نئی دہلی: عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی پرسنگین الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ 2 فروری کو بی جے پی دہلی میں بڑا ہنگامہ کرنے کی تیاری میں ہے جس سے حالات خراب ہوں اور انتخابات ٹل جائیں۔عام آدمی پارٹی ہیڈ کوارٹر میں سنجے سنگھ نے پریس کانفرنس کے دوران کہاہے کہ 2فروری کو بی جے پی دہلی میں بڑاہنگامہ کرنے کی تیاری میں ہے۔ اس کے پہلے الیکشن کمیشن (EC) کو محتاط ہو جاناچاہیے کیونکہ وزیر داخلہ تو خود ہی تشددپھیلانے میں شامل ہیں، تو ان سے تو آپ توقع کر نہیں سکتے، تو اگر الیکشن کمیشن جانبداری کے ساتھ دہلی میں انتخابات کرانا چاہتا ہے تو اس کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔سنجے سنگھ نے دعویٰ کیاہے کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں اوروہ الیکشن کمیشن میں بھی اس بات کی شکایت کریں گے۔سنجے سنگھ نے کہاہے کہ وہاٹس ایپ پر ایسے بہت ساری ویڈیوز اورمیسجز چلائے جا رہے ہیں اور 2 تاریخ کو شاہین باغ اور جامعہ کے علاقے میں پہنچ کر ایک بڑا ہنگامہ بھارتیہ جنتا پارٹی کراناچاہتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی میں شکست کے خوف سے بوکھلائی ہوئی ہے اور اسی وجہ سے وہ دہلی کا الیکشن ٹالناچاہتی ہے۔
Shaheen
ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے راستہ کھولنے پر رضامندی،گورنرنے مظاہرین کے مطالبات مرکزی حکومت کوپہنچانے کی یقین دہانی کروائی
نئی دہلی: شاہین باغ مظاہرہ کے سلسلے میں آنے والی متعدد خبروں کے بیچ آج شاہین باغ مظاہرین کے نمایندہ وفد نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں تومظاہرے کی وجہ سے راستہ بند ہونے کے معاملے کے حل کے لیے کوئی بھی مناسب پیش رفت کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے ایل جی سے کہاکہ ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے ہم راستہ کھولنے کوتیارہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون پیش کریں گے۔ایل جی نے مظاہرین کے وفد کی باتیں سنیں اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے مطالبات وزارتِ داخلہ کے سامنے پیش کریں گے۔قابل ذکرہے کہ 20جنوری کو دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین سے اپیل کی تھی کہ چوں کہ اسکولوں میں امتحانات قریب ہیں اور اس مظاہرے کی وجہ سے کئی ہفتوں سے بچوں کو پریشانی ہورہی ہے اس لیے مظاہرین اسکول کی بسوں کے گزرنے کے لیے راستہ کھول دیں۔دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین اور ایل جی کی ملاقات کو خوش آیند قراردیاہے اورامید جتائی ہے کہ مسئلے کا بہتر حل نکلے گا۔
طاہرضیا
غایت کو پہنچ جاتی ہے جب تیرگئِ شب
اور ہوتی ہے ہر سمت سے تاریکی کی یلغار
اک نور کی پو پھوٹتی ہے حکمِ خدا سے
اور شرق سے ہوتی ہے نئی صبح نمودار
تاریخ نے تاریخ کی پھر یاد دلائی
ماضی میں کبھی کوئی یہاں شاہِ شہاں تھا
چھن جائے گا یہ تاج، پلٹ جائے گا یہ تخت
اس بات کا کیا اس کو کبھی وہم و گماں تھا؟
اے وقت کے فرعون! ڈراتا ہے ہمیں تو
زنداں سے، سلاسل سے زدِ تیغ و سناں سے
تاریخ اٹھا کر تو ذرا دیکھ ہماری!
پیچھے نہ ہٹے ہیں کبھی ہم حق کے بیاں سے
جب جس کی ضرورت پڑی تاریخ لکھا لی
پیروں سے، جوانوں سے کبھی نازِ زناں سے
ہر دور میں حالات کا رخ ہم نے ہے پھیرا
ٹکرائے ہیں ہم وقت کے ہر کوہِ گراں سے
سیراب چمن کو کِیا ہے حسب ضرورت
گہ اشکِ رواں سے گہے خونِ جگَراں سے
ہم طالبِ آزادیِ گفتار ازل سے
کیا ہم کو سروکار بھلا سود و زیاں سے
گونجے گی صدا پھر سے اب آزادی کی ہر سمت
منبر سے، کلیسا سے کبھی کوئے بتاں سے
ہم امن کے داعی ہیں، محبت کے طلبگار
پیغام یہی دیتے ہیں ہم شہر اماں سے
"خاکم بدہن” اب وہ گھڑی پھر نہ کبھی آئے
تاریخ دوبارہ کبھی تاریخ کو دہرائے
گلشن میں مرے اہلِ ستم پھر کوئی در آئے
پھر شاخ کوئی ٹوٹے کوئی پھول نہ مرجھائے
موبائل نمبر: 8860931450
اسلامیات کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ بعض سنگین حالات میں عورتوں کو گھر چھوڑکر مورچہ سنبھالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی بغیر شوہر کی اجازت کے۔ 12-12-19کو CAAبنادیاگیا، یہ قانون اولاً تو آئین کی روح کے خلاف ہے، دوسرے قانونی ماہرین اس کو آئین کی دفعہ 14اور 21کے خلاف قرار دے رہے ہیں، تیسرے یہ قانون ہندتوا آئیڈیالوجی کی طرف ملک میں پہلا عملی اور قانونی قدم ہے، چوتھے مستقبل میں ہونے والی NRCکے نتیجے میں عدم دستاویز کے باوجود بھی تمام غیرمسلم CAAکی وجہ سے بدستور بھارتی شہری قرار پائیں گے لیکن مسلمان معمولی خامیوں کی وجہ سے غیرملکی قرار دیدیے جائیں گے۔ اس لیے یہ قانون اپنی وسعت و پھیلاؤ میں امت مسلمہ کے لیے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ آسام کے ڈٹینشن کیمپ کی بدترین تصویر نے اس قانون کی بربریت کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ خیال رہے کہ وہاں پر ایسا بھی ہواکہ بہن کوکہیں اور بیوی کو کہیں بندوق کی نوک پر ڈٹینشن کیمپ میں داخل کردیاگیا، اس لیے اس قانون کے خلاف جو ہماری محترم مسلم خواتین احتجاج کررہی ہیں، بالخصوص شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ بالکل عین تقاضائے وقت ، تقاضائے فطرت اور تقاضائے شریعت ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قوانین حق خود حفاظتی کے اصول کو مانتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی اس عالمی اصول کی قدر کی ہے اور اسی کے مطابق ”جہاد و قتال“ کی تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ CAAکے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئی ہماری بہنیں اور ان کے اعزہ واقارب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین عین میدانِ جنگ میں لڑی ہیں، اس سلسلے میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت خولہؓ کے واقعات بطور استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو کہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں، جنگ اُحد اور جنگ خندق میں مردانہ وار دشمنوں پر ہتھیارچلاٸے، حضرت خولہؓ نے 30دیگر مسلم خواتین کے ساتھ خیمے کی لکڑیوں سے حملے کیے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں 30کروڑ مسلمان ہیں، جن میں 15کروڑ مسلم خواتین ہیں، دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہماری بہنوں کو اسلامی قدروں کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے اور مکمل طورپر پُرامن رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کو سیفٹی فراہم کریں۔ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے حوصلہ پاکر دیوبند کی عیدگاہ میں ہماری مائیں، بہنیں نکل کھڑی ہوئیں۔ مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے میں چند علماء اور نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور 13 جنوری 2020سے یہاں پر بھی ہماری مائیں ، بہنیں دھرنے پر بیٹھ چکی ہیں اور پوری طاقت سے آئین ہند کی حفاظت کا عہد کررہی ہیں۔ No NPR, No NRC, No CAA کا نعرہ لگارہی ہیں۔ سبزی باغ پٹنہ ، روشن باغ الٰہ آباد میں بھی خواتین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ غرض پورے ملک میں مسلم و غیرمسلم حضرات کےگھروں کی ’’عزتیں ‘‘ آئین ہند کی حفاظت کے لیےبے گھر ہورہی ہیں۔ معلوم نہیں فراعِنۂ وقت پر کب ’’بجلی کڑکڑکڑکے گی ‘‘ ؟؟؟
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ NRC, CAAوغيرہ جس قدر خطرناک آٸین ہند کیلٸے ہیں اسی قدر بھارتی مسلمانوں کیلٸے ہیں ، اب تک کی کوئی بھی ’’حکومتی وضاحت ‘‘مندرجہ ذیل سوالات کو حل نہیں کرتی:1 CAAکے ذریعےغیرمسلم پناہ گزینوں Refugeeکو CAAبچالے گیا، مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ ڈٹینشن کیمپ؟ وطن واپسی؟ یا دریابُرد ؟؟
2 ملکی سطح پر ہونے والے NRCکا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو تو دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی CAAمحفوظ مستقبل Safe Future کی گارنٹی دے گا، جب کہ مسلمان دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونےکی وجہ سے بدترین مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ خیال رہے کہ صرف 28فیصد بھارتیوں کے پاس سند پیدائش Birth Certificateہے، جب کہ 99فیصد بھارتیوں کے دستاویز نامکمل ہیں یان میں غلطیاں ہیں۔
3 ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیا مطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو CAAبچالے گیا اور ان کو شہریت دے دی جائے گی، صاف مطلب ہے کہ یہی ڈٹینشن کیمپ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔ خیال رہے کہ آسام میں 6ڈٹینشن کیمپ قائم ہوچکے ہیں،بنگلور میں تیار ہوچکا، مہاراشٹر میں زیرتعمیر ہے، دیگر صوبوں میں مرکزی حکومت نے تیار کرنے کے لیےبولا ہے۔ اسدالدین اویسی کے بقول مودی حکومت نے ڈٹینشن کیمپ کے لیے بجٹ بھی مختص کردیا ہے۔
اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو حکومت کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنا ، ہم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ مودی حکومت100سال پہلے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت (303نشست 2019) کا بھوت بار بار بی جے پی کے کان میں پھونکتاہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ (Now and never)۔ یہ حکومت مہینے دو مہنے کی چیخ و پکار اور گنتی کے چند دھرنوں سے رعب نہیں کھانے والی، اس بھوت (مودی حکومت) کو 15فیصد کی بوتل میں بند کرنا 85فیصد بھارتیوں پر ضروری ہے، اس لیے تحریک میں تیزی لائی جائے، نظم و ضبط لایاجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا غیرعلماء NRC, CAAاور NPRکی حمایت کررہے ہیں یا خاموش ہیں، وہ ملک و ملت کے غدار ہیں، وہ ابورغال ہیں، وہ سراج الدولہ کے غدار میر جعفر ہیں، وہ ٹیپوسلطان کے غدار میر صادق ہیں۔ اور جو خاموش ہیں ان کو ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلیک میل کردیاگیا ہے اور مودی حکومت نے اِن ساکت علماء و قائدین Silent leadersکو وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم کچھ بولے تو تم کو ننگا کردیا جائے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے عظیم داعی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی مختلف قسم کے لالچ دے کر حکومت کے موقف کی حمایت کرنے کو کہا، لیکن اس وفادار بندۂ خدا نے انکار کردیا اور بھارتی مسلمانوں سےمکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اس ا”دروازہ بند مکاری“ کو فاش بھی کردیا۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی نمک خوارتنظيم ’’مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ بھی متحرک ہوچکی ہے اور 16جنوری 2020کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں علماء کا ایک اجلاس طلب کیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے مطابق ملک بھر سے 200سے زائد علماء و مذہبی راہنمائوں کو مدعو کیاگیا ہے۔ بھارتی مسلمان اپنے شعور کو بیدار رکھیں، حکومت کے حمایتی کسی بھی حضرت، کسی بھی قائد، کسی بھی لیڈر کے بہکاوے میں آکر ہرگز ہرگز اپنی تحریک کو واپس نہ لیں، صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے :ـCAAواپس لو، NPRواپس لو، NRCواپس لو! اپنی خواتین کو باہر نکالو، نوجوانوں کو باہر نکالو ، بچوں کو باہر نکالو، پوری طاقت سے تحریک اُٹھائو کہ ہر شہر اور قصبہ ’’واپس لو، واپس لو ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے، امن کے ساتھ محبت کے ساتھ۔