نئی دہلی:آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اتر پردیش حکومت کونشانہ بنایاہے۔یوپی پولیس کے انکائونٹر کی پالیسی پرسوال اٹھاتے ہوئے اویسی نے کہاہے کہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے انکائونٹر کے قواعد اور عمل میں تبدیلی کی ہے۔یوگی حکومت پرالزام لگاتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہاہے کہ یہ صرف ایک رسمی حیثیت نہیں ہے۔ہمیں ظالم حکومت سے بچانے کے لیے یہ بہت ہی بنیادی بات ہے۔ پولیس کوکسی کوسزادینے کااختیارنہیں ہے۔ یوپی میں بغیرکسی ثبوت کے انکاؤنٹر ہوتا ہے۔اسدالدین اویسی نے کہاہے کہ متعدد واقعات میں انکائونٹر سے متاثر افراد کے اہل خانہ پولیس کے خوف سے واقعے کو چیلینج کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ کچھ مثالوں میں یوپی پولیس نے مبینہ طور پر متاثر افراد کے گھرانوں کوبرباد کرنے سمیت متاثر افراد کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی کی ہے۔ یوپی پولیس کو نشانہ بناتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہاہے کہ یوپی پولیس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ اورذات پات کا ادارہ کیسے بن گیاہے۔ یوپی پولیس ہندوتواکے اپنے نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے یوگی حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ، مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد مجرموں کے جرم کے خلاف یہ مہم چلائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ریاست میں مجرموں اورپولیس کے مابین متعددانکائونٹرزہوئے ہیں جن میں 14 ہزار سے زیادہ مجرموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس انکاؤنٹر میں اب تک2300 سے زیادہ ملزم اور900 سے زائدپولیس اہلکارزخمی ہوئے ہیں۔ مجرموں سے محاذآرائی کرتے ہوئے 13 پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں جب کہ پولیس انکائونٹر میں اب تک 124 مجرم ہلاک ہوچکے ہیں۔ اگر ان مجرموں کی ذات پات کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو 47 اقلیتیں ، 11 برہمن ، 8 یادو اور بقیہ 58 مجرموں میں ٹھاکر ، پسماندہ اور نامعلوم ذات / قبیلے کے مجرم شامل ہیں۔
Up police
کوورانٹین سے بھاگنے پر 3 سال اور ہیلتھ ورکرس کے حملے پر 7 سال تک کی ہوگی جیل
لکھنؤ:
کورونا وائرل مہاماری کے درمیان اتر پردیش میں یوگی کابینہ نے آج کورونا وائرس کے جانبازوںکو لے کر آرڈیننس پاس کر دیا ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں اتر پردیش صحت عامہ اور مہاماری وبا کنٹرول آرڈیننس2020میں صحت، صفائی اور سیکورٹی اہلکاروں کو لے کر سخت قانون بنائے گئے ہیں۔یوپی میں اگر کوئی کورونا کا مریض جان بوجھ کر پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتا ہے تو اسے ایک سے تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔کووارنٹین سینٹر سے فرار لوگوںکو بھی اتنی ہی سزا اور 1 لاکھ تک کا جرمانہ لگ سکتا ہے۔نئے قانون کے مطابق ہیلتھ ورکرس تمام پیرامیڈیکل اسٹاف، پولیس اہلکاروں اور حفظان صحت کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے تعینات کسی بھی کورونا واریئرسے کی گئی بدتمیزی یا حملے پر چھ ماہ سے لے کر سات سال تک کی سزا کا قانون ہے۔ اتنا ہی نہیں 50 ہزار سے لے کر 5 لاکھ تک کے جرمانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ڈاکٹروں، صفائی اہلکاروں، پولیس اہلکاروں اور کسی بھی کورونا جانبازوںپر تھوکنے یا گندگی پھینکنے پر اور آئیسولیشن توڑنے پر بھی ہوگی اس قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔میڈیکل اسٹاف کے خلاف گروپ کو اکسانے یا بھڑکانے پر بھی نئے قانون کے تحت سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے لئے دو سے پانچ سال تک کی سزا اور پچاس ہزار سے 2 لاکھ تک کے جرمانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔نئے قوانین کے مطابق وزیر اعلی کی صدارت میں ایک صوبہ وبا کنٹرول اتھارٹی بنے گا، جس میں مرکزی سیکرٹری سمیت سات دیگر افسران رکن ہوں گے۔ تین رکنی ضلع وبا کنٹرول اتھارٹی ہوگی، جس کا صدر ڈی ایم ہوگا۔
مرادآباد معاملے میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں، آپ نے صرف کانچ ٹوٹی ہوئی گاڑیاں دیکھی ہوں گی، دونوں رخ ملا کر مکمل تصویر بنتی ہے ـ
مرادآباد میں جو کچھ ہوا وہ کہانی یوں شروع ہوتی ہےکہ محلہ پیر زادہ کے براوالان میں رہنے والے سبحان کے صاحبزادے امداد، تھانہ کٹگھر کے دائرے میں آنے والے ڈپٹی صاحب کے مندر کے قریب واقع عارف ذاکر کی دوکان سے راشن لینے گئے، لیکن امداد کا دو مہینے پہلے دل آپریشن ہوا تھا اسلئے وہ نہ تو وزن اٹھانے کے قابل ہے اور نہ ہی زیادہ دیر تک لائن میں کھڑا رہ سکتا تھا، اسی لئے وہ اپنی دس سالہ بیٹی کو ساتھ لے گیا تھا، مگر راشن والے نے والے نے اسے یہ کہتے ہوئے راشن دینے سے منع کردیا کہ آپ کل آنا آج آپ کو راشن نہیں ملے گا، مایوس ہوکر امداد گھر لوٹ ہی رہا تھا کہ کٹگھر تھانہ کے دو پولیس اہلکار بیمار امداد اور ر اسکی دس سالہ بیٹی پر ٹوٹ پڑے او اس قدر مارا کہ امداد کے سر سے خون بھی رسنے لگا بچی بھی بے سدھ ہوگئی، ان دونوں تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے، باپ اور بیٹی کے زخموں اور چوٹ کے نشانات پولیس کی بربریت کا بین ثبوت ہیں ـ
لاک ڈاؤن میں کیا پولیس کو یہ اختیار ہے کہ وہ بغیر سبب جانے سرکاری وردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسقدر بے رحمی سے کسی شہری کی پٹائی کرے؟
اس واقعے سے لوگوں میں پولیس کے خلاف غصہ تھا ہی، اسی کے ساتھ ڈاکٹروں کی ٹیم، پولیس انتظامیہ اور محلہ نواب پورہ والوں کے درمیان کل سے جاری اس اختلاف سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر انتظامیہ حالات خراب کرنا چاہتی تھی ـ
بتایا جارہا ہے کہ 15 روز پہلے ایک شخص کو کرونا کے شک میں آئسولیٹ کیا گیا جبکہ اس میں کرونا کی کوئی علامات نہیں تھیں، اسپتال میں مریض سے ملنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی اسلئے گھر والوں نے بھی چودہ دنوں تک ڈاکٹروں کو پریشان نہیں کیا بلکہ پندرہویں دن فون کرکے خیریت دریافت کی تو ڈاکٹروں کی جانب سے جواب ملا کہ آپکے مریض کا انتقال چھتیس گھنٹے پہلے ہو چکا ہے، یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ لاش طلب کرنے پر ڈاکٹروں نے کہا کہ اسپتال کی جانب سے انتم سنسکار کردیا گیا ہے، اہل خانہ کو تدفین کے لئے میت نہیں دی گئی، اس رویہ پر جب ڈاکٹروں سے سوال کیا گیا تو بجائے کوئی تسلی بخش جواب دینے کے الٹا اہل خانہ سے بدتمیزی شروع کردی اور دھمکیاں بھی دینے لگے کہ پورے محلہ کو جیل میں بند کرادینگے اور گھر والوں کو کورینٹین کے لئے لے جانے کی ضد شروع کردی اسپر گھر والوں نے کہا کہ آپ ہمیں ہمارے گھر میں ہی بند کردیں اور سمپل لے جائیں، ہم بیٹیوں کو اکیلے نہیں بھیج سکتے، اور ابھی گھر میں غم سے نڈھال جو بیوہ ہے اسے بھی تنہا نہیں کرسکتے ہیں، ہمارے مریض کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہمیں اس کا گہرا صدمہ ہے، ہم لوگ کہیں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اگر ہماری رپورٹس پازیٹو آتی ہے تو ہم خود ہی خود کو آپ کے حوالے کردیں گے، آپ جہاں چاہیں ٹرانسفر کردیں لیکن ڈاکٹر نہیں مانے اور بدتمیزی شروع کردی، اس پر محلہ والوں نے کہا کہ ہم پہلے اعلی افسران سے بات کریں گے اسکے بعد بھیجیں گے لیکن ڈاکٹروں کی ٹیم اس پر بھی راضی نہیں ہوئی، بلکہ پولیس اور ڈاکٹروں نے بدتمیزی اور دھکا دینا شروع کردیا، محلے کے بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی دوران محلہ کے گھوسی سماج کے لوگوں نے پتھر بازی شروع کردی، اور معاملہ بڑھ گیا، یوں ادھوری تصویر مکمل ہوگئی
اور وہی ہوا جو کچھ لوگ کروانا چاہتے تھے، تاکہ لاک ڈاؤن توڑ کر ممبئی کے باندرہ ٹرمینل پر مزدوروں کی جمع بھیڑ کی خبروں کے سبب مودی سرکار پہ اٹھنے والے سوالوں سے عوام کا ذہن ہٹانے کے لئے میڈیا کو مصالح مل جائے، میڈیا کو مصالحہ مل گیا اور علاقہ پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا،اب وہاں خوف اور وحشت کا ڈیرہ ہے، ڈرے سہمے مسلمانوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر رشتہ داروں کے یہاں پناہ لی ہے، انہیں یہ ڈر ہے کہ پولیس گرفتار کرکے جیل میں ڈالے گی یا کرونا کے نام پر کہیں آئسولیٹ کر دےگی جہاں انکا کوئی پرسان حال نہیں ہوگاـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اترپردیش میں یوگی حکومت نے آتنک مچا رکھا ہے اور پورے زوروشور سے مسلم تنظیموں اور اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سی اے اے ، این پی آر، اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب پر عیاں ہے، کس طرح یوپی پولیس نے حکومت کی شہ پر لوگوں پر قہر ڈھایا اور ان پر گولیاں برسائیں یہ کسی سے مخفی نہیں، کس طرح رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس کر پوڑھوں بچوں اور عورتوں کو نہ صرف پیٹا گیا بلکہ ان کے بیش قیمتی مال وزر کو بھی لوٹا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس احتجاج میں لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ، اس کے باوجود طرفہ تماشہ دیکھئے کہ جگہ جگہ چوراہوں اور سڑکوں پر فوٹو کے ساتھ ان احتجاجیوں کے ہی ہورڈنگ لگائے گئے جن کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی نذرِ زنداں بھی کیا گیا اور جیل میں انہی کو پیٹا گیا اور ان کے ساتھ تشدد برتا گیا، نقصانات کی بھرپائی کے لئے حکومت اس قدر جلد بازی میں دکھی کہ مُردوں تک کو بھی نوٹس تھما دیا گیا۔
سی اے اے جیسے کالا قانون کی مخالفت میں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پہ بیٹھی خواتین پر بھی ہر ظلم روا رکھا گیا ، حکومت نے اپنی طرف سے پوری زور زبردستی کی کہ گھنٹہ گھر کے احتجاج کو ختم کردیا جائے ، اس ظالم حکومت نے کئی خواتین پر فرضی مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل بھی بھیجا لیکن وہ ان ماؤں اور بہنوں کا حوصلہ توڑنے میں مکمل ناکام رہی اور انہوں نے حکومت کو بتا دیا کہ:
چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے ہوا کا رخ بدلنا آگیا ہے
کہاں تک آگ برسائے گا سورج ہمیں شعلوں پہ چلنا آگیا ہے
ڈاکٹر کفیل کو ضمانت ملنے کے بعد ان پر این ایس اے لگا کر تین مہینے کے لئے واپس جیل بھیج دیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کو بے دردی سے مارا گیا اور پولیس محکمہ کو مکمل چھوٹ دی گئی کہ وہ جیسا چاہیں ظلم روا رکھیں، پولیس نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں، جس سے سیکڑوں طلبازخمی ہوگئے اور اس میں سے کچھ طلبازندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔
حکومت کے ظلم و زیادتی کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اجے بشٹ حکومت نے نیپال سے متصل اتر پردیش کے سرحدی اضلاع بہرائچ، شراوستی، سدھارتھ نگر، بلرامپور، سنت کبیر نگر، مہراج گنج اور گورکھپور کی ۲۵۷ مساجد و مدارس کی لسٹ ٹیرر فنڈنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں کو دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پوری تفصیل کھنگال کر یہ پتہ لگایا جائے کہ ان سارے اداروں اور مساجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں ؟ اور کون کون اس میں فنڈنگ کر رہا ہے ؟ یا کن کن ملکوں سے اس میں پیسہ آرہا ہے ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان اداروں کی ایکٹویٹیز کیا ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ فرمان اس کی مسلم دشمنی کو درشاتا ہے، یاد رہے یہ وہی یوگی ہے جس نے کہا تھا کہ مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبرستان سے نکال کر ان کے ساتھ ریپ کیا جائے، آپ اس کے اس بیان سے اس کی ذہنی خباثت کا اندازہ لگاسکتے ہیں،جس کے اندر اس حد تک مسلمانوں سے بغض اور عداوت موجود ہو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
وقت رہتے اگر ملی تنظیموں اور دیگر جمعیتوں کے ذمے داران نے اس پر دھیان نہیں دیا اور کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ان اداروں اور مساجد کے ذمے داران کے ساتھ ساتھ ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور ان میں مالی تعاون پیش کرنے والے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے اور ان پر ایسے ایسے مقدمات ٹھونک دیے جائیں گے کہ ان کی بقیہ زندگی زندان میں ہی گزر جائےگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی ا ے اے کیخلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد
نئی دہلی: اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعےۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲/جنوری ۰۲۰۲ء کو جمعےۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی۔جمعےۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعےۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد، بجنور میں محمد سلیمان، محمد انس (نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعےۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery))نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعےۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں ریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔
دیوبند (رضوان سلمانی)
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کے لئے اب شاہین باغ ایک مثال بن گیا ہے اور شاہین باغ کی طرز پر ملک کے متعددمقامات اور شہروں میں خواتین اس قانون کی مخالفت میں مظاہرے کررہی ہیں، شاہین باغ کی تقلید کرتے ہوئے انقلابی سرزمین دیوبند کی خواتین بھی بھر پور جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ دیر شام تک جاری رہا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا ۔ قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج دوپہر بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہی ۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور عنبر نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا ، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لئے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔انہو ںنے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔ فرحانہ ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے ، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کررہی ہو۔ انہو ںنے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے ۔ انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیرملکی ہوگئے ، جب کہ صدیوں سے ان کے آبائو اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں ۔ انہیں ہندوستانی ڈٹینشن سینٹر میں جاکر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا ۔ انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم ہندوستانیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر ہندوستانی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی عورتیں بھی آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے ،جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جس کے خلاف ہم آخرتک اپنی آواز بلند کریںگے۔عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آرسی کے خلاف بنے بینر وں وپوسٹر وں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا، خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا،ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کارروائی پر سخت غصہ کااظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طورپر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصور وںکو رہا کرنے کامطالبہ کیا،خاص بات یہ ہے اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ مظاہرہ کے دوران بڑ ی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
لکھنو:اتر پردیش میں مجرموں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ ریاستی حکومت اور انتظامیہ دونوں ان آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ حکمراں پارٹی کے ایم پی اور رکن اسمبلی بھی ریاست کے قانون نظام پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔دریں اثنابھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم پی کوشل کشور نے بھی اتر پردیش کے لاآف آرڈر پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔بھاجپا ایم پی نے کہا کہ پولیس کے منفی رویہ کی وجہ سے لکھنؤ میں جرائم بہت ہورہے ہیں۔موہن لال گنج لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کے ایم پی کوشل کشور نے اتوار (29 دسمبر) کو پولیس کے رویہ پر سوال اٹھاتے ہوئے ٹویٹ کر کے کہاکہ پولیس کے منفی رویہ کی وجہ سے لکھنؤ میں مجرمین بے لگام ہو چکے ہیں،قتل اور لوٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔کوشل کشور کی طرف سے ٹویٹس میں ریاست کے ڈی جی پی، یوپی پولیس اور لکھنؤ پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھنؤ میں جرائم کی بات اٹھائی ہے۔بھاجپا ایم پی کوشل کشور پولیس کے طریقہ کار پر اکثر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔اس سے پہلے 17 دسمبر کو ایک اور ٹویٹ میں ممبر پارلیمنٹ نے لکھا تھاکہ سیتاپور ضلع میں زیادہ تر تھانیداروں کی من مانی کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشان ہونا پڑ رہا ہے،ان لوگوں نے حکومت کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں مجرم بے خوف اور بے لگام ہیں اور بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے ہماری پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔بتا دیں کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب حکمراں پارٹی کے لیڈران اور نمائندوں نے پولیس انتظامیہ کے رویہ پر سوال اٹھائے ہوں۔