لکھنؤ:اتر پردیش کے اوریا ضلع میں ہفتے کی صبح ہوئے سڑک حادثہ میں 24 مزدوروں کی موت ہو گئی۔ 36 افراد زخمی ہو گئے۔اس سڑک حادثے کو لے کر سیاسی جماعتوں نے حکومت کوگھیراہے۔ایک طرف جہاں سیاستدان اس واقعہ پر افسوس جتا رہے ہیں وہیں اترپردیش حکومت کواس واقعے کے لیے مجرم بھی ٹھہرا رہے ہیں۔حادثے کو لے کر یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو، سابق وزیراعلیٰ مایاوتی اور کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی ٹوٹ کرکے یوپی کی یوگی حکومت کو جم کر نشانہ بنایاہے۔اکھلیش یادو نے اس واقعہ کے بعدکہاہے کہ خاموشی اختیار کرنے والے لوگ اور ان کے حامی دیکھیں کب تک اس غفلت کومناسب ٹھہراتے ہیں۔ایسے حادثے موت نہیں قتل ہیں۔بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے پورے نظام پر سوال کھڑے کیے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ کل ہی وزیراعلیٰ نے یوپی میں آنے یا ریاست سے گزرنے والے مزدوروں کے کھانے، آنے جانے اور ٹھہرنے کے مناسب انتظامات کے لیے حکام کو ہدایت کی ہے۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکام کی طرف سے وزیر اعلیٰ کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑا حادثہ ہوا۔میں وزیراعلیٰ سے ان افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں، جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیاہے۔ اس حادثے میں ہلاک اور زخمی ہوئے لوگوں کے خاندانوں کو مالی مدد دی جانی چاہیے۔میں سوگوار خاندانوں کے تئیں تعزیت کا اظہار کرتی ہوں۔
Yougi
لکھنؤ:لاک ڈاؤن کے درمیان پڑ رہے تہوارپر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ آج وائرس جیسی وباسے خودکواورلوگوں کومحفوظ رکھنااہم ہے۔ اس کے لیے مندرمسجد میں جانے کی بجائے عبادت اور نماز گھرمیں اداکی جاسکتی ہے۔سی ایم نے کہاہے کہ ہم نے تمام مذہبی رہنماؤں سے بات کی ہے۔ ان سارے لوگوں نے کہاتھاکہ اس وبا سے بچنا بھی ہے اورلوگوں کومحفوظ بھی کرناہے۔ہم عام طورپرپوجا کے لیے مندر اور نمازکے لیے مسجد جاتے ہیں، لیکن پوجانمازگھرسے بھی اداکی جاسکتی ہے۔ آج جان محفوظ کرناسب سے اہم ہے۔انہوں نے کہاہے کہ نوراتری میں مندرکی بجائے لوگوں نے گھرسے پوجا پاٹھ اور تمام مذہبی رسوم اداکیے تھے۔ ایسے میں ہی ہم نے رمضان کو لے کر بھی کہاہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں سے روزہ نمازکریں۔ اس دوران کوئی عوامی کام نہیں کیے جانے چاہئیں کیونکہ ہمیں سوشل ڈسٹینسنگ پر مکمل طورپرعمل پیراہوناہے۔جب کہ چھٹ پوجااوررام نومی پرمختلف جگہوں پرہجوم ہوالیکن اب تک ان پرکوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔اس پرمیڈیااوروزیراعلیٰ خاموش رہے ہیں۔
یوگی نے کہا، سب کوآئیسولیشن میں رکھاجائے،انتظامی لاپرواہی سامنے آئی
لکھنؤ:اترپردیش میں لاک ڈاؤن کا آج 5 واں دن ہے۔ ریاست میں رہنے والے بیشتر افراد لاک ڈاؤن کی پیروی کررہے ہیں،لیکن صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب دہلی سمیت دیگر ریاستوں کے مزدوریہاں پہنچے۔ لکھنو میں ہزاروں افرادچارباغ اور قیصرباغ بس اسٹینڈ پہنچے۔ یہاں مسافروں کا کوئی طبی معائنہ نہیں ہوا ، نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ بنایا گیا۔یہ بڑی انتظامی لاپرواہی ہوئی ہے۔ضلع انتظامیہ نے 200 سے زیادہ بسوں سے ان کے آبائی شہر جانے کا انتظام کیا۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاہے کہ دیگر ریاستوں کے ایک لاکھ سے زیادہ افراد 3 دن میں ریاست آئے۔ ان تمام لوگوں کے نام ، پتے ، فون نمبروں کی فہرست تیار کرکے ضلعی انتظامیہ کوفراہم کی جانی چاہیے۔ ان سب کوآئیسولیشن پر رکھناضروری ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوئیڈا میں انفیکشن کے معاملات میں صحت اور حفظان صحت کو مستحکم کرنے کی ہدایت کی۔ یہاں پر پرنسپل سکریٹری ہوم اونیش اوستی نے کہاہے کہ ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز پہنچنے والے کارکنوں کے مناسب انتظامات کریں۔ گاؤں پہنچنے پر ، ان کی فہرست بنائی جانی چاہیے اور جن کو الگ تھلگ رکھنے کی ضرورت ہے ،
لاک ڈاؤن کے چند گھنٹوں بعد سی ایم کے ایودھیا دورے پر کانگریس نے سوال اٹھائے
نئی دہلی: پی ایم مودی کی جانب سے کیے گئے21 دن کے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ایودھیا میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پہنچنے پرکانگریس نے سوال اٹھائے ہیں۔اترپردیش کانگریس کے صدر اجے کمار نے ٹوئیٹرپرکہاہے کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ جی نہیں مانتے، بھیڑکے ساتھ پوجاکر رہے ہیں توایسے میں کس طرح اتر پردیش کے عوام وزیر اعظم کی بات مانیں؟ پورے ہندوستان میں بلااستتثناء تمام مذہبی مقامات کوبندکرنے کاحکم ہواہے لیکن اجودھیامیں مذہبی سرگرمی ہوئی ۔آپ کو بتا دیں کہ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے رام کو ٹن شیڈ سے نکال کر فائبرسے بنے عارضی مندر میں رکھاہے ۔اس دوران انہوں نے پوجابھی کی ہے اور ان کے ساتھ سیکورٹی اہلکاراورباقی بہت سے لوگ تھے۔سی ایم یوگی نے کہاہے کہ رام للا اس عارضی مندر میں رہیں گے جب تک مندر کی تعمیرنہیں ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مندر کی تعمیرکے لیے 11 لاکھ کا چیک بھی دیا۔اس پورے پروگرام پر سوال اٹھاتے ہوئے اترپردیش کانگریس کے صدر اجے کمار للونے لکھاہے کہ نوراتر ی کا پہلا دن ہے۔زیارت کے لیے جانا میری بھی دلی خواہش ہے لیکن میں نے وزیر اعظم کی بات مانی۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ جی نہیں مانتے، بھیڑ کے ساتھ فلسفہ کر رہے ہیں تو ایسے میں کس طرح اتر پردیش کے عوام وزیر اعظم کی بات مانیں؟
اترپردیش میں یوگی حکومت نے آتنک مچا رکھا ہے اور پورے زوروشور سے مسلم تنظیموں اور اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سی اے اے ، این پی آر، اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب پر عیاں ہے، کس طرح یوپی پولیس نے حکومت کی شہ پر لوگوں پر قہر ڈھایا اور ان پر گولیاں برسائیں یہ کسی سے مخفی نہیں، کس طرح رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس کر پوڑھوں بچوں اور عورتوں کو نہ صرف پیٹا گیا بلکہ ان کے بیش قیمتی مال وزر کو بھی لوٹا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس احتجاج میں لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ، اس کے باوجود طرفہ تماشہ دیکھئے کہ جگہ جگہ چوراہوں اور سڑکوں پر فوٹو کے ساتھ ان احتجاجیوں کے ہی ہورڈنگ لگائے گئے جن کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی نذرِ زنداں بھی کیا گیا اور جیل میں انہی کو پیٹا گیا اور ان کے ساتھ تشدد برتا گیا، نقصانات کی بھرپائی کے لئے حکومت اس قدر جلد بازی میں دکھی کہ مُردوں تک کو بھی نوٹس تھما دیا گیا۔
سی اے اے جیسے کالا قانون کی مخالفت میں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پہ بیٹھی خواتین پر بھی ہر ظلم روا رکھا گیا ، حکومت نے اپنی طرف سے پوری زور زبردستی کی کہ گھنٹہ گھر کے احتجاج کو ختم کردیا جائے ، اس ظالم حکومت نے کئی خواتین پر فرضی مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل بھی بھیجا لیکن وہ ان ماؤں اور بہنوں کا حوصلہ توڑنے میں مکمل ناکام رہی اور انہوں نے حکومت کو بتا دیا کہ:
چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے ہوا کا رخ بدلنا آگیا ہے
کہاں تک آگ برسائے گا سورج ہمیں شعلوں پہ چلنا آگیا ہے
ڈاکٹر کفیل کو ضمانت ملنے کے بعد ان پر این ایس اے لگا کر تین مہینے کے لئے واپس جیل بھیج دیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کو بے دردی سے مارا گیا اور پولیس محکمہ کو مکمل چھوٹ دی گئی کہ وہ جیسا چاہیں ظلم روا رکھیں، پولیس نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں، جس سے سیکڑوں طلبازخمی ہوگئے اور اس میں سے کچھ طلبازندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔
حکومت کے ظلم و زیادتی کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اجے بشٹ حکومت نے نیپال سے متصل اتر پردیش کے سرحدی اضلاع بہرائچ، شراوستی، سدھارتھ نگر، بلرامپور، سنت کبیر نگر، مہراج گنج اور گورکھپور کی ۲۵۷ مساجد و مدارس کی لسٹ ٹیرر فنڈنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں کو دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پوری تفصیل کھنگال کر یہ پتہ لگایا جائے کہ ان سارے اداروں اور مساجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں ؟ اور کون کون اس میں فنڈنگ کر رہا ہے ؟ یا کن کن ملکوں سے اس میں پیسہ آرہا ہے ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان اداروں کی ایکٹویٹیز کیا ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ فرمان اس کی مسلم دشمنی کو درشاتا ہے، یاد رہے یہ وہی یوگی ہے جس نے کہا تھا کہ مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبرستان سے نکال کر ان کے ساتھ ریپ کیا جائے، آپ اس کے اس بیان سے اس کی ذہنی خباثت کا اندازہ لگاسکتے ہیں،جس کے اندر اس حد تک مسلمانوں سے بغض اور عداوت موجود ہو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
وقت رہتے اگر ملی تنظیموں اور دیگر جمعیتوں کے ذمے داران نے اس پر دھیان نہیں دیا اور کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ان اداروں اور مساجد کے ذمے داران کے ساتھ ساتھ ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور ان میں مالی تعاون پیش کرنے والے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے اور ان پر ایسے ایسے مقدمات ٹھونک دیے جائیں گے کہ ان کی بقیہ زندگی زندان میں ہی گزر جائےگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی میں نفرت آمیزتشہیرکرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کی بولتی بند،سوال پرہاتھ جوڑکر نکل گئے
وارانسی:دہلی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اشتعال انگیزاورنفرت آمیزتشہیرکی بعدمیں انھیں نوٹس بھی دیاگیالیکن جب ان کی ایک نہ چلی اوربی جے پی پرپھرجھاڑوچل گئی تواب ان کی بولتی بندہے۔دو روزہ دورے پر وارانسی پہنچے وزیراعلیٰ یوگی منگل کو صبح سنکٹ موچن مندر پہنچ گئے۔یہاں انہوں نے پوجا ارچنا کی۔منگل کو دہلی انتخابات کے نتائج آئے، اس میں آپ کو اقتدار مل گیا۔دہلی انتخابات میں سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی خوب محنت کی تھی۔انتخابی نتائج پر ان سے سوال پوچھا گیا تو وہ ہاتھ جوڑکر نکل گئے۔سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے دہلی انتخابات میں یکم فروری سے 4 فروری کے درمیان 12 ریلیاں کی تھیں۔اس دوران انہوں نے شاہین باغ اور جامعہ نگر میں بھی ریلی کی تھی۔اس کے علاوہ کراول نگر، روہنی، بدرپور، وکاس پوری،دوارکا،پٹپڑگنج اور شاہدرہ میں بھی ریلیوں سے خطاب کیا تھا۔سی ایم یوگی دہلی انتخابات میں اسٹارپرچارک کے طور پرشامل تھے۔
نئی دہلی:کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بدھ کو الزام لگایا کہ بی جے پی ریاست کے جرائم سے پاک ہونے کا جھوٹا راگ الاپ رہی ہے۔انہوں ٹویٹ کرکے کہاکہ اتر پردیش کے وزیر اعلی اور وزراء کا اگر بیان بازی سے من بھر گیا ہو تو ذرا زمینی حقیقت پر توجہ دے لیں۔ پرینکا نے کہاکہ پہلے رائے بریلی میں ایک لڑکی کو قتل کرکے جلا دیا گیا اور اب اعظم گڑھ میں ایک لڑکی کو ریپ کر اسے جلا دیا گیا۔یہ زمینی حقیقت ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی اترپردیش کے جرائم سے ہونے کا جھوٹا راگ الاپ رہی ہے۔
غور سے تصویروں کودیکھیے اور کل کا نتیش جی کا بھاشن سنیے،مٹی میں ملنے والاوعدہ یادکیجیے اور دہلی کااسٹیج دیکھیے،آپ کو بے چارے کی بے چارگی پر ترس نہ آگیاہو توبتاییے-بہارکی ڈبل انجن سرکارکے مکھیانے دہلی میں ڈبل انجن سرکار کی اپیل کی،کجریوال کو جم کر کوسا،لیکن وہ یہ نھیں بتاسکے کہ بہار میں ڈبل انجن سرکار سے کیافائدہ ہوا؟2015 الیکشن میں مودی جی نے سوالاکھ کروڑ کے پیکج کا وعدہ کیاتھا،اب تک کیا ملا؟اسپیشل اسٹیٹ کی مانگ دس سال سے نتیش کررہے ہیں لیکن جیسے بی جے پی کی گود میں جاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں پھر الیکشن کے وقت یاد آجائے گا،مرکز اور ریاست میں ایک ہی سرکار کے باوجود اسپیشل اسٹیٹس کیوں نھیں ملا؟کسے یاد نھیں ہے جب پٹنہ یونی ورسیٹی کی تقریب میں نتیش نے مودی سے اسے سینٹرل یونی ورسیٹی بنانے کی مانگ کی تو کس طرح فضیحت کی گئی اور ٹھینگا دکھادیاگیا،غصہ تو اس وقت پلٹوجی کو بہت آیا لیکن کرسی کمار جو ٹہرے،سیلاب متاثرہ ریاستوں کو جتنی مدد ملی بہار کو اس میں بھی ٹھگ لیاگیا
دہلی میں دوسو یونٹ تک بجلی فری ہے نتیش کے اسٹیٹ میں اتنے کے ہزار روپیے بل آتے ہیں،پھر کس منہ سے بول رہے ہیں،بل کی مار عوام پر ہے،جنتا مہنگی بجلی سے پریشان ہے اور بجلی کی صورت حال بتائوں،میں خود ان کے چہیتے اور کانگریس سے بھاگے ہوئے وزیر اشوک اچودھری کے حلقہ بربیگھہ گیا،سن کر حیرت ہوگی کہ بجلی آفس میں دوگھنٹہ رہا لیکن بجلی نھیں تھی،اپنی اپنی ریاست تو سنبھل نھیں رہی ہے،ہریانہ اور اترپردیش میں کس طرح چوپٹ نظام کررکھا ہے چلے ہیں دہلی کو بتانے
اور یاد دلادوں،جس کجریوال کو کل پانی پی پی کر کوس رہے تھے،بہار میں ساتھ چائے ناشتہ ہوچکاہے،دہلی کی فکر چھوڑییے،بہار سنبھالیے،جھاں این پی آر پر دھوکے اور جھانسے اور سی اے اے پر غداری سے عوام کرسی چھیننے کا عزم کرچکی ہے-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی کی انتخابی ریلی کے پہلے ہی دن یوگی کہہ رہے ہیں کہ "بولی سے نہیں مانے گا،تو گولی سے تو مان ہی جائےگا "ـ
میں اب تک یہ سمجھ پانے سے قاصر ہوں کہ کیسے ایک "ڈھونگی” کی اس نفرت انگیز اور زہر ناک تقریر پر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی،ایک بندہ پوری دیدہ دلیری و شوخ چشمی سے اتنی خطرناک بات کہہ رہا ہے،مگر پورا میڈیا اس پر پوری طرح سے خاموش ہے،یہ اس طرح اپنے دیش کے لوگوں کو دھمکا رہے ہیں،جیسے ملک کو فساد کی بھٹی میں جھونکے کا عزم کیے بیٹھے ہوں، انہوں نے ہی کچھ روز پہلے اسی طرح کا فرقہ واریت کو ہوا دینے والا بیان دیا تھا کہ "ان کی ایسی پٹائی کریں گے کہ ان کی سات پشتیں بھی یاد رکھیں گی”ـ
دہلی کے ماحول کو گرما کر آگ سے "ہاتھ تاپنے” کی مکمل تیاریاں ہو رہی ہیں ـ
پے در پے ان کی پارٹی کے ذمہ داران کی طرف سے جس طرح کی باتیں آ رہی ہیں اس سے ان کے ارادے بالکل بھی ٹھیک نہیں لگتےـ
بنگال کے بی جے پی صدر نے مظاہرین پر بربریت و سفاکیت کو جواز فراہم کرتے ہوے کہا تھا کہ "ہماری پارٹی نے آسام اور یوپی میں ان کو کتوں کی طرح مارا”ـ
انہی کے ایک اور لیڈر نے کہا تھا کہ جو بھی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف بولے گا اسے زندہ زمین میں گاڑ دیں گےـ
ابھی کچھ دن پہلے انہی کی پارٹی کے لیڈر "انوراگ ٹھاکر” نے انتخابی ریلی سے اپنے رضاکاروں کو یہ "نعرہ ” دیا تھا کہ "دیش کے غداروں کو گولی ماروں سالوں کو”،جس سے شہہ پا کر دو لوگوں نے جامعہ اور شاہین باغ میں گولیاں چلائی،جس میں سے ایک کو "نابالغ” کہہ دیا گیا،تو دوسرے کو بجاے سرکاری گاڑی کے "پرائیویٹ ” گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا تا کہ اس کی بھرپور "پشت پناہی” کی جا سکےـ
صدر جموریہ "رام ناتھ کووند” کا پارلیمنٹ میں صدارتی خطبہ بھی یاد رہے، جس میں انہوں نے کھل کر این آر سی کی تائید کی ہے،جس پر اپوزیشن کی طرف سے بڑا ہنگامہ بھی دیکھنے کو ملا، ایک طرف پورے ملک کے لوگ یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں اپنا پورا زور لگا رہے ہیں،اس کو واپس لیے جانے کا قربانیوں کے ساتھ مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف سرکار اس کو لے کر "انچ” بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہےـ
ایسے میں آگے کیا ہوگا ،واضح طور پر کہنا انتہائی مشکل ہے؛ لیکن ابھی جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی طور بھی اچھا نہیں ہے اور جس طرح کا ماحول سرکار،”سرکاری کتوں” اور "بھاڑے کے غنڈوں” کی ملی بھگت سے بنایا جا رہا ہے، وہ بہت ہی بھیانک ہے، بس اللہ ہماری جان، ہمارے مال اور ہماری عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے کے ساتھ ہمیں ہماری تحریک میں کامیابی عطا فرمائے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو احتجاجی مہم شروع ہوئی ہے،اس نے سرکار کی نیند حرام کردی ہے۔چاروں طرف سے قومی یکجہتی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔اس مہم میں ہر روز شدت پیدا ہورہی ہے۔ہر طبقے کے لوگ اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔احتجاجی مظاہرے ہوں یا دھرنے ہر جگہ ترنگا ہی لہرا رہا ہے،جس سے فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والے جہاں خوفزدہ ہیں،وہیں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو گمراہ کرنے والے رہنماؤں کے چہرے بھی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ دہلی اور جھارکھنڈ کے وزراے اعلیٰ نے ذات پات کی سیاست کرنے والی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان بدل رہا ہے۔ملک اور سماج کی ہم آہنگی میں رکاوٹ بننے والی قانون کے خلاف ملک کے عوام سڑک پر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
مودی سرکار نے جس دھماکہ دار انداز میں دوسرے ٹرم کا آغاز کیا تھا اور یکے بعد دیگرے بل پاس کئے جا رہے تھے سی اے اے کے خلاف ملک گیر مہم نے اس رفتار پر روک لگا دی ہے۔ایسے میں وزیر اعظم کچھ بیان دے رہے ہیں تو وہیں وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے بیانات اس سے جدا ہیں۔بی جے پی کی مرکزی حکومت جس تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہی تھی اس کو یقیناً اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر آجائے گا۔
معاشی میدان میں پوری طرح سے ناکام سرکار اپنے ان ایجنڈوں کے ذریعہ ووٹروں پر اپنی گرفت مضبوط بنا نے میں مصروف تھی،لیکن اس کی یہ تدبیر الٹی ہوگئی۔طلاق ثلاثہ،دفعہ 370،بابری مسجد معاملہ کے بعد این آر سی،سی اے اے اور این پی آر سے لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور سرکار کی مسلسل مسلم مخالف پالیسیوں نے عوام کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کردیا۔
شاہین باغ دہلی کے طرز پر پورے ملک میں جاری پر امن مظاہروں نے حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ان مظاہروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ واقعی ملک بدل رہا ہے۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب ملک کی معیشت اپنے نچلی سطح پر پہونچ چکی ہے،بے روزگاری کا گراف بہت تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہے،نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ایسے وقت میں سرکار کا ایسے قوانین کے نفاذ پر زور کیوں؟سرکار اگر اس زعم میں ہے کہ وہ اس تحریک کو اپنی طاقت سے کچل دے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے۔
ملک بھر میں جاری تحریک کو طاقت سے کچلنا کوئی کھیل نہیں،یہ کوئی مٹی گھرینوں کا کھیل نہیں ہے کہ جب جی چاہے اس کو بگاڑ دے۔ موجودہ حالات میں اگر سرکار کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے تو اس کی بہت بڑی بھول ہوگی۔یہ مودی حکومت کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ ان حالات پر کس طرح قابو اپتی ہے، اگر حکومت کی جانب سے زور و زبر دستی کا طرییقہ اختیار کیا گیا تو اس کا خمیازہ سرکار کو کسی نہ کسی شکل میں بھگتنا ہی پڑے گا۔
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068