نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
qindeel
جے پور:سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ راجستھان (آر بی ایس ای)نے 12ویں آرٹس امتحانات کارزلٹ آج21 جولائی کوجاری کردیاہے ۔ اس بار 90.70فی صدطلبہ پاس ہوئے ہیں۔راجستھان بورڈ آرٹس اسٹریم کے نتائج میں لڑکیوں نے بازی ماری ہے۔ لڑکوں کی بنسبت لڑکیاں تقریباََ5 5 فیصد زیادہ ہیں۔ راجستھان بورڈ کلاس 12 آرٹس کے نتائج میں 93.10 فیصد لڑکیاں کامیاب ہوگئیں۔ لڑکوں کی شرح 88.45 ہے۔نتیجہ کے اعلان کے ساتھ ہی راجستھان بورڈسے 12 ویں آرٹس کاامتحان دینے والے تقریباََ5 لاکھ طلباء کاانتظاربھی ختم ہوگیاہے۔بورڈکی آفیشل ویب سائٹ،rajresults.nic.in پر طلباء اپنارول نمبر درج کرکے نتیجہ چیک کرسکتے ہیں۔نتائج کا اعلان اس سال تاخیرسے ہواہے جس کی وجہ کوروناکی وباہے۔ آر بی ایس ای میرٹ لسٹ جاری نہیں کرے گا۔بتادیں کہ راجستھان بورڈ12 ویں کے سائنس اسٹریم کا نتیجہ پہلے ہی جاری کیاجاچکا ہے۔ سرکاری ویب سائٹوں پرآپ نتائج کو چیک کرسکتے ہیں۔
پرسوں ایک صاحب میرے مہمان ہوئے۔ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں لیکن ذرا بے تکلفی سی ہے۔ آنجناب ایک مدرسہ میں استاد ہیں اس لئے میں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس کے تعلیمی نظام پر پڑنے والے اثر کا فسانہ چھیڑ دیا۔ فرمانے لگے ‘کچھ مت پوچھیئے دل شکستہ ہے’۔
میں کہاں ماننے والا تھا اس لئے کریدتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایسے کھلے کہ میں حیران رہ گیا۔ بتانے لگے کہ لاک ڈاؤن کے پہلے ہی مہینہ میں مہتمم صاحب نے ہم اساتذہ کو جمع کرکے مالی تنگی کا دکھڑا رویا اور پھر ہمیں یاد دلایا کہ ہم تو اللہ کا کام کر رہے ہیں اس لئے ہر حال میں شکر ادا کرنا ہوگا۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ تعلیمی سلسلہ بند رہنے کے دوران تنخواہ نہیں ملے گی۔
گھر آکر بیگم کو صورتحال سے باخبر کیا تو وہ بے چاری رونے لگی۔ موصوف نے بیوی کو دلاسہ دیا۔ جو کچھ پس انداز کیا تھا اس سے کچھ راشن وغیرہ خرید لائے۔
پہلے لگا تھا کہ لاک ڈاؤن جلد کھل جائے گا اور زندگی معمول پر لوٹ آئے گی لیکن تالابندی بڑھتی ہی چلی گئی۔ ادھر مہتمم صاحب سے رابطہ کرو تو وہ ہر بار پچھلی بار سے زیادہ مالی تنگی کا رونا روتے ایسے میں کچھ کہنے کی ہمت کہاں ہوتی؟۔
جمع جوڑ خرچ ہو گئی، نئی آمدنی تھی نہیں، اب مسئلہ یہ کہ کھائیں کیا؟۔ بیگم نے جھجکتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ راشن وغیرہ بانٹ رہے ہیں وہاں سے مدد لے لیجئے۔ دل پر پتھر رکھ کر مولانا مذکور دو گلی چھوڑ کر واقع ایک امدادی تنظیم کے چھوٹے سے دفتر پہنچے تو وہاں ضرورتمندوں کا ایک جم گھٹ پایا۔ ابھی کچھ سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ ایک نوجوان قریب آکر بولا ‘خیریت حضرت؟ ‘۔ مولانا موصوف کو یہ نوجوان آتے جاتے دعا سلام کرتا تھا۔ انہوں نے نوجوان کی جوابی خیریت پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ سامنے لائن جو لگی ہے یہ راشن ہم ہی لوگ تو بانٹ رہے ہیں۔ مولانا مذکور ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہتے ہوئے الٹے قدم پلٹ آئے۔
بیگم کو ماجرا سنایا تو بولیں اچھا کیا۔ گھر میں چولہا تو جلنا تھا اس لئے پھر گھر سے نکلے اور ایک شناسا دوکاندار سے کافی دیر باتیں کرنے کے بعد ادھار سودا ملنے کے بارے میں پوچھا۔ اس نیک دل نے خندہ پیشانی سے وہ سب سامان باندھ دیا جو جو مولانا نے بتایا۔ کچھ وقتوں کا آسرا تو ہو گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟۔ مولانا موصوف نے مہتمم صاحب کو فون ملایا اور ساری پریشانیاں ذکر کیں۔ ادھر سے حضرت ساری باتیں سنتے رہے پھر فرمایا ‘حالات آپ دیکھ ہی رہے ہیں اللہ آپ کی مدد فرمائے’۔
اب صورتحال یہ تھی کہ مولانا موصوف کسی اور ذریعہ معاش کی تلاش میں تھے۔ میں نے جب یہ روداد سنی تو دل پھٹنے لگا۔ کیسا امتحان ہے ایسے سفید پوش علما کا اور کیسے ظالم اور بے رحم ہیں وہ مہتمم جنہوں نے ان لوگوں کو یوں بے آسرا چھوڑ دیا۔
اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ سنیے ، آج صبح فجر کے لیے اٹھا تو نماز کے بعد ہوا خوری کے لیے باہر نکلا ۔ کوڑے والے پر بڑے دنوں بعد نظر پڑی تو سوچا ذرا خیر خیریت پوچھ لوں ، میں نے کہا لمبے عرصے بعد دکھے کہنے لگا نہیں ، میں تو روزانہ آتا ہوں ، بس آپ نہیں دکھتے ، ابھی اس کی باتیں مکمل نہ ہوئی تھیں کہ دیکھا اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ میں نے کہا کیا ہوا سب خیریت تو ؟کہنے لگا کیا بتاؤں ایسے حالات کبھی نہیں آئے ، خدا کسی کو یہ دن نہ دکھائے ، اس پوری مشقت کے مالک چار ہزار روپیے دیتا تھا اب اس نے کہا لاک ڈاؤن کی وجہ سے فلیٹیں خالی پڑی ہیں ، لوگ گھروں کو جا چکے ہیں تو آمدنی ہی نہیں ہوئی ۔ اس لیے ہم تمہیں اب مہینے کے تین ہی ہزار دیں گے ، اوپر سے اس گلی سے کباڑ بھی جمع نہیں ہوتا ، مکان کا کرایہ ، کھانا پینا ، کیا ڈھانپیں اور کیا چھوڑیں ۔ میں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے بتایا ،عبد الطیف۔ کہاں سے ہو ؟ بنگال سے ۔ میں تھوڑی دیر چپکا سوچتا رہا ، خدایا دنیا میں کتنا دکھ ہے اور تو نے ہمیں کتنا سکون بخشا ہے اور ہم پھر بھی تیری نا شکری کرتے ہیں۔ میں نے عبد لطیف کو کچھ روپیے دینے چاہے تو اس نے لینے سے صاف انکار کر دیا ۔ میں نے کہا اچھا تم ایسا کرو اس کے بدلے تم میری سیڑھیاں صاف کردو ، اس کے چہرے پر مسکان آگئی ۔ میں بھی الٹے قدم واپس کمرے آگیا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
میر تقی میر نے دہلی کے گلی کوچوں کو ’اوراق مصور‘سے تشبیہ دی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور یہاں ہرطرف شعر و شاعری کا دور دورہ تھا۔ دہلی کے کوچہ و بازار اپنی رونقوں اور رعنائیوں کے اعتبار سے کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔دہلی کی سماجی اور ادبی زندگی اپنی مخصوں قدروں کی وجہ سے ایک منفرد اور یکتا مقا م کی حامل تھی۔لیکن آج ہم جس دہلی کے باسی ہیں، اس میں وہ تمام تہذیبی قدریں دم توڑرہی ہیں جن سے کسی زما نے میں اس شہر کی پہچان رہی ہے۔ان میں دہلی کا مشہور زمانہ اردو بازار بھی ہے، جوکبھی دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا لازمی حصہ تھا اور جہاں کے درجنوں کتب خانے پورے ملک میں پہچانے جاتے تھے۔یہ کتب خانے محض کتابوں کے محل ہی نہیں تھے بلکہ ان میں شعر وادب کی بڑی بڑی ہستیاں اپناوقت گزارتی تھیں اور یہاں کی رونقوں کو دوبالا کرتی تھیں۔اب اس اردو بازار کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں اور یہ اپنی تاریخ کے آخری پڑاؤ پر نظر آتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ایک نظر اردو بازار کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔ سرسیداحمد خاں اور مولوی بشیر الدین احمد نے لکھا ہے کہ بازار چاندنی چوک کا پہلا حصہ اردو بازار کہلاتا تھا۔ ’فرہنگ آصفیہ‘کے مولف مولوی سید احمد نے اپنی جائے پیدائش کوچہ بلاقی بیگم واقع اردو بازار لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بازار چاندنی چوک کی سڑک کے جنوبی پہلو پر واقع تھا۔ میرمہدی مجروح بھی اسی اردو بازار کے مکین تھے۔1857کے انقلاب کے بعد اس اردو بازار کا نام ونشان مٹ گیا۔مولاناحفیظ الرحمن واصف کے مطابق موجودہ اردو بازار کی تخلیق کچھ اس طرح ہوئی کہ 1937میں خواجہ حسن نظامی نے جگت ٹاکیز کے پاس ایک مکان خرید کر اس کا نام ’اردو منزل‘ رکھااور اس بازار کا نام اردو بازار تجویز کیا۔انھوں نے ان دونوں کے ٹائل بنواکر مکان کی دیوار پر لگوائے۔ اس کو علاقہ کے اہل علم کے علاوہ ان تاجران کتب اور ناشروں نے بھی پسند کیا جن کے دفتر اور دکانیں اس بازار میں موجود تھیں۔سب نے اس کی تشہیر شروع کردی۔چار پانچ سال بعد مقامی دکانداروں نے ایک قرار داد پاس کرکے اس کی باقاعدہ تجویز صدر بلدیہ کو بھیج دی۔ میونسپل کمیٹی کے معزز ممبر اور مشہور ادیب ملا واحدی کی کوششوں سے یہ تجویز منظور ہوگئی اور سرکاری حکم سے اردو بازار کے نام کے بورڈ آویزاں ہوگئے۔ اس طرح اردو بازار ایک بار پھر زندہ ہوگیا۔ لیکن آج 83 سال بعد ایک بار پھر اس اردو بازارکے وجود پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں، کیونکہ یہاں سے نہ صرف اردو کتابوں کی دکانیں اور تاریخی کتب خانے ختم ہورہے ہیں بلکہ نئی دکانوں کے بورڈوں سے اردو کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔
اردو بازار کسی زمانے میں مختلف اور متنوع موضوعات کی اردو کتابوں کے لئے مشہور تھا۔یہاں دور دور سے علم وادب کے شائقین اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ شعروادب، تاریخ، فکشن، علم نجوم، فلسفہ اور منطق ہرموضوع کی کتابیں یہاں دستیاب ہوتی تھیں۔ رات گئے اس اردو بازار میں شعر وادب کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں اور نامی گرامی ادیبوں اور شاعروں کا میلہ لگا رہتا تھا۔ اس معاملے میں مولوی سمیع اللہ قاسمی کا کتب خانہ عزیزیہ خاص طور سے مشہور تھا، جہاں ہمارے عہد کی بڑی بڑی علمی اور ادبی شخصیات نے اپنا وقت گزارا۔ان میں سائل دہلوی، بیخود دہلوی، مولاناحسرت موہانی، جگرمرادآبادی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ساحرلدھیا نوی، مجروح سلطانپوری، حفیظ جالندھری اور شکیل بدایونی غرضیکہ اردو کا ایسا کون سا شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور تھا جس نے اردو بازار میں مولوی سمیع اللہ کے کتب خانے کے باہر لکڑی کے تخت اور بینچ پر بیٹھنے کی سعادت حاصل نہ کی ہو۔ ہندوستان کے ان گنت مشاعروں کی ترتیب اور انتظام یہیں ہوا کرتا تھا۔ رات گئے تک شعر وسخن کی محفل جمی رہتی تھی۔ جگر مرادآبادی کی خوبی یہ تھی کہ وہ مشاعرے کے علاوہ کہیں بھی اپنا کلام نہیں سناتے تھے، لیکن دہلی میں قیام کے دوران وہ مولوی سمیع اللہ کی دکان پر رات دوبجے تک اپنا کلام سناتے رہتے تھے۔ مفتی کفایت اللہ کے داماد مولوی سمیع اللہ قاسمی کوئی ادبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی ان کا کتب خانہ عزیزیہ ادبی کتابوں کا مرکز تھا۔ وہ خالص مذہبی کتابیں فروخت کرتے تھے اور اس کے ساتھ ہی لٹھے کے تھان بیچتے تھے، لیکن شعر وادب کی دنیا میں ان کے کتب خانے کا بڑا شہرہ تھا اور ہر بڑا ادیب اور شاعر یہاں آنا اپنے لئے باعث افتخارسمجھتا تھا۔
اردوبازار نے اردو پبلشنگ انڈسٹری کے حوالے سے بڑی شہرت حاصل کی۔ جس کسی کو کوئی کتاب شہر کے کسی حصے میں نہیں ملتی تھی وہ آنکھ بند کرکے اردو بازار چلا آتا تھااور بامراد واپس جاتا تھا۔لیکن اب یہ اردو بازار آہستہ آہستہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے دور ہوتا چلا جارہا ہے اور یہاں کتب خانوں کی جگہ کبابوں کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ اگر آج کی تاریخ میں آپ اردو بازار کی پرانی رونقوں کو ذہن میں سجاکر وہاں جائیں گے توآپ کو بڑی مایوسی ہوگی۔ کیونکہ جن کتب خانوں سے آپ نے کبھی سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، صادق سردھنوی،الیاس سیتاپوری اور واجدہ تبسم کے ناول خریدے تھے،جہاں آپ نے میر وغالب، مومن و ذوق اور داغ و فراق کے دیوان خریدے تھے، وہاں آج آپ کو چکن فرائی، چکن تندوری، تلی ہوئی مچھلی اور بڑے کے کباب کھانے کوملیں گے۔ ان چیزوں سے آپ لذت کام ودہن کا توکام لے لیں گے، لیکن آپ کا ادبی ذوق او رمطالعے کا شوق تشنہ کام ہی رہے گا۔
ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ اس اردو بازار تک پہنچنے کے لئے آپ کو اپنی ناک پر رومال رکھنا پڑتا تھا۔ کیونکہ راستے میں یہاں مرغ، مچھلی اور انڈے کی ہول سیل مارکیٹ تھی۔ اردو کتابوں سے عشق کرنے والے اس تعفن کو برداشت کرتے ہوئے اردو بازار تک پہنچتے تھے۔ خدا خدا کرکے مرغ، مچھلی اور انڈوں کی ہول سیل مارکیٹ یہاں سے غازی پور منتقل ہوئی تو لوگوں کو آسانی میسر آئی، لیکن آسانی کا یہ دورانیہ کچھ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہا، کیونکہ اردو بازار میں مرغ، مچھلی اور انڈوں نے اپنی ہیئت تبدیل کرلی اور وہ کبابوں کی شکل میں نظر آنے لگے۔ تاریخی نوعیت کے کتب خانو ں پر آویزاں بورڈ اتارکر وہاں مرغ و ماہی کے بورڈ آویزاں کئے جانے لگے۔ہم جیسے کتابوں کے شائقین یہ سب کچھ دیکھ کر ملول ہونے لگے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو بازارصرف اپنی اردو کتابوں کے لئے ہی مشہور نہیں تھا بلکہ اس کے آخر میں یعنی مٹیا محل کے نکڑ پر اردو اخبارات وجرائد کی کا ایک ایسا اسٹال بھی تھا جہاں آپ کو ہندوستان کے ہر خطے سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبارات اور ماہنامہ جریدے آسانی سے دستیاب ہوجاتے تھے۔اس اسٹال کی بھی یہ خوبی تھی کہ یہاں اردو کے بڑے بڑے صحافی اور ادیب آکر کھڑے ہوتے تھے۔ اسٹال کا مالک نادہند ضرور تھا لیکن اخبارات وجرائد کے مالکان اس اسٹال پر اپنے اخباروں اور جریدوں کو ضرور دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ جو شہرت ان کے اخبارات وجرائدکو یہاں ملتی تھی وہ کہیں اور نہیں ملتی تھی۔ہر ادبی، نیم ادبی، فلمی اور جاسوسی جریدہ اس اسٹال پر دستیاب ہوتا تھا، لیکن اب ایوریسٹ نیوز ایجنسی نام کا یہ اسٹال بھی صرف مذہبی کتابیں ہی رکھتا ہے کیو نکہ فی زمانہ ان کی ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ بھی اردو سے زیادہ ہندی میں۔
جگت ٹاکیز سے شروع ہوکر حاجی ہوٹل تک یہ شاہراہ کسی زمانے میں اردو زبان و اردو تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ افضل پشاوری کے ہوٹل جہاں شاعروں اور ادیبوں کی پناہ گاہ ہوا کرتے تھے تو وہیں حاجی ہوٹل میں بڑے بڑے اور نامی گرامی شعرائے کرام آکر قیام کرتے تھے۔درمیان میں میر مشتاق احمد کا قایم کیا ہوا جنتا کوآپریٹیو بینک، استاد رسا دہلوی کی چہل قدمی اور سراج انور کا فوٹو اسٹوڈیو، بندو پان والا اور اسی گلی میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے اشاعتی ادارے ندوۃ المصنفین کا دفتر تھا اور یہیں سے ان کا علمی جریدہ ’برہان‘ شائع ہوتا تھا۔مولانا شوکت علی فہمی کے مشہور رسالے’دین دنیا‘ کا دفتر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ غرضیکہ اردو بازار کی یہ شاہراہ اپنی سرگرمیوں کے لئے چہاردانگ عالم میں مشہور تھی، لیکن اب یہاں ہر طرف کھانے کے ہوٹل، فرائی مچھلی اورمرغ کے علاوہ کباب اور تکے نظر آتے ہیں۔ درجنوں کتب خانوں میں اب لے دے کر علمی اور ادبی کتابوں کی دو چاردکانیں ہی بچی ہیں۔ ایک مکتبہ جامعہ اور دوسرے کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جہاں آپ کو اپنے مطلب کی کتابیں میسر آسکتی ہیں۔کتب خانہ انجمن ترقی اردو کے بانی اور ہمارے کرم فرما منشی نیازالدین مرحوم کے صاحب زادے نظام الدین نے اردو ادب اور فنون کی کتابوں کی جو اشاریہ سازی کی ہے وہ واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک مستقل کتاب کی شکل میں شائع کئے جانے کے لائق ہے۔رہے نام اللہ کا
شعبۂ اردو ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے زیر اہتمام سہ روزہ کثیرلسانی بین الاقوامی ویبینار۲۰جون سے
بین الاقوامی ویبینارکا مقصداردو ، ہندی، انگریزی، فارسی اور سنسکرت زبان وادب کی ترویج و اشاعت ہے:پروفیسر اسلم جمشید پوری
میرٹھ :
شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے پریم سیمینار ہال میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ، جس کی صدارت صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب نے فرمائی۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے پریس کو جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ شعبہء اردو آنے والی مورخہ 20؍تا22 ؍جون 2020ء میں ایک سہ روزہ کثیر لسانی بین الاقوامی ویبنار(اردو ، ہندی ،انگریزی، سنسکرت اور فارسی) کا انعقاد کر رہا ہے۔جس کا عنوان ’’سماجی تغیرات کے زبان و ادب پر اثرات‘‘ ہے۔ اس ویبینارکا خاص مقصداردو ، ہندی، انگریزی، فارسی اور سنسکرت زبانوں کی ترقی اور ادب کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ قلم کاروں کی تخلیقات کو پرکھنا ان کے کاموں کو عوام سے روبروں کرانا اور طلباء و طلبات کو بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کرانا ہے۔
سہ روزہ کثیرلسانی بین الاقوامی ویبینار کا افتتاحی اجلاس 20؍ جون صبح 11:00؍ بجے عمل میں آئے گا۔ جس کی صدارت پروفیسر این کے تنیجا(شیخ الجامعہ، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)کریں گے۔ ویبنارکا افتتاح پروفیسر یوسف عامر(وائس چانسلر، الجامعہ،الازہر یونیورسٹی، مصر) کے دست مبارک سے ہوگا۔جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹرشیخ عقیل احمد(ڈائریکٹر این سی پی یو ایل منسٹری آف ایچ آرڈی حکومت ہند) اور مہمانانِ ذی وقار کے بطور محترم، وی این رائے(سابق شیخ الجامعہ، مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونیورسٹی، وردھا) پروفیسر وائی سنگھ (ڈین فیکلٹی آف آرٹس،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) شریک ہونگے۔کلیدی خطبہ پروفیسر ارتضیٰ کریم(ڈین فیکلٹی آف آرٹس، دہلی یونیورسٹی، دہلی) پیش کریں گے، اور نظامت کے فرائض پروگرام کے روح رواںپروفیسر اسلم جمشید پوری(صدر شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) انجام دیںگے۔
پہلا ٹیکنکل اجلاس ہندی کا ہوگاجس کی صدارت پروفیسر وائی وملا(پرووائس چانسلر، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) پروفیسر نوین چندر لوہانی(صدر شعبہء ہندی،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) فرمائیں گے۔ ڈاکٹر پرگیہ پاٹھک(ایسو سی ایٹ پروفیسر ،این اے ایس کالج، میرٹھ)محترم جے نندن(جمشیدپور) محترم شکیل صدیقی(لکھنؤ)ڈاکٹرروپا سنگھ(ایسو سی ایٹ پروفیسر، بابو شوبھا رام آرٹ کالج آف الور) ڈاکٹرودیا ساگر(شعبہء ہندی ،سی سی ایس یو ، میرٹھ)اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر الکا وشسٹھ(شعبہء اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)انجام دیں گی۔دوسرا ٹیکنکل اجلاس اردو کا ہوگا جس کی صدارت کے فرائض مشترکہ طور پر پروفیسر کوثر مظہری(دہلی) ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی(پٹنہ) ادا کریں گے۔ ڈاکٹر نعیم انیس(کلکتہ) ڈاکٹر عابد حسین حیدری(سنبھل) ڈاکٹرر یحانہ سلطانہ(نوئیڈا)ڈاکٹر یوسف رامپوری(رام پور) اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی(شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) انجام دیںگے۔دونوں سیشن کے بعد شامِ غزل کی محفل سجائی جائے گی۔اس میں میرٹھ کے معروف فنکار محترم مکیش تیواری غزلیں پیش کریں گے۔
سہ روزہ بین الاقوامی کثیر لسانی ویبنار کے دوسرے دن 21؍جون 2020ء کو اردو سیشن کا انعقاد 11:00 بجے سے 12:00 بجے تک ہوگا۔اس سیشن کی صدارت کے فرائض پروفیسر شہاب عنایت ملک(کشمیر)پروفیسر فاروق بخشی(حیدرآباد)ادا کریں گے۔اردو سیشن میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی(پٹنہ)ڈاکٹر فریدہ انصاری(قطر) ڈاکٹر درخشاںزریں(گیا) ڈاکٹر محمد کاظم(دہلی) ڈاکٹر فوزیہ بانو(میرٹھ) غلام نبی کمار(دہلی ) اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شاداب علیم(شعبہء اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) انجام دیں گی۔انگریزی کاسیشن1:30-12:30 ؍بجے دوپہر، عمل میں آئے گا۔جس کی صدارت پروفیسر انیس الرحمان(دہلی)فرمائیں گے۔ مقالہ نگار وں میںپروفیسر ثمینہ خان(اے ایم یو، علی گڑھ) پروفیسر پردیپ ترکھا(ایم ایل ایس یونیورسٹی ، ادے پور)پروفیسر حسیب الدین قادری(مانو، حید رآباد)پروفیسر آئی ڈی تیواری(چھتیس گڑھ)ڈاکٹر مرینالنی اننت(مظفرنگر) اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔جبکہ نظامت کے فرائض محترم آر ایم، تیواری(ڈی اے وی کالج مظفر نگر) ادا کریں گے۔
انگریزی سیشن کے بعد محفلِ افسانہ کا اہتمام کیا جائے گا۔یہ سیشن 2:30-1:30؍ بجے تک ہوگا۔محفل افسانہ کی صدارت ڈاکٹر پرویز شہر یار(دہلی) محترم اشتیاق سعید(ممبئی) اور نیازاختر (جمشیدپور) فرمائیںگے۔ افسانے کی اس محفل میںڈاکٹر فرقان سنبھلی(سنبھل)ارشد منیم(مالیر کوٹلہ، پنجاب) مہیم اختر( لندن)محترم حنیف خان (علی گڑھ) اپنے اپنے افسانے پیش کریں گے۔ جبکہ نظامت کے فرائض شعبہء کی ریسرچ اسکالر شوبی زہرا نقوی انجام دیںگی ۔
عالمی کوی سمیلن و مشاعرہ 3:00 ؍بجے سے 4:00 ؍ بجے شام عمل میں آئے گا۔ جس کی صدارت محترم عارف نقوی (صدر، اردو انجمن برلن، جرمنی) فرمائیںگے۔شعراء حضرات میںجاویددانش(کناڈا)صدف مرزا(ڈنمارک) عشرت معین سیما(جرمنی)محترم مقصود انور مقصود (قطر) ولا جمال (مصر) پروفیسر شہپر رسول(دہلی) پروفیسر فاروق بخشی(حیدرآباد) ڈاکٹر نواز دیوبندی(دیوبند)محترم ذکی طارق(غازی آباد)محترمہ علینا عترت(غازی آباد)فخری میرٹھی(میرٹھ)محترمہ تُشا شرما(میرٹھ)احمدعلوی(دہلی) عبداللہ عثمانی(دیوبند) اظہر اقبال(میرٹھ)ایشور چندگمبھیر(میرٹھ)فرقان سردھنوی(سردھنہ) شریک مشاعرہ ہونگے ۔اس عالمی کوی سمیلن و مشاعرہ کی نظامت فرقان سردھنوی(سردھنہ)انجام دیں گے۔
22؍جون 2020ء کو اردو سیشن صبح 11:15-10:00؍ بجے منعقد ہوگا ۔ اس اجلاس کی صدور صاحبان پروفیسر انور پاشا(دہلی)پروفیسر شہپررسول(دہلی)ڈاکٹر علی محمد آصف(موریشس) ہونگے۔اجلاس میں ڈاکٹر ناصرہ بصری(جے پور)ٖڈاکٹر عقیلہ غوث(مہاراشٹر) ڈاکٹر الطاف انجم(کشمیر) محترمہ صدف مرزا (ڈنمارک)ڈاکٹر ہما مسعود(میرٹھ)ڈاکٹر فرحت خاتون(میرٹھ) نوشاد منظر(دہلی) اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹرآصف علی(شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) ادا کریں گے۔
فارسی اور سنسکرت سیشن 12:45-11:30؍ بجے عمل میں آئے گا۔ جس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر بلرام شکلا(دہلی) کریں گے۔او رمقالہ نگاروں میں ڈاکٹر واچسپتی مشرا(میرٹھ)پروفیسر اخلاق آہن(جے این یو ،دہلی) پروفیسر شاہ حسین احمد( آرا)پروفیسر صالحہ رشید(الہ آباد) ڈاکٹر محمدقمر عالم(اے ایم یو علی گڑھ) اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔
بین الاقوامی ویبنار میں اردو رسرچ اسکالر سیشن بھی منعقد کیا جائے گیا یہ سیشن 2:00-12:45؍ بجے تک گا ۔ جس کی صدارت مشترکہ طور پر پروفیسر شبنم حمید(الہ آباد) اور ڈاکٹر محمد کاظم(دہلی) فرمائیں گے۔جبکہ مقالہ نگاروں میں محترم سید ساجد علی، محترمہ فرح ناز، محترم تابش فرید، محترمہ تسلیم جہاں،ڈاکٹر رضیہ بیگم،محترم نوید خان اپنے اپنے مقالات پیش کریں گے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹرارشاد علی(شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) انجام دیںگے۔
اردو رسرچ اسکالر سیشن کے بعد3:00-2:00؍ بجے تک افسانہ کی محفل سجائی جائیں گی جس کی صدار ت محترم مشتاق نوری (پٹنہ)محترم اسرار گاندھی(الہ آباد) مشترکہ طور پر فرمائیں گے۔افسانہ نگار وں میں محترم طاہر انجم صدیقی(مہاراشٹر) عامر نظیرڈار(دہلی) سلمان عبدالصمد(دہلی)محترمہ مینا خان(نوئیڈا) اپنے اپنے افسانے پیش کریں گے۔اورنظامت کے فرائض ڈاکٹرارشاد سیانوی(شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)انجام دیں گے۔
شام 3:00بجے سے4:00 ؍ بجے اختتامی اجلاس عمل میںآئے گا۔جس کی صدارت پروفیسر اسلم جمشید پوری(صدر شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)فرمائیںگے۔مہمانِ خصوصی پروفیسر وائی وملا(پرووائس چانسلر، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)مہمانانِ ذی وقار پروفیسر خواجہ اکرام الدین(ڈپارٹمنٹ آف اردو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی)ہونگے۔ اس سہ روزہ بین الاقوامی کثیر لسانی ویبنار پر پروفیسر وائی سنگھ (ڈین فیکلٹی آف آرٹس) ڈاکٹر عابد حسین حیدری(سنبھل) ڈاکٹر پرگیہ پاٹھک(ایسو سی ایٹ پروفیسر ،این اے ایس کالج، میرٹھ) اظہارِ خیال فرمایں گے اورنظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی(شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ)انجام دیں گے۔
٭٭٭
اسلام آباد:پاکستان کے معروف اداکار اور ٹی وی پروگرام ’’بزمِ طارق عزیز‘‘ کے ہوسٹ طارق عزیز کا آج انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر 84 برس تھی اور وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔طارق عزیز ادیب، شاعر اور سابق رکن قومی اسمبلی بھی تھے، انہوں نےکئی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہربھی دکھائے۔ معروف اداکار طارق عزیز پی ٹی وی کے مقبول پروگرام نیلام گھر کے میزبان تھے،جسے بعد میں بزم طارق عزیز کانام دے دیا گیا تھا۔ طارق عزیز نے ریڈیو پاکستان سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا ،انہیں پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اینکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
1936ء میں جالندھر میں آنکھ کھولنے والے طارق عزیر قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستانی پنجاب منتقل ہوگئے تھے۔انہوں نے ساہیوال میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر بنےتاہم انہیں اصل شہرت پی ٹی وی کے معروف گیم شو نیلام گھر سے حاصل ہوئی، وہ اس بروگرام کی کم و بیش 40 سال تک میزبانی کرتے رہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے طارق عزیز کی خدمات کے صلے میں انہیں 1992ء میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔طارق عزیز نے سیاست کے میدان میں بھی زورآمائی کی اور 1997ء میں وہ مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
ایک مدت سے مدارس میں زکوٰۃ کے طریقۂ استعمال کی غلطی پر کچھ مدارس کے لوگوں سے اپنی گفتگو کو بےسود محسوس کرنے کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس موضوع پر ایک مختصر سی تحریر لکھ کر ہر خاص و عام تک پہنچاؤں تاکہ لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہی ہو سکے اور لوگ اس بھیانک بیماری کا سد باب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں اور اصلاح کے ذریعہ سے ان لوگوں کو آخرت کی جواب دہی سے بچایا جا سکے جو انجانے میں اس خرابی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف مستحقین تک ان کے حقوق کے پہنچنے کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔
ہمارے دینی مدارس کی ابتدا جس دور میں ہوئی اس وقت ممکن ہے مدارس کو چلانے کے لیے مال کی فراہمی کا یہی ایک واحد راستہ رہا ہو جسے ہمارے بزرگوں نے چار وناچار اختیار کیا ہو لیکن دور حاضر میں اسی قدیم طریقہ پر مدارس کو چلانا خیانت کے مترادف ہے جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے اس لیے سب سے پہلے میں وہ طریقہ بتانا چاہتا ہوں جو مدارس کو چلانے کے لیے موزوں ہے اور اس کے بعد موجودہ سسٹم کی خرابیوں پر روشنی ڈالوں گا۔
ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ یا تو مستحق زکوٰۃ ہوں گے یا نہیں ہونگے۔
اب ہم اپنے سالانہ خرچ پر مزید پندرہ سے بیس فیصد کا اضافہ کر کے اپنا سالانہ بجٹ بنا لیں، اساتذہ کی مناسب تنخواہ کو سامنے رکھ کر ہی بجٹ بنائیں اور تمام طلبہ پر اسے تقسیم کر کے دیکھیں کہ ایک طالب علم پر ماہانہ کتنا خرچ آتا ہے، پھر اسے اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ کلاس کے حساب سے نچلی کلاس میں کتنی فیس مناسب ہوگی اور اوپر کے درجات کے لیے کیا فیس مناسب ہوگی، اسے طے کرکے جاری کردیں۔
اگلا مرحلہ فیس وصولی کا ہے ،اس سلسلہ میں یہ لائحۂ عمل طے کیا جائے کہ جو بچے پوری فیس جمع کر سکتے ہیں جمع کریں اور جن کی مالی حالت کمزور ہے ان کے لیے فارم کے اندر کالم ہو کہ کتنی فیس معاف کروانا چاہتے ہیں 25 فیصد 50 فیصد 75فیصد یا 100 فیصد، اسی طرح بس کا کرایہ، کتاب، کاپی اور ڈریس وغیرہ کی فراہمی کا کالم بھی ہو ،تاکہ جو جتنے کا مستحق ہو اس کو اس کی ضرورت کے بقدر مدد فراہم کی جا سکے اور یہ تمام فیس مدرسے کا بیت المال اپنی موصولہ زکوٰۃ میں سے خرچ کرے۔
مدارس کے ذمہ داروں کا یہ اندیشہ کہ یکایک فیس کے بوجھ سے لوگ گھبرا جائیں گے، تو ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ جب ان کو تمام تفصیلات بتائی جائیں گی تو اس نئی اسکیم سے انہیں خوشی ہوگی، ان کو یہ بات بہ آسانی اور اچھی طرح سمجھائی جا سکتی ہے کہ چونکہ جن حالات میں مدارس کا قیام ہوا اس وقت اس طرح سے مدارس کو چلانا بزرگوں نے بہتر سمجھا اور اب تک وہ طریقہ قایم رہا لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں، سماج میں مالی بہتری آئی ہے، اس لیے صاحب ثروت اور صاحب استطاعت افراد کے بچوں کو زکوٰۃ کی مد سے تعلیم دینا غیر مناسب عمل ہے اور صاحب استطاعت کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا بھی اچھا نہیں، ان حالات میں یہ معاملہ کس طرح درست ہو سکتا ہے جبکہ مستحقین زکوٰۃ تک زکوٰۃ کا فیض کما حقہ نہیں پہنچ رہا ہے، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت اور حالات کی ضرورت کے حساب سے نظام میں تبدیلی کی گئی ہے جو کہ ضروری تھی اور اس عمل سے ہم کلی طور پر مطمئن بھی ہو جائیں گے کہ ہم نے موصولہ مال جہاں خرچ کیا ہے اس کی بنیاد پر آخرت میں اس سلسلہ میں ہماری گلو خلاصی ممکن ہو سکے گی۔
لیکن اگر کوئی صاحب استطاعت یہ کہتا ہے کہ میں فیس دے کر بچے کو نہیں پڑھا ؤں گا آپ اگر مفت میں پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک ہےتو پھر ایسے بچوں کے لیے ہر حال میں مدارس کا دروازہ کھلا ہونا چاہیے کہ اگر باپ اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا تو سماج نبھائے اور وہ بچہ دینی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔
تبدیلی کے ان مراحل میں کام کی زیادتی کی وجہ سے مدارس کی انتظامیہ کو ایک عرصہ تک بہت متحرک رہنا پڑ سکتا ہے مگر اس کے بعد مدارس کے ذمہ دار، اساتذہ اور طلبہ حتی کہ پورا مسلم سماج جس ذہنی آسودگی سے ہم کنار ہو گا اُس کا تصور بھی اِس وقت ممکن نہیں۔
اب موجودہ حالات میں مدارس کے اندر زکوٰۃ کے استعمال کے جو طریقے رائج ہیں ان کا ایک سرسری جائزہ لے کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہ قابل عمل ہیں یا انہیں ترک کر دینا ہی اطمینان کا باعث ہوگا۔
ہم اپنے معاشرے میں کچھ ایسے مدارس پاتے ہیں جو فی سبیل اللہ کی مد میں زکوٰۃ کو دینی تعلیم کے فروغ پر خرچ کرتے ہیں ،آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اساتذہ کی تنخواہ زکوٰۃ سے ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ مستحقین زکوٰۃ طلبہ کی فیس خوراک ادا کرنے اور ان کی دیگر ضروریات کی فراہمی پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرتے ہیں اور ان کے یہاں شورائی نظام کے تحت ہی مدرسے کا نظام چلتا ہے،حساب مکمل شفاف ہوتا ہے اور اس کی جانچ کے لئے انتظامیہ سے الگ باہر کے کچھ لوگ ہفتہ میں ایک یا دو دن آکر سارا حساب چیک کرتے ہیں اور کوئی بھی آدمی وقت لے کر جاکرحساب دیکھ سکتا ہے، اِن تمام خوبیوں کے باوجود اُن کے نظام میں یہ عیب ضرور ہے کہ ہر بچے پر تعلیمی خرچ کا جو حصہ آتا ہے وہ یا تو مکمل زکوٰۃ فنڈ سے ادا کیا جاتا ہے یا اگر وہ بچوں سے فیس لیتے بھی ہیں تو اتنی کم لیتے ہیں کہ صاحب استطاعت بچوں پر ہونے والے خرچ کا کچھ حصہ زکوٰۃ فنڈ سے جاتا ہے حالانکہ ان کے والدین خود زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور کچھ صاحب ثروت تو ایسے بھی ہیں جو بہت سے غریب بچوں کی کفالت کر رہے ہوتے ہیں اور غیر محسوس طریقہ سے ان کا اپنا بچہ بھی زکوٰۃ کی رقم سے دی جانے والی تعلیم سے اپنا حصہ کشید کر رہا ہوتا ہے اور اس نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔
دوسرے وہ مدارس ہیں جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک (یعنی کسی کو زکوٰۃ کی مد میں ملی ہوئی رقم کا مالک بنانا) کو شرط مانتے ہیں اور بغیر تملیک کے مدارس کے اندر زکوٰۃ کی رقم کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے (( طوالت سے بچنے کے لئے میں تملیک پر بحث نہیں کروں گا اس لیے جو لوگ تملیک کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں وہ گوگل پر مسئلہ تملیک لکھ کر سرچ کرکے کافی معلوماتی مضامین حاصل کر سکتے ہیں )) اس لیے زکوٰۃ کو اپنے حق میں قابل استعمال بنانے کے لیے تملیک کے حیلہ کا سہارا لیتے ہیں اور یہ حیلہ کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ ایک خود ساختہ قانون ہے جسے روبہ عمل لا کر اہل علم کے ایک طبقہ نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، تملیک کا حیلہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی جو رقم وصول ہوکر مدارس میں پہنچتی ہے اس کو کسی نادار شخص یا طالب علم کو بلا کر یہ سمجھا کر دے دیا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ اتنا مقروض ہے یا یہ کام ہے یا مدرسے کا اتنا سالانہ خرچ ہے یا یہ پروجیکٹ ہے جس میں اتنے پیسے کی ضرورت ہے، اب یہ رقم آپ کو دی جارہی ہے جس کو آپ اس مد میں خرچ کر کے اس ذمہ داری کو نبھا دیجیئے وغیرہ وغیرہ، اب وہ رقم ان کے خیال میں تملیک کے حیلہ کے بعد اس قابل بن جاتی ہے کہ مدرسہ کے جملہ ضروریات میں کہیں بھی استعمال ہوسکتی ہے اور ہوتی بھی ہے، اس طرز کے مدارس میں عموماً مہتمم/ناظم کی شخصیت سے لوگ کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو جاتے ہیں اور کسی بھی طرح کے سوال کرنے کو مہتمم کی بے حرمتی سمجھتے ہیں، اسی احترام اور تقدس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض مہتمم حضرات اس عوامی مدرسہ کو شخصی اور خاندانی مدرسہ میں تبدیل کر لیتے ہیں اور اب یہ عوام کے زر تعاون سے قایم ہوکر چلنے والا مدرسہ کہنے کو عوامی مدرسہ ضرور رہتا ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے اب یہ موروثی ملکیت میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے (الا ماشاءاللہ )،ایسے مدارس میں مہتمم حضرات اپنے موافق کچھ لوگوں کو شوریٰ یا انتظامیہ کا رکن بنا لیتے ہیں جو ربر اسٹامپ کی طرح استعمال ہوتے رہتے ہیں جن کو سفید و سیاہ کی کچھ تمیز نہیں ہوتی، اب مہتمم یا ناظم جو کہ تمام سفید و سیاہ کا مالک ہے وہ جو چاہے کرے اس سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہوتا چاہے ان پیسوں سے وہ خود کو بہت بڑا تاجر بنا لے، بڑی بڑی گاڑیوں سے چلے، جہاں جائے مریدین وخدام کی نفری ساتھ ہو جس سے حضرت کی شخصیت کا رعب لوگوں میں بیٹھ جائے اور حضرت کی جو مرضی ہو وہ کریں، جب جسے چاہیں مدرسہ میں رکھ لیں، جسے جب چاہیں نکال باہر کریں، یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں عوام الناس کے مشاہدات کا حصہ ہے، مگر تمام ہی مہتمم ایسے نہیں ہوتے بلکہ بعض سلیم الطبع مہتمم تو اپنی پوری زندگی مدرسہ کی فلاح و بہبود پر لگا دیتے ہیں اور چندہ کی رقم سے بقدر شرعی اجازت اورضرورت ہی اپنے اور اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہیں ۔
ان مدارس میں جب کوئی شخص خود کو مہتمم کے مد مقابل سمجھنے لگتا ہے تو نتیجہ کے طور پر یا تو اسے خود مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے یا پھر کسی الزام کی بنیاد پر اسے نکال دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنے لیے نئی زمین تلاش کرتا ہے اور رسید چھپوا کر خود سفید وسیاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
ان مدارس میں عموماً اساتذہ و خدام کو اپنا ضمیر بیچ کر یا حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے مجبورا مہتمم صاحب کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے ان کی ہر ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے،اب تو بہت سارے علما یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بعض علما نے اس کے خلاف تحریریں بھی لکھی ہیں کہ بعض مدارس کے ذمہ داروں نے تمام زمینیں اپنے نام سے خریدی ہیں جو کہ قومی زکوٰۃ کے پیسے سے بلاواسطہ یا حیلۂ تملیک کے ذریعہ خریدی گئی ہیں ، اس طرح قوم کے دیے ہوئے زکوٰۃ فنڈسے قایم یا زکوٰۃ سے چلنے والے یہ مدارس پشتینی ملکیت کی طرح استعمال کیے جا رہے ہیں، ان مدارس کو شخصی ملکیت سے نکال کر قومی ملکیت میں تبدیل کر کے مضبوط شوریٰ یا انتظامیہ کے ذریعہ چلانا ضروری ہے تاکہ پائی پائی کا درست حساب ہمہ وقت لیا جا سکے اور اساتذہ اور تمام خدام مدرسہ اپنے آزادضمیر اور عزت کے ساتھ مناسب تنخواہ پر مدرسہ میں اپنی خدمات انجام دے سکیں، ان کے سروں پر سے وہ لٹکتی ہوئی تلوار بھی ہٹ جائے کہ اگر چاپلوسی نہیں کی تو کسی بھی وقت بوریا بستر بندھ سکتا ہے۔
ان تمام امور پر عوام و خواص کو سوچنا ہوگا کہ اگر یہ سب کچھ خدا کی مرضی کے مطابق ہے تو اسی طرح سے چلتے رہنے دینا چاہیے اور اگر یہ سب کچھ منشائے ربانی کے خلاف ہو رہا ہے تو ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو نہ نبھا پانے کی صورت میں ہم سے محاسبہ ہو سکتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ حیلہ کیا ہے اور اس کے جواز کے لیے کوئی ثبوت ہے بھی یا نہیں، قرانی تاریخ کے حوالے سے ہم تک یہ بات پہنچ چکی ہے کہ سبت کے معاملے میں بنی اسرائیل نے حیلے کا سہارا لیا اور اس وجہ سے ان پر اللہ کا عتاب نازل ہوا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں حلالہ کے حیلہ کے امکانات پر سرزنش کرتے ہوئے سخت وعید سنائی اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ بتایا ان تنبیہات کے باوجود ہمارے یہاں اب تک یہ دھندا چل رہا ہے جبکہ علما کی کثیر تعداد اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہے اس دھندے میں بعض نکاح خواں "حلالہ مولوی” کے نام سے مشہور ہیں لیکن یہ "حیلۂ تملیک” بعد کی پیداوار ہے اس لیے علما کی اقلیت تو اسے حرام سمجھتی ہے لیکن اکثریت نے ناپسندیدہ کہہ کر بعض شرائط کے ساتھ اس کے جواز کا فتوی دے رکھا ہے کہ اس طرح سے حیلہ کیا جائے تو مباح ہوگا، اس طرح کیا جائے تو مکروہ ہوگا اور اگر اس طرح کیا گیا تو ناجائز ہوگا وغیرہ، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ان کی اپنی دکانداری ہے ورنہ حلال چیزوں کی حرمت کا فتویٰ دینے والے ناجائز کو حلال کیسے کہتے، ان تفصیلات سے یہ ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل ایک حیلے کا ارتکاب کر کے خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور ہم نے دو حیلوں کے ذریعہ اپنی مراد حاصل کی اور شکایت یہ ہے کہ خدا کفار ومشرکین کے ساتھ کھڑا ہے۔
اس لیے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ناجائز چیز کے کئی طریقے بتا کر اس میں سے ایک طریقہ جواز کا اپنے لیے نکال لینا قطعی نادرست ہے۔
حیلۂ سبت، حیلۂ حلالہ اور حیلۂ تملیک سب ایک طرح کی چیزیں ہیں اور ان میں سے کسی کے بھی جواز کا فتوی صادر کرنے والےیا اپنے علم اور اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کے غلط فتویٰ کا سہارا لے کر ناجائز طریقے سے لوگوں کے حقوق کھانے والوں کو اپنی آخرت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کووڈ – 19 کے دوران بعض مدارس اور مساجد کا اساتذہ ، ائمہ اور مؤذنین کے ساتھ غلط سلوک
امداد الحق بختیار
دیگر ممالک کا یقینی اندازہ تو ممکن نہیں لیکن انڈیا میں کووڈ – 19 کا داخلہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا ، پورا ملک سناٹے اور ہو کے عالم میں بدل گیا ، ہر طرف ڈر اور خوف کی ایک دبیز چادر تن گئی ، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر ایک کو اپنی زندگی کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال کا سامنا تھا ، ہر انسان موت کی دہشت میں تھا ، ذرا سی کھانسی یا بخار سے کلیجہ منہ کو آجاتا تھا ۔
جب زندگی ہی تھم گئی، تو کاروبار زندگی کا کیا پوچھنا ، ملک کا ایک بڑا طبقہ کرونا وائرس سے پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوکر موت کی کھائی میں جاگرا، اس سے بھی بڑا حصہ ابھی ان لوگوں کا ہے ، جن کا مستقبل بالکل تاریک ہوچکا ہے ، بہت سے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں تذبذب کے شکار ہیں ، بے شمار لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوگئیں ، بہت سی کمپنیوں ، کارخانوں ، فیکٹریوں اور دکانداروں نے اپنے عملہ سے معذرت کر لی ۔
وہیں مدارس اسلامیہ کا بڑا نقصان ہوا ، کیوں کہ اکثر مدارس کے سالانہ بجٹ کا انتظام رمضان المبارک کے چندے پر ہی منحصر ہوتا ہے ، یہ بھی لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا ، بہت سے علاقوں میں مساجد کے صرفہ کے لیے رمضان المبارک میں اہل محلہ سے سالانہ چندہ ہوتا ہے ، اس میں بھی بڑی حد تک کمی آئی ہوگی۔
اس کے باوجود مدارس اور مساجد کی ایک بڑی تعداد نے اپنے مدرسین ، ائمہ اور مؤذنین کا پورا خیال رکھا، برابر ان کی تنخواہیں دیتے رہے ، دیگر ضروریات کی تکمیل کی بھی کوشش کی ، جو قابل تعریف اور لائق تقلید عمل ہے ، اللہ تبارک وتعالی ایسے تمام نظماء مدارس اور متولیان مساجد کو اپنی شایان شان جزا عطا فرمائے ، کہ انہوں نے خدمت گزاری کا حق ادا کیا ، وفاداری کے نمونے پیش کیے ، انسانیت کا سر بلند کیا اور اسلامی اور شرعی حکم کی بالادستی کو قائم رکھا۔
بعض مدارس نے مدرسین کے سامنے واضح کردیا کہ موجودہ پریشانی کی وجہ سے وہ مکمل تنخواہ ادا نہیں کرسکتے ، لیکن حالات صحیح ہونے کے بعد سابقہ باقی تنخواہ کی بھی ادائیگی کردی جائے گی، ان کا یہ عمل احتیاط پر مبنی ہے اور اسے غیر درست نہیں کہا جاسکتا ، کیوں کہ پریشانی کے عالم میں اساتذہ کو بھی مدرسے کا اتنا تعاون کرنا ہی چاہیے اور وہ ماشاء اللہ کر رہے ہیں ۔
لیکن بعض مدارس اور مساجد کے ذمہ داران نے اساتذہ ، ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہ میں "تکمیل کے وعدہ کے بغیر ہی ” کٹوتی کردی ہے ، بلکہ بعض نے صراحت بھی کردی ہے کہ مثلاً صرف آدھی تنخواہ ملے گی اور بقیہ آدھی بعد میں بھی نہیں ملے گی ، بعض نے ہوشیاری کوکام میں لاتے ہوئے اخیر کے جملے کو مبہم رکھا ہے ، مساجد اور مدارس کے خدمت گزاروں کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے اور آدھی ہونے کے بعد کتنی رہ جائے گی ، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
تنخواہ میں تکمیل کے وعدہ کے بغیر کٹوتی کرنا یا بالکل ہی تنخواہ نہ دینا ، دونوں ہی صورتیں نہ اخلاقی اور انسانی اقدار کی رو سے درست ہیں اور نہ ہی شرعی نقطہ نگاہ سے جائز ہیں ، کسی بھی دار الافتاء سے رجوع ہوکر یہ مسئلہ معلوم کیا جاسکتا ہے ، جب کہ بعض مفتیان کرام نے اس کی طرف توجہ بھی دلائی ہے اور اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ حکم شرعی واضح کیا ہے ، کیا مدارس اور مساجد میں شرعی حکم کی بالادستی رہے گی یا ذمہ داران کی مرضی کی؟ یہ سوال بھی ان کے طرز عمل سے حل ہوجائے گا۔ اللہ کرے شرعی حکم کی ہی بالادستی رہے۔
اس بابت دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء کا فتوی پیش خدمت ہے:
استحقاق اجرت یا تنخواہ کا مستحق ہونے کے لیے مدرس کا وقت مقررہ پر تسلیم نفس کافی ہے؛ لہذا جو مدرس قواعد مدرسہ کے مطابق تسلیم نفس پر راضی ہے وہ تنخواہ کا مستحق ہونا چاہیے ؛ اگرچہ لاک ڈاؤن یا موجودہ صورت حال کی وجہ سے مدرسہ میں نیا داخلہ نہ ہو رہا ہو یا تعلیمی سلسلہ بند ہو ؛ کیوں کہ اصل معقود علیہ تسلیم نفس ہے نہ کہ عمل اورکام ۔
(فتوی دارالعلوم کراچی ، 19/ رمضان 1441ھ مطابق 13/ مئی 2020ء، نمبر 28792)
جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد کا فتوی بھی پڑھتے جائیں:
جب ملازمین و مدرسین کی طرف سے کوئی تعدی نہیں ہوئی ہے، تو عرف کے مطابق وہ لوگ تنخواہ کے مستحق ہیں، مرادآباد میں 1980ء کے فساد کے موقع پر دو تین مہینہ تک مرادآباد کے بڑے بڑے مدارس بند رہے مثلاً جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی ، مدرسہ امدادیہ ، مدرسہ جامع الہدی وغیرہ بند رہے لیکن ملازمین و مدرسین کی تنخواہیں وضع نہیں کی گئیں، برابر تنخواہ دی گئی۔
(فتوی نمبر : 23/ 611)
اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر بعض ذمہ داروں نے بالکل بھی تنخواہ نہ دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ بڑا ظلم ہے اور مملکت خدا داد کے مالک کچھ نظماء مدارس اور متولیان مساجد نے تو تمام ہی حدود کو پامال کرتے ہوئے اپنے اساتذہ ، ائمہ اور مؤذنین کو ملازمت سے برخواست کردیا ہے ، جن اساتذہ اور خدام مساجد نے اچھے حالات میں اپنے خون پسینے سے مدارس اور مساجد کی خدمت کی ، برے حالات میں انہیں پیٹھ دکھادی گئی ، اس سے بڑی بے وفائی ، ابن الوقتی ، مفاد پرستی اور غیر انسانی حرکت اور کیا ہوسکتی ہے !
کچھ نظما ء مدارس اور متولیان مساجد کرونا وائرس کے بہانے پرانی رنجش اور دل میں چھپے بغض کی وجہ سے اپنی دیرینہ خواہش پوری کر رہے ہیں ، طرح طرح کے بناوٹی بہانے گڑھ کے مدرسین اور خدام مساجد کی ملازمتوں کے حوالے سے فرامین جاری کر رہے ہیں ، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے ، اس روز ان کی گرفت ہوگی، جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ ہی تعلقات ۔
نیز مدارس اور مساجد کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ؛ بلکہ قوم کی امانت ہیں ، لہذا امانت کی حفاظت ذمہ داران کے اوپر واجب ہے اور اگر کوئی ناظم یا متولی حفاظت سے قاصر ہے تو اسے یہ امانت قوم کو سپرد کردینی چاہیے ، جو اہل ہوگا اسے پھر بار امانت سونپا جائے گا ، لیکن امانت کی حفاظت بھی نہ کرنا اور زبردستی اس پر مسلط بھی رہنا ، نہ دنیا کے اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی آخرت کی عدالت کے اعتبار سے ۔
مدارس مشکل حالات سے ضرور گزر رہے ہیں ، اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ، لیکن بعد میں جب حالات اچھے ہوں گے تو نظمائے مدارس یا متولیان مساجد اپنی جائداد فروخت کر کے تنخواہیں نہیں دیں گے ؛ بلکہ قوم کے ہی پیسے سے تنخواہیں دی جائیں گی ؛ تو پھر ایسی صورت میں اس کا جواز کہاں سے ہوسکتا ہے کہ مدرسین یا مساجد کے خدام کی پوری یا آدھی تنخواہ روک لی جائے اور بعد میں بھی انہیں ادا نہ کیا جائے؟ہاں وقتی طور پر تنخواہ کو ضرور مؤخر کیا جاسکتا ہے ،تاکہ جب مالیہ کی حالت بہتر ہو ، تو اس وقت سابقہ تمام تنخواہیں ادا کردی جائیں ۔
ملک میں جو ادارے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ، چاہے وہ کسی بھی مکتبہٴ فکر کے ہوں ، نیز جو حضرات اور علماء رہنما کی حیثیت سے ہیں ، جن کو قوم کا ایک بڑا طبقہ پڑھتا یا سنتا اورمانتا ہے ، ان تمام سے گزارش ہے کہ مدارس اور مساجد کے مدرسین ، ائمہ اور مؤذنین کی ملازمت اور تنخواہوں کے حوالے سے ہدایات اور اپیل جاری کریں ، آپ کی اپیل سے بہت سی زندگیوں کو سہارا مل سکتا ہے ، بہت سے مدارس اور مساجد کے ذمہ داروں کو حوصلہ بھی ملے گا ، اگر کوئی غلط ارادہ رکھتا ہے تو ممکن ہے، عام اپیل کی وجہ سے انہیں کچھ شرم اور اپنی نیک نامی کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو اور غلط فیصلے سے باز آجائیں۔
ترجمہ:محمد ابراہیم خان
تاریخ کے مختلف ادوار گواہ ہیں، جب بھی کوئی ملک اپنی سرحدوں کو توسیع دیتے ہوئے سلطنت یا استعماری قوت کا درجہ پاتا ہے تب بڑے پیمانے پر جنگیں بھی چھڑتی ہیں اور اِن جنگوں کے نتیجے میں نقل مکانی کے نتیجے میں وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔ ان وباؤں کے ہاتھوں کئی سلطنتیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ آج کی بڑی طاقتوں کو اس بنیادی تاریخی حقیقت کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ تباہی کو ٹالا جاسکے۔
کورونا وائرس محض ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک بڑا سیاسی معاملہ یا موڑ بھی ہے۔ ماحول عجیب رنگ کا ہو چلا ہے۔ ایسے میں کوئی بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ اگر ہم یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران رونما ہونے والی ’’سیاہ موت‘‘ (طاعون کی وبا) سے ۱۹۱۸ء میں پھیلنے والے ’’اسپینش فلو‘‘ تک جتنی بھی وبائیں پھیلیں اُن کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوال صرف صحتِ عامہ کا نہ تھا بلکہ معاشروں اور سیاست پر بھی اِن وباؤں کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔
رومن سلطنت سے اب تک استعماری یعنی توسیع پسند قوتوں اور وباؤں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ۱۰۰ سال کے دوران جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت اور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ عالمگیر نوعیت کی وباؤں پر قابو پانا اب بھی انسان سے ممکن نہیں ہوسکا۔
’’سیاہ موت‘‘ چوہوں نے پھیلائی تھی۔ اب مورخین ریکارڈ کھنگال کر بتا رہے ہیں کہ یورپ میں انتہائی تباہ کن طاعون چوہوں نے نہیں، بلکہ انسانوں نے پھیلایا تھا۔ یہ وبا ایشیا سے یورپ پہنچی تھی۔ ایسے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ استعماری قوتوں کے درمیان رسّا کشی یا جنگ نے وباؤں کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کرائمیا میں کافہ شہر کا محاصرہ تو منگولوں نے کرلیا مگر اِس شہر کو اطالوی قوت کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے تھے۔ منگولوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے طاعون پھیلایا۔ وہ ایسے کہ طاعون سے مر جانے والوں کی لاشیں شہر میں پھینکی گئیں۔ یہ عیسائی تاجروں (جینوز) کا شہر تھا۔ منگولوں نے انہیں بعض معاملات میں رعایت دے رکھی تھی۔ یورپ سے تجارت کے علاوہ غلاموں کی تجارت پر بھی ان کی اجارہ داری تھی۔
مسلم منگولوں اور عیسائی تاجروں میں (جنہوں نے مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا تھا) غیر معمولی کشیدگی چل رہی تھی۔ مذہب کے اختلاف نے اس کشیدگی کو مزید ہوا دی۔ پہلے حملے میں ۱۵ ہزار منگول مارے گئے۔ جب شہر فتح ہوگیا تو فرار ہوتے ہوئے عیسائی تاجر اپنے ساتھ طاعون لے کر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پہنچے۔ وہاں سے یہ وبا پورے یورپ میں پھیل گئی۔ اس وباء نے ایک عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلادیں اور بالآخر اُسے ختم کرکے دم لیا۔
۱۹۱۸ء کی وبا:
دورِ جدید کی بدترین وبا ’اسپینش فلو‘ تھی۔ یہ نام بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حال ہی میں ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی اور فرانسیسی افواج کے پیچھے کی صف میں چین سے محنت کشوں کی منتقلی ہوئی اور انہی سے یہ فلو پھیلا۔ کینیڈا سے یورپ منتقل ہونے والے تین سے پچیس ہزار چینی محنت کشوں کو فلو کی علامات ظاہر ہونے پر قرنطینہ کیا گیا تھا۔
کینیڈا کی ولفرڈ لوریئر یونیورسٹی کے تاریخ دان مارک ہمفریز کہتے ہیں کہ آرکائیو سے معلوم ہوا ہے کہ نومبر ۱۹۱۷ء میں چین میں سانس سے متعلق ایک بیماری کو اسپینش فلو کے مماثل قرار دیا گیا۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسپینش فلو نے پہلی جنگِ عظیم کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ماحول کی تبدیلی اور طاعون:
جنگیں اور وبائیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے دوران جسٹن کے مقام سے پھیلنے والے طاعون نے روم کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ یہ وبا ۵۴۲ء میں قسطنطنیہ پہنچی۔ صرف ایک سال قبل یہ وبا رومی سلطنت کے باہری صوبوں تک محدود تھی۔ چھٹی صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران بحیرۂ روم کے خطے میں طاعون کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش ۲۲۵ سال تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا رہا۔ قسطنطنیہ تک طاعون شمالی افریقا کی نو آبادیوں سے آیا تھا۔ اُس زمانے میں رومن سلطنت کے لیے خوراک، تیل، ہاتھی دانت اور غلاموں کی رسد کے حوالے سے مصر کلیدی کردار کا حامل تھا۔ جارجیا یونیورسٹی کے جان ہارگن نے لکھا ہے کہ طاعون چوہوں اور پسوؤں سے پھیلا۔ ان دونوں کو بھرپور انداز سے پنپنے کے لیے مصر میں اناج کے بڑے بڑے گودام میسر آئے۔ اب طاعون کو پھیلنے سے کون روک سکتا تھا۔
ایک طرف طاعون تھا اور دوسری طرف ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں۔ سردی بڑھ گئی۔ سورج کی روشنی کم کم میسر ہوتی رہی۔ بہت سے آتش فشاں پھٹ پڑے اور فصلیں تباہی سے دوچار ہوئیں۔ خوراک کی شدید قلت نے کئی خطوں کو لپیٹ میں لیا۔
مورخین بتاتے ہیں کہ طاعون اور اسپینش فلو جیسی وبائیں جنگوں کے نتیجے میں پھلیں اور توسیع پسندانہ عزائم بھی اِن وباؤں کی پشت پر تھے۔ فوجی، ان کا سامان اور اُن کا سامان اٹھانے والی گاڑیاں اور جانور وباؤں کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔
’’سیاہ موت‘‘ کے زمانے میں قسطنطنیہ رومن سلطنت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز تھا۔ یہی طاعون کا مرکز بھی بنا۔ معاملہ اِتنا بگڑا کہ بحالی ممکن نہ ہوسکی۔ ایک صدی بعد اسلام آیا جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ چودھویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں طاعون کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ آخری بار یہ وبا پوری شدت کے ساتھ قسطنطنیہ میں ۱۸۱۲ء میں نمودار ہوئی اور کئی عشروں تک برقرار رہی۔ یہ زمانہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا تھا۔
چیچک بھی ایشیا سے افریقا پہنچی۔ اسلامی سلطنت کی توسیع ہوتی گئی اور وبائیں بھی پھیلتی گئیں۔ عیسائی مغرب نے مشرق کے نزدیک ترین علاقے فتح کیے تو یہ وبا یورپ بھی پہنچی۔ ارضِ مقدس کو فتح کرنے والے صلیبی جنگوں کے سپاہی شان و شوکت کے ساتھ گھر ضرور پہنچے مگر چیچک کے ساتھ۔
تین صدیوں کے بعد ایک بار پھر ثابت ہوا کہ وبائیں بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے ہی پر مجبور نہیں کرتیں بلکہ بسا اوقات اُن کے خاتمے کا اعلان بھی کرتی ہیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہرنن کورٹیز نے محض چند سو سپاہیوں کی مدد سے ایزٹیک حکمران کو شکست دی مگر حقیقی فاتح چیچک تھی۔ چیچک اور دوسری بہت سی بیماریاں اس خطے کے لیے بالکل نئی تھیں اور مقامی باشندوں کو اُن کے موثر علاج کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ایزٹیک دارالحکومت ٹینوچ ٹٹلن کے مقدر میں صرف تباہی لکھی تھی۔ فتح کے صرف ایک سال بعد اس شہر کی ۴۰ فیصد آبادی چیچک اور دیگر وباؤں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئی۔
مشرق و مغرب میں نئی کشیدگی:
وباؤں میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہر دور کی طرح اس بار بھی ایک بڑی وبا ایشیا سے اٹھی ہے اور عالمگیریت نے اِسے تیزی سے پھیلانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی وبا کو کہیں اور پہنچنے اور پھیلنے میں سال نہیں بلکہ عشرے لگ جاتے تھے، مگر اب فضائی سفر نے وبا کا پھیلاؤ بہت آسان بنادیا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان بہت کچھ ماضی کی سلطنتوں سے مماثل ہے۔ امریکا موجودہ دور کا روم ہے، یعنی دم توڑتی ہوئی سلطنت۔ چین اُس کے لیے حقیقی خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ دیگر تاریخی وباؤں کے برعکس کورونا وائرس کی وبا کسی جنگ کے بطن سے پیدا ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے والوں کا البتہ یہ کہنا ہے کہ کورونا وائرس دراصل دو بڑی طاقتوں کے درمیان جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ ہی تو ہے۔
کورونا وائرس کا پامردی سے مقابلہ کرنے اور اُسے شکست دینے میں امریکا ناکام رہا ہے۔ چین کی کامیابی نے امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے خِفّت کا سامان کیا ہے۔ سیاسی موازنے کی فضا تیزی سے پنپ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین پر الزام تراشی نے نئی سرد جنگ کو جنم دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کے پاس دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے اور دنیا بھر میں اس کے فوجی اڈے ہیں مگر وہ ایک نادیدہ کیڑے سے جنگ ہار گیا ہے۔ امریکا کی طاقتور دکھائی دینے والی اسٹاک اور منی مارکیٹ کریش ہوگئی ہے۔ لاکھوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی امور میں غیر معمولی قیادت کا دعویٰ ضرور کر رہے ہیں مگر یہ دعویٰ کسی کو قائل کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب امریکی صدر کو کسی ایسے بہانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ عالمی برادری کی توجہ کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے امریکی قیادت کی ناکامی سے ہٹاسکیں۔ گزشتہ ہفتے خلیج فارس میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کو اِسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بازنطینی مورخ پروکوپیس نے طاعون کے لیے شہنشاہ کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جسٹن شیطان صفت تھا اور یہ کہ طاعون کی شکل میں خدا نے اُسے اس کے بُرے اعمال کی سزا دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔
(بہ شکریہ معارف ریسرچ جرنل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
علی دانش بزمی
نیو عظیم آباد کالونی،پٹنہ
آخری عشرے کی شب میں جاگنا ہے دوستو !
سر کو سجدے میں جھکا کر مانگنا ہے دوستو !
آج کی شب مغفرت کی مانگ لیں دل سے دعا
نور کا چاروں طرف اک سلسلہ ہے دوستو
جس طرف بھی دیکھیۓ رحمت کی چھائی ہے گھٹا
روزہ داروں کی عبادت کا صلہ ہے دوستو
کیوں نہ ہو دل میں اداسی اور آنکھوں میں نمی
ہو کے رخصت ماہ رمضاں جا رہا ہے دوستو
ماہ رمضاں چند راتوں کا ہی اب مہمان ہے
سوچ کر بزمی کا دل بھی غمزدہ ہے دوستو !
نایاب حسن
"دی وائر” ویب سائٹ نے ایک سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق مدھیہ پردیش میں تئیس مارچ کو دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو، جبکہ وہ ہاسپٹل جا رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر کر پہلے تو بد زبانی کی اور جب انھوں نے کچھ مزاحمت کی، تو دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ پولیسیا لاٹھی سے مار مار کر ان کے جسم کو "لالہ گوں” بنادیاـ وہ بے چارے تب سے کوشش میں ہیں کہ پولیس کے خلاف معاملہ درج کروا سکیں، مگر دوماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں کامیابی نہیں ملی ہے ـ وائر نے اس سلسلے کی جو تفصیلات درج کی ہیں، دلچسپ ہیں، دلچسپ کیا ہیں، عبرت ناک کہہ لیں ـ ان پولیس والوں کو جب بعد میں پتا چلا کہ جس کی ٹُھکائی کی ہے، وہ گرچہ ڈاڑھی والا ہے اور اس کا لُک مسلمانوں جیسا ہے، مگر وہ تو ہندو ہے، اس وجہ سے انھوں نے متعلقہ شخص سے معذرت کی اور ساتھ ہی صفائی پیش کرتے ہوئے کھلے پن کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بھئی ہم تو دنگوں میں بھی ہندووں کی سائڈ پر رہتے ہیں، پھر عام حالات میں کیسے کسی ہندو کو مار سکتے ہیں ـ جس بندے نے آپ کو پیٹ دیا ہے، وہ پکا ہندو ہے، اسے آپ کی ڈاڑھی سے دھوکہ ہوا اور آپ لپیٹے میں آگئے ـ ہائے! کتنے بھولے اور سیدھے لوگ ہیں یہ پولیس والےـ
یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سیم اسی قسم کا واقعہ ماہ فروری میں نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کے دوران بھی رپورٹ کیا گیا تھاـ وہ واقعہ مشہور انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے رپورٹر کا تھا، جسے کسی جگہ فسادیوں کی بھیڑ نے گھیر لیا تھا اور بڑی مشکل سے اپنے آپ کو ہندو ثابت کرنے کے بعد اس کی جان چھوٹ سکی تھی ـ غالباً اسی بندے کو پینٹ کھول کر اپنی مذہبی پہچان بتانے کے لیے کہا گیا تھا ـ بعد میں انڈین ایکسپریس میں اس کی مفصل سٹوری چھپی تھی ـ
ان دوواقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف اس ملک کی پولیس اور عام متشدد ہندو ایک پیج پر ہیں ـ مدھیہ پردیش پولیس نے جو کچھ کہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اس پر تمام ہندوستان کی پولیس عمل کرتی ہےـ سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے جیسے متعدد ان انصاف پسندوں نے بھی اس حقیقت کو بار بار آشکار کیا ہے، جو خود ایک طویل عرصہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں کام کر چکے ہیں ـ وہ لکھتے ہیں کہ اسی وجہ سے یادہ تر؛ بلکہ تقریبا تمام فسادات میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہندووں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ ہندووں کو پولیس کی شکل میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور مسلمان اگر کہیں مضبوط ہوں، پھر بھی کھل کر ہاتھ پاؤں نہیں چلا پاتےـ "کامن کاز "نامی این جی او نے دوہزار انیس کی جو پولیسنگ کے عمل پر اپنی رپورٹ پیش کی ہے، اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریبا پچہتر فیصد ہندومسلم فسادات یا معمولی جھگڑوں میں بھی پولیس یہ مان کر چلتی ہے کہ غلطی مسلمانوں کی ہوگی؛ چنانچہ ان کے ساتھ اس کا برتاؤ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ مجرموں کے ساتھ کیا جانا چاہیےـ
پولیس میں چوں کہ مسلمانوں کی نمایندگی آٹے میں نمک جیسی ہوتی ہے؛ اس لیے مسلم پولیس اہلکار بعض دفعہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتےـ اس حوالے سے مجھے پھر وبھوتی نارائن اور ہاشم پورہ قتلِ عام پر ان کی کتاب کا حوالہ دینا چاہیےـ جب یہ شرمناک واقعہ رونما ہوا تو اس وقت ضلع غازی آباد کے ڈی ایم نسیم زیدی نامی مسلمان تھے اور سب سے پہلے اس سانحے کی خبر جن لوگوں کو ہوئی، ان میں وہ بھی تھے؛ بلکہ وہ اسی رات مقامِ حادثہ پر بھی پہنچے تھے، سارے حقائق ان کے سامنے تھے، مگر ہوا کیا، وہ سارا ملک جانتا ہےـ اسی طرح اسی سانحے کی تفتیش جس سی آئی ڈی کرائم برانچ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے سپرد کی گئی تھی، اس کا نام بھی خالد رضوی تھا، مگر اپنی نوعیت کے اس انوکھے اور انسانیت کو شرمسار کردینے والے حادثے پر عدالت کا جوفیصلہ آیا، وہ آپ کے علم میں ہوگاـ پچاسوں بے قصوروں کے قاتل بری کردیے گئے، انصاف منہ تکتا رہ گیاـ
بعض تجزیہ کارجب آزاد ہند کے پولیس نظام کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں مختلف حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزادی کے فورا بعد ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے باقاعدہ ریاستوں کو سرکلر جاری کرکے یہ ہدایت دی تھی کہ پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی کم سے کم کی جائےـ وبھوتی نارائن نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ہی اس کا ذکر کیا ہے، البتہ انھیں اس بات کی صحت پر شبہ ہے، انھوں نے کوشش کی کہ پٹیل کا یہ تحریری فرمان کہیں سے ان کے ہاتھ لگے، مگر انھیں کامیابی نہیں ملی ـ ویسے پٹیل کی شخصیت و کردار اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں ان کے مجموعی نقطۂ نظر سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بات معنی خیز ہونی چاہیےـ نیز آزادی کے بعد سے اب تک پولیس ڈپارٹمنٹ میں مسلمانوں کے داخلے کا جو تناسب رہاہے، وہ بھی کچھ کہتا ہےـ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مسلمان تو بے چارے اس لائق ہی کتنے ہوتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا حصہ بن سکیں؟ مگر پھر سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ جتنے مسلمان اس لائق ہوتے ہیں، کیا انھیں بھی انصاف کے ساتھ اس شعبے میں لیا جاتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ فسادات اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں عموما مسلمان یک طرفہ پیٹے جاتے ہیں ـ پولیس میں اگر برابری نہ سہی، مجموعی آبادی کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی نمایندگی ہوتی، تو ایک قسم کا توازن رہتاـ اپنے فرقے والوں کے ساتھ ہمدردی تو فطری بات ہے، آپ لاکھ قانون یا جمہوریت وغیرہ کے راگ الاپیں، مگر زمینی سطح پر بات کچھ اور ہی ہوتی ہےـ آزادی سے پہلے سے ہی اس ملک کی پولیس میں اس قسم کی نفسیات پائی جاتی ہے؛ چنانچہ اُس زمانے میں رونما ہونے والے فسادات کے ریکارڈ کو کھنگالیے تو آپ کو یہ ملے گا کہ مسلم پولیس والے عموما مسلمانوں کے فیور میں کھڑے ہوتے تھے اور ہندو پولیس والے ہندووں کی حمایت میں اور جس کا جہاں زور چلتا، بازی مار لیتا تھاـ آزادی سے چند ماہ پہلے بنگال کے نواکھالی، بہار کے پٹنہ وآس پاس اور پنجاب میں جو کشت و خون ہوا تھا، کیا وہ پولیس والوں کی اعانت وحوصلہ افزائی کے بغیر ہوا ہوگا؟
مسعود جاوید
تقریباً پچھلے چار پانچ ماہ سے یکے بعد دیگرے پوری دنیا عالمی وبا کورونا وائرس کے قہر کی لپیٹ میں ہے اور موجودہ نسل کو اس وبا کی تاثیر کے نتیجے میں نئے نئے تجربات درپیش ہیں۔ ان تجربات میں سب سے اہم تجربہ ڈیجیٹل ورلڈ، سوشل ڈسٹینسنگ ، جو دراصل فیزیکل ڈسٹینسنگ ،جسمانی فاصلہ ہے۔
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے بطور حفاظتی تدابیر لاک ڈاؤن عمل میں آیا اور لاک ڈاؤن نے مکمل آن لائن سروسز کا تجربہ کرایا۔
ہم یعنی موجودہ جنریشن کے لوگ اس معنی میں خوش قسمت ہیں کہ ہم اب تک کی روایتی چیزوں اور سروسز کے صارف بھی ہیں اور شاہد بھی۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ سلیٹ، تختی، فاؤنٹین پین ، قلم دوات کاغذ کتاب پنسل کاغذی اخبارات ، ٹائپ رائٹر، سائکلو اسٹائل ، ٹیلیکس ، ٹیلیگرام ، انلینڈ لیٹر، پوسٹ کارڈ، ٹیلی فیکس، ریڈیو سیٹ، ٹیپ ریکارڈر، واکی ٹاکی ،بڑے سائز کے شارٹ اور لونگ پلے ویڈیو ریکارڈر اور پلیئر، کیلکولیٹر، بلیک اینڈ وائٹ کیمرے، بلیک اینڈ وائٹ فوٹو اس کی نگیٹیو ، منی آرڈر سے پیسے بھیجنا، سینما ہال میں فلم، ٹھیٹر میں ڈرامے اور میوزیکل کنسرٹ، پنڈال میں مشاعرے، دیکھے سنے اور برتا ہیں۔
شاید شر میں خیر کا پہلو یہ بھی ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے اس عبوری دور transitional period سے next generation میں منتقل ہو رہے ہیں اور اس معنی میں خوش قسمت ہیں کہ نئی جنریشن کی حصولیابیوں کےبھی شاہد اور صارف ہوں گے لاک ڈاؤن سے جس کی تجرباتی بنیادوں پر شروعات ہو چکی ہے۔ اب ہم مکمل آن لائن دنیا کے باشندے ہوں گے جہاں جسمانی قربت قابل مواخذہ ہوگی۔ بینک میں آپ کے جانے پر چارج لگے گا اور بینک عملہ کا آن لائن وقت میں خلل ڈالنے کے لئے بطور جرمانہ ہمارے اکاؤنٹ سے سو پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے ادوات قلم کاغذ پنسل کی جگہ کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور انڈرویڈ موبائل فون کا استعمال ہوگا کلاس روم میں حاضری کی جگہ آن لائن کلاسز ہوں گی۔ اشیاے خوردونوش اور ضروریات کی تمام چیزوں کے آرڈر آن لائن دیے جائیں گے اور ہوم ڈلیوری ہوگی۔ تجارت گھر بیٹھے آن لائن ہوگی۔ عدالتوں کی کارروائی آن لائن ہوگی۔ ججز وکلا اور موکلین کا زوم zoom پر آن لائن اجلاس ہوگا، آن لائن بحث ہوگی تاریخ ملے گی اور حکم سنایا جائے گا۔ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں سے مطلوبہ لائنسنس اور پرمٹ کے لئے آن لائن درخواست دی جائے گی اور آن لائن پرمٹ جاری ہوگی یا ریجیکٹ کا آن لائن نوٹیفکیشن آئے گا ۔ گورنمنٹ کا ریوینیو آن لائن جمع کرنا ہوگا۔ فلمیں ڈرامے اور موسیقی کے کنسرٹ سینما ہال اور تھیئٹر کے بجائے گھر بیٹھے آن لائن محظوظ ہونا ہوگا۔ شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے لئے کاغذی دعوت ناموں کی جگہ سوشل میڈیا کے توسط سے مدعو کیا جائے گا۔ نوشے اور دلہن کو تحفے تحائف کی ڈلیوری آن لائن ہوگی۔ ہر قسم کے مراسلات paperless پیپرلیس ہوں گے اور روپے پیسے کی لین دین نقد کی بجائے کیش لیس cashless ہوگی۔ ڈیلی مارکیٹ ،سوپر مارکیٹ، ڈیپارٹمنٹل اسٹور، مالز، اور سروس پرووائیڈر آفسز بے وقعت ہو جائیں گے پھل فروٹ سبزی سے لے کر ہارڈ ویئر اور ضرورت کی تمام اشیاآن لائن پسند کی جائیں گی آرڈر کی جائیں گی اور ہوم ڈلیوری ہوگی۔ بس ٹرین اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ پیپرلیس آن لائن لینا ہوگا۔ طبی معائنہ یعنی ڈاکٹر فزیشین اور سرجن سے کنسلٹیشن آن لائن زوم اور ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
عالمی طور پر کورونا وائرس سے حفاظتی تدابیر کے طور پر جہاں ہر ملک میں لاک ڈاؤن سوشل ڈسٹینسنگ کا بہترین ذریعہ رہا وہیں ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں آن لائن زندگی کا تجربہ بھی بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے اس عبوری دور سے نئے عالمی نظام کی طرف منتقل ہونے کا اعلان سن کر کسی کو اچانک شاک نہیں لگے گا حیرانی نہیں ہوگی آن لائن کوئی کچھ ایسا نیا کام نہیں ہوگا جس کے بارے میں سن کر لوگ ششدر رہ جائیں گے۔ اس لئے ابھی سے ہی Gennext اور مکمل آن لائن زندگی کے لئے ذہن بنا لیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
یوسف رضا(کیفی سلطان)
چلو سب مل کے مہکائیں محبت
زمانے بھر میں پھیلائیں محبت
یہ اک احساس ہے اور تم بضد ہو
بتاؤ کیسے دکھلائیں محبت؟
ہٹاکے ساری نفرت کی گھٹائیں
چلو ہم مل کے برسائیں محبت
تمہی بتلاؤ نفرت کی ہواؤ
کہاں سے ڈھونڈکے لائیں محبت
تمہارے شہر سے جاتے ہیں، بولو
کیا اپنے ساتھ لے جائیں محبت
محبت ہو اگر ایسی تو پھر کیا
کہ جیسے کرتی ہیں مائیں محبت
چلو نا یار نفرت کو مٹاکے
جہاں میں پھر سے پھیلائیں محبت
(ایوارڈ یافتہ ہندوستانی ناول نگار رحمن عباس نے 2019 میں "ہولوکاسٹ اور ہندوستان و پاکستان میں اقلیتوں کے مستقبل” کے موضوع پر تحقیق کی غرض سے یورپ میں کچھ عرصہ گزاراتھا۔ دراصل اس موضوع پر وہ ایک ناول لکھ رہے ہیں ، جس کے لیے مواد کی فراہمی اور متعلقہ مقامات و سانحات کے تاریخی پس منظر سے راست واقفیت کے لیے انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ یورپ میں نازیوں کے خلاف (8 مئی کو) یومِ فتح کے موقعے پر انھوں نے جرمن بیسڈ سہ لسانی ویب سائٹ قنطرہ (qantara.de) کے صحافی ڈومینک مولر کے ساتھ اپنے ناول کے پروجیکٹ اور ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے تشویشناک احیا پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ یہ پوری گفتگو مذکورہ ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے، ‘‘قنطرہ’’ کے شکریے کے ساتھ اردو قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔ )
سوال:آپ ہندوستان کی سیکولر مسلم اقلیت کے رکن ہیں۔ جہاں ان دنوں مسلمانوں کے خلاف "کورونا جہاد” جیسا لفظ دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ کے نزدیک ہندوستان کی موجودہ صورتحال کس حد تک خطرناک ہے؟
رحمن عباس: صورتحال انتہائی خطرناک ہے ؛کیونکہ یہ دائیں بازو کی نسل پرست طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ ہندو قوم پرست اقلیتوں کی توہین کرتے ہیں اور انھیں تمام بیماریوں کی وجہ بتاتے ہیں ۔ ماضی قریب ہی میں عالمی برادری نے دیکھا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کس طرح مسلم اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے "لو جہاد” جیسی اصطلاح استعمال کی ۔ سیاسی طور پر پھیلائی گئی اس نفرت کی بنا پر ما وراے عدالت سرِراہ لوگوں کی جانیں لے لی گئیں اور اسے ایک منظم منفی پروپیگنڈے کے ذریعے معمول بنا لیا گیا ۔
ہم "کورونا جہاد” کوبھی اسی مہم کی توسیع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ،جس کو سوشل میڈیا ، مین سٹریم میڈیا اور حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستداں چلا رہے ہیں۔ اس کے نتائج تمام ہندوستانی معاشرے میں نظرآرہے ہیں؛چنانچہ ہندو، مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں اور سامان خریدنے سے انکار کررہے ہیں ، کئی ہندو ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کے علاج سے انکار کردیا،اسی طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔
سوال:یورپ میں آپ کی تحقیق کا ہدف کیا ہے؟
رحمن عباس: مجھے اپنے اگلے ناول کے لئے ریسرچ گرانٹ ملی ہے۔ بنیادی طورپر اسی کے لیے میں نے یورپ کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ؛تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یورپ میں نازی فکرکو کیسے فروغ حاصل ہوا؟ اس نے جرمن معاشرے کو کس طرح متاثر کیا؟ اور یہ آئیڈیالوجی کس طرح یہودیوں ، کمیونسٹوں ، سیاسی مخالفین ،سنتی، روما ، معذور اور دیگر جماعتوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کشی کا سبب بنی؟
ہندوستان میں مسلمان ، دلت ، عیسائی اور قبائلی باشندے دائیں بازو کے انتہا پسندوں یا بالادست ہندو طاقتوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک ، الگ تھلگ کیے جانے اور ظلم و ستم کے شکار ہیں ، اسی طرح پاکستان میں شیعہ اور ہندو اقلیتوں کو مسلم شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔
جرمنی اور یورپ میں ہولوکاسٹ کے پس منظر کے طور پر جو کچھ ہورہا تھا اس کی مذمت کرنے میں سماجی وسیاسی حلقے اور نظریات کی ناکامی کا مَیں مطالعہ وتعین کرنا چاہتا تھا۔ میں برصغیر ہند کے عوام کو فاشزم کے رجحانات و خصائل سے آگاہ کرنے کے لیے جرمنی کے نازی عہد سے حاصل شدہ اہم اسباق سے متعارف کرواناچاہتا تھا۔
درحقیقت گزشتہ دو دہائیوں کے بارے میں میرا تجزیہ ، جس دوران برصغیر پاک و ہند میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے ، اسی طرح ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی متعدد مذہبی و سیاسی تنظیموں کے سلسلے میں میری تحقیقات بھی ممکنہ نسل کشی کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ان ملکوں کی موجودہ صورتِ حال جرمنی میں نازیوں کے عروج کے زمانے سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
سوال:پچھلی صدی کے آغاز میں نازیوں کے دورِ حکومت میں جرمنی کی صورتحال سے ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کس قدر مماثلت رکھتی ہے؟
رحمن عباس: نازی ازم ایک نسل پرست اور بالادستی کے حصول کانظریہ تھا۔ اس کے ماننے والوں نے قوم پرستی کو اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا ۔اسی طرح قوم پرست سوشلسٹوں نے آریاؤں کی برتری کے نظریے کو عام کیا اور اس خیال کو بھی کہ وہی حکمرانی کے لائق ہیں۔
جس طرح نازیوں نے یہودیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کیا ،البتہ خاص طور پر یہودیوں کو جرمن مفادات کے تئیں غدار بتایا گیا اور ایڈولف ہٹلر نے پہلے 1933 میں یہودیوں کی تجارت و صنعت کے قومی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس کے بعد 1935 میں نورمبرگ قوانین کے ذریعے یہودیوں کی شہریت اور ان کے بنیادی حقوق کوبھی کالعدم کردیا۔ ہندوستان میں بھی ٹھیک اسی طرح کے حالات پنپ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کا پروپیگنڈہ جاری ہے ،جس کے نتیجے میں ہندوستانی شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون لایا گیا ہے، یہ قانون ہندوستانی پارلیمنٹ سے دسمبر 2019 میں پاس ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت تین ممالک (پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان) سے تعلق رکھنے والے تمام غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی،جبکہ ان میں سے کسی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارک وطن کو ہندوستان کی شہریت نہیں دی جائے گی ، مزید برآں نئے شہری رجسٹر کی تیاری کے نام پر ہندوستانی شہریوں سے متعدد دستاویزات مانگے جارہے ہیں، جن میں والدین یا دادا دادی کے برتھ سرٹیفکیٹس بھی شامل ہیں،ان کے ذریعے سے ہی ان کی شہریت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ ایسا صرف مسلمانوں کو اس ملک سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
(تیسری قسط)
مجھے قول یا عمل سے رد کر دینے والوں کے لئے تو صرف ذلت اور پستی ہے۔ پھر کس نے تمھیں میرے بغیر دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کی گارنٹی دے دی ؟
تم جو مجھے پلٹ کر دیکھتے تک نہیں، میرے ہوتے ہوئے بھکاریوں کے در کے بھکاری بن گئے، گمراہوں کو اپنا رہبر مان بیٹھے، رہز نوں کو اپنا محافظ سمجھ گئے، بے عقلوں کو اپنا لیڈر اور رہنما مان لیا، بے ضمیر وں اور خدا کے غداروں کو اپنا ملجا و ماوی سمجھ بیٹھے، کیا ہو گیا ہے تمہاری عقل کو ؟
کہاں ہیں وہ سینے جو میری یاد سے منور تھے ؟ وہ دل جو میری وعیدوں پر خوف سے لرز اٹھتے تھے ؟ وہ زبانیں جو میری تلاوت سے حلا وت حاصل کرتی تھیں ؟ وہ آنکھیں جو مجھے پڑھ کر آنسوؤں سے بھر جایا کرتی تھیں ؟ وہ ضمیر جو میری ملامتوں سے پانی پانی ہو جایا کرتے تھے ؟ وہ روحیں جو میری قرات سے وجد میں آ جایا کرتی تھیں ؟ وہ سر اطاعت جو میری ہر ھدایت پر بے ساختہ جھک جاتے تھے ؟ اور وہ دیوانے جو مجھے لیکر راہ عزیمت پر نکل پڑتے تھے ؟
کچھ لوگ، آٹے میں نمک کے برابر لوگ تمھیں سمجھانا چاہتے ہیں، تمھیں حکم رسول یاد دلاتے ہیں کہ آؤ گمرہی اور فتنوں کے اس دور میں پلٹو اللہ اور اسکے رسول کی طرف، پھر فیصلہ کرو کہ گمراہ عقائد کی اس یلغار میں میزان حق کیا ہے تو تم ہنستے ہو، جھگڑتے ہو، تہمتیں دھرتے ہو، بحثیں کرتے ہو اور مجھ پر، نبی صادق پر، آخرت کی پوچھ تاچھ پر، جنّت کے عیش پر اور جہنم کی ہولناکیوں پر ایمان رکھنے کا دعوی کرنے کے باوجود میری طرف اور اپنے نبی کے طریقے کی طرف عملا لوٹنے سے کترا جاتے ہو !
آخر تم اتنے مغرور اور گھمنڈی کیوں ہو ؟ اس قدر بے پرواہ کیوں ہو؟ اتنے بے حس اور مطمئن کیوں ہو ؟ آخر کس چیز نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ آخرت کی بازپرس سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ؟ روز مرتے ہو، کتنے رشتےداروں اور دوست و احباب کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی تنہائیوں میں دفن کر چکے ہو، جانتے ہو کہ موت برحق ہے، اس کا تجربہ کرتے رہتے ہو، جانتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ تمہارا کوئی بھی پل موت کا پل ہو سکتا ہے، کوئی بھی صبح تمہاری آخری صبح ہو سکتی ہے، کسی شام بھی تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، کسی بھی پہر سانسوں کے قافلے اپنا سفر روک سکتے ہیں، کسی بھی پل فرشتۂ اجل تمھیں آ کر گرفتار کر سکتا ہے، پھر بھی تم اتنے بے حس ہو! ایسی پریشان کن اور غیر متوقع دنیا میں اتنے مگن ہو؟ حیرت ہے ، کس مٹی سے بنے ہو تم ؟
اکثر تمہاری راتیں دہشت کے سائے میں گزرتی ہیں، صبح تمہاری آنکھ خوف و ہراس کی فضا میں کھلتی ہے، شام ہوتے ہی اضطراب تمہیں گھیر لیتا ہے، سوتے ہو تو پریشان کن خواب تمہاری آنکھوں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، دہشت گردی کے الزاموں میں مارے جاتے ہو، فسادات کی آگ میں جلائے جاتے ہو، جنگوں کی بمباری میں اڑائے جاتے ہو، خبریہ چینلوں پر تماشا بنا کر دکھائے جاتے ہو، اخباروں میں گالیوں کی صورت چھاپے جاتے ہو، پھر بھی میری طرف نہیں پلٹتے، کیسے بے حس اور بد عقل ہو تم ؟
کس کس انداز میں تمھیں سمجھایا ہے کہ میں اللہ کی مضبوط رسی ہوں، دلدلوں میں پھنسنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھ سے چمٹ جاؤ۔ کیسے کیسے تمہیں بلایا ہے کہ میں بحر ظلمات میں اللہ کے نور کی کشتی ہوں، ڈوبنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھے تھام لو! کیا اب بھی نہ پلٹو گے جبکہ تمہارے اوپر مسجدوں کے دروازے بند ہو گئے ہیں؟ اب بھی نہ آؤگے میری طرف جبکہ تم اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہو؟ اب بھی مجھے بڑھ کر نہیں تھاموگے جبکہ تمہارے بے دین چرواہوں نے تمھیں ایک خطرناک نفسیاتی خوف میں مبتلا کر دیا ہے؟
سیاست پر معیشت پر اور معاشرت پر خدا کے نافرمانوں اور سرکشوں کا قبضہ ہے، تمہارے ہاتھوں میں کشکول گدائی ہے، بھیک کا پیالہ ہے۔ انکے چہروں پر کبر و نخوت کا جلال ہے، تمہاری آنکھوں میں حسرتیں ہیں، ملال ہے۔ انکی زبانوں پر تمہارے لئے گالیاں ہیں، رسوائیاں ہیں، طعنے ہیں اور قہر ہے، تمہارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر ہے۔ انکی گردنیں تنی ہوئی ہیں، تمہارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ انکے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے، سرداری ہے، خسروی ہے، جہاں بانی ہے، تمہارے پیروں میں آبلے ہیں، زنجیریں ہیں، زخم ہیں، پھپھولے ہیں، تمہارے فکر و نظر پہ ظالم کی پہریداری ہے۔ خدا کی قسم ! اس نے تمھیں آزاد ہی نہیں بلکہ لیڈر، رہنما، قائد اور حکمراں بنا کر بھیجا تھا۔۔۔۔آہ! تم مجھے چھوڑ کر کیا سے کیا ہو گئے !!
(جاری )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
میں نہیں جانتا آپ کیا سوچتے ہیں ؟ مگر آج کی تاریخ میں ہندوستانی اردو صحافت بہت آگے ہے، کیا دو ایک انگریزی اخبار کو چھوڑ کر کوئی ایسا انگریزی اخبار آپ کو نظر آتا ہے جو سچ بولتا ہو ؟ انقلاب جاگرن والوں کا ہے مگر سچ بولنے کی ہمت ہے .ممبئی اردو نیوز ، منصف ، سیاست ، میرا وطن ،اودھ نامہ, آگ ، کس کس کا نام لیا جائے،آپ پڑھئے تو سہی کیا کوئی ہندی اخبار ایسا ہے جو سچ بولتا ہو ؟ ایک بھی نہیں اور دو ایک اخبار کو چھوڑ دیا جائے تو یہ بھی دیکھئے کہ اردو اخبار کن مشکلات کا سامنا کر رہا ہےـ وسائل محدود،مگر حق کے لئے آواز بلند کرنے میں سب سے آگے،احساس کمتری کو نکالئے،اردو پڑھئے،اخبارات خریدیے، فضا تیار کیجئے،اس کے بعد کا قدم میڈیا پر قبضہ ہےـ آپ خریدیں گے تو سرکولیشن میں اضافہ ہوگاـ اب تو اردو اخبارات کو اشتہار بھی نہیں ملتے،ان لوگوں نے ہی اردو کو زندہ رکھا ہے،ہر اردو جاننے والا اردو اخبارات ضرور خریدے، ایک نہیں،کم از کم دو تین ـ ہم مل کر چلیں گے، تبھی آگے بڑھیں گےـ
ایک عام سا سوال ہے کہ کیاانگریزی اور ہندی اخبارات کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کی خبریں ان اخباروں میں سرخیاں تب ہی بنتی ہیں، جب کوئی مسلمان انہیں شک کے گھیرے میں نظر آتا ہے؟جسٹس کاٹجو بھی میڈیا سے بار بار یہ درخواست کرچکے ہیں کہ جب تک سچائی سامنے نہ آئے آپ فرضی تحریکوں اور نام کا سہارانہ لیں لیکن ایسا لگتا ہے غیر اردو اخبارات اور میڈیا ایماندارنہ صحافت کا راستہ بھول کر مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہوں۔
زیادہ تر اردو اخبارات کا فوکس مسلم مسائل پر ہوتا ہے۔ یہ بری بات نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اردو اخبارات بھی مسلم مسائل کو ترجیح نہ دیں تو کون دے گاـ غیر اردو اخبارات کا مسخ شدہ چہرہ تو پہلے ہی سامنے آچکا ہےـ لیکن اس رویے نے نہ صرف اردو اخبارات کے سیکولر ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگائے بلکہ مسلمانوں کا وہ طبقہ پیداکیا، جو احساس کمتری کا شکار ہے۔ اردو اخبار میں مسلمانوں کے علاوہ بھی وہ سب ہوتا ہے جو کسی معیاری اخبار میں ہونا چاہیےـ
ہم اس بات سے واقف ہیں کہ فسادات اور دہشت گردی کے پس پردہ ہندستانی میڈیا کہیں نہ کہیں عام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کررہا ہے۔ فرضی انکاﺅنٹرس کے واقعات پر غیر اردو اخبارات اور میڈیا کی خاموشی ہمیں پاگل کرتی ہے۔ ابھی حال میں انڈیا ٹوڈے نے ایک سروے میں بتایا کہ ہندستانی مسلمان گھروں میں کم اور جیلوں میں زیادہ ہیں۔ اتر پردیش میں مسلسل فسادات میں مسلمانوں کا خون ہوتا رہا۔ کبھی ہجومی تشددکے نام پر،کبھی مخصوص لباس کی وجہ سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایاگیا۔لیکن غیر اردو اخبارات خاموش رہے۔ حکومت بے قصور مسلمان نوجوانوں کو حراست میں لیے جانے کے باوجود اپنی گھناﺅنی سیاست میں مصروف رہی ـ صرف اردو اخبارات تھے جو ان خبروں کو نمایاں طور پر شائع کررہے تھے۔
غیر اردو اخبارات اور میڈیا کا رول شروع سے مسلم مخالفت کا رہا ہے۔ فرضی انکاﺅنٹر پر یہ میڈیا چیختا ہے مگرجب مسلمان بے قصور ثابت ہوتا ہے تو یہ میڈیا خاموش ہوجاتا ہے۔
اردو اخبارات ہماری ضرورت ہیں، اردو اخبار کا حصّہ بنیں ـ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں کہ آپ کے گھر اردو اخبار آتا ہے، جو سوال کریں ، انھیں یہ ضرور بتائیں کہ ہر موسم میں اردو اخبار ہی سچ بولتا ہےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ترجمہ: نایاب حسن
(1)
لوگ زندگی کے غلام ہوتے ہیں،یہی غلامی ان کے دنوں کو ذلت و مسکنت سے اور راتوں کوآنسووں اور خون سے لبریز کردیتی ہے۔اب دیکھیے ناکہ میری پیدایشِ اولین پر ستر ہزارسال کا عرصہ گزرچکاہے اور میں نے اب تک شکست خوردہ وپابہ زنجیرغلاموں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے روے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے،زندگی کی دھوپ چھاؤں میں گھومتا رہا،غاروں سے لے کر محلوں تک کا سفر کرتے ہوئے قوموں کے قافلے دیکھے؛لیکن ان سب میں مجھے محض بوجھ تلے دبی ہوئی گردنیں ،زنجیروں میں جکڑے ہوئے دست وپاواور گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ذلیل لوگ نظر آئے۔
میں نے بابل سے پیرس اور نینویٰ سے نیویارک تک کے انسانوں کا پیچھاکیااور ریت پر اس کے نقوشِ قدم کے ساتھ اس کی قید کے اثرات بھی دیکھے،وادیوں اور جنگلات سے نسلوں اور صدیوں کے نوحوں کی بازگشت سنی۔
میں محلوں،تعلیم گاہوں اور عبادت خانوں میں گیا،تختۂ شاہی،قربان گاہوں اور منبروں پر کھڑاہوا،تودیکھا کہ کاری گر تاجر اور صنعت کار کاغلام ہے،تاجر فوجی کا غلام ہے،فوجی مذہبی کاہنوں کا غلام ہے،مذہبی کاہن بتوں کا پجاری ہے اور بت تومٹی کا ڈھیرہے،جسے شیطان نے جنم دیا اوراسے مردہ سروں کے ٹیلوں پر رکھ دیاہے۔
میں طاقت وراور مالدارلوگوں کے گھروں اور کمزور و فقیر انسانوں کی جھونپڑیوں میں گیا،ہاتھی دانت اور سونے سے سجی ہوئی پرفریب کوٹھریوں اور مایوسی وموت کے سایوں سے بھرے ہوئے کے ٹھکانوں پر گیا،تومیں نے دیکھاکہ بچوں کو دودھ میں غلامی ملاکر پلایاجارہاہے،حروفِ تہجی کے ساتھ انھیں غلامی اور ذلت کی بھی تعلیم دی جارہی ہے،بچیاں لباس کے ساتھ خود سپردگی کاپیراہن بھی پہن رہی ہیں اور عورتیں صرف طاعت و فرماں برداری کے بستر پر سورہی ہیں۔
میں نے گنگاکے کنارے سے ساحلِ فرات اور نیل کے سرچشمے سے لے کر جبلِ سینا،یونان کے میدانوں سے لے کر روم کے کنیسوں،قسطنطنیہ کی گلیوں سے لے کر لندن کی بلندوبالا عمارتوں میں بسنے والی نسلوں کوآبزرو کیاہے۔ میں نے دیکھاکہ ان تمام مقامات پر غلامی اپنے قاتل جلوس کے ساتھ چلتی ہے اوراسے لوگ خدامان لیتے ہیں،اس کے قدموں پرشراب واموال بہاتے ہیں ،کبھی اسے فرشتہ کہتے ہیں،پھراس کی مورتی کے سامنے دھونی دیتے ہیں ،کبھی اسے نبی بنالیتے ہیں،اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ،کبھی اسے مذہب کانام دے دیتے ہیں،پھراسی کے لیے آپس میں لڑتے مرتے ہیں،کبھی اسے قوم پرستی کہتے ہیں،پھر اس کی مشیئت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں اوراسے روے زمین پر اللہ کاسایہ قراردیتے ہیں،پھر اس کے کہنے پر ایک دوسرے کے گھر بار تباہ کردیتے ہیں ۔ کبھی اسے بھائی چارے کانام دیتے ہیں،پھر اسی کے لیے سخت محنت ومشقت کرتے ہیں ،کبھی اسے مال اور تجارت کانام دیتے ہیں۔الغرض یہ سب مختلف نام مگر ایک ہی حقیقت ہے اور ایک ہی جوہر کے مختلف پہلو ہیں،بلکہ یہ ایک دائمی بیماری ہے جو مختلف بیماریوں اور رِستے ہوئے زخموں کا سبب بنتی ہے اور لوگوں میں زندگی کی طرح یہ بیماری بھی نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کھیتی کی فصلوں کی طرح اس کی بیج بھی ایک زمانے سے دوسرے زمانے اورایک فصل سے دوسری فصل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
(2)
غلامی کی جن عجیب و غریب شکلوں کومیں نے دیکھا،ان میں سے ایک اندھی غلامی ہے۔ یہ وہ ہے جو دورِ حاضر کے لوگوں کوان کے آباواجدادکے کھونٹے سے باندھ دیتی ہے،انھیں گزشتہ لوگوں اور با پ داداؤں کی رسموں ،رواجوں کے تابع کردیتی ہے اوروہ لوگ ایسے ہوجاتے ہیں،گویا قدیم آتماؤں کے جسم اوربوسیدہ ہڈیوں کی قبروں کے ڈھیرہوں۔
گونگی غلامی،یہ وہ ہے جو مرد کی زندگی کوایسی بیوی کے دامن سے باندھ دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتا اور عورت کے جسم کو ایسے شوہر کے بستر پر ڈال دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتی اور ان دونوں کی زندگیوں کو ایک دوسرے سے اس طرح مربوط کردیتی ہے جیسے کہ جوتا اور پاؤں ۔
بہری غلامی، یہ وہ غلامی ہے جو لوگوں کو اپنے گردوپیش اور ماحول کے آداب و اطوار کا پابند ،اس کے رنگوں میں رنگنے والا،اس کے طرزِرہایش و پوشش کواپنانے والا بنادیتی ہے،پس ان کی اپنی حیثیت محض صداے بازگشت کی ہوتی ہے اور ان کے اجسام سایوں کی طرح ہوتے ہیں،جن کا خارج میں اپنا کوئی وجودنہیں ہوتا۔
لنگڑی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بڑے بڑے تیس مار خانوں کو چال بازوں کے جال میں پھنسادیتی ہے،طاقت ور لوگوں کو ایسے لوگوں کی گرفت میں دے دیتی ہے جو شہرت وعزت کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں،پس ان کی حیثیت ایسے آلات کی ہوجاتی ہے جنھیں انگلیاں حرکت دیتی ہیں،پھر روک دیتی ہیں اور کام ختم ہونے کے بعد انھیں توڑ دیتی ہیں۔
سفید(مائل بہ سیاہی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بچوں کی روحوں کو وسیع تر فضاؤں سے لیتی اور حرماں نصیبی و تیرہ بختی کی آماجگاہوں میں لا ڈالتی ہے،جہاں غباوت کے ساتھ فقر و تنگ دستی اور مایوسی کے ساتھ ذلت و مسکنت اپنا پنجہ گاڑے ہوتی ہے،ایسے بچے محرومی کی حالت میں بڑے ہوتے،مجرم بن کر زندگی گزارتے اور ذلت کی موت مرتے ہیں۔
سیاہ(مائل بہ سفیدی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو چیزوں کو ان کی اصل قیمت کے عوض نہیں خریدتی،اشیاکے نام فی الحقیقت کچھ ہوتے ہیں اور وہ انھیں کوئی اورنام دیتی ہے،پس یہ مکروفریب کو ذہانت سے تعبیر کرتی،بکواس گوئی کو علم ریزی کہتی،کمزوری کونرمی اور بزدلی کو خودداری کانام دیتی ہے۔
ٹیڑھی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو خوف زدہ وکمزورلوگوں کی زبانوں کو حرکت دیتی ہے،تو وہ بے سوچے سمجھے بولتے ہیں، سوچتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور ہیں،ذلت و مسکنت کے سامنے ان کی حیثیت کپڑے جیسی ہوجاتی ہے،جسے وہ جب چاہے لپیٹ دیتی اورجب چاہے بکھیر دیتی ہے۔
کبڑی غلامی،یہ وہ ہے جو ایک قوم کو دوسری قوموں کی روایات و قوانین کے تحت چلاتی ہے۔
خارش زدہ غلامی،یہ وہ ہے جو شاہزادوں کومحض نسل ونسب کی برتری کی بناپرتاجِ شاہی پہناتی ہے۔
کالی غلامی،یہ وہ ہے جومجرموں کی معصوم و بے گناہ اولاد پر عاروندامت کادائمی ٹھپہ لگادیتی ہے۔
(3)
ان مختلف نسلوں کا پیچھاکرتے کرتے جب میں بورہوگیااوران قوموں کے جلوسوں کو دیکھ دیکھ کرتھکن محسوس ہونے لگی،تومیں وادیِ خیال میں تنہا جا بیٹھا،جہاں زمانۂ گزشتہ کے سایے اور آیندگاں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ وہاں میں نے ایک کمزور سے سایے کو دیکھاکہ وہ تن تنہا سورج کوگھورتے ہوئے چل رہاہے،میں نے اس سے سوال کیا:
تم کون ہو؟تمھارانام کیاہے؟
تواس نے کہا:
میں آزادی ہوں۔
میں نے پوچھا:
تمھاری اولادیں کہاں ہیں؟
تواس نے کہا:ایک کو توتختۂ دار پر چڑھادیاگیا،دوسرا پاگل ہوکر مرا،تیسراابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔
پھر وہ دھند کے دبیزپردوں میں چھپ کرمیری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
عارفہ مسعود عنبر
مرادآباد
نت نئے رنگ بدلتا کیوں ہے
تو یوں گلیوں میں بھٹکتا کیوں ہے
زندگی جب تجھے رب نے بخشی
موت سے جاکے الجھتا کیوں ہے
ہے ابھی وقت تو توبہ کر لے
نفس اماراہ میں پھنستا کیوں ہے
خود بھی محفوظ رہ اوروں کو بھی رکھ
ہاتھ ہر ایک کا پکڑتا کیوں ہے
فاصلے سے تو ملا کر سب سے
یوں گلے سب کے تو لگتا کیوں ہے
ہو کا ماحول ہے ہر ایک جانب
گھر سے باہر تو نکلتا کیوں ہے
قوت ضبط ہے جب عنبر میں
درد پھر دل میں یہ پلتا کیوں ہے
نایاب حسن
حکومت کی منصوبہ بندی، تبلیغی جماعت کے امیر کی کورنگاہی ونرگسیت اورسب سے زیادہ تبلیغی جماعت کی آڑمیں مسلمانوں کے خلاف اس ملک کے انسانیت کش میڈیا کے انتھک پروپیگنڈے کی بدولت "گئوماتا”کے بعد اب”کوروناوائرس” ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ماب لنچنگ کی ایک نئی تمہید کے طور پر ابھر رہاہےـ گزشتہ چنددنوں میں دہلی، پنجاب، ہریانہ وکرناٹک میں دس سے زائدایسے واقعات رونماہوچکے ہیں، جن میں مسلمانوں کوجان سے مارنے یامحلہ وبستی سے نکالنے کی دھمکی دی گئی ہےـ راجستھان میں ایک مسلم خاتون کوہسپتال میں ایڈمٹ نہ کرنابھی اسی کاشاخسانہ تھاـ ہمارے ایک عزیزدوست شادان نفیس، جوکانپورسے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بتایاکہ صرف مشرَّع حلیہ اورڈاڑھی ٹوپی کی وجہ سے تین تین کلینک والوں نے مشین خراب ہونے کابہانہ بناکر ان کے والدصاحب کاایکسرے کرنے سے منع کردیا ـ کوروناوائرس کے اثرات کی مدت میں جس قدرتوسیع ہوگی، اسی قدراس ملک کے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی قسم کازہریلاماحول پھیلےگاـ
حکومت جن لوگوں کی ہے، وہ موجودہ قیامت خیزحالات میں نہ توطبی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، نہ انھیں وائرس سے متاثرہونے یامرنے والوں سے کوئی لینادیناہےـ انھیں پتاہے کہ اس ملک میں توویسے بھی سالانہ لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر، نالوں اورگٹرزمیں، بھوک اورفاقہ کشی اوردیگر اسباب کی بناپرمرتے ہی رہتے ہیں، تو اگرکورونا وائرس سے پچیس پچاس ہزارلوگ مرجائیں توکیافرق پڑتاہےـ پس عوامی بے چینی میں ابال نہ آنے پائے، اس مقصدسے وہ اپنے روایتی وآزمودہ ایجنڈے پرگامزن ہیں ـ امیت شاہ دوسری تمام سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوکر پوری یکسوئی اورانہماک کے ساتھ اسی ایجنڈے پرعمل کروارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف مودی نے ملک کے اسی فیصدعوام کومورکھ بنانے کاکام اپنے ذمے لےرکھاہےـ
ایسے گمبھیرحالات میں خودہماری ذمے داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہماری سے میرامطلب ہم مسلمانوں کی اورساتھ ہی جوبچے کھچے انصاف پسند برادرانِ وطن ہیں ان کی ـ اولاً توہم(مسلمان) اپنے اندریہ حوصلہ پیداکریں کہ ہمارا کوئی طبقہ اگرکوئی ایسی غلطی کرتاہے،جس کے منفی اثرات من حیث المجموع تمام قوم پرپڑسکتے ہیں،توسنجیدگی اورتوازن کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کی بروقت گرفت کیجیے اورغلطی پرتنبیہ کیجیے؛تاکہ اس کے نقصانات سے قوم محفوظ رہ سکےـ کورونا وائرس کے ملک میں بتدریج پھیلنے کی وجہ سے حکومتی ہدایات اورشرعی تعلیمات کی روشنی میں جن دنوں ملک کے تمام نمایندہ مسلم ادارے نمازباجماعت اوردیگرمذہبی اجتماعات سے مسلمانوں کوروک رہے تھے، انہی دنوں سعدصاحب کاایک بیان سوشل میڈیاکے سہارے مسلمانوں کے درمیان وائرل ہورہاتھا، جس میں وہ بڑی مضبوطی؛ بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ مسلمانوں کومسجدکی طرف رجوع کرنے کی دعوت دے رہے تھے، اسی پربس نہیں، انھیں ڈاکٹروں کی اس ہدایت پربھی شدیداعتراض تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، وہ باقاعدہ حدیث کاسہارالے کر مسلمانوں کوابھاررہے تھے کہ تم مصافحے کاعمل ہرگزنہ چھوڑناـ یہ چیزیں یقیناعام مسلمانوں کے ساتھ خاص مسلمان یعنی ہمارے دیگراہلِ علم قائدین تک بھی پہنچی ہوں گی، تب انھیں سعدصاحب سے رابطہ کرکے صورتِ حال کی خطرناکی کے بارے میں بتاناچاہیے تھا، اگر ایسا ہواہوتا توشایدنوبت یہاں تک نہ پہنچتی ـ
دوسراکرنے کا ضروری کام اِس وقت بھی اوربعدمیں بھی یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا جس میں نیوزویب سائٹس اورسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس شامل ہیں، وہاں ہمارے نوجوانوں کوبھرپور اورمؤثرموجودگی درج کروانی چاہیے اورمین سٹریم میڈیاکی مغالطہ انگیزیوں کوکاؤنٹرکرناچاہیے ـ کسی تنظیم کی جانب سے اخبارکے اجرا یاکوئی میڈیاہاؤس قائم کرنے کے مطالبے یاخواہش سے ہم لوگ دست بردار ہوجائیں، توہی بہترہے؛ کیوں کہ ماضی میں ایسی کئی مہمیں چھیڑی گئیں، جو”چندہ بٹورنے "تک محدودرہ گئیں یاانفرادی طورپرقوم کے کچھ صحافیوں نے اخبارنکالا، تووہ بھی یاتوحالات کے چیلنجزکامقابلہ نہ کرسکے یاان کی نیتیں پہلے سے ہی ناصاف تھیں، سوان کے اخبارات بھی آئے اورگئےـ لہذاہم ان سب جھمیلوں میں پڑے بغیر سوشل میڈیاجہاں کروڑوں لوگ ہروقت موجودہوتے ہیں اورفی زمانہ کوئی بھی سماجی بیانیہ قائم کرنے میں اس کاغیرمعمولی رول ہے، اسے ہم مسلمانوں یاکسی بھی طبقے کے خلاف مین سٹریم میڈیا کے پروپیگنڈے کاجواب دینے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ـ حالات بہت عجیب رخ اختیارکررہے ہیں، ایسے میں لمبی لمبی باتیں کرنے اورمنصوبے انڈیلنے کی بجاے موجودہ ہندوستانی میڈیاکوکاؤنٹرکرنے کا یہی فوری اور مؤثرطریقہ ہوسکتاہےـ
نایاب حسن
طنزومزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی طویل علالت کے بعد آج وفات پاگئےـ ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی اورکئی ماہ تک جامعہ نگرکے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہےـ اسرارجامعی کی پیدایش گیا، بہارمیں1938میں ہوئی،ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حاصل کی،رانچی کالج سے بی ایس سی اوربرلاکالج آف ٹکنالوجی سے انجینئرنگ کیاتھاـ شروع سے ہی قلندرانہ وصف پایاتھا، سوکہیں ٹک کر کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کی، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن میں ہی "اقبال اکیڈمی "قائم کی اوراس کے تحت کچھ علمی وادبی کام کیے، پھرکل وقتی شاعر ہوگئےـ اسرارجامعی نے اردوکی مزاحیہ شاعری میں بڑی اہم اورنمایاں خدمات انجام دیں، ان کاایک شعری مجموعہ بھی شاعرِ اعظم کے نام سے شائع ہوا، اس کے علاوہ غیرمطبوعہ کلام کاایک بڑاذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں ـ
جب میں 2014میں دہلی آیا تواتفاقاایک دن ان سے غالبا بٹلہ ہاؤس بس سٹینڈپرملاقات ہوگئی، علیک سلیک کے بعد انھوں نے اپنے تازہ قطعے کی پرچی تھمائی اورچلنے لگے، میں نے نام دیکھا توچونک گیا، چوں کہ پہلے سے ان کانام سناہواتھا اوریہ بھی جانتاتھاکہ وہ بڑے شاعرہیں، سوان کے پیچھے پیچھے ہولیا، مزیدخبرخیریت معلوم کی، اپنے بارے میں بتایا، ان سے معلوم کیاکہ کہاں رہتے ہیں؟ اپنے "کرایہ خانے "کے بارے میں بھی بتایاـ اس کے بعد ان سے باقاعدہ شناسائی ہوگئی، پھروہ میرے کمرے پربھی آنے لگے، 2015میں انھوں نے اپنے پرچے "پوسٹ پارٹم "کاآخری شمارہ نکالا، جس کے لیے موادکی فراہمی میں مَیں نے ان کاتعاون کیا، وہ کافی خوش ہوئے اورجب بھی، جہاں بھی ملتے، اس تعاون کے لیے میراشکریہ اداکرتےـ جب تک صحت مند اورچلنے پھرنے کے قابل رہے، میرے کمرے پرآتے رہے، میں بھی ان سے ملنے جاتارہاـ پھران کی طبیعت بگڑی اوربگڑتی چلی گئی، پہلے جہاں رہتے تھے، وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوئے یامنتقل کیے گئے،بہت دنوں تک ملاقات نہ ہونے کے بعدمیں نے اپنے طورپرکئی لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا، مگرکچھ پتانہیں چلتا، پھرایک دن ڈاکٹرعبدالقادرشمس صاحب نے بتایاکہ وہ توبہت خستہ حالت میں ہیں اورفلاں ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ـ ویسے توان کی پوری زندگی ہی کچھ ایسی آسودہ نہیں رہی، مگرآخرمیں بالکل ہی اکیلا اوربے یارومددگارہوگئے تھے، ڈاکٹر عبدالقادرشمس صاحب کواللہ پاک جزائے خیردے کہ انھوں نے اس مرحلے میں ان کی خبرگیری کی اوراپنے صاحبزادے عمارجامی کومستقل اس کی ذمے داری دے رکھی تھی ـ ان کی تجہیزوتکفین کاانتظام بھی انھوں نے ہی کیاـ
اسرارجامعی کے شاعرانہ قدوقامت پربڑے بڑے ناقدین نے گفتگوکی اوران کی شاعرانہ برتری کوتسلیم کیاہےـ ابتدامیں شفیع الدین نیر کواستادبنایا پھررضانقوی واہی کی شاگردی اختیارکی اوربتدریج اپنی ایک منفردراہ نکالی اورآسمانِ شعروادب پرچھاگئےـ ان کے کلام کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ لفظوں اورترکیبوں کے معمولی ہیرپھیر سے بات کوکہیں سے کہیں پہنچادیتے اورگہرے معانی پیداکرلیتے تھے ـ ان کے طنزمیں پھکڑپن نہیں ہوتاتھا،ایک خلوص اورہمدردی ہوتی تھی،ان کاطنزایساہوتاتھاکہ وہ شخص بھی سن کر مزے لیتاجوان کاہدف ہوتاـ انھوں نے زیادہ ترملک کے سیاسی احوال پر طنزیہ شاعری کی اوربڑے بڑے سیاست دانوں کی موجودگی میں ان کے خلاف اشعارپڑھےـ اس کے علاوہ سماجی احوال اورادبی حلقوں کی کج رویوں پربھی انھوں نے طنزکے تیربرسائےـ
اسرارجامعی کی خدمات کے اعتراف میں متعدداداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے سرفرازکیاگیا، مگر وہ جس قدوقامت کے شاعرتھے اس اعتبارسے انھیں ادبی حلقوں میں مقبولیت یامادی سرخروئی حاصل نہیں ہوسکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فطری طورپرنہایت سادہ اورہرقسم کی ہوشیاری وچالاکی سے کوسوں دورتھے، جوآج کل کے سکہ بندادیبوں اورشاعروں کاطرۂ امتیازسمجھاجاتاہے اورلوگ اپنی صلاحیت وخدمات کے زورپرنہیں بلکہ سرکاردربار کی چاپلوسی کرکے یاادبی گروہ بندیوں کاحصہ بن کر ناموری وشہرت اورمال ودولت حاصل کرتے ہیں ـ اسرارجامعی نے کبھی اپنی انااوراصول واقدارسے سمجھوتانہیں کیا،جس کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں طنزومزاح کے "شاعرِاعظم ” ہونے کے باوجودہمیشہ خستہ حال رہے اورعبرت ناک زندگی گزاری ـ ان کاخاندان بہارکاایک موقرخاندان تھا، ان کے بھائی اوربھانجیاں بھی ہیں، مگرسب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف، قدآور دانشورولیڈرسیدشہاب الدین ان کے پھوپھاتھےـ جامعی صاحب دنیامیں زندگی بسرکرنے کے داؤپیچ سے قطعانابلدتھے،سو انھیں قدم قدم پر خساروں سے دوچارہوناپڑا، کسی زمانے میں دہلی کے جامعہ نگرمیں ان کی سیکڑوں گزکی زمینیں تھیں، جن پران کے مبینہ ہمدردوں نے ہی قبضہ کرلیا اوراخیر عمر میں ان کےپاس رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی نہیں تھاـ کبھی کوئی شناسااپنی بلڈنگ کاکوئی کمرہ دے دیتااورکبھی کسی جاننے والے کے یہاں چند ماہ رہ لیتےـ اسرارجامعی کی وفات پرادباوشعراافسوس کااظہارکررہے ہیں، مگران کی زندگی میں بہت کم لوگوں نے ان کی احوال پرسی کی ـ میں انھیں اکثرکہاکرتاتھاکہ آپ بلاشبہ ایک عظیم شاعرہیں، لوگوں کوبھی اس کااندازہ ہے، مگراس کااظہاروہ آپ کی وفات کے بعد کریں گے اورآپ کے نام پرروٹیاں توڑی جائیں گی، جیسے غالب کے نام پرتوڑی جارہی ہیں، غالب بے چارے خودتوکس مپرسی کی زندگی گزارتے رہے، مگراپنے بعداپنی ذات سے منسوب ایک مستقل روزگارچھوڑگئےـ یہ سن کروہ ہنس دیتے اورادھر ادھرکی باتیں کرنے لگتےـ
دوہزاراٹھارہ میں بعض نیوزچینلوں نے باقاعدہ ان کے تعاون کے لیے خبریں چلائیں، مگردہلی سے لے کر بہارتک کے دسیوں اردواداروں اوراردوکی وردی پوش شخصیات میں سے کسی کوتوفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کی طرف مددکاہاتھ بڑھائے، دہلی حکومت سے ملنے والاوظیفہ بھی انھیں مردہ قراردے کر بند کردیا گیا،جامعی صاحب جگہ جگہ اپنی زندگی کاثبوت دکھاتے رہے،بعض اخباروں نے لکھابھی، متعلقہ وزیراور اوکھلاکے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگرنتیجہ صفررہاـ
بہرکیف اب تووہ واقعی وفات پاچکے ہیں اوراپنے پیچھے اپناقیمتی کلام اورشعری سرمایہ ہی نہیں، عبرت وموعظت کی ایک پوری داستان بھی چھوڑگئے ہیں ـ خدااپنے جواررحمت میں جگہ دےـ
اکیس دن لاک داؤن وہ بھی اس ملک میں جہاں ستر فیصد عوام بھوک مٹانے کے لئے نیی صبح کا انتظار کرتی ہے . حکومت نے جھگی جھوپڑی اور فٹ پاتھ پر بصرہ کرنے والوں کے لئے ایک لفظ نہیں کہا .کوئی وعدہ نہیں کیا . لاک داؤن یا کرفیو کے ماحول میں شاہین باغ کا احتجاج ختم کر دیا گیا . اب ملک میں کورونا ہے اور این پی آر کا کوئی تذکرہ نہیں . کیا دنیا بھر کی عالمی طاقتوں نے کورونا اپنے اپنے مسائل سے فرار کے لئے ہایی جیک کیا ہے . چین ، اٹلی ، ایران ، ہسپانیہ کی تباہی کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا . مگر ہندوستان کی سیاسی فضاء کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بر وقت حکومت کو بہت سے مسائل سے بچنے کے لئے ایک خوبصورت کھلونا مل گیا ہو . رنجن گگویی ، بابری مسجد اور رافیل معاملہ ، معاشی طور پر تباہ ہندوستان ، این ار سی ، این پی آر ، شاہین باغ ..یہ تمام معاملات کورونا کی دھمک میں گم ہو گئے . مسلمانوں کی شہریت کا معاملہ اس وقت تک زندہ ہے ، جب تک شاہین باغ زندہ ہے . علما کے بیانات کام نہیں آئینگے . احتجاج ہی کام اے گا . اس لئے ، اس حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا کہ جب کورونا کی دھمک میں کمی اہے ، احتجاج کو پھر سے شروع کر دیا جائے . حکمرانوں کے کیی بیانات ایسے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو مسلمان منظور نہیں .
شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم میں سیاست اور سماج کا جو خوفناک چہرہ آرویل نے دکھایا ہے ، وہ آج کے ہندوستان کا بھیانک سچ ہے .، .قیادت کرنے والے وہ چہرے ہیں جو انسان اور جانوروں کا فرق بھول گئے . ملک کو فسادات کے بے رحم شعلوں میں جھونک دینے کی سازش ہوتی رہی . ہجومی تشدد عام ہے اور اور اس کاروبار سے فائدہ اٹھانے والے قاتل جانتے ہیں کہ جب تک مرکزی اور ریاستی حکومت ان کے ساتھ ہے ، انکا کچھ نہیں بگڑے گا .. یہ موجودہ اینیمل فارم کے خوفناک کردار ہیں . جارج آرویل کے سوروں نے جمہوریت کو ہائی جیک کر لیا تھا .. ہم ایک ایسے ڈرامے کا حصّہ ہیں ، جہاں منہ کھولنے والے ، زبان کو جنبش دینے والے غدار قرار دے جا رہے ہیں ..٢٠٠٣ میں جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا ، اس وقت سعادت حسن منٹو کو لے کر میں نے ایک کہانی لکھی تھی ..منٹو اور خواب ..منٹو ایک لڑکی کے ساتھ گجرات کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے . وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا ہے کہ ایک حادثہ ہو جاتا ہے . اس کہانی کا آخری پیراگراف دیکھئے …
’تم اس بچے کو بچا سکتے تھے….‘ میں زور سے چیخی۔
’گائے اور بچے میں سے ایک‘…. شاید مجھ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا— ’ ایک اقلیت بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا۔ اس بستی میں گائے کے مرنے کا مطلب جانتی ہو…؟.‘
منٹو پلٹا۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کر کے اس ڈسٹ بین میں ڈال دیئے۔
منٹو غائب تھا…. لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھا تھا، وہ ابھی بھی ہل رہی تھی
— منٹو اور خواب
.ذاتی زندگی میں مداخلت کے دائرے بڑھتے جا رہے ہیں ..یہ ایجنسیاں کیا کرتی ہیں ، میں نے اپنی ایک کہانی میں اسکا ذکر کیا تھا ..آپ بھی دیکھئے ..
‘وہ ہنس رہا تھا۔ ’ایک لیپ ٹاپ لے آیا۔ آپکی نئی گلوبل دنیا سے جڑنا چاہتا تھا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر …. دوست بنا رہا تھا۔ لیکن وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ ہم پیچھے چلے گئے تھے۔‘
’آگے کیا ہوا بتاو ۔؟‘
’ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دو تین پولیس والے تھے۔ وہ دھڑدھڑاتے ہوئے اندر آ گئے۔ میرا نام پوچھا….گھر کے سامانوں کی تلاشی لی۔ میں باقاعدہ پوری دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک پولیس والا میرا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا کاریگری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا۔‘
’ لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا؟ ‘
آصف شیخ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی…. ’اسکرین پر اچانک ایمان تازہ ہو گیا سر۔ دنیا بھر کی اسلامی فوٹوز میرے لیپ ٹاپ کے اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ کچھ چہرے بھی تھے۔ پولیس والے نے میرا پاس ورڈ پوچھا۔ میں نے بتا دیا۔ نہ بتانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک پورے انہماک سے وہ اپنا کام انجام دیتا رہا۔ پھر میرے والدین سے کہا آپ سب کو میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا۔‘
— تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی
کیا اب سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستانی سیاست ہمیں کس موڑ پر لے آی ہے ..کیا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے ؟ آر ایس ایس کی شاخیں سوشل میڈیا پر زہر اگل رہی ہیں .کہیں مسلمانوں کی ہلاکت کے منصوبے بناہے جا رہے ہیں اور کہیں تصور کی نا پاک دنیا میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا جشن منایا جا رہا ہے ..یہ سب ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی پولیس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اب یقین کرنے کے سوا کویی چارہ نہیں کہ اس کاروبار میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں .. تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے .اشتعال انگیز بیان دینے والے انعام و اعزاز سے نوازے جا رہے ہیں . .ہجومی تشدد برپا کرنے والے ، ہتیا کرنے والے آزاد گھوم رھے ہیں .انکو نمائشی سزا بھی ملتی ہے تو ایسے لوگ شان سے رہا ہوتے ہیں اور بی جے پی کے لیڈران انکی تاج پوشی کے لئے بھی تیار رہتے ہیں …. شاہین باغ کی ضرورت کیوں پیش آیی ؟ کیونکہ مسلمان اس سیاسی نظام میں اپنا حق چاہتے ہیں . اور حکومت آیین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت کو قبول نہیں کرتی . شاہین باغ کی کامیابی یہ تھی کہ عالمی سطح پر فاشسٹ حکومت کا چہرہ بے نقاب ہوا اور حکومت کچھ دنوں کے لئے اپنے مقاصد میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آی . کیا کورونا کے بہانے حکومت مسلمانوں کی شہریت کو لے کر پھر کوئی مہرہ چلے گی کیونکہ اس وقت کرفیو کا ماحول ہے مگر حکومت کے پاس فیصلہ لینے کے لئے بہت وقت ہے اور وہ ایسا کر سکتی ہے .
تاریخ کے صفحے پلٹتا ہوں تو گویٹے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق نظروں کے سامنے ہوتے ہیں … آر ایل سٹوینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کا کردار ہٹلر اور مودی کی طرح رنگ بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے ..ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یا ڈریکولا یا خوفناک وائرس .. کیا ایک پوری تنظیم اس وقت ڈریکولا یا ڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ بری روح بن کر ہندوستان کی اقلیتوں کا خون چوس رہی ہے ..؟ اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عھد میں ، جہاں اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل قانون ، انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں ..؟ پورا ہندوستان ایک خونی ویمپائر کے تماشے کو بند آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟
انیس سو تینتیس میں، ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی، جس میں یہودیوں کو ذیلی انسان قرار دیا گیا اور ہٹلر کی خوفناک تانا شاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا. جرمنی کی طرف سے 1939 میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا … اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میں یہودیوں کا پیچھا شروع کیا. انہیں کام کرنے کے لۓ، انہیں جمع کرنے اور انہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا، . جنگ کے بعد ہٹلر کا مقصد یہودیوں کو ساری دنیا سےختم کرنا تھا. ہم بہت تیزی سے ایک اندھیری دنیا میں چھلانگ لگا چکے ہیں ..اور یہ کہنا مشکل نہیں …کہ ہم خیریت سے نہیں ہیں .
اقلیتوں کی ہتیا ہو رہی ہے اور اس غیر مہذب دنیا میں ، ہمیں لاک داؤن کی تنہایی کا شکار بنایا جا رہا ہے . .ہم گھر میں رہیں مگر حالات پر نظر رکھیں .
میڈیا مسلمانوں سے نفرت تقسیم کرنے کے لئے چھٹے سانڈ کی طرح آزاد ہے ..اظہار راہے کی آزادی کے قتل کا دردناک منظر دیکھنے کے لئے ہم زندہ ہیں ، اور یہ داستان آگے بڑھے ، ممکن ہے اس سے قبل سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹ دی جاہیں .. مگر ہم ہوشیار رہیں .یہ وقت کا تقاضہ ہے .آنکھیں کھلی رکھیں . اور شہریت چاہتے ہیں تو احتجاج کو مرنے نہ دیں ، یہ سب کے لئے ضروری ہے —
پولیس نے شاہین باغ کے احتجاجی مقام کو کورونا وائرس کے بہانے تہس نہس کردیاہے۔ آ ج اس بے نظیر احتجاج کا 101 واں دن تھا۔ آ ج ہی صبح مرادآباد کی عیدگاہ میں گزشتہ 29 جنوری سے جاری خواتین کے انتہائی کامیاب دھرنے کی جگہ پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا ۔ اس سے ایک دن قبل لکھنؤ کے گھنٹہ گھر اور دیوبند میں جاری جرات مند خواتین کے دھرنے کو بھی ختم کیا گیا تھا۔
یہ سب کارروائیاں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی احتیاطی تدابیر کے نام پر کی گئی ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور اس کی مشینری سیاہ قانون کے خلاف جاری اس موثر تحریک کو ختم کرنے کا بہانا ڈھونڈ رہی تھی چونکہ اس تحریک کے نتیجہ میں پوری دنیا شہریت ترمیمی قانون کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نے شہریت کو مذہب سے جوڑنے کے فارمولے کو پوری طرح مسترد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ میں جو 160 عرضیاں داخل کی گئی ہیں ان میں ایک عرضی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی داخل کی ہے اور خود کو اس میں پارٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
شہر یت ترمیمی قانون کے ساتھ ساتھ شاہین باغ پروٹسٹ کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا اور احتجاجی خواتین سے مذاکرات کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے باضابطہ مذاکرات کار متعین کئے تھے۔ جنہوں نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہین باغ کااحتجاج پوری دنیا میں سیاہ قانون کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن گیا تھا ۔ جس کی قیادت ہماری غیور خواتین کررہی تھیں۔اس احتجاجی تحریک کو بدنام کرنے اور کچلنےکی کوششیں روز اول سے ہورہی تھیں اور شمال مشرقی دہلی کا فساد بھی اس تحریک میں شامل لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے ہی برپاکیا گیا تھا ۔لیکن جان ومال کے اتنے بڑے نقصان کے باوجود لوگ خوفزدہ نہیں ہوئے اور وہ دہلی سے لکھنؤ تک پوری قوت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ شاہین باغ کی طرز پر پورے ملک میں دوسو سے زیادہ مقامات پرخواتین کے دھرنے ہوئے اور ان میں سے کئی آ ج بھی چل رہے ہیں۔شاہین باغ میں آ ج کی پولیس کارروائی کے نتیجے میں دھرنے کا سازو سامان ضرور ضائع ہو گیا ہے لیکن اس سے ان لوگوں کے حوصلے نہیں ٹوٹے ہیں جو اس ملک میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ اس تحریک میں شامل خواتین نے حوصلے نہیں ہارے ہیں اور انھوں نے اپنا احتجاج سوشل میڈیا کے ذریعے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں حالات نارمل ہونے کے بعد یہ تحریک دوبارہ رفتار پکڑے گی ۔شاہین باغ ظلم وناانصافی کے خلاف مزاحمت کی ایک تحریک ہے اور تحریکوں میں کبھی کبھی قدم پیچھے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ہمارے وہ مائیں بہنیں اور بیٹیاں مبارکباد اور تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کیا اور کورونا وائرس کی وجہ سے ہی سہی این پی آر کا پہلا مرحلہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
غوث سیوانی، نئی دہلی
email:[email protected]
کرناوائرس دنیا کے سرپر موت کا سایہ بن کر منڈلا رہا ہے۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا علاج کیاہے اور اس سے کیسے بچاجائے؟ اب تک ہزاروں افراد اس مہلک وائرس سے مرچکے ہیں اور دنیا کے ستر سے زیادہ ملکوں کے لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان، دنیا برداشت کر چکی ہے اور پتہ نہیں کہ کب تک یہ وائرس دنیا میں تباہی پھیلاتا رہے گا۔ آج صورت حال غیریقینی ہے اور میڈیکل سائنس کے شعبے میں ترقی یافتہ دنیا بھی سمجھ نہیں پارہی ہے کہ اس بربادی سے بچنے کے لئے کیا قدم اٹھایا جائے۔تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود نہ تو اس خطرناک وائرس کو ختم کیا جاسکا ہے اور نہ اس سے نجات کا راستہ دکھ رہاہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے عذابِ الٰہی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حالانکہ میرا ماننا ہے کہ یہ عذاب نہیں بلکہ عذاب کی تنبیہ ہے۔ ماضی میں نافرمان قوموں کو اللہ تعالیٰ نے کبھی آسمانی آفتوں سے تباہ کیا تو کبھی امراض کے ذریعے نیست ونابود کیا۔ آج بھی ارضِ خدا انسان کی سرکشی اور نافرمانی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر زمین کے بسنے والوں پرعذابِ الٰہی نازل ہوتا ہے تو تعجب کیا ہے؟
دنیا میں دہشت
چین سے امریکہ تک اور کوریاسے ایران تک کروناوائرس کے سبب ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ دہشت اس قدر زیادہ ہے کہ اشیاء کی درآمد اور برآمد کو بھی روک دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے اتلاف کابھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس کی زد میں بھارت اور پاکستان کے آنے کا اندیشہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ دونوں ہی چین کے پڑوسی ممالک ہیں۔ حالانکہ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ملک اب تک محفوظ ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق اب تک دنیا کے کم از کم ستر ملکوں میں وائرس پہنچ چکا ہے اور ترقی پذیرملکوں میں مہاماری کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔اس کا آغاز چین میں ہوا اور سب سے زیادہ اموات بھی وہیں ہوئیں۔چینی صدرنے کہاتھا کہ ہم اس ’شیطانی چمگادڑ‘سے لڑینگے اور جیت حاصل کریں گے۔‘ چین اب بھی اپنے صدر کے قول پر عمل کی کوشش کر رہاہے۔
ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سانپ اور چمگادڑکے گوشت میں پایاجاتا ہے۔ چین میں یہ گوشت لوگوں کی خوراک کا حصہ ہے لہٰذا آسانی کے ساتھ یہ آدمی کے بدن میں پہنچ گیااور اب پوری دنیا اس کے نشانے پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ موتیں ’پلیگ‘ سے ہوئی تھیں جو چوہے سے انسان تک پہنچا تھا اور اب اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر کنٹرول میں تاخیر ہوئی تو اس سے بھی زیادہ موتیں کرونا وائرس سے ہوسکتی ہیں۔ یہ خدشہ اس لئے بنا ہوا ہے کہ چین کی تمام ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جو دنیا کا سب سے زیادہ آباد ی والاملک ہے، اور یہاں سے جانے والے مسافروں کے ذریعہ دوسرے ممالک میں دستک دے چکا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے اور اس سے بچنے کے لئے چین میں درجنوں شہروں کو سیل کردیا گیا ہے اور کروڑوں افراد کوپا بندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی سرکاری اعداد کہتے ہیں کہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب تک جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا، جاپان، نیپال، تھائی لینڈ، تائیوان، آسٹریلیا، امریکہ،اٹلی، سنگاپور اور ویتنام نے اپنے ہاں کرونا وائرس کی تصدیق کردی ہے جب کہ جنوبی کوریا اور ایران میں بہتوں کی موتیں بھی ہوچکی ہیں۔ ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ دوسو سے زیادہ افراد،ایران میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دہشت کا یہ عالم ہے کہ لوگ مسجدوں میں اجتماعی طور پر نماز کی ادائیگی سے بھی بچ رہے ہیں۔ ادھر احتیاط کے طور پر سعودی عرب نے عمرہ وزیارت کے لئے ویزا دینا بند کردیا ہے۔
بھارت اور پاکستان میں دہشت
ہندوستان اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کرونا وائرس کے چند معاملے ہی سامنے آئے ہیں۔یہ معاملے بھی ان لوگوں میں پائے گئے تھے جو چین، اٹلی وغیرہ سے آئے ہیں۔حالانکہ ایسے لوگوں کوعلاج کے بعد اسپتالوں سے چھٹی بھی دیدی گئی ہے۔ باوجود اس کے حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نمٹنے کی تمام تیاریاں کرلی گئی ہیں اور چین ودوسرے ملکوں سے آنے والے مسافروں کی خصوصی نگرانی کی جارہی ہے۔ ادھر پاکستان میں زیادہ خوف ودہشت ہے کیونکہ اس کی سرحد، چین سے ملتی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ بہتر ہیں تو سرحد کی دونوں جانب سے لوگوں کی آمدورفت بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں چینی موجود ہیں جب کہ خاصی تعداد میں پاکستانی بھی چین میں ہیں۔ اِن دِنوں دونوں ملکوں کے لوگوں میں رشتہ داریاں بھی ہورہی ہیں۔چین میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر،کئی ایئر لائنز نے وائرس کو دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ہوائی جہازوں کی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان
عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو عالمی سطح پر ایک ہنگامی صورتحال قرار دیا ہے۔ کرونا وائرس کے انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اس کا اعلان کیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈنوم گیبریسوس نے کہا کہ اس اعلان کے پیچھے بنیادی وجہ چین کی موجودہ حالت نہیں ہے بلکہ اس کا دوسرے ممالک میں پھیلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے، جہاں صحت کا نظام کمزور ہے۔ صرف چین میں اب تک سینکڑوں افراد، اس وائرس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا ہے کرونا وائرس؟
کرونا وائرس کی ابتدائی علامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی علامات ہیں سانس لینے میں تھوڑی پریشانی، کھانسی یا ناک بہنا۔حالانکہ جب اس کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں تو سانس لینے میں تکلیف بڑھ جاتی ہے اور کھانسی، زکام میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر کھانسی اور زکام کے بعد بخار بھی آجاتا ہے لیکن سنگین معاملات میں، یہ انفیکشن نمونیہ یا سارس ہوجاتا ہے، نیز گردے کی خرابی کی حالت بن جاتی ہے اور مریض کی موت تک ہوسکتی ہے۔ کرونا کے زیادہ تر مریض بزرگ افراد ہیں، خاص طور پر وہ جو پارکنسن یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کے شکار ہیں۔ فی الحال اس انفیکشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص علاج موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اس وقت اس کی علامات کی بنیاد پر متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے متاثرہ علاقوں کو پہلے سے طے شدہ عام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ انفیکشن کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ ان اقدامات میں ہاتھوں کو صاف رکھنا، ماسک پہننا اور کھانے، پینے میں احتیاط شامل ہے۔اسی کے ساتھ لوگوں کو سانس لینے میں انفیکشن ہونے سے بچنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔کرونا وائرس سے متاثرہ افراد چھینکیں تو سامنے کھڑے افراد کوانفیکشن ہوسکتا ہے لہٰذااس بچیں۔
دنیا کی اقتصادیات کی کمرتوڑ سکتا ہے وائرس
کروناسے چین میں بہت سی موتیں ہو چکی ہیں اوردنیا کے بہت سے ممالک میں اس نئے وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی وکسین کی تیاریوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے مگر اس کی روک تھام سے پہلے ہی عالمی اقتصادیات کو بہت نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی سینیئر اہلکار اگاتھا ڈیماریس کا کہنا ہے کہ ’مالیاتی منڈیوں کو سردست جس خطرے کا سامنا ہے، وہ چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال اْس وقت شدید ہو جائے گی جب سرمایہ کاروں کو مجموعی حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔‘جب کہ امریکہ میں اب تک دوافراد کروناوائرس سے مرچکے ہیں اور بڑا اقتصادی نقصان ہورہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’امریکی اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے زبردست کمی دیکھی گئی۔ 2008 کے مالی بحران کے بعد عالمی انڈیکس میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر مختلف پابندیوں کے باعث دنیا بھر کی مارکیٹس کو پانچ کھرب ڈالر سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے۔‘ ادھر بھارت جس کی معیشت پہلے ہی کسادبازاری سے گزر رہی ہے، کی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے بھی گزشتہ دنوں کرونا وائرس کے سبب ملک کی اکانومی کو نقصان کااندیشہ ظاہر کیا تھا۔وائرس سے متاثرہ ممالک سے تجارت میں حالیہ ایام میں کمی آئی ہے اور ٹیکس کلکشن بھی گھٹا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
احمد علی برقیؔ اعظمی
گردشِ حالات کی ناسازگاری ہائے ہائے
ہے لبوں پر ہر کسی کے آہ و زاری ہائے ہائے
کرتا ہے تیغِ زباں سے ہر گھڑی جو اپنی وار
بھول جاؤں کیسے اُس کی ضربِ کاری ہائے ہائے
کاش سن لیتا وہ میرا ماجرائے دردِ دل
کب کرے گا آکے میری غمگساری ہائے ہائے
ہوگا کب حاصل اسے اس بیقراری سے قرار
کرتا ہے سوز دروں جو دلفگاری ہائے ہائے
غم کے ماروں کی وہ آخر کب سنے گا عرض حال
اس کی ہے ناگفتہ بہ غفلت شعاری ہائے
بھررہا تھا جو بظاہر دوستی کا میری دم
بھول بیٹھا ہے وہ راہ و رسمِ یاری ہائے
باغ ہستی کا سمجھتا تھا جسے میں پاسباں
مُرغِ دل کا وہ مرے نکلا شکاری ہائے ہائے
جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تاجدار
ہے وبالِ جاں یہ اس کی تاجداری ہائے
اب کفِ افسوس مَلتا ہے وہ برقیؔ اعظمی
ہوگئی بیکار جس کی جاں نثاری ہائے ہائے
2002تا2020: مودی نے میڈیاکوکیسے مینج کیا؟
نایاب حسن
رعناایوب نے اپنی کتاب”گجرات فائلس“ میں لکھاہے کہ جب وہ اپنی اصل شناخت چھپاکرگجرات فسادات کے مرکزی کرداروں سے تفتیش کے سلسلے میں گجرات میں تھیں اور اس دوران دیگر اہم لوگوں کے ساتھ مودی سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تھی،تواس ملاقات میں جب انھوں نے مودی سے گجرات فسادات کے تعلق سے سوال کیا،توانھوں نے اس دوران جاں بحق ہونے والے ہزاروں لوگوں پر کسی افسوس یااعتذار کااظہار کرنے کی بجاے صاف طورپر میڈیاپرالزام لگایاکہ اس نے گجرات فسادات کی خبریں بڑھاچڑھاکر شائع کیں،جس کی وجہ سے ان کی امیج کو نقصان پہنچا،مودی نے کہاتھاکہ وہ میڈیاکو مینج نہیں کرپائے اوراس کے بعد سے ہی انھوں نے سیاسی سطح پر اپنی ساکھ مضبوط کرنے کے ساتھ میڈیا پر بھی ”خاص دھیان“دینا شروع کردیا؛حتی کہ جب ہندوستان میں سوشل میڈیا کا ورود ہوا،تو سب سے پہلے اسے اپنی سیاسی تشہیر کے لیے استعمال کرنے والی پارٹی بی جے پی تھی اور اس میں یقیناً مودی کا ہاتھ تھا، نریندرمودی 2009سے ہی ٹوئٹر پر پائے جاتے ہیں،جبکہ راہل گاندھی کو2015میں اس کی افادیت واہمیت کا احساس ہوا،اسی طرح دوسرے سیاسی لیڈران بھی بہت بعد میں ٹوئٹراور دیگر سوشل سائٹس پر ایکٹیوہوئے۔بی جے پی کا آفشیل ٹوئٹراکاؤنٹ2010سے ہی ایکٹیوہے،اس کے علاوہ تمام ریاستی یونٹس کے الگ ٹوئٹراکاؤنٹس ہیں اور سب سرگرم ہیں،جبکہ کانگریس ٹوئٹرپر2013میں آئی اور اس کی صوبائی یونٹس تواب بھی سوشل میڈیاپر اتنی سرگرم نہیں ہیں۔دونوں کی ویب سائٹس میں بھی حرکیات کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے۔
2014میں عام انتخابات سے پہلے کے دوتین سالوں میں جبکہ یوپی اے حکومت کے خلاف پورے ملک میں بے چینی پائی جارہی تھی، میڈیامیں کھل کر اس حکومت کی بد عنوانیوں پرتنقید کی جارہی تھی اوراناہزارے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چھیڑچکے تھے،اس دوران مودی کو پورا موقع ملاکہ وہ حکومت مخالف میڈیاکو اپنا حامی بنالیں،سوعام انتخابات سے پہلے الیکشن کمپیننگ کے دوران ہی مین سٹریم میڈیاکے زیادہ تر چینلز مودی کے گن گان میں مصروف ہوچکے تھے۔اس وقت ملک بھر کامیڈیا کانگریس کی بدعنوانیوں کے خلاف تیغِ براں بناہوا تھا، اسی بدعنوانی پر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی امیدواری کی بنیاد رکھی گئی اور ”سب کا ساتھ،سب کا وکاس“کے مکھوٹے کے ساتھ مودی نے انتخابی مہم شروع کی،جس میں انھیں میڈیاکا بھر پور ساتھ ملا، 2014کے جنرل الیکشن میں انھیں زبردست کامیابی ملی اورنتیجتاً2002کے قتلِ عام پر افسوس و معذرت کا ایک لفظ نہ بولنے والا انسان پورے ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔اس کے بعد اچانک مین سٹریم میڈیاکا لب و لہجہ بدلا،اب اس نے حکومت کی تنقید کی بجاے اس کی توصیف کی پالیسی اپنالی؛کیوں کہ مودی حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کی دنیاکو کنٹرول کرنے کے لیے آئی ٹی سیل کو سرگرم کیا،وہیں ٹی وی چینلوں کو بھی یکے بعد دیگرے رام کیاگیا،جو الطاف و عنایات سے مودی کے حلیف ہوئے،انھیں نوازنے کا عمل شروع ہوا اور زیادہ تر نیوز چینل اور مرکزی دھارے کے صحافی ایسے ہی نکلے،جبکہ گنے چنے چینلوں نے یا صحافیوں نے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے سے منع کیا یا حکومت سے سوال پوچھنے کی جرأت کی،تو مودی حکومت نے پہلے انھیں پیار سے قائل کرنا چاہا،انھوں نے نہیں مانا،توان پر آنکھ بھؤں چڑھائے،پھر بھی نہ مانے،توان کے پیچھے سی بی آئی اور آئی ٹی سیل کے یودھاؤں کوچھوڑ دیا،ایک طرف قانونی داؤ پیچ کے ذریعے انھیں پھانسنے کی کوشش کی گئی،جبکہ دوسری طرف سوشل میڈیاپر اپنے لوگوں کے ذریعے ان کی ناک میں دم کرنے کی سازش رچی گئی، نتیجہ یہ ہواکہ حکومت کے پانچ سال پورے ہوتے ہوتے سو میں سے نناوے فیصد ہندوستانی میڈیا مودی اینڈکمپنی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگیا،جو سرپھرے نہ مانے،وہ اپنے چینلوں سے نکال دیے گئے یا بی جے پی نے عملی طورپر ان کا بائیکاٹ کردیا،شکر ہے کہ ایسے چند صحافی زندہ ہیں اور یوٹیوب یا دیگر پرائیویٹ میڈیاویب سائٹس پر لکھ بول رہے ہیں،یہ کتنی عجیب؛بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی شرمناک حقیقت ہے کہ چار سو سے زائد چینلوں کے درمیان اگر کسی نیوزچینل کو واقعی صحافتی ذمے داریاں نبھانے والا قراردیاجاسکتاہے،تو وہ ایک واحد چینل”این ڈی ٹی وی“ہے،جسے بی جے پی نے تقریباً اچھوت قراردیاہواہے اور جسے زیر کرنے کے لیے مودی حکومت ایک سے ایک حربے آزما چکی ہے۔
2002کے گجرات فساداور 2020کے دہلی فساد کے درمیان فرق صرف یہ نہیں ہے کہ ہندسوں میں الٹ پھیر ہواہے اور اس خونیں ڈرامے کواسٹیج کروانے والے جولوگ اُس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ ووزیر داخلہ تھے،اب وہ پورے ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہیں؛بلکہ دونوں کے درمیان ایک نہایت ہی مہیب فرق یہ بھی ہے کہ اُس وقت کے ہندوستانی میڈیا نے گجرات قتلِ عام پر وہاں کی مودی حکومت کے خلاف سینہ سپرہوکر حقائق کا پردہ فاش کیاتھا،مگر آج کا ہندوستانی میڈیا مودی حکومت کے معاون اورشریکِ کار کے طورپر کام کررہاہے؛بلکہ گزشتہ ہفتے کشت و خون کی جو گرم بازاری ہندوستانی راجدھانی میں ہوئی ہے، اس میں وزیر داخلہ امیت شاہ، پرویش ورما،کپل مشرا،انوراگ ٹھاکر،گری راج سنگھ وغیرہ جیسے بی جے پی کے رہنماؤں کے زہریلے بیانات کے ساتھ ہندوستانی میڈیاکا بھی راست رول ہے،فسادیوں کے ساتھ اسٹوڈیوروم کو میدانِ جنگ بنانے والے نیوزاینکرزبھی دہلی کوجلانے میں برابرکے شریک ہیں۔ شمال مشرقی دہلی میں اب تک تقریباًپچاس لوگ مارے جاچکے ہیں اورتاحال مردہ خانوں کے باہر لوگ اپنے عزیزوں کی لاشوں کے انتظار میں کھڑے ہیں،مگرافسوس کہ ان خبیثوں کے سینے کی آگ اب بھی سردنہیں ہوئی ہے اور مین سٹریم میڈیاکے سارے نیوز چینل عام آدمی پارٹی کے ایک مسلمان کونسلرطاہرحسین کوآئی بی اہل کارانکت شرما کے قتل کے سلسلے میں ولن بناکر پیش کررہے ہیں،اس کے گھرکے کونے کونے کوچھان کرپتانہیں کیاکیا”برآمد“کرچکے ہیں،حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ طاہر حسین خود اس فساد کے متاثرین میں سے ایک ہیں اور وہ خود پولیس کی مدد کی وجہ سے بچ پائے تھے،مگر چوں کہ مذکورہ مقتول شخص کی لاش ان کے گھر کے پاس ملی،توسارابے شرم، ضمیر فروش میڈیایہ ثابت کرنے میں لگ گیاکہ اسے طاہر حسین نے ہی ماراہے،حالاں کہ ”دی وال اسٹریٹ جرنل“ نے مقتول کے بھائی انکورشرماکے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ اسے مارنے والے ”جے شری رام“ کے نعرے لگارہے تھے،گرچہ بعد میں متعدد رپورٹس میں یہ بھی آیاہے کہ وال اسٹریٹ جرنل نے غلط خبر چلائی ہے اور انکورشرمانے اس اخبار کوایسا کوئی بیان نہیں دیا،متعددپولیس افسران کی جانب سے”وال اسٹریٹ جرنل“ کے خلاف فرضی خبر شائع کرنے کی شکایت بھی درج کروائی گئی ہے۔اسی طرح مین سٹریم میڈیانے ایک بندوق بردارنوجوان جس کی شناخت شاہ رخ کے نام سے ہوئی،اس کی خبر کو بھی نہایت جارحانہ انداز میں چلایاگویاسارافساد اسی ایک بندے نے کیاہے،جبکہ ہسپتالوں میں داخل زخمیوں کی رپورٹس میں لگاتار یہ انکشاف ہورہاہے کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو گولی لگی ہے،تویقیناً چلانے والے بھی بے شمار لوگ ہوں گے اور سوشل میڈیاپر توایسی پچاسوں ویڈیوز گھو م رہی ہیں،جن میں فسادی کھلے عام آگ لگاتے،مسجدوں کو شہید کرتے اور لوگوں پر گولی چلاتے نظر آرہے ہیں،مگر ہمارے ملک کا میڈیااب بھی پوری کوشش میں ہے کہ اس اندوہناک سانحے میں متاثر ہونے والے خاندانوں کی اشک سوئی کرنے کی بجاے کسی طرح اس میں مسلم کرداروں کو تلاش کر انھیں ماسٹر مائنڈبنادیاجائے،حالات کے تئیں خود وزیر داخلہ کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اتنے قتل و غارت گری کے بعد بھی کل اڑیسہ کی عوامی ریلی میں انھوں نے لٹنے پٹنے والوں کے تئیں تسلی و دلاسہ کاایک لفظ بولنے کی بجاے اپوزیشن پارٹیوں کے بہانے سی اے اے /این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو اپنی زہریلی زبان کانشانہ بنایا۔
بہرکیف یہ دورجمہوریۂ ہند کا تاریک ترین دور ہے،مودی کو2002میں جس میڈیاکو کنٹرول نہ کرسکنے کا افسوس تھا،اسے وہ2020میں پوری طرح اپنے شکنجے میں لے چکے ہیں۔ دہلی مسلسل تین دن تک جلتی رہی،مگر ملک کے وزیر اعظم کواس کی کوئی فکرنہیں تھی،وہ امریکی صدر کی مہمان نوازی میں مصروف تھے،لگ بھگ 70/گھنٹوں کے بعد ہلکے پھلکے اندازمیں چند لفظی ٹوئٹ کے ذریعے امن کی اپیل کرکے فارغ ہوگئے،مگر مجال ہے کہ ملک کے میڈیانے ان سے کوئی سوال کیاہو،الٹاان کے ٹوئٹ کواس طرح پیش کیاگیا،گویامسٹرمودی دہلی فساد سے بہت زیادہ غمگین ہیں اور انھوں نے فسادات کے70گھنٹے بعد ہی یہ اپیل کردی ہے۔مودی حکومت میں یہ ملک جس ہولناک تباہی کی طرف گامزن ہے،اس میں سب سے بڑا رول یہاں کے میڈیاکاہے۔نیوزروم میں بیٹھ کر حلق پھاڑنے والے اینکرز یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے نیشنلسٹ ایجنڈے کو فروغ دے رہے اور ان کے منھ سے نکلنے والی زہریلی جھاگ کے شکارصرف مسلمان ہوں گے،مگر دیکھ لیجیے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے چالیس سے زائد لوگوں میں آدھے مسلمان ہیں توتقریباً آدھے ہی ہندوہیں،موجِ خون اگرہمارے سروں پر سے گزری ہے،توبرادرانِ وطن بھی بچ نہیں سکے ہیں،تباہی مسلمانوں کی املاک کی ہوئی ہے،توہندوبھی اچھوتے نہیں رہے،لوگوں نے اگر حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا،تو یہ طے ہے کہ حکومت کے پالتواس میڈیا کی لائی ہوئی تباہی سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔بس نام رہے گا اللہ کا!
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے سابق سیکریٹری‘سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور ’قرآن‘سائنس اور کاسموس‘کے مصنف وصی احمد نعمانی بھی اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔انہیں وفات یافتہ کہنے کو جی نہیں چاہتا۔لیکن وہ وفات پاگئے ہیں۔انسان کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔لیکن یہ واقعہ ہے کہ وصی احمد نعمانی نے اس وقت ایک خواہش کی تھی جب ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ایک ایسی خواہش کہ جس میں ہاتھ‘پاؤں اور زبان کے علاوہ ذہن ودماغ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ان کی خواہش ہی ایسی تھی کہ خالق ذوالجلال کو رحم آگیا اور جب ان کے اہل خانہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب نعمانی صاحب کا روبصحت ہونا ممکن نہیں تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا نشانہ پورا کرلیا۔
آخری سانس لینے کے وقت وصی احمد نعمانی کی عمر67سال پانچ ماہ تھی۔میراان سے کوئی 29سال پرانا تعلق تھا۔وہ ایک ہمہ جہت انسان تھے۔1991میں وہ سپریم کورٹ میں وکالت بھی کرتے تھے اور اخبارات میں مسلم مسائل پر مضامین بھی لکھتے تھے۔لہذا اس دوران بابری مسجد کے تعلق سے ان سے ہفت روزہ نئی دنیا کے لئے ایک مضمون لکھوایا تھا۔اس کے بعد یہ تعلق بھی ہمہ جہت ہوگیا۔2004میں وہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی)کے صدر سراج الدین قریشی کی اس ٹیم کا حصہ ہوگئے جوآئی آئی سی سی کے اولین الیکشن میں پانچ سال کے لئے منتخب کی گئی تھی۔انہیں جمہوری طورپر منتخب سینٹر کی پہلی گورننگ کونسل کا سیکریٹری بنادیا گیا۔
وصی احمد نعانی کو علمی مطالعہ کا بڑا شغف تھا۔لہذا 2005میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ ’قرآن‘سائنس اور کاسموس‘جیسے موضوع پر کام کر رہے ہیں اور اب انہوں نے اس موضوع پر مختلف پروگراموں میں تقریریں بھی کرنی شروع کردی ہیں۔میرے لئے یہ ایک نئی خبر تھی۔اس لئے کہ وصی احمد نعمانی نہ تو عالم دین تھے اور نہ سائنس کے اسٹوڈنٹ۔لیکن انہوں نے سائنس کو قرآن کی آیات کے تناظر میں پرکھنا شروع کیا اور اس میدان میں مہارت بھی حاصل کرلی اور شہرت بھی۔اگست2017میں یہ عقدہ کھلا کہ انہوں نے باقاعدہ تجوید وقراء ت کا علم حاصل کیا ہے اور وہ قاری بھی ہیں۔اسکائی پبلیکیشن کے پروپرائٹرشفیق الحسن نے ان کے مضامین اور تقاریر کو ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کیا۔اس مجموعہ کا نام‘قرآن‘سائنس اور کاسموس‘ہی رکھا گیا۔اسی کے پہلے صفحہ پر نعمانی صاحب نے اپنا نام ’قاری وصی احمد نعمانی‘لکھا۔
اتنا صاحب علم ہونے کے باوجود وہ دوسروں سے سیکھنے کی جستجو رکھتے تھے۔انہوں نے 2007کے بعد سے یہ معمول بنا لیا تھا کہ وہ کچھ وقت میرے پاس ضرورگزارتے اور قرآن پاک کی مختلف آیات کا ترجمہ وتفسیر سناکر مجھ سے اس کی تائید چاہتے۔اکثر ایسا ہوتا کہ وہ کوئی سائنسی تھیوری سامنے رکھتے اور پوچھتے کہ بتائیے کہ قرآن نے اس سلسلہ میں کیا کہا ہے۔ہرچند کہ مجھے بڑی حیا آتی تھی لیکن اس عمل کے سبب وہ مجھے استاذ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔نعمانی صاحب طبعاً بہت نازک مزاج واقع ہوئے تھے۔لوگ اسے دوسرا نام دیتے تھے۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت بااصول اور ضابطہ کے پابند انسان تھے۔ان کی اسی سختی کو لوگ ان کی تنک مزاجی سمجھتے تھے۔انہیں جھوٹ اور ریا کاری سے بہت الجھن ہوتی تھی۔اپنے اسی مزاج کے سبب جب وہ اپنے ماتحتوں سے ترشی سے بات کرتے تو میں کبھی کبھی ان سے کہتا تھا کہ آپ سائنس کے تناظرمیں قرآن پر کام کر رہے ہیں تو اپنے مزاج کو بھی قرآن کے سانچے میں ڈھالئے۔تو فوراً نرم روئی کے ساتھ پوچھتے تھے: استاذ کیسے‘ مثال کے طورپر کیسے؟ تو میں ان کو سمجھاتا کہ گو کہ آپ اصول کے پکے ہیں لیکن لوگ آپ کو ترش رو سمجھتے ہیں۔لہذا ان سے قرآن کی زبان میں بات کیا کریں۔پھر پوچھتے کہ قرآن اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے؟میں کہتا کہ قرآن نے نرم روی سے بات کرنے کو پسند کیا ہے۔یہ سن کر فوراً ہاتھ پکڑ لیتے‘کہتے کہ استاذ آئندہ ایسا ہی کروں گا۔
ایک مرتبہ نعمانی صاحب کے ساتھ سہارنپورمیں ایک اسکول کے پروگرام میں جانا ہوا۔وہاں جید عالم دین مولانا محمد سالم قاسمی (مرحوم)بہ حیثیت مہمان خصوصی موجود تھے۔نعمانی صاحب مجھ سے سرگوشی کرنے لگے کہ استاذ میں اب تقریر نہیں کروں گا‘منتظمین سے کہہ دیجئے کہ اب مجھ سے تقریر نہ کرائیں۔میں مولانا سالم صاحب کے سامنے نہیں بول سکتا۔میں نے کہا کہ یہی تو موقع ہے جب آپ کو بولنا چاہئے۔اگر آپ نے درست میدا ن کا انتخاب کیا ہے توآج اتنے بڑے عالم دین کے سامنے بولنے کا موقع مل رہاہے۔ممکن ہے کہ وہ آپ کی تائید کردیں یا ضرورت ہو تو اصلاح فرمادیں۔نعمانی صاحب میری اس ترغیب سے خوش ہوگئے اور جوش میں آکر قرآن‘سائنس اور کاسموس‘پر ایک جامع تقریر کرڈالی۔اس کے بعد مولانا سالم صاحب نے اپنی تقریر میں اس کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ نعمانی صاحب نے جن نکات پر گفتگو کی ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ اکثر علما ء کو ان کا استحظار نہیں ہوگا۔مولانا مرحوم کا یہ جملہ نعمانی صاحب کے کام کے لئے ایک سند تھا۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ اصول کے پابند تھے اورنازک مزاج بھی تھے۔لہذا ان سے اتنا لمبا تعلق چھوٹی موٹی چشمک اور وقتی ناراضگی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتاتھا۔سو یہ میرے اور ان کے درمیان بھی کئی بار ہوا۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ جمود توڑنے میں وہی پہل کردیتے تھے۔لہذا اسی طرح کی ایک بہت سخت چشمک جاری تھی۔اسی دوران وہ اندرون ملک بہت سے شہروں کے دورے کے بعد کناڈااور عراق کے دورے پر بھی گئے۔یہاں ان کے لئے غیر مقیم ہندوستانیوں نے بہت سے پروگرام رکھے تھے۔لہذا جب وہ عراق کے شہر نجف میں تھے تو اچانک اسٹروک کے بعدان پر مختلف قسم کی بیماریوں کا حملہ ہوا اوروہ کچھ بھی واضح طورپرزبان سے بولنے سے محروم ہوگئے۔مجھے اطلاع ملی کہ اس وقت نعمانی صاحب عراق کے الحسین ہسپتال میں آئی سی یو میں داخل ہیں۔ان کی اہلیہ سے بات ہوئی تو وہ بہت پریشان تھیں۔میں نے عراق میں ایک مقامی عیسائی مبلغ کا نمبر حاصل کرکے نعمانی صاحب سے بات کرانے کی درخواست کی۔یہ مبلغ دراصل نعمانی صاحب کی تیمارداری کر رہا تھا۔میں نے جیسے ہی سلام کیا ادھر سے جو کچھ جواب آیا وہ ہرگز سمجھنے کے لئے کافی نہیں تھا۔نعمانی صاحب روتے جاتے اورسمجھ میں نہ آنے والی آواز میں کچھ کہتے جاتے۔میں سمجھ گیا کہ نعمانی صاحب کی قوت گویائی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور دیارغیر میں تنہا ہونے کے سبب دلبرداشتہ ہیں۔لیکن اتنا اندازہ ہوگیا کہ وہ میری بات سمجھ رہے ہیں۔میں نے ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں‘یہاں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے تمام عہدیدار اور خاص طورپرصدر سراج الدین قریشی متفکر ہیں اور جلد ہی آپ کو ہندوستان لانے کا انتظام کریں گے۔اسی دوران میں نے ہسپتال کے ڈاکٹر سے بھی عربی زبان میں بات کی اور نعمانی صاحب کے تعلق سے بتایا کہ وہ کتنی اہم شخصیت کے حامل ہیں۔
مجھے اطمینان ہوا کہ سینٹر کے اس وقت کے نائب صدرجناب صفدر ایچ خان اور سراج الدین قریشی وغیرہ نے تگ ودوکرکے نعمانی صاحب کو بذریعہ ایر ایمبولینس ہندوستان واپس لانے کا انتظام کردیا۔یہاں بہت عرصہ تک ان کا علاج ہوا۔مہینوں تک وہ کاغذ پر لکھ کر بات کرتے رہے۔پھر اس لایق ہوئے کہ ان کے لب جنبش کرنے لگے اور ان کے منہ سے کان لگاکر سننے میں کچھ بات سمجھ میں آنے لگی۔اس سے زائد وہ صحت یاب نہ ہوسکے۔انہیں چلنے پھرنے میں بھی بڑی دشواری تھی۔اپنی اہلیہ اور ڈرائیور کے سہارے سینٹر آتے اور سیکریٹری کے فرائض انجام دیتے۔اسی دوران قرآن اور سائنس پر بھی کام کرتے۔اکثر اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ جو کچھ میں نے لکھا اور بولا ہے وہ اگر کتابی شکل میں آجائے تو میں سکون کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔میں کہتا کہ انشاء اللہ آپ ضروررو بصحت ہوں گے۔
وہ وقت بھی آگیا جب وہ کچھ ٹھیک ہوگئے۔سہارے سے چلنے پھرنے بھی لگے اور کچھ ہلکی پھلکی آواز سے اپنا مدعا سمجھانے بھی لگے۔ایک بار کہنے لگے کہ استاذ کیا اب میں تقریر نہیں کرپاؤں گا۔میں نے کہا کہ انشاء اللہ ضرور کریں گے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ ایک بار سینٹر میں قرآ ن اور سائنس پر تقریر کریں۔وہ وقت بھی آیا اورنعمانی صاحب کچھ دنوں کے لئے اس لایق ہوگئے۔ان کے لئے سینٹر میں ایک پروگرام رکھا گیا۔انہوں نے دوگھنٹے تک شاندار گفتگو کی۔لیکن پھر چند ایام کے بعدوہ اسی ڈگر پر واپس آگئے۔ان کی خواہش تھی کہ مضامین اور تقاریر کا مجموعہ شائع ہوجائے لہذاان کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ان کے بھائی انجینئر مشیر نعمانی‘حکیم سید احمد اور شفیق الحسن نے ان کا یہ خواب پورا کردیا۔ان کے مجموعہ تقاریر کا اجرا ء بھی عمل میں آیا۔اس تقریب کو معروف مفسر قرآن مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی اور مولانا اعجاز اسلم صاحبان نے بھی خطاب کیا۔لیکن اس موقع پر نعمانی صاحب مائک پر کچھ نہ بول سکے۔جو کچھ بولا وہ چند قریبی افراد کے سواکسی کی سمجھ میں نہ آیا۔چند آنسو بہاکربیٹھ گئے۔2017میں یہ ان کی آخری عوامی تقریب تھی۔اس کے بعد سے وہ مستقل صاحب فراش ہوگئے تھے۔لیکن قرآ ن‘سائنس اور کائنات‘پر ان کے مضامین علم کے متلاشیوں کے دلوں میں رہتی دنیا تک انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔اس کتاب میں 48عنوانات کے تحت مرحوم کی منتخب تقاریرجمع ہیں۔یہ کتاب مدارس میں زیر تعلیم قرآنی علوم کے طلبہ اورکالجوں میں زیر تعلیم سائنس کے اسٹوڈینٹس کے لئے یکساں طورپر مفید ہے۔خاص طورپر قرآن‘سائنس اور کائنات جیسے موضوعات پر کام کرنے والے سائنس دانوں کے لئے یہ کتاب ایک اچھا ماخذ ثابت ہوسکتی ہے۔
وصی نعمانی کی پیدائش 1952میں بہار کے ضلع مدھوبنی میں ہوئی تھی۔گاؤں مرزا پورمیں ابتدائی تعلیم کے بعدمظفر پور کے جامع العلوم سے مزید تعلیم حاصل کی۔پھر جامعہ مفتاح العلوم‘مؤ ناتھ بھنجن سے تجویدوقراء ت کی سند حاصل کی۔الہ آباد بورڈ سے منشی کا امتحان پاس کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1973میں بی اے آنرس کیا۔1977میں ایل ایل بی کیااوراسی دوران طلبہ یونین کے نائب صدر منتخب ہوئے۔مختلف عدالتوں سے ہوتے ہوئے 1986میں سپریم کورٹ آگئے۔کچھ دن سیاست میں بھی کاٹے اور اندراگاندھی کے کہنے پر کانگریس میں شمولیت اختیار کی لیکن جلد ہی عملی سیاست سے الگ ہوگئے۔
نایاب حسن
ہمارے وزیراعظم مسٹرنریندرمودی کی بڑی آرزو تھی کہ موجودہ امریکی صدرڈونالڈٹرمپ ہندوستان کادورہ کریں، وہ ان کی مہمان نوازی کی شدید خواہش رکھتے ہیں؛ چنانچہ گزشتہ سال ہی یومِ جمہوریہ کےموقعے پر امریکی صدرکوبطورمہمانِ خصوصی بلایاگیاتھا، مگربوجوہ وہ نہیں آسکے، گزشتہ ستمبرکے اپنے دورۂ امریکہ میں مودی نے انھیں پھر یاد دلایا اوربھارت آنے کی دعوت دی، اب اسی دعوت پروہ 24فروری کواپنی اہلیہ ملینیاٹرمپ اورایک مکمل ڈیلی گیشن کے ساتھ ہندوستان کے دوروزہ دورے پرآرہے ہیں، ان کے استقبال میں "نمستے ٹرمپ "پروگرام احمدآبادکے تقریباسوالاکھ لوگوں کی گنجایش والے نوتیارشدہ موتیراسٹیڈیم میں کیاجائے گااوررپورٹس کے مطابق ایئرپورٹ سے سٹیڈیم تک پانچ سے سات ملین لوگ ٹرمپ کے لیے لبِ سڑک چشم براہ رہیں گےـ یہاں توٹرمپ کے استقبال کی تیاریاں زوروشورسے جاری ہیں، احمدآباد سٹیڈیم کو سجایا سنوارا جا رہاہے، شہربھرسے پسماندگی وبدحالی کی علامتوں کومٹانے یاچھپانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جھگیوں کے محلّوں کے سامنے "دیوارِہند ” کھڑی کردی گئی ہے؛ تاکہ امریکی صدرکی نگہہِ نازپر کٹے پھٹے لوگ بارنہ بننے پائیں یاہم ایک ترقی یافتہ ملک کے صدرکے سامنے”ایکسپوژ "نہ ہونے پائیں ، مسٹرٹرمپ کے دورے میں تاج محل کی سیاحت بھی شامل ہے،مگرچوں کہ تاج جتناخوب صورت ہے، اس کے اردگردکاماحول اتناہی بدصورت ہے اوراس کے ایک طرف واقع جمناندی بھی خشکی سے دوچارہے؛اس لیے ٹرمپ کے پدھارنے سے پہلے تاج کے گردواقع اس ندی کو یوپی حکومت کی جانب سے "گنگاجل "بھردیاگیاہے،تاکہ مناظرکی خوب صورتی تاج محل سے گزرکرآس پاس کے علاقے تک وسیع ہوجائےـ
ٹرمپ کی آمدسے قبل وزارتِ خارجہ، حکومتِ ہندکابیان آیاہے کہ امریکی صدرکے اس دورے سے ہندـ امریکہ تعلقات میں مضبوطی آئے گی اوراس دوران اسٹریٹیجک، سلامتی،دہشت گردی سے مقابلہ،دفاع، تجارت وغیرہ کے شعبوں پربات چیت اورمعاہدے طے پائیں گےـ مگردوسری طرف بھارت آنے سے قبل امریکی صدرنے اس دورے کے حوالے سے وہاں کی میڈیاسے جوگفتگوکی ہے، اس میں وہ صرف اس بات کاباربارتذکرہ کررہے ہیں کہ بھارت میں ہمارے استقبال کے لیے پانچ سے سات ملین لوگ اکٹھاہوں گےـ تجارتی معاملات کے بارے میں انھوں نے یہ توکہاکہ ہم بھارت کے ساتھ ایک بڑی تجارتی ڈیل کرنے والے ہیں، مگرساتھ ہی یہ بھی کہاکہ اِس دورے میں وہ ڈیل نہیں ہوگی، ممکن ہے وہ نومبرمیں امریکی انتخابات کے بعدہوـ
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابھی اسی ماہ امریکہ نے ہندوستان کو ترقی پذیرممالک کی فہرست سے نکال دیاہے، جس کی وجہ سے تجارت اوربرآمدات کے شعبے میں ہندوستان کو دوسوملین ڈالرسالانہ سے زائد کا خسارہ برداشت کرناپڑسکتاہےـ
کانگریس اوردیگراپوزیشن پارٹیاں امریکی صدرکے بیان اوردورے سے قبل بھارت کے ساتھ کیے گئے امریکی سلوک کی وجہ سے نالاں ہیں اور اس کی ذمے داری مودی سرکارپرڈال رہی ہیں ـ سی پی آئی نے توباقاعدہ ٹرمپ کے دورۂ ہندکے دوران احتجاج کااعلان کردیاہےـ اسی طرح ٹرمپ کے یہاں آنے سے عین قبل امریکی کانگریس کے ایک نمایندہ وفدنے دورۂ کشمیرکے بعدوہاں کی صورت حال پرتشویش کااظہارکیاہے اور حکومتِ ہندسے مطالبہ کیاہے کہ کشمیرمیں حالات کومعمول پرلانے کے ساتھ وہاں مہینوں سے قائم سیاسی اسارت کاسلسلہ ختم کیاجائے اورمقامی سیاست دانوں پرسے پابندیاں ختم کی جائیں ـ اسی طرح چارامریکی ممبران پارلیمنٹ نے امریکی وزیرخارجہ کوباقاعدہ تحریردی ہے، جس میں ہندوستان کے موجودہ مسائل خصوصاکشمیرکے حالات اورمتنازع شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے پیداہونے والی پیچیدگیوں پرتوجہ دلائی گئی ہےـ
ان تمام چیزوں کومدنظررکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ ٹرمپ کادورۂ ہندخودہندوستان کے لیے کتنامفید ثابت ہوسکتاہےـ ٹرمپ اپنے دورےکے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں، وہ ان کی باتوں سے پتاچلتاہے اوریہ بھی پتاچلتاہے کہ وہ اس دوران کوئی بڑادوطرفہ معاہدہ کرنے کے موڈمیں نہیں ہیں،بہرکیف یہ دیکھنے لائق ہے کہ اس دورے کے تئیں ہماری حکومت جن توقعات کااظہارکررہی ہے، وہ محض خوش فہمیاں ثابت ہوں گی یاان کی کسی حدتک تکمیل بھی ہوگی ـ
صالحہ صدیقی
حالات سفر پر مشتمل زبانی بیان سفر گوئی (TRAVELLOGUE) کہلاتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اپنے حالات سفر لکھ کر دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے تو یہ تحریر ادبی زبان میں سفر نامہ یا سیاحت نامہ کہلاتی ہے۔ انگریزی میں اس کے لئے ٹراویلاگ کی اصطلاح مروج ہے کبھی کبھی اسے ٹراویلینگ اکائونٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ہندی میں یہ پرواس ورنن کہلاتاہے۔سفر نامہ یا سیاحت نامہ کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ صنف صرف حالات سفر کا سیدھا سادا بیان نہیں بلکہ مقام سفر کے جغرافیائی طبعی عصری تاریخی سماجی معاشرتی معاشی علمی ادبی حالات و کوائف کا آئینہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر نامہ یا سیاحت نامہ کی عصری تاریخی ،سماجی، معاشرتی ،تہذیبی، علمی اورادبی اہمیت مسّلم ہے۔اس صنف میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی طبع آزمائی کیں۔
آزادی سے قبل خواتین سفر نامہ لکھنے والیوں میںیا یوں کہے کہ اردو کے ابتدائی خواتین سفر ناموں کے نمونے میں نواب سکندر جہاں والئی بھوپال کا تحریر کردہ سفر نامہ حج ، تاریخ و قائع حج ہے، جو ان کے ۱۸۶۱ء کے حج کے حالات پر مشتمل ہے۔ یہ مخطوطہ کی شکل میں رضا لائبریری رامپور میں محفوظ ہے۔ اس کے بعدکوئی خاص نمو نہ دیکھنے کو نہیں ملتا ،اس کے بعد خواتین کے سفر نامے بیسویں صدی میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔حیدرآباد کی مشہور شاعرہ و ادیبہ ا ور مصلح نسواں صغریٰ ہمایوں مرزا حیاؔ کے ۸ سفر نامے شائع ہوئے ہیں۔ وہ ۳۰، دسمبر ۱۸۸۳ء کو پیدا ہوئیں تھیں۔ وہ زندگی بھر تصنیف تالیف کے کاموں میں مشغول رہیں۔ ان کا ۱۹۵۸ء میں انتقال ہوا۔ انہوں نے اپنے شریک حیات کے ساتھ اندرون ملک و بیرونی ممالک کے سفر کئے اور باقاعدگی کے ساتھ حالات سفر تحریر کئے۔ ۱۹۰۲ء میں عراق کا سفر نامہ ، ۱۹۰۸ءمیں بھوپال ،دہلی ، آگرہ کا سفر نامہ ، بعنوان روزنامچہ، ۱۹۱۰ءمیں سیر بنگال و بہار، ۱۹۱۲میں سیاحت جنوبی ہند، ۱۹۲۴میں سیاحت یورپ ۲ جلدوں میں اور ۱۹۲۸ءمیں سفر نامہ کشمیر شائع ہوئے۔اسی طرح۱۹۰۸ء میں نواب آف جنجیرہ ( قبل آزادی بمبئی کے نزدیک ایک جزیرہ پر واقع مسلم ریاست) کی بیگم ر فیعہ سلطانہ نازلی بیگم نے اپنا سفر یورپ کا سباحت نامہ، سیر یورپ شائع کیا جوان کے ان خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ خطوط انہوں نے سیر یورپ کے دوران اپنے اعزا و اقربا کو لکھے تھے۔ عطیہ فیضیؔ نے اپنی یورپ میں تعلیم کے زمانے میں (۱۹۰۶ء) جو خطوط اپنی بہن زہرہ بیگم فیضیؔ کو لکھے تھے۔ ان کو مرتب کر کے ان کا ایک سفر نامہ، زمانہ تحصیل کے عنوان سے مفید عام پریس آگرہ نے ۱۹۲۲ء سے شائع کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کے سفر بھوپال ۱۹۰۸ء پر مشتمل ایک سفر نامہ ان کی بہن زہرہ بیگم فیضیؔ نے ۱۹۱۰ءمیں ایک رسالے میں شائع کیا تھا۔ اسے ہم زہرا بیگم فیضیؔ کا تحریر کردہ سفر نامہ کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی ان کے ساتھ شریک سفر تھیں۔ اس طرح گویا تینوں فیضی بہنیں سفر نامہ میں دلچسپی رکھتی تھی ۔
اسی طرح چند سفر نامے اور بھی دستیاب ہوتے ہیں جن میں۱۹۱۰ء میں بھوپال کے شاہی خاندان، بیگمات بھوپال سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شاہ بانو نے سفر نامہ لکھا ۔یہ نواب سلطان جہاں بیگم والئی بھوپال کے ہمراہ کرنل مجید اللہ خاں کے علاج کی غرض سے یورپ گئی تھی اور لندن میں سات ماہ قیام کیا تھا۔یہ سفر نامہ۱۹۱۵ءمیں سیاحت سلطانی کے عنوان سے شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۱۹۳۷ءمیں مولانا حسرت موہانی کی اہلیہ بیگم نشا ۃالنساء کا سفر نامہ حجازو عراق شائع ہوا جو انہوں نے ۱۹۳۵ء ۔ ۱۹۳۶ءمیں کیا تھا،یہ ان کے بیٹی کے نام لکھے خطوط پر مشتمل ہیں۔اس کے بعد ۱۹۴۷ءمیں حیدرآباد کے رئیس حمیداللہ خاں سربلند جنگ کی بیگم نے اپنے یورپ کے حالات و کوائف’’ دنیا عورت کی نظر میں ‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔
آزادی کے بعد اردو میں خواتین کے سفر ناموں میں جو نام سامنے آتا ہے ان میں آصفہ مجیب سر فہرست ہے ،’’ماضی کے جھرو کے سے ‘‘ کے عنوان سے ان کا سفر نامہ (رسالہ آج کل،دہلی، جنوری ۱۹۸۴ء۔ص ۳۶۔۴۱) شائع ہوا۔پروفیسر محمد مجیب مرحوم ( شیخ الجامعہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) کی شریک حیات بیگم آصفہ مجیب اردو کی اچھی ادبیہ ،افسانہ نویس گزری ہیں ان کا افسانوی مجموعہ پرنداور دوسرے افسانے شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاحت کشمیر کے حالات پر مبنی ایک چھوٹاسا سفر نامہ تحریر کیا۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا سفر نامہ ہے لیکن یہ دلکش زبان و اسلوب میں دلچسپ سفر نامہ ہے۔
آزادی کے بعد خواتین سفر نامہ لکھنے والیوں میں اُم ہانی اشرفؔ۔(رخسانہ نکہت ؔلاری)کا نام بھی اہم ہے ۔انھوں نے ’’تجلّیات حرمین‘‘ کے عنوان سے سفر نامہ لکھا جو ادارہ رفیق، عظیم آباد کالونی ،پٹنہ۔ ۱۹۸۷ءسے شائع ہوا۔مشہور ادیب جناب مقبول احمد لاری کی صاحب زادی ڈاکڑ ام ہانی اشرفؔ بھی اچھی شاعرہ اور دیبہ تھی ان کا مجموہ کلام نالۂ نیم شب شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے جب سعادت حج وزیارت حرمین شریفین حاصل کی تو اپنے حج کے حالات سفر و تاثرات کو تجلیات حرمین نامی کتاب کی صورت میں پیش کیا ۔یہ بنیادی طور پر سفر نامہ حج ہے۔انہوں نے اپنے سفر نامہ کا آغاز ایک منظوم انتساب سے کیا ہے جو جناب مقبول احمد لاری کے نام ہے۔ چونکہ مصنفہ شاعرہ تھی ۔اسی لیے انھوں نے اپنے جذبات قلبی کا اظہار نعتوں اور سلاموں میں پیش کیا ہے ان کا انتخاب بھی اس سفر نامے میں شامل ہے۔
اسی طرح ایک اور اہم نام اے۔امیرالنساء‘‘ کا ہے ان کا سفر نامہ بعنوان ’’ارض مقدس میں چند روز‘‘ جو(انشاء پبلی کیشنز ،کلکتہ۔ ۲۰۰۲ء) سے شائع ہوا۔اے امیرانساء بیگم نے مغربی ایشیا کے ممالک اور مقامات مقدسہ کی سیاحت کے بعد اپنے سفر نامہ ارض مقدسہ میں چند روز کے عنوان سے لکھاہے۔ اس کا پیش لفظ مشہور جریدے انشاء کلکتہ کے مدیر جناب ف س اعجاز نے لکھا ہے جہنوں نے خود بھی سفر نامہ نگاری کی ہے اور اس صنف کے فن نگارش سے بخوبی واقف ہیں۔اے امیرانساء بیگم نے بغداد ، کوفہ ، بابل ، نجف اشرف ، اردن، اسرائیل ، بیت المقدس، عمان ، قاہرہ، مدینہ منورہ، مکہ معظمہ وغیرہ مقامات کی سیر کی، آثار قدیمہ اور قابل ذکر و قابلِ دید مقامات کا معائنہ کر کے حالات معلوم کر کے پھر حالات و اقعات ، معلومات و تاثرات کو دلچسپ زبان و اسلوب میں تحریر کیا ۔
اسی طرح ایک اور اہم نام ڈاکڑ بشریٰ رحمٰن کا ہے جن کا تعلق گورکھپور سے ہے۔ انہوں نے ڈاکڑ محمود الہی کی نگرانی میں ایک مقالہ اردو کے غیر مذہبی سفر نامے لکھ کر ۱۹۹۹ءمیں گورکھپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہیں اس صنف سے کافی واقفیت ہے ۔ انہوں نے کوئی سفر نامہ لکھا یا نہیں اندازہ نہیں۔ اردو سفر نامہ نگاری میں ان کا تحقیقی مقالہ کافی وقیع و اہم ہے۔(بیسویں صدی کے بعد ان کے ایک دو سفر نامے شائع ہوئے)۔
’’بیگم سر بلندجنگ‘‘کا سفر نامہ ’’دُنیا عورت کی نظر میں‘‘ انتہائی اہم ہے ۔حیدرآباد کے رئیس حمیداللہ خاں سر بلند جنگ اپنے دور کی اہم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے کئی یورپی ممالک کے سفر کئے اور اپنا ایک سفر نامہ بھی تحریر کیا تھا۔ جس میں انہوں نے ہم و طنوں کو غیر ممالک کی ترقی کے قصے سنا کر تشویق دلائی تھی کہ وہ بھی ایسی ہی ترقی کریں۔ان کے سفر میں ان کی بیگم صاحبہ بھی ہمراہ تھیں۔وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کے ساتھ مختلف یورپی ممالک کے سفر کئے وہاں کے حالات و کوائف دیکھے اور اپنے شوہر کہ نقطئہ نظر کے عین مطابق اپنا ایک سفرنامہ بعنوان دنیا عورت کی نظر میں تحریر کیا تھا۔اس کے نسخے حیدرآباد کے کتب خانوں ، کتب خانہ آصفیہ و سالارجنگ میں ہیں۔ یہ زیادہ مشہور نہ ہوسکا۔ اس میں موصوفہ نے زیادہ تفصیلات سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے یورپی ممالک کے حالات کو ایک مشرقی عورت کی نظر سے دیکھا ۔
بیگم سید یٰسین علی کا سفر نامہ آسڑیلیا کی جھلک(حیدرآباد۔۱۹۵۵ء)ہے۔یہ لوگ حیدرآباد کے رہنے والے تھے۔انہوں نے اپنی بیگم کے ہمراہ، انگلستان ،فرانس، سوئیزرلینڈ اور عراق وغیرہ کے سفر کئے تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ نے آسڑیلیا کا سفر بھی کیا تھا۔اور اس سر زمین کے حالات و کوائف سفر نامہ میں لکھے تھے۔ یہ حیدرآباد سے شائع ہوا تھا۔ مصنفہ کوئی ادبی شخصیت نہیں لیکن ان کی دلکش زبان و انوکھا اسلوب بیان انہیں ایک اچھی رہبر قلم ثابت کرتا ہے۔ اس سفر نامہ کے مطالعے سے مصنفہ کی وسعت نظر اور عمیق معلومات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔بیگم سید یٰسین علی آسڑیلیا کے مختلف شہروں علاقوں میں گئیں وہاں کے حالات و کوائف دیکھے اور ان کا ذکر رنگین و شوخ بیانی کے ساتھ کیا۔یہ سفر نامہ دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ ( مخزونہ ۔کتب خانہ ۔آصفیہ و سالارجنگ وغیرہ)
بیگم حسرتؔموہانی مرحومہ(نشاط النساء بیگم)نے بھی سفر نامہ لکھا ،یہسفرنامہ حجاز و عراق (نیا ایڈیشن مشمولہ بیگم حسرت موہانی اوران کے سفر نامے )حسرتؔموہانی کی شریک حیات نشاط انساء بیگم کا سفر نامہ حجاز و عراق پہلے شائع ہوچکا تھا۔ لیکن چند سال قبل ۱۹۸۱میں عتیق صدیقی صاحب نے ایک کتاب بیگم حسرت موہانی اور ان کے خطوط مرتب کر کے شائع کی تو اس میں ان کا یہ سفر نامہ بھی شائع کیا۔ اس طرح یہ آزادی کے بعد شائع شدہ سفر نامہ بھی بن گیا۔ ( شائع کردہ مکتبہ جامعہ دہلی۔۱۹۸۱ء)۔ انہوں نے اپنے حجاز و عراق کے سفر کے حالات تحریر کئے ہیں۔ لیکن کسی مضمون یا انشائیہ، بیانیہ مسلسل سفر نامہ کی شکل میں نہیں۔ بلکہ اپنی بیٹی نعیمہ کو خطوط کی شکل میں لکھے ہیں۔یہ ان کے سفر حج ۱۹۳۶ء کے دوران لکھے گئے تھے۔ ان کے ۱۹۳۷ء میں انتقال کے بعد مولانا حسرت موہانی نے ان کو بطور یاد گار ، اپنے رسالے اردو ئے معلیٰ میں دو قسطوں میں شائع کردیا اور پیش لفظ میں لکھا کہ یہ بیگم صاحبہ کا سفر نامہ ہے۔ سفرنامہ حجاز ۱۹۳۵ء کے سفر کا احوال ہے اور سفر نامہ عراق ۱۹۳۶ء کے سفر کا۔اگرچہ ایک چھوٹا سفر نامہ ہے لیکن "بقامت کہترو بقیمت بہتر” کی مثال ہے۔ ا س کے بارے میں نقادوں نے بڑی اچھی رائے کا اظہار کیا ہے اس کی قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہیں کہیں حسرتؔ موہانی اور ان کی بیگم کی خانگی زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آجاتی ہیںاور کہیں کہیں ان کے رہن سہن، خوردو نوش کے طریقوں کا بھی علم ہوتا ہے اور کئی بار ان دونوں کی زندگی کے ایسے گوشوں کا علم بھی ہوتا ہے جن پر خوش عقیدگی اور مبالغے کی تہیں جم گئی ہیں۔ (ص ۱۱)
ڈاکڑ ثریا حسین۔پیرس و پارس(مکتبہ جامعہ، دہلی۔ ۱۹۶۸ء )علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈاکڑ ثریا حسین کا سفر نامہ پیرس و پارس۔ ان کی یورپ اور ایران کے دواسفار کے حالات پر مشتمل سفر نامہ ہے۔ ڈاکڑ ثریا حسین دور حاضر کی جانی پہچانی ادیبہ محقق و نقاد ہیں۔ انہوں نے مشہور فرانسیسی مستشرق گارسین دتاسی کی حیات و خدمات پر مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ایک عالمانہ کتاب جمالیات شرق و غرب کی مصنفہ بھی ہیں۔ اور ایک سفر نامہ پیرس و پارس کی بھی۔ ان کے سفر نامہ پر کئی ادباء و نقادوں نے توصیفی اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا سفر ۱۹۵۷ءمیں ہوا تھا۔یہ سفر نامہ مغربی تہذیب و معاشرت و اشیاء و زبان و ادب میں ڈوبا ہوا ہے۔لباس رہن سہن، سواریاں ، عمارات اشیاء سبھی کچھ انہوں نے کوہ قاف، مساجد، پیڑولیم کی صنعت، شکر کے کارخانوں، بادام پستہ، سیب انگور کی فراوانی کا ذکر کیا ۔ شمس الدین تبریزی کا تبریز ، قم،اصفہاں، زندہ رود، شیراز، ماژندران کا ذکر کیا پھر وہ انقرہ ۔ استنبول ، ٹرسیٹ( بحرروم کی بندرگاہ ) گیں، پھر بغداد ، نیشاپور ، پھر افغانستان ، ہرات ، کابل وغیرہ گیں۔ ۱۹۶۰ء میں انہیں سوبورن یونیورسٹی سے ڈگری ملی، ۱۹۸۲ءمیں وہ پھر سوبورن پیرس کی سیر کرتی ہیں۔
ڈاکڑ رضیہ اکبر حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کی پروفیسر تھی۔ انہیں ۱۹۶۸ءمیں ایرانی حکومت کے ثقافتی ادارے، بنیاد فرہنگ ایران کی دعوت پر انہیں ایران جانے کا موقع ملااور انہوں نے واپس آکر اپنا سفر نامہ’’ تاثرات سفر ایران ‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔اس میں انہوں نے گہرے اور جذباتی احساس کو دلکش انداز میںایران کے حالات و کوائف بیان کئے ہیں۔
زہرہ بتول۔سفر نامہ حجازو ایران(اسلامک بک سینڑ، بنگلور۔۲۰۰۹ء)بیگم زہرہ بتول ، معروف عالم دین اور دارلسلام عمر آباد( تامل ناڈو) کی نامور ہستی جناب ابوالبیان حماد کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حجاز و ایران کا سفر کیا تھا۔ لیکن اس کی اشاعت سے قبل ہی انھوں نے اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیا ۔اس سفر نامہ میں ان کی نظمیں مجاہد کا کردار، اسلام کا مجاہد، سوئے حرم اور مناظر مدینہ، بھی درج ہیں۔ یہ سفر انہوں نے جولائی ۲۰۰۸ءمیں کیا تھا۔ وہ نہ صرف تہران گئی بلکہ کئی اور شہروں جیسے کرمان، شہرایران، سرادن، فاش، اربلان، اورشیر از وغیرہ کی بھی سیر کی ، شیراز میں شیخ سعدیؔ و حافظؔ کے مزارات کی زیارت کی انہوں نے قصر شاہی اور ایرانی مدارس کی سیر بھی کی۔سفر نامہ میں ایران کے مشاہدعلم و فضل خصوصاً شیخ سعدیؔ، حافظؔ، نظام الملک طوسیؔ، عمر خیامؔ وغیرہ کا ادبی امور کے تعلق سے تذکرے متاثر کن ہیں۔ سفر نامہ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان رویوں کا فکر انگیز بیان بھی شامل ہے۔
سلطانہ آصف فیضی ۔عروس نیل(مکتبہ جامعہ، دہلی۔۱۹۶۸ء )سلطانہ آصف فیضیؔ بمبئی کے اسی مشہور فیضی خاندان کی فرد ہیں جس میں نازی بیگم ،زہرہ بیگم اور عطیہ بیگم فیضی اور کئی دوسری نامور ہستیاں گزری ہیں۔ یہ خاندان اپنی سماجی خدمات، علم پروری ہمدردئی انسان و نسواں وغیرہ کے لئے مشہور رہا ہے۔ اسی خاندان کے ایک فرد پروفیسر آصف علی فیضی ایم اے ( کینٹب) بار ایٹ لا۔ کی رفیقئہ حیات سلطانہ آصف فیضی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب قلم خاتون ہیں۔ وہ ناول چنار کا پتہ، سیرت نبوی پر پیارے رسول اور ایک سفر نامہ عروس نیل کی اور چند چھوٹی چھوٹی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔سلطانہ آصف فیضی ؔنے اپنے شوہر کے ساتھ اندرونِ ملک اور کئی بیرونی ممالک کے سفر کئے۔ انہیں اپنے شوہر کے ساتھ کئی سال مصر رہنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے وہاں کے حالات کوائف واقعات، زندگی ،مناظر وغیرہ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا وہاں کے جزو کل، حسن وقبح ، کمزوریاں اور توانائیاں غرض ہر پہلوئے زندگی کو دیکھا۔ منظر کو سمجھا اور اپنے تاثرات سفر نامہ عروس نیل میں تحریر کیا۔ یہ چھوٹا سا سفر نامہ جو معلومات سے پرہے۔ اس کا نام مصر کے مشہور تہوار اور ایک رسم عروس نیل کے نام پر ہے۔ اس سفر نامے کے عنوان کے پیچھے مصنفہ کا مفہوم یہ ہے کہ مصر آج بھی دلہن ہے ،لیکن اس کی قسمت کی کشتی بھنور میں ہی ہے۔ مصنفہ نے صرف مصر کے ظاہری حسن اور شہروں کے سامانِ عیش و نشاط اور شان و شوکتِ ظاہری کو دیکھا بلکہ ان فلاحین ( مصری کسانوں) اور غریب طبقہ کی زندگی فلاکت و نکبت کو بھی دیکھا جو غلاموں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ مصر میں جہاں اس زمانے میں ایک طرف عیش و عشرت کی فرادانی تھی۔ شاہ، امراء ، تجار، زردار لوگ عیش و عشرت میں نظر رہے تھے وہی دوسری طرف کسان، مزدور، غریب ، دیہاتی جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔
صادقہ ذکی۔خیموں کے شہر میں(مکتبہ جامعہ ،دہلی۔۱۹۹۸ء )پروفیسر صادقہ ذکی دہلی کی رہنے والی ہیں۔ وہ دنیائے ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انہوں نے سعادت حج و زیارت روضئہ نبی ؐ کے حصول کے لئے ۱۹۹۷ءمیں سفر حجاز مقدس کیا تھا۔ واپسی کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات اس سفر نامہ میں قلمبند کئے ہیں۔ وہ ۲۹، مارچ ۱۹۹۷ء کو ایک گروپ کے ساتھ جدہ پہنچیں۔اسی شام مکہ پہنچ گئیں۔ ۳، اپریل کو مدینہ گئیں نور وز قیام کیا، ۱۲، اپریل کو پھر مکہ پہنچیں ،۱۸اپریل تک مناسک حج ادا کئے، ۲۹،اپریل ۱۹۹۷ءکو جدہ گئیں۔ ۳۰،اپریل ۱۹۹۷ء کو دہلی پہنچ گئیں۔ انہوں نے اپنی یاد داشتوں کو دورانِ سفر ہی رقم کرنا شروع کردیا تھا۔ واپسی اسکی تکمیل کی۔ یہ سفر نامہ ۳،اگست ۱۹۹۷ء سے ۱۲جنوری ۱۹۹۸ء تک جریدہ قومی آواز میں بطور ضمیمہ شائع ہوتا رہا۔ ایک دو قسطیں ماہ نامہ انشاء کلکتہ کی زنیت بھی بنیں۔مصنفہ نے اسے عنوانات کے ذیل میں نہیں بلکہ مسلسل بیانی کے ذریعے پیش کیا ہے۔ البتہ اسے مختلف حصوں میں منقسم کیا ۔اس میں اغراض سفر سفر کی ابتدائی تیاریاں کا تذکرہ نہیں اس کا آغاز ایک دم مکہ معظمہ کے حدود میں داخل ہونے کے ذکر سے ہوجاتا ہے۔ لکھتی ہیں۔” مسافرانِ حج جب مکہ معظمہ کی پہاڑی سر نگوں سے گزر کر حدود منیٰ میں داخل ہوتے ہیں تو اچانک سفید خیموں کا ایک شہر ان کا استقبال کرتا نظر آتا ہے۔”سفر نامہ کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔ ایک دم شروع ہوتا ہے۔ ایک دم ختم ہوتا ہے۔ بہر حال یہ ایک دلچسپ سفر نامہ ہے۔
صالحہ عابد حسین۔سفر زندگی کے لئے سفر زوساز(مکتبہ جامعہ ،دہلی۔۱۹۸۲ء )صالحہ عابد حسین اردو کی مشہور ادیبہ گزری ہیں۔ ان کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا وہ خواجہ حالیؔ کی پر نواسی تھیں۔ خواجہ غلام اثقلین کی بیٹی ،خواجہ غلام السیدین کی بہن، ڈاکڑ عابد حسین کی بیوی تھیں۔ پانی پت میں ۱۹۱۳ءمیں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۳۳ءمیں ڈاکڑ عابد حسین سے شادی ہوئی۔ ساری عمر لکھنے پڑھنے میں گزاری ۸،جنوری ۱۹۸۸ءکوانتقال کیا۔ انہوں نے کئی ناول ،افسانے،ڈرامہ لکھے۔ ان کی خود نوشت ، سلسلئہ روزو شب اور سفر نامہ سفر زندگی کے لئے سوزو ساز بھی شائع ہوئے۔
صالحہ عابد حسین نے اندرون ملک و بیرون ملک کئی شہروں و علاقوں ملکوں کے سفر کئے اور ان کے حالات اپنی کتاب سفر زندگی کے لئے سوزو ساز میں بیان کئے۔ یہ کسی ایک جگہ کا سفر نامہ نہیں۔ بلکہ مختلف مقامات کے سفر ناموں کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے کشمیر ، حیدرآباد ، بنگلور، پونہ، میسور ، مہابلشور وغیرہ کے اندرون ملک سفر کئے۔ آتھ برس کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ عراق کا سفر کیا۔ ایران کا سفر بھی کیا۔ (وہ شیعہ عقائد رکھتی تھیں۔)۱۹۶۲ء میں عراق و ایران گئیں۔ پاکستان وہ ۱۹۵۳ء تا ۱۹۸۱ءکئی بار گئیں۔ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد کراچی گئیں۔ ۱۹۵۳ء میں اپنے شوہر کے ساتھ دیار مغرب کا سفر کیا۔ انگلستان، پیرس، سوئزرلینڈ، اٹلی، جرمنی ، حج و زیار ت کے لئے عراق و عرب کا سفر کیا۔ انہوں نے اپنے اسفار کی روداد مختلف ابواب کے تحت بیان کیا ہیں۔ہندوستان جنت نشان میں کشمیر ، حیدرآباد، بنگلور، مہابلیشور ، بھوپال کے حالات و کوائف مناظر و معاشرت ہیں۔ قدرتی مناظر ، مقامات ، عمارات، شہر ، معاشرت، رسوم و رواج و اشخاص کے حالات دلکش انداز میں بیان ہوئے ہیں۔صالحہ بیگم کو کشمیر جانے کا بار بار موقع ملا، ان کے بھائی خواجہ غلام السیدین وہاں ڈائرکڑ تعلیمات تھے۔ ان کے سات سالہ قیام کے دوران صالحہ بیگم نے تقریباً تمام کشمیر کے ، اہم مقامات کی سیر کی اور وہاں کے حالات و اقعات ، مناظر باشندوں ، معاشرت و مسائل وغیرہ کا دلکش انداز میں ذکر کیا۔
صغریٰ مہدی۔سیر کر دنیا کی غافل(نئی آواز، جامعہ نگر ،دہلی۔۱۹۹۴ء )پروفیسر ڈاکڑ صغری مہدی عہد حاضر کی مشہور ایبہ، ناول نگار، افسانہ نویس، محقق و نقاد وغیرہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اندرون ملک اور بیرونی ممالک ، پاکستان، انگلستان ، ایمیڑڈم، پیرس، امریکہ ،وغیرہ کے سفر کئے اور اپنے سفر کے حالات چھوٹے چھوٹے سفر ناموں کی شکل میں لکھے۔ ان کا مجموعہ سیر کی دنیا کر غافل کے عنوان سے شائع ہوا ۔سیر کر دنیا کی غافل میں صغری مہدی نے اپنے انگلستان کے سفر کے احوال کو بیان کیا ہے۔ ان کا یہ سفر ان کے کژن انور عباس ملازم ایر انڈیا کی بہن کے ساتھ ہوا تھا۔وہ ہوائی جہاز سے لندن پہنچیں ۔ مختلف مقامات کی سیر کی اور نئی لوگوں جیسے ڈیوڈ متھیوز، رالف رسل، ضیاالدین شکیب وغیرہ سے ملاقات کی۔ لندن کے عجیب موسم، وہاں کے چہل پہل لوگوں کے رویے۔ ریلوے اسٹیشن ، یونیورسٹی ، بڑش میوزیم ، نیشنل آرٹ گیلری ، میڈم ٹساڈ کا مومی عجائب گھر ، دریا کے تیمز، کیمبرج شیکپئر کے وطن وغیرہ کی سیر کی انگریزوں کی معاشرت ، عادات ، اطوار ڈسپلن کا ذکر کیا۔ تین ہفتہ وہا ں رہ کر وہ ایمسڑڈم جینوا ، پیرس ہوکر دہلی آگئی۔مشاہدات ابن بطوطی ان کا ایک اور سفر نامہ ہے۔ یہ ان کا پیرس لند ن امریکہ ، کا سفر نامہ ہے جوپہلے کتاب نما میں دسمبر ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۴ء بالا قساط شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے مزاح سے کام لیا ہے۔اس کا زیادہ حصہ امریکہ کے سفر پر مشتمل ہے۔ صغریٰ نے یہ سفر صالحہ عابد حسین کے ساتھ ان کے علاج کے سلسلے میں کیا تھا۔ یہ لوگ کویت ایرویز کے جہاز سے پہلے لندن پہنچے۔ وہاں کے سیر کی۔ پھر نیویارک روانہ ہوئے، یہ سفر ۷ گھنٹے کا تھا۔ جسے انھوں نے محفوظ کر لیا۔
میخا نوں کا پتہ۔(سفر نامہ مکہ مدینہ سے عراق و ایران)(شائع کردہ مدھیہ پردیش اردو اکادیمی، بھوپال۔۲۰۰۵ء )صغریٰ مہدی کی یہ کتاب ان کا کوئی مسلسل سفر نامہ نہیں۔ بلکہ درجہ ذیل سفر ناموں کا مجموعہ ہے:
(۱)میخانوں کا پتہ:۔ ( سفر نامہ۔ مکہ مدینہ عراق ایران شام)۔(۲) سات دن کیکوکے دیس میں (جاپان)۔
(۳)سمندر سمندر ۔سمندر اور ٹک ٹک(نیکاک بالی ۔ پھکبیت)۔(۴)ٍٍایک بار پھر امریکہ۔
(۵) ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو( لندن، برسی لونا ( اسپین)
قرۃالعین حیدر۔اردو کی عظیم و نامور ادیبہ ہیں۔ انہوں نے سوائے چند مشرقی آسٹریلیائی اور افریقی و جنوبی امریکہ ممالک کے باقی تمام دنیا کی خاک چھان ڈالی ہے۔ ہندوستان کے کثیر مقامات کی انہوں نے سیر کی اور جاپان، روس، ایران، یورپی ممالک کے باقی تمام دنیا و امریکہ بے شمار شہروں علاقوں کی سیاحت کی ۔ انہوں نے اپنے اشعا ر کا بیان سفر نامہ و رپورتاثر دونوں کی ملی جلی تکینک میں کیا ہے۔ اس لئے ایک عام قاری کنفیوژ ہو جاتا ہے کہ اس کی اس قسم کی تحریروں کو سفر نامہ میں شمار کرے یارپورتاژ میں ۔ نقاد ان فن کی کچھ تحریروں کو سفر نامہ اور کچھ کو رپورتاژ میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی تحریر یں لندن لیڑ۔ ستمبر کا چاند، چھئے اسیر تو، درچمن ہر طرقے کوہ د ماوند، گل گشت، جہان دیگرر ، خضر سوچتا ہے۔ دکن سا نہیں تھار سنسار میں۔ پھر ماندی کے کنارے وغیرہ اس کنفیوژن کا شکار ہیں۔ جمیل اختر صاحب نے قرۃ العین حیدر کے مطالعے میں ان تمام کو رپورتاژ میں شامل کیاہے۔ جب کہ خالد محمود نے جہانِ دیگر اور دکھلائیے لے جاکے اسے مصر کا بازار کو سفر نامہ کہا ہے۔ بشریٰ رحمٰن نے ستمبر کا چاند اور کوہ دماوند کو سفر ناموں میں شمار کیا ہے جبکہ کو ہ دماوند نام کے مجموعے میں چھئے اسیر تو بدلا ہو زمانہ تھا۔ کوہ دماوند، گل گشت خضر سوچتا ہے۔ دکن سے نہیں تھا سنسار میں، قیدخانے میں تلا طم ہے کہ ہند آتی ہے کو رپورتاژ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں جہانِ دیگر شامل نہیں اسے بلٹز میں سفر نامہ امریکہ کہا گیاہے۔، (۱۹۸۰ء کی اشاعتیں) مذکورہ بالا تحریر چونکہ رپورتاژ ی عناصر زیادہ ہیں اس لئے ان کو رپورتاژ یا سفری رپورتاژ کہنا مناسب ہوگا اور جہانِ دیگر کو سفر نامہ۔جہان دیگر(مکتبہ اردو ادب ،لاہور۔۱۹۷۰ء )اس سفر نامے میں قرۃ العین حیدر نے اپنے مخصوص افسانوی اسلوب سے کام لیا ہے۔ جو ان کی مخصوص شناخت ہے۔ ان کا اسلوب بیان ہندوستانی الساطیر، قدیم روایتی قصص، داستانوں ، صوفیوں، سنتوں کے روحانی وسیلوں ، ہندوستانی تاریخ تہذیب و ثقافت کے ملے جلے عناصر سے ابھر تا ہے۔ وہ حال، ماضی، کے درمیان تحریری سفر طے کرتی رہتی ہیں۔ ان کی تحریر سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے قاری کا مختلف علوم و فنون ، ادبیات، مذہبی ، صحائف، تاریخات، قدیم و جدید کی مختلف معلومات اور مختلف تصورات و توہمات سے واقف ہونا ضروری ہے۔قرۃ العین اپنے سفر ناموں میں ظاہر سے زیادہ باطن میں محوسفر نظر آتی ہیں۔ ان کے بیانات میں صفائی وافکار کی بہتات ہے۔ ان میں تحیر کا عنصر کافی ہوتا ہے۔ قاری ان کے منفرد اسلوب نگارش حسین تشبیوں ، بلیغ تلمیحات اور تبصروں میں مسحور ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس پس منظر میں جہانِ دیگر پر نظر ڈالی جائے تو ایک جہانِ معانی نظر آتا ہے۔یہ مصنفہ کے سفر امریکہ کی روداد ہے۔ اس میں امریکہ کا سفر، دہاں کی سیر، مختلف مقامات ، شہروں مناظر، حالات کوائف ، معاشرت، لوگوں کے رویوں، اشیاء، عمارات، مقامات، ماضی و حال کی باتوں ، تاریخی ، سیاسی، سماجی و معاشرتی ، اقتصادی، ادبی ، ثقافتی ، تمام باتوں کو دلکش افسانوی انداز میں بیان کیا گیاہے۔ افسانویت، ڈرمائیت، تاریخیت، فلسفہ، ادب، مزاح کا ایسا انوکھا امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا۔ان کے علاوہ کچھ اور خواتین کے سفر نامے ہیںجو اکیسویں صدی میں شائع ہوئے ۔
Saliha siddiqui
Email- [email protected]
نئی دہلی: یوگی آدتیہ ناتھ دہلی میں انتخابی مہم پر ہیں۔یوپی کے وزیر اعلی کی شبیہ فائر برانڈ ہندووادی رہنما رہی ہے۔ہندوتو کی شبیہ بتانے کے لئے بی جے پی نے یوگی کو انتخابی مہم میں اتارا ہے۔انتخابی پلیٹ فارم ملتے ہی یوگی نے شاہین باغ کے بہانے ماحول بنانا شروع کر دیا ہے۔’بولی سے نہیں مانیں گے تو گولی سے منائیں گے ‘والے ان کے بیان پر تنازع بڑھ گیا ہے۔عام آدمی پارٹی نے الیکشن کمیشن سے یوگی کی شکایت کر دی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ان کی انتخابی مہم پر روک لگا دی جائے۔یوگی کہہ رہے ہیں کہ شاہین باغ والوں کو کیجریوال بریانی کھلا رہے ہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ دہلی انتخابات کے لئے بی جے پی کے اسٹار پرچارک ہیں۔1 فروری سے ہی وہ یہاں ریلیاں کر رہے ہیں۔یوگی کو ان علاقوں میں لگایا گیا ہے، جہاں پروانچلی لوگ رہتے ہیں۔ دہلی میں بہار اور یوپی کے لوگوں کو پروانچلی یا پوربیا کہا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دہلی میں ایسے 45 لاکھ ووٹر ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ 27 سیٹوں پر جیت اور ہار پوربیا ووٹر طے کرتے ہیں۔اس کے علاوہ 8 سے 12 اسمبلی سیٹوں کو وہ متاثر کرتے ہیں۔ملک میں کہیں بھی کسی طرح کا انتخاب ہو۔یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو بی جے پی اسٹار پرچارک بناتی رہی ہے۔گجرات انتخابات میں مودی کے بعد سب سے زیادہ ریلیاں یوگی نے کیں۔وہاں بھی وہ کامیاب رہے۔زیادہ تر سیٹوں پر بی جے پی جیتی، جہاں یوگی نے پرچار کیا۔کرناٹک انتخابات میں بھی یوگی آدتیہ ناتھ کا ملا جلا اثر رہا۔لیکن چھتیس گڑھ میں وہ چل نہیں پائے۔بی جے پی کی وہاں کانگریس کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی تھی۔مہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات میں بھی یوگی نے دھواں دھار پرچار کیا تھا ۔جھارکھنڈ انتخابات میں انہوں نے درجن بھر ریلیاں کیں۔لیکن سب سے زیادہ بحث جامتاڑا کی رہی۔اپنے بیانات کو لے کر یوگی آدتیہ ناتھ ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔انتخاب ہو یا نہ ہو۔وہ بغیرکسی شرم اورجھجھک کے کھلے عام ہندوتو کا کارڈ کھیلتے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون کے حوالے سے ہماری تحریکِ مزاحمت اب ایک صبر آزما مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ موجودہ تحریک جو بظاہر ایک ردّعمل اور اضطراب کے طور پر سامنے آئی ہے، دراصل برسہا برس کی گھٹن اور ظلم و ناانصافی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مظلوم و مقہور قوم کی وہ صدائے احتجاج ہے، جسے دنیا کی کوئی قوت تاریخ کے کسی مرحلے میں تہہ تیغ کر دینے کایارا نہیں رکھتی۔ اس تحریک کے محرکین بظاہر ناتجربہ کار طلبہ و طالبات ہیں، لیکن یہی اس تحریک کی قوت بھی ہے۔ نوجوان چونکہ تجربات کی بیڑیوں سے آزاد ہوتے ہیں، اس لئے وہ پکی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں نئی راہیں نکالنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیمبرانہ دعوت بھی بنیادی طور پر ایک یوتھ موومنٹ تھی، جس میں ابتدائی ۳۹ لوگوں کی فہرست میں اغلب تعداد بیس سے کم یا بیس سے کچھ زیادہ عمر کے نوجوانوں کی تھی۔ جب تک اسلام کی تحریک پر نئے دل و دماغ کا غلبہ رہا اور بزرگوں نے اپنے بالغ نظر نوجوانوں کی پشت پناہی کو ہی اپنا اعزاز سمجھا، پیمبرانہ مشن کے قافلے کی ترو تازگی باقی رہی۔ البتہ جب قیادت کے تنظیمی ڈھانچے پر اسّی نوے سالہ بزرگوں کی موجودگی کو لازم سمجھ لیا گیا اور ذہنی و جسمانی معذوری تقدس کا حوالہ بن گئی، ہمارے ادارے اور تنظیمیں دیو ہیکل زنگ آلود مشینوں میں تبدیل ہوگئے۔
(1) ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے کہ ہمارے نوجوان بچے بچیاں جنھوں نے موجودہ تحریک کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئی زندگی بخشی ہے، اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ باخبر، حوصلہ مند اورپر اعتماد ہیں۔ ان کا عمل اور ان کی گفتگو اپنے تمام تر طالب علمانہ نقائص کے باوجود ایک مجتہدانہ شان لئے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بابری مسجد پرغیرمنصفانہ فیصلے کے بعدجب امت کے اکثر بڑے بوڑھے نظامِ وقت کےسامنے کورنش بجا لانے میں ہی عافیت جانتے تھے اور جب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس امت پر نئی صبح کے سارے امکانات بند ہوچکے ہیں، مایوسی کی اس گھڑی میں انہی نوجوانوں نے ایک ایسی مضطربانہ صدائے احتجاج بلند کی جس کی صدائے بازگشت تمام اطراف و اکناف میں سنی گئی۔ دیکھتے دیکھتے ہندو سمراٹ کا عالمی پروپیگنڈہ اور مودی حکومت کی ہمالیائی تصویر کچھ اس طرح زمیں بوس ہوئی کہ عالمی پریس میں حکومت کے لئےاپنی مسلم مخالف پالیسیوں کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا۔ جامعہ ہو یا علی گڑھ، ندوہ ہو یا دیوبند یا دوسرے تعلیمی ادارے جہاں ہمارے نوجوان بچے بچیوں نے بزرگوں کی مصالحانہ روش کو خیرباد کہتے ہوئے ایک نئے طرز عمل کی بنیاد رکھی ، ان کے اِس اقدامی عمل سے معمول کے تعلیمی ماحول میں جو بھی انتشار پیدا ہوا ہو اُس کے لئے اُن کو موردِ الزام ٹھہرانے یا ان پر تادیبی کارروائی کرنے کی بجائےدراصل انہیں انعام و اکرام سے سرفراز کرنا چاہئے۔ یہ وہ مضطرب اور سعید روحیں ہیں جن کی اگر ہم نے خاطرخواہ حوصلہ افزائی نہ کی اور اُن کی پشت پر کھڑے نہ ہوئے تو ہم سنگین جرم کے مرتکب ہوں گے۔
(2) صدر اول کی اسلامی روایت کے برعکس، مدت سے دین اور شریعت کے نام پر، ہم نے اپنی خواتین کو گھروں میں محبوس کررکھا تھا۔ حالانکہ اس عمل کے لئے نہ تو شرع سے کوئی دلیل لائی جاسکتی تھی اور نہ ہی عقل سے۔موجودہ تحریک میں طالبات کے قائدانہ رول نے فرسودہ مولویانہ بحثوں کا کچھ اس طرح قلع قمع کردیا کہ دیکھتے دیکھتے ملک کے مختلف گوشوں میں نہ صرف یہ کہ شاہین باغ وجود میں آنے لگے، بلکہ سکہ بند علماکو بھی انقلابی بچیوں کے ساتھ شوق سے تصویریں کھنچواتے دیکھا گیا۔ اسلام کی ابتدائی تحریک بھی (والمؤمنین والمؤمنات بعضھم اولیأ بعض) کی عملی تصویر تھی جہاں خیر کے کام میں مرد و زن دونوں ہی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے۔ الحمدللہ کہ ہماری بہنوں نے نقطۂ انجماد کی ٹھنڈک میں بھی جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس شان سے ملک کے مختلف شہروں میں کھلے آسمان کے نیچے خطرات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں اُس سے اس بات کا اندازہ توہو ہی گیا ہے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی ہماری شیرازہ بندی کیا گل کھلا سکتی ہے۔
(3) تحریک مزاحمت میں شامل نوجوانوں کے مابین اب یہ بات مناقشہ کا موضوع بن گئی ہے آیا اس عوامی تحریک کا قالب بین مذہبی ہو یا خالص ملی۔نوجوانوں کا ایک حلقہ خالص ملی شناخت کے ساتھ اس لڑائی کو لڑنا چاہتا ہے، جبکہ ایک دوسرا حلقہ عوامی اور مشترکہ ، بلکہ بین مذہبی قالب اختیار کرنے کا پُرزور وکیل ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں نقاط نظر عقیدے کے بجائے اسٹریٹجی سے متعلق ہیں، اس لئے اس بارے میں کسی بھی گروہ کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو آنے والے دنوں میں خود ہی اپنا راستہ بنالیں گی۔ جو طلبہ و طالبات اس لڑائی میں اپنی شناخت کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں وہ ماضی کے تجربات سے کبیدہ خاطر ہیں، ان کے دلائل کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تمام نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، انھیں ہمیں سنبھالنا ہے، ان کی پشت پناہی کرنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک سے نوجوانوں کی ایک ایسی قیادت وجود میں آئے جو بلا خوف لومۃ لائم حق کو حق کہنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور جو اس کلمہ حق کو پیمبرانہ لب و لہجہ میں عوامی نعرہ بنادینے کے فن سے بھی خوب واقف ہو۔ پیمبر کسی قوم کی سطوت کی لڑائی نہیں لڑتا بلکہ اس کی آواز میں وہ وسعت ہوتی ہے کہ اقوامِ عالم کے صالح قلوب اس کی طرف از خود کھنچے چلے آتے ہیں۔ شرجیل جیسے نوجوان منحرفین میں سے نہیں بلکہ مضطربین میں سے ہیں، جو اس ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے استحصال سے سخت نالاں ہیں اور ہر قیمت پر ایک مخلص مسلم قیادت کا احیا چاہتے ہیں۔ بقول جسٹس کاٹجو، شرجیل مجرم نہیں بلکہ انھوں نے محض اظہارِ رائے کی آزادی کا حق استعمال کیا ہے۔ البتہ روایتی مسلم قیادت کو نئے راستے کے متلاشی پسند نہیں آسکتے۔
(4) ملک بھر میں پھیلے مختلف شاہین باغوں کی شکل میں قدرت نے ہمیں ایسی تجربہ گاہیں عطا کی ہیں جہاں ہم اپنی اصل پیمبرانہ تصویر ملک اور بیرون ملک میں مسلسل نشر کرسکتے ہیں۔ نفرت کے اس ماحول میں جہاں ہندوتو کے علمبرداروں نے ہماری شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ہمارے لئے شاہین باغ کے پبلک پلیٹ فارم نے ایک نادر موقع فراہم کردیا ہے۔ اگر ہم اہل وطن کو یہ یقین دلاسکے کہ عدل و قسط کے قیام کو ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ وہ کلمہ سواء ہے جس کی بنیاد پر دوسری اقوام کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ کا قیام عین ہماری دینی ذمہ داری ہے تو اس ملک میں بڑی آسانی سے ایک مقبول عام تحریک کے خد و خال تیار ہوسکتے ہیں۔
(5) آزادی کے بعد پہلی بار ہماری تحریک مزاحمت میں غیرمسلم اقوام کے قافلے تائید و تحسین کے جذبہ کے ساتھ از خود چل کر آرہے ہیں۔ یہ ایک نادر موقع ہے، کاش کہ ہم انھیں بتاسکیں کہ اہل مذاہب کے دوسرے گروہوں سے ہمارا ایک دینی رشتہ ہے۔ عیسائیوں کا اہل کتاب ہونا تو ہر خاص و عام پر واضح ہے، سکھوں کے واہِ گرو کا خالصہ یا گایری منترا میں اوم کی عظمت و جلالت کا بیان ایسی باتیں ہیں جو ہمیں ان اقوام کے ساتھ ایک رشتۂ ایمان میں پروتی ہیں۔ ہندوستان کے سناتن دھرم ہندو ہمارے ساتھ شبہ اہل کتاب کی حیثیت سے ایک رشتۂ اخوت میں منسلک ہیں۔ اس بحث کو آگے بڑھانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
(6) اہل وطن کو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اچانک دستور ہند کے تحفظ کے لئے اس شدت کے ساتھ سڑکوں پر کیونکر آگئے۔ بعضے یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا دستور کی حفاظت کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی ہے۔ ہمارے خیال میں دستور کی بنیادی روح جس کا اظہار اس کے ابتدائیہ میں ہوا ہے، یعنی انصاف، حریت، مساوات اور اخوت، ان ارکانِ اربعہ کا ہمارے قرآنی پیغام سے گہرا تعلق ہے۔ یہ باتیں دراصل امریکی اعلان آزادی سے اثر پذیری کا نتیجہ ہیں جس کی بنا میں مغربی فلسفی جان لاک اور خود جیفرسن کا مطالعہ قرآن اور شاطبی کے اصول خمسہ کارفرما ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر شخص کو مساوات، حریت فکری اور انصاف کی ضمانت مل سکے اورجہاں رنگ و نسل سے بے نیاز اخوت کی تشکیل ممکن ہو ایک ایسے خواب کو ہم اپنے پیمبرانہ مشن کا جزو لازم سمجھتے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)