حکومت کی طرف سے جاری کردہ نئی تعلیمی پالیسی میں یوں تو تشویش کی کئی باتیں ہیں لیکن آج ہم صرف اردو کی بات کریں گے۔ یہ نئی تعلیمی پالیسی منظر عام پر آنے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے اس نئے نظام میں ایسا انتظام کیا ہے کہ اگلے دس سالوں میں اردو ختم ہو جائے گی، بات صحیح ہے لیکن موجودہ حکومت سے اردو کیلئے خیر کی امید رکھنا خود کو دھوکا دینا ہے، یوں بھی آزادی کے بعد کونسی مرکزی حکومت نے اردو کے ساتھ اچھا سلوک کیا، کس حکومت نے اردو کے فروغ اور ترقی کیلئے کوئی سنجیدہ پالیسی بنائی یا اردو میڈیم اسکول قائم کئے، سبھی نے اپنے اپنے انداز میں اس زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی اس لئے اس حکومت سے امید رکھنا تو اور بھی حماقت ہے:
ستمگر تجھ سے امید وفا ہوگی جسے ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تو ظالم کہاں تک ہے
حکومت کی طرف سے اردو کو ختم کرنے کی کوشش نہ تو غیر متوقع ہے اور نہ یہ پہلی بار ہوئی ہے اس لئے اس اقدام پر تعجب کی کوئی بات نہیں بلکہ تعجب اور افسوس تو اس بات پر ہے کہ حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کا ماتم وہ قوم اور اس قوم کے ذمہ دار افراد کر رہے ہیں جنہوں نے دس سال نہیں، بیس سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے اردو کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا، اپنے اسکولوں میں اردو کی تعلیم دینا بند کر دی تھی، اپنے روز مرہ کے کام کاج، خط و کتابت اور شادی بیاہ کے دعوت ناموں اور کارڈز تک میں اردو کا نام و نشان مٹا دیا تھا۔
بات بہت طویل اور موضوع بہت حساس اور تکلیف دہ ہے لیکن میں اس تحریر میں صرف دو نکات پر بات کروں گا۔اردو کی بقا و ترقی کیلئے دو باتیں اہم ہیں ۔
(۱)حکومت کی سرپرستی اور تعاون
جہاں تک حکومت کا معاملہ ہے تو اس کی سردمہری اور اردو زبان سے دشمنی واضح طور پر معلوم ہونے کے باوجود ہمیں ہر حال میں ہر مناسب طریقہ اور ممکنہ مؤثر انداز میں یہ کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ حکومت اردو کو اس کا حق دے، امید اگرچہ کتنی بھی کم ہو لیکن بند دروازے پر بھی دستک دیتے رہنا زندگی کی علامت ہے اور اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ بھی متوقع ہوتا ہے، مایوس ہو کر بیٹھ جانا تو اپنے حق سے دستبردار ہو جانا ہے، مایوسی اور ماتم سے کبھی کامیابی نہیں ملتی۔
(۲) دوسرے اردو زبان کے ساتھ خود اردو سے محبت کرنے کا دعوی کرنے والوں کا سلوک
اس سلسلے میں دنیا بھر کے تجربات کی روشنی میں یہ بات یقینی ہے کہ اردو کو حکومت کی سرپرستی بھلے ہی نا ملے اور حکومت اردو کے ساتھ کتنا بھی تعصب روا رکھے لیکن اگر ہم نے اپنے بچوں کے ذریعہ اپنے گھر میں اور اپنے نجی تعلیمی اداروں میں اردو کو زندہ رکھنے کا سو فیصد فیصلہ کر لیا تو کوئی حکومت ہماری زبان کو ختم نہیں کر سکتی اس کیلئے ہمارے سامنے بہت واضح مثال ہندی زبان کی موجود ہے۔ آج ہندستان میں پچھلے ستر سالوں میں جتنے برے حالات اردو کیلئے حکومت کی طرف سے پیدا کئے جا رہے ہیں اس سے ملتے جلتے حالات ہندی زبان پر سات سو سال سے بھی زیادہ تک رہے۔ مغلیہ دور حکومت اور انگریزوں کے دور میں کبھی بھی ہندی سرکاری زبان نہیں رہی نہ اس کو حکومت کی سرپرستی اور خاص مراعات حاصل رہیں لیکن ہندوؤں نے اپنی زبان کو اپنے گھروں میں اپنی دھرم شالاؤں میں اور اپنے بچوں کے دل و دماغ میں زندہ رکھا، اردو کو سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرح ہی سیکھا، اردو کے بڑے بڑے ادیب اور شعراء پیدا کئے جنہوں نے اردو کو سینے سے لگایا اور اس کی ہر ممکن خدمت کی لیکن ہندی کو نہیں بھولے اور اپنی ہر آنے والی نسل کو بتاتے رہے کہ ہماری زبان ہندی ہے، اس زبان کو اسکول کالجوں اور مدرسوں میں جگہ نہیں ملی لیکن انہوں نے اس کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا، دلوں سے نہیں نکالا پھر جب وقت نے موقع دیا تو ہندی کو سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ اور ہم ؟ ہم تو ستر سالوں میں ہی اپنی زبان کو بھول گئے، بچوں کو پڑھانی چھوڑ دی، گھریلو کام کاج اردو کے بجائے ہندی میں کرنے لگے، علماء تک کے گھروں پر اردو کے بجائے ہندی انگریزی کی تختیاں لگنے لگیں، مسجدوں کے دروازوں پر اردو کی جگہ ہندی میں لکھا جانے لگا۔
کسی بھی شہر میں مسلم محلوں کو دیکھ لیجئے کتنے گھروں پر اردو میں نیم پلیٹ لگی ہوئی ہیں؟ اکثر جگہوں پر تو شائد پورا مسلم محلہ مسجد سمیت ایسا ملے گا جہاں آپ کو اردو میں ایک بھی نام ایک بھی بورڈ نظر نہیں آئے گا، انہیں کون سی حکومت نے روکا ہے؟ ہندستان بھر میں جہاں جہاں میں گیا ہوں مجھے ایک چھوٹے سے شہر بھٹکل کے علاوہ اور کوئی شہر قصبہ ایسا نہیں ملا جہاں مجموعی طور پر مکانوں پر اردو میں نام لکھنے کا رواج ہو۔ کرناٹک کی سرکاری زبان حالاں کہ نائطی یا کنڑ ہے لیکن اہل بھٹکل کی ملی حمیت کو سلام کہ شاید مسلمانوں کا کوئی گھر ایسا ہو جس پر اردو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھا ہوا ہو ، پورے ملک کو دیکھیں تو اگرچہ یہ تناسب دریا میں قطرے کے برابر ہے لیکن بہرحال یہ پورے ملک کے مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ اور مثال ہے جس پر بآسانی عمل کیا جا سکتا ہے۔
فضائل اعمال جیسی کثرت سے پڑھی جانے والی اور دیگر دینی کتابیں پوری نسل (مدارس کے علاوہ) اردو میں پڑھ رہی ہے جن میں تلفظ کی بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں اور ہم جان بوجھ کر یہ گوارہ کرتے ہیں کیوں کہ ہم بے حس ہو چکے ہیں اور ہماری بے حسی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہمارے بعض دانشور ایک مدت سے یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے اور الفاظ (تلفظ) تو اردو کا ہی رکھیں لیکن اسے ہندی (دیوناگری) رسم الخط میں لکھا جائے، میرے خیال میں اردو کو ذبح کرکے مکمل طور پر دفن کرنے کی اس سے آسان ترکیب اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہماری دینی کتابوں اور شادی بیاہ کے تمام کارڈز میں اس کا باقاعدہ رواج بھی شروع ہو گیا ہے۔ کوئی بھی زبان اپنے رسم الخط سے ہی زندہ رہتی ہے رسم الخط کے ختم ہوتے ہی زبان خود بخود دفن ہو جاتی ہے اور افسوس کہ اردو کی تدفین کا یہ کام ہم خود ہی انجام دے رہے ہیں کسی حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ محترم جناب ڈاکٹر ایس یو خان صاحب (مظفرنگر) نے کئی سال پہلے ایک واقعہ سنایا جو ایک لطیفہ بھی ہے اور نصیحت بھی کہ ہم لوگ دہلی گئے ہوئے تھے وہاں مولانا وحید الدین خانصاحب (مدیر الرسالہ) سے بھی ملنے چلے گئے، دوران گفتگو مولانا وحید الدین خانصاحب نے کہا کہ مسلمانوں کو اردو رسم الخط ختم کرکے ہندی (دیوناگری) رسم الخط اپنا لینا چاہئے، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مولانا کے بڑے سے کمرے میں اردو کی ہزاروں کتابیں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں، میں نے ان کتابوں پر یونہی سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا! آپ کو اپنی زندگی میں ہی اس کتبخانہ کی یہ ساری کتابیں کسی کباڑی کو بیچ دینی چاہئے ابھی تو ٹھیک داموں میں چلی جائیں گی بعد میں شاید ان کی مناسب قیمت نہ ملے، وہ بڑی حیرت سے برہم سے ہوکر بولے کیا مطلب؟ میں نے عرض کیا جب اردو کا رسم الخط ہی ختم ہو جائے گا تو ان کتابوں کو پڑھنے والا کون ملے گا؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے، کوئی جواب نہیں دیا۔
ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنے نجی اسکولوں میں کم از کم آٹھویں کلاس تک اردو لازمی کر دیں اور اس کے امتحان میں کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے۔ اگر ہمارے بچے ایسے اسکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی تو گھر پر ہی ان کو اردو پڑھانے کا انتظام کرا دیا جائے آخر دوسرے مضامین اور زبانوں کے لئے بھی تو ہم ٹیوشن لگاتے ہیں، اپنی زبان اور اپنی تہذیب کی حفاظت کیلئے اتنا تو کر ہی لیں اگر ہم ان سب باتوں کا خیال رکھتے تو اردو دینی مدارس میں قلعہ بند ہونے پر مجبور نا ہوتی، آج مدارس کے علاوہ کہاں اردو کو عزت مل رہی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ حکومت کو کوسنے سے پہلے اپنے حصہ کا کام تو کریں۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مجھے ایک درخواست اپنے مدارس کے علماء کرام سے بھی کرنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس اسلامیہ اردو کا آخری حصار یا دفاعی قلعے ہیں لیکن ہم نئی نسل کو کس طرح کی اردو سکھا رہے ہیں اس سے اردو زبان کا بھلا نہیں ہو سکتا، ہمیں وہ سادہ سلیس اردو سکھانی ہے جسے عام آدمی سمجھ سکے، وہ اردو نہیں جسے کچھ لوگ اپنے علم و قابلیت کے زعم میں اپنی لفاظی کی نمائش کا ذریعہ بناتے ہیں۔ میں نے بچوں کو تقریر سکھانے کے لئے مصنوعی تقریروں کی ایسی بیسیوں کتابیں دیکھی ہیں جن میں اردو کے نام پر الفاظ کا بیجا استعمال، بے تکی لفاظیت اور بے ضرورت القاب و آداب کی بھرمار ہے، زبان بھی ایسی کہ سماعت پر بوجھ اور دل و دماغ قبول کرنے سے گریزاں۔ ایسی اردو زبان رٹ کر آدمی جب عملی میدان میں جائے گا تو کیا فائدہ ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)