لکھنو:ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مستقل آواز اٹھ رہی ہے۔ اترپردیش میں اس سلسلے میں ایک بڑا فیصلہ لیا گیا ہے۔ اب یوپی میں چین میں بنائے گئے بجلی کے میٹر نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ ریاستی صارف کونسل کی شکایت کے بعد لیا گیا ہے۔میٹر کے علاوہ چینی آلات پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوپی کے گورکھپور میں لگائے گئے 15 ہزار چینی میٹروں کو نکال دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی میٹر اور آلات کو استعمال نہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ وزیر توانائی نے جائزہ اجلاس میں ہدایات جاری کئے۔ ابھی تک مرکزی حکومت کے معاہدے کے تحت یوپی میں چین کے بجلی کے آلات استعمال ہورہے تھے، لیکن ریاستی حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ہریانہ حکومت نے چینی کمپنیوں کے معاہدوں کو منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہریانہ میں چینی کمپنیوں کو دیئے گئے 2 تھرمل پاور اسٹیشنوں کے معاہدے منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ یمنا نگر اور حسار تھرمل پلانٹوں کے لئے بیڈنگ ہوئی تھی۔ اس میں 2 کمپنیوں کو 2 تھرمل پاور اسٹیشنوں کے معاہدے ہوئے۔ دونوں کمپنیاں چینی تھیں۔ لیکن اس کے بعد ہریانہ حکومت نے اب ان معاہدوں کو منسوخ کردیا ہے۔ہریانہ کے علاوہ ہندوستانی ریلوے نے بھی چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا۔ 2016 میں چینی کمپنی سے ہندوستانی کمپنی کے ساتھ 471 کروڑ روپے کا معاہدہ ہوا تھا، جس میں اسے 417 کلومیٹر لمبے ریلوے ٹریک پر سگنل سسٹم لگانا تھا۔
up cm
افسران یوگی کے احکامات کوسنجیدگی سے نہیں لیتے،اوریاحادثہ یوپی سرکارکے تغافل کانتیجہ
لکھنؤ:اتر پردیش کے اوریا ضلع میں ہفتے کی صبح ہوئے سڑک حادثہ میں 24 مزدوروں کی موت ہو گئی۔ 36 افراد زخمی ہو گئے۔اس سڑک حادثے کو لے کر سیاسی جماعتوں نے حکومت کوگھیراہے۔ایک طرف جہاں سیاستدان اس واقعہ پر افسوس جتا رہے ہیں وہیں اترپردیش حکومت کواس واقعے کے لیے مجرم بھی ٹھہرا رہے ہیں۔حادثے کو لے کر یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو، سابق وزیراعلیٰ مایاوتی اور کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی ٹوٹ کرکے یوپی کی یوگی حکومت کو جم کر نشانہ بنایاہے۔اکھلیش یادو نے اس واقعہ کے بعدکہاہے کہ خاموشی اختیار کرنے والے لوگ اور ان کے حامی دیکھیں کب تک اس غفلت کومناسب ٹھہراتے ہیں۔ایسے حادثے موت نہیں قتل ہیں۔بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے پورے نظام پر سوال کھڑے کیے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ کل ہی وزیراعلیٰ نے یوپی میں آنے یا ریاست سے گزرنے والے مزدوروں کے کھانے، آنے جانے اور ٹھہرنے کے مناسب انتظامات کے لیے حکام کو ہدایت کی ہے۔یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکام کی طرف سے وزیر اعلیٰ کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑا حادثہ ہوا۔میں وزیراعلیٰ سے ان افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں، جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیاہے۔ اس حادثے میں ہلاک اور زخمی ہوئے لوگوں کے خاندانوں کو مالی مدد دی جانی چاہیے۔میں سوگوار خاندانوں کے تئیں تعزیت کا اظہار کرتی ہوں۔
کوورانٹین سے بھاگنے پر 3 سال اور ہیلتھ ورکرس کے حملے پر 7 سال تک کی ہوگی جیل
لکھنؤ:
کورونا وائرل مہاماری کے درمیان اتر پردیش میں یوگی کابینہ نے آج کورونا وائرس کے جانبازوںکو لے کر آرڈیننس پاس کر دیا ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں اتر پردیش صحت عامہ اور مہاماری وبا کنٹرول آرڈیننس2020میں صحت، صفائی اور سیکورٹی اہلکاروں کو لے کر سخت قانون بنائے گئے ہیں۔یوپی میں اگر کوئی کورونا کا مریض جان بوجھ کر پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتا ہے تو اسے ایک سے تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔کووارنٹین سینٹر سے فرار لوگوںکو بھی اتنی ہی سزا اور 1 لاکھ تک کا جرمانہ لگ سکتا ہے۔نئے قانون کے مطابق ہیلتھ ورکرس تمام پیرامیڈیکل اسٹاف، پولیس اہلکاروں اور حفظان صحت کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے تعینات کسی بھی کورونا واریئرسے کی گئی بدتمیزی یا حملے پر چھ ماہ سے لے کر سات سال تک کی سزا کا قانون ہے۔ اتنا ہی نہیں 50 ہزار سے لے کر 5 لاکھ تک کے جرمانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ڈاکٹروں، صفائی اہلکاروں، پولیس اہلکاروں اور کسی بھی کورونا جانبازوںپر تھوکنے یا گندگی پھینکنے پر اور آئیسولیشن توڑنے پر بھی ہوگی اس قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔میڈیکل اسٹاف کے خلاف گروپ کو اکسانے یا بھڑکانے پر بھی نئے قانون کے تحت سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے لئے دو سے پانچ سال تک کی سزا اور پچاس ہزار سے 2 لاکھ تک کے جرمانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔نئے قوانین کے مطابق وزیر اعلی کی صدارت میں ایک صوبہ وبا کنٹرول اتھارٹی بنے گا، جس میں مرکزی سیکرٹری سمیت سات دیگر افسران رکن ہوں گے۔ تین رکنی ضلع وبا کنٹرول اتھارٹی ہوگی، جس کا صدر ڈی ایم ہوگا۔
لکھنؤ:لاک ڈاؤن کے درمیان پڑ رہے تہوارپر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ آج وائرس جیسی وباسے خودکواورلوگوں کومحفوظ رکھنااہم ہے۔ اس کے لیے مندرمسجد میں جانے کی بجائے عبادت اور نماز گھرمیں اداکی جاسکتی ہے۔سی ایم نے کہاہے کہ ہم نے تمام مذہبی رہنماؤں سے بات کی ہے۔ ان سارے لوگوں نے کہاتھاکہ اس وبا سے بچنا بھی ہے اورلوگوں کومحفوظ بھی کرناہے۔ہم عام طورپرپوجا کے لیے مندر اور نمازکے لیے مسجد جاتے ہیں، لیکن پوجانمازگھرسے بھی اداکی جاسکتی ہے۔ آج جان محفوظ کرناسب سے اہم ہے۔انہوں نے کہاہے کہ نوراتری میں مندرکی بجائے لوگوں نے گھرسے پوجا پاٹھ اور تمام مذہبی رسوم اداکیے تھے۔ ایسے میں ہی ہم نے رمضان کو لے کر بھی کہاہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں سے روزہ نمازکریں۔ اس دوران کوئی عوامی کام نہیں کیے جانے چاہئیں کیونکہ ہمیں سوشل ڈسٹینسنگ پر مکمل طورپرعمل پیراہوناہے۔جب کہ چھٹ پوجااوررام نومی پرمختلف جگہوں پرہجوم ہوالیکن اب تک ان پرکوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔اس پرمیڈیااوروزیراعلیٰ خاموش رہے ہیں۔
یوگی حکومت لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہی ہے ،نتیش کمارنے سخت تنقیدکی
پٹنہ:اترپردیش حکومت نے راجستھان کے کوٹہ میں پھنسے ہوئے ریاست کے ساڑھے سات ہزار سے زیادہ طلبا کو وطن واپس لانے کے لیے کل300 بسیں بھجوائیں جو دیر شام تک کوٹہ پہنچ گئیں۔اوریہ بسیں آج اترپردیش پہونچ گئیں جہاں طلبہ کی اسکریننگ کے بعدانھیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کیاجائے گا۔وزیر اعلی نتیش کمار نے یوپی سے کوٹا جانے والی بس چلانے کی مخالفت کی ہے۔انھوں نے کہاہے کہ یہ لاک ڈاؤن کے قواعد اور مقصد کے خلاف ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔دیکھناہے کہ نتیش کمارجسے لاک ڈائون کی خلاف ورزی بتارہے ہیں،اس خلاف ورزی پریوگی سرکارکے خلاف کیاکارروائی ہوتی ہے۔نتیش کمارنے کہاہے کہ مرکزی حکومت کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ ہم مقامی سطح پر ہی بہار سے باہر رہنے والے لوگوں کی مددکر رہے ہیں۔ یوپی حکومت کے اس فیصلے سے ملک کی دیگرریاستوں پربھی دباؤڈالاجائے گا۔دوسری ریاستوں کے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ اگر یوپی سرکار طلبہ کوٹہ سے بلا رہی ہے تو ہمارے بچوں کو بھی بلایا جائے۔دراصل اسی چیزسے نتیش کمارڈرے ہوئے ہیں۔چوں کہ بہارسرکاراس سے لڑنے میں سب سے کمزورثابت ہوئی ہے جھاں دس لاک میں صرف چوہترٹیسٹ ہورہے ہیں۔بہارکاطبی نظام چوپٹ ہے۔ایسے میں نتیش کمارکی نااہلی پرسب طرف سے سوال اٹھ رہے ہیں۔نتیش کمارنے کہاہے کہ اس کے بعد ٹرینوں اور بسوں کو چلانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔یوپی حکومت کی یہ سرگرمی غلط ہے۔ ایسا کرنے سے ، لاک ڈاؤن کا مقصد ناکام ہوجائے گا۔ اس سے قبل ، بہار حکومت نے مرکزی سیکرٹری داخلہ کو ایک خط لکھا تھا جس میں کوٹہ کے ڈی ایم کے ذریعہ بہار کے بچوں کو واپس بھیجنے کے لیے خصوصی پاس جاری کرنے کی مخالفت کی گئی تھی۔ یوپی اوربہارکے مختلف اضلاع سے آنے والے یہ طلبا کوٹہ میں کوچنگ لے رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بیچ طلباء کی اتنی بڑی تعداد کولانے کے فیصلے پر سیاست بھی چل پڑی ہے۔مایاوتی اوراکھلیش یادونے یوگی حکومت کے فیصلے کوسراہاہے لیکن مزدوروں پربھی توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔جب کہ بہارسرکاراس کی سخت مخالف ہے۔اس نے مرکزی حکومت کوخط بھی لکھاہے۔خودنتیش کمارنے اس پربیان دیاہے،اسی طرح مزدوروں کولے جانے پربھی انھوں نے تنقیدکی تھی۔کوچنگ ہاسٹل میں ایک طالب علم مثبت بھی پایا گیا ہے۔ یہ 13 اپریل کو کوٹہ سے بھرت پورپہنچا۔ اس رپورٹ کے بعد ، اس ہاسٹل میں رہنے والے 11 طلباء کی جانچ کی گئی ہے۔ اسے قرنطینہ بھیج دیاگیاہے۔ جس کی وجہ سے کوٹہ میں رہنے والے یوپی سمیت بیرونی ریاستوں کے طلبا خوف وہراس کے شکارہیں۔ اس سارے معاملے پر،راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے کہاہے کہ اگر یوپی اوردیگرریاستیں تیارہیں تو ان کے طلباکوبھی گھربھیجاجاسکتاہے۔بہارکے چیف سکریٹری نے کہاہے کہ اس اجازت سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے۔اگر طلبہ کو اجازت دی جاتی ہے تو پھر وہ کس بنیاد پر مہاجر مزدوروں کو روک سکتے ہیں۔ راجستھان حکومت طلبا کو دیئے گئے خصوصی اجازت ناموں کو منسوخ کرے۔ ریاستی حکومت اس سے قبل بھی اس کی مخالفت کر چکی ہے۔
بی جے پی کے ریاستی صدر نے کہا ، ان پڑھ لوگوں کی طرح باتیں نہ کریں
لکھنؤ:کورونا وائرس کے انفیکشن سے متعلق ملک میں3 مئی تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیاگیاہے۔ ادھر ، سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ممبئی میں ہزاروں افراد کے سڑکوں پر آنے کے بعد مزدوروں کو واپس لانے کے لیے نوڈل آفیسر کی تقرری کا مطالبہ کیا۔ اس پر ، یوپی بی جے پی کے صدر سواتنترودیو سنگھ نے کہاہے کہ حکومت کو ناخواندہ لوگوں کی طرح بات کرنے کی بجائے ، کرونا کے خلاف جدوجہد میں وزیر اعظم مودی کی شراکت داربننا چاہیے۔ منگل کے روزہزاروں افراد ممبئی کی سڑکوں پر جمع ہوئے اور اپنے گھروں کو واپس جانے کا مطالبہ کیا ،وہ حکومت کے اقدام سے مطمئن نہیں تھے ۔بی جے پی لیڈرنے کہاہے کہ اکھلیش جی ، ناخواندہ لوگوں کی طرح بات نہ کریں ، دیگر ریاستوں میں رہنے والے اترپردیش کے لوگوں کے لیے نوڈل آفیسر پہلے ہی مقرر کردیئے گئے ہیں۔ ان افسروں کی تعدادجاری کردی گئی ہے۔ ہر روزیوپی کے چیف سکریٹری ان عہدیداروں سے بات کرتے ہیں۔ تمام نوڈل افسران ان ریاستوں میں رہنے والے یوپی کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں ، ان کی مددکرتے ہیں۔
اترپردیش میں یوگی حکومت نے آتنک مچا رکھا ہے اور پورے زوروشور سے مسلم تنظیموں اور اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
سی اے اے ، این پی آر، اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سب پر عیاں ہے، کس طرح یوپی پولیس نے حکومت کی شہ پر لوگوں پر قہر ڈھایا اور ان پر گولیاں برسائیں یہ کسی سے مخفی نہیں، کس طرح رات کی تاریکی میں گھروں میں گھس کر پوڑھوں بچوں اور عورتوں کو نہ صرف پیٹا گیا بلکہ ان کے بیش قیمتی مال وزر کو بھی لوٹا گیا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس احتجاج میں لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ، اس کے باوجود طرفہ تماشہ دیکھئے کہ جگہ جگہ چوراہوں اور سڑکوں پر فوٹو کے ساتھ ان احتجاجیوں کے ہی ہورڈنگ لگائے گئے جن کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی نذرِ زنداں بھی کیا گیا اور جیل میں انہی کو پیٹا گیا اور ان کے ساتھ تشدد برتا گیا، نقصانات کی بھرپائی کے لئے حکومت اس قدر جلد بازی میں دکھی کہ مُردوں تک کو بھی نوٹس تھما دیا گیا۔
سی اے اے جیسے کالا قانون کی مخالفت میں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پہ بیٹھی خواتین پر بھی ہر ظلم روا رکھا گیا ، حکومت نے اپنی طرف سے پوری زور زبردستی کی کہ گھنٹہ گھر کے احتجاج کو ختم کردیا جائے ، اس ظالم حکومت نے کئی خواتین پر فرضی مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل بھی بھیجا لیکن وہ ان ماؤں اور بہنوں کا حوصلہ توڑنے میں مکمل ناکام رہی اور انہوں نے حکومت کو بتا دیا کہ:
چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے ہوا کا رخ بدلنا آگیا ہے
کہاں تک آگ برسائے گا سورج ہمیں شعلوں پہ چلنا آگیا ہے
ڈاکٹر کفیل کو ضمانت ملنے کے بعد ان پر این ایس اے لگا کر تین مہینے کے لئے واپس جیل بھیج دیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کو بے دردی سے مارا گیا اور پولیس محکمہ کو مکمل چھوٹ دی گئی کہ وہ جیسا چاہیں ظلم روا رکھیں، پولیس نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں، جس سے سیکڑوں طلبازخمی ہوگئے اور اس میں سے کچھ طلبازندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔
حکومت کے ظلم و زیادتی کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ اجے بشٹ حکومت نے نیپال سے متصل اتر پردیش کے سرحدی اضلاع بہرائچ، شراوستی، سدھارتھ نگر، بلرامپور، سنت کبیر نگر، مہراج گنج اور گورکھپور کی ۲۵۷ مساجد و مدارس کی لسٹ ٹیرر فنڈنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں کو دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پوری تفصیل کھنگال کر یہ پتہ لگایا جائے کہ ان سارے اداروں اور مساجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں ؟ اور کون کون اس میں فنڈنگ کر رہا ہے ؟ یا کن کن ملکوں سے اس میں پیسہ آرہا ہے ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان اداروں کی ایکٹویٹیز کیا ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ فرمان اس کی مسلم دشمنی کو درشاتا ہے، یاد رہے یہ وہی یوگی ہے جس نے کہا تھا کہ مسلم عورتوں کی لاشوں کو قبرستان سے نکال کر ان کے ساتھ ریپ کیا جائے، آپ اس کے اس بیان سے اس کی ذہنی خباثت کا اندازہ لگاسکتے ہیں،جس کے اندر اس حد تک مسلمانوں سے بغض اور عداوت موجود ہو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
وقت رہتے اگر ملی تنظیموں اور دیگر جمعیتوں کے ذمے داران نے اس پر دھیان نہیں دیا اور کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ان اداروں اور مساجد کے ذمے داران کے ساتھ ساتھ ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور ان میں مالی تعاون پیش کرنے والے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے اور ان پر ایسے ایسے مقدمات ٹھونک دیے جائیں گے کہ ان کی بقیہ زندگی زندان میں ہی گزر جائےگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بدھ کو الزام لگایا کہ بی جے پی ریاست کے جرائم سے پاک ہونے کا جھوٹا راگ الاپ رہی ہے۔انہوں ٹویٹ کرکے کہاکہ اتر پردیش کے وزیر اعلی اور وزراء کا اگر بیان بازی سے من بھر گیا ہو تو ذرا زمینی حقیقت پر توجہ دے لیں۔ پرینکا نے کہاکہ پہلے رائے بریلی میں ایک لڑکی کو قتل کرکے جلا دیا گیا اور اب اعظم گڑھ میں ایک لڑکی کو ریپ کر اسے جلا دیا گیا۔یہ زمینی حقیقت ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی اترپردیش کے جرائم سے ہونے کا جھوٹا راگ الاپ رہی ہے۔
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
ٹی وی ایکٹریس جسبیر کور نے یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ کبھی بھی ادتیہ ناتھ کو یوگی نہیں کہتیں۔ ایسے آدمی کو جو ڈھونگی اور مجرم ہو اور جس کی زندگی کا مجرمانہ ریکارڈ ہو اسے یوگی یا جوگی کہنا گناہِ عظیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے سے پہلے کئی مجرمانہ معاملات میں ملوث تھے۔ ان پر جرم و گناہ کے دس بارہ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ اپنے خلاف مقدمات چلنے کی اجازت نہیں دی۔ جس کے خلاف عدالت میں مجرمانہ مقدمات زیر سماعت ہوں ان کو وہی وزیر اعلیٰ بنا سکتا ہے جو خود بڑا مجرم ہو۔ جب ادتیہ ناتھ کو یوپی کی کمان سنبھالنے کیلئے دی گئی اسی وقت لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ اتر پردیش کی حالت کیا ہوسکتی ہے۔ جو خود امن و امان کا دشمن ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ امن و امان بحال رکھے گا صریحاً نادانی ہے۔ آج یوپی جل رہا ہے۔ پوری ریاست میں جنگل راج ہے۔ ادتیہ ناتھ نے اپنے آفیشیل ٹوئیٹر پر ٹوئٹ کیا ہے کہ ”ادتیہ ناتھ جی کی گورنمنٹ کا خوفناک چہرہ دیکھ کر فسادیوں اور امن و امان کے غارت گروں کو سوچنا پڑا کہ یوگی جی کے اقتدار کو چیلنج کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ فسادیوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے وہ پورے ملک کیلئے ایک مثال ہے۔ہر فسادی کو بڑا صدمہ پہنچا اور ہر احتجاجی دم بخود ہوگیا“۔ خود ساختہ یوگی جو مسلمانوں سے اندھی دشمنی کرتا ہے اس کا یہ بیان اس کی حیوانیت کی بھرپور علامت ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ بھی وہ اپنے مخالفین سے دشمنی اور عناد کا حد سے زیادہ مظاہرہ کرتا ہے۔
کانگریسی لیڈر پرینکا گاندھی گزشتہ روز اترپردیش میں مقتولین کے ورثاء کے گھر جب جارہی تھیں تو یوگی کی پولس نے ان کے ساتھ بھی ظلم کو زیادتی کا مظاہرہ کیا۔ بڑی مشکل سے وہ مقتولین کے متعلقین کو تسلی دینے کیلئے پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ پرینکا گاندھی کا بیان ہے کہ راستے میں ان کے ساتھ یوپی پولس نے طرح طرح سے بدسلوکی کی اور راستے بھر میں پولس کی بیجا مخالفت اور ان کی اذیت ہوتی رہی۔ یہ ایک بڑے کانگریسی لیڈر کے ساتھ یوپی پولس کا ظالمانہ سلوک ہے تو عام لوگوں کے ساتھ کیا نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کے ساتھ خودساختہ یوگی کے اشارے پر پولس نے جو ظلم و ستم ڈھایا ہے وہ ایک خونچکاں داستان سے کم نہیں ہے۔ میرٹھ کے ایس پی اکھلیش نرائن کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں مظاہرین کے کالی پٹی باندھنے کو لے کر ان کی ناراضگی اور ظالمانہ لب و لہجہ کو دکھایا گیا ہے۔ راستے میں کچھ لوگ احتجاج کر رہے تھے۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو ایس پی ”پاکستان چلے جاؤ“ کی بات کہتا نظر آیا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ ”کھاتے ہو یہاں کا اور گاتے ہو کہیں اور کا“۔ جب ایس پی سے پوچھا گیا تو اس نے جواب میں کہاکہ یہ الفاظ اس کے منہ سے اس وقت نکلے جب کچھ لوگ پاکستان زندہ آباد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ ایس پی نے اپنے جرم کو چھپانے کیلئے اس طرح کی بات کہی ہے۔ حالانکہ ان کی بدتمیزی اور بدسلوکی کا مظاہرہ پورے طور پر ویڈیو میں قید ہے۔ کسی نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔ یہ پورے طور پر من گھڑت بات ہے جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے، اس لئے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایسے خوفناک اور سنگین ماحول میں آخر کوئی کیوں ایسا نعرہ لگائے گا جبکہ لوگ اپنی شہریت اور ملک اور دستور کو بچانے کیلئے سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں۔
یوپی کی پولس پہلے سے ہی بدنام زمانہ ہے۔ یوگی کے آجانے سے اس کی حیوانیت اور انسانیت سوزی میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں مظاہرے نہ ہوئے ہوں اور پولس کی زیادتی نہ ہوئی ہو۔ یوپی پولس اور اس کے مکھیا کا ظلم پر فخر جتانا کس قدر شرمناک بات ہوسکتی ہے خونخوار انسانوں کو نہ اس کی سمجھ ہوسکتی ہے نہ تمیز ہوسکتی ہے۔ جو لوگ پہلے سے بے شرم اور بدتمیز ہوں اقتدار پانے سے ان کے اندر بے شرمی اور بدتمیزی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پولس یا ایسے لوگوں کے ماتحتین کا حال یہ ہوتا ہے کہ جو مکھیا یا سربراہ باغ کا ایک پیڑ تہس نہس کردیتا ہے تو اس کی پولس سارے باغ کو تہس نہس کردیتی ہے۔ اتر پردیش میں یہی ہورہا ہے۔
مودی مسلم دشمنی اور اسلامی دشمنی کی وجہ سے خوب جانے جاتے ہیں۔ ان کا ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔ یوگی اپنے آقا کو خوش کرنے کیلئے مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں اپنی ترقی دیکھ رہے ہیں۔ یہی حال یوپی پولس کا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی روا رکھے ہوئی ہے تاکہ وہ اپنے مقامی آقا کو خوش کرسکے اور اس کی ترقی ہو۔ اب تک کی خبر کے مطابق دو درجن سے زائد افراد پولس کی گولیوں سے شہید ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ ہزار سے زیادہ لوگ جیلوں میں بند کر دیئے گئے ہیں۔ علی گڑھ کے ایک ہزار طالب علموں کے خلاف ایف آئی آر کیا گیا ہے۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کے گھروں میں جاکر شرپسندوں نے نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ ان کے گھروں کی ہر چیز کو برباد کیا ہے اور ان کو لوٹا اور مارا پیٹا ہے۔ پولس نے مسلمانوں پر ظلم کی حد کردی ہے۔ بغیر کسی قصور کے جوانوں، بوڑھوں یہاں تک کہ کمسن بچوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ اسی ظلم و زیادتی پر یوگی کو ناز ہے اور اپنے ٹوئٹر پر فخریہ انداز سے لکھ رہے ہیں کہ وہ یوپی میں امن و امان بحال کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جو خود امن و امان کا سب سے بڑا دشمن ہے وہ آخر کیسے امن و امان بحال رکھ سکتا ہے؟
یوپی پولس کی غنڈہ گردی اوربدمعاشی اور انکاؤنٹر میں لوگوں کو تہ تیغ کرنا کس قدر خطرناک اور وحشت ناک ہے۔ بلند شہر کے پولس انسپکٹر سبودھ کمار کو بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، ہندو واہنی کے لوگوں نے قتل کیا۔ اور جب قاتل رہا ہوکر جیلوں سے باہر آئے تو یوگی کے لوگوں نے ان کی پذیرائی کی اور پھولوں کا ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا۔ یوپی پولس کو تو مقتول پولس سے سبق لینا چاہئے تھا لیکن ظالم کبھی سبق نہیں لیتا، وہ اپنے جبر و ظلم سے باز نہیں آتا۔ میرٹھ کے مسلمانوں نے 6 لاکھ روپئے بطور معاوضہ سرکاری خزانے میں جمع کیا ہے۔ یوگی کی یووا باہنی نے بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری جائیدادوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ آخر ان لوگوں کو یوگی کب معاوضے کے طور پر رقمیں جمع کرنے کا حکم دیں گے؟ میرٹھ یا کسی بھی شہر میں جو مظاہرے ہوئے وہ مظاہرے کو بدنام کرنے کیلئے شرپسند عناصر نے تشدد کا سہارا لیا اور اسے مسلمانوں کے سر مونڈھ دیا گیا۔ اس وقت ضروری ہے کہ حقوقِ انسانی کی تنظیمیں یوپی پولس کے خلاف اور یوگی کے خلاف عدالتی انکوائری کا مطالبہ کریں۔ ممکن ہو تو ظالموں کے خلاف ایف آئی آر کرکے مقدمہ دائر کریں۔ اتر پردیش کی حالت انتہائی خراب ہے۔ مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر حقوق انسانی کی تنظیمیں اپنا کام نہ کریں تو مسلم تنظیموں کو مظلوم مسلمانوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قانونی راحت کے ساتھ ساتھ مالی تعاون بھی دینے کی ضرورت ہے تاکہ جو مالی طور پر لٹ گئے ہیں وہ اپنی زندگی کی شروعات پھر سے کرسکنے کے قابل ہوسکیں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068