(دوسری قسط)
پہلی بات یہ کہ سیکولرازم کا ہندوستانی تناظر میں اور عملی شکل میں جو مفہوم ہے وہ قطعاً #لا دینیت،بے دینی،ترک دین ، دہریت نہیں ہے۔ ہندوستانی سیکولر ازم کی تعریف یہ ہے :
١- سیکولر ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا
٢- سیکولر ریاست کسی مذہب کو فروغ دینے یا کسی مذہب کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گی
٣- سیکولر ریاست میں ہر شخص کو اس کی اپنی مرضی کے مذہب کی اتباع کرنے کی آزادی ہوگی
٤- سیکولر ریاست میں اگر کوئی شخص کسی مذہب کو نہ مانے تو اسے بھی اس کی آزادی ہو گی۔
٥- سرکاری عملہ کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنی پسند کے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ہوگی لیکن سرکاری عملہ سرکاری دفاتر اور مشینری ایسا کچھ نہیں کرے جس سے کسی مخصوص مذہب کو فروغ دینا ظاہر ہو
٢- دوسری بات دستور ہند یہ ہندوستان کے سبھی شہریوں ، بلا تفریق مذہب ذات جنس علاقہ, کے لئے ایک مقدس وثیقہ ہے۔ اور اس ملک میں ہر شخص بلا طوع و اکراہ اسے تسلیم کر کے شہری ہے۔
دستور کو ایک معاہدہ سمجھنا آپ کوذمی کا درجہ دے گا نہ کہ شہری کا۔
ایک ذمی آزاد ہوتا ہے جب اس کا جی چاہے معاہدہ توڑ کر ملک سےباہر نکل جائے۔ خدا کے واسطے یہ معاہدہ والا شوشہ چھوڑ کر مسلمانانِ ہند کے لئے مزید مسئلہ نہ کھڑا کیا جائے۔ یہ ہمارا ملک ہے ہمارے اسلاف نے اس ملک کو آزاد کرانے میں خون پسینہ بہایا ہے اور آزادی حاصل ہونے کے بعد المیہ تقسیم کے وقت اپنی مرضی سے یہاں رہنے کو ترجیح دی اور اس کے بعد یہاں کے دستور کو بسروچشم قبول کیا۔
جہاں تک دستور کے مکمل طور پر نفاذ کا تعلق ہے اس میں اگر کچھ خامی یا کمی ہے تو وہ اس کے نافذ کرنے والوں کی کمی ہے نا کہ دستور کی۔ دستور کے نفاذ میں اس کے بنود کی تشریح اہم ہوتا ہے جسے عدالت عظمیٰ کے ججز اور پیچیدہ معاملہ میں عدالت عظمیٰ کے ماہرین دستور کرتے ہیں اور وہ بہر حال انسان ہیں اور انسانی فطرت میں غیر دانستہ خطا کے علاوہ کسی اور لالچ یا دباؤ میں کام کرنے کے امکانات ہوتےہیں۔ یہ ہندوستان کے ساتھ خاص نہیں ہے دنیا کے تمام ممالک میں کم و بیش ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ماضی میں بھی قاضی القضات اور قضات سے ایسی دانستہ اور غیر دانستہ خطا سرزد ہونے کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔ اسی ضمن میں اس کا ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قاضی/ فیصل اپنی عقل سمجھ بوجھ اور علم کی روشنی میں حق سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے اگر وہ فیصلہ حق کے حق میں ہوا تو قاضی دو اجر کا مستحق ہوگا اور اگر دیانت داری اور بصیرت کے ساتھ فیصلہ کے باوجود فیصلہ حق کے خلاف ہےتو ایک اجر کا مستحق ہوگا۔
جہاں تک شریعت میں مداخلت کی کوشش کی بات ہے تو اس کی کوششیں کانگریس دور میں بھی ہوتی رہی ہیں اب اگر بی جے پی کرتی ہے تو اس میں نئی بات کیا ہے۔ اسی دستور نے ہمیں اور دیگر مذاھب کے پیروکاروں کو اپنا اپنا پرسنل لاء دیا ہے۔ اگر قانوناً اس کی خلاف ورزی یا اس میں مداخلت ہوتی ہے تو لڑنے کا حق ہمیں میسر ہے۔ لیکن اگر آپ خود مقدمہ صحیح ڈھنگ سے نہیں لڑیں تو دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا کہاں تک درست ہے۔
جہاں تک ہم جنسی کے جواز یا لیو ان ریلیشن شپ کو قانوناً جائز قرار دینے کی بات ہے تو وہ قوانین مسلمانوں یا کسی بھی شخص یا کمیونٹی پر مسلط نہیں کئے گئے ہیں۔ تو جس طرح خنزیر سود اور شراب قانوناً جائز ہے مگر ہمارے یا کسی کے اوپر مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی شریعت کے حکم کے تحت اسے حرام سمجھا اسے حرام سمجھنے کی اجازت بھی اسی دستور نے دیا ہے۔۔ جن ممالک میں سرکاری طور پر شراب و شباب ممنوع ہے وہاں کے زمینی حقائق سے میں واقف ہوں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ڈنڈے کے ڈر سے شرعی احکام کی پابندی کی تو کیا حاصل اگر دل میں خوف خدا نہیں۔
٣- مسلم ممالک کا قیام خلافت علی منہاج النبوۃ کے طرز پر کیوں نہیں ہیں تو اس کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے سامنے جب ایسی ریاست کے محاسن کا آپ ذکر کریں گے تو دنیا اس کا موجودہ دور میں ماڈل دیکھنا چاہے گی۔ کیا چہار دانگ عالم میں مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک نظر دوڑا لیں اور بتائیں کہ کیا کوئی اسلامی ملک ہے ؟ اسلامی تو دور کی بات کوئی صحیح مفہوم میں جمہوری مسلم ملک نہیں ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)