بات مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی کی جائے یا ترکی کے بابائے قوم مصطفی کمال پاشا کی یا الجزائر اور تیونس کے انتخابات کی۔ ایک ڈر ان سب میں قدر مشترک رہی وہ ہے اسلام سے ڈر۔
سیکولرازم یعنی ریاست لا دین ہوگی یعنی ریاست اور اس کی حکومت کسی مذہب کو فروغ دینے کے لئے یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کرے گی۔ جس طرح ڈیوٹی کے بعد کوئی پولیس وردی میں نہیں رہ سکتی پولیس کی گاڑی استعمال نہیں کر سکتی ڈیوٹی کے بعد اپنے آپ کو عوام میں بحیثیتِ پولیس پیش نہیں کر سکتی مبادا پولیس رعب کا غلط استعمال نہ ہو اسی طرح حکومت کے کارندے صدر وزیراعظم سے لے کر کلرک تک سرکاری دفاتر میں اپنی مذہبی تشخص کی تشہیر نہیں کریں گے مبادا کسی ایک مذہب کے تئیں جانبدارانہ سلوک کا تاثر ملے گا۔
کثیرالمذاہب اور متنوع تہذیبیں مختلف ذات برادری زبان پوشاک کھانا پینا اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے والے ماڈرن ورلڈ کے لئے بلا شبہ سیکولرازم ایک خوبصورت اور قیمتی تحفہ سے کم نہیں ہے اگر حقیقی معنوں میں اس پر عملدرآمد ہو۔
ہندوستان میں مذہبی تشخص چھپانا اس لئے ممکن نہیں کہ لوگوں کے نام سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ شخص کس مذہب کا پیروکار ہے۔ ذات برادری کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ آکاش جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی کوچنگ کے لئے ملک و بیرون ملک مشہور ہے اس کی ایک میٹنگ میں ایک ایکسپرٹ والدین کو بچے کے لئے صحیح اور مفید نظام الاوقات اور منصوبہ بندی پر ٹپس دے رہے تھے۔ سوال جواب کے دورانیہ میں بعض لوگوں نے پوچھا کہ سر آپ کا نام کیا ہے انہوں نے کہا ” یش”.. سائل نے کہا وہ تو اسکرین پر ہم دیکھ رہے ہیں لیکن آپ کا سر نیم کیا ہے انہوں نے کہا برادری جاننے کے بعد یا تو اپنے بچے کے لئے مجھ سے غیر واجب ترجیح طلب کریں گے یا مجھے کمتر سمجھیں گے اس لئے مجھے معاف کریں میں نہیں بتا سکتا۔ حقیقی سیکولرازم کی یہ بھی ایک شکل ہے۔ ہندوستان ایک عرصہ دراز تک اس پر بہت حد تک گامزن رہا۔
جب سیکولرازم کا تقاضا اس نوعیت کا ہے یعنی مذہب کے نام پر کسی قسم کی تفریق بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا تو پھر بعض ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کیوں ؟ ملک کے دستور اور قوانین کے مطابق ایک سیاسی پارٹی انتخاب میں حصہ لیتی ہے اور بین الاقوامی آبزرورس کی نگرانی میں ووٹنگ ہوتی ہے لیکن اس مسلم پارٹی کی فتح سیکولر نظام کو قبول نہیں۔ چنانچہ مصر ترکی الجزائر اور تیونس میں نہ صرف ان کی فتح کالعدم قرار دیا گیا تھا بلکہ ان سیاسی پارٹیوں پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ آج کے دور میں جو ” دہشت گرد” تنظیم سے معنون ہوتی ہیں اسی اور نوے کی دہائی میں” رجعت پسند” ، شدت پسند بنیاد پرست اور علحدگی پسند ” کے نام سے مطعون تھیں۔
ترکی میں سیکولرازم کے نام پر مساجد کے بازو میں مسیحیوں کو شراب و خنزیر کی دکانیں بار اور نائٹ کلب چلانے کے لائسنس دیے جاتے تھے مگر مساجد میں عربی زبان میں اذان، نماز ، قرآن اور حجاب پر پابندی ! مصر میں ان اسلام پسند جماعتوں کو بھی جو دستور و قوانین کے پابند تھیں کالعدم قرار دیا گیا۔ الجزائر اور تیونس میں اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کی فتح باطل قرار دیا گیا! ایسا کیوں ؟ جمہوریت پر مبنی ملک میں فیصلہ عوام کو کرنا ہوتا ہے کہ ملک کے لئے وہ کس قسم کا نظام اور کس پارٹی کی حکومت چاہتی ہے۔ اگر اکثریت ایک صالح معاشرہ کے لئے کسی مخصوص پارٹی، جو ملک کے دستور بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کا پابند ہو کی تشکیل چاہتی ہے، اس پر پابندی چہ معنی دارد ؟ مفروضوں کی بنیاد پر کسی پارٹی پر پابندی کہاں تک درست ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)