نئی دہلی:امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدے دارنے ہندوستان کو تاریخی طور پر روادار ، تمام مذاہب کے لیے قابل احترام ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی آزادی کے سلسلے میں بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں امریکہ بہت پریشان ہے۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایک سفارت کار ، سیموئیل براؤن بیک کا یہ بیان 2019 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی رپورٹ کے اجراء کے بعد سامنے آیا ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی جاری کردہ اس رپورٹ میں دنیابھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے بڑے واقعات کا تذکرہ کیاگیاہے۔ہندوستان نے امریکہ کی مذہبی آزادی سے متعلق اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت کودوسرے شہریوں کے آئینی حقوق پرکوئی حق نہیں ہے۔غیر ملکی صحافیوں سے فون پرگفتگوکے دوران براؤن بیک نے کہاہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس نے چار بڑے مذاہب کوجنم دیاہے۔انھوں نے کہاہے کہ ہم ہندوستان میں جو کچھ ہورہاہے اس سے بہت پریشان ہیں۔ یہ تاریخی طور پر تمام مذاہب کے لیے ایک بہت ہی روادار ، قابل احترام ملک رہا ہے۔براؤن بیک نے کہاہے کہ ہندوستان میں جوکچھ ہورہا ہے وہ بہت پریشان کن ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی برصغیر ہے اوروہاں زیادہ فرقہ وارانہ تشدد دیکھا جارہا ہے۔انھوں نے کہاہے کہ ہمیں مزید کشیدگی دیکھنے کومل رہی ہے۔ میں امیدکرتاہوں کہ ہندوستان میں بین المذاہب بات چیت بہت ہی اعلیٰ سطح پرشروع ہونی چاہیے اورپھرمخصوص امورسے نمٹناچاہیے۔ ہندوستان میں اس موضوع پر مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور میری پریشانی یہ ہے کہ اگر یہ کوششیں نہ کی گئیں توتشدد بڑھ سکتاہے۔
Usa
ایڈیٹر:ہماری آواز، گولابازار، گورکھ پور
امریکی صدر ٹرمپ جی اور ہندوستانی وزیر اعظم مودی جی کا یارانہ کوئی نیا نہیں، کافی پرانا ہے۔ وہ وقت آج بھی ہم اہلیان ہند کو بڑے اچھے سے یاد ہے جب امریکہ میں انتخاب عام ہونے والا تھا اور ٹرمپ جی کی حمایت میں وزیر اعظم مودی جی جنھیں میں بہت پیار سے صاحب جی لکھا کرتا ہوں وہ امریکہ تک پہونچ گئے اور ان کے ہمنواؤں نے ٹرمپ جی کی انتخابی کامیابی کے لیے ہندوستان میں بھی پوجا پاٹ تک کرڈالا تھا، سوشل میڈیا کی سرخیاں تو یہ بات تک بن گئی تھی کہ ٹرمپ جی وہ انتخاب جیتتے ہی نہیں مگر صاحب کے مشوروں سے ہی انہوں انتخاب عام میں کامیابی حاصل کر اقتدار کی کرسی پائی۔ شاید یہ یارانہ اسی وقت شروع ہوا تھا۔ اور ابھی حالیہ دنوں میں جب پوری دنیا کورونا نامی قدرت کے قہر سے جوجھ رہی تھی صورت حال یہ بن چکے تھے کہ اکثر ممالک نے اپنی سرحدوں کو سیل کرنا شروع کردیا تھا بعینہ اسی وقت امریکی صدر ٹرمپ جی دورۂ ہند پر تھے اور صاحب نے اپنے اس یار کی آؤ بھگت میں پانچ،دس کروڑ نہیں بلکہ تقریبا ایک سو بیس کروڑ تک خرچ کر ڈالے۔ اور اس کے معا بعد جب ملک میں مہاماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تب ہمارے صاحب کو عوام سے ہی چندہ تک مانگنا پڑا۔ اپنے ملک کی مہمان نوازی شاید پہلے اتنی مشہور نہ رہی ہو جتنی صاحب نے اپنے اس طرز عمل سے کر دکھایا۔ اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ دہلی سے لے کر آگرہ تک صاحب نے جن مقامات کی زیارت ٹرمپ جی کو کرائی وہ وہی مقامات تھے جنھیں ہر موقع پر دہشت گرد کہے جانے والی قوم "مسلم” کے سابقہ حکمرانوں نے بنوایا تھا۔ خیر اس سے کوئی بحث بھی نہیں کیوں کہ پوری دنیا جانتی ہے انھیں مقامات کی زیارت سے ملنے والی خطیر رقم حکومتوں کی گاڑیوں کا ایک پہیہ چلاتی ہے۔ مگر تعجب اس وقت ہوا جب امریکی صدر کے اس دورۂ ہند میں کئی ایک غیر ملکی صحافیوں اور سفیروں نے شرکت کی بالخصوص چینی، جبکہ پوری دنیا جان چکی تھی کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کی پیدائش چین ہی میں ہوئی ہے۔ اور جس طرح ہندوستانی میڈیا نے مرکز کے معاملہ کو لے کر چھوا چھوت کی حد پار کردی تھی اس کے تناظر میں یہ کہنا بلکہ ہی ناروا نہیں ہوگا کہ شاید انھیں غیر ملکیوں کی اس شمولت سے ہی اپنے عزیز ترین ملک ہندوستان میں کورونا نے قدم رکھا۔ خیر ملک کے وزیر اعظم اور ان کے ہمنواؤں نے ٹرمپ جی کی یاری میں آخر کیا کمی کردی کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جب دنیا یہ کہہ رہی تھی کہ
کیا کیا نہ کیا یار نے دل دار کے لیے
تبھی اس دل دار نے ایسا زخم دیا کہ پوچھئے مت؛ اس مصیبت کی گھڑی میں ہی اس نے زبردست دھوکا دیا اور اپنے یار کو دھمکی تک دے ڈالی کہ اگر انھوں نے ملیریا کی دوا امریکہ نہیں بھیجا تو یار کو دل دار کے حسین نہیں کڑوے عتابوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ چوکی دار کے نام سے مشہور چھپپن انچ کے سینے والے ہمارے ملک کے وزیر اعظم جناب مودی جی نے اس دھمکی کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ اب اس دھمکی کو لے کر صاحب کے کیا تاثرات ہیں یہ تو من کی بات ہے۔ پردے میں ہے، اور شاید آگے بھی ایک معمہ بن کر رہ جائے مگر اہلیان ہند کی دلی صدا یہی ہے۔ کیا یہی میری محبت کا صلہ ہے؟؟؟؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کورونا کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اب دنیا کا ہر فرد اس مہلک بیماری اور اس کی علامات واسباب سے واقف ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مرض پہلے سے موجود تھا مگر ابھی تک اس کا کوئی علاج یا ٹیکہ ایجاد نہیں ہوسکا۔ مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج ومعالجہ کے لئے دواؤں اور ٹیکوں کے ایجاد ہونے کے باوجود ایسی نئی بیماریاں سامنے آتی رہتی ہیں جن کے سامنے ساری دنیاوی طاقتیں زیر ہوجاتی ہیں، جس کی تازہ مثال کورونا وائرس ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اس بیماری کے خوف نے لوگوں کے چین وآرام کو چھین لیا ہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے متعلق مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں کہ یہ Biological ہتھیار کا ایک نمونہ ہے جو مستقبل میں ایک طاقت دوسری طاقت کو کمزور کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہے، یا چین میں اقتصادی بحران پیدا کرنے کی امریکہ کی کوشش ہے، یا چین کی کوئی سازش یا خفیہ منصوبہ ہے جس سے دنیا ابھی تک ناواقف ہے، یا واقعی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ مگر مسلمان ہونے کے باعث ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے وبائی امراض کے پھیلنے پر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے مضبوط ہونا چاہئے، لہذا ہم گناہوں سے معافی مانگنے کے ساتھ احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہوں۔ سیرت نبوی ﷺ پڑھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ حالات آنے پر حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابہئ کرام کو اپنے قول وعمل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا پیغام دیا ہے۔ یقینا بعض امراض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتے ہیں، اسی لئے کسی وبائی مرض کے پھیلنے پر آخری نبی ﷺنے ساری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ وبائی مرض کے پھیلنے کی جگہ جانے سے احتیاط رکھی جائے اور اُس علاقہ کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں جانے سے حتی الامکان بچنا چاہئے،لیکن اس یقین کے ساتھ کہ بیماری اور شفا اللہ کے حکم سے ہی ملتی ہے۔
اس موجودہ بیماری کا بظاہر کوئی علاج دستیاب نہیں ہے،اس لئے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے مخالف نہیں ہے۔ مگر ہماری کوئی تدبیر قرآن وحدیث کے واضح حکم کے خلاف نہ ہو۔ بعض عرب ممالک بشمول سعودی عرب میں احتیاطی تدابیر کے طور پر پنج وقتہ نمازوں کی جماعت اور نماز جمعہ کی ادائیگی کو پورے ملک میں غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا ہے، حتی کہ مسجد حرام میں طواف کو بھی روک دیا ہے، یعنی مسلمانوں کی تربیت گاہیں ہی بند کردی گئی ہیں، حضور اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین کے عہد مبارک میں تمام تر سیاسی، سماجی، معاملتی اور مذہبی فیصلے مساجد سے ہی ہوا کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر مساجد مسلمانوں کے لئے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سعودی عرب کا تمام مساجد کو بند کرنے کا فیصلہ سعودی علماء کے پلیٹ فارم سے کرایا گیا ہے مگر سبھی جانتے ہیں کہ اس نوعیت کا فیصلہ حکومت کی ہدایات پر ہی ہوتا ہے۔ سعودی علماء کا احترام کرتے ہوئے میں ان کے فیصلہ سے اپنا اختلاف درج کررہا ہوں کہ علماء احناف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں پنج وقتہ نماز کے لئے جماعت کو فرض نہیں بلکہ واجب کہا ہے لیکن سعودی علماء حضرات کا موقف پنج وقتہ نماز کے لئے جماعت کے فرض ہونے کا ہی رہا ہے۔ ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ اور دیگر خدمات سے پہلے خانہئ کعبہ کے طواف اور مساجد کو بند کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے مساجد کو بند کرنے کے لئے اعلان میں قرآن وحدیث کا بھی سہارا لیا گیا ہے، مگر اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ۰۰۴۱ سالہ اسلامی تاریخ میں متعدد مرتبہ وبائی امراض دنیا میں پھیلے، جن کی وجہ سے جانی نقصان موجودہ کورونا وائرس کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہوا، حتی کہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں طاعون جیسا وبائی مرض پھیلا مگر ایک مرتبہ بھی کسی بھی اسلامی حکومت نے ملک کی مساجد بند کرنے کا فیصلہ صادر نہیں فرمایا۔ جن ممالک میں حکومتی سطح پر مساجد بند کرنے کے اعلان ہوچکا ہے وہاں کے لوگ ان شاء اللہ جماعت کے چھوڑنے کے گناہ گار نہیں ہوں گے، حکومت اور علماء کرام ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ البتہ سبھی لوگ توبہ واستغفار کا اہتمام رکھیں۔ حالت سفر میں سخت سردی اور بارش کے وقت حضور اکرم ﷺ کا خیموں میں نماز پڑھنے کی اجازت دینا صرف کسی مرض کے وہم کی بنیاد پر پورے ملک کی مساجد کو بند کرنے کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ پر وبائی مرض پھیلنے کی تحقیق ہوجائے تو صرف متاثرہ علاقہ میں مساجد بند کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے نہ کہ پورے ملک کی مساجد کو بند کردیا جائے۔ قرآن کریم (سورۃ النساء آیت ۲۰۱) میں عین جنگ کے موقع پر بھی فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ہی پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے، جہاں ایک لمحہ کی غفلت سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یقینا ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ لہذا حسب استطاعت اسباب کا اختیار کرنا چاہئے، لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پر توکل یعنی بھروسہ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اختصار کے مد نظر یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں۔ ”تم اُس ذات پر بھروسہ کرو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی“ (سورۃ الفرقان ۸۵) ”جب تم کسی کام کے کرنے کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو“ (سورۃ آل عمران ۹۵۱) ”جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے“ (سورۃ الطلاق ۳) ”بے شک ایمان والے وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ آیات ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں“ (سورۃ الانفال ۳)۔ہمارے نبی نے بھی متعدد مرتبہ اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی ہے، فی الحال صرف ایک حدیث پیش ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسے توکل کا حق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تم کو اس طرح رزق عنایت فرماتے جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ (ترمذی)
کورونا مرض کو بڑھنے سے روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، اس بیماری کی علامتیں پائے جانے پر فوراً ہسپتال کا رخ کریں اور دوسروں سے حتی الامکان دور رہیں۔ تمام لوگوں کو چاہئے کہ بار بار ہاتھ دھوتے رہیں خاص کر ہر نماز کے وقت اچھی طرح وضو کریں۔ پانی وافرمقدار میں پینا چاہئے، بے ضرورت اجتماعات سے دور رہیں، مگر یہ بات یاد رکھیں کہ موت کا وقت اور جگہ متعین ہے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنی وسعت کے مطابق اس مرض سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے موت کی اس حقیقت کو بار بار بیان کیا ہے، چار آیات کا ترجمہ پیش ہے: تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ (سورۃ النساء ۸۷) (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ ۸) چنانچہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔ (سورۃ الاعراف ۴۳) اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں اُسے موت آئے گی۔ (سورۃ لقمان ۴۳) ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔
جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور وہی مشکل کشا، حاجت روا، بگڑی بنانے والا اور صحت دینے والا ہے، لہذا ہم دعا کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں اور بیماریوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا سے اس بیماری کو دور فرمائے، آمین۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
19سال کی اعصاب شکن جنگ کے بعد بالآخر امریکہ نے طالبان مزاحمت کاروں سے معاہدہئ امن کرنے میں ہی عافیت جانی اور 29فروری2020کوقطری راجدھانی دوحہ میں امریکہ و طالبان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا،جس کے بعد یہ امیدکی جارہی ہے کہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں امن وامان کی واپسی ہوجائے گی۔اس معاہدے پر افغانستان کے دواہم پڑوسی ممالک ہندوستان وپاکستان سمیت دنیابھر کے مختلف ممالک کا ردعمل سامنے آرہاہے اوروہاں کے لوگ اپنے اپنے حساب سے اس ڈیل پر اظہار خیال کررہے ہیں۔سنیچر کے دن افغانستان اورامریکہ سمیت ہندوستان،پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے ممبرممالک کے ڈپلومیٹس دوحہ کے فائیوسٹارشیراتون ہوٹل میں جمع ہوئے اور وہاں یہ معاہدہ عمل میں آیا۔اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے تمام ڈپلومیٹس کی میزبانی کی۔
ہندوستان نے طالبان و امریکہ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر محتاط ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کی یہ پرانی پالیسی ہے کہ افغانستان میں امن و امان،سلامتی واستقلال اور دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بننے والے تمام مواقع کی حمایت کی جائے۔وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمارنے کہاکہ پڑوسی کی حیثیت سے ہندوستان افغانستان کی ہر قسم کی مدد جاری رکھے گا۔قابل ذکرہے کہ افغانستان کے معاملات میں ہندوستان بھی ایک اہم فریق کی حیثیت رکھتاہے،اب تک افغانستان کی تعمیر نومیں ہندوستان دوارب ڈالر خرچ کرچکاہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے امن معاہدے پر ہندوستان کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ”ہم نے نوٹ کیاہے کہ افغانستان کے تمام سیاسی گروپ،حکومت،جمہوری سیاسی رہنما اور سول سوسائٹی نے اس معاہدے کے ذریعے افغانستان میں امن و استقلال کے قیام کے تئیں امید کا اظہار کیاہے“۔افغان لیڈرشپ کے ساتھ اپنی میٹنگ میں بھی انھوں نے یہ بات دہرائی کہ ہندوستان افغانستان میں امن و استقلال،سیاسی و معاشی ترقی میں اشتراک کے تئیں پابند عہد ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ”پاکستان نے اس امن معاہدے کے تئیں اپنی ذمے داری پوری کردی ہے۔پاکستان آیندہ بھی ایک پرامن، مستحکم، متحد، جمہوری و فلاحی افغانستان کی حمایت کرتارہے گا“۔نیٹونے اپنے بیان میں کہاہے”امن کے تعلق سے حالیہ تبدیلی نے افغانستان میں تشددکے خاتمے کے تئیں امید جگائی ہے اورجامع امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے طالبان و افغانستان کے مرکزی دھارے کے درمیان باہمی مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے“۔
اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگیٹریز نے ملکی سطح پر تشددکے خاتمے پر زور دیتے ہوئے طالبان-امریکہ معاہدے کو افغانستان میں ایک دوررس سیاسی استحکام کے حصول کے سلسلے میں اہم قرار دیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہاہے”ہماری قوم نے افغان بحران کے خاتمے کے تئیں ذمے دارانہ اپروچ کا مظاہرہ کیاہے اور ہم طالبان پر نظر رکھیں گے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہیں یانہیں۔صدر ٹرمپ نے وعدہ کیاہے کہ وہاں سے ہماری فوج واپس بلالی جائے گی اورہم اپنے اس وعدے کو پورا کریں گے“۔افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا”اس معاہدے کے تمام پہلو ایک شرط سے مشروط ہیں،جس کا انحصارامن کے تئیں طالبان کے عہد پرہے۔اس ڈیل میں کئی نکات ہیں جنھیں مذاکرات کے دوران ملحوظ رکھنا ہوگا۔ افغان گورنمنٹ کے فریم ورک کے تحت ہماری ایک جامع مذاکراتی ٹیم ہوگی“۔
افغان شہری کیاکہتے ہیں؟
24سالہ عصمت،صوبہ ہلمند:
”افغان طالبان اور سکیورٹی فورسز کی باہمی جھڑپوں میں میں نے اپنا ایک پاؤں کھودیا۔میرے والدایک عمردراز قبائلی تھے،وہ میرے دس سالہ بھائی کے ساتھ سفرکررہے تھے کہ طالبان نے ان پر حملہ کردیا اور وہ دونوں مرگئے۔میں روزاس تجسس کے ساتھ ریڈیوسنتی ہوں کہ امن مذاکرات کہاں تک پہنچا؟ میں اس پروسیس کی حمایت کرتی ہوں اور روز دعاکرتی ہوں کہ جنگ کا خاتمہ ہواور ملک میں امن قائم ہو،مجھے جنگ سے نفرت ہے“۔
ستائیس سالہ زرمینہ،غزنی:
”آدھی رات کا وقت تھاکہ طالبان اور سکیورٹی فورسزکے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔مجھے معلوم نہیں کہ میرے گھرپرگرنے والا راکٹ تھایابم۔میرے شوہر اور تین بچیاں اس کی زدمیں آکر مرگئے۔میرے شوہر کاسران کے دھڑسے الگ ہوچکا تھا۔میری دوبیٹیاں زندہ ہیں،مگر ان کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہا۔میں امن مذاکرات کے تئیں پرامید ہوں،مجھے پتانہیں کہ امن قائم ہوگایانہیں،مگر جنگ ہرحال میں ختم ہونی چاہیے“۔
فضائی حملے میں اپنے گھرکے بارہ افراد کوکھونے والی ننگرہارصوبے کی وحیدہ:
”میں نے اپنے دوبھائی، آٹھ بہنوں اور اپنے والدین کو کھودیا۔میں بھی بری طرح زخمی ہوئی اور چلنے کے قابل نہیں رہی۔کیامیں اس سانحے کو بھول سکتی ہوں؟جب آپ کے گھرکے لوگ آپ کی آنکھوں کے سامنے مررہے ہوتے ہیں،آپ ان کی دردناک آواز سنتے ہیں مگرکوئی مددنہیں کرسکتے،آپ تصوربھی کرسکتے ہیں کہ اس وقت کیاکیفیت ہوتی ہوگی؟اگراس ملک میں امن قائم ہوتاہے اور طالبان وامریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ کامیاب ہوتا ہے،توبھی نہ تومیری زندگی بدل سکتی ہے اورنہ ہی میرے پیارے مجھے مل سکتے ہیں،ہاں!مگراس سے دوسرے لوگوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔وہ اپنے پیاروں کونہیں کھوئیں گے اور یہی بڑی بات ہے“۔
کابل کی بائیس سالہ حجت عزت:
”میرا بھائی احمد چوبیس سال کا تھا،اس کا یونیورسٹی کا آخری سال تھا،وہ یونیورسٹی جارہاتھاکہ راستے میں بم بلاسٹ ہوگیا،ہمیں صرف اس کا پاؤں مل سکا۔ہم موسمِ بہارمیں اس کی شادی کے منتظر تھے مگر ہمیں اسکے کفن دفن کا انتظام کرنا پڑا،امن قائم ہوجائے تب بھی ہمارادردختم تونہیں ہوسکتا،لیکن اگر واقعی ایسا ہوتاہے تودوسرے بہت سے لوگ اپنے اعزاکوکھونے سے بچ جائیں گے“۔
قابل ذکرہے کہ اس معاہدے کے مطابق آنے والے چودہ ماہ کے اندرامریکہ افغانستان سے اپنی ساری افواج بلالے گا۔13000میں سے 8,600سپاہیوں کو اگلے تین چار ماہ میں بلالیاجائے گااوراندرون افغان طالبان،حکومتِ افغانستان اور دیگر متعلقہ فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ 10مارچ سے شروع ہوگا۔
(بہ شکریہ انڈیاٹوڈے،پی ٹی آئی،رائٹر،اے پی)
دنیاکی نگاہیں بھارت کے یکساں سلوک اورمذہبی تنوع کے احترام پرٹکی ہوئی ہیں
واشنگٹن:امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگلے ہفتے ہونے والے اپنے بھارت دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے مذہبی آزادی کامسئلہ اٹھائیں گے۔وہائٹ ہاؤس نے یہ معلومات دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، بھارت کی جمہوری روایات اوراداروں کا بہت احترام کرتا ہے اور ان اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔ٹرمپ کے پہلے بھارت دورے کے پیش نظر دونوں جماعتوں امریکی وفاقی ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم نے ایک شیٹ شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ شہریت قانون بھارت میں مذہبی آزادی میں بڑی کمی کوظاہرکرتاہے۔ایک سینئرافسر نے صحافیوں سے کہاہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے عوامی اور یقینی طور پر ذاتی، دونوں تقریروں میں ہماری مشترکہ جمہوری روایت اور مذہبی آزادی کے بارے میں بات کریں گے۔وہ ان مسائل کو اٹھائیں گے، خاص طور سے مذہبی آزادی کا مسئلہ، جواس انتظامیہ کے لیے انتہائی اہم ہے۔افسر سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا شہریت قانون یا قومی شہری رجسٹرپرٹرمپ کی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ٹرمپ اور امریکہ کی خاتون اول میلانیاٹرمپ کا24 اور 25 فروری کو احمد آباد، آگرہ اور نئی دہلی جانے کا پروگرام ہے۔رازداری کی شرط پر افسر نے بتایاہے کہ آفاقی اقدار، قانون کے راج کو برقرار رکھنے کامشترکہ عزم ہے۔ہم بھارت کی جمہوری روایات اور اداروں کا بڑا احترام کرتے ہیں اور ہم بھارت کوان روایات کو برقرار رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔سی اے اے اوراین آرسی کے سوال پر سینئر انتظامی اہلکارنے کہاہے کہ ہم اپنی طرف سے اٹھائے کچھ مسائل کولے کر فکر مندہیں۔مجھے لگتا ہے کہ صدر، وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقات میں ان مسائل کو اٹھائیں گے۔دنیاجمہوری روایات، مذہبی اقلیتوں کا احترام برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی جانب دیکھ رہی ہے۔افسرنے کہاہے کہ ظاہر طور پرہندوستانی آئین میں مذہبی آزادی، مذہبی اقلیتوں کا احترام اور تمام مذاہب پر ایک جیسی رویے کی بات ہے۔یہ صدرکے لیے اہم ہے اورمجھے یقین ہے کہ اس پربات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بھارت مذہبی اور لسانی طور پر امیر اور ثقافتی تنوع والاملک ہے۔انہوں نے کہاہے کہ یہاں تک کہ وہ دنیا کے چار بڑے مذاہب کامرکزہے۔سینئر انتظامی اہلکار نے کہاہے کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال الیکشن جیتنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اس بارے میں بات کی تھی کہ وہ ہندوستان کے مذہبی اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دیں گے۔اوریقینی طور پر دنیا کی نگاہیں قانون کے راج کے تحت مذہبی آزادی برقراررکھنے اور سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنے کے لیے بھارت پرٹکی ہے۔
عام طور پر آقا جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے غلام کی غلامی اتنی ہی بڑی اور عظیم ہوا کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمراں عام طور پر امریکہ کی غلامی پرفخر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا حال اور بھی براتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی وہاں جمہوریت سے کہیں زیادہ آمریت جلوہ گر تھی۔ ہر آمر امریکہ کی غلامی پر نازاں رہتا تھا۔ ایوب خاں نے اپنے زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی یالکھوائی تھی، جس کا عنوان تھا ”آقا نہیں دوست“۔ کتاب کے سرورق پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے ؎
اے طائرلاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کتاب کا مقصد اچھا تھا مگر اس کتاب سے پاکستان کی غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں غلامی عروج پر ہوگئی تھی۔ سابق صدرامریکہ جارج واکر بش کے ایک فون آنے سے پرویز مشرف ڈھیر ہوجایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی مدد سے پاکستان کا اچھا خاصا استحصال امریکہ نے کیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امریکی حملے سے افغانستان میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ اب وہاں جمہوریت کی ایک حد تک جلوہ نمائی ہے۔ عمران خان امریکہ کی غلامی کو ملک وقوم کیلئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہئے کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی غلامی عروج پر ہے۔ مودی ہندستان میں اپنی محبوبیت اور مقبولیت کیلئے امریکہ کا کئی دورہ کرچکے ہیں۔ ان کے آخری دورے پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کیلئے ‘Howdy, Modi!’ (ہاؤڈی مودی) کا پروگرام منعقد کیا تھا جس پر کروڑوں کا صرفہ آیا اور شاہی خرچ غریب ہندستان نے برداشت کیا۔ آئندہ 24 فروری کو دو روزہ دورے پر صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں۔ آقا کی آمد سے پہلے مودی چشم براہ ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی شہنشاہ آرہا ہے اور ملک کی رعایا ان کے استقبال میں کہہ رہی ہے کہ ؎
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد آباد (گجرات) کے غریبوں کی غریبی چھپانے کیلئے اونچی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں سے غریبوں کی جھی جونپڑی کو زور زبردستی ہٹایا جارہا ہے تاکہ بادشاہ سلامت کی نظر مودی کی ریاست یا ملک پر نہ پڑے اور بادشاہ سلامت ناراض نہ ہوجائیں۔ صدر ٹرمپ تاج محل دیکھنے آگرہ بھی جائیں گے۔ آگرہ میں بھی راستوں کی مرمت بھی زوروں پر ہورہی ہے اور دیواروں کی لیپاپوتی بھی ہورہی ہے۔ یوگی کو تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخ سے نفرت ہے لیکن سینے پر پتھر رکھ کر تاج محل کے آس پاس کے علاقے کی صفائی ستھرائی اور تزئین وآرائش کا کام زوروں پر ہے۔ یوگی ہوں یامودی ایک ایسے کلچر اور ایک ایسی ذہنیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں غلامی رچی بسی ہے بلکہ غلامی وراثت میں ملی ہے۔ برطانیہ دنیا کا سامراج تھا تو ان کے پرکھے برطانیہ کے وفادار تھے اور برطانیہ کی غلامی پر ناز کرتے تھے۔ مودی کو یقین تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے ان کی پگڑی اونچی ہوجائے گی لیکن گزشتہ روز (19فروری) ایک ایسی تقریر کی کہ مودی کی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں امریکہ سے اچھا برتاؤ نہیں کیا ہے لیکن میں مودی کو بیحد پسند کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہاکہ تجارتی یا دفاعی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد ہندستان سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ”نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ہوائی اڈے سے احمد آباد تک 70لاکھ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے رہیں گے“۔ اس تقریر سے ہوسکتا ہے کہ اگر مودی اپنے آپ کوہندستان سے بڑا سمجھتے ہوں تو دل میں خوشی محسوس کر رہے ہوں کہ آقا نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔حالانکہ آقا کے دورہئ ہند کا سارا مقصد اپنے صدارتی انتخاب کیلئے ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہندستانی یا گجراتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کرنے کیلئے ووٹ دیں۔ ’ہاؤڈی موڈی‘ کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے ایک کارکن کی طرح اپنے آقا کے حق میں نعرہ بلند کیا تھا کہ ”دوسری بار ٹرمپ سرکار“۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ہندستان میں اسی نعرے کو دہراتے ہیں یا کوئی نیا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکن ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی دوسرا امیدوار ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہوں۔ مودی جی کو اس نکتہ پر غورکرنے کا وقت شاید نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے ان کو یہ سجھاؤ دیا کہ ایک دوسرے ملک میں کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو نعرہئ انتخاب بلند کرنا انتہائی غلط ہے اور ملک کے مفاد میں صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی کو اوپر اٹھا دیا لیکن ہندستان کو نیچے گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ملک کاکوئی بھی سربراہ ہو اور جب وہاں جمہوریت ہوتی ہے تو سربراہ مستقل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ملک سے بیزاری اور سربراہ سے پیار محبت کی نمائش ڈونالڈ ٹرمپ اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں۔دونوں کی ذہنیت تقریباً یکساں ہے۔ دونوں انسان دشمنی اور عوام دشمنی پر یقین رکھتے ہیں۔نریندر مودی کا اگر آر ایس ایس سے تعلق ہے تو ٹرمپ کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ ٹرمپ کی رگِ جاں پنجہئ یہود میں ہے اور مودی کی رگِ جاں آر ایس ایس کے پنجے میں ہے۔ مودی جب بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملے ہیں تو ان کا Body Language (جسم کی زبان) بچکانہ ہی نظر آیا۔ ان کی مرعوبیت بھی عیاں تھی۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں مودی جی اپنے ملک میں رہیں گے، یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے مہمان کے سامنے جھکے رہیں اور اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ یہاں بھی وہ شاید ہی اپنے معیار کو بلند رکھ سکیں اور پرواز میں کوتاہی نہ کریں۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے مگر مودی جی کی شاہ خرچی اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے پہلے ہی کی طرح ہے کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں رائے، مشورہ اور آزادیِ اختلاف و انحراف، حقوق اور حریت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے دونوں سربراہوں کو انسانیت اور جمہوریت کی ان قدروں سے دوردور کا واسطہ نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا مواخذہ کچھ ایسا ہورہا تھا کہ وہ شاید ہی امریکہ کی صدارت کی کرسی پر فائز رہ سکیں لیکن وہ بال بال بچے۔ مودی جی کے خلاف پورے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی اور سیاہ قانون کی وجہ سے مخالفت اورمزاحمت ہورہی ہے۔ غور کیاجائے تو ان دونوں سربراہوں کی اپنے ملک میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں ہے۔ دونوں اپنی مقبولیت کیلئے کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچا اورسمجھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ہندستان کے وزیر اعظم کی شاہ خرچی غریب ملک کے پیسے سے اور غریبوں کی غربت اور افلاس کو اونچی دیواروں سے چھپانے کی کوشش سے مودی کی نیک نامی پر بٹا لگ رہا ہے ؎’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ایک معمہ ہے جو حل نہیں ہو رہاہے اور وہ ہے گلوبلائزیشن کا تضادـ
ایک طرف دعوی ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کی وجہ سے دنیا سمٹ کر اہک گاؤں کی حیثیت اختیار کر لی ہے وہ گاؤں جہاں ہر شخص دوسرے کے حالات سے واقف رہتا تھا اور ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں شریک ہوتا تھا اسی طرح ڈیجیٹل ورلڈ میں سکنڈز میں دنیا کے کسی بهی حصہ میں وقوع پذیر ہونے والے احوال سے واقف ہوا جاسکتا ہے. لیکن ایسی تیز رفتار اوربجلی سی سرعت کے ساتھ ملنے والی خبر کا حاصل کیا ہے اگر سننے والے بے حس اور اپنی اپنی ذات کے خول میں بند رہتے ہوں ؟
صنعتی انقلاب کے بعد سے ہی بالعموم اور گلوبلائزیشن کے بعد بالخصوص nuclear family ایک عام ٹرینڈ بن کر ایسا رائج ہوا کہ انسان خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقے کی سوچ "ہم دو ہمارے دو” تک محدود ہو کر رہ گئی،اس کی زندگی کی بھاگ دوڑ صرف اور صرف اپنے اور اپنی بیوی اور بچے کے لئے ہےـ اس کے والدین سکنڈ پارٹی اور بھائی بہن تھرڈ پارٹی کے زمرے میں آ گئےـ سماج کے دوسرے لوگ کن مسائل سے دوچار ہیں ان کی مادی یا اخلاقی مدد ہمدردی بھائی چارگی solidarity اس کی Things To Do نوٹ میں کہیں بھی نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کو اس وقت بہت غصہ آتا ہے جب اخبار میں یا ٹی وی پر کسی جگہ اندوہناک حادثہ کی تفصیل ہوتی ہے،ان کی سوچ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے گھر گرہستی میں لگا ہے، ایسے میں اس طرح کے حادثات کو سامنے لانے سے ان کا سکون متاثر ہوتا ہے،ستر اور اسی کی دہائی میں دو طرح کی فلمیں بنتی تهیں ؛ آرٹ مووی اور کمرشییل مووی،مذکورہ بالا لوگ آرٹ مووی کو انٹلکچول لوگوں کی ذہنی عیاشی کہتے تھے اور بالکل پسند نہیں کرتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ فلم کا مقصد اور اس کے مواد کا تعلق صرف انٹرٹینمنٹ سے ہونا چاہیےـ یہ سب بکواس ہے کہ ادب فلم ڈرامے معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں،
جب انسان پر اس کا ذاتی مفاد اور منفعت و مضرت اس قدر حاوی ہوجائے گا تو اس سے انسانی حمیت اور غیرت کی امید بے سود ہے،
سواد اعظم کا یہی حال ہے لیکن قیامت کی گھڑی میں ابهی شاید کچھ وقت باقی ہے، اس لئے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے گرچہ خال خال ہی سہی،کہیں سالیڈریٹی تو کہیں ہیومن رائٹس تو کہیں حق کی آواز میں آواز ملانے کی جرأت یا کسی اور نام سے ایسے لوگ سامنے آرہے ہیں،جو مظلوموں کی آواز بن کر ابھر رہے ہیں، ایسے لوگوں نے بلا امتیاز مذہب رنگ و نسل ، ذات برادری اور علاقہ خدمتِ انسانیت کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے. گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی دین ہے کہ انسانی ہمدردی ، انصاف پسندی اور حق کی حمایت کی خاطر آج شاہین باغ طرز کا احتجاج نہ صرف ہندوستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہو رہا ہے بلکہ مہذب دنیا کے مختلف شہروں میں اور امریکی سینیٹ( پارلیمنٹ) سے لے کر یوروپین یونین کے پارلیمنٹ میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔