نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ)
کیا دن اور کیا رات ایسا لگتا ہے کہ اوکھلا والوں کےلیے دونوں برابر ہیں۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا ۳۹واں اور شاہین باغ کا ۳۷؍واں دن تھا۔ آج بھی مظاہرین کی کافی بھیڑ تھی، لوگوں کا جوش وخروش دیدنی تھا، آج دیر شام تک طلبہ کی مختلف ٹولیاں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، بٹلہ ہاؤس ہوتے ہوئے شاہین باغ کے احتجاج میں مشعل لیے ہوئے شامل ہوئیں۔وہیں دن بھر مختلف قسم کے پروگرام جاری رہے، دیگر دنوں کے مقابلے آج بھیڑ کم تھی اس لیے کہ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد ترکمان گیٹ، منڈی ہاؤس سے جنترمنتر، خوریجی، جعفرآباد، برجی پوری، اندرلوک میٹرو اسٹیشن وغیرہ کے احتجاج میں شرکت کےلیے گئے ہوئے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حسب معمول طلبہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آج ان کے بھوک ہڑتال کا بیسواں دن تھا۔ اسٹریٹ لائبریری سجی ہوئی تھی۔آج بھی بڑی تعداد میں طلبہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام پوسٹ کارڈ پر خطوط لکھے اور انہیں ارسال کیا۔ طلبہ و عوام نے سی اے اے کے خلاف زبردست نعرے بازی کی، مختلف پلے کارڈ اور سڑکوں پر پینٹگ کرکے سی اے اے کی قباحت اور این پی آر و این آر سی سے ملک کو ہونے والے نقصانات کو واضح کیا۔ شعرو شاعری کی محفل بھی سجی تھی جہاں علاقائی شعرا اپنا کلام پیش کررہے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات مختلف انداز میں سی اے اے اور این آر سی کے مہلک اثرات سے عوام کو متعارف کرارہے تھے۔ اور لوگوں کو بیداری مہم چلانے کےلیے بڑے پیمانے پر ابھار رہے تھے۔ جامعہ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر جامعہ نجیب جنگ نے کہاکہ حکومت کو شہریت ترمیمی قانون پر غور کرناچاہئے، انہیں یا تو مسلمانوں کو شامل کرناچاہئےیاسبھی مذاہب کو نکال دیناچاہئے اور صرف مظلومیت کی بنیاد پر شہریت دینی چاہئے۔ وزیر اعظم کو سبھی مظاہرین سے مل کر بات کرنی چاہئے پورا معاملہ پرامن طریقے سے حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہاکہ بچوں کو یہ یہ تحریک جاری ہی رکھنی ہوگی؟ کیوں کہ مستقبل کا ہندوستان ان ہی بچوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کب تک ہم لوگ اس طرح احتجاج کرتے رہیں گے، حل صرف بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ معیشت کی بری حالت ہے دکانیں بند ہیں، بسیں متاثر ہیں ملک کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ شاہین باغ کا احتجاج بھی پرامن طریقے سے جاری رہا۔ لوگوں میں اول دن والا جوش وجذبہ برقرار ہے، سکھ کمیونٹی کی جانب سے لنگر اور کھانے کا اہتمام کیاگیا ہے۔ اس سے قبل اتوار کی شام سینکڑوں افراد بشمول خواتین اور بچوں سمیت جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شاہین باغ تک سی اے اے کے خلاف ایک زبردست مارچ کیا۔طلبہ اور مقامی افراد مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کے لباس پہنے ہوئے تھے ، جبکہ تین افراد نے شہید بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھدیو کی شباہت اختیار کی تھی ، ان میں سے ایک جیل کے لباس میں تھے اور زنجیروں میں قید تھے۔ اطلاع کے مطابق اتوار ہونے کی وجہ سے شاہین باغ احتجاج میں خواتین سے اظہار یگانگت کےلیے دہلی سمیت دیگر ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں عوام وہاں پہنچے اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے بازی کی۔ اتوار کو صرف گھروں میں قید رہیں پردہ نشین خواتین ہی نہیں تھیں، راجدھانی کے پوش جنوبی علاقے کی امیر گھرانے کی عورتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ جنوبی دہلی کی خواتین ان خواتین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں جنھیں کل تک غیر مرد کی موجودگی میں اپنے ہی گھر میں سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب یہ خواتین چوراہے پر کھڑی ہو کر مردوں کو راستہ بتا رہی ہیں، آئین کے معنی سمجھا رہی ہیں، مرکزی حکومت کی نیت کو بے پردہ کر رہی ہیں۔ چہرے پر ترنگے کی چھاپ اور پیشانی پر اشوک چکر باندھے یہ خواتین ان سبھی کو راستہ دکھا رہی ہیں جو اب تک خاموش تھے۔ ان خواتین نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب اقتدار کے رحم و کرم پر جینے والی نہیں بلکہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ہاتھ میں آئین لیے اپنا حق چھیننے کے لیے پرعزم ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں جمہوریت کے ’تیرتھ استھل‘ کا قیام ہو چکا ہے اور اس کا نام ہے شاہین باغ۔ یہ سچ ہے کہ اس تیرتھ میں نہ کوئی بھگوان ہے، نہ کوئی دیوتا۔ یہ کسی عبادت گاہ یا پوجا کی جگہ سے زیادہ پاک ہے۔ سماج کا ہر طبقہ اس تیرتھ کی تعمیر میں برابر کا شریک ہے۔ پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر مظاہرے ہورہے ہیں اور خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ شاہین باغ کی خواتین سے سبق لے رہی خواتین یہی نعرہ لبوں پر لیے ہوئے ہیں کہ ’میں انقلاب میں شاہین باغ ہونا چاہتی ہوں‘۔ رنجشوں کے اس وقت میں۔۔۔نفرتوں کی لاٹھیاں کھاکر۔۔۔اس ملک کو توڑنے کی کوششوں کے اوپر۔۔۔۔بس اتنی ہی تو خواہش ہے جاناں۔۔۔میں انقلاب میں شاہین باغ ہوناچاہتی ہوں!