نئی دہلی:50 دن کے بجائے ایک ہفتہ طویل علامتی موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد پیر سے سپریم کورٹ کھل تو گیا لیکن یہ بات صاف ہوگیا کہ ستمبر تک کمرہ عدالت میں پہلے کی طرح عام سماعت نہیں ہوسکے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلے تین ماہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہی سماعت ہوگی۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت لاک ڈاؤن سے دو روز قبل 23 مارچ کو شروع ہے۔صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ساتھ سپریم کورٹ میں ورچوئل سماعت کا عمل کم از کم ستمبر تک جاری رہے گا۔عدالت کھلنے سے پہلے سپریم کورٹ انتظامیہ نے وکیلوں کو ایک آن لائن معلومات کا سرکلر بھیجا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ جن وکلا کو عدالت میں پیش ہونا ہے ان کے پاس اپنا موبائل، لیپ ٹاپ، پی سی یا آئی پیڈ 4 جی ٹکنالوجی کے ساتھ لائن والا انٹرنیٹ کنکشن ہے،جس میں ڈیٹا ٹرانسفرکی رفتار کم سے کم 2 MB فی سیکنڈ ہو تاکہ صحیح تصویر اور آواز عدالت تک پہنچ سکے۔گرمیوں کی تعطیلات سے قبل سماعت میں آڈیو۔ ویڈیو کی پریشانی سب سے زیادہ سامنے آئی۔
SUPREME COURT OF INDIA
نئی دہلی:تبلیغی جماعت سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے غیر ملکی شہریوں کو ڈیپورٹ کرنے کا حکم دینے سے انکار کردیا ہے۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ مرکزپرمنحصر ہے۔ مرکزی حکومت کو نمائندگی دی جاسکتی ہے ، جس پرحکومت قانون کے مطابق کارروائی کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس میں اگلی سماعت 10 جولائی کو مقرر کردی ہے۔ دریں اثنا حکومت ان کے بارے میں جاری کردہ آرڈر کی کاپی انہیں دے گی۔اس سے قبل مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیاتھاجس میں کہا گیا تھا کہ نظام الدین جانے کے لیے2765 غیر ملکی تبلیغی شہریوں کو بلیک لسٹ کیاگیاہے جس میں تمام لوگوں کا سراغ نہیں لگایاجاسکا ہے۔ حکومت نے کہاہے کہ 1906لک آؤٹ سرکلرجاری کردیئے گئے ہیں جبکہ 11 ریاستوں نے ان کے خلاف لاک ڈاؤن اصولوں کی خلاف ورزی پر 205 ایف آئی آر درج کی ہیں۔ مرکزی حکومت کاکہنا ہے کہ اب تک اس نے ہندوستان کے 9 غیر ملکی شہریوں سمیت 2679 غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کردیئے ہیں۔ اس میں کہاگیاہے کہ 227 غیر ملکی تبلیغی افراد نے آؤٹ سرکولر جاری کرنے یا بلیک لسٹ کرنے کے احکامات جاری کرنے سے پہلے ہندوستان چھوڑدیاتھا۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسی عرضی سماعت کے لئے منظور کی ہے کہ اگرعدالت کافیصلہ اس کے حق میں صادر ہواتو ملک میں فرقہ واریت کا ایک نیا طوفان آجائے گا۔ ہر مسجد اور درگاہ کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے والی سادھوؤں کی تنظیم نے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپنی عرضی کے حق میں جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہیں اور ان کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کا ایک ایسا زہر پھیلانا ہے جس سے مسلمانوں کی کوئی عبادت گاہ محفوظ نہیں رہے گی۔یہ عرضی دراصل 1991کے اس آرڈی نینس کو ختم کرنے کے لئے دائر کی گئی ہے جو عبادت گا ہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آ پ کو یاد ہوگا کہ جب ملک میں بابری مسجد کے خلاف انتہائی شرانگیز مہم چل رہی تھی تو اسی دوران نرسمہا راؤ سرکار نے ایک آرڈی نینس منظور کیا تھا جس کی رو سے ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں تبدیلی کاحق کسی کو نہیں ہوگا۔اس آرڈی نینس کے پاس ہونے کے بعد لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ اب مستقبل میں سنگھ پریوار کو بابری مسجد جیسا تنازعہ کھڑا کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور تمام عبادت گاہیں شرپسندوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہیں گی۔ لیکن اب سپریم کورٹ میں اس آرڈی نینس کو ہی چیلنج کردیا گیا ہے اور عدالت جلد ہی اس معاملے پر سماعت کرنے والی ہے۔
واضح رہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جب سے بابری مسجد کی اراضی ہندوفریق کو پیش کی ہے، تب سے انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اب انھوں نے گڑھے مردے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔بابری مسجد کے معاملے میں اپنی غیر معمولی کامیابی سے تحریک پاکر اب فرقہ پرستوں نے دیگر مسجدوں پر بھی اپنے دعوے پیش کرنے شروع کردئیے ہیں۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا اصل منشا ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر اپنا دعویٰ پیش کرناہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ1991میں نرسمہا راؤ سرکار نے اپوزیشن کے دباؤ میں جوآرڈی نینس پاس کیا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ کبھی ملک میں ایودھیا جیسا تنازعہ پیدا نہ ہوسکے، کیونکہ اس تنازعہ نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور ملک کا سیکولر تانا بانا بری طرح بکھر گیا تھا۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جس وقت ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی خطرناک تحریک شروع ہوئی تھی تو وشو ہندو پریشد کے ہاتھوں میں ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی جو ان کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ ان مسجدوں میں ایودھیا کی بابری مسجد، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ سرفہرست تھیں۔مجھے یاد ہے کہ جب میں شلانیاس کی رپورٹنگ کے لئے ایودھیا گیا تھا تو وہاں وشوہندو پریشد کے لوگ یہ نعرے لگاتے تھے کہ ”ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، ابھی کاشی متھرا باقی ہے۔“ظاہر ہے ان نعروں کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لینا تھاتاکہ وہ دیگر مسجدوں کو بچانے کے لئے بابری مسجد پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں۔
مسلمانوں میں بعض لوگ اس وقت یہ کہا کرتے تھے کہ بابری مسجد پر مفاہمت کرکے باقی مسجدوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دور اندیش لوگوں کا موقف اس وقت بھی یہی تھا کہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک ایک انتہائی خطرناک سازش کا حصہ ہے اور اس کامقصد مسلمانوں کو زیر کرکے انھیں اس ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔اب جبکہ عبادت گاہوں سے متعلق آرڈی نینس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی ہے۔فرقہ پرست اور فسطائی جماعتوں کا اصل مقصد اس ملک سے مسلمانوں کے پاؤں اکھاڑنا یا انھیں اپنے اندر ضم کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا خواب پورا کرسکیں۔ایودھیا میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا ایک خطرناک حکمت عملی کا حصہ تھاجس میں انھیں پہلی کامیابی 6دسمبر1992کو اس وقت ملی جب پولیس، انتظامیہ اور حکومت کی مدد سے دن کے اجالے میں بابری مسجد کوشہید کردیا گیا۔ دوسری اور حتمی کامیابی فرقہ پرستوں کو گزشتہ سال نومبر میں ملی جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بابری مسجد کے خلاف کئے گئے فرقہ پرستوں کے تمام جرائم پر مہر لگانے کے باوجود مسجد کی ملکیت کا فیصلہ ان ہی کے حق میں سنادیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی قرار دینے کے باوجود ابھی تک اس کے کسی مجرم کو کوئی سزا نہیں ملی ہے اور وہ قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ سی بی آئی کی عدالت میں ان دنوں لکھنؤ میں یہ ملزمان اپنے جو بیان درج کرارہے ہیں، ان میں ان کی عیاری اور مکاری سب صاف نظر آرہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے عبادت گاہ (خصوصی انتظام)آرڈی نینس1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”18ستمبر 1991 کو پاس کیا گیا مرکزی قانون ہندوؤں کو ان لاتعداد مندروں سے محروم کرتا ہے جنھیں مسمار کرکے وہاں مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ہندوؤں کے پاس ان تاریخی عبادت گاہوں پر اپنی ملکیت ثابت کرنے حق ہونا چاہئے۔اس حق کی راہ میں 1991میں پاس کیا گیا آرڈی نینس سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس آرڈی نینس کے مطابق 15 اگست 1947کو ملک کی آزادی کے وقت مذہبی مقامات کی جو حالت تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔“ عرضی گزار پجاریوں نے کاشی وشو ناتھ اور متھرا مندر کے معاملے میں قانونی عمل دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ”اس آرڈی نینس کوکبھی چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی عدالت نے قانونی طریقے سے اس پر غور کیا۔ ایودھیا تنازعہ پر اپنے فیصلے میں بھی سپریم کورٹ کی دستوری بینچ نے اس پر صرف تبصرہ کیا تھا۔“
بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ دونوں ایسی عبادت گاہیں ہیں جہاں بلا روک ٹوک نمازہوتی رہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کے بغل میں ہے اور اسی طرح متھرا کی عیدگاہ شری کرشن جنم بھومی مندر سے متصل ہے۔ پچھلے دنوں بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا گیا تھا کہ1664میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ایک مندر کوتوڑ کر یہاں مسجد تعمیر کروائی تھی۔اسی طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ پرفرقہ پرستوں کا الزام ہے کہ اورنگزیب نے1669میں ایک مندر کو تڑواکر یہاں عیدگاہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ تنازعہ انگریزوں کے دور میں عدالت پہنچاتھا لیکن اس پرہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی تھی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔ تب سے وہاں باضابطہ نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ 1968 میں ٹرسٹ اور عید گاہ کمیٹی نے ایک سمجھوتہ کیا کہ تقریباً113یکڑ زمین جس پر عیدگاہ اور مسجد بنی ہے، اس پر عیدگاہ کمیٹی کو انتظام کاحق برقرار رہے گا۔ اس سے متصل زمین پرجہاں کبھی بدحال کیشو ناتھ مندر تھا وہاں اب شاندار شری کرشن جنم بھومی مندر ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سادھوؤں کی اس پٹیشن کو جمعیۃ العلماء نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اس عرضی کو قبول کیا تو اس سے ملک میں لاتعداد مسجدوں کے خلاف عرضیوں کا طوفان آجائے گااور اس سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت اپنی انتہاؤں کو پہنچ جائے گی۔
واضح رہے کہ ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہی بعض انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کاشی اور متھرا کا سوال اٹھایا تھا لیکن اس وقت آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ کاشی اور متھرا ان کے ایجنڈے میں نہیں ہیں۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض ایک فریب تھا اور اب سادھوؤں کی تنظیم نے سپریم کورٹ میں جو عرضی دائر کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار اس ملک میں ایک نیا وبال کھڑا کرناچاہتا ہے۔اس معاملے میں سادھوؤں کے بڑھے ہوئے حوصلوں کا ایک ہی سبب ہے کہ اب تک بابری مسجد کے مجرموں کو سزا نہیں ملی ہے۔ ان کے خلاف سی بی آئی عدالت کی کارروائی اتنی سست ہے کہ شایدہی ان لوگوں کی زندگی میں اس کا کوئی فیصلہ آپائے۔ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے ملزمان عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کی زندگی کا چراغ کبھی بھی گل ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کی رفتار تیز کروائی جائے تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور دیگر سادھوؤں کو جو اب کاشی اور متھرا کا راگ الاپ رہے ہیں،یہ احساس ہوسکے کہ اس ملک میں اب بھی قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں جنگل راج نہیں ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سپریم کورٹ کا حکم،امتحان کے بارے میں سی بی ایس ای اورمرکز نیا نوٹیفکیشن جاری کرے
نئی دہلی:سی بی ایس ای اور آئی سی ایس ای بورڈنے کورونا بحران کی وجہ سے امتحانات منسوخ کردیئے ہیں۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دونوں بورڈزنے یہ معلومات دی ہیں۔ اس کے بعد عدالت نے مرکز اور سی بی ایس ای سے 12 ویں کلاس کے امتحان سے متعلق نیا نوٹیفکیشن جاری کرنے کو کہا ہے۔ اس معاملے پرکل دوبارہ سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ نے سی بی ایس ای اور مرکزسے کہاہے کہ وہ نوٹیفیکیشن میں داخلی امتحان اور امتحان کے درمیان انتخاب واضح کریں۔ نیز ، ریاستی بورڈسے کہا گیا ہے کہ وہ امتحان کی موجودہ حیثیت ، امتحانات کی تاریخ کے بارے میں بتائے۔ عدالت نے سی بی ایس ای سے کل صبح تک نیا نوٹیفکیشن اور حلف نامہ طلب کرلیاہے۔اس کیس کی سماعت کے دوران ، سالیسیٹر جنرل تشار مہتا جومرکز کی جانب سے بحث کر رہے ہیں ،نے کہاہے کہ یکم سے 15 جولائی تک ہونے والے امتحانات کو منسوخ کردیاگیاہے۔مہاراشٹرا، دہلی اور اڈیشہ نے حلف نامے داخل کرکے امتحان لینے سے معذرت کی ہے۔اب امتحانات اس وقت ہوں گے جب ماحول سازگار ہو۔اس دلیل کو سننے کے بعد ، سپریم کورٹ نے پوچھاہے کہ کیا حکومت اور بورڈ کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اس پر ، سالیسیٹر جنرل تشار مہتانے کہاہے کہ حکومت اور بورڈ میں ہم آہنگی ہے۔ پروگرام کی منسوخی کا نیا نوٹیفیکیشن کل یعنی جمعہ تک جاری کردیاجائے گا۔
نئی دہلی:پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کو سپریم کورٹ سے ہری جھنڈی مل گئی ہے۔کورونا کے پیش نظر سپریم کورٹ نے رتھ یاترا کی شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے۔ عدالت نے کہاہے کہ طاعون کی وبا کے دوران بھی ، رتھ یاترا محدود عقیدت مندوں کے مابین ہوئی ہے ۔آپ کو بتادیں کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے پوری رتھ یاترا پرسریم کورٹ نے خودپابندی لگائی تھی اورتبصرہ کیاتھاکہ بھگوان بھی ہمیں معاف نہیں کریں گے۔لیکن جیسے ہی مرکزی حکومت اوربی جے پی سمیت متعددلوگوں کی طرف سے درخواستیں داخل کی گئیں،عدالت کاموقف بدل گیااوراب مشروط اجازت مل گئی ۔یعنی خودعدالت نے اپنافیصلہ پلٹاہے۔ پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔ پیر کو سپریم کورٹ میں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ اس معاملے میں ، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ایس اے باوڈے نے تین ججوں کی بینچ تشکیل کی۔ اس بنچ میں سی جے آئی ایس اے بووڈے ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس دنیش مہیشوری شامل تھے۔
اوڈیشہ کے پوری میں جگناتھ یاترا پر سپریم کورٹ نے لگائی پابندی
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے اڑیشہ کے پوری میں بھگوان جگناتھ یاترا اور اس سے متعلق سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ رتھ یاترا 23 جون کو ہونی تھی اور 10 سے 12 لاکھ لوگوں کے جمع ہونے کی توقع کی جارہی تھی۔ یہ پروگرام تقریبا 10 دن تک چلتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ حکم لوگوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر ہم رتھ یاترا کی اجازت نہیں دیںگے تو بھگوان جگناتھ ہمیں اس کے لئے معاف کردیں گے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بھگوان جگناتھ کا کام کبھی نہیں رکتا ہے۔اڑیشہ ڈویلپمنٹ کونسل نامی کی تنظیم نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست میں 30 جون تک مذہبی مقامات کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ انتظامیہ کے ذریعہ رتھ یاترا کی منظوری مل سکتی ہے۔ لاکھوں افراد کے جمع ہونے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اس سے افراتفری کا ماحول ہوگا۔اس لیے عدالت کو رتھ یاترا روکنا چاہئے۔ ریاستی حکومت سے کہے کہ اس سال یاترا کی اجازت نہ دیں۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے وبا کی وجہ سے ملک میں ابتر ہوتی صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں کوویڈ 19 کے کیسز تین لاکھ 43 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جسٹس آر ایف نریمن نے کہاہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کوویڈ۔19 کی صورتحال بہترنہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ اور بھی خراب ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس پنجاب کے تاجر جگجیت سنگھ چہل کی پیرول سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کیا۔عدالت عظمیٰ نے کہاہے کہ جب کوئی پیرول پر باہر آسکتا ہے تو ، کسی کو بھری جیل میں واپس بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، سپریم کورٹ نے چہل کوپیرول پر رہا کرنے کافیصلہ کیا۔اہم بات یہ ہے کہ جگجیت سنگھ چاہل جگدیش بھولا منشیات کیس کا ملزم ہے۔ملک اور دنیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔منگل کے روز وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد بڑھ کر 3 لاکھ 43 ہزار 90 ہوگئی ہے ۔ اس وقت ، دنیابھرمیں 8 لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثرہیں۔
نئی دہلی:جمعرات کے روزسپریم کورٹ نے پال گھر میں دو سادھووں کی لینچنگ کی سی بی آئی جانچ کی درخواست پر مہاراشٹر حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے دو ہفتوں میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ جونا اکھاڑا کے سادھووں اور سادھووں کے لواحقین نے اس معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انہیں مہاراشٹرا حکومت اور پولیس کی جانچ پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس معاملے میں شک کی سوئی پولیس پر ہے۔ ایسی صورتحال میں پولیس سے منصفانہ تحقیقات کی توقع نہیں کی جاتی ہے، اس لیے جانچ سی بی آئی سے کرائی جائے۔ پریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت، ڈی جی پی، سی بی آئی اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس سے قبل یکم مئی کو مہاراشٹرا کے پال گھر لنچنگ کیس میں سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے جانچ کی رپورٹ طلب کی ہے۔ سپریم کورٹ نے فی الحال جانچ پر پابندی لگانے سے انکار کردیا ہے۔واضح رہے کہ ایک درخواست میں معاملے کی جانچ سی بی آئی سے اور دوسری میں میں این آئی اے سے کرانے مطالبہ کیا گیا ہے۔ این آئی اے سے جانچ کی درخواست کرنے والی دوسری درخواست پر بھی نوٹس دیا گیا ہے۔ ان درخواستوں کی سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے میں ہوگی۔ اس عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے مہاراشٹرا حکومت نے کہا کہ ممبئی ہائی کورٹ میں بھی اسی طرح کی درخواست زیر التوا ہے۔
نئی دہلی:ملک کانام بھارت رکھنے کی درخواست پرسپریم کورٹ نے مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ عدالت نے کہاہے کہ اس درخواست پر حکومت کو مجازسمجھناچاہیے۔ عدالت نے کہاہے کہ اس سلسلے میں ایک میمورنڈم مرکز کو دیا جاسکتاہے۔ سی جے آئی ایس اے بوبڑے نے کہاہے کہ ہم یہ نہیں کرسکتے۔ آئین میں بھارت نام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ ہمیشہ انڈیاہی بولا جاتا ہے ، جو ایک یونانی لفظ ہے۔ ہم حکومت کو میمورنڈم دے سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کے سامنے ایک کیس سامنے آیاہے،جس میں ملک کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔درخواست گزارکاکہنا ہے کہ ملک کا انگریزی نام انڈیا سے بدل کربھارت کردیا جاناچاہیے۔اس نے آئین کے آرٹیکل 1 میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے جس میں اس ملک کو انگریزی میں انڈیا اور ہندی میں بھارت کا نام دیا گیا تھا۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ بھارت کا نام ایک ہونا چاہیے۔ یہاں بہت سے نام ہیں جیسے جمہوریہ ہند ، ہندوستان ، بھارت وغیرہ۔ اتنے نام نہیں ہونے چاہئیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کیاکہیں۔ مختلف کاغذات کے مختلف نام ہیں۔ آدھار کارڈ میں گورنمنٹ آف انڈیا،ڈرائیونگ لائسنس پر یونین آف انڈیا ،پاسپورٹ پرری پبلک آف انڈیاہوتاہے ۔ اس وجہ سے الجھن پیداہوتی ہے۔سب کوملک کا نام معلوم ہونا چاہیے۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انڈیا کا لفظ غلامی کی علامت ہے اور یہ ہندوستان کی غلامی کی علامت ہے۔ لہٰذااس لفظ کی بجائے بھارت یاہندوستان کواستعمال کرنا چاہیے۔
لاک ڈاؤن میں بینکوں کے سود وصولنے کے خلاف اپیل،سپریم کورٹ نے مرکز اور آربی آئی کو بھیجا نوٹس
نئی دہلی:لاک ڈاؤن کے دوران بینکوں کی جانب سے قرض پر وصول کئے جا رہے سود کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔اس درخواست کو عدالت عظمی نے قبول کر لیا ہے اور مرکز، ریزرو بینک آف انڈیا کو نوٹس جاری کیا ہے۔عرضی میں دعوی کیا گیا کہ جب لاک ڈاؤن کے دوران کسی طرح کی کمائی نہیں ہو رہی ہے، تو پھر لوگ کیسے بینکوں کو سود دیں گے۔دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ ابھی سود وصولنے سے بینکوں نے کچھ وقت کے لئے ڈسکاؤنٹ دیا ہے، پہلے یہ رعایت 31 مئی تک تھی جسے اب بڑھا 31 اگست تک پہنچایا گیا ہے لیکن جب یہ ختم ہو جائے گا تو بینکوں کی جانب سے بقایا سود وصول کیا جائے گا، جو غلط ہے۔سینئر وکیل راجیو دتہ کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ 3 ماہ کو بڑھا کر 6 ماہ کیا گیا،اگر عدالت اس پر کچھ فیصلہ کرتا ہے، تو راحت کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے۔بینک اب تو مجھے راحت دے رہا ہے، لیکن آگے جاکر سزا دینے کی بات بھی کہہ رہا ہے۔سماعت کے بعد عدالت کی جانب سے مرکزی حکومت اورآربی آئی کو نوٹس بھیجاگیا ہے،ساتھ ہی ایک ہفتے میں جواب مانگا گیا ہے۔اس معاملے کی سماعت بھی اب اگلے ہفتے ہی ہوگی۔
نئی دہلی:مرکزی حکومت نے آج سپریم کورٹ کوبتایاہے کہ اس نے وہ حکم واپس لے لیا ہے جس میں صنعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران ملازمین کو پوری اجرت ادا کرے۔ لیکن درخواست گزار صنعتوں نے اسے ناکافی قرار دیا۔ کچھ درخواست گزاروں نے پوری تنخواہ نہ دینے کے حکم کی بھی مخالفت کی۔ اس کے پیش نظر عدالت نے سماعت 1 ہفتہ کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے حکومت سے تمام درخواستوں کا جواب دینے کو کہا ہے۔ملازمین کو مکمل تنخواہ دینے کے معاملے پردائردرخواستوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس معاملے پر آج سپریم کورٹ میں 16 درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے پہلے ہی حکم دیا تھا کہ جو صنعتیں ملازمین کو پوری اجرت ادا نہیں کرسکتی ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ اگلی سماعت آئندہ ہفتے منگل کوہوگی۔
لاک ڈاؤن کے درمیان آن لائن درج کرسکتے ہیں پٹیشن
نئی دہلی:ہندوستان کی سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار،رجسٹری نے ایک ہیلپ لائن شروع کی ہے۔یہ ہیلپ لائن دراصل ای فائلنگ سے منسلک سوالات اور مسائل کو دور کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے سپریم کورٹ نہیں کھل رہاہے۔جج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔عرضی دائر کرنے کے لئے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ای فائلنگ کی سہولت دی گئی ہے،مگر وکلاء اور درخواست گزاروں کو اس میں کچھ دقتیں آرہی ہیں،انہیں کو دور کرنے کے لئے ایک ہیلپ لائن نمبر 1881 شروع کیا گیا ہے۔یہ ہیلپ لائن صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک دستیاب رہے گی۔اس نگرانی کا ذمہ سپریم کورٹ کے سینئر افسران کا ہوگا۔لاک ڈاؤن میں، ججوں کے گھر میں بنچ بیٹھا کرتی ہے اور وکیل اپنے گھروں یا آفس سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ جانتے ہیں۔25 مارچ کو لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی سپریم کورٹ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کیس سن رہا ہے۔اسی منگل کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر جج سپریم کورٹ کے اندر آپ کورٹروم میں بیٹھنا شروع کر سکتے ہیں۔اگلے ہفتے سے وہ وہیں سے ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کر سکتے ہیں۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے لاک ڈاؤن میں مکمل تنخواہ نہیں دے پانے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلانے کا حکم دیا ہے۔ملک کی عدالت عظمی نے جمعہ کو پورے ملک میں انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے آجروں (ملازمین) کے خلاف مقدمہ نہ چلائیں، جو کووڈ 19 کی وجہ سے ملک بھر میں بند کے دوران کارکنان کو پوری تنخواہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ جسٹس ایل ناگیشور راؤ، سنجے کشن کول اور بی آر گوئی کی بنچ نے مرکز اور ریاستوں سے اجرت کی ادائیگی نہ کر پانے پر نجی کمپنیوں، فیکٹریوں وغیرہ کے خلاف مقدمہ نہیں چلانے کو کہا۔عدالت عظمی نے صنعتی یونٹس کی جانب سے دائر درخواستوں پر مرکز سے جواب مانگا ہے۔قابل ذکرہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے 29 مارچ کو ایک سرکلر کے ذریعے پرائیوٹ کمپنیوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ ملک بھر میں بند کے دوران بھی ملازمین کو پوری ادائیگی کریں۔صنعتی کمپنیاں یہ دعوی کرتے ہوئے عدالت چلی گئیں کہ ان کے پاس ادا کرنے کا کوئی اقدام نہیں ہے، کیونکہ کام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے کہا کہ کوروناوائرس وبا کے پیش نظر لاگو ملک بھر لاک ڈاؤن کے دوران تنظیموں کو ان کی افرادی قوت (ورک فورس) کو ادائیگی کرنے سے مکمل طور پر چھوٹ دی جانی چاہئے۔پٹیشن ممبئی کے ایک کپڑا فرم اور 41 چھوٹے پیمانے کی تنظیموں کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔عرضی میں وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔درخواست گزاروں نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، 2005 کی دفعہ 10 (2) (آئی) کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔
نئی دہلی:نیا قانون سپریم کورٹ میں نافذ العمل ہے۔ اس اصول کے تحت اب ایک جج اعلیٰ عدالت میں بھی سماعت کرے گا۔ اب 13 مئی سے سپریم کورٹ میں سنگل بنچ تشکیل دیا جائے گا۔ سنگل جج کا بینچ ضمانت، پیشگی ضمانت اور کیس کی منتقلی سے متعلق درخواست کی سماعت کرے گا۔ یہ سنگل بینچ ضمانت اورپیشگی ضمانت سے متعلق درخواستوں کی سماعت کر سکے گا جن پر7 سال سے کم عمر کی سزا ہے۔اب تک سپریم کورٹ میں سنگل جج بینچ کی کوئی فراہمی موجودنہیں تھی۔ یہاں ڈویژن بینچ یعنی کم از کم دوججوں کے بنچوں کا انتظام ہوچکا ہے، لیکن اب نیا نظام نافذ کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں کام کی رفتار بڑھانے کے لیے نیانظام بنایا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پہلی بار اس نظام کو نافذ کیا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں سپریم کورٹ نے قواعدمیں ترمیم کی تھی۔ سپریم کورٹ کا یہ سنگل بینچ ضمانت، فوجداری مقدمات کی منتقلی، درخواستوں جیسی درخواستوں پرسماعت کرے گا۔
نئی دہلی:ممبئی کی مشہور آرتھر روڈ جیل اور بائیکلہ جیل میں قید ملزمین اور جیل اسٹاف کی کورونا پازیٹیو کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی پٹیشن داخل کرکے سپریم کورٹ سے گذارش کی ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کو حکم جاری کرے کہ وہ جیل سے قیدیوں کو عارضی ضمانت پر رہا کرے تاکہ انہیں کورونا وائرس کے خطرے سے بچایا جاسکے۔ داخل پٹیشن میں یہ کہاگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ریاستی حکومتوں نے ملزمین کو رہا نہیں کیا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ پہلے ممبئی کی آرتھرروڈ جیل کے قیدی کورونا کا شکار ہوئے اور اب خواتین قیدیوں کے لئے مختص بائیکلہ جیل میں بھی قیدی کورونا کا شکار ہوچکے ہیں اسی طرح اِندور جیل سے بھی کورونا کا شکار ہوئے قیدیوں کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔پٹیشن میں مزید درج کیاگیا ہے کہ بیرون ممالک بشمول انڈونیشا،ساؤتھ افریقہ،ارجنٹینا وغیرہ ممالک نے پچاس ہزار سے زائد قیدیوں کو عارضی ضمانت پر رہا کیا اس کے برعکس ہندوستان نے محض چند ہزار قیدیوں کو ہی جیل سے رہا کیا ہے حالانکہ ہندوستانی جیلیں دوسرے ممالک کی جیلوں کی بہ نسبت قدرے گنجان ہیں۔سپریم کور ٹ میں پٹیشن داخل کرنے کے تعلق سے جمعتہ علماء مہاراشٹرقانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ آرتھر جیل میں مقید ملزمین کے اہل خانہ نے ان سے ملزمین کی عارضی رہائی کی کوشش کرنے کی گزارش کی جس کے بعد ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کے توسط سے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ آرتھر روڈ جیل میں مقید قیدیوں اور اسٹاف جن کی کل تعداد 115 ہے کی کورونا پازیٹیو رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد ملزمین کے اہل خانہ میں شدید بے چینی بڑھ گئی اور انہوں نے جمعیۃعلماء ہند سے گزارش کی کہ وہ اس تعلق سے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرے کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہونے کے باوجود جیل انتظامیہ انہیں رہا نہیں کررہی ہے۔ پٹیشن میں درج کیا گیا ہیکہ 800 ملزمین کی گنجائش والی آرتھر روڈ جیل میں فی الحال 2600 ملزمین مقید ہیں لہذا شوشل ڈسٹنسنگ کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اس لئے ملزمین کو ضمانت پر رہا کردینا چاہئے لیکن جیل انتظامیہ ایسا نہیں کرکے ملزمین کی جان خطرے میں ڈال رہی ہے۔جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے اس حوالہ سے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندکی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانی بنیادپر بلاتفریق مذہب وملت سب کے لئے کام کیا ہے انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے تحفظ کیلئے ملک کی جیلوں میں برسوں سے سزاکاٹ رہے قیدیوں کی رہائی کے تعلق سے جو اہم پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے اس میں بھی تمام قیدیوں کی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہورہائی کی درخواست کی گئی ہے مگر افسوس کا مقام تویہ ہے کہ ملک کے بے لگام الکٹرانک میڈیا نے اس مہلک وباکوبھی مذہبی رنگ دینے سے دریغ نہیں کیا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ وبا مسلمانوں نے پھیلائی ہے مولانا مدنی نے کہا کہ اس جھوٹ اور دروغ گوئی پر ہمارے شدید اعتراض، احتجاج اور سپریم کورٹ میں جانے کے باوجود الکٹرانک میڈیا کے خلاف جھوٹی تشہیراور مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف رچی گئی خطرناک سازش کولیکر سرکارکی طرف سے کسی طرح کی قانونی کارروائی کا نہ ہونا یہ بتاتاہے کہ اکثر الیکٹرانک میڈیا جو کچھ بھی مسلمانوں کے خلاف کررہا ہے اس کے لئے اسے اقتدارمیں موجود بااثرشخصیات کی خاموش اور کھلی حمایت حاصل ہے۔جمعیۃعلماء ہند قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ مارچ ماہ میں سپریم کورٹ نے از خود فیصلہ لیتے ہوئے ملک کی مختلف جیلوں میں مقید ملزمین کی رہائی کے تعلق سے انتظامات کئے جانے کا حکم دیا تھا لیکن مہاراشٹر میں ابتک صرف 576 ملزمین کی رہائی عمل میں آئی جبکہ ہائی پاور کمیٹی نے 11000ملزمین کی رہائی کی سفارش کی تھی یہ ہی حال ملک کے دیگر صوبوں کا بھی ہے۔
نئی دہلی:یوں توعدلیہ سے سب کاواسطہ پڑتاہے۔ عدالت کے دروازے سب کے لیے کھلے بھی رہتے ہیں۔لیکن کورٹ سے جو براہ راست منسلک ہوتے ہیں، وہ ہیں وکیل۔ ایسے میں لاک ڈاؤن کے دوران وکلاء کو سپریم کورٹ سے خصوصی مددکی امیدتھی۔
لیکن انہیں آج مایوسی ہاتھ لگی۔کورٹ نے صاف کر دیاہے کہ فی الحال ہر طبقہ دقت میں ہے۔ وکلاء کی اقتصادی مددکے لیے الگ سے کوئی حکم نہیں دیاجا سکتاہے۔کچھ درخواست گزاروں کا یہ کہنا تھا لاک ڈاؤن میں عدالتی کام بہت محدودہے۔ ایسے میں بہت سے وکیل اقتصادی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔کورٹ وکلاء کی مددکے لیے فنڈبنانے کاحکم دے۔لیکن سپریم کورٹ نے اس سے انکارکر دیاہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کی صدارت والی بنچ نے کہاہے کہ ان دنوں ہر طبقہ دقت میں ہے۔ ہم صرف وکلاء کے لیے کوئی حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ وکلاء کے مفاددیکھنے کے لیے بارکونسل ہے۔ وہ اس مسئلے پرغورکرے۔
نئی دہلی:لاک ڈاؤن کے دوران سپریم کورٹ نے لوگوں کوملازمت سے ہٹانے، تنخواہ میں کمی جیسی چیزوں پرتشویش کااظہارکیاہے۔تاہم، عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ جب کاروبار بند ہوجاتا ہے تو اخراجات بہت مشکل ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے میں تنظیموں اور صنعتوں کی جانب سے دائر درخواستوں کاجواب دیا جائے۔ 2 ہفتوں کے بعد اس پرتفصیلی سماعت ہوگی۔سوال یہ ہے کہ دوہفتے تک یہ ملازمین کیاکریں گے؟اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے سنی گئی پہلی درخواست میڈیا سے متعلق تھی۔ صحافیوں کے یونین اور دیگر صحافتی تنظیموں نے لاک ڈاؤن کے تحت میڈیا اداروں میں لوگوں کو ہٹانے، تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیجنے، تنخواہوں میں کٹوتی جیسی چیزوں کے بارے میں شکایت کی تھی۔ درخواست میں کہاگیاتھا کہ صحافی اور دیگر عملہ، جو لوگوں تک خبروں کی ترسیل کے لیے سخت محنت کررہے ہیں، کو ملازمت سے ہٹایا جارہا ہے۔کہیں ان کی تنخواہ روک دی گئی ہے تو کہیں اس میں کمی کردی گئی ہے۔صحافی تنظیموں کے ذریعہ پیش کردہ وکیل کولن کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اس معاملے پر نوٹس جاری کیا۔ درخواست میں مرکزی حکومت، انڈین نیوز پیپر سوسائٹی اور نیوز براڈکاسٹر ایسوسی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت 2 ہفتوں کے بعداس معاملے پر مزید سماعت کرے گی۔سماعت کے دوران، تین ججوں کے بنچ کے ایک رکن جسٹس سنجے کشن کول نے کہاہے کہ یہ صرف میڈیا کے بارے میں نہیں ہے، تمام شعبوں کی ملازمین یونینیں یہ چیزیں اٹھا رہی ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر کاروبار تقریباََبندہیں۔ لہٰذا وہ کب کام کریں گے۔ اس مسئلے پرسماعت ضروری ہے۔آج عدالت میں لدھیانہ ہینڈ ٹولز ایسوسی ایشن سمیت 3 صنعتوں کی درخواستوں کی بھی سماعت ہوئی۔ اس میں حکومت کے اس حکم پرسوال اٹھایا گیا تھا جس میں ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پوری تنخواہ ادا کریں۔ جس میں کہا گیا تھا کہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ آمدنی کا ذریعہ بندہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کو نوکری پر رکھنا اور پوری تنخواہ دینا بہت مشکل ہے۔ عدالت نے ان درخواستوں پر مرکز سے بھی جواب طلب کرلیا ہے۔ ان کی سماعت بھی 2 ہفتوں کے بعدہوگی۔
مہنگائی بھتہ روکے جانے کے خلاف درخواست، فوج کے ریٹائرڈ افسر پہنچے سپریم کورٹ
نئی دہلی:مرکزی حکومت کے ملازمین کا مہنگائی بھتہ روکنے کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اس معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔دائر درخواست میں مہنگائی بھتہ کمی کے فیصلے کو واپس لینے کے لئے کورٹ کی جانب سے مرکزی حکومت کو ہدایت کی جانے کی مانگ کی گئی ہے۔ریٹائرڈ میجر اونکار سنگھ گلیریا نے یہ عرضی دائر کی ہے۔کینسر میں مبتلا اونکار سنگھ گلیریا نے سپریم کورٹ کے سامنے کہا ہے کہ بیمار بیوی کے ساتھ کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں اور میری آمدنی کا واحد ذریعہ ماہانہ فوجی پنشن ہے۔ایسے لاکھوں ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو پنشن پر انحصار کرتے ہیں، لیکن مہنگائی الاؤنس روکے جانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے سے پریشان ہیں۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جب پوری دنیا میں کورونا وائرس لوگوں کے لئے مہلک ثابت ہو رہا ہے، خاص طور پر بوڑھوں کے لئے تو ایسے وقت میں مہنگائی بھتے میں کمی کا فیصلہ مناسب نہیں ہے،ہم جیسے پنشن ہولڈروں کے لئے پنشن ہی واحد سہارا ہے۔درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وہ مرکزی حکومت کو وزیر اعظم کو اس بات پر عمل کرنے کی ہدایت دے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بزرگوں کی دیکھ بھال کریں اور تنخواہ میں کمی نہ کریں، دوسروں کے مقابلے میں بزرگوں کیلئے کووڈ19 زیادہ خطرناک ہے۔
غریبوں کو مفت موبائل ڈیٹا ، کالنگ اور ٹی وی سروس کی درخواست سپریم کورٹ میں داخل
نئی دہلی:مودی سرکار نے مہلک کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن لگا دیاہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں قید کردیا گیا ہے اور ان کا کام روکنا پڑاہے۔اس وقت کے دوران ، لوگ اپنا زیادہ تر وقت ٹیلی ویژن یاانٹرنیٹ پر صرف کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ فون پریاآن لائن ویڈیوکالنگ کے ذریعے اپنے پیاروں کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے موبائل ڈیٹا کی کھپت میں کئی گنااضافہ ہواہے۔ اگرچہ غریب لوگ موبائل ڈیٹااورٹی وی ریچار کرنے سے قاصرہیں۔اب سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے،جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غریبوں کو مفت موبائل ڈیٹا ، ٹی وی سروس ، ڈی ٹی ایچ اور سیٹلائٹ ٹی وی خدمات فراہم کی جائیں۔ اس پٹیشن میں ، اپیل کی گئی ہے کہ وہ مرکزی حکومت اور ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (ٹرائی) کو ہدایت دے۔ کورونا وائرس نے ہندوستان سمیت پوری دنیاکوتبدیل کردیاہے۔ اسکولوں ، کالجوں ، مالوں ، مندروں ، مساجد ، کلبوں سمیت تمام عوامی مقامات کوبندکردیاگیاہے۔ سڑکیں اور گلیاں ویران ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باوجود ، بھارت سمیت دنیابھرمیں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔
نئی دہلی:کانگریس کی قیادت والی راجستھان حکومت نے پیر کو شہریت ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت کوچیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائرکی ہے۔ راجستھان حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سے آئین میں دیے گئے برابری کے حقوق اورجینے کے حق جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کیرالہ کے بعد راجستھان دوسری ریاست ہے جس نے شہریت ترمیمی قانون کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 131 کا سہارا لے کر عدالت میں کیس دائرکیاہے۔ اس دفعہ کے تحت مرکز سے تنازعہ ہونے کی صورت میں ریاست براہ ِراست عدالت میں معاملہ دائرکرسکتی ہے۔ریاستی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو آئین کی دفعات کے الگ اعلان کرنے کی درخواست کی ہے۔شہریت ترمیمی قانون، 2019 میں انتظام ہے کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں مذہبی ظلم وستم کی وجہ سے 31 دسمبر، 2014 تک ہندوستان آئے اقلیتی ہندو، سکھ، بدھ مت، عیسائی، جین اور پارسی کمیونٹی کے اراکین کو بھارت کی شہریت دینے کا قانون ہے۔ اس قانون کی آئینی قانونی حیثیت کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں اب تک 160 سے زائد عرضیاں دائرکی جا چکی ہیں۔