پرسوں ایک صاحب میرے مہمان ہوئے۔ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لیکن ذرا بے تکلفی سی ہے۔ آنجناب ایک مدرسہ میں استاد ہیں اس لئے میں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس کے تعلیمی نظام پر پڑنے والے اثر کا فسانہ چھیڑ دیا۔ فرمانے لگے ‘کچھ مت پوچھیئے دل شکستہ ہے’۔
میں کہاں ماننے والا تھا اس لئے کریدتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایسے کھلے کہ میں حیران رہ گیا۔ بتانے لگے کہ لاک ڈاؤن کے پہلے ہی مہینہ میں مہتمم صاحب نے ہم اساتذہ کو جمع کرکے مالی تنگی کا دکھڑا رویا اور پھر ہمیں یاد دلایا کہ ہم تو اللہ کا کام کر رہے ہیں اس لئے ہر حال میں شکر ادا کرنا ہوگا۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ تعلیمی سلسلہ بند رہنے کے دوران تنخواہ نہیں ملے گی۔
گھر آکر بیگم کو صورتحال سے باخبر کیا تو وہ بے چاری رونے لگی۔ موصوف نے بیوی کو دلاسہ دیا۔ جو کچھ پس انداز کیا تھا اس سے کچھ راشن وغیرہ خرید لائے۔
پہلے لگا تھا کہ لاک ڈاؤن جلد کھل جائے گا اور زندگی معمول پر لوٹ آئے گی لیکن تالابندی بڑھتی ہی چلی گئی۔ ادھر مہتمم صاحب سے رابطہ کرو تو وہ ہر بار پچھلی بار سے زیادہ مالی تنگی کا رونا روتے ایسے میں کچھ کہنے کی ہمت کہاں ہوتی؟۔
جمع جوڑ خرچ ہو گئی، نئی آمدنی تھی نہیں، اب مسئلہ یہ کہ کھائیں کیا؟۔ بیگم نے جھجکتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ راشن وغیرہ بانٹ رہے ہیں وہاں سے مدد لے لیجئے۔ دل پر پتھر رکھ کر مولانا مذکور دو گلی چھوڑ کر واقع ایک امدادی تنظیم کے چھوٹے سے دفتر پہنچے تو وہاں ضرورتمندوں کا ایک جم گھٹ پایا۔ ابھی کچھ سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ ایک نوجوان قریب آکر بولا ‘خیریت حضرت؟ ‘۔ مولانا موصوف کو یہ نوجوان آتے جاتے دعا سلام کرتا تھا۔ انہوں نے نوجوان کی جوابی خیریت پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ سامنے لائن جو لگی ہے یہ راشن ہم ہی لوگ تو بانٹ رہے ہیں۔ مولانا مذکور ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہتے ہوئے الٹے قدم پلٹ آئے۔
بیگم کو ماجرا سنایا تو بولیں اچھا کیا۔ گھر میں چولہا تو جلنا تھا اس لئے پھر گھر سے نکلے اور ایک شناسا دوکاندار سے کافی دیر باتیں کرنے کے بعد ادھار سودا ملنے کے بارے میں پوچھا۔ اس نیک دل نے خندہ پیشانی سے وہ سب سامان باندھ دیا جو جو مولانا نے بتایا۔ کچھ وقتوں کا آسرا تو ہو گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟۔ مولانا موصوف نے مہتمم صاحب کو فون ملایا اور ساری پریشانیاں ذکر کیں۔ ادھر سے حضرت ساری باتیں سنتے رہے پھر فرمایا ‘حالات آپ دیکھ ہی رہے ہیں اللہ آپ کی مدد فرمائے’۔
اب صورتحال یہ تھی کہ مولانا موصوف کسی اور ذریعہ معاش کی تلاش میں تھے۔ میں نے جب یہ روداد سنی تو دل پھٹنے لگا۔ کیسا امتحان ہے ایسے سفید پوش علما کا اور کیسے ظالم اور بے رحم ہیں وہ مہتمم جنہوں نے ان لوگوں کو یوں بے آسرا چھوڑ دیا۔
اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ سنیے ، آج صبح فجر کے لیے اٹھا تو نماز کے بعد ہوا خوری کے لیے باہر نکلا ۔ کوڑے والے پر بڑے دنوں بعد نظر پڑی تو سوچا ذرا خیر خیریت پوچھ لوں ، میں نے کہا لمبے عرصے بعد دکھے کہنے لگا نہیں ، میں تو روزانہ آتا ہوں ، بس آپ نہیں دکھتے ، ابھی اس کی باتیں مکمل نہ ہوئی تھیں کہ دیکھا اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ میں نے کہا کیا ہوا سب خیریت تو ؟کہنے لگا کیا بتاؤں ایسے حالات کبھی نہیں آئے ، خدا کسی کو یہ دن نہ دکھائے ، اس پوری مشقت کے مالک چار ہزار روپیے دیتا تھا اب اس نے کہا لاک ڈاؤن کی وجہ سے فلیٹیں خالی پڑی ہیں ، لوگ گھروں کو جا چکے ہیں تو آمدنی ہی نہیں ہوئی ۔ اس لیے ہم تمہیں اب مہینے کے تین ہی ہزار دیں گے ، اوپر سے اس گلی سے کباڑ بھی جمع نہیں ہوتا ، مکان کا کرایہ ، کھانا پینا ، کیا ڈھانپیں اور کیا چھوڑیں ۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے بتایا ،عبد الطیف۔ کہاں سے ہو ؟ بنگال سے ۔ میں تھوڑی دیر چپکا سوچتا رہا ، خدایا دنیا میں کتنا دکھ ہے اور تو نے ہمیں کتنا سکون بخشا ہے اور ہم پھر بھی تیری نا شکری کرتے ہیں۔ میں نے عبد لطیف کو کچھ روپیے دینے چاہے تو اس نے لینے سے صاف انکار کر دیا ۔ میں نے کہا اچھا تم ایسا کرو اس کے بدلے تم میری سیڑھیاں صاف کردو ، اس کے چہرے پر مسکان آگئی ۔ میں بھی الٹے قدم واپس کمرے آگیا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)