نئی دہلی:اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ وہ فی الحال کسی بھی شخص کے خلاف جلدبازی کیس درج نہیں کرناچاہتی ہے۔ اگرچہ اشتعال انگیز تقریروں کی ویڈیوز کی جانچ کی جارہی ہے لیکن پولیس کی پہلی ترجیح دہلی کے حالات کو معمول پرلانے کی ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ٹال دیا گیا۔بی جے پی کے تین متنازعہ لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اوپر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگانے والی درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کیاہے۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس کے پاس صرف ان رہنماؤں کے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ساری ویڈیوزموجودہیں جن کی پڑتال کی جا رہی ہے، اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان پر کارروائی کی جائے گی. دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ٹھیک نہیں ہوگا. کیونکہ اس وقت دہلی پولیس کو حالات کو معمول پر کی کوشش کر رہی ہے اس کے کام کاج کے اوپر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔وہیں مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں قانون و انتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو پارٹی نہیں بنایاگیاہے،لہٰذامرکزی حکومت کو بھی اس میں پارٹی بنایا جائے تا کہ مرکزی حکومت بھی اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ مرکز کی اس مانگ کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو پارٹی بنا کر نوٹس جاری کیا اور 4 ہفتے میں جواب دینے کوکہا ہے۔سماعت کے دوران ہی دہلی پولیس نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ دہلی تشدد معاملے میں اب تک کل 48 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام ایف آئی آر تشدد کے معاملے میں ہیں۔ پولیس علاقوں کے حالات کو جلد سے جلد معمول پرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔غور طلب ہے کہ کل دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھرنے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز تقریر معاملے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اس بات پر غور کریں اور کورٹ میں آج دہلی پولیس کو وہ رپورٹ دینی تھی لیکن آج اس معاملے کی سماعت جسٹس مرلی دھرکے سامنے نہیں بلکہ چیف جسٹس کے سامنے ہوئی۔ بتا دیں کہ کل اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کرنے والے تھے لیکن کل چیف جسٹس کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے جسٹس مرلی دھر نے معاملے کی سماعت کی تھی۔وہیں آج اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس نے کی اور انہوں نے مرکزی حکومت کو پارٹی بناتے ہوئے نوٹس جاری کرکے 13 اپریل تک جواب دینے کو کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی سماعت 13 اپریل کو ہوگی۔
Protest
دہلی کے خوں ریز فساد کے تعلق سے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں آج پہلی سرخی ہے: "The Real Beast” (اصلی درندے)۔ دوسری ذیلی سرخی ہے: ”بدمعاشوں کی دہلی کے علاقے میں مٹر گشتی، 4کی ہلاکت، پولس کی ملی بھگت“۔ اسی خبر میں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے بیسیوں بلوائی ایک نہتے نوجوان احتجاجی کو گھیر کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی چھڑ سے وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے مار رہے ہیں۔ مظلوم بے سدھ زمین پر پڑا تھا اور اس کا کپڑا خون آلود ہے۔ اسی روز صبح کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ سے دہلی ہوائی اڈہ پر پہنچے۔ عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کے ’سابر متی آشرم‘ دیکھنے گئے۔ پھر ٹرمپ اور مودی نے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ نے دھواں دھار تقریر کی۔ دونوں کی زبان پر ہندستان کی مذہبی آزادی، کثرت میں وحدت جیسی باتیں رواں تھیں۔ جب ٹرمپ تقریر کر رہے تھے تو دہلی فساد کی آگ سے جل رہا تھا۔ دہلی کے متعدد علاقے اور خاص طور پر شمال مشرقی حصے کے مسلم فرقے پر ہتھیار بند غنڈے پولس کے ساتھ حملے کر رہے تھے۔ دکانیں، مارکیٹ اور مسجدوں کو جلا رہے تھے۔ اس فساد کی تیاری اتوار کے دن ہی ہوگئی تھی۔ دہلی کے شمالی اور مشرقی حصے جعفر آباد میں بی جے پی کا بدنام زمانہ لیڈر کپل مشرا نے جلوس نکالا جہاں عورتیں، بچے CAA کے خلاف پُرامن دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کپل مشرا نے پولس کو اَلٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین روز میں دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کو ہٹایا نہیں گیا تو وہ خود طاقت کے زورپر ہٹادیں گے۔ الٹی میٹم میں تین روز کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کے بعد ہی وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ٹرمپ احمد آباد میں تھے اور جعفر آباد میں کپل مشرا کے غنڈے پولس کے ساتھ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور مقامی لوگوں پر اینٹ پتھر سے حملے کر رہے تھے۔ ایک کلپ وائرل کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کے دن شام کے وقت پتھر، اینٹ کے ٹکڑے لاریوں پر لادے جارہے ہیں۔ پولس کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیان دیا ہے کہ ابھی اس ویڈیو کی تصدیق ہورہی ہے۔
سوموار کے دن دہلی کے جعفر آباد سے فساد شروع ہوا، جہاں مسلمانوں کی بہت معمولی آبادی ہے اور موج پور میں بھی فساد برپا ہوا جہاں پڑوس میں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ مقامی باشندوں نے ایک اخبار کے نامہ نگار کو بتایا کہ پولس کی موجودگی میں دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے۔ پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی رہی۔ روئٹرس نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جو لوگ شہریت ترمیمی قانو کی حمایت کر رہے تھے پولس ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ بھیڑ پولس کی موجودگی میں مسلمان کے اسٹور کو تباہ و برباد کر رہی تھی اور ایک گاڑی میں آگ لگا رہی تھی۔ پولس نے آواز دے کر شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کو پتھر پھینکنے کیلئے اکسایا۔ کئی نوجوان لڑکے موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر آگ لگا رہے تھے۔ روئٹرس کا کہنا ہے کہ ان میں ایک امیت نام کے شخص نے کہا کہ ہم لوگ CAA کے حامی ہیں۔ اگر یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور جگہ تلاش کرلیں۔ روئٹرس نے بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے فسادی نوجوان زدوکوب کر رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ بلوائی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’سی اے اے‘ کے مخالفین کی مذمت کر رہے تھے۔ سوموار کے دن ’سی اے اے‘ کے حامیوں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا تھا۔ بہت سے گھروں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے تھے۔ اس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ’سی اے اے‘ کے حامیوں کا گھر ہے۔
جعفر آباد کے ایک اسکول کے معلم امین سبحان نے ’ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”نوجوانوں کا گروپ ہندو بھائیوں کے گھروں پر زعفرانی جھنڈے کیوں لگا رہے تھے؟ یہ فساد منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے متنازعہ لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی“۔ مشتعل بلوائیوں نے اتوار کے دن دھرنے اور احتجاج پر پرامن طریقے سے بیٹھے مرد اور خواتین کو راستے سے زبردستی اٹھا رہے تھے۔ ان سب کو مرکزی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ سلیم پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کملیش کمار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم لوگ دہشت گردی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی سزا دے رہی ہے۔ کملیش کے ایک دوست فیضل نے جن کی ایک لاؤنڈری کی دکان ہے کہاکہ پولس اگر حرکت میں آگئی ہوتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا اور جو لوگ فساد میں مارے گئے ہیں وہ بچ جاتے۔ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ فیضل نے پوچھا۔ سماجی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ”ہریانہ کے ایک علاقہ لونی سے بجرنگ دل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس فسادمیں حصہ لیا اور بلوائیوں سے مل کر دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ پولس تماشائی بنی رہی اور ان علاقوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں پولس بلوائیوں کی مدد بھی کرتی رہی“۔ رادھے شیام نے کہا۔ جعفر آباد کے قریب کا علاقہ نور الٰہی کے مسلمانوں کے بارے میں اکرام علی نے کہاکہ ”اب ڈر اور خوف سے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں“۔
دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے شر انگیز اور فساد انگیز بیان بازی کرتے رہے۔ کپل مشرا نے جو اس فساد کے خاص مجرم ہیں انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ شاہین باغ کی طرف سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی نہ تو الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اورنہ پولس کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔ کپل مشرا اپنی جیت درج کرانے کیلئے مہم کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے مگر فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کا نام آیا ہے کہ اتوار کے دن ہی پولس کے بغلگیر ہوکر سی اے اے کے مخالفین کو الٹی میٹم دے رہے تھے کہ دھرنے پر جو خواتین اورمرد بیٹھے ہوئے ہیں ان سے تین دنوں کے اندر جگہ خالی کرادی جائے ورنہ وہ خود خالی کرادیں گے۔ پولس ان کی باتوں کو ہنس ہنس کر ٹال رہی تھی۔ پولس کے اندر خفیہ کارندے ہوتے ہیں جن کو ان حالات میں خاص طور پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لیکن جب پولس خود فسادیوں سے ملی ہو تو پھر فسادیوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ فساد کے دوران پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کو اینٹ پتھر پھینکنے کیلئے اکساتی رہی۔ جب خود پولس بلوائی بن جائے یا بلوائیوں کا ساتھ دے تو فسادی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
دہلی کی پولس جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوئی ہے زعفرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سانحہ ہو۔ شاہین باغ کے قریب کا معاملہ ہو، ہر جگہ پولس کی جانبداری اور طرفداری دیکھنے میں آتی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ جامعہ ملیہ کے طالبعلموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ دہلی ہائی کورٹ تاریخ پر تاریخ دینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی کے حالیہ فساد کے سلسلے میں آج ہی (25فروری) سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔ مہلوکین کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سپریم کورٹ کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا یا حق و انصاف مظلومین کو ملے گا۔اس بار پہلے سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ چار افراد مارے بھی گئے ہیں۔ ڈر اور خوف سے اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں۔ پولس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ایسی صورت میں پولس سے حق و انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عدالت کو فساد کی تحقیق کا بلا تاخیر آرڈر دینا چاہئے تاکہ اصلی فسادیوں اور درندوں کے خلاف جلد کارروائی ہو اور دہلی پولس کے سیاہ کارناموں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ بھی فاش ہو۔ امید ہے کہ اس بار عدالت انصاف مانگنے والوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی:شہریت ترمیم قانون کے خلاف مہاراشٹر کے بیڑ میں ہوئے مظاہرے پر بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے کہا کہ پرامن طریقے سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے لوگ دھوکے بازیا غدار نہیں ہیں۔بتا دیں کہ 21 جنوری کو بیڑ ضلع کے ماجلگاؤں میں کچھ مظاہرین غیر معینہ مدت کے لئے شہریت ترمیم قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھنا چاہتے تھے جس کی اجازت ضلع پولیس نے نہیں دی اور بعد میں ضلع مجسٹریٹ نے بھی اس مظاہرے کی اجازت نہیں دی۔جس کے بعد افتخا رشیخ اور دیگر مظاہرین ہائی کورٹ گئے۔ہائی کورٹ نے مقامی پولیس اور مجسٹریٹ کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا اور ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دھرنے کی اجازت دے دی۔اس سماعت کے دوران کورٹ نے کہا کہ ایسے مظاہرین ایک قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جس کے لئے انہیں اینٹی نیشنل نہیں کہہ سکتے۔مظاہرین حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ان کی آواز دبائی جائے۔ 2 بنچ کے ججوں نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ قانون کسی کے خلاف ہے تو اس قانون کے خلاف پرامن آواز اٹھانا یہ شہریوں کا حق ہے۔اجازت دیتے ہوئے مظاہرین نے کورٹ میں تحریری طور پر کہا ہے کہ احتجاج کے دوران کسی ملک، مذہب یا اپنے ملک کے خلاف نعرے بازی نہیں ہوگی۔کورٹ نے کہا کہ برطانوی راج کے دوران ہمارے باپ دادا آزادی کے لئے لڑے۔انسانی حقوق کے لئے لڑے اسی مقصد سے ہمارا آئین بنا۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے مگرصرف اس بنیاد پر کوئی بھی مدھرنا دبایا نہیں جا سکتا ہے۔
موجودہ سرکار اور حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارندے ساورکر اور گوڈسے کے پجاری اور عقیدت مند ہیں؛ لیکن عوام سے داد لینے کیلئے یہی لوگ ڈاکٹر امبیڈکر اورمہاتما گاندھی سے بھی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ حالانکہ گاندھی اگر مقتول ہیں تو گوڈسے اور ساورکر ان کے قاتل ہیں۔ امبیڈکر ذات پات کے خلاف ہیں او ر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور دستور ساز ہیں۔ ساورکر یا ان کے ماننے والے امبیڈکر کے اصولوں اور ان کے تیار کردہ دستور ہند کے مخالف ہیں،ذات پات کے حامی اور پرچارک ہیں۔ مودی-شاہ یا ان کے پیروکار گاندھی اور امبیڈکر کا نام محض اس لئے لیتے ہیں کہ عوام کو جھانسے میں ڈال سکیں، گمراہ کرسکیں لیکن اب ان کے چہرے سے نقاب اٹھ رہا ہے،خواہ کتنا ہی نقاب پوشی اور پردہ پوشی کامظاہرہ کریں۔ گزشتہ جمعہ کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کویند نے حکومت کی تحریر کردہ تقریر کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر شرکا کو سنایا، جس میں لکھا ہوا تھاکہ ”آج کے ماحول میں گاندھی جی کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کی مودی حکومت کوشش کر رہی ہے، انھوں نے کہاکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے تقسیم ہندکے سنگین ماحول میں کہا تھا کہ ہندو اور سکھ جو پاکستان میں نہیں رہ سکتے،اگر وہ ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کریں،تو حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ان کے بسانے اور ان کی راحت رسانی کا انتظام کرے“۔ اس پر حکمراں جماعت کے ایم پی بشمول شاہ اور مودی میزوں کو تھپتھپانے لگے،جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ صدر جمہوریہ نے جو کچھ پڑھا وہ در اصل گاندھی جی کی تقریر کا پورا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حصے سے گاندھی جی کی تقریر یا باتوں کا مقصد یا مدعا پورا ہوتا ہے۔
10جولائی 1947ء کو گاندھی جی نے اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”اگر سندھ یا دوسرے علاقوں سے چھوڑ کر لوگ ہندستان آئیں، تو ان کو ہم باہر نہیں کرسکتے، اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہم اپنے آپ کو کیسے ہندستانی کہہ سکتے ہیں اور ہم کس منہ سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ نیتا جی نے کس لئے لڑائی لڑی تھی۔ ہم سب ہندستانی ہیں، خواہ دہلی میں رہتے ہوں یا گجرات میں، وہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان لوگوں کا خیر مقدم کریں گے کہ ہندستان ان کا ملک ہے جیسے پاکستان، اگر نیشنلسٹ مسلمان پاکستان چھوڑ کر ہندستان آئیں گے،تو ہم ان کا بھی سواگت کریں گے، ہم سب ہندستان میں برابر کے شہری ہیں“۔ گاندھی جی نے 25جولائی 1947ء کو اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”یہاں مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستان اب ہندوؤں کا ملک ہے تو غلط ہے، ہندستان ان تمام لوگوں کا ہے، جو ہندستان میں رہتے ہیں“۔ مہاتما گاندھی نے 9ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا تھا کہ ”یہ ہمارے لئے باعث ندامت ہے کہ ہندستان میں مسلمان افسردہ خاطر ہیں“۔ 25اگست 1947ء کو ایک دوسری پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”تمام اقلیتیں ہندستان میں اسی درجے کی شہری ہیں، جس درجے کے شہری اکثریت کے لوگ ہیں“۔گاندھی جی نے 26ستمبر 1947ء کو ایک پریئر میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر ہم تمام مسلمانوں کو وطن دشمن سمجھیں گے،تو پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو وطن دشمن سمجھا جائے گا، ہم لوگوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے، ہندو اور سکھ اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو ہندستان آسکتے ہیں۔ ان کیلئے ہماری حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ ان کو ہم روزگار سے لگائیں اور ان کی راحت رسانی میں مدد کریں، لیکن اگر وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کیلئے نہیں کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور میں اسے ہر گز پسند نہیں کروں گا“۔
گاندھی جی کی تقریروں اور کارگزاریوں پر مشتمل جو مجموعہ ہے، اس میں مذکورہ باتیں درج ہیں۔ حکومت نے گمراہ کرنے کیلئے گاندھی جی کی نامکمل باتیں پیش کی ہیں۔ اگر گاندھی جی کی مکمل باتیں پیش کرتے، تو اس سے ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا،جس سے وہ ہندستانیوں کو گمراہ کرسکتے تھے، لیکن ان کی بیوقوفی اور نادانی کی حد ہے کہ ایک چیز جو اظہر من الشمس ہے،آخر اسے وہ کیسے چھپا سکتے ہیں؟ گاندھی جی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ گاندھی جی کا قصہ تمام اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ مودی،شاہ اور موہن بھاگوت کے خوابوں کے ہندستان کے خلاف تھے۔ گاندھی جی ہندستان میں ہندو مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے، ان کے پرکھوں نے گاندھی جی کو نہ صرف مسلمانوں کا حامی قرار دیا؛ بلکہ ان کو محمد گاندھی کہہ کر پکارتے تھے، گاندھی جی کو پاکستان کا حامی قرار دیتے تھے، آج تک ان کی کتابوں میں درج ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار گاندھی ہیں، آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جہاں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے،وہیں گاندھی دشمنی کا پاٹھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے نوے فیصد لوگ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، گاندھی دشمنی ان کی رگ رگ میں پیوستہ ہے۔
اس وقت جو سارے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں،جن سے حب الوطنی کا اعلان اور اظہار ہورہا ہے، ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھی مظاہرہ ہورہا ہے، اس سے ان کی دیش بھکتی یا وطن پرستی کی اجارہ داری نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم ہورہی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرے یا لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے یا ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ان کی دشمنی اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جو ان کی وطن پرستی کا ناٹک تھا اس کا پردہ چاک ہوتا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شاہین باغ سے ان کی دشمنی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہندو مسلم انتشار میں رکاوٹ ہورہی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں الیکشن کا موسم ہے۔ حسب عادت اور حسب معمول بی جے پی ہر الیکشن کو پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ یا جامعہ ملیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؛اس لئے بھی حکومت پریشان ہے، مودی، شاہ اور ان کے لوگ شاہین باغ کو منی پاکستان کہہ رہے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات تراش رہے ہیں۔ کبھی سدھیر اور چورسیا (گودی میڈیا کے لوگ) کو بھیج کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کبھی نوجوانوں کے ہاتھ میں پستول دے کر بھیج رہے ہیں؛ تاکہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوں، مگر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی سے لے کر کپل مشرا تک دنگے اور فساد پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ سال 15دسمبر کو نریندر مودی نے کہا تھا کہ مظاہرین کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے اور ان کے دست راست امیت شاہ نے دہلی میں کہاکہ 8 فروری کو اس طرح ووٹ مشین کا بٹن دبایا جائے کہ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کو کرنٹ لگے۔ 27جنوری کو انوراگ ٹھاکر نے نعرے بازی کی تھی کہ ”دیش غداروں کو“ تو بھیڑ کا جواب تھا”گولی مارو سالوں کو“۔ 28جنوری کو پرویش سنگھ ورما نے شاہین باغ کے بارے میں کہاکہ ”یہ لوگ لاکھوں کی شکل میں جمع ہوں گے اور ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہنوں، عورتوں کا بلاتکار کریں گے“۔ یہ سب بیانات یا نعرے بازیاں کیا باپو نے سکھائی ہیں؟ یہ سب باتیں تو صاف صاف ساورکر اور گوڈسے کے زبان اور بیان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ ’سی اے اے‘ سے گاندھی جی کی عزت افزائی ہورہی ہے یا ان کے خوابوں کی تعبیر کی جارہی ہے، گاندھی جی کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہے اور اسی طرح کا سفید جھوٹ ہے، جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ’این آر سی‘ کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا تھا۔ پورے ہندستان میں کہیں حراست کیمپ بھی نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھی حکومت نے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا۔ ان کے جھوٹ کی قلعی اسی وقت کھل گئی، جب اپوزیشن کے لیڈروں نے اعتراض جتایا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے اور ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ایک ایک جگہ کئی مہینے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے، جبکہ دنیا بھر میں اس کالے قانون کی وجہ سے ملک کی رسوائی ہورہی ہے۔ مودی سرکار یا ان کی پارٹی جتنا بھی چاہے کہ گاندھی اور امبیڈکر سے اپنے آپ کو جوڑے؛ لیکن مشرق اور مغرب کو جوڑنا، کالے اور سفید کو ایک کہنا، حق اورباطل کو ایک بتانا ہنسی، کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زندہ گوڈسے جو اب گوپال کے روپ میں نظر آیا اس کے فیس بک وال میں لکھا ہوا ہے کہ شاہین باغ کا کھیل ختم۔ شاہین باغ کا کھیل تو ختم نہیں ہوا لیکن اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ ایک دن آئے گا مودی سرکار کی گاندھی بھکتی کا دن بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ کرنٹ شاہین باغ کی باعزت اور قابل احترام خواتین کو تو نہیں لگے گا لیکن شاہ اوران کے صاحب پر بجلی گرسکتی ہے،کرنٹ لگ سکتا ہے؛کیونکہ جو لوگ انسانیت اور انصاف کے دشمن ہوتے ہیں،وہ زیادہ دنوں تک لوگوں کو نہ گمراہ کرسکتے ہیں اور نہ دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی ا ے اے کیخلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد
نئی دہلی: اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعےۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲/جنوری ۰۲۰۲ء کو جمعےۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی۔جمعےۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعےۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد، بجنور میں محمد سلیمان، محمد انس (نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعےۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery))نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعےۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں ریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔
دیوبند (رضوان سلمانی)
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کے لئے اب شاہین باغ ایک مثال بن گیا ہے اور شاہین باغ کی طرز پر ملک کے متعددمقامات اور شہروں میں خواتین اس قانون کی مخالفت میں مظاہرے کررہی ہیں، شاہین باغ کی تقلید کرتے ہوئے انقلابی سرزمین دیوبند کی خواتین بھی بھر پور جوش و خروش کے ساتھ اس مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ دیر شام تک جاری رہا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا ۔ قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آج دوپہر بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہی ۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور عنبر نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا ، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لئے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔انہو ںنے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔ فرحانہ ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے ، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کررہی ہو۔ انہو ںنے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے ۔ انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیرملکی ہوگئے ، جب کہ صدیوں سے ان کے آبائو اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں ۔ انہیں ہندوستانی ڈٹینشن سینٹر میں جاکر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا ۔ انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم ہندوستانیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر ہندوستانی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی عورتیں بھی آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے ،جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جس کے خلاف ہم آخرتک اپنی آواز بلند کریںگے۔عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آرسی کے خلاف بنے بینر وں وپوسٹر وں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا، خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا،ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کارروائی پر سخت غصہ کااظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طورپر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصور وںکو رہا کرنے کامطالبہ کیا،خاص بات یہ ہے اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ مظاہرہ کے دوران بڑ ی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔
2016 میں جاٹ تحریک نے زور پکڑا،اس نقصان کا اندازہ ان اخباروں اور صحافیوں کو نہیں ہے جو شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شاہین باغ والوں کے پاس ملک بچانے ، آئین و دستور کی حفاظت اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی نہیں،2016 میں ملک کا ایک بڑا حصہ ریزرویشن کی ‘آگ’ میں جل رہا تھا ۔ جاٹ ریزرویشن کے مطالبہ کے دوران پیش آنے والے شدید تشدد اور لوٹ مار کے واقعات تشویشناک تھے۔ کچھ اس تحریک کی حمایت میں تھے، کچھ مخالفت میں اور مودی امت شاہ کی حکومت تماشہ دیکھنے اور جاٹوں کو خوش رکھنے میں مصروف ۔ اس تحریک کے مضر اثرات پر ایک نظر ڈالیں۔
5 سے 7 ریلوے اسٹیشن تباہ! میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے واقعات میں 5-7 اسٹیشنوں کو نمایاں نقصان پہنچا،جس میں تقریبا 200 کروڑ کا نقصان ہوا،اندازہ لگائیے ، دوسوکروڑ کا نقصان!
800 کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئیں، اس سے ریلوے کو ہونے والے محصولات کے نقصان کا تصور کرسکتے ہیں۔
بہت سے بس اسٹینڈ اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کردیا گیاـ
بہت ساری سڑکیں کھوددی گئیں، یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا۔ ریاست کا پورے ملک سے رابطہ ٹوٹ گیا،نودن تک یہ تحریک چلی،زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیا ہو جاتاـ
1000 سے زائد گاڑیاں اور 500 سے زیادہ دکانیں نذر آتش کی گئیں ـ (آج تک ، کیشو کمار کی رپورٹ دیکھئے، 22فروری 2016)انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے، ٹرانسپورٹ اور مالی خدمات سمیت 18 ہزار کروڑ روپے نقصان ہوا۔صنعتی اور زرعی کاروباری سرگرمیوں ، بجلی ، اور کھانے پینے کی اشیاکو پہنچنے والے نقصان سے 12 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا۔ نیز سڑک ، ریستوراں ، بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو نقصان پہنچنے سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے مجموعی طور پر 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، یعنی ملک پر 34000کروڑ کا بوجھ پڑا،
2014میں مودی کی حکومت بنی، اور 2016میں جاٹوں کی تحریک نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک ان کی ذاتی تحریک اور ریزرویشن کو لے کر تھی اور شاہین باغ تحریک پورے ملک کے لئے ہے، اس تحریک میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل ہیں ـ
تین طلاق کی پول تو اسی وقت کھل گئی تھی جب مودی حکومت نے مسلم عورتوں سے ہمدردی دکھاتے ہوئے انتہا پسندی کی حد کر دی تھی ـ آئین ، ملک ، دلت اور مسلم مخالف حکومت کو وہی مہرہ چلنا پسند تھا ، جو تاناشاہی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرے، شاہین باغ کے پر امن احتجاج سے پریشان امت شاہ نے دلی انتخاب کو لے کر جو بیان دیا، اس کی شدت اور انتقام میں ہر حد سے گزر جانے والے لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے،یہ بیان ہے کہ بٹن اتنے غصّے میں دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہچے – انتخاب کا بٹن غصّے میں کون دباتا ہے؟ کیا شاہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹ دینے غصّے میں جاؤ اور شاہین باغ کی عورتوں کو کرنٹ لگا دو؟ کرنٹ لگنے سے جان بھی جاتی ہے،اگر غور کیا جائے تو یہ بیان شاہین باغ کی مخالفت میں بھی ہے اور عورتوں کی مخالفت میں بھی، ان میں ان عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں، تین طلاق کا بل پاس کرتے ہوئے ان عورتوں کے لئے زبان بدل گئی تھی، اب ان مسلم عورتوں کے ساتھ ہر قوم کی عورتیں اور بیٹیاں بھی احتجاج کا حصّہ بن چکی ہیں،کرنٹ کہاں کہاں دوڑے گا ؟ اب تو پورا ہندوستان شاہین باغ ہےـ
کپل مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھے ، مودی کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے تھے، اب بی جے پی میں ہیں تو دلی انتخاب کو ہندوستان اور پاکستان کی جنگ سمجھ رہے ہیں، اس نادر خیال کے پیچھے بھی شاہین باغ ہے،ابھی حال میں منیش سسودیا نے آجتک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اقرار کیا کہ شاہین باغ کے ساتھ بھی ہیں، جے این یو کے ساتھ بھی ـ اتر پردیش احتجاج میں بھی ہر قوم کے لوگ شامل ہیں لیکن یوگی کی گندی زبان پر صرف مسلمانوں کے نام ہیں، کوڑے صرف مسلمانوں پر برس رہے ہیں،
کیا احتجاج شروع ہونے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا آندولن شروع ہوگا اور یہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا آندولن مسلم عورتوں کی قیادت میں شروع ہوگا ؟ اور جب یہ ملک گیر تحریک شروع ہوئی،اس وقت بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملک کا ہر چوراہا ، ہر گلی شاہین باغ میں تبدیل ہو جائے گی، فسطائی طاقتوں کو روند ڈالنے والی آواز اس قدر بلند ہوگی کہ آسمان میں شگاف پڑ جائے گا، بابری مسجد شہادت سے تین طلاق اور ہجومی تشدد سے ہلاکت کی نئی نئی کہانیوں تک مسلمان خاموش رہا لیکن جب آئین ، جمہوریت اور ملک کے تحفظ کا خیال آیا تو گھروں میں رہنے والی عورتوں نے بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مورچہ سنبھال لیا، ٹھٹھرتی سردی میں ماؤں کے ساتھ ننھے بچے بھی ، بزرگ عورتیں بھی ساری ساری رات احتجاج میں مصروف رہیں، نہ انہیں گولیوں کا ڈر ستا رہا تھا، نہ انہیں ہلاکت کی پرواتھی ، مائیں ، بہنیں بیٹیاں اور ہمارے نوجوان سب نے سر سے کفن باندھ لیا، کیا حکومت کے بیانات یہ واضح نہیں کرتے کہ حکومت احتجاج سے خوف زدہ ہے؟ ممکن ہے حکومت احتجاج کو کچلنے میں کامیاب ہوجائے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ جمہور پسند ہر شہری نے اپنے سینے پر شاہین باغ کا نام لکھ لیا ہے، اب اس نام کو مٹانا آسان نہیں ـ
ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے راستہ کھولنے پر رضامندی،گورنرنے مظاہرین کے مطالبات مرکزی حکومت کوپہنچانے کی یقین دہانی کروائی
نئی دہلی: شاہین باغ مظاہرہ کے سلسلے میں آنے والی متعدد خبروں کے بیچ آج شاہین باغ مظاہرین کے نمایندہ وفد نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں تومظاہرے کی وجہ سے راستہ بند ہونے کے معاملے کے حل کے لیے کوئی بھی مناسب پیش رفت کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے ایل جی سے کہاکہ ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے ہم راستہ کھولنے کوتیارہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون پیش کریں گے۔ایل جی نے مظاہرین کے وفد کی باتیں سنیں اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے مطالبات وزارتِ داخلہ کے سامنے پیش کریں گے۔قابل ذکرہے کہ 20جنوری کو دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین سے اپیل کی تھی کہ چوں کہ اسکولوں میں امتحانات قریب ہیں اور اس مظاہرے کی وجہ سے کئی ہفتوں سے بچوں کو پریشانی ہورہی ہے اس لیے مظاہرین اسکول کی بسوں کے گزرنے کے لیے راستہ کھول دیں۔دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین اور ایل جی کی ملاقات کو خوش آیند قراردیاہے اورامید جتائی ہے کہ مسئلے کا بہتر حل نکلے گا۔
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ
شہریت ترمیمی بل کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباکا زور داراحتجاج،پولیس کا لاٹھی چارج،درجن بھر سے زائد طلبا وطالبات زخمی

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس آنسو گیس کے گولے داغتے ہوئے
نئی دہلی:نئی شہریت ترمیمی بل کے خلاف پورے ملک میں زبردست احتجاج جاری ہے۔اب یہ احتجاج شمال مشرقی ریاستوں سے دہلی اورمختلف شہروں تک پہنچ گیاہے۔آج یہاں بعد نماز جمعہ ملک کی مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبااور ٹیچراسوسی ایشن کی جانب سے جامعہ سے پارلیمنٹ تک احتجاجی مارچ کا اعلان کیاگیا تھاچنانچہ بعد نماز جمعہ طلباو عوام کا ایک جم غفیر احتجاج کے لیے نکلا مگر پولیس کی طرف سے انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس نے پرامن طریقے سے احتجاج کرنے والے طلباپر لاٹھی چارج کیے،ان پر آنسوگیس چھوڑا گیا اور انھیں راستے میں ہی روک دیاگیا۔ذرائع کے مطابق پولیس کے لاٹھی چارج میں درجن بھر سے زائد طلباو طالبات کو شدید چوٹیں آئی ہیں جنہیں فوری طورپر مقامی ہولی فیملی ہسپتال میں داخل کیاگیاہے۔جبکہ کئی طلباکو حراست میں بھی لیاگیاہے۔اُدھر علی گڑھ میں بھی اے ایم طلباکی جانب سے زبردست احتجاجی مارچ نکالاگیاتھاجسے روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی،اطلاعات کے مطابق اس احتجاج میں کم و بیش دس ہزار طلباوطالبات نے شرکت کی۔مقامی ضلع انتظامیہ کی جانب سے علی گڑھ میں انٹرنیٹ کی سروس فوری طورپرمعطل کردی گئی ہے اور بہت سے طلباکے خلاف ایف آئی آربھی درج کیاگیاہے۔