دنیاکی نگاہیں بھارت کے یکساں سلوک اورمذہبی تنوع کے احترام پرٹکی ہوئی ہیں
واشنگٹن:امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگلے ہفتے ہونے والے اپنے بھارت دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے مذہبی آزادی کامسئلہ اٹھائیں گے۔وہائٹ ہاؤس نے یہ معلومات دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، بھارت کی جمہوری روایات اوراداروں کا بہت احترام کرتا ہے اور ان اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔ٹرمپ کے پہلے بھارت دورے کے پیش نظر دونوں جماعتوں امریکی وفاقی ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم نے ایک شیٹ شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ شہریت قانون بھارت میں مذہبی آزادی میں بڑی کمی کوظاہرکرتاہے۔ایک سینئرافسر نے صحافیوں سے کہاہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے عوامی اور یقینی طور پر ذاتی، دونوں تقریروں میں ہماری مشترکہ جمہوری روایت اور مذہبی آزادی کے بارے میں بات کریں گے۔وہ ان مسائل کو اٹھائیں گے، خاص طور سے مذہبی آزادی کا مسئلہ، جواس انتظامیہ کے لیے انتہائی اہم ہے۔افسر سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا شہریت قانون یا قومی شہری رجسٹرپرٹرمپ کی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ٹرمپ اور امریکہ کی خاتون اول میلانیاٹرمپ کا24 اور 25 فروری کو احمد آباد، آگرہ اور نئی دہلی جانے کا پروگرام ہے۔رازداری کی شرط پر افسر نے بتایاہے کہ آفاقی اقدار، قانون کے راج کو برقرار رکھنے کامشترکہ عزم ہے۔ہم بھارت کی جمہوری روایات اور اداروں کا بڑا احترام کرتے ہیں اور ہم بھارت کوان روایات کو برقرار رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔سی اے اے اوراین آرسی کے سوال پر سینئر انتظامی اہلکارنے کہاہے کہ ہم اپنی طرف سے اٹھائے کچھ مسائل کولے کر فکر مندہیں۔مجھے لگتا ہے کہ صدر، وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقات میں ان مسائل کو اٹھائیں گے۔دنیاجمہوری روایات، مذہبی اقلیتوں کا احترام برقرار رکھنے کے لیے بھارت کی جانب دیکھ رہی ہے۔افسرنے کہاہے کہ ظاہر طور پرہندوستانی آئین میں مذہبی آزادی، مذہبی اقلیتوں کا احترام اور تمام مذاہب پر ایک جیسی رویے کی بات ہے۔یہ صدرکے لیے اہم ہے اورمجھے یقین ہے کہ اس پربات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بھارت مذہبی اور لسانی طور پر امیر اور ثقافتی تنوع والاملک ہے۔انہوں نے کہاہے کہ یہاں تک کہ وہ دنیا کے چار بڑے مذاہب کامرکزہے۔سینئر انتظامی اہلکار نے کہاہے کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال الیکشن جیتنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اس بارے میں بات کی تھی کہ وہ ہندوستان کے مذہبی اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دیں گے۔اوریقینی طور پر دنیا کی نگاہیں قانون کے راج کے تحت مذہبی آزادی برقراررکھنے اور سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنے کے لیے بھارت پرٹکی ہے۔
nrc
منصورقاسمی (ریاض، سعودی عرب)
شہریت ترمیمی بل وزیر داخلہ امیت شاہ نے بالآخرگرما گرم بحث و مباحثہ کے بعد لوک سبھااور راجیہ سبھا میں مخالفت کے باوجود منظور کروا ہی لیا، صدر جمہوریہ ہند نے بھی اپنے دستخط اورمہر سے شہریت ترمیمی بل کوشہریت ترمیمی قانون بنا دیا۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں:پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے ہوئے مظلوم و مقہور ہندو، بودھ، سکھ، عیسائی،جین اور پارسی کو سی اے اے کے ذریعہ شہریت دی جا ئے گی، مسلمانوں کو اس نئے قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے؛حالانکہ آئین ہند مذہب، ذات، جنس، رنگ، پیشہ اور قبیلہ کی بنیاد پر تفریق نہیں اجازت نہیں دیتا ہے۔آئین مخالف یہ کالا قانون بنتے ہی پورے ملک میں ابال آ گیا، بڑے اور چھوٹے شہروں میں احتجاجات و مظاہرے شروع ہو گئے، دہلی کے شاہین باغ نے ہر جگہ ایک شاہین باغ کو جنم دیا،ہر طرف بے چینیاں، ہر دھرم کے لوگ پریشان چنانچہ مرد تو کجا وہ عورتیں بھی جو کبھی گھر سے باہرنہیں نکلتی تھیں، آئین وملک کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر اتر آئیں،مگر وزیر اعظم نہ کسی سے بات کرنے کو تیار ہیں اور نہ سننے کو، وزیر داخلہ آمرانہ لہجے میں کہتے ہیں: سی اے اے سے ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے،، اب کرونولوجی سمجھا رہے ہیں کہ سی اے اے شہریت دینے کے لئے ہے، لینے کے لئے نہیں؛جبکہ خود ہی ایوان بالا اور مغربی بنگال میں کہا تھا: کرونولوجی سمجھ لیجئے: پہلے سی اے اے آئے گا پھر این آر سی آئے گا،،یعنی آپ کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی ورنہ گھس پیٹھیے سمجھے جاؤگے۔ظاہر ہے جب شہریت کا، تشخص کا اوروقار کا سوال آجائے تو پورا ہندوستان کااس قانون کے خلاف کھڑا ہونا لازمی تھا، سو ہوا؛کیونکہ لوگوں نے دیکھا ایک مسلم آفیسر اجمل حق جس نے تیس سال فوج میں اپنی خدمت انجام دی،ان کو بھی شہریت ثابت کرنے کا شرمناک فرمان جاری کردیا گیا۔ ۸۸۹۱ میں راجیہ سبھا کی رکن، ۲۷۹۱، ۸۷۹۱، ۳۸۹۱، ۱۹۹۱ میں ریاست آسام کی رکن اسمبلی اور آسام کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمورکا نام بھی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن سے غائب ہے،۔آسام ہی کی زبیدہ بیگم نے پین کارڈ، بینک ریکارڈ،آدھار کارڈ، الیکشن کارڈ،گاؤں کے پردھان کی سرٹیفیکٹ، اپنے والد زبید علی کی ۶۶۹۱،۰۷۹۱،۱۷۹۱ کے ووٹر لسٹ میں جڑے دستاویز سمیت پندرہ دستاویزات پیش کرنے کے بعد بھی حکومت اور کورٹ نے ان کو ہندوستانی شہری ماننے سے انکار کردیا۔ ایک حق پرست اور سچادیش بھکت جانتا ہے کہ سی اے اے مودی اور شاہ نے فقط اپنی سیاسی مفادات اور، ایک خاص طبقہ کو ٹارگٹ کرنے کے لئے لایا ہے؛لیکن اس کی زد میں تمام طبقات کے افراد آئیں گے۔ یہ قانون تارکین وطن کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اہل وطن کے لئے مسئلہ ہے،اور یہی جان کر تمام طبقات کے لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ اینٹونیوگٹیرس نے بھی کہا ہے: شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے کئی لاکھ (میرا ماننا ہے کئی کروڑ) لوگوں کی شہریت پر خطرہ ہے اور ان میں سے زیادہ مسلم ہیں، اس پر مجھے فکر لاحق ہے،،۔اقوام متحدہ کے ہی انسانی حقوق کے ہائی کمیشن نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے: بھارتی سپریم کورٹ اس نئے قانون کا باریک بینی کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق بھارتی ذمہ داریوں کا تقابل کرے،، ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ اس غیر قانونی قانون کو فورا سے پیشتر منسوخ کر دیتی مگر وہ چوں و چرا سے کام لے رہی ہے، گزشتہ چند فیصلوں سے اس کا انصاف بھی مشکوک ہوا ہے،سپریم کورٹ نے دو مذاکرہ کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن کو شاہین باغ راستہ کھلوانے کے لئے بات چیت کرنے کو بھیجا،سی اے اے پر بات کرنے کے لئے نہیں،مظاہرین نے بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ ہم آئین اور گاندھی کے اصولوں پر چلنے والے ہیں، سی اے اے ایک ظالمانہ قانون ہے،’حکومت ابھی واپس لے ہم آدھے گھنٹے میں سڑک خالی کردیں گے!اقوام متحدہ کے علاوہ اس کالے قانون کی گونج یورپی پارلیمان میں بھی گونجی، چنانچہ چھ پارلیمان گروپوں کی طرف سے سی اے اے کے خلاف قرار دار پیش کی گئی،جس پر تیز و تند بحثیں ہوئیں، قرار داد پر بحث کرتے ہوئے بعض اراکین نے اس قانون کو نازی دور کے قوانین سے تشبیہ دے دی اور کہا: سی اے اے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے اور انہیں بے وطن کرنے کے لئے لایا گیا ہے، یہ بہت ہی خطرناک اور امتیازی قانون ہے،،۔ملکی اور بین الاقوامی طور پر اس قانون سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے، جمہوریت اور آزادی پر سوالات اٹھ رہے ہیں مگر مودی اور شاہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سی اے اے درست ہے، ہم پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے جا رہے ہندوؤں کو اس کے ذریعے شہریت دیں گے بس! جبکہ مودی اور شاہ کی اس مسیحائی کو وہاں کے ہندو ہی مذاق اڑا رہے ہیں۔ ۶۱ /فروری کو پاکستان سے ۴۴ ہندو عقیدت مند ہریدوار ”گنگا اسنان،، کرنے کے لئے پہنچے تھے، ان سے جب سی اے اے کے حوالے سے سوالات کئے گئے تو انہوں نے کہا: سی اے اے ایک سیاسی کھیل ہے؛کیونکہ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں پر مظالم ہو رہے ہیں،وہ قطعی درست نہیں ہے، ہم وہاں بہت خوش ہیں، کوئی پریشانی نہیں ہے، سی اے اے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں،،مکیش شنکر نامی ِشخص نے کہا کہ: ہندوؤں کے استحصال جیسی کوئی بات نہیں ہے،آج تک ہمارے شہر میں کسی کے ساتھ غلط نہیں ہوا ہے، یہ ضرور ہے کہ ہندوستان کی طرح تہوار کی دھوم سڑکوں پر دیکھنے کو نہیں ملتی ہے،،۔
ایک طرف سی اے اے کے ذریعے کروڑوں غیر ملکی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لئے حکومت بے چین ہے وہیں دوسری طرف ”جن سنکھیا نینترن،،قانون بنانے کا مطالبہ بی جے پی اور ہندو دادی تنظیمیں عرصہء دراز سے کررہی ہیں،انہیں لگتا ہے کہ مسلمان بہت زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں؛چنانچہ زہریلے بیانات کے لئے مشہور ساکشی مہاراج اورسادھوی پراچی نے کہا تھا کہ ہندو عورتیں چار چار بچے پیدا کریں تاکہ ہندو مذہب کا تحفظ ہو سکے ورنہ ہندو مذہب کا وجود اور بقاء پر خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ پروین توگڑیا نے کہا تھا: مسلمان چار چار شادیاں اور دس دس بچے پیدا کرتے ہیں،اگر دو کی بات کرنی ہے تو قانون بناؤ اور جو خلاف ورزی کرے اس کو ملازمت،ووٹ اور دیگر سرکاری مراعات سے محروم کردیا جائے۔عجیب بات یہ ہے،زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ وہ دے رہے ہیں جن کو شادی، بیوی اوربچوں سے مطلب ہی نہیں ہے۔ ایک وقت یہ پرو پیگنڈہ پھیلایا گیا کہ ۵۳۰۲ تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ۵.۲۹ کروڑ ہو جائے گی جبکہ ہندوؤں کی آبادی ۲.۰۹ ہوگی، ۰۴۰۲ تک ہندو تہوار بھی نہیں منا سکیں گے، بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کا قتل کیا جائے گا، ۰۵۰۲ تک آتے آتے ہندوستان مسلم ملک ہو جائے گا؛حالانکہ شرح پیدائش دیکھیں تو ۰۵۰۲ کیا ۰۰۱۲ تک بھی ہندوستان مسلم ملک نہیں بن پائے گا۔ ۶۱۔۵۱۰۲میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق ہندوؤں میں بچے کی شرح پیدائش ۱.۲ جبکہ۵۔ ۴۰۰۲ میں ۸.۲ تھی، مطلب ۷.کی کمی دس سالوں میں ہوئی۔ مسلمانوں کی شرح پیدائش ۶۱۔۵۱۰۲ میں ۶.۲ تھی جبکہ ۵۔۴۰۰۲ میں ۴.۳ تھی، مطلب ۸.کی کمی آئی یعنی ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں کمی آئی ہے،پھر کیسے ۰۵۰۲ تک ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا،؟جین کی موجودہ شرح پیدائش ۲.۱ سکھ۶.۱ بودھ۷.۱ اور عیسائی ۲ فیصد کو شامل کردیں تو مسلمان کہیں بھی نظر نہیں آئے گا پھر یہ پروپیگنڈہ کیوں؟
مجھے اس سے بحث نہیں ہے کہ کس مذہب میں شرح پیدائش زیادہ ہے اور کس میں کم، بحث یہ ہے کہ جب بڑھتی آبادی پر کنٹرول کی بات زور و شور سے کی جا رہی ہے، برتھ کنٹرول کی ترغیب دی جا رہی ہے، منصوبے بن رہے ہیں، دو بچے کے لئے قانون لانے کی بات ہو رہی ہے تو غیر ملکیوں کوشہریت دینے کے لئے کیوں شہریت ترمیمی قانون لایا گیا، کیا یہ ”جن سنکھیا نینترن،، کے خلاف نہیں ہے؟ اور کیایہ غیر کے بچے کو گود لینا اور اپنے بچے کو دھتکارنا جیسا عمل نہیں ہے؟قابل غور ہے کہ جن کو شہریت دی جا ئے گی ان کے لئے حکومت رہائش کا بند و بست، ملازمت، تعلیم، صحت اور ساری بنیادی سہولیات کیسے فراہم کرے گی، اس کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا،کیا ملک کی معیشت پر بوجھ نہیں بڑھے گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سی اے اے ہندو تارکین کے مسئلے کوحل کے لئے نہیں لایا گیا ہے بلکہ پسماندہ طبقات خصوصا مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اس کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لئے لایا گیا ہے،ورنہ غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے لئے توپہلے سے ہی قانون موجود ہے،جس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو گزشتہ سرکاریں اور خود بی جے پی شہریت دے چکی ہیں۔
[email protected]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دوسرے دن بھی مذاکرات کار شاہین باغ پہنچے
نئ دہلی:دہلی کے شاہین باغ میں راستہ کھلوانے کے لیے آج پھر ثالث سادھنا رام چندرن اور سنجے ہیگڑے پہنچے۔ انہوں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ آپ نے بلایا تو ہم واپس آئے ۔کل ہمیں حوصلہ ملا۔ہم سب ہندوستان کے شہری ہیں۔ہم سمجھ کرچلے جائیں گے۔آپ کوسمجھنا ہوگا کہ سی اے اے کامسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے آئے گا۔انہوں نے بند سڑک کے معاملے پر بات چیت شروع کی۔ سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ کسی کو تکلیف ہورہی ہے توسب مل جل کر راستہ نکالیں۔کچھ ہی دیر بعد سادھانا رام چندرن نے میڈیا کی موجودگی پراعتراض کیا۔ اس کے بعدمیڈیاکے نمائندے دھرناکی جگہ سے باہرچلے گئے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے بند راستے کو کھلوانے کے لیے مظاہرین سے بات چیت کے لیے ثالثوں کی تقرری کی ہے۔جب کہ نوئیڈاکی طرف سے دوکلومیٹردورسے ہی متبادل راستوں کوپولیس نے ہی بندکررکھاہے۔مذاکرات کارسنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے بدھ کو بھی شاہین باغ میں دھرنا دے رہے لوگوں سے بات چیت کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔دونوں ثالث جمعرات کو بھی دھرناکی جگہ پرپہنچے اور لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے وہ مسئلہ ہے، ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مظاہرہ کرنے کاحق سب کوہے۔ ہمیں سڑک بند ہونے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے بھیجاگیاہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاہین باغ برقرار رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ شاہین باغ میں ہی رہیں اور لوگوں کو پریشانی نہ ہو، تو آپ کو منظورہے؟ اس پر وہاں موجود لوگوں نے کہا، نہیں، سڑک نہیں چھوڑیں گے۔اس کے بعد سادھنا رام چندرن نے کہا کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، ایک دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ہمارا ایمان ہے کوشش کرنا۔پوری کوشش کے بعد اگر یہ مسئلہ نہیں سلجھا تو یہ کیس واپس سپریم کورٹ جائے گا، پھر حکومت جو کرنا چاہے گی کرے گی۔ہر مسئلے کا حل ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حل نکلے اورشاہین باغ کو برقرار رکھ کر نکلے، تو صحیح رہے گا۔سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ سپریم کورٹ یہ دیکھ رہا ہے کہ شاہین باغ ایک مثال ہوناچاہیے۔ یہ ہوکہ کسی کو تکلیف ہوئی تو سب نے مل جل کر راستہ نکالا۔ہم سن رہے تھے کہ دوماہ سے بیٹھے ہیں، کہ آپ کیامصیبت ہے۔ہم ایک دوسرے کی مددکرنے کے لیے ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مظاہرے کا حق برقرار رہے۔شاہین باغ برقرار رہے پر کسی کو پریشانی نہ ہو۔اس کے بعد مظاہرین نے اختلاف کیا۔سنجے ہیگڑے نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے ہٹیں گے کو کوئی سننے والا نہیں آئے گا؟ یہی تو کہہ رہے ہیں نہ آپ۔ہم کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ہم آپ کی آوازاٹھائیں گے۔ہم آپ کے درمیان آکر آپ کی بات سنیں گے، ہم پر یقین رکھیں۔اس کے بعدسادھنارام چندرن نے کہاکہ مذاکرات کارنہیں چاہتے کہ وہاں میڈیا موجود رہے۔ اس کے بعد میڈیا اہلکار دھرناکی جگہ سے باہرچلے آئے۔ذرائع کے مطابق بعد میں سنجے ہیگڑے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے بہت آسان تھا کہ پولیس کو بول کر ہٹوا دے، لیکن کورٹ نے ایسانہیں کیاہے۔کورٹ بھی آپ کی بات سمجھتا ہے۔ شاہین باغ میں اور کہیں بھی لوگوں کو تکلیف ہو تو مظاہرہ ہونا چاہیے لیکن کورٹ کہتا ہے کہ کل نوئیڈا والے ڈی این ڈی جام کرکے بیٹھ جائیں تو ایسے ملک نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ بھی سمجھتا ہے کہ چھوٹے سے کورٹ روم میں سب کونہیں سناجاسکتا، اس لیے ہمیں بھیجاگیا۔انہوں نے کہاہے کہ آپ کے ہاتھ میں تاریخ ہے، آپ کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔جہاں عورتوں کا غلبہ ہوتا ہے وہی ملک آگے بڑھتاہے۔ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، یہ میں مانتا ہوں۔آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے، سب کے لیے سوچیے۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ آگے معاملہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشددسے منسلک ویڈیوز کو لے کر پولیس اور طالب علموں میں جاری کشیدگی کے درمیان دہلی پولیس کی ایس آئی ٹی کی ٹیم جامعہ پہنچ گئی ہے۔ایس آئی ٹی سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیو اور اے سی پی (نائب پولیس کمشنر) سندیپ لامبا اوردیگر کئی افسران موقع پر موجود ہیں۔کرائم برانچ کی ٹیم کے ساتھ 2 ویڈیوگرافی کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ظاہر ہے دہلی پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ دہلی پولیس کے خصوصی کمشنرپی رنجن نے پیر کو بتایا کہ جامعہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد میں بہت سی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کر دی گئی ہے۔ہم واقعات کو جوڑ کر تلاش کر رہے ہیں۔جامعہ لائبریری میں جو بھیڑ نظر آرہی ہے اس میں طالب علم کے ساتھ بیرونی لوگ بھی شامل ہیں، جانچ جاری ہے۔سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو پر جامعہ ملیہ اسلامیہ انتظامیہ نے اتوار کو صاف کیا کہ 15 دسمبر کی رات کے واقعہ کا سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ویڈیو جامعہ انتظامیہ کی جانب سے جاری نہیں کیا گیاہے۔ اس پورے معاملے سے جامعہ انتظامیہ نے خود کو الگ کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے احتجاج کے عوامی حق کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کرکے ایک طرف جہاں عدل وانصاف کی لاج رکھ لی وہیں دوسری طرف بی جے پی کے اُن بد زبان لیڈروں کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ رسید کردیا ہے جو CAA, NRC اور NPR کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے تھے اور انہیں وطن دشمن قرار دے رہے تھے۔۔۔۔
لیکن عدالت نے اپنا وہ تبصرہ پھر دوہرایا جو گزشتہ 10 فروری کو اس نے کیا تھا۔۔۔۔ یعنی احتجاج کے لئے عوامی راستہ نہیں روکا جاسکتا۔۔۔۔
عدالت نے مظاہرین سے گفتگو کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل کردی ہے۔۔۔ سنجے ہیگڑے بہت صاف ستھری شبیہ کے حامل سیکولر انسان ہیں ۔۔۔ اگلی سماعت 24 فروری کو ہوگی۔۔۔
عدالت نے دو باتیں اور کہی ہیں :
ان میں سے ایک بات بعینہ وہ ہے جو اس خاکسار نے 2 فروری کو کہی تھی۔۔۔ عدالت نے کہا کہ مظاہرین اپنا پیغام پہنچا چکے اور شاہین باغ کا مظاہرہ بہت دنوں سے جاری ہے۔۔۔۔
عدالت کے مذکورہ بالا دو سطری تبصرہ کو کئی بار پڑھئے۔۔۔ اس کے بین السطور کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ اگر جلد نہ سمجھا گیا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔ عدالت نے اپنی دوسری بات میں اس کو بھی واضح کردیا ہے۔۔۔
عدالت نے دوسری جو بات کہی ہے وہ ظاہری طور پر کتنی ہی سادہ بات ہو لیکن اپنے معانی ومفہوم کے اعتبار سے وہ بہت تشویشناک ہے۔۔۔ عدالت نے کہا کہ "اگر (ثالثی کی کوشش سے) مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر ہم صورتحال سے نپٹنے کے لئے یہ معاملہ حکام پر چھوڑدیں گے۔۔۔۔”
یہ آخری بات اپنے وسیع تر مفہوم میں انتہائی خطرناک اور تشویشناک ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ سپریم کورٹ ہاتھ کھڑے کردے بصیرت کو جگانا پڑے گا۔۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نیااین پی آرمدھیہ پردیش کومنظورنہیں،تحریک کسی کمیونٹی کی نہیں،پورے ملک کی ہے: دگ وجے سنگھ
اندور:گزشتہ32 دنوں سے اندور کی بڑوالی چوکی علاقے میں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں مظاہرہ کیاجارہاہے۔اتواردیررات اس تحریک میں مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اورکانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ پہونچے۔سنگھ نے کہاہے کہ 1947 سے لے کر2019 تک 1 کروڑ لوگوں کو بھارت کی شہریت دی گئی ہے جس میں سے 85 لاکھ ہندوتھے۔دگ وجے نے کہاہے کہ ملک کی شہریت فراہم کرنے کے لیے پہلے سے قانون تھا، اس نئے قانون کولانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔نئے قانون میں مذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے جس پر ہمیں اعتراض ہے۔دگ وجے نے کہا کہ سی اے اے کی مخالفت کسی پارٹی کی تحریک نہیں بلکہ ملک کی تحریک ہے۔یہ ملک کسی حالت میں سی اے اے، این آرسی، این پی آر کو قبول نہیں کر سکتا۔ اسے حکومت کو واپس لینا ہی ہوگا۔نئے این پی آر میں والد کہاں پیدا ہوئے ماتاجی کہاں پیدا ہوئیں۔ یہ پوچھنے کی کیاضرورت ہے۔مطلب صاف ہے کہ سرکار کی منشاخراب ہے۔اس سلسلے میں مدھیہ پردیش حکومت کا موقف کلیئر ہے کہ کسی حالت میں این پی آر کا وہ حصہ جس میںایسی معلومات ہم سے مانگی جا رہی ہیں جوہمارے پاس نہیں ہیں ان کودینے کے لیے پابندنہیں کیاجا سکتاہے۔سال 1947 سے لے کر سال 2019 تک ایک کروڑ لوگوں کو حکومت ہند شہریت دے چکی ہے۔کسی کو اعتراض نہیں تھی۔ تمام مذاہب کے لوگوں کو شہریت ملی۔ ہمارا اعتراض نئے سی اے اے سے یہی ہے کہ حکومت نے مذہب کی بنیادپرلوگوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔جن ایک کروڑ لوگوں کو شہریت ملی ہے ان میں سے 85 لاکھ ہندوہیں۔میں خود جب مدھیہ پردیش کا سی ایم تھا تو ہزاروں لوگوں کو شہریت دی گئی تھی۔دگ وجے نے کہا کہ آر ایس ایس کے لوگ سوشل میڈیاپرمیرے بارے میں کیا کیا کہتے رہتے ہیں لیکن میں اس کی فکر نہیں کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مسلم پرست ہوں، نہ میں مسلمان پرست ہوں اور نہ ہندو پرست ہوں، میں انسانیت پرست ہوں۔مذہب الگ بھی ہو، راستے الگ الگ ہیں لیکن منزل ایک ہی ہے اور وہ منزل ہے انسانیت۔
کنہیا کمار کا طنز، ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا
بہارشریف:جے این یوطالب علم یونین کے سابق صدر اور سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار نے مودی اور شاہ پر جم کر طنزکسے ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ جس طرح ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا۔کنہیا نے مرکزی حکومت پر لوگوں کوبانٹنے کا الزام لگایا ہے۔کنہیا کمارنے کہاہے کہ ہم مودی شاہ کے منصوبے کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔بھارت میں جمہوریت ہے لیکن مودی شاہ ظالم کی طرح ملک کو چلانا چاہ رہے ہیں۔مرکزی حکومت سی اے اے لاکرملک کو توڑنے کا کام کر رہی ہے۔آج کمانے والے غریب اور لوٹنے والے امیرہورہے ہیں۔ یہ لڑائی کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ اتوار کو کنہیا اپنے جن گن من یاترا کے تحت نالندہ پہنچے اور سوگرا کالج میدان میں اجتماع سے خطاب کیا۔کنہیا نے کہا کہ نالندہ کی زمین بابوکنور سنگھ، جے پی، کرپوری، سوامی کی سرزمین رہی ہے۔تمام لوگوں نے ملک کے مفاد میں جنگ لڑی ہے۔ہم ملک کی آزادی کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے اور یہاں عوام بہت سخت ہوتی ہے۔کنہیاکمار نے 27 فروری کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہونے والی ریلی کے لیے لوگوں کومدعوکیاہے۔
ممبئی:شہریت ترمیم قانون کے خلاف مہاراشٹر کے بیڑ میں ہوئے مظاہرے پر بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے کہا کہ پرامن طریقے سے احتجاجی مظاہرہ کر رہے لوگ دھوکے بازیا غدار نہیں ہیں۔بتا دیں کہ 21 جنوری کو بیڑ ضلع کے ماجلگاؤں میں کچھ مظاہرین غیر معینہ مدت کے لئے شہریت ترمیم قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھنا چاہتے تھے جس کی اجازت ضلع پولیس نے نہیں دی اور بعد میں ضلع مجسٹریٹ نے بھی اس مظاہرے کی اجازت نہیں دی۔جس کے بعد افتخا رشیخ اور دیگر مظاہرین ہائی کورٹ گئے۔ہائی کورٹ نے مقامی پولیس اور مجسٹریٹ کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا اور ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دھرنے کی اجازت دے دی۔اس سماعت کے دوران کورٹ نے کہا کہ ایسے مظاہرین ایک قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جس کے لئے انہیں اینٹی نیشنل نہیں کہہ سکتے۔مظاہرین حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ان کی آواز دبائی جائے۔ 2 بنچ کے ججوں نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ قانون کسی کے خلاف ہے تو اس قانون کے خلاف پرامن آواز اٹھانا یہ شہریوں کا حق ہے۔اجازت دیتے ہوئے مظاہرین نے کورٹ میں تحریری طور پر کہا ہے کہ احتجاج کے دوران کسی ملک، مذہب یا اپنے ملک کے خلاف نعرے بازی نہیں ہوگی۔کورٹ نے کہا کہ برطانوی راج کے دوران ہمارے باپ دادا آزادی کے لئے لڑے۔انسانی حقوق کے لئے لڑے اسی مقصد سے ہمارا آئین بنا۔کورٹ نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے مگرصرف اس بنیاد پر کوئی بھی مدھرنا دبایا نہیں جا سکتا ہے۔
الور:تحفظ آئین وجمہوریت محاذکی جانب سے سی اے اے، این پی آراوراین آرسی کی مخالفت میں ہفتہ کوجیل چوراہاکے قریب واقع کربلا میدان میں جلسہ عام منعقدکیاگیا۔ جلسے میں بھارت رتن ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر بھی پہنچے۔ انھوں نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ 1 اپریل کے بعد مجھے حالات بے قابو ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کوشش ہماری یہ ہے کہ 4 مارچ کودہلی کی کئی تنظیموں کی جنتر منتر پر ریلی منعقدہو۔ امید یہ ہے کہ لاکھوں کی بھیڑ وہاں پر ہوگی۔ جہاں سے بحث کرنے کی شروعات ہوگی۔ جہاں حکومت بات چیت کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ وہاں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے کی نوبت آ چکی ہے۔ جیسے شاہین باغ 50 دن ہونے کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ اسی طرح مودی جی یہ کہہ رہے ہیں ہم این آرسی ابھی لاگوکریں گے، لیکن این آرسی سے پہلے نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن کامطلب آبادی کارجسٹریشن کرناہے۔کسی نے سشما سوراج جی کی بات ایوان میں سنی ہو تو انہوں نے یہ کہا تھاکہ این آرسی سے پہلے کا مرحلہ این پی آرہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی اپنی آزادی سے محروم نہیں چاہتاہے۔ لہٰذااس ملک میں امن بنا رہے۔ ورنہ یکم اپریل کے بعد کیا ہوگا۔ معلوم نہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ جویہاں پر پیداہواہے۔ جن کے بزرگوں نے یہاں پر جنم لیا ہے ان سب کاملک ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کا ملک بالکل نہیں ہے۔ اصلیت کی ان دیکھی جائے تو 15 اگست کو یوم سیاہ منانے کا جو یہ سلسلہ ہے اس کی شروعات آر ایس ایس نے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ 1949 تک انہوں نے یوم سیاہ منایا جس کے بعد1950 میں یوم سیاہ نہ منائے اس کے لیے انہیں جیل میں ڈالاگیاتھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ان سے کہاکہ اگر یوم سیاہ 1950 میں مناؤگے توزندگی بھرجیل میں ڈال دیں گے۔ تب جاکر انہوں نے لکھ کر دیا کہ ہم اس ملک کے آئین، ترنگے جھنڈے،اشوک چکر کے ساتھ ہیں، 15 اگست اس ملک کی آزادی کا دن ہے۔ یہ لکھنے کے بعد ان پرسے پابندی ہٹائی گئی تھی۔ یہ ان کی اصلیت ہے۔پرکاش امبیڈکر نے کہاہے کہ این آرسی کی آج کے وقت میں ضرورت کیاہے۔70 سال بعد اگر کوئی سیاسی پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ ہم کسی کی شہریت چیک کرنے جا رہے ہیں تو یہ آئین کے خلاف ہے۔آئین کی دفعہ 4 اور 5 کہتی ہے کہ جس نے بھارت سال میں جنم لیاہے اس کی شہریت پیدائش سے ملتی ہے۔ جہاں یہ قانون ہے۔ وہاں دوبارہ شہریت دینے کی بات کس طرح کر سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت کی منشاکچھ مختلف ہے۔ گولوالکر کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے بھارت کا نقشہ کیساہوناچاہیے، معاشرے کا بندوبست کیسا ہوناچاہیے، اس کی مکمل طورپر تفصیل بیان کی ہے۔ ان کی تفصیل منووادی نظام ہے۔دوسری بات اس میں یہ ہے کہ اور کوئی مذہب کے لوگ جیسے مسلم، جین، سکھ اور عیسائی ان تمام مذاہب کوبھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر ان کو رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی طرح رہناہے۔جوحق حکومت دے گی رہی حق دیاجائے گا جو قانون سازواں نے حق دیاہے وہ چھینا جائے گا۔مطلب یہ نئے نظریات کی حکومت بن چکی ہے۔ وہ اپنے نظریات ملک پر لاگو کرنے کے لیے جارہی ہے۔
15 جون تک چلے گا مردم شماری کا کام،کانگریس اوراین سی پی مخالف
نئی دہلی: مہاراشٹر حکومت 1 مئی سے قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) نافذکرنے جا رہی ہے۔1 مئی سے مہاراشٹر میں مردم شماری کا کام شروع ہوگا اور 15 جون تک چلے گا۔حکام کو معلومات جمع کرنے کے لئے ہدایات دی گئی ہیں۔ سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے درمیان، مہاراشٹر حکومت نے ریاست میں این پی آر اور مردم شماری کی تیاری شروع کر دی ہے۔مہاراشٹر حکومت کا یہ قدم اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے کیونکہ این سی پی اور کانگریس نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ وہ مہاراشٹر میں این آرسی کی اجازت نہیں دیں گے۔این سی پی اور کانگریس نے مسلسل این آرسی، سی اے اے اور این پی آر کی مخالفت کی ہے۔معلوم ہو کہ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت میں این سی پی اور کانگریس حلیف پارٹی ہے۔کانگریس کے ترجمان چرن سنگھ ساپرا نے کہا ہے کہ مہاراشٹر میں این پی آر نافذ نہیں ہو۔ادھو حکومت، این سی پی اور کانگریس کی حمایت سے اقتدار میں ہے جو این پی آر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ایسے میں اب بڑا سوال یہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے حکومت کس طرح چلے گی۔مہاراشٹر اسمبلی میں 288 سیٹیں ہیں اور اکثریت کے لئے 145 ممبر اسمبلی چاہئے۔شیوسینا کے اب 56 ایم ایل اے ہیں اور این سی پی کے 54 اور کانگریس کے 44 ممبران اسمبلی کے ساتھ ادھو حکومت کو کل 169 ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ایسے میں ادھو حکومت کا این پی آر نافذکرنے کا فیصلہ مہاراشٹر کی سیاست میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل تیز کر سکتا ہے۔قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) ملک کے عام باشندوں کی ایک وسیع ڈیٹا بیس ہے۔اسے شہریت ایکٹ 1955 کی دفعات کے تحت اور شہریت (شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنا) دستور العمل، 2003 میں موجود طریقہ کار کے ذریعہ تیار کیا جا رہا ہے۔این پی آر کے تحت کوئی شناختی کارڈ جاری نہیں کئے جائیں گے۔کسی پتے پر 6 ماہ سے رہنے والے یا مزید 6 ماہ رہنے والوں کے نام اس رجسٹر میں شامل کئے جائیں گے۔ ویسے تو 2010 میں پہلی بار این پی آر بنانے کی شروعات ہوئی تھی لیکن این آرسی اور شہریت کے قانون پر جاری تنازعہ کے درمیان این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے فیصلے نے نئی بحث کو چھیڑ دیا۔نئے شہریت قانون کے بعد اب این پی آر پر بھی تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔
ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _
مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _
جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _
اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _
میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے نے نعرہ لاگایا’دیش کے غداروں کو۔۔گولی مارو سالوں کو‘لیکن جب لوگوں نے اپنے ووٹ کی گولی ماری تو معلوم ہوا وہ گولی بی جے پی کولگی۔ اوزیر داخلہ امت شاہ نے دلی کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن اس زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ لوگوں نے بٹن ایسا دبایا کہ کرنٹ خودامت شاہ کو لگا اور بی جے پی پر عام آدمی پارٹی کی جھاڑو پھر گئی۔ بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے ان انتخابات کو انڈیا پاکستان کا مقابلہ قرار دیتے ہوئے دراصل یہ کہا تھا کہ بی جے پی انڈیا ہے اور اس کے مخالفین پاکستان، لیکن لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ نہ صرف کپل مشرا کو دھول چٹائی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ صرف بی جے پی ہی انڈیا نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی انڈیا ہیں شاہین باغ بھی انڈیا ہے اور وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ بھی انڈیا ہیں۔ بی جے پی نے دہلی انتخابات کی شروعات وہاں کی غیر قانونی کالونیوں کو قانونی بنانے کے اعلان سے کیا تھا لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے بی جے پی اپنی اوقات کی طرف گرتی گئی۔ وہ وکاس کو چھوڑ کر ہندو مسلم منافرت، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہندوؤں کے دشمن یا دیش کے غدار یا پاکستان کے حامی قرار دے کر دلی کے لوگوں کو ہندو مسلمان میں تقسیم کر نے کی اپنی روایتی گندی سیاست کی طرف آگئی۔ آخر میں مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سب سے نچلے درجہ پر آتے ہوئے دلی کو’اسلامک اسٹیٹ‘بننے سے بچانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں،لوگوں نے ان کے منھ پر زوردار طمانچہ جڑتے ہوئے بتادیا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں ان کے مخالفین کو ووٹ دینے سے دلی اسلامک اسٹیٹ تو نہیں بنے گی لیکن وہ انہیں ووٹ دے کر اسلامک اسٹیٹ طرز کی ’ہندو اسٹیٹ‘ بھی نہیں چاہتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں نے بی جے پی کے ساتھ اس کی آئیڈیا لوجی کو بھی ٹھکرادیا؟ کیا اس انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ ہندوتوا بھی ہار گیا؟کیا نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی؟کیا کیجریوال کی جیت ہندوتوا مخالف آئیڈیا لوجی کی جیت ہے؟کیا یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کا مینڈیٹ ہے؟ ہمیں نہیں لگتا، ہمارا خیال ہے کہ باوجود اس کے کہ بی جے پی نے یہ الیکشن سی اے اے کے اشو پر لڑا اور ہاری پھر بھی یہ سی اے اے کے خلاف عوام کا مینڈیٹ نہیں، بی جے پی کی آئیڈیالوجی کی ہار نہیں،ہندوتوا کا استرداد نہیں۔ اروند کیجریوال بی جے پی کے خلاف کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے وہ اپنے کام کو لے کر بی جے پی سے لڑے ان کی جیت ہندوتوا کے مقابلہ کام کی جیت ہے۔ بی جے پی نے ان کے گرد سی اے اے، شاہین باغ، دیش بھکتی اور ہندوتوا کا جال بنا تھا لیکن اروند کیجریوال بڑی چالاکی سے اس جال میں پھنسنے بچے رہے۔ اگر وہ بی جے پی کی کسی بات کا جواب دیتے،ہندوتوا کی مخالفت نہ بھی کرتے سیکولرازم کا دم ہی بھرلیتے، سی اے اے کے خلاف یا شاہین باغ کی حمایت میں ایک لفظ بھی بول دیتے تو بی جے پی کے جال میں بری طرح جکڑجاتے اور ان کا اپنا روایتی یا ترقی پسند ووٹ کھسک جاتا،لوگ انہیں مسلمانوں کے حمایتی سمجھ کر مسترد کردیتے۔ چلئے یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے بڑی چالاکی سے بی جے پی کی سیاسی بساط الٹ دی، وہ کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن فرق اس سے پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ’کام کی سیاست‘ کو ہندوتوا کا تڑکا دیا۔ گو کہ یہ ہندوتوا بی جے پی کا سخت گیر ہندوتوا مسلم مخالف یا منافرت آمیز ہندوتوا نہیں، وہ نرم ہندوتوا بھی نہیں جو کانگریس اپناتی رہی لیکن ہندوتواہی کی ایک ہلکی قسم ضرور ہے جسے ’سرد ہندوتوا‘ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس ہندوتوا کے اظہار کے لئے پچھلے سال ہی دلی کے اسکولوں میں دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھوانے کا اعلان کیا تھا۔ شاہین باغ کے معاملے میں انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ با اختیار ہونے کے باوجود شاہین باغ روڈ اس لئے خالی نہیں کروار ہے ہیں کہ الیکشن میں اس کا استعمال کیا جا سکے، یعنی انہوں نے امت شاہ کے سر ٹھیکرہ پھوڑا کہ انہوں نے پولس کے ذریعہ روڈ خالی کروانا چاہئے، یہی نہیں انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ’اگر دلی پولس ہمارے ماتحت ہوتی توہم نے دو گھنٹے میں وہ علاقہ خالی کروا دیا ہوتا‘ چہ معنی؟ یعنی بزور قوت خالی کروادیا ہوتا؟انہوں نے سی اے اے اور شاہین باغ پر کوئی اسٹینڈ نہیں لیا لیکن کچھ ایسے اشارے ضرور کئے کہ سمجھنے والے سمجھتے رہیں کہ ان کا اسٹینڈ کیا ہے؟ یعنی بین السطور یہ کہا کہ جس طرح بی جے پی کانگریس کو مسلمانوں کی منھ بھرائی کرنے والی پارٹی کہتی ہے وہ کانگریس کی طرح مسلمانوں کی منھ بھرائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ’ہندومخالف‘ ہونے کے بی جے پی کے الزام کے جواب میں جہاں انہوں نے ہندوؤں کی تیرتھ یاتراؤں کے لئے کئے گئے کام کا تذکرہ کیا وہیں اپنے آپ کو ہندو بھی ثابت کیا یہ کہہ کر کہ وہ ہنومان جی کے کٹر بھکت ہیں، روز ہنومان مندر جاتے ہیں اور انہیں ہنومان چالیسا یاد بھی ہے۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے بھی کہا ہے کہ اس کے والد بچپن ہی سے انہیں بھگوت گیتا پڑھاتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے کسی کو کسی کے مذہبی ہونے سے کوئی پرابلم نہیں ہو سکتا ہے، اسی طرح سیاسی لیڈران کے مذہبی ہونے سے بھی کسی کو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہئے، لیکن سیاسی لیڈروں کے ذریعہ اپنے مذہبی ہونے کا عوامی اعلان دراصل اپنے آپ کو کچھ خاص لوگوں سے جوڑنا اور کچھ خاص لوگوں سے الگ کرنا ہے۔ کیجریوال جی نے اپنے آپ کو ہنومان بھکت کہہ کر صرف یہی نہیں کہا کہ وہ ہندو ہیں، ہندوؤں میں سے ہی ہیں بلکہ یہ کہا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ہیں اور یہی دراصل ہندوتوا کی ابتدا ہے اروند کیجریوال نے اپنی ’کام کی سیاست‘ میں جس کا رنگ بھرا ہے۔ویسے اب بی جے پی نے پورے ملک میں ایسی مضبوط زہریلی فضا تیار کردی ہے کہ ہندوتوا کی مخالفت کر کے بی جے پی کو شکست دینا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔کام کی بنیاد پر جس نئی سیاست کی شروعات کیجریوال نے کی ہے اس میں ان کے’سرد ہندوتوا‘ کی آمیزش کے باوجود ان کی ستائش کی جانی چاہئے کہ ان کی اس چالاک سیاست کی وجہ سے بی جے پی اپنے ووٹ فیصداور چند سیٹوں میں اضافے کے باوجود وہ شاہین باغ سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہمارے ہی احتجاج کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کرسکی۔ بی جے پی کے سخت ہندتوا کے مقابلہ کیجریوال کانرم ہند توا قابل قبول ہو سکتا ہے یہاں تک کہ وہ کانگریس کی طرح اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ کریں۔ لیکن اس نئی سیاست پر غور کیا جانا چاہئے اور اسی کے مطابق اپنی سیاسی پالسی بھی طے کرنی چاہئے۔
[email protected]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ظالمانہ قوانین کے خلاف پورے ملک میں جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں خاص طور پر طلبہ ، طالبات ، نوجوانوں ، دوشیزاؤں اور خواتین کی شمولیت بہت خوش آئند ہے _ جنوبی دہلی کے علاقے ‘شاہین باغ’ کو اس معاملے میں عالمی طور پر شہرت حاصل ہوئی ہے ، جہاں دو ماہ سے خواتین ڈٹی ہوئی ہیں اور دن رات مسلسل احتجاجی مظاہرہ کرکے ان ظالمانہ قوانین کے خلاف اپنی ناراضی اور بے اطمینانی ظاہر کررہی ہیں _ ان کی نقل میں پورے ملک میں تقریباً دو سو ‘شاہین باغ’ آباد ہوگئے ہیں _
یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ملک کے تمام طبقات ان مظاہروں میں شریک ہیں ، خواہ وہ سیکولر ہوں یا کمیونسٹ یا کسی مذہب کو ماننے والے _ چنانچہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ سکھ بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ہم قدم ، ہم دوش اور ہم آواز ہے اور کمیونسٹ لوگ بھی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں _ اس طرح حکم رانوں تک یہ پیغام جا رہا ہے کہ اس قانون کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ پورا ملک شریک ہےـ
ابتدا میں ان مظاہروں میں بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں نے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے تو ان سے کہا گیا کہ مظاہروں کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے _ یہ بات کہنے والوں میں میں بھی شامل تھاـ اس لیے کہ میرے نزدیک یہ حکمتِ عملی کے خلاف ہے _ اس وقت یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان قوانین کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ ملک کے تمام شہری شامل ہیں ، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ان میں ایسے نعروں کو رواج دیا جن سے ملک کے تمام شہریوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا اظہار ہوتا ہوـ
موجودہ حالات میں ملک کے تمام طبقات کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے _ فرقہ وارانہ ہم آہنگی یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوـ اس کے ساتھ وہ باہم شِیر و شَکر ہوکر رہیں _ لیکن بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت ترک کردیں اور برادرانِ وطن کے رنگ میں رنگ جائیں ـ چنانچہ انھوں نے کمال ہوشیاری سے ان مظاہروں میں اس چیز کو رواج دینے کی کوشش کی اور سادہ لوح مسلم نوجوان اور خواتین بغیر سوچے سمجھے اس کا شکار ہوگئےـ
دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ان مظاہروں میں بعض لوگوں نے ‘بھارت ماتا کی جے’ یا اس جیسے دوسرے شرکیہ نعرے لگائے تو مسلمان بھی وہ نعرے لگانے لگے ، ہَوَن اور پرارتھنا کی گئی تو مسلمان بھی ان میں شامل ہوگئے ـ ایک مسلم خاتون نے پیشانی پر بندیا لگالی اور اپنی ہیئت غیر مسلم عورت کی بناکر پریس رپورٹر سے کہنے لگی : پہچانو ، میں کون ہو؟ یہاں تک کہ آج مسلم خواتین سے وہ کام کروالیا گیا جسے کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیاجاسکتاـ 14 فروری کو پوری دنیا میں ‘ویلنٹائن ڈے’ (یومِ عاشقان) کے نام سے منایا جاتا ہے _ اس دن غیر شادی شدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محبت کے جھوٹے عہدوپیمان کرتے ہیں _ یہ اصلاً عالمی سطح پر بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش ہے _ آج کے دن کمال عیّاری کے ساتھ شاہین باغ کی بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں میں ویلنٹائن ڈے کے پوسٹر تھما دیے گئےـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ متعدد نوجوانوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ان مظاہروں میں شرکیہ نعرے لگانے میں مسلمانوں کی شرکت درست ہے؟ میں نے صاف الفاظ میں انہیں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی متعدد خواتین نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا مسلم خواتین کا دیگر مذاہب کے شِعار اپنانا اور غیر اسلامی کلچر کے مظاہر اختیار کرنا درست ہے؟ میں نے انہیں صاف الفاظ میں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
یہی بات میں اپنی دوسری بہنوں اور بیٹیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں ـ عِفّت مآب بہنو اور پیاری بیٹیو ! آپ ظالمانہ قوانین کے خلاف دو ماہ سے ڈٹی ہوئی ہیں ـ واقعہ یہ ہے کہ آپ اس معاملے میں مردوں سے آگے بڑھ گئی ہیں _ آپ کا جذبہ مبارک _ اللہ تعالیٰ آپ کی جدّوجہد کو قبول کرے اور اس کے اجر سے نوازے _ لیکن آپ کو ہوشیار رہنا ہے _ ایسا نہ ہو کہ کچھ عیّار اور مکّار لوگ آپ کی معصومیت اور سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر آپ کو بہکادیں اور غلط راہ پر ڈال دیں _ ان مظاہروں کو فرقہ واریت سے بچانا اور ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایسے نعرے لگانے لگیں جو آپ کے ایمان و عقیدہ کے خلاف ہوں ، آپ ایسے کام کرنے لگیں جن سے آپ کی مسلم شناخت گُم ہوجائے ، آپ اپنی ایسی ہیئت بنالیں کہ آپ کو دوسرے مذہب کا سمجھا جانے لگے ، آپ اپنے ہاتھوں میں ایسے پوسٹر ، بینر اور پلے کارڈ اٹھالیں جن سے عِفّت اور شرافت پر حرف آنے لگےـ
اگر آپ نے ہوشیاری اور بیدار مغزی نہ دکھائی اور اپنی مسلم شناخت گُم کردی تو یہ بڑے خسارے کا سودا ہوگاـ اللہ تعالٰی آپ کو محفوظ رکھے- آمین
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مغربی بنگال کے وزیر اعلی آنجہانی جیوتی باسو نے ٹرام کے کراۓ میں ٢٥ پیسے کا اضافہ کیا تو کلکتہ کی عوام اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئ۔ ان کا رد عمل دیکھ کر وزیر اعلی اسی شام دور درشن چینل پر اۓ اور کہا کہ میں دیکھنا چاہ رہا تھا کہ ہماری عوام اپنے مسائل کے تئیں بیدار ہے یا سو رہی ہے؟” مجھے خوشی ہے ہماری ریاست کی عوام بیدار ہے۔ کرایہ بڑھانے کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے۔”
سیاسی اور سماجی نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے آپ اپنے دور کا انتظار نہ کریں کہ جب ہم متاثر ہوں گے تو احتجاج کریں گے۔ آج ظلم اگر سماج کے کسی ایک طبقے کے ساتھ ہو رہا ہے تو کل آپ بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کرنے والوں کی مخصوص ذہنیت اور سوجی سمجھی اسکیم ہوتی ہے وہ یکے بعد دیگرے اپنے منصوبوں کو مناسب وقت پر عملی جامہ پہناتے رہیں گے۔
موجودہ حکومت شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ہمارا ٹیسٹ لے رہی ہے۔ شروعاتی دور میں کئی لوگ یہ تاثر دینے اور بہت سے یہ تاثر لینے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے کہ یہ ایکٹ اور اس سے مرتبط این آر سی صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بعد میں جن لوگوں نے محسوس کیا کہ ‘ آج ان کی تو کل ہماری باری ہے ‘ اور بعض وہ لوگ جنہیں مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے جذبے کا خیال آیا، وہ ان احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو کر پورے ملک میں اس علامتی "شاہین باغ” میں شرکت درج کرا کے سیاسی طور پر بیدار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
یہ ‘ کل مذاہب’ احتجاج بلا شبہ اثر انداز ہوا ہے اور بیداری کے، بالتدریج ، نتائج سامنے آنے شروع ہوئے ہیں۔ شاہین باغ اور شہریت ترمیمی ایکٹ این آر سی گرچہ دہلی اسمبلی الیکشن کی انتخابی مہم اور منشور کا اعلانیہ حصہ نہیں تھا اس لئے کہ دہلی کا الیکشن مقامی ترقیاتی کاموں بجلی پانی تعلیم و صحت کے موضوع پر لڑا گیا تاہم ووٹرز کے دماغ کے کسی کونے میں اس کے وجود کی بقاء بحیثیت ہندوستان کے شہری کا اہم مدعا موجود رہا۔ اس لئے حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ ‘ بی جے پی کی شکست سی اے اے کے خلاف عوامی فیصلہ نہیں ہے’ حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ پورے ملک میں "شاہین باغ” کا اثر یہ بھی ہوا کہ جو وزیر داخلہ کل تک یہ کہ رہے تھے کہ ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے وہ آج اس موضوع پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اور یہ کہ ‘ احتجاج کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے’
لڑائی تو لمبی لڑنی ہوگی تاہم حکومت کے موقف میں تبدیلی یا لچک ٹیسٹ میں پہلے دور کی کامیابی کہی جاسکتی ہے۔
دراصل یہ لڑائی پارلیمنٹ میں بھیجے گئے ہمارے نمائندوں کو لڑنی تھی مگر ہم جب اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر نکموں موقع پرستوں اور مختلف ایجنسیوں سے ڈرنے والے نمائندوں کو منتخب کریں گے تو یہی حشر ہوگا اور بالآخر عوام کو نمائندوں کی بجائے اپنی آواز ایوان اقتدار میں خود پہونچانی ہوگی۔
اب ایک بار پھر عوام کو موقع مل رہا ہے کہ وہ آئندہ بہار اسمبلی انتخابات میں اپنا صحیح نمائندہ منتخب کرے اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ کل عدالت عظمیٰ نے نمائندوں کی اکثریت کا جرائم میں ملوث ہونے کا نوٹس لیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہر پارٹی کو مستقبل میں اپنے امیدواروں کا کسی جرم میں ملزم ملوث ہونے کی تفصیل ویب سائٹ پر ڈالنا ہوگا اور یہ کہ محض جیتنے کی قابلیت امیدوار بنانے کی دلیل کافی نہیں ہوگی
اس سے تقویت حاصل کرتے ہوئے بہار کی عوام اب صاف ستھرے کردار والے افراد پر مشتمل، دہلی کے طرز پر ،ایک متبادل”#کام #کی #سیاست” والی پارٹی تشکیل دیں۔ بہار کی عوام کو مقامی لیڈروں کی ذاتی منفعت اور مختلف بنیادوں پر کسی پارٹی سے نزدیکی اور کسی سے دوری کی روایتی سیاست کو طلاق دینا ہوگا۔ وہ پارٹیاں خواہ کسی نام کی ہوں سب کے سب در اصل مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر قائم ہیں اور اسی کیلکولیشن سے انتخابات میں کسی پارٹی کے ساتھ الائنس کرتی ہیں۔ گاندھی وادی لوہیا وادی اور سماجوادی یہ سب بطور ہاتھی کے دانت نعروں تک محدود ہیں۔ ملک اس وقت ایک سنگین دور سے گزر رہا ہے اس وقت اس کے دستور کی حفاظت تمام دیگر مفادات سے اوپر ہونا چاہیے۔ بہار کی عوام کو یہ موقع گنوانا نہیں چاہئیے۔ سیاست کی جو روش پچھلے دو تین دہائیوں میں رہی اس کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں انہیں اکھاڑ پھینکنے کی کوشش میں وقت ضائع نہ کرتے ہوئے متبادل politics of work کے لئے ابھی سے سنجیدہ ہو جائیں۔ آپ ایسی حکومت کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں جو حکومت آپ کی ریاست کو حقیقی معنوں میں ایک رفاہی ریاست بنا سکے۔ اچھے اسکول اچھے ہسپتال بجلی پانی سڑکیں اور سیوریج لاء اینڈ آرڈر خواتین کی حفاظت جیسی سہولتیں عام شہری اور بالخصوص ادنی اور متوسط طبقے کی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے، فراہم کرنا ہر رفاہی ریاست welfare state کی ذمہ داری ہے۔ اسے آپ تک پہنچا کر کوئی ریاست کوئی پارٹی یا کوئی حکومت آپ پر احسان نہیں کرتی یہ سہولیات اپنے پیسے خرچ کر کے آپ کو سوغات میں نہیں دیتی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے حقوق کے تئیں بیدار رہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
تحریر: مسعود جاوید
ہندوستان ١٩٤٧ میں آزاد ہوا۔ اس ملک کو انگریزوں کی استعماریت سے آزاد کرانے میں ہر طبقے ،بلا تفریق مذہب ملت ذات برادری عورت مرد، کا کم و بیش رول تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی جدو جہد کی تحریکوں میں سب سے اہم پارٹی تھی۔ اس پارٹی کے چوٹی کے قائدین گاندھی نہرو پٹیل اور آزاد کے نام بہت نمایاں اور زبان زد عام تھے۔ تقسیم ملک کے المیہ کے دوران ان قائدین کی ہندو مسلم یک جہتی قائم رکھنے کی جدو جہد نے لوگوں کے دل و دماغ پر اچھے نقوش چھوڑا اور اس طرح ١٩٤٧ -٦٤ کے دور کو سنہرا دور اور نہرو کو نۓ ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے۔
نام کی سیاست : اس میں شک نہیں کہ مابعد آزادی کے شروعاتی دور کے چیلنجوں اور مشکلات کے باوجود نہرو دور کی کئ حصولیابیاں قابل فخر و ستائش ہیں ۔ نہرو کے بعد لال بہادر شاستری جو ١٩ ماہ بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی گرچہ گاندھی کا لاحقہ ان کے شوہر ایک پارسی مذہب کے فیروز گاندھی سے شادی کی وجہ جوڑا گیا ہے لیکن ملک اور بیرون ملک بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اندرا گاندھی کا مہاتما گاندھی سے خاندانی نسبت ہے۔ بہر حال کانگریس، گاندھی، نہرو پٹیل اور آزاد کے نام کا سکہ ایسا چلا کہ دوسری کوئی متحرک سیاسی پارٹی ابھرنے کی جرأت نہیں کر سکی۔ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ آر ایس ایس کے نظریات پر مبنی ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اور اس طرح کانگریس ،اپنی کارکردگی پر کم اور آباء و اجداد کے نام پر زیادہ، سالہاسال اقتدار میں آتی رہی۔ یہاں تک کہ بغیر کسی چیلنج کے اقتدار میں رہنے کے زعم نے اندرا گاندھی کو مطلق العنانیت کی راہ پر ڈال دیا اور اسی مطلق العنانیت کی سے مغلوب انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف بغاوت اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
ذات کی سیاست : ١٩٧٩ – ١٩٩٠ اس دور میں ملک نے ذات برادری کی سیاست دیکھا۔۔ دستور ہند میں دی گئی درج فہرست قبائل و طبقات کے لئے خصوصی مراعات اور ریزرویشن کے حامی اور مخالفین کے ما بین خونی تصادم۔ اور اس کے نتیجے میں ذات برادری کی بنیاد پر سیاست اور سماج میں بالخصوص انتخابات کے دوران ذات کی بنیاد پر لام بندی polarization.
مذہب کی سیاست : ١٩٩٠ سے ہندوستان میں ایک مخصوص طبقے نے متشدد مذہبی سیاست کی از سر نو شروعات کی۔ رتھ یاترا کے ذریعے ہندو مسلم منافرت کا زہر گاؤں گاؤں پروسا گیا اور بابری مسجد شہید کی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک بتفاوت شدت یہ عمل جاری ہے بالخصوص انتخابات کے زمانے میں مذہبی منافرت اور لام بندی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن جیتنے کے اجزاء ترکیبی ingredients کا سب سے اہم جزء مذہبی منافرت ہی ہے۔ الیکشن کا دن ایک قومی تہوار کے طور خوشی خوشی منانے اور اپنےدستوری حق کے استعمال کے بارے میں سوچنے کی بجائے ماحول اس قدر زہر آلود بنا دیا جاتا ہے کہ ہر شخص اس عرصے میں سہما ہوا محتاط نقل و حرکت پر مجبور ہوتا ہے۔
کام کی سیاست : دہلی میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران ماحول بگاڑنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ بی جے پی کی تقریر و تحریر کا محور ہندو مسلم منافرت آخر تک رہا، شاہین باغ، پاکستان، دہشت گردی، ہندوؤں کو شاہین باغ والوں سے خوفزدہ کرنا وغیرہ فرقہ وارانہ نعروں نے دہلی کے عام لوگوں کو بی جے پی سے متنفر کر دیا۔
اس کے مقابل عام آدمی پارٹی نے ہر اس جملے سے احتراز کیا جس سے فرقہ پرستی کا تاثر ملے۔ بی جے پی اور میڈیا والوں کے ذریعے ورغلانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے لیڈرز ہندو مسلم سے متعلق حساس موضوعات پر کسی طرح کی بیان بازی سے باز رہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک ریاستی الیکشن ہے ہمیں اس ریاست سے متعلق موضوعات پر گفتگو کرنی چاہئے۔ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں اسکول، محلہ کلینک، بجلی پانی سڑک بس سروس سی سی ٹی وی کیمرے وغیرہ جیسے کام کۓ ہیں جن سے عوام بالخصوص متوسط و ادنی طبقے کے لوگ بخوبی مستفید ہو رہے ہیں ۔ اگر ہماری پارٹی کی حکومت نے کام کیا ہے تو کام کی بنیاد پر ہمیں ووٹ دیں تاکہ وہ کام حسب معمول جاری رہ سکیں اور اگر آپ نے ایک بار پھر موقع دیا تو ہم مزید کام کر کے دہلی کو ایک اچھا ویلفیئر اسٹیٹ بنا سکیں گے۔ جو کام آنے والے پانچ سالوں میں ہمیں کرنا ہے وہ محض انتخابی منشور کے کھوکھلے وعدے نہیں ہوں گے اسی لئے ہم مینی فیسٹو کی بجائے آپ کو گارنٹی کارڈ دے رہے ہیں۔
میرے خیال میں یہ عین وقت ہے کہ ہر شہری اپنی اپنی ریاستوں میں اس طرز پر "کام کی سیاست” کی بنیاد رکھے۔ "کام کی سیاست” کی پارٹی تشکیل دے یا موجودہ پارٹی اور حکومت کو کام کی سیاست کی کسوٹی پر پرکھے۔ ہندو مسلم ، مسلم، یادو، دلت، اگاڑی پچھڑی بیک ورڈ فارورڈ اقلیت اور اکثریت کی سیاست کو بائ بائ کہ کر نۓ دور کا آغاز کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا میں یوں طوفان برپا ہوگیا ، جیسے یہ عام انتخابات (لوک سبھا) کے نتائج ہوں۔ مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے فیصلوں کے بعد بھی اتنا جوش خروش نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر میں CAA، NPR اور NRC کے خلاف تحریکوں اور اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف صوبوں بطور خاص اتر پردیش میں جس طرح احتجاج کرنے والوں پر یوگی سرکار کا قہر برسا، اس نے ہندوستان کی عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا۔اگر یہ کہا جائے کہ دہلی ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کا مرکز رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں دہلی پولیس کی بربریت ، پھر جے این یو کے طلبا پر نقاب پوشوں کا حملہ ، شاہین باغ کے مظاہرے کا قیام، گوپال شرما اور کپل گجر کے ذریعہ جامعہ اور شاہین باغ پر گولی باری جیسے کئی واقعات پے درپے ہوئے تو دوسری طرف اسی دہلی میں مرکزی سرکار کے وزرا اور بی جے پی نے مظاہرین کا حوصلہ پست کرنے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی چرکے لگائے، بطور خاص شاہین باغ کو ٹارگیٹ بنا لیا گیا۔ اس اختلاف میں بی جے پی نے اپنے ترکش کے تمام تیر آزمالیے، تمام اخلاقی حدود توڑ دیے ، حتیٰ کہ عوامی نمائندوں نے اپنے عہدوں کے وقار تک کو اپنے ہی پاؤں تلے روند دیا۔ کبھی وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی، کبھی اس کے مرکزی وزرا نے "گولی مارو” کے نعرے لگا کر اپنے بھکتوں کو فرقہ وارانہ دنگوں کے لیے اُکسایا، کبھی شاہین باغ کو منی پاکستان کہا گیا اور کبھی انھیں ریپسٹ اور لٹیرا کہا گیا۔ اس پورے پس منظر میں مرکزی سرکار، خود وزیر اعظم اور دہلی پولیس کی خاموشی اور بے حسی نے نفرت کے ان شعلوں کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔ نتیجتاً شاہین باغ ظلم و جبر کے خلاف پورے ملک میں ایک استعارہ بنتا چلا گیا اور اس طرح پورے ملک کی عوام دہلی سے جذباتی طور پر جڑتی چلی گئی۔ یہ وابستگی روز بہ روز اتنی بڑھتی چلی گئی کہ ایک وقت آیا جب دہلی سے ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھا شخص بھی خود کو شاہین باغ کی عورتوں اور جامعہ ملیہ کے طلبا کے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ دہلی کی ہر چیخ میں اس کی آواز شامل ہوتی چلی گئی ، حتیٰ کہ ملک کے مختلف شہروں سےلوگ بھی یہاں پہنچنے لگے جن میں پنجاب کے سکھ مردوں اور عورتوں پر مشتمل سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کو دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ، انھوں نے بوکھلاہٹ میں دہلی الیکشن کو "ہندوستان بنام پاکستان” قرار دے دیا ، امیت شاہ نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ نریندر مودی نے بھی شاہین باغ کو دہلی الیکشن کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنے وزارت عظمیٰ کے وقار کو خاک میں ملادیا۔ اس پس منظر میں اب دہلی کا الیکشن صرف دہلی کا نہیں رہا، پورے ہندوستان کا بن گیا۔ اب یہ کوئی صوبائی الیکشن نہیں رہا بلکہ دو بیانیوں (Narratives) کے درمیان کی جنگ ہوگئی جس کا فیصلہ 11 فروری کو ہونا تھا کہ اس ملک کو کس طرف جانا ہے اور کیسے جانا ہے؟ چنانچہ تماشہ ہوا اور خوب جم کر ہوا، پورا ملک سانس روکے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جس میں بی جے پی نے فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام اہم لیڈروں کو جھونک دیا ، یعنی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ اپنے 200 سے زائد پارلیمنٹ ممبر، مختلف صوبوں کے 11وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ اور متعدد مرکزی وزرا کی فوج کو اپنے قریبی حریف اروند کیجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں کھڑی کردی۔ بی جے پی نے ایسا زبردست محاذ نہ مہاراشٹر میں کھڑا کیا تھا، نہ جھاڑ کھنڈ میں؛ اس کی وجہ صاف ہے کہ دہلی کا اسمبلی الیکشن صرف کسی ایک صوبے کو جیتنے سے زیادہ تھا، یہ الیکشن بی جے پی کے نظریاتی وجود کی بقا سے منسلک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو صرف دہلی میں ہی اس کا جشن نہیں منایا گیا بلکہ ہندوستان کی عوام نے اطمینان کی لمبی سانس چھوڑی اور اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔
نتائج آنے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا میں اس پر گفتگو کا دور شروع ہوا، مختلف نقطہ نظر سے ان نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے کچھ تجزیے مختلف و متضاد دلائل پر مبنی ہیں لیکن زیادہ تر بحثیں جذباتی اور ہنگامی ہیں ۔ اگر ان تمام بحثوں اور دعوؤں کو نچوڑا جائے تو اس سے تین بڑے سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں:
(1) کیا دہلی کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کے بیانیے کو ختم کردیا ہے یا اس پر لگام لگا دیا ہے؟
(2) کیا عام آدمی پارٹی کی جیت میں شاہین باغ کے مظاہرے کی شراکت صفر تھی؟
(3) کیا ان نتائج نے اروند کیجریوال کو ہندوستانی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر مستحکم کیا ہے؟
فی الحال ہم انھی تین سوالوں کو اس تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں ، بقیہ ضمنی نکات پر پھر کبھی ہم گفتگو کرلیں گے۔
پہلے سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ دہلی الیکشن کے نتائج نے نہ تو بی جے پی کے بیانیے کو ختم کیا اور نہ اس پر لگام لگائی ہے اور نہ بی جے پی دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اپنا لائن آف ایکشن بدلنے والی ہے اور نہ وہ بیانیہ جس پر اس کا وجود قائم ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو خود دہلی کے نتائج ہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بلاشبہ 62 سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن 2015 کے مقابلے میں 5 سیٹیں کم ہیں اور ووٹ میں ایک فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کو 2015 کے مقابلے اس الیکشن میں 5 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے اور اس کے 5 فیصد ووٹوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی کی ان سیٹوں پر ہی زیادہ تر کامیابی حاصل کی ہے جہاں اترپردیش ، بہار اور جھاڑ کھنڈ کے لوگوں کی اکثریت ہے، گویا بی جے پی کی ان سیٹوں پر جیت بتا رہی ہے کہ وہ بے شک دہلی الیکشن میں ہار ضرور گئی ہے لیکن ملک گیر سطح پر اس کا بیانیہ کمزور نہیں پڑا بلکہ اسے قدرے مضبوطی بھی ملی ہے۔مذہبی بنیادوں پر بی جے پی کی سیاست نے اس الیکشن میں اروند کیجریوال کو بھی متاثر کیا اور انھیں بھی اپنی دفاع میں "جے شری رام ” کے سامنے "بجرنگ بلی” کو کھڑا کرنا پڑا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسا کیا لیکن بہرحال انھیں بیک فٹ ہو کر اپنا بچاؤ اسی قسم کی سیاست سے کرنا پڑا جو صرف بی جے پی کے لیے مخصوص ہے۔ گویا نہ چاہتے ہوئے بھی اروند کیجریوال کو بی جے پی کے بیانہ میں شراکت کرنی پڑی اور انھیں خود کو ہندو ثابت کرنے کے لیے "ہنومان چالیسا” تک پڑھنا پڑا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی نے اروندکیجریوال کا وہی حشر کیا جو کافی پہلے اس نے انھی خطوط پر چل کر کانگریس کا کیا تھا ۔
یاد کیجیے ان دنوں کو،جب بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بولا کہ وہ ہندو مخالف پارٹی ہے اوروہ صرف مسلمانوں کے ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے تو کانگریس کے لیڈر کس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اکثریتی ووٹ کی زمین کھینچی جارہی ہے ۔چنانچہ کانگریس کو اپنی امیج کو درست کرنے کے لیے کانگریس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ یہ افواہ ہے، وہ مسلم پارٹی نہیں ہے اور اس کے بعد اس نے آنے والے دنوں میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے ان اقدام سے اس نظریے کو تقویت ملی کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں یا کسی دوسری اقلیت کے حقوق کے لیے لڑنا کسی سیاسی پارٹی کا لڑنا شرمندگی اور بدنامی کا باعث ہے۔ چنانچہ کانگریس اپنی امیج بدلنے کی کوشش کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یقین کھوتی چلی گئی جو اب تک وہ بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی نے بالکل اسی طرح کا وار دہلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے ساتھ کیا، انھیں پاکستانی دلال کہا، آتنک وادی کہا، شاہین باغ میں بریانی پہنچانے والا ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سرپرستی کرنے والا کہا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال بھی بیک فٹ پر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک بیان دے دیا کہ اگر دہلی پولیس ان کی ماتحتی میں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔ شاہین باغ کی عورتوں کے دل ٹوٹے لیکن یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ممکن ہے کہ ان کی یہ چناوی حکمت عملی ہو۔ لیکن جب نتائج سامنے آگئے تو میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے قد آور لیڈر سنجے سنگھ کا دل ٹٹولتے ہوئے پوچھا کہ اب نتائج سامنے آچکے ہیں تو پھر کیا اروندکیجریوال شاہین باغ جائیں گے؟ اس کے جواب میں سنجے سنگھ صرف آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے 7 صوبوں کی اسمبلیوں کی طرز پر دہلی کی اسمبلی میں CAA، NPRاور NRCکے خلاف قرار داد پاس کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے دہلی میں جامعہ، جے این یو اور شاہین باغ پر ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی، سرکار اور دہلی پولیس کو ٹوئیٹ کرکے پھٹکار بھی لگائی لیکن زمینی سطح پر اسے محض رسمی کاروائی ہی سمجھا جائے گا ۔ اس کے برخلاف پرینکا گاندھی کا ردعمل ذرا مختلف نظر آیا ، وہ نہ صرف جامعہ کے طلبا سے ملیں، انھوں نے دھرنا دیا ، صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دیا، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تشکیل کی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر زخمیوں اور مقتولین کے پریواروں سے ملاقات بھی کی اور انھیں فوری راحت بھی پہنچائی۔
اروند کیجریوال ، عام آدمی پارٹی کے دوسرے لیڈر اور اسی رو میں بہہ جانے والے ان کے حمایتی بھی چناؤ کے درمیان یہی تاثر دینے لگے کہ شاہین باغ کا اس الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے لیےکوئی ایشو ہے۔ اسے بھی عام آدمی پارٹی کی چناوی حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا ، جب کہ اس کے برخلاف بی جے پی نے دہلی الیکشن شاہین باغ کے ہی ایشو پر لڑا۔ نتائج آنے کے بعد سنجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا داؤ الٹا پڑا اور لوگوں نے شاہین باغ کو خواہ مخواہ ایشو بنانے پر عام آدمی پارٹی کوو وٹ دے دیا۔ گویا ناک گھما کر پکڑی جارہی ہے۔ اگر شاہین باغ ایشو ہی نہیں تھا تو داؤ کیسے الٹا پڑا؟ شاہین باغ پر بی جے پی کے جارحانہ اسٹینڈ کی مخالفت میں عوام کا غصہ بھی تو شامل تھا جو دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے ووٹوں کی شکل میں کیش ہوا۔ جن گالیوں کے زہر کا گھونٹ شاہین باغ کی عورتوں نے صبر سے پی لیا تھا، جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو پاکستانی،غدار، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر پولیس نے ان پر جم کر تشدد کیا، جس طرح کھلے عام گوپال شرما اور کپل گجر کی گولیوں کے جواب میں ہاتھوں میں ترنگا لہراتا رہا اور زبان پر انقلاب زندہ بعد کے نعرے ہی گونجتے رہے، کیا واقعی اس کا دہلی کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اوکھلا میں، جہاں جامعہ اور شاہین باغ کے علاقے واقع ہیں، وہاں 80 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے جو دہلی کے تمام علاقوں میں ہونے والی فیصد سے کافی زیادہ ہے، حتیٰ کہ خود اروند کیجریوال کے علاقے میں ووٹ کی فیصد بھی اوکھلا کی فیصد سے کم تھی اور دوسری طرف دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش ششودیا تو بیچارے ہارتے ہارتے بچے، اور بہت کم ووٹوں سے انھیں کامیابی ملی۔ خود اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اوکھلا علاقے میں ایک کافی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کھل کر اعتراف کیا کہ یہ شاہین باغ کی جیت ہے، لیکن آخر یہ ہمت اور یہ اعتراف عام آدمی پارٹی کے بڑے نیتاؤں میں کیوں نہیں نظر آ رہی ہے، وہ شاہین باغ کو Discredit کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی میں کام کیا اور بنیادی طور پر اپنی رپورٹ کارڈ کے بل پر ہی انھیں کامیابی ملی ہے لیکن انھیں اتنی شاندار کامیابی ہرگز نہ ملتی ، اگر اس میں شاہین باغ ، جامعہ اور جے این یو کے اثرات کی شراکت نہ ہوتی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کو الیکشن سے پہلے ، اس کے پرچار کے دوران اور الیکشن کے بعد کناٹ پیلس کے ہنومان مندر جا کر اور نیشنل میڈیا میں ہنومان چالیسا سنانے سے عار نہیں ہے تو شاہین باغ جانے میں کیسی قباحت ؟ کیا شاہین باغ کسی مسجد کا نام ہے، کیا شاہین باغ میں کوئی مذہبی اجتماع چل رہا ہے؟ کیا اروند کیجریوال نہیں جانتے کہ پنجاب کے سینکڑوں سکھوں اور وہاں ہَون کرانے والے ہزاروں ہندوؤں، کشمیری پنڈتوں، چرچ کے نمائندوں کی موجودگی نے شاہین باغ کو ہندوستان کی یک جہتی کا ایسا استعارہ نہیں بنادیا جو ایک طرح سے اب پورے ہندوستانی عوام کے لیے "تیرتھ استھان” کا روپ دھارتا چلا جا رہا ہے۔ پرینکا گاندھی جامعہ کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال کا دورہ کرسکتی ہیں، اتر پردیش جا کر زخمیوں سے ملاقات کرسکتی ہیں، مقتولین کے پسماندگان کی دلجوئی کرسکتی ہیں لیکن آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے بھی جامعہ اور جے این یو کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال تک پہنچنے کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اروند کیجریوال کی پوری سیاست صرف ووٹ کی سیاست کے گرد گھومتی ہے جو ظاہر ہے موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے؟ اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست سے ہندوستان کو متعارف کرایا ہے ، خود کیجریوال نے اس سیاست کو نام دیا ہے: "کام کی سیاست۔” اسی بنیاد پر اب کچھ مبصرین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دہلی کے الیکشن کے نتائج نے اروند کیجریوال کا چہرہ مرکزی سیاست میں متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے، یعنی وہ نریندر مودی کا ایک مضبوط متبادل ہوسکتے ہیں۔ چلیے اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔
فیس بک میں موجود ایک تجزیہ کار پنکج مشرا کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اروند کیجریوال "ٹی 20 "کے کھلاڑی ہیں، ٹیسٹ میچ کے نہیں، لہٰذا وہ ہمیں بہت مطمئن نہیں کرتے۔ بلاشبہ کیجریوال نے دہلی الیکشن میں ایک زبردست جیت حاصل کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی اس جیت سے narrative بدلنے والا نہیں ہے، چونکہ خود اروند کیجریوال نے محتاط طریقے سے اکثریت کی ہی سیاست کی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں "اسٹریٹ اسمارٹ” قسم کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا بی جے پی انھیں بار بار اپنی طرف کھینچتی رہی اور وہ ہاتھ چھڑا کر پھر اسی پالے میں دوسری طرف کبڈی کبڈی کرنے لگے۔ بی جے پی کو اپنے "مرکزی بیانیے” پر کیجریوال کی خاموش سیاست عزیز ہے، مثلاً جس طرح وہ تین طلاق پر خاموش رہے یا گول مول اسٹینڈ لیا ، یا CAA کے معاملے میں کیا، یا پھر 370 کے وقت کیا۔ ریزرویشن جیسے ایشوز پر بھی کیجریوال کی خاموشی بی جے پی کو پسند ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ہندو اور مسلم ووٹ تو بی جے کی مخالفت کے نام پر انھیں مل ہی جائیں گے جہاں وہ براہ راست مقابلے میں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی غنیمت ہے جو اس کے کلیدی narrative پر براہ راست اثر انداز نہیں ہونے والی۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں کم از کم ایک آواز کم ہوجاتی ہے۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ خود عام آدمی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ "اسٹریٹ اسمارٹ پارٹی” ہوگی۔ اس نے پروفیشنل اور تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے "اسٹریٹ اسمارٹٗ "لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ ایسے لوگ اقداری سیاست کی بجائے مقداری سیاست کرتے ہیں یعنی منافع پر مبنی سیاست کے خوگر ہوتے ہیں۔ لہٰذا پارٹی نے سب سے پہلے اقدار پر مبنی سیاست اور کسی حد تک نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے لوگوں کو کنارے کیا کیوں کہ وہ فوری منافع حاصل کرنے والی مقبولیت و شہرت پسند سیاست (Populist Politics) پر بغیر غور و فکر کیے مہر لگانے کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔
کیجریوال کے کام کے طریقوں سے اتنا واضح ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آمر (Authoritarian) ہیں۔ انھیں سُر ملانے والے لوگ ہی پسند ہیں، لہٰذا انھوں نے جلدہی ٹھیک ٹھاک لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔
یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست میں نیا ہونے کے ناطے، کیجریوال کو اگلی دس نسلوں کو سیاست کے ذریعے آباد کرنے کا کاروبار کرنا ابھی نہیں آتا۔ یہ خوبی دھیرے دھیرے ہی پروان چڑھتی ہے۔ ان میں بھی دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ چونکہ انھوں نے ایمانداری کو اپنا USP بنایا ہے، لہٰذا وہ اور بھی زیادہ آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال اروندو کیجریوال نے جس طرح کی سیاست کا دامن پکڑا ہے، دیر سویر انھیں اسی سمت لے جائے گی، وہ کوئی نیا راستہ بنانے نہیں جا رہے ہیں۔
چونکہ یہ اسٹریٹ اسمارٹ لوگ ہیں ، لہٰذا انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس ملک کی عوام کو اتنی بار دھوکا دیا گیا ہے، اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ یہ تک بھول چکی ہے کہ جمہوریت میں عوامی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، سب اپنی جھولی بھرنے آئے ہیں، اور یہ کہ سیاست کا مطلب صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اپنا الّوسیدھا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بے یقینی کے ماحول میں اگر عوام کے ان مغالطوں کو سسٹم کے بنیادی ڈھانچے کو چھوئے بغیر اور بڑے کارپوریٹس سے ٹکرائے بنا تھوڑا بہت بھی دور کردیا جائے تو ظاہر ہے وہ ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا چراغ جلانے کے مترادف ہوگا جو عوام کے لیے کسی مرکری ٹیوب لائٹ سے زیادہ روشن ہوگا۔
دہلی ایک متمول ریاست ہے جہاں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لہٰذا کیجریوال کو ایسے کاموں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سرکاری اسکول، جو کبھی تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی تھے،اسے بہتر کیا گیا،بجلی اور پانی جیسے بنیادی ضرورتوں میں بہتری لائی گئی، پرائمری ہیلتھ سنٹر کے منہدم ڈھانچے کو محلہ کلینک بنادیا گیا۔ وائی فائی، کیمرے وغیرہ اسی طرح کے مقبولیت پسند کام ہیں جن کی تشہیر کی جاسکتی تھی۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کیجریوال کس طرح کی متبادل سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا ملک کیسا ہے، وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ابھی وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ایگزیکٹیویا زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی (Bureaucracy) نوعیت کا کام ہے، وہ اپنی حدود میں اچھی انتظامیہ دے رہے ہیں، لیکن سیاست بنیادی طور پر قانون سازی اور نظری بصارت کا نام ہے جو ان میں نظر نہیں آتی ہے۔
اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھیں نااہل قرار دے دیا جائے یا دہلی میں ان کی شاندار جیت کو کمتر کرکے آنکا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست ہمیں "کم برے” (Better Evil) کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتخابات؛ مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقابلی مطالعے کے ایک موقعہ سوا کچھ نہیں ہیں۔ تقابلی طور پر دیکھیں تو فی الحال ایک طرف تفرقہ بازی کی سیاست ہے اور دوسری طرف ایک ایسی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بنیاد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انحطاط اور کرپٹ سیاست کے دور میں، جب دکھی عوام مایوسی اور سیاست کے ایک طویل عرصے سے گزر رہی ہو، تو ایسی چھوٹی چھوٹی سیاسی فلاحی جماعتیں بھی ایک بڑی راحت ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ایسی فلاحی سیاسی جماعتیں جو کام کریں گی، اس سے زیادہ اس کام کی تشہیر کریں گی، لیکن ان کی ضرورت عوام کو اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ سیاست میں کم از کم عوامی مفاد اور ان کی بہتر زندگی کو ایک ایشو کی حیثیت سے مضبوطی مل جائے گی۔ اگرعوامی مسائل سیاسی ایشو بنیں گے تو لوگوں کی امنگوں میں اضافہ ہوگا اورلیڈروں کو بھی اس پر قائم رہنا پڑے گا۔ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم اروند کیجریوال کی سیاست زہر کاشت کرنے والی نہیں ہے،معاشرتی ڈھانچے میں ہم آہنگی کوختم کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چالاک لوگ ہیں لیکن مکار نہیں ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج میں عام آدمی پارٹی نے زبردست جیت حاصل کی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مرکزمیں رہاشاہین باغ علاقے اوکھلا اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اوکھلا اسمبلی حلقہ سے آپ امیدوار امانت اللہ خان 77ہزارووٹوں سے جیت گئے ہیں۔آپ امیدوار امانت اللہ خان نے بی جے پی اور وزیر داخلہ امت شاہ پر جم کر حملہ بولاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ دہلی کی عوام نے آج بی جے پی اور امت شاہ جی کو کرنٹ لگانے کا کام کیا ہے، یہ کام کی جیت ہوئی ہے اور نفرت کی شکست۔ میں نے نہیں عوام نے ریکارڈ توڑاہے۔غور طلب ہے کہ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی میں ایک انتخابی جلسے میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ کمل جب بٹن دبانا تو اتنے غصے میں کہ بٹن شکور بستی میں دبے اور کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔انہوں نے کہا تھا کہ سی اے اے کی مخالفت کرنے والے ہر شخص تک آواز جانی چاہیے۔اب دوخیمے تقسیم ہوچکے ہیں۔ایک طرف مودی ہیں جنہوں نے پاکستان کے گھر میں گھس کرسرجیکل اسٹرائیک کیا۔ان کی پارٹی بی جے پی ملک کی خدمت کے لیے ہے اوردوسری طرف آپ اورکانگریس ہیں۔ امت شاہ نے لوگوں سے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ بھی لگوایاتھا۔
تحریر: پِریتیش نندی(مشہور انگریزی صحافی)
[email protected]
مترجم: رئیس صِدّیقی
سابق آئی بی ایس(آکاشوانی / دوردرشن)
عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کی رحلت کے پندرہ ماہ بعد انکی ۵۷ ویں سالگرہ پر، 13/ فروری ۶۸۹۱ کو لاہور کے الحمرہ آرٹ کونسل میں منعقدہ پروگرام میں مقبول گلو کارہ اقبال بانو سیاہ رنگ کی ساڑی پہن کر آئیں۔جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں کالا رنگ احتجاج اور ساڑی غیر اسلامی مانی جاتی تھی۔
اقبال بانو نے یہاں موجود پچاس ہزار لوگوں کے سامنے فیض کی سب سے یاد گار نظم ہم دیکھیں گے کو اپنی آواز میں پیش کیا۔ اس وقت فیض کے کلام کو عوامی پلیٹ فارم پر گانا ممنوع تھا اورہم دیکھیں گے تو تب لکھی گئی تھی، جب جنرل ضیاء اپنی حکمرانی کے عروج پر تھے۔ یہ ایک ایسے شاعر کی جانب سے کھلی للکار تھی جس نے اپنی ساری زندگی سماج کو ہراساں کرنیوالی تانا شاہی کے خلاف کھڑا کر دیاتھا۔
ؒلاہور کے آڈیٹوریم میں جب اقبال بانو کی آواز میں ہم دیکھیں گے کی پہلی لائن کو گایا گیا تو وہاں ایکدم خاموشی تھی اور اسکے بعد حیرت زدہ سامعین نے تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے اس خاموشی کو توڑ دیا۔
یہ جبر زدہ سیاست کو للکارنے کا ایسا موقع تھا جو اس بر اعظم کے عوام کی یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہیگا۔ اس ایک سحر زدہ لمحہ میں اقبال بانو نے اس نظم کو ایک کبھی نہ بھولنے والے احتجاجی ترانہ میں تبدیل کر دیا تھا اور اس وقت کے حکمران کو یہ کھلی چنوتی تھی۔جوں جوں اقبال بانو بلا خوف اسے گاتی رہیں، تالیوں کی آوازیں تیز تر ہوتی گئیں۔ کئی بار تو انہیں اگلا شعر گانے کے لیے تالیوں کی آواز کے شور کو تھمنے تک رکنا پڑتا تھا۔انہی لمحوں میں یہ نظم دنیا بھر میں جابر حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا بینر بن گئی۔ اسٹیج پر دکھایا گیا یہ جوش و خروش آج بھی دنیا بھر میں نوجوانوں کے لئے باعث تحریک بنا ہوا ہے ۔
فیض کی رحلت کے۵۳ سال بعد اآج جنرل ضیاء کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا لیکن سیل فون اور وائرل میڈیا کے اس دور میں بھی ہم دیکھیں گے نوجوان طلباء کے لیئے احتجاج،جرأت،اور تحریک کا دائمی ترانہ بنا ہوا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کوئی بھی سیاست اس عظیم نظم کو مٹا نہیں سکتی۔
میں نے ڈھاکہ میں تحریک آزادی کے دوران بھی ایسا ہوتے دیکھا تھا۔ جب پاکستانی فوج نے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اسکی مخالفت میں اپنے ہر دل عزیز شاعر شمس الرحمان کی نظموں کو کیمپس میں گانا شروع کر دیا تھا۔لیکن کوئی بھی بندوق آزادی کے ان نعروں کو خاموش کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔یہ ایک لفظ ہے جسکو دنیا بھر کے شاعروں نے کئی معنی دئے ہیں۔ اس لئے مجھے اس وقت ذرا بھی تعجب نہیں ہوا جب گذشتہ دنوں ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک، کانپور آئی آئی ٹی میں جامعہ ملیہ کے طلباپر پولس کے حملہ کی مخالفت میں وہاں کے طلباکو ہم دیکھیں گے گاتے ہوئے دیکھا گیا۔ فیض کی یہ نظم آج للکار کا گیت بن گیا ہے۔ یہ وہ گیت ہے جو تانا شاہ حکومت سے لڑ رہے سبھی لوگ گا رہے ہیں۔یہ بات بے معنی ہے کہ اسے پاکستان کے ایک کمیونسٹ شاعر نے لکھا تھا۔ زبان ہم سبکی ہے۔ دنیا بھر کے نو جوان طلبا کے لئے یہ مخالفت اور للکار کے جوش سے لبریز احتجاجی ترانہ ہے۔ کچھ احمق لوگ، جو آج بہت زیادہ ہیں، اس نظم کو ہندو اور دیش مخالف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دونوں باتوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک حکومت مخالف، ظلم مخالف اور فاشسٹ مخالف نظم ہے۔ مخالفت کے بیج تو دبانے کی سیاست کی زرخیز زمین پر ہی پنپتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بہترین نظمیں انہیں ملکوں میں کہی گئیں جو مشکل میں تھے۔چلی کے پابلو نے رودا اسکی مثال ہیں۔ لیکن مخالفت کرنے والے سبھی شاعر اشتراکی نہیں ہیں۔ نوبل انعام یافتہ میکسیکو کے اوکٹا ویو پال نے کمیونسٹ حکمرانوں کی دبانے اور جبر کی روش کے خلاف اتنی ہی مضبوطی سے آواز اٹھائی، جتنے زوردار طریقہ سے کیوبا کے نکولس گوئللین کاسترو حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور بنگال کے بہترین شاعروں میں سے ایک سبھاش مکھوپادھیائے نے اُن نو جوانوں پر نظموں کی ایک کتاب کو شعری جامہ پہنایا جو اپنی پڑھائی چھوڑ کر نکسلوادی تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کی پارٹی نے اس کتاب کو منظور ی نہیں دی لیکن سبھاش مکھوپادھیائے نو جوانوں کے آدرش و آئڈیل بن گئے۔
میں نے برسوں سے طلبا کے مظاہروں کو دیکھا ہے۔ یہ وہ آزادی ہے جو وہ مانگتے ہیں:
پاکھنڈ سے آزادی،جھوٹ سے آزادی، سیاسی چالبازی اور دو منھی و دوغلی باتوں سے آزادی، راشٹرواد پر کھوکھلے بھاشنوں سے آزادی، اسے ہی وہ آزادی کہتے ہیں۔ اس آزادی کے لئے جے این یو کے طلبا نعرے لگاتے ہیں۔ اسکی طاقت کو کبھی کم نہ آنکیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جسے کبھی ملک کی آزادی کے لئے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ آج ہماری ا س حکومت کے خلاف جدوجہد و سنگھرش کی ترجمانی کرتا ہے جو یہ نہیں سمجھتی کہ اس دیش کے لوگ کیا چاہتے ہیں!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:دہلی کے انتخابی موسم میں شاہین باغ پرجم کرسیاست کی گئی اورترقیاتی امورچھوڑکربی جے پی نے بس شاہین باغ کوبدنام کرنے اوراس کاانتخابی فائدہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کی،طرح طرح سے میڈیاٹرائل کیاگیالیکن ان کے عزم میں کمی نہیں آئی بلکہ فائرنگ،اشتعال انگیزیوں،فرقہ پرستوں کی گرفتاریوں کے باوجودان خواتین نے نہایت عزم وحکمت عملی کامظاہرہ کیاہے جس سے متاثرہوکرپورے ملک میں پرامن احتجاج ہورہاہے۔ شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں خاتون مظاہرین نے دہلی میں ہونے والے انتخاب کے ایام کو شاہین باغ کے تعلق سے تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ اب انتخاب ہوچکا ہے امید ہے کہ اب شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں غلط بات نہیں کہی جائے گی۔شاہین باغ خاتون مظاہرین نے کہاکہ دہلی میں جب سے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوا تھا اس وقت تک سے اب تک اس کے بار میں طرح طرح کی باتیں کرکے ہمیں ذہنی طور (مینٹل ٹارچر) پرپریشان کیا گیا۔ کبھی ہمیں 500روپے لیکر بیٹھنی والی بتایا گیا تو کبھی بریانی کھانے والی بتایا گیا۔کبھی گولی چلاکر ہمیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو کبھی کسی کو بھیج کر ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ کبھی جینے کی آزادی کے نعرے کو جناح کی آزادی کا نعرہ کا الزام لگاکر ہمیں ملک کا غدار بتایاگیا۔انہوں نے کہاکہ ہم لوگ سب کچھ سہتے رہے اورپرامن طریقے سے مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم لوگ سمجھ رہی تھیں کہ یہ سب دہلی میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔اب جب کہ الیکشن ختم ہوگیا ہے اور حق رائے دہی کا عمل پورا ہوگیا ہے اب امید ہے کہ ہمارے احتجاج کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کہی جائے گی۔ بلکہ ہماری آواز سنی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ 56ویں دن کے اس دھرنے میں ہمیں تمام لوگوں کا ساتھ ملا ہے اور سب کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ یہ دھرنا دراصل صلح کل اور کل مذاہب کے احترام کی علامت بھی رہا ہے اور تمام طبقوں نے یہاں آکر قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہمارے موقف کی تائید کی ہے اور اس قانون کو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لئے خطرناک بتایا ہے خاص کر دلتوں، قبائیلیوں، بنجاروں اور کمزور طبقوں کے لئے جن کے پاس نہ گھر ہے نہ ہی زمین اور نہ ہی کوئی دستاویزات۔ انہوں نے کہاکہ یہ دھرنا ہر طرح کے نشانے پر ہونے کے باوجود ہر روز کچھ نیا کرتا گیا اور تمام طبقوں کو جوڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ خواتین مظاہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت ان کی آواز کو ضرور سنے گی اور اس قانون میں جو تفریق ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت(ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر مظاہرین نے سات اور آٹھ فروری کو جامعہ کے گیٹ نمبر سات سے مظاہرہ ہٹالیا تھا کل رات سے دوبارہ اسی مقام پر دھرنا شروع ہوگیا ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔کل دیر رات مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے سابق وزیر سلمان خورشید جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مظاہرہ پر پہنچے اور مظاہرین کا حوصلہ بڑھایا۔ اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جارہاہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ مسلسل جاری ہے اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے،نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے جس میں شیو مندر سے بھی مدد لے لی جاتی ہے۔اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج جاری ہے اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اجمیر اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ ملک میں اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے۔ وہاں 19دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔بلیریا گنج (اعظم گڑھ) میں پرامن طریقے سے دھرنا دینے والی خواتین پر پولیس نے حملہ کردیا تھا اور مولانا طاہر مدنی سمیت 20سے زائد خواتین پر ملک سے غداری سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں اس میں ایک نابالغ بھی شامل ہے۔ایف آئی آر، ملک سے غداری کامقدمہ،دھمکی اور دباؤ کے باوجود خواتین گھنٹہ گھر میں اور دیگر مقامات پر مظاہرہ کر رہی ہیں ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے دیگر مقامات کے علاوہ ارریہ کے جوگبنی میں بھی خواتین کا مظاہرہ جاری ہے، اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔بھاگلپور میں بھی احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ سہسرام میں بھائی خاں کے باغ میں 15ویں دن سے دھرنا جاری ہے۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔
علی گڑھ:ضلع کے دہلی گیٹ تھاناعلاقے میں عید گاہ کے قریب غیر معینہ دھرنے پر بیٹھے ایک ہزار لوگوں کو ضلع انتظامیہ نے نوٹس جاری کرکے وضاحت طلب ہے کہ حکم کی خلاف ورزی کرنے کے لیے کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے؟ دھرنا دینے والوں میں زیادہ تر خواتین ہیں۔سٹی مجسٹریٹ ونیت کمار سنگھ نے کہا کہ اگر سات دن کے اندر اندر مذکورہ لوگوں کا تسلی بخش جواب نہیں آیا تو ان کے خلاف تعزیرات ہند کی متعلقہ دفعات کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی۔شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کی مخالفت کر رہی سینکڑوں خواتین گزشتہ ہفتے بھر سے دھرنے پر بیٹھی ہیں۔بدھ کو دھرنے میں اس وقت افراتفری مچ گئی جب ایک آوارہ بیل مظاہرین کے درمیان گھس آیاجس میں 20 سالہ ایک لڑکی زخمی ہو گئی۔موقع پر تعینات ایک پولیس اہلکار نے کسی طرح بیل بھیڑ سے باہر بھگایا۔وہاں خواتین کے ساتھ بچے بھی تھے۔ واقعہ میں کچھ دیگر خواتین کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔زخمی لڑکی کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کچھ مظاہرین نے پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ان کا الزام تھا کہ بیل کوجان بوجھ کر بھیڑ کی طرف بھگایا گیا تاکہ مظاہرین کو ڈرایا جا سکے۔موقع پرتعینات پولیس اہلکاروں نے اس سے انکارکیاہے۔
( ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد،)
وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے 6/فروری 2020ء کو لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبہ کے جواب میں اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کا تیقن دیتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون سے کسی بھی ہندوستانی چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ‘ عیسائی ہو یا جین، بدھ اس کی شہریت چھینی نہیں جائے گی۔ ان کے لئے ہر شہری صرف ہندوستانی ہے‘ کانگریس کے لئے یہ شہری ہندو یا مسلمان ہیں۔ ایوان پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کی اہمیت اس لحاظ سے ہوتی ہے کہ ہر لفظ باقاعدہ ریکارڈ میں شامل ہوتا ہے۔ رسمی تقریر سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اپوزیشن نے وزیر اعظم کی تقریر کو ”الف لیلوی داستان“ کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ سوائے بی جے پی کے کوئی اور ملک میں مذہبی تفریق کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے‘ ہمیشہ رہے گا۔ عہدہ کے اعتبار سے وزیر اعظم کی اپنی ذمہ داری ہے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ مگر ان کے وزراء اور پارٹی لیڈرس کا زہر آلود لہجہ، اشتعال انگیز بیانات اور مسلم دشمن رویہ شرمناک رہا ہے۔
عام ہندوستانی کے لئے ایک طرف وزیر اعظم کی تقریر اس میں کئے گئے وعدوؤں اور تیقنات پر غور و فکر کرنے‘ یقین کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ ساتھ ہی وہ وزیر اعظم کی تقریر کو اپوزیشن کی تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ تیقنات، دعوے، وعدے دہلی الیکشن سے کچھ گھنٹوں پہلے ہوئے ہیں اس کا کیا اثر ہوگا وہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ البتہ یہ بات طئے ہے کہ بی جے پی قائدین نے حالیہ عرصہ کے دوران جو رویہ، لب و لہجہ اختیار کیا وہ شرمناک رہا ہے۔
دارالحکومت میں اقتدار کے لئے وہ جتنا گرسکتے تھے‘ گرچکے۔ عوام کی نظروں سے تو پہلے گرچکے تھے‘ اپنی نظروں سے اس لئے نہیں گریں گے کہ گراوٹ ہی ان کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ ان کی بدبختی ہے۔ ان کی ہر کوشش‘ ہر سازش ناکام ہورہی ہے۔ ہر نشانہ چوک رہا ہے۔ ان کا ہر حربہ عوام سمجھنے لگے ہیں‘ وہ جو کہتے ہیں اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ کیوں کہ عوام جان چکے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پتلے ہیں۔ کلاکار ہیں۔ اداکار ہیں۔ بازی گر ہیں اور ایسے جادوگر کہ انہی کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سیاسی مفادات کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ گولیاں چلائی جارہی ہیں‘ اور اس کے الزام اپوزیشن پر لگائے جارہے ہیں۔ پہلے الزام لگایا گیا کہ پیسہ لے کر خواتین احتجاج کررہی ہے جب ایماندار، فرض شناس، میڈیا نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا تو اپنی ایک خاتون کارکن کو برقع پہناکر ان خواتین میں پہنچادیا گیا تاکہ اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ غلط سلط باتیں منظر عام پر لائی جائیں۔ مگر یہاں بھی وہ مات کھاگئے۔ کیوں کہ انہوں نے اس مرتبہ شاہین باغ کی خواتین سے متعلق اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ یہ خواتین جو لگ بھگ دو مہینوں سے اپنے گھروں کے چین و سکون کو قربان کرکے اپنے بعض ارکان خاندان کی ناراضگی کے باوجود ایک عظیم مقصد کے لئے چٹان کی طرح ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ صرف نعرے نہیں لگارہی ہیں‘ بلکہ انہوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور مسلسل تھکن‘ آنے والے حالات کے اندیشوں کے باوجود اپنے دماغوں کو روشن رکھا ہے۔ شاہین باغ دہلی کی خواتین کی چوکسی نے سنگھی پریوار کی گونجا کپور کی سازش کو بے نقاب کیا۔ اس سے پہلے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے پاس بھی احتجاج دھرنے میں شامل ہونے والی اس سنگھی پریوار کی مہیلا کو اِسی طرح پکڑا گیا تھا۔ فرض شناس میڈیا نے شاہین باغ کی باعزت خواتین کو سلام کیا جس نے اپنے دشمن کی حفاظت کی اور اُسے پوری سلامتی کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا۔ وہی پولیس جس نے جامعہ کے طلبہ پر گولی چلانے والے گوپال کے ساتھ شفقت آمیز سلوک کیا۔ جو شاہین باغ کے پاس فائرنگ کرنے والے کپل گوجر کو بھی پوری محبت کے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا رشتہ عام آدمی پارٹی سے جوڑ دیا۔ جبکہ کپل کے باپ نے علی الاعلان یہ کہہ دیا ہے کہ عام آدمی پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا بیٹا مودی کا بھکت ہے۔ دہلی پولیس کی جانب داری اور عام آدمی پارٹی کیساتھ ان کا امتیازی سلوک کا پردہ بھی فاش ہوگیا جب الیکشن کمیشن نے یہاں کے ڈی سی پی کو الیکشن ڈیوٹی سے ہٹادیا۔ویسے بھی دہلی پولیس جامعہ ملیہ واقعہ اور شاہین باغ کے معاملہ میں اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ خاکی وردے پر لگے داغ مٹنے کے لئے ایک طویل عرصہ لگ جائے گا۔ جہاں تک شاہین باغ میں برقع پہن کر جانے والی گونجا کپور کی جگہ اگر کوئی مسلم خاتون آر ایس ایس کی ریالی یا بی جے پی کی کسی خفیہ میٹنگ میں نظر آتی تو اُسے کسی دشمن ملک سے جوڑ دیا جاتا۔ گونجا کپور کو تو جو ایک یوٹیوب چیانل چلاتی ہے‘ جو اپنے چہرے سے ہی عیار اور مکار نظر آتی ہے۔ آزاد کردیا گیا اور یہ احسان فراموش جسے صحیح سلامت شاہین باغ کی خواتین نے وہاں سے جانے دیا۔ ایک بار پھر گمراہ کن پروپگنڈہ میں مصروف ہوگئی ہے جس سے ان کے ذہن فکر اور اخلاق اور اقدار اور آنے والے دنوں میں ان کے عزائم کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ موجودہ حالات ہمیں مستقبل کے اندیشوں سے خوفزدہ کررہے ہیں۔ اس لئے کہ جمہوریت کے چاروں ستون ہمارے خلاف کام کررہے ہیں۔ جہاں ہمارے مخالفین کی حکومت ہے وہاں بھی وہی حال ہے‘ اور جہاں ہمارے نام نہاد دوستوں کاراج ہے وہاں بھی کم از کم پولیس اور انصاف کے اداروں کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ اس لئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کھلا دشمن زیادہ خطرناک ہے یا سیکولرزم کے لبادے میں۔ہماری تاریخ کے اوراق ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمت بندھاتے ہیں کہ ہر دور میں ہر قوم ہماری دشمن رہی۔ حالات ہمیشہ آزمائشی رہیں۔ نشیب و فراز آتے رہے‘ کئی بار ہم بلندی پر پہنچے مگر وہاں ڈٹے رہنے کی کوشش نہیں کی۔ جب اللہ رب العزت نے ہمیں تمام نعمتوں سے سرفراز کیا تو ہم نے اس کاشکر ادا کرنے کے بجائے فخر کیا۔ اس کے دین کو پھیلانے کے بجائے ہم نے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کے دین کو اختیار کیا۔ اپنے اقتدار کے لئے ہر قسم کے سمجھوتے کئے۔ جس کردار اور اخلاق کی بدولت ہمیں اقتدار ملا تھا اُس اخلاق اور کردار کا دامن ہم نے چھوڑا اور جنہوں نے اُسے تھاما انہیں اقتدار بھی مل گئی۔ ہم بلند و بالا عمارتیں بناتے رہے‘ اپنی حرم سراؤں کو آباد کرتے رہے‘ اِن عمارتوں پر ایک ہم ہی کیا‘ سبھی فخر کرتے ہیں مگر جن کے ساتھ ہم نے رشتے بنائے تھے آج وہ ترشول کے امیتابھ کی طرح باغی بن کر ہم ہی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔
جو حالات آج کے ہیں‘ وہ اس لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں مختلف ہیں کہ پہلے ہماری نسل کشی بھی کی جاتی رہی اور ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہماری دکانوں، مکانوں اور اداروں کو تہس نہس کیاجاتارہا۔ ملازمتوں سے محروم کیا گیا۔ اس کے باوجود ہم دوبارہ اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہونے میں کامیاب رہے۔اس مرتبہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔شاید وہ کامیاب بھی ہوجاتے مگر اس مرتبہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہوئی ہے۔ اس نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اسے جینابھی یہیں ہے اور پیوند خاک بھی یہیں پر ہونا ہے۔ اس جذبہ کی بیداری نے انسانی خوف کو دلوں سے نکال دیا ہے اور اس کی جگہ خوفِ نے خدا لے لی ہے۔ اور جب خوف خدا پیدا ہوتا ہے اور انسانوں کا ڈر نکل جاتا ہے توہم ایک بار پھر ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔انشاء اللہ
اس کیلئے شاہین باغ کی خواتین کی طرح چوکسی اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اِن خواتین کو ان کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی مدد بھی ضروری ہے بلکہ ہر فرد کو دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ احتجاج کب تک جاری رہے گا‘ یہ کہانہیں جاسکتااس احتجاج کے دوران جو بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے‘ جو شعور جاگا ہے جینے اور مرمٹنے کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے اسے ہر حال میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ 2014 اور 2019ء کے الیکشن میں مسلم ووٹ بینک کا تصور ختم ہوچکا تھا۔ مسلمان اپنے آپ کو بے بس بے وزن محسوس کرنے لگے تھے مگر بھلا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا کہ انہیں سیا ہ قوانین کو روشناس کراتے ہوئے ایک طرح سے مسلمانوں کو دوبارہ اہمیت دلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔گذشتہ دو مہینوں سے جو ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھ کر سب حیران و پریشان ہیں‘ کیوں کہ ہر ہندوستانی مسلمان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کہہ رہا ہو:
آج پھر جینے کی تمناہے،آج پھر مرنے کا ارادہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے ۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات سننے اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے ؛ مگر گذشتہ ہفتے صوبۂ کرناٹک کے ضلع ٹمکور سے تعلق رکھنے والے محترم مولانامحمد خالد بیگ ندوی صاحب(جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پراسلامی مزاج کے ساتھ عصری اسکولس قائم کرنے اور چلانے کی تحریک سے وابستہ ہیں)بعض مقامی علماء کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لائے اور علماء و دانشوران کے بڑے مجمع سے مختلف مقامات پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ مدلل گفتگوفرمائی،الحمدللہ سارے ہی پروگرام توقع کے مطابق کامیابی سے ہم کنار ہوئے ، بالخصوص این آرسی کے سلسلے میں بہت سے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں تھیں ان کا ازالہ ہوا اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے ؟اس پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ۔زیرنظرتحریر میں مولانا محترم کی گفتگو کو افادۂ عام کے لیے قدرے ترمیم وتفصیل کے ساتھ تحریرکے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہماراملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوارسانحہ پیش آیا،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1924ء میںآرایس ایس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی؛اس لیے تقسیم کے نازک موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے ؛لہذا بھارت اب ہندوراشٹر ہوگا۔ اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسندرہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میںمختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف،مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔
گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے ؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایاگیا اور ایسا کھیل کھیلاگیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے ؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے ، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکارہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبورکیاجاسکے ۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کے ایک ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا اس نے پوری تیاری کے ساتھ گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکرکام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپرگئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولاناابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پرتحقیقات کا آغاز کیا پھرمسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعدصرف دو گھنٹوں کے اندراندر سردار پٹیل کے ذریعہ اس بات کااعلان کروایا گیاکہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کانمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا ۔اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیااور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیاتھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد19 افراد پرمشتمل ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کے لیے نظام العمل ترتیب دیاگیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے ؛ کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایاجاسکتا ہے ،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میںاسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چنداورحقائق بھی ملاحظہ فرمائیں!
آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک:
جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں ،معروف دانشور اوربے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کوعیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے ۔ حال ہی میں اس’پراسرار‘ سمجھی جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سے انگریزی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب شائع ہوکر دادتحسین حاصل کرچکی ہے ۔ یہ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف اہم اور بنیادی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے ہے ۔ درج ذیل اقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے ۔
آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائدشاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ،دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے ۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اورجماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیاہے ۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموںکے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے ، اور ان کے لئے ا سکولوں اور کالجوںسے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میںاپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے ۔
قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سا ل میںآر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہران کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے ۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے ۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیںمشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاںویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پرآر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے ۔
ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے ؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے ، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولرقوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کوفروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔
کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے :
یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جودفعہ مرتب کی گئی ابتداً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی۔دوسری ترمیم 1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔ اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیںبلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے ۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک ؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پررہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تونہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے ‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے ،اور اس سے ملک کی سیکولرحیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیایا کچھ اور بھی؟؟
اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھیںکہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں۔ 1:ولادت ،2:وراثت،3:رجسٹریشن ،4:نیچرلزیشن۔
ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں ،البتہ اخیرکی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یاہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنے کا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانی بھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی ،سات سال بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبے پرجوشہریت اسے دی جائے گی اسے رجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہے یعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپررہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میںسے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں توحکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اوراس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں ؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے ؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائے اور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے ،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھار ت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جاسکے ۔یاد رکھیں !آگے چل کر اگر این آرسی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیںاور فلاں ملک سے قانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئے ہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنے پرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق ومراعات حاصل نہیں ہوں گی۔
ہمارے لیے لائحہ عمل :
ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزیدتیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میںرکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کاخاتمہ ہے ؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کے لیے مسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولے کر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میںبہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے ؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے ۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہی ہو)تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیںغیرمسلموں سے ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی ؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کے لیے تیارہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔اگر ہیں تواپنا نام اور والد کا نام وغیرہ سب میں یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے ؟یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیںاین آرسی کا خوف ہے ،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبرہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکارکردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویزبنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے ۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونے والوں کے لیے کیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے ؟اس حوالے سے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیں!
26؍جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے ،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔یکم جولائی 1987 سے 3؍دسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میںسے کسی ایک کی شہریت ثابت کرنا ضروری ہے ۔پھر3؍ دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کاہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد پر انہیں شہریت دی جائے گی۔ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ضرورمدددآئے گی اورہم کامیاب و کامران ہوں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:بی جے پی نے بدھ کو لوک سبھا میں کہا کہ نظر ثانی شہریت قانون (سی اے اے) سے حکومت پیچھے نہیں ہٹے گی اور ریاستی حکومتیں اس ایکٹ کو لاگو کرنے کے لئے پابند ہیں۔ساتھ ہی پارٹی نے امید ظاہر کہ حکومت اب یکساں سول کوڈ اور گوہتیا پر پابندی جیسے موضوعات پر بھی قدم اٹھائے گی۔لوک سبھا میں صدر خطاب کے شکریہ تجویز پر ہو رہی بحث میں حصہ لیتے ہوئے بھاجپا ایم پی پی پی چودھری نے کہاکہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹی شاہین باغ جاکر وہاں لوگوں کو یہ کیوں نہیں سمجھاتے کہ سی اے اے سے یہاں کے لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور پاکستان میں کئی دہائیوں سے وہاں کے اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ نظر ثانی شہریت قانون (سی اے اے) سے حکومت پیچھے نہیں ہٹے گی اور ریاستی حکومتیں اس ایکٹ کو لاگو کرنے کے لیے پابندہے۔بھاجپا رکن نے کہاکہ کانگریس علاقوں کی اسمبلیوں میں سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے جبکہ یہ پارلیمنٹ سے منظور قانون ہے اور ریاست اسے لاگو کرنے کے لئے پابند ہیں۔ چودھری نے دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف ہو رہے مظاہرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سڑک پر قانون نہیں بنتا اور سی اے اے سے حکومت پیچھے نہیں ہٹے گی۔ا نہوں نے یہ بھی کہا کہ یکساں سول کوڈ اور گوہتیا پر پابندی کی بات ریاستی پالیسی عنصر کا حصہ ہیں اور امید ہے کہ حکومت پر ان پر بھی قدم اٹھائے گی۔ بھاجپا لیڈر نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑی سیاسی قوت ارادی دکھاتے ہوئے اس وعدے کو پورا کیا ہے جسے مہاتما گاندھی نے شروع کیا تھا اور جو نہرو۔ لیاقت معاہدے کا حصہ تھا۔چودھری نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوٹ گیا اور اب وزیر اعظم نے تاریخ کی اس بھول کو درست کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں نیا بھارت بن رہا ہے جس میں گاؤں، غریبوں، کسانوں اور نوجوانوں کو پورا فائدہ ہو رہا ہے۔ پی پی چودھری نے کہا کہ کانگریس کے لیڈر عالمی درجہ بندی کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ اگر کانگریس نے 60 سال تک مناسب طریقے سے کام کیا ہوتا تو آج مختلف علاقوں میں ہندوستان کی عالمی درجہ بندی اور بہتر ہوتی۔کانگریس پر نشانہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آپ نے 60 برسوں تک کام نہیں کیا اور چاہتے ہیں کہ پانچ سال میں یہ تمام کام ہو جائیں۔ اپوزیشن پارٹی پر حملہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آپ کو ایک خاندان کے علاوہ اور کوئی دکھتا ہی نہیں ہے، ایک خاندان کے سامنے آپ کے لیے تمام مسائل دب جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے پرانے مسائل ختم کرنے کے ساتھ تمام شعبوں میں ملک کی ترقی کو یقینی بنانے اور مالیاتی نظام، گاؤں تک ٹیکنالوجی تک قابل رسائی بنانے اور ملک کو چوتھی صنعتی انقلاب کی جانب بڑھانے کا کام کیا ہے۔
نئی دہلی:شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور قومی شہریت رجسٹر (این آرسی) مظاہرے کے دوران بچے کی موت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔بہادری ایوارڈ یافتہ ساتویں کی طالبہ جین گرتن سداورتے نے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کو خط لکھ کرمظاہرے میں معصوم بچوں کو لانے کو لے کر ہدایات دینے کی فریادکی۔بتا دیں کہ قومی دارالحکومت کے شاہین باغ میں شہریت ترمیم ایکٹ (سی اے اے) کو لے کر گزشتہ سال دسمبر سے ہی مظاہرہ مسلسل جاری ہے۔یہاں مظاہرہ کر رہے ایک خاندان کے 4 ماہ کے بچے کی موت ہو گئی۔ بچے کی موت کی وجہ مسلسل سرد ی میں رہنا بتایا گیا۔بچے کے والد ارشد نے کہاکہ ہم لوگ 29 تاریخ تک احتجاج میں تھے،دھرنا مظاہرہ سے دیر رات ہم واپس آئے اور ہم نے قریب ڈھائی بجے بچے کو دودھ پلایا تھا،جب صبح کے وقت ہم اٹھے تو دیکھا کہ بچہ بالکل خاموش تھا،اس کے بعد ہم فوری طور پر پہلے بٹلہ ہاؤس کلینک لے گئے، لیکن وہاں ہمیں بولا گیا کہ اسے ہولی فیملی ہسپتال لے جاؤ،ہماری اس ہسپتال میں جانے کی حیثیت نہیں تھی، اس لئے ہم بچے کو الشفا ہسپتال لے گئے،وہاں جب ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا کہ بچے کی موت 5 گھنٹے پہلے ہی ہو چکی تھی۔
نئی دہلی:آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے منگل کو لوک سبھا میں ایک بارپھرشہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی خامیاں گنائیں۔ اویسی نے کہاہے کہ سی اے اے شہریت دیتا بھی ہے اور لیتا بھی ہے۔آسام میں پانچ لاکھ مسلمانوں کے نام نہیں آئے، لیکن آسام کے بنگالی ہندوؤں کو شہریت دینا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کونہیں دیں گے۔ انھوں نے این آرسی پرحکومت کے غیرواضح جواب کوچیلنج کرتے ہوئے کہاکہ حکومت صاف صاف بتائے کہ جب تک مودی پی ایم ہیں،ای آرسی نہیں آئے گی۔آج حکومت نے ابھی این آرسی پرکارروائی نہ ہونے کی بات کہی ہے لیکن اس نے یہ نہیں کہاہے کہ این آرسی کبھی نہیں آئے گی جیساکہ امت شاہ 2024سے پہلے ہرحال میں این آرسی لاگوکرنے کاوعدہ کرتے رہے ہیں۔اسی لیے عوام کواس وقت تک اطمینان نہیں ہے جب کہ تک کہ کبھی این آرسی لاگونہ کرنے کی یقین دہانی تحریری طورپرنہیں کرائی جاتی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ این پی آر این آرسی ایک ہی ہے۔اس سے پہلے پیر کو بھی اویسی نے لوک سبھا میں سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں پر ہوئی کارروائی کے مسئلے کو اٹھایا تھا۔ اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ سی اے اے کی مخالفت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے جن بچوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔معلوم ہوکہ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں پوراملک کھڑاہے۔جامعہ،ڈی یو،جے این یو،بی ایچ یوسمیت دودرجن سے زائدیونیورسٹیز کے طلبہ گزشتہ تقریباََدو ماہ سے مخالفت کر رہے ہیں۔
شاہین باغ فائرنگ:ملزم کے اہل خانہ کا’’آپ‘‘کنکشن سے انکار،سنجے سنگھ نے پولیس پرسوال کھڑے کیے
نئی دہلی:عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے 8 فروری کو دارالحکومت میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شاہین باغ شوٹر کے پارٹی سے منسلک ہونے کی خبروں کوبی جے پی کا”سیاسی اسٹنٹ” قرار دیا ہے۔دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے منگل کے روز بتایاتھا کہ کپل گجر ، جس نے گذشتہ ہفتے شاہین باغ احتجاجی مقام پر فائرنگ کی تھی ،اس نے عام آدمی پارٹی کا رکن ہونے کا اعتراف کیا ہے۔دہلی پولیس کے بیانات کے جواب میں ’’ آپ‘‘ نے بی جے پی پر "گندی سیاست” کرنےکاالزام لگایااور کیجریوال نے اسے وزیر داخلہ امت شاہ کی "سازش” قرار دیا۔ ڈپٹی کمشنرآف پولیس (کرائم برانچ) راجیش دیو نے منگل کے روز کہا کہ کپل اور اس کے والد2019کے اوائل میں آپ میں شامل ہو ئے تھے۔ ثبوت کے طور پر پولیس نے’’ آپ‘‘ کے سنجے سنگھ اور آتشی مرلینا کے ساتھ 25 سالہ ملزم کے فون میں ملنے والی تصاویر پیش کیں،جو کہ پہلے ہی لیک ہوگئی تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کپل کا موبائل فون قبضےمیں لے کر اس کے واٹس ایپ سے یہ تصویریں حاصل کی ہیں۔تاہم کپل کے اہل خانہ نے پولیس کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ان کے چچا فتیش سنگھ نے نیوزایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ "مجھے نہیں معلوم کہ یہ تصاویر کہاں سے گردش کر رہی ہیں۔ میرے بھتیجے کپل کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں تھی اور نہ ہی اس خاندان سے کوئی دوسراشخص عام آدمی پارٹی کا ممبر ہے۔ میرے بھائی گجے سنگھ (ملزم کے والد) نے بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر 2008میں اسمبلی الیکشن لڑاتھا اور ہار گئے تھے۔ اس کے بعد ، ہمارے خاندان میں سے کسی کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔سنگھ نے مزید کہا کہ کپل کے اے اے پی یا کسی دوسری سیاسی جماعت سے وابستہ کوئی دوست بھی نہیں ہیں۔پولیس نے بتایا کہ گجے نے بی ایس پی سے 2012 کا میونسپل الیکشن بھی لڑاتھا۔
ادھرمنگل کی رات ایک پریس کانفرنس کرکےاے اے پی نے دہلی پولیس پر بی جے پی کے کہنے پر کام کرنے کا الزام عائد کیا۔ ’’آپ ‘‘کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ نے کہاکہ پولیس کا بیان جاری ہونے سے پہلے یہ تصویریں بی جے پی تک کیسے پہنچیں؟ صبح میں منوج تیواری (دہلی بی جے پی کےصدر) نے بتایاتھا کہ بندوق بردار عام آدمی پارٹی کاممبر تھااورشام کوپولیس نے یہی بات کہی۔سنگھ نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس پر طنز کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی قمیص پر کمل کاپھول لگالیں۔’’آپ‘‘ نے یہ بھی کہا کہ بندوق بردار جس نے 30 جنوری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم کو گولی مار دی تھی وہ بجرنگ دل کا ممبر تھا۔ انہوں نے پوچھا ، "کیا امت شاہ کی پولیس نے ایک بار بھی بجرنگ دل سے اس کے لنک کے بارے میں بات کی ؟ سنگھ نے کہا کہ کیوں وہ عام آدمی پارٹی کی طرح بجرنگ دل کو کٹہرے میں کھڑانہیں کر رہے ہیں؟عام آدمی پارٹی نے دہلی پولیس پر بی جے پی کی کٹھ پتلی کی طرح کام کرتے ہوئے انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیاہے۔
نئی دہلی: دہلی کے شاہین باغ میں شہریت قانون کو لے کر چل رہے مظاہرے کے خلاف بی جے پی کے سابق ممبر اسمبلی نند کشور گرگ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔یہ لوگ ہائی کورٹ میں پھٹکارکھانے اورپولیس کولاء اینڈآرڈربحال رکھنے کی ہدایت کے بعداب سپریم کورٹ گئے ہیں۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شاہین باغ میں مظاہرین کو ہٹایا جائے تاکہ کالندی کنج اورشاہین باغ کا راستہ پھر سے کھل سکے۔عرضی میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ عدالت مرکزی حکومت اور متعلقہ محکمہ کوراستہ خالی کروانے کا حکم دے۔ساتھ ہی عوامی مقامات پر دھرناکی پابندی لگانے کی بھی مانگ کی گئی ہے اور عدالت سے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے گائیڈلائن بنانے کے لیے بھی حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے۔بی جے پی لیڈر کی جانب سے دائر درخواست میں کہاگیاہے کہ طویل عرصے سے جاری دھرنے کی وجہ سے لوگوں کو بے حد پریشانی کاسامناکرناپڑرہاہے۔
نئی دہلی: جواہرلال نہرویونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرشرجیل امام جنھیں چنددن قبل سیڈیشن چارج میں گرفتار کیا گیا تھاانھیں آج ساکیت کورٹ میں چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ پرشوتم پاٹھک کے سامنے پیش کیاگیاـ کورٹ نے شرجیل امام کومزیدتین دن کی پولیس ریمانڈپربھیج دیاہےـ قابل ذکرہے کہ جے این یواسکالرپرایک تقریرمیں آسام کومرکزسے کاٹنے کی بات کہنے کولے کرغداری کیس درج کیا گیا اورانھیں بہارسے گرفتار کیا گیاہے ـ انھوں نے گزشتہ 16جنوری کوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سی اے اے /این آرسی کے خلاف مظاہرہ کررہے لوگوں کے سامنے تقریرکرتے ہوئے آسام اورشمال مشرقی ہندوستان کومرکزسے کاٹنے کی بات کہی تھی ـ
غور سے تصویروں کودیکھیے اور کل کا نتیش جی کا بھاشن سنیے،مٹی میں ملنے والاوعدہ یادکیجیے اور دہلی کااسٹیج دیکھیے،آپ کو بے چارے کی بے چارگی پر ترس نہ آگیاہو توبتاییے-بہارکی ڈبل انجن سرکارکے مکھیانے دہلی میں ڈبل انجن سرکار کی اپیل کی،کجریوال کو جم کر کوسا،لیکن وہ یہ نھیں بتاسکے کہ بہار میں ڈبل انجن سرکار سے کیافائدہ ہوا؟2015 الیکشن میں مودی جی نے سوالاکھ کروڑ کے پیکج کا وعدہ کیاتھا،اب تک کیا ملا؟اسپیشل اسٹیٹ کی مانگ دس سال سے نتیش کررہے ہیں لیکن جیسے بی جے پی کی گود میں جاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں پھر الیکشن کے وقت یاد آجائے گا،مرکز اور ریاست میں ایک ہی سرکار کے باوجود اسپیشل اسٹیٹس کیوں نھیں ملا؟کسے یاد نھیں ہے جب پٹنہ یونی ورسیٹی کی تقریب میں نتیش نے مودی سے اسے سینٹرل یونی ورسیٹی بنانے کی مانگ کی تو کس طرح فضیحت کی گئی اور ٹھینگا دکھادیاگیا،غصہ تو اس وقت پلٹوجی کو بہت آیا لیکن کرسی کمار جو ٹہرے،سیلاب متاثرہ ریاستوں کو جتنی مدد ملی بہار کو اس میں بھی ٹھگ لیاگیا
دہلی میں دوسو یونٹ تک بجلی فری ہے نتیش کے اسٹیٹ میں اتنے کے ہزار روپیے بل آتے ہیں،پھر کس منہ سے بول رہے ہیں،بل کی مار عوام پر ہے،جنتا مہنگی بجلی سے پریشان ہے اور بجلی کی صورت حال بتائوں،میں خود ان کے چہیتے اور کانگریس سے بھاگے ہوئے وزیر اشوک اچودھری کے حلقہ بربیگھہ گیا،سن کر حیرت ہوگی کہ بجلی آفس میں دوگھنٹہ رہا لیکن بجلی نھیں تھی،اپنی اپنی ریاست تو سنبھل نھیں رہی ہے،ہریانہ اور اترپردیش میں کس طرح چوپٹ نظام کررکھا ہے چلے ہیں دہلی کو بتانے
اور یاد دلادوں،جس کجریوال کو کل پانی پی پی کر کوس رہے تھے،بہار میں ساتھ چائے ناشتہ ہوچکاہے،دہلی کی فکر چھوڑییے،بہار سنبھالیے،جھاں این پی آر پر دھوکے اور جھانسے اور سی اے اے پر غداری سے عوام کرسی چھیننے کا عزم کرچکی ہے-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
شاہین باغ کی تاریخی جمہوری احتجاجی تحریک اپنے 51ویں دن میں داخل ہو گئی ہے اور اب یہ تحریک پوری دنیا کے لئے ایک علامتی تحریک کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔ ہندوستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ میں ایک نیا شاہین باغ بن گیاہے ۔ اس تحریک کی جو سب سے بڑی تاریخی اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں خواتین کی حصہ داری قابلِ تحسین ہے اور ناخواندہ طبقے کے اندر بھی برسوں بعد ایک نیا جوش وولولہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔جس احتجاجی جلسہ کو دیکھئے وہاں ہندوستان کی تکثیریت نمایاں نظر آئے گی ۔ بلا تفریق مذہب وملّت عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ اس تحریک میں روز بروز شامل ہوتا جا رہاہے ۔ حکمراں جماعت کی تمام تر سازشوں کے باوجود اس پر کوئی مذہبی رنگ غالب نہیں ہوا ہے اور نہ مظاہرین کے اندر کا صبر وتحمل جواب دے پایا ہے ۔ کیوں کہ شاہین باغ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یومِ شہادت کے دن سے لے کر مسلسل تین دنوں تک جس طرح شاہین باغ کے جمہوری طریقہ کار سے اپنے آئین کی پاسداری کے لئے تحریک چلانے والوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی ہے وہ اس بات کی شہادت ہے کہ کس طرح دہلی کے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لئے فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قومی میڈیا جو ایک طرفہ حکومت کے موقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے اس سے بھی منافرت پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ شکر منائیے کہ آزاد سوشل میڈیا نے اس منافرت کے زہر کو بے اثر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر بھی ان کا قبضہ ہے اور اس کے ذریعہ بھی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اب ملک کے مختلف حصوں میں ، بالخصوص دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر چوٹ کی جانے لگی ہے ۔ گذشتہ کل دربھنگہ اور آس پاس کے کئی مقامات پر معمولی باتو ںکو لے کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن ضلع انتظامیہ اور مقامی غیر جانبدار عوام نے اس سازش کو ناکام کردیا ہے ۔ لیکن اگر اسی طرح کا واقعہ اتر پردیش میں ہوتا تو پھر خبر اندوہناک مل سکتی تھی جیسا کہ اتر پردیش میں پولیس کے تعاون سے سب کچھ چل رہاہے ۔پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی اس میں اب تک 35افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان میں 21افراد اتر پردیش میں ہوئے ہیں ۔ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتر پردیش میں کس طرح کی فضا تیار کی گئی ہے ۔ اس لئے اب شاہین باغ کی تحریک کو کچلنے کے لئے طرح طرح کے حربے اپنائے جا رہے ہیں ۔لگاتار تین دنوں وہاں پستول کی فائرنگ یا پھر ایک بڑے مجمعے کا جمع ہونا اور اقلیت طبقے کے خلاف قابلِ اعتراض نعرے بازی کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اب اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے ایک بڑی سازش تیار ہو چکی ہے۔اس لئے اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ہر وقت ہوشیار بھی رہیں اور اپنے جذبات پر قابو بھی رکھیں۔ ہمارے جلسوں میں جو مقررین آتے ہیں ان کے نظریے کو بھی سامنے رکھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی تخریبی تقریر کر دیں جس سے ہمارے ملک کی سا لمیت کو خطرہ پیدا ہو اور ہمارے مقررین کا لب ولہجہ بھی شائستہ اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کرتا ہو ۔کیوں کہ دوسری جانب جو دشمن ہے وہ بہت ہی شاطر ہے ، وہ اپنی ہر شاطرانہ چال کے ذریعہ اس تاریخی احتجاجی جلسوں کو ناکام کرنا چاہ رہے ہیں ۔ کیوں کہ اب یہ احتجاجی جلسہ صرف اقلیت طبقے کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ دلت، آدیباسی ، پسماندہ طبقے اور اعلیٰ ذات کے غریب طبقے کے لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں ۔ اب انہیں اس شاطرانہ چال کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے کہ صرف مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے یا پھر ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرنے کے لئے شہریت ترمیمی ایکٹ نہیں لایا گیاہے اور این آر سی کا راستہ این پی آر کے ذریعہ ہموار نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ان تمام شہریوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کی ساز ش ہے جو ملک میں امن وامان کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں ۔ اس تحریک نے منافرت پھیلانے والوں کے حوصلے بھی پست کئے ہیں کہ شاہین باغ میں سکھ مذاہب کے ہزاروں محبِ وطن آکر جمہوری تحریک میں نہ صرف حصہ لے رہے ہیں بلکہ ان خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کر کے ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں ۔ چوںکہ یہ تحریک اب فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے اس لئے مظاہرین کے حوصلے پست کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مبینہ سیکولر جماعت بھی خاموش ہے ۔ اتر پردیش میں اکھلیش یاد و اور مایا وتی کی خاموشی کا راز اب چھپا نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ اپنے ووٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں البتہ بھیم آرمی کے چندر شیکھر نے جو حوصلہ دکھایا ہے اس کی پذیرائی ہونی چاہئے کہ انہوں نے اپنی آرمی کے تمام کارکنوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں میںبایاں محاذ کی مختلف پارٹیاں بھی فعال ہیں ۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کے لیڈران صرف اقلیت طبقے کے جلسوں میں جا رہے ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں جب کہ اس احتجاجی تحریک کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے پارٹی کیڈروں کو بھی متحرک کریں اور ان کی طرف سے بھی مظاہرے اور احتجاجی جلسوں کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بہار میں کانگریس پارٹی کے ممبر اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خان اور کنہیا کمار ریاستی سطح پر تحریک چلا رہے ہیں اور لوگوں کو اس تحریک کا حصہ بنا رہے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے ممبران خاموش ہیں ۔ ہاں وہ احتجاجی جلسوں کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں ۔ چوںکہ یہ تحریک سیاسی بھی نہیں ہے بلکہ آزادانہ عوامی تحریک ہے اس لئے اس میں ان کی قیادت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں یا پھر مذہبی جماعت وہ تو قیادت چاہتی ہے جب کہ اس تحریک میں اگر کسی شخصے واحدکی قیادت ہوگی یہ تحریک متنازعہ فیہ بھی ہو سکتی ہے اور کمزور بھی ہو سکتی ہے ۔ اس لئے ہمارے سیاسی ، سماجی ، مذہبی رہنمائوں کو بھی اس تحریک کو تقویت بخشنے کے لئے بے لوث تعاون دینے کی ضرورت ہے۔جس طرح اس تحریک کو کچلنے کے لئے ایک بڑی طاقت پردے کے پیچھے سے کام کررہی ہے اور اس جمہوری تاریخی تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے اسے سمجھنا ہوگا اور اس تحریک کا حصہ بننا ہوگا کہ یہ تحریک آئین کے تحفظ کی بھی ہے اور ملک کے سنہرے مستقبل کے لئے بھی لازمی ہے۔شاہین باغ کی اس ماں کو لاکھوں سلام کہ جس کی گود میں ایک معصوم ننھی سی پری نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور پوری دنیا کو اشکبار کردیا ۔ لیکن ظالمِ وقت کو اس پر بھی کوئی افسوس نہیں کہ وہ تو پردے کے پیچھے سے صرف اور صرف اپنے مفاد کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ انسانیت اور ملک کی بقا سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ۔ یہ تو حالیہ دنو ںمیں ثابت ہوگیا ہے اور بین الاقومی سطح پر بھی ہندوستان کے حالاتِ حاضرہ پر فکر مندی ظاہر کی جا رہی ہے ۔ غالبؔ نے کیا خواب کہا ہے ؎
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے ایک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)