مولانا انظر شاہ کشمیری کی اس کتاب کے صرف نام میں ہی کشش نہیں ہے، اس کے درون میں بھی صاحبِ ذوق قاری کی تسکین کا وافر سامان ہےـ اس کتاب میں یوں تو جن علما، دانشوران اور سیاست دانوں کے خاکے کھینچے گئے ہیں، ان پر لکھنے والوں نے بہت لکھا ہے، مگر انظرشاہ صاحب کی بات ہی کچھ اور ہےـ مولانا کے اسلوب میں زبردست دل آویزی ہے، ان کی سلسبیلی نثر قاری پر جادو کرتی ہے، اس کے حواس پر چھا جاتی ہے، اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہےـ ان کے اسلوب میں ندرت بھی ہے اور جدت بھی، وہ ایک عالمِ دین اور شیخ الحدیث ہیں مگر ان کا اندازِ تحریر بڑے بڑے صاحبِ اسلوب لکھاریوں سے آنکھ ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان کی زبان میں روانی ایسی ہے کہ قاری ان کے الفاظ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے، ان کی تحریر میں جاہ وجلال بھی ہے اور جمال و کمال بھی ہےـ ان کی قوتِ تخیل میں رعنائی ہے اور قوتِ تحریر میں زیبائی،جس طرح ان کی خطابت اپنے دور میں ممتاز تھی، بالکل اسی طرح ان کے انشا میں بھی تمیز و تفوق کے دسیوں پہلو ہیں ـ معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے مولانا انظر شاہ کشمیری کی نثر کے امتیازی اوصاف کی نشان دہی یوں کی ہے:
"انظر شاہ کشمیری کی نثر میں طلسسمی کیفیت ہےـ اردو میں ایسی پُردَم اور بلند آہنگ نثر لکھنے والے کم ہیں، جن کے جملوں کے زیر و بم اور موسیقیت سے وہ اذہان بھی متاثر ہوتے ہیں، جو لفظوں کے معانی و مفاہیم تک رسائی سے قاصر رہتے ہیں ـ ان کی نثر کی رمزیت اور اسراریت میں وہ کیفیت ہے کہ قاری اس کے سحر سے نہیں نکل پاتا اور اس کا ذہنی وجود نثر کی موجِ رواں میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے "ـ
(دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، ص: 78)
خصوصا خاکہ نگاری و سوانح نویسی میں ان کے قلم کی روانی اور اسلوب کی دلکشی کچھ زیادہ ہی اوج پر ہوتی ہےـ اس سلسلے کی باقاعدہ ان کی دو کتابیں ہیں: ایک "نقشِ دوام "ہے جس میں انھوں نے اپنے والد اور ہندوستان کے ممتاز محدث علامہ انور شاہ کشمیری کی سوانح دلچسپ و دلنشیں انداز میں لکھی ہے اور دوسری "لالہ وگل "ہے جو پہلی بار سن دوہزار میں شائع ہوئی تھی اور اس میں کل ستر خاکے تھے، انہتر بڑے انسانوں کے اور ایک خاکہ خطۂ کشمیر کا، جہاں سے ان کا آبائی تعلق تھا، اس جنتِ ارضی کی ایسی جمال انگیز صورت گری کی ہے کہ تھوڑی دیر کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں وادیِ کشمیر کی سیر کررہے ہیں ـ
ایک عرصے کے بعد اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بڑی جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظرِ عام پر آیا ہےـ پہلے ایڈیشن کے مقابلے اس کا امتیاز ایک تو اس کے ظاہری سراپا کا حسن و جمال ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں مرتبِ کتاب نے ان سوانحی مضامین کو بھی شامل کر دیا ہے، جو مولانا نے سن دوہزار کے بعد سے دوہزار آٹھ میں اپنی وفات تک اپنے رسالے "محدثِ عصر "کے وفیات کے کالم میں لکھے، ایسے بائیس لوگوں کے خاکے اور ان پر تاثراتی مضامین کا اس ایڈیشن میں اضافہ کردیا گیا ہے، "ضمیمہ "کے تحت بھی سات آٹھ ان سوانحی مضامین کو شامل کیا گیا ہے، جو مختلف تقریبوں سے متعدد رسائل و مجلات میں لکھے گئےـ الغرض یہ کتاب اب کی بار پہلے سے زیادہ جامع اور خوب صورت انداز میں چھپی ہےـ
مولانا کے اسلوبِ تحریر اور اس کتاب کی تعریف میں اتنا کچھ لکھے جانے کے بعد الگ سے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ ہر علم دوست، کتاب بینی کے شائق اور باذوق افراد کے مطالعے کی میز پر اس کتاب کا ہونا کتنا ضروری اور مفید ہوگا! کتاب بیت الحکمت، دیوبند سے شائع ہوئی ہے اور وہاں کے تمام کتب خانوں میں مل جائے گی، دیوبند کے باہرمنگوانا چاہیں، تو بذریعہ فون اس نمبر 8006075484 پر رابطہ کر سکتے ہیں ـ