ترجمہ: نایاب حسن
شام ہوتے ہی شہر تاریکیوں کی آغوش میں چلاگیا، بلڈنگوں اور گھروں میں قمقمے جلنے لگے، لوگ عید کے نئے کپڑوں میں سڑکوں پر گھوم رہے تھے، ان کے چہرے خوشی وفارغ البالی سے تمتما رہے تھے اور ان کے منھ سے مختلف النوع ماکولات و مشروبات کی خوشبوئیں پھوٹ رہی تھیں ـ
میں تن تنہا، بھیڑ اور شورو شغب سے علیحدہ چلتے ہوئے "صاحبِ عید”(حضرت عیسی علیہ السلام)، ان کی زندگی اور تعلیمات کے بارے میں سوچ رہا تھاـ میں اس نابغۂ دہر کے بارے میں سوچ رہا تھا، جو حالتِ فقر میں پیدا ہوا، تنہائی کی زندگی گزاری اور جسے تختۂ دار پر چڑھا دیا گیاـ
میں اس آگ کے شعلے کے بارے میں سوچ رہا تھا، جسے روحِ کلی نے شام (سیریا) کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں روشن کیا اور وہ زمان و مکان سے بے نیاز ہوکر پھیلتی ہی چلی گئی ـ
چلتے چلتے مَیں پبلک پارک میں پہنچا اور لکڑی کی ایک بنچ پر بیٹھ کر ننگے درختوں کی ٹہنیوں کے درمیان سے انسانوں سے بھری سڑکوں کو دیکھنے اور لہوونشاط کے جلو میں چلنے والے لوگوں اور عید منانے والوں کے نغمے سننے لگاـ
کچھ دیر تک مختلف افکار و خیالات کے سمندر میں غوطے کھانے کے بعد اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میری بغل میں ہی ایک شخص بیٹھا ہوا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک عصا ہے، جس سے وہ مٹی پر کچھ مبہم سے نقوش کھینچ رہا ہے ـ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ شخص بھی میری طرح تنہا لگتا ہےـ پھر جب میں نے اسے غور سے دیکھا اور اس کے چہرے کے نقوش پر گہری نظر ڈالی، تو محسوس ہوا کہ بوسیدہ لباس اور پراگندہ بال ہونے کے باوجود اس شخص کے اندر ایک مخصوص قسم کا رعب ووقار ہےـ اسے بھی احساس ہوگیا کہ میں اسے دلچسپی سے دیکھ رہا ہوں، تووہ میری طرف متوجہ ہوا اور گہری، پرسکون آواز میں بولا: شام بخیر ـ میں نے بھی اسے یہ کہتے ہوئے دعا دی: اللہ آپ کی شام کو مسرت بخش بنائےـ
پھر وہ اپنے عصا سے زمین پر نقوش کھینچنے میں مصروف ہو گیاـ مجھے اس کی مترنم آواز اچھی لگی تھی، سو میں نے اسے پھر مخاطب کیا: کیا آپ اس شہر میں اجنبی /مسافر ہیں؟
اس نے جواب دیا: میں اس شہر سمیت دنیا کے ہر شہر میں اجنبی ہوں ـ
میں نے کہا: ایسے(خوشی اور تہوارکے) موقعے پر تو اجنبی انسان بھی لوگوں کے الطاف و عنایات سے لطف اندوز ہوتا اورکچھ دیر کے لیے غربت ومسافرت کی وحشت و تکلیف سے چھٹکارا پا لیتا ہےـ
اس نے جواب دیا: میں عام دنوں کے مقابلے میں خوشی و مسرت کے ان ایام میں اپنے آپ کو زیادہ اجنبی محسوس کرتا ہوں ـ یہ کہتے ہوئے اس نے غبار آلود فضا کی طرف اپنی نگاہ اٹھائی، اس کی نظریں پھیلتی گئیں اور اس کے ہونٹ ہلنے لگے … وہ گویا دور فضاؤں میں اپنے وطن کے نقوش دیکھ رہا تھاـ
میں نے اس سے کہا: ایسے سعید موقعوں پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، مال دار انسان غریبوں کو اپنی داد و دہش میں یاد رکھتا ہے اور طاقت ور کمزوروں کے تئیں شفقت و مرحمت کا مظاہرہ کرتا ہےـ
تو اس نے کہا: ہاں، مگر کسی مال دار کا غریب پر مہربانی کرنا اظہارِ خود پسندی اور طاقت ور کا کمزور پر رحم کرنا اعلانِ تفوق و برتری کے سوا کچھ نہیں ہےـ
میں نے کہا: ہو سکتا ہے آپ کو ایسے کسی شخص سے واسطہ پڑا ہو،مگر ایک فقیر و کمزور انسان کو کیا معلوم کہ ایک مالدار و طاقت ور انسان کے دل میں کیا چل رہا ہے؟ ایک بھوکا مسکین انسان تو خواب میں بس روٹی دیکھتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ وہ روٹی کس کیفیت و احساس کےتحت گوندھی جاتی ہےـ
اس شخص نے جواب دیا: جسے دیا جا رہاہے وہ تو واقعی کچھ نہیں سوچتا، مگر جو دینے والا ہے اسے ضرور سوچنا چاہیے اور بہت زیادہ سوچنا چاہیےـ
مجھے اس کی بات بہت اچھی لگی، پھر میں اس کی عجیب و غریب ہیئت اور بوسیدہ لباس کے بارے میں سوچنے لگاـ چند لمحے کی خاموشی کے بعد میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا: مجھے لگتا ہے آپ ضرورت مند ہیں، سو کیا میں آپ کو ایک دو درہم دے سکتا ہوں؟
اس نے ایک غمگین سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: ہاں مجھے ضرورت تو ہے، مگر مال کی نہیں ـ
میں نےپوچھا: پھر آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟
تو اس نے کہا: مجھے ایک ٹھکانے کی ضرورت ہے … ایک ایسی جگہ کی جس سے میں اپنا سر ٹکا سکوں ـ
میں نے کہا: میں آپ کو دو درہم دیتا ہوں، آپ کسی ہوٹل میں کرایے پر ایک کمرہ لے سکتے ہیں ـ
تو اس نے جواب دیا: میں اس شہر کے ہر ہوٹل میں جا چکا ہوں، مگر مجھے کوئی ٹھکانہ نہیں ملا، ہر دروازے پر دستک دے چکا ہوں، مگر کوئی دوست نہیں ملا اور ہر مطعم کے چکر لگا چکاہوں، مگر مجھے ایک روٹی نہیں ملی ـ
یہ سن کر میں نے اپنے دل میں کہا: عجیب و غریب انسان ہے، کبھی فلسفی کی طرح گفتگو کرتا ہے اور کبھی پاگلوں جیسی باتیں کرتا ہےـ مگر دل ہی دل میں کی جانے والی بات بھی اس نے سن لی اور نظریں اٹھا کر مجھے گھورنے لگا، پھر پہلے سے بلند آواز میں بولا: ہاں میں پاگل ہوں اور مجھ جیسا جو کوئی بھی ہوگا، وہ اپنے آپ کو بے خانماں اور بھوکا ہی محسوس کرے گاـ
میں نے اس سے معافی طلب کرتے ہوئے کہا: میری بدگمانی کو معاف کریں، مجھے پتا نہیں آپ کون ہیں، مجھے آپ کی باتیں عجیب لگی ہیں؛ اس لیے میرے ذہن میں اس قسم کے خیالات آنے لگےـ آپ میری دعوت قبول کریں اور رات ہمارے گھر پر قیام کریں ـ
تو اس نے جواب دیا:میں نے ہزاروں مرتبہ آپ کے دروازے پر دستک دی، مگر آپ نے کھولا ہی نہیں ـ
یہ سن کر مجھے اس کے پاگل پن کا پختہ یقین ہوگیا، میں نے کہا: اچھا اب آپ میرے ساتھ چلیں اور رات میرے یہاں قیام کریں ـ
اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہا: اگر تمھیں معلوم ہو جائے کہ میں کون ہوں تو تم مجھے اپنے گھر جانے کی دعوت نہیں دوگے ـ
تو میں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟
تو اس نے پانی کی سرسراہٹ جیسی آواز میں کہا: میں وہ انقلاب ہوں، جو ہر منجمد و پرسکون چیز کو متحرک کر دیتا ہے، میں وہ طوفان ہوں، جو قوموں کے ذریعے تراشے گئے مختلف النوع اصنام کو اکھاڑ پھینکتا ہے،میں وہ ہوں، جسے اس روئے زمین پر جمود و بے حرکتی کی بجاے تحرک پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ـ
پھر وہ کھڑا ہوا، میں نے دیکھا کہ وہ دراز قامت تھا، اس کا چہرہ چمک رہا تھا، اس نے اپنے بازو پھیلائے تو اس کی ہتھیلیوں پر کِیل کے نشانات تھے، میں یہ دیکھتے ہی”یا مسیحِ ناصری ” کی صدا بلند کرتے ہوئے اس کے سامنے جھک گیاـ
پھر میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ: دنیا میرے نام پر اور مجھ سے منسوب رسوم و روایات کے مطابق تہوار مناتی ہےـ مگر میں تو اس دنیا میں ایک اجنبی ہوں،مشرق و مغرب میں بھٹکتا رہتا ہوں،مگر اقوامِ عالم میں کوئی بھی میری حقیقت نہیں پہچانتاـ لومڑیوں کے بھی ٹھکانے اور پرندوں کے بھی گھونسلے ہوتے ہیں، مگر بہت سے انسان ایسے ہیں، جن کے پاس سر ٹِکانے کو کوئی جگہ نہیں ـ
پھر میں نے اپنا سر اٹھاکر دیکھا تو سامنے اگربتیاں جل رہی تھیں اور دور پار سے رات کی آہٹ سنائی دے رہی تھی ـ
(خلیل جبران نے اس کہانی میں عالمِ تصور میں حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کیا ہے اور اجتماعی خوشی اور تہواروں کے موقعوں پر غریبوں، مسکینوں کی عمومی بے کسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالمی مواخات، مواسات و ہمدردی کا پیغام دیا ہے)