نئی دہلی:پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کو سپریم کورٹ سے ہری جھنڈی مل گئی ہے۔کورونا کے پیش نظر سپریم کورٹ نے رتھ یاترا کی شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے۔ عدالت نے کہاہے کہ طاعون کی وبا کے دوران بھی ، رتھ یاترا محدود عقیدت مندوں کے مابین ہوئی ہے ۔آپ کو بتادیں کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے پوری رتھ یاترا پرسریم کورٹ نے خودپابندی لگائی تھی اورتبصرہ کیاتھاکہ بھگوان بھی ہمیں معاف نہیں کریں گے۔لیکن جیسے ہی مرکزی حکومت اوربی جے پی سمیت متعددلوگوں کی طرف سے درخواستیں داخل کی گئیں،عدالت کاموقف بدل گیااوراب مشروط اجازت مل گئی ۔یعنی خودعدالت نے اپنافیصلہ پلٹاہے۔ پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔ پیر کو سپریم کورٹ میں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ اس معاملے میں ، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ایس اے باوڈے نے تین ججوں کی بینچ تشکیل کی۔ اس بنچ میں سی جے آئی ایس اے بووڈے ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس دنیش مہیشوری شامل تھے۔
Supreme court
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے وبا کی وجہ سے ملک میں ابتر ہوتی صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں کوویڈ 19 کے کیسز تین لاکھ 43 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جسٹس آر ایف نریمن نے کہاہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کوویڈ۔19 کی صورتحال بہترنہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ اور بھی خراب ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس پنجاب کے تاجر جگجیت سنگھ چہل کی پیرول سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کیا۔عدالت عظمیٰ نے کہاہے کہ جب کوئی پیرول پر باہر آسکتا ہے تو ، کسی کو بھری جیل میں واپس بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، سپریم کورٹ نے چہل کوپیرول پر رہا کرنے کافیصلہ کیا۔اہم بات یہ ہے کہ جگجیت سنگھ چاہل جگدیش بھولا منشیات کیس کا ملزم ہے۔ملک اور دنیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔منگل کے روز وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد بڑھ کر 3 لاکھ 43 ہزار 90 ہوگئی ہے ۔ اس وقت ، دنیابھرمیں 8 لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثرہیں۔
لاک ڈاؤن میں بینکوں کے سود وصولنے کے خلاف اپیل،سپریم کورٹ نے مرکز اور آربی آئی کو بھیجا نوٹس
نئی دہلی:لاک ڈاؤن کے دوران بینکوں کی جانب سے قرض پر وصول کئے جا رہے سود کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔اس درخواست کو عدالت عظمی نے قبول کر لیا ہے اور مرکز، ریزرو بینک آف انڈیا کو نوٹس جاری کیا ہے۔عرضی میں دعوی کیا گیا کہ جب لاک ڈاؤن کے دوران کسی طرح کی کمائی نہیں ہو رہی ہے، تو پھر لوگ کیسے بینکوں کو سود دیں گے۔دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ ابھی سود وصولنے سے بینکوں نے کچھ وقت کے لئے ڈسکاؤنٹ دیا ہے، پہلے یہ رعایت 31 مئی تک تھی جسے اب بڑھا 31 اگست تک پہنچایا گیا ہے لیکن جب یہ ختم ہو جائے گا تو بینکوں کی جانب سے بقایا سود وصول کیا جائے گا، جو غلط ہے۔سینئر وکیل راجیو دتہ کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ 3 ماہ کو بڑھا کر 6 ماہ کیا گیا،اگر عدالت اس پر کچھ فیصلہ کرتا ہے، تو راحت کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے۔بینک اب تو مجھے راحت دے رہا ہے، لیکن آگے جاکر سزا دینے کی بات بھی کہہ رہا ہے۔سماعت کے بعد عدالت کی جانب سے مرکزی حکومت اورآربی آئی کو نوٹس بھیجاگیا ہے،ساتھ ہی ایک ہفتے میں جواب مانگا گیا ہے۔اس معاملے کی سماعت بھی اب اگلے ہفتے ہی ہوگی۔
سپریم کورٹ نے احتجاج کے عوامی حق کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کرکے ایک طرف جہاں عدل وانصاف کی لاج رکھ لی وہیں دوسری طرف بی جے پی کے اُن بد زبان لیڈروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ رسید کردیا ہے جو CAA, NRC اور NPR کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے تھے اور انہیں وطن دشمن قرار دے رہے تھے۔۔۔۔
لیکن عدالت نے اپنا وہ تبصرہ پھر دوہرایا جو گزشتہ 10 فروری کو اس نے کیا تھا۔۔۔۔ یعنی احتجاج کے لئے عوامی راستہ نہیں روکا جاسکتا۔۔۔۔
عدالت نے مظاہرین سے گفتگو کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل کردی ہے۔۔۔ سنجے ہیگڑے بہت صاف ستھری شبیہ کے حامل سیکولر انسان ہیں ۔۔۔ اگلی سماعت 24 فروری کو ہوگی۔۔۔
عدالت نے دو باتیں اور کہی ہیں :
ان میں سے ایک بات بعینہ وہ ہے جو اس خاکسار نے 2 فروری کو کہی تھی۔۔۔ عدالت نے کہا کہ مظاہرین اپنا پیغام پہنچا چکے اور شاہین باغ کا مظاہرہ بہت دنوں سے جاری ہے۔۔۔۔
عدالت کے مذکورہ بالا دو سطری تبصرہ کو کئی بار پڑھئے۔۔۔ اس کے بین السطور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ اگر جلد نہ سمجھا گیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔ عدالت نے اپنی دوسری بات میں اس کو بھی واضح کردیا ہے۔۔۔
عدالت نے دوسری جو بات کہی ہے وہ ظاہری طور پر کتنی ہی سادہ بات ہو لیکن اپنے معانی ومفہوم کے اعتبار سے وہ بہت تشویشناک ہے۔۔۔ عدالت نے کہا کہ "اگر (ثالثی کی کوشش سے) مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر ہم صورتحال سے نپٹنے کے لئے یہ معاملہ حکام پر چھوڑدیں گے۔۔۔۔”
یہ آخری بات اپنے وسیع تر مفہوم میں انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کردے بصیرت کو جگانا پڑے گا۔۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آرسی) مظاہرے کے دوران بچے کی موت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔بہادری ایوارڈ یافتہ ساتویں کی طالبہ جین گرتن سداورتے نے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کو خط لکھ کرمظاہرے میں معصوم بچوں کو لانے کو لے کر ہدایات دینے کی فریادکی۔بتا دیں کہ قومی دارالحکومت کے شاہین باغ میں شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) کو لے کر گزشتہ سال دسمبر سے ہی مظاہرہ مسلسل جاری ہے۔یہاں مظاہرہ کر رہے ایک خاندان کے 4 ماہ کے بچے کی موت ہو گئی۔ بچے کی موت کی وجہ مسلسل سرد ی میں رہنا بتایا گیا۔بچے کے والد ارشد نے کہاکہ ہم لوگ 29 تاریخ تک احتجاج میں تھے،دھرنا مظاہرہ سے دیر رات ہم واپس آئے اور ہم نے قریب ڈھائی بجے بچے کو دودھ پلایا تھا،جب صبح کے وقت ہم اٹھے تو دیکھا کہ بچہ بالکل خاموش تھا،اس کے بعد ہم فوری طور پر پہلے بٹلہ ہاؤس کلینک لے گئے، لیکن وہاں ہمیں بولا گیا کہ اسے ہولی فیملی ہسپتال لے جاؤ،ہماری اس ہسپتال میں جانے کی حیثیت نہیں تھی، اس لئے ہم بچے کو الشفا ہسپتال لے گئے،وہاں جب ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا کہ بچے کی موت 5 گھنٹے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
گجرات فساد کے 15ملزمین ضمانت پررہا،کورٹ نے روحانی تربیت حاصل کرنے کی ہدایت دی
نئی دہلی: آج سپریم کورٹ نے گودھراسانحے کے بعد گجرات فساد کے پندرہ ملزمان کوضمانت پررہاکردیاہےـ اس فساد میں تینتیس مسلمانوں کوزندہ جلادیاگیاتھاـ نیوزایجنسی آئی اے این ایس کے مطابق چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کی سربراہی والی بنچ نے ان لوگوں کودوگروپوں میں تقسیم کیا، ایک کواندوربھیجاجائے گا اوردوسرے کوجبل پوربھیجاجائےگا، انھیں گجرات میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی ـ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتِ عظمی نے ان لوگوں کوضمانت کی مدت کے دوران سماجی خدمت اورروحانی اعمال واشغال انجام دینے کی ہدایت دی ہے، تاکہ ان کے اندراخلاقی قدریں پھرسے جنم لے سکیں ـ کورٹ نے اندوروجبل پور کی کی ضلع لیگل اتھارٹیزکوہدایت جاری کی ہے کہ وہ کورٹ کو مطلع کرتی رہیں کہ ملزمین ہدایت کے مطابق روحانی وسماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں یانہیں ـ کورٹ نے انھیں یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ان کے لیے ملازمت وغیرہ کابندوبست کروادیں ـ کچھ دنوں بعدریاستی لیگل اتھارٹی رپورٹ فائل کرکے یہ بتائے گی کہ عدالتِ عظمی کی ہدایت کے مطابق یہ ملزمین اپنی زندگی گزاررہے ہیں یانہیں ـ کورٹ نے ان ملزمین کوپچیس پچیس ہزارروپے کے زرِضمانت کے عوض رہاکیاہےـ قابل ذکرہے کہ گجرات ہائی کورٹ نے گجرات فساد کیس میں چودہ لوگوں کورہاکردیاتھا، جبکہ سترہ کو قصوروار قراردیتے ہوئے عمرقیدکی سزاسنائی تھی ـ ان کی اپیلیں سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہیں ـ
اجیت پرکاش شاہ(سابق چیف جسٹس دہلی ہائی کورٹ)
ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ 70 سال بعد ہم لوگ توقع رکھتے ہیں کہ ہندستان کا جشن ایک ریپبلک طور پر منائیں۔ یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ ہم ستر سال بعد بھی دستور کا جشن رسمی طور پر منا رہے ہیں۔ ستر سال کے بعد سپریم کورٹ کی طرف انصاف کیلئے متوجہ ہیں، ستر سال بعد ہندستان کا آئیڈیا تاریخ میں مدغم ہوگیا، ہم لوگ ایک سیاسی بحران سے دوچار ہیں، جس سے شناخت، قومیت اور شہریت تلپٹ ہو رہی ہے۔ آج (26جنوری کو) بدقسمتی سے جشن جمہوریہ منانے کا ہندستان میں یہی مطلب ہوگیا ہے۔
1950ء میں ابتدائی شناخت کی جو شعوری طور پر تعمیر کی گئی تھی اس کا مطلب مذہب، ذات اور زبان کی بنیاد پر ہرگز نہیں تھا۔ ہم لوگوں نے خصوصی طور پر قومی شناخت کو پیش نظر رکھا تھا اور نوآبادیاتی طاقت کے خلاف متحد ہوئے تھے۔ ایک نوآبادیاتی عداوت کے تحت قومیت پہلے بھی او ر بعد میں بھی سادے طور پر ہندستانیت تھی جسے عدم تشدد، امن اور آزادی سے جوڑا جاتا تھا۔ ہر آدمی گاندھی جی کی شخصیت اور رہنمائی کو پسند کرتا تھا۔ ہندستان کی قومیت کا آئیڈیا ہمیشہ اتحادِ شہریت، مبنی بر دستور اور 1955ء کے شہریت ایکٹ پر منحصر تھا۔ قومیت کا آئیڈیا اور شہریت ہمیشہ خطرے کی زد میں تھا۔ ساورکر خاص طور پر انتشار کا جو ہندوتو کے نام پر بیج بونا چاہتے تھے، وہ آج بھی ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ ہندستانی عوام کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے ان کا ویژن ثقافت اور مذہب کے نام پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ساورکر کا تصور ذات اورسنسکرتی کی بنیاد پر ہندو راشٹر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ صرف ہندو ہی اس ملک کے مالک ہیں اور انہی کو اس ملک میں رہنے کا حق ہے۔ ہندو راشٹر کا یہ تصور گمراہ کن اورمکر و فریب پر مبنی تھا اور ناقابل عمل تھا۔ آج تہذیبی، لسانی اورمذہبی طور پر ہم اس غلط تصور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس کے پس منظر میں شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے)، شہریت کا قومی رجسٹر (این آر سی)، قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) یہ سب ایک ڈیزائن ہے، جوہندستانی قانون کے تحت مسلمانوں کو مساوی حقوق سے محروم کرنے کیلئے ہے۔ ایک طرح سے ہندستانی سوسائٹی میں مساوی رکنیت کا نہ ہونا تباہ کن ہے۔ بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سی اے اے ایک ایسا قانون ہے جو ہمسایہ ممالک کے رہنے والوں کو جو مذہبی بنیاد پر ستائے گئے ہیں یا ستائے جارہے ہیں ان کو پناہ دینے کا ذریعہ ہوگا، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر ستائے جانے والوں کی قانون کے تحت مدد کی جاتی ہے تو پھر کیوں مذہبی ایذا رسانی کے شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ ایذا رسانی مذہب کی بنیاد پر تنگ نظری کی علامت ہے۔ وہ بھی صرف مسلم اکثریت والے ممالک ہی کیلئے کیوں اور صرف مسلمان ہی کیوں قصور وار ہیں؟ جبکہ وہ خودمظلوم بھی ہیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے رفیوجیوں کا صرف انتخاب کرنا نا انصافی اور زیادتی ہے۔ دوسرے ممالک میں جو ایذا رسانی شہریوں کو پہنچائی جارہی ہے وہ چشم پوشی کے مترادف ہے۔ یہ سب کچھ ایسا ہی ہورہا ہے جیسے ہٹلر نے جرمنی میں اور مسولینی نے اٹلی میں کیا تھا۔ اور دونوں فسطائی طاقتیں تھیں جو اخلاقی قدروں سے بالکل محروم تھیں۔
اخلاقی قدروں کے بغیر دستور میں درج قانون کھرا نہیں اتر سکتا۔ سیکولرزم اور برابری کا خیال ختم ہوجاتا ہے۔ قانون کے سامنے برابری کے بنیادی حقوق دستور کی دفعہ 14 کے پیش نظر تین چیزوں کی ضروری شرائط ہوتی ہیں۔اشخاص کی درجہ بندی معقولیت پر ہو۔ ریاست کا ظلم و ستم نہ ہو اور بغیر کسی معقول وجہ کے ریاست غیر مساویانہ سلوک نہ کرے۔ یہ تینوں چیزیں دستور میں درج ہیں۔ ’سی اے اے‘ مخصوص ممالک کی ستائی گئی اقلیتوں کیلئے بنایا گیا ہے اور یہ صرف غیر مسلموں کیلئے محدود کرنا غیر معقولیت پر مبنی ہے کیونکہ اسی ملک میں احمدیہ، ہزارس اور شیعہ فرقوں کو مذہبی بنیاد پر ستایا جاتا ہے۔ سی اے اے اس لئے بھی گمراہ کن ہے کہ یہ صرف تین پڑوسی ملکوں کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جن میں اسلام کے سوا کوئی بھی مماثلت نہیں ہے۔ مذہب کی بنیاد پر پناہ دینے کا مستحق ٹھہرانا انتہائی غلط ہے۔ سی اے اے کا سلوک غیر مساویانہ ہے۔ دستورکی دفعہ 14 سے متصادم ہے اور یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ یہاں تک کہ ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ حکمرانی کو تقسیم کرتا ہے اور لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثالی طور پر سارے لوگ احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ حکومت کا ان لوگوں خاموش کرنا یا ان کی تحریک کو کچلنا آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر طلبہ جو دستوری اصولوں کیلئے مشعل بردار ثابت ہوئے ہیں وہ اب تک یقین رکھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی سیکولر اور جمہوری سوسائٹی ہے۔
لیکن ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے جب ہم وزیر داخلہ کی زبان سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے الفاظ سنتے ہیں۔ یہ حاشیہ برداری کے سوا کچھ نہیں ہے اور بغیر سوچے سمجھے طوطے کی رٹ لگانا معلوم ہوتا ہے۔ انحراف اور مخالفت کرنے والوں کو قوم یا ملک دشمن بتانا انتہائی غیر جمہوری عمل ہے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی پیروکاروں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ملک اور سوسائٹی میں انتشار اور نفرت کون پھیلا رہا ہے؟
ان چیزوں سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے اور عدلیہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور عدلیہ سے توقع رکھنا چاہئے کہ وہ توازن کو بحال کرے گی۔ حالانکہ عدالت ترجیحات کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے عدالت سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ عدالت کو توجہ دینا چاہئے عدالت توجہ نہیں دے رہی ہے اور پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ایمرجنسی کے زمانے میں بھی عدلیہ انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی تھی۔ ہم لوگ نہیں جانتے ہیں کہ مستقبل میں کیا کچھ ہونے والا ہے، لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ ہم لوگ سیکولرزم، متحدہ ہندستان کیلئے لڑیں۔ شفافیت اور برابری ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ مختصراً یہ کہ سی اے اے تاریخ کے ڈراؤنے خواب کے سوا کچھ بھی ثابت نہ ہو،تبھی ہندستان مستحکم اور منظم رہ سکے گا۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
سپریم عدلیہ کا فیصلہ شہری ترمیمی قانون کو لے کر کیا ہوگا ، یہ سب کو پتہ تھا، یہ بھی وہ نازک کڑی ہے کہ سپریم عدلیہ کو یہ غور کرنا چاہیے کہ عوام کو اسکے فیصلے پر اعتبار کیوں نہیں ہے ؟ کیا سپریم عدلیہ کسی مذہبی تنظیم یا کسی خاص پارٹی کی سیاست کا حصّہ بن رہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ بھیانک ہےـ اس وقت میرے سامنے عالمی انقلابات کے ساتھ غلام ہندوستان کا وہ صفحہ بھی ہے جب گاندھی اور آزاد جیسے رہنماؤں کی قیادت میں ایک انقلاب بلند ہوا اور انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا،شہریت ترمیمی قانون کا مقدمہ کوئی معمولی مقدمہ نہیں تھا کہ سپریم عدلیہ نے جلد بازی میں اپنا موقف سامنے رکھتے ہوئے نہ ہندوستان کے انقلاب کی آواز سنی ، نہ روس اور فرانس کے انقلاب کا جائزہ لیاـ یہ ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام کا مقد مہ تھا اور اس سے پہلے کہ ہمارے جج صاحبان تاریخی کردار ادا کرتے ، مذہبی اور سیاسی دباؤ کا حصّہ بن گئے، ایک دن قبل امت شاہ نے بیان دیا کہ کانگریس نے ناپاک مذہبی بنیاد پر ملک کا بٹوارہ کرایا تھا،اب ایسا لگتا ہے کہ امت شاہ نہ اس وقت کی تاریخ سے واقف ہیں نہ ان امور سے جو تقسیم کی بنیادی وجہ ثابت ہوئے، یہ بیان اس انتہا پسند رویہ کا مظہر ہے کہ اب پاکستان بننے کے عمل کے بعد ہندوستان کو بھی مخصوص مذہبی رنگ میں شامل ہونا ہوگا اور اسی لئے امت شاہ ترمیمی قانون کو لے کر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں ـ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں 140سے زائد عرضیاں ہونے کے باوجود جو کمزور فیصلہ آیا ہے ، اس فیصلے میں بھی ایک مخصوص سیاست کے مذہبی رنگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کیا سپریم عدلیہ اس بات سے واقف ہے کہ ہندوستان کا ایک بہت بڑا طبقہ اب انصاف کے اس عالیشان مندر کو بھی زعفرانی رنگوں میں دیکھ رہا ہے ؟ دنیا کے کسی بھی انصاف کے مندر کے لئے یہ کوئی نیک شگون نہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ بے بس عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اب وہ انصاف مانگنے کہاں جائیں ؟ اگر انصاف کا دروازہ بند ہے تو پھر انقلاب رہ جاتا ہےـ
اور اب ملک کے عوام بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ـ جب وفادار آر ایس ایس انگریزوں کے پیچھے کھڑی تھی اور ساورکر انگریزی حکومت سے بار بار معافی طلب کر رہے تھے ، یہ صاف ہو گیا تھا کہ ملک کے لئے زعفرانی مشن کی حیثیت کیا ہے ؟ اور آزادی کے بہتر برس بعد اگر مشن قیادت کرتی ہے تو اسکا رجحان کیا ہوگا ؟ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ قیادت کے محض چھ برس گزرنے کے بعد ہی مسلمان گھس پیٹھیوں ( اس میں ملک کے تمام مسلمان شامل ہیں ) کو ملک سے نکال باہر کرنے کی کاروائی کچھ اس حد تک گستاخ ہو جائے گی کہ ایک جمہوری حکومت ( کیونکہ عوام نے منتخب کیا ہے ) آئین ، جمہوریت ، قانون ، انصاف سب کا قتل کر دے گی اور محض دو چہرے آر ایس ایس کی نمائندگی میں پورے ملک کو آگ کی لپٹوں میں جھونک دیں گے اور سپریم عدلیہ جب انصاف کرے گی تو یہ بھول جائے گی کہ اس وقت ملک کے ہر حصّے میں طوفان مچا ہے اور پورے ملک میں انقلاب کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہےـ مجھے روس کے انقلاب کی یاد آ رہی ہے،زار کی حکومت تھی، عوام میں اس کے غیض و غضب کو لے کر غصّہ تھا،پر امن ریلیوں کے ساتھ احتجاج شروع ہوا،شاہی محل کے سامنے ایک پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا گیا،مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ 23 فروری1917ء کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک ختم ہو چکی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ،سفید پوش ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے،زار کا سورج غروب ہواـ
ہندوستانی تاریخ میں جس دن پولیس نے جامعہ میں خون کی ہولی کھیلی ، یہ وہی دن تھا جب شاہین باغ کی عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا . پھر خوریجی اور سارے ہندوستان میں آزادی کے نعروں کے ساتھ انقلاب کی تحریک عورتوں کے ہاتھ میں آ گئی،طلبا تحریک میں قیادت کرنے لگے اور ہر قوم و ملت کے لوگ انقلاب کا حصّہ بن گئےـ
سپریم عدلیہ فرانس کے انقلاب پر بھی غور کر سکتی تھی، کبھی یہی صورت فرانس کی تھی،جب پانی سر سے بلند ہو گیا تو عوام نے غصّے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا جو فرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھا کرتے تھے، فرانس کا انقلاب ہمیں آواز دیتا ہوا نظر آتا ہےـ فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے،اپنا عدالتی نظام تھا،ہر شعبے پر حکومت تھی،عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا،فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دے تھے۔دولت مند تاجر منصبوں اور عہدوں کو خریدتے تھے ۔اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں،جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے، رشوت خوری کا بازار گرم تھا۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا،روزگار ختم کر ڈالے،معیشت کی کمر ٹوٹ گئی،ملک ہزارو ں برس پیچھے چلا گیااور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی،فرانس کابادشاہ پیرس سے بارہ میل دور "ورسائی” کے محل میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔.شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ فرانس بھی دیوالیہ تھا، وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے۔فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے، فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گئی ۔ 14جولائی 1789کا دن انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
یہ افسوسناک ہے کہ سپریم عدلیہ اور بوبڈے نے عالمی تاریخ پر غور کیا نہ ہندوستان کی غلامی کی تاریخ کا مطالعہ کیا، آج ہندوستان جس انقلاب سے گزر رہا ہے ، بوبڈے کی بنچ تاریخی فیصلہ سنا سکتی تھی، ابھی بھی حکومت اور سپریم عدلیہ یہ سمجھتی ہے کہ ہندوستانی انقلاب کی شمع کچھ دنوں میں بجھ جائے گی ، تو اس کی نا سمجھی ہے،یہ انقلاب وہی ہے جو 1947سے پہلے آیاتھاـ اس وقت انگریز تھے اب رنگ بدلے ہوئے فسطائی، فرق کچھ بھی نہیں،پہلے انگریزوں سے ملک کو آزاد کرنا تھا اب فسطائی طاقتوں سے آزاد کرنا ہے،اور اس لئے گلی کوچوں میں ، ہر طرف آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں،سپریم عدلیہ کے پاس ابھی بھی وقت ہے،وہ ملک کے عوام کی نبض کو سمجھے،انصاف کے مندر کا حق ادا کرےاور اس نئی تاریخ کو رقم کرے جس میں فسطائی طاقتوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو، سپریم عدلیہ سے ایسی امید تو کی ہی جا سکتی ہےـ