے میں کامیاب ہو گئے جب کہ انکِت مارا گیا۔ حسین کے گھر کے سامنے رہنے والے منیش کمار کا کہنا تھا کہ اس نے خود تو نہیں دیکھا تھا مگر سب کو یقین تھا کہ یہی حقیقت ہے۔ مونگا نگر کے منوج کمار نے بتایا کہ شرما سے جان پہچان تھی اور وہ ان کی ٹائر اور ٹیوب کی دکان پر اکثر آیا کرتا تھا۔ انھوں نے بھی یہی کہانی سنائی اور بتایا کہ شرما کے قریبی دوستوں سے یہ بات سنی ہے، مگر کسی کا نام لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں بتا سکا کہ یہ دونوں لوگ کون ہیں؟ کسی کو بھی شرما کی موت سے پہلے تک یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ اینٹیلیجینس بیورو میں کام کرتا تھا۔
کھجوری خاص کے بہت سے باشندوں نے بتایا کہ تباہی مچانے والے ہندو بلوائیوں کے ساتھ ایسے لوگ تھے جو "خاکی شرٹ، بولیٹ پروف جیکٹ، پولیس ہیلمیٹ اور نیلی جینس” میں ملبوس تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سفید لاٹھیاں تھیں جیسا کہ پولیس کے پاس ہوتی ہیں۔ کھجوری خاص کے محمد امجد، جن کا گھر جل گیا، کا کہنا تھا "پہلے تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ہماری مدد کرنے آئے ہیں یا بھیڑ کے ساتھ ہیں۔ جب ہم پر گولیاں چلانا اور آگ لگانا شروع کیا تب واضح ہوا کہ ان کے ساتھ ہیں۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بھیڑ کا حصہ تھے تو انھیں پولیس یونیفارم کہاں سے ملے؟”
یہاں کے مسلم باشندوں نے مجھے ویڈیو بھی دکھائے جس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ تین دن کے تشدد کے دوران انھوں نے خود ریکارڈ کئے تھے۔ ویڈیو میں ویسے ہی کپڑوں میں ملبوس لوگ تھے جیسا کہ بتایا گیا تھا اور وہ مسلمانوں پر گولیاں چلا رہے تھے۔ لوگوں کا بتانا تھا کہ یونیفارم میں ملبوس لوگوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔ تین دنوں تک ان کا راج رہا، یہ باقی بھیڑ کی پشت پناہی کرتے رہے اور بارہا خود شریک بھی ہوئے۔ مصطفیٰ باد کے جتنے بھی مسلمانوں سے بات ہوئی سب نے یونیفارم والوں کو دیکھنے کا دعوہ کیا۔ ان کے خیال میں یہ کسی ہندو مسلح جماعت کے افراد رہے ہوں گے۔
اس سے ملتا جلتا واقعہ دسمبر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں طلبہ کے احتجاجات کے دوران پیش آیا تھا۔ ۱۵ دسمبر کو پولیس سے مار کھاتے ہوئے طلبہ کی ایک فوٹو وائرل ہوئی تھی۔ اس میں ایک شخص پولیس کا ساتھ دیتا ہوا طالبات کو لاٹھی مارتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کے پھیلنے کے بعد سوال اٹھا تھا کہ کیا یہ کسی شہری مسلح جماعت کا فرد ہے؟ پولیس کے مطابق وہ گاڑی چوری کی روک تھام والے دستہ کا فرد تھا جسے احتجاجات کو دبانے کے لئے بلایا گیا تھا۔
تیس ہزاری کورٹ کے وکیل محمد اکرام نے بتایا کہ تشدد ۲۳ فروری کی رات کو شروع ہوا جب جے شری رام کا نعرہ لگاتی ہوئی ایک بھیڑ نے چندو نگر میں ایک ہوٹل اور ایک صیدلیہ کو نظرِ آتش کیا۔ پھر چندو نگر کی پوری مسلم بستی کو آگ لگا دی۔ اکرام کے مطابق مسلمانوں کو پولیس پر ذرہ برابر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے مقیمین نے گھروں کی تباہی، مقتول اور لا پتہ لوگوں سے متعلق شکایت درج کرانے سے انکار کر دیا۔ جتنے مسلمانوں سے بات ہوئی، سب نے یہی بات دہرائی، کہ انھیں نہ پولیس پر بھروسہ ہے نہ ہی انصاف کی کوئی امید۔ سب کا کہنا تھا کہ پولیس انھیں کے ساتھ تھی، یعنی ہندو بلوائیوں کے ساتھ۔ اکرام نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو شکایت کے لئے بمشکل راضی کر کے جب وہ مقامی پولیس اسٹیشن لے گئے تو پولیس نے شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ آن لائن شکایت درج کریں جس کے لئے آدھار، پین اور دیگر کاغذات کی تفصیل درکار ہوتی ہے۔
شمال مشرقی دہلی کے ڈی سی پی سوریا نے سارے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے آدمیوں نے بہت سی جانیں بچائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود میر پور چوک پر موجود تھے جو کھجوری خاص سے ۴۰۰ میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ "میں وہاں پر موجود تھا۔ میں نے اور میرے عملہ نے ۳۰۰ سے ۴۰۰ کے بیچ مسلمانوں کو بچایا۔ ہم انھیں حفاظت کے ساتھ نکال لائے۔ بھیڑ نہایت جارحانہ تھی اس کے باوجود ہم انھیں بچا لائے۔ یہ غلط ہے کہ ہم بھیڑ کے ساتھ پتھر بازی کر رہے تھے۔ جب کسی مسلمان بھیڑ نے یا کسی اور بھیڑ نے پولیس پر حملہ کیا صرف تب ہی پولیس نے جواب دیا۔” ان کا کہنا تھا کہ مقیمین خود اس کی گواہی دیں گے کہ پولیس نے ان کی مدد کی ہے اور "چند لوگوں کے الزامات کو سب پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ یہ بالکل غلط ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ نوعیت اختیار کرنے پر انھوں نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور جب بھیڑ زیادہ جارحانہ رویہ دکھانے لگی تب ہی پولیس کو مجبوراً زور کا استعمال کرنا پڑا۔
مسلمانوں کے پولیس اور میڈیا پر عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ کئی نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ ان کے بیان میں کانٹ چھانٹ کر کے میں انھیں مجرم کے طور پر پیش کروں گا چونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنا نام بتانے سے منع کیا مگر کہا کہ انھوں نے پاکستان سے ۱۹۶۵ کی جنگ اور ایمرجینسی سب دیکھا ہے۔ اس کے آگے کچھ اور کہنے سے معذرت کی مگر ایک شعر سنا کر چل دیے:
مجھ کو لفظِ مکروہ سمجھ کر ہٹانے والے کل کتابوں سے مری ہی آواز آئے گی
(اصل رپورٹ کی لنک:https://caravanmagazine.in/conflict/media-focus-ankit-sharma-tahir-hussain-subsumed-brutalisation-muslims-khajoori-khas)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)