حیدرآبادمیں منعقدتحفظ جمہوریت کانفرنس میں نفرت کی سیاست کرنے والوں کومولانا سید ارشدمدنی کا انتباہ
نئی دہلی:جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی ایک بارپھر کہا ہے کہ موجودہ حکومت سی اے اے کو ہندومسلم مسئلہ بناکر پیش کررہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کا ہندوؤں اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، بلکہ اس قانون کو لاکر ملک کے سیکولردستورپر براہ راست حملہ کرنے کی افسوسناک کوشش کی گئی ہے، ممبئی کی طرزپر حیدرآبادمیں منعقدتحفظ جمہوریت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک کاسیکولردستورہی ہے جس نے پورے ملک کو اتحادکی ایک ڈورمیں باندھ رکھا ہے مگر اب اس ڈورکو کاٹنے کی درپردہ سازشیں ہورہی ہیں جس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اس کو لیکر فکرمنداس لئے ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے دستورکو سیکولربنانے میں اس کے اکابرین کا ہی بنیادی کرداررہا ہے اس تعلق سے انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک کی آزادی میں جمعیۃعلماء ہند نے ہراول دستہ کا کرداراداکیا تھا ٹھیک اسی طرح آزادی کے بعد بدقسمتی سے مذہب کی بنیادپر جب ایک نئی مملکت وجودمیں آئی تو کانگریس کے اندرسے ہی یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ چونکہ ایک نئی مملکت وجودمیں آچکی ہے اس لئے اب ملک کا دستورہندوازم کی بنیادپر تیارکیا جانا چاہئے اور تب جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کانگریس لیڈروں کا ہاتھ پکڑکر بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ ہم سے کیا ہوا وعدہ آپ پوراکرین، مولانا مدنی نے کہا کہ ایماندارلوگ تھے اس لئے ہمارے اکابرین کے مطالبہ کو انہوں نے تسلیم کیا اور ملک کے دستورکی بنیادسیکولرازم کے اصولوں پر رکھی گئیں، مگراب انہیں اصولوں کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے اور سی اے اے اسی سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہے، حیدرآبادکے میڈیا پلس آڈیٹوریم میں موجودلوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سی اے اے کے تحت کسی کو شہریت دی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر اس قانون کی بنیادپر آپ صدیوں سے اس ملک میں آبادایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں قطعی منظورنہیں انہوں نے آگے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے امن واتحادکا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے پیارومحبت سے رہتے آئے ہیں مذہبی رواداری ہندوستان کی خمیر میں شامل ہے اس لئے یہاں نفرت کی سیاست زیادہ عرصہ تک نہیں زندہ رہ سکتی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے جھارکھنڈاور اب دہلی میں جس طرح بی جے پی کا صفایا ہوا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگ میل ملاپ اور محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہارکیا کہ جودہلی الیکشن کے دوران تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود پرامن رہی الیکشن کے بعد اچانک جل اٹھی انہوں نے کہا کہ جس طرح الیکشن کے بعد بی جے پی کے ایک شکست خورہ لیڈرنے اشتعال انگیز بیان دیا اور سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوسبق سکھانے کی دھمکی دی اس کے بعد فرقہ پرست عناصرنے پورے جمناپاردہلی کو خاک وخون میں نہلادیا انہوں نے کہا کہ مسلسل تین روزتک قتل وغارت گری کا بازارگرم رہا اور حکومت سوتی رہی پولس نے بھی اپنا فرض نہیں اداکیا چنانچہ فرقہ پرست عناصرجو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، مگر یہ کس قدرافسوسناک ہے کے جس شخص کے اکسانے پر اتنی بڑی تباہی ہوئی تقریبا 49معصوم لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی جگہ حکومت نے اسے وائی پلس سیکورٹی مہیاکرادی ہے جس شخص کو جیل میں ہونا چاہئے تھا حکومت اسے سرکاری تحفظ فراہم کرارہی ہے آخراسے کس انصاف کے خانہ میں رکھاجائے؟مگر امید افزابات یہ ہے کہ جیسے ہی فسادکی آگ قدرٹھنڈی ہوئی ان علاقوں کے ہندومسلمان گھروں سے نکل کر باہر آگئے اور سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ ہم آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں اور یہ مٹھی بھر لوگ ہی ہیں جو ہرجگہ امن وسکون کی فضاکو تباہ کرنے کے لئے آزادہوتے ہیں، مولانامدنی نے کہا کہ فسادکے دوران بھی ہندومسلم اتحادزندہ رہا اور دونوں فرقے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو فسادیوں سے بچانے کی کوشش کی انہوں نے آگے کہا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ بہت سے مذہبی رہنماوں نے بھی فسادزدہ علاقوں کا دورہ کیا اور عوام سے امن واتحادکی اپیل کی ان میں شری شری روی شنکر بھی شامل ہیں، نفرت کی سیاست کرنے والوں کی اب آنکھ کھل جانی چاہئے اس لئے کہ اب عوامی سطح پر لوگ کھل کر فرقہ پرستی اورنفرت کی سیاست کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سی اے اے کی طرح این پی آرکو لیکر بھی یہ پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ تنہا مسلمان ہی اس کی مخالفت کررہے ہیں مولانامدنی نے کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے ہم اس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس میں جو نئی چیزیں شامل کی گئی ہیں ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ہم انہیں ملک کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے خطرناک تصورکرتے ہیں جس طرزپر 1950 سے 2010تک مردم شماری ہوئی اسی طرزپر مردم شماری کرائی جائے ہم تعاون دینے کو تیارہیں مگر این پی آرکی موجودہ شکل ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے انہوں نے آندھرااورتلنگانہ کی صوبائی حکومتوں پر زوردیا کہ وہ این پی آرکی موجودہ شکل کو نہ صرف مستردکردیں بلکہ اس کے خلاف اسمبلی میں تجویز بھی منظورکرائیں انہوں نے کہا کہ اگر ایسانہیں کیا گیا تو ہم جلد ہی یہاں ایک بڑاعوامی اجلاس کریں گے جس میں این پی آرکی موجودہ شکل کے خطرات سے آگاہ کرکے اس کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے اسی تسلسل میں کہا کہ پچھلے تیرہ سوبرس سے مسلمان اس ملک میں امن اور خیر سگالی کے ساتھ رہتے آئے ہیں مگر اب مرکزی حکومت انہیں مذہب کی بنیادپر الگ تھلگ کرنے کی سازش کررہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس ملک میں اقلیتوں کا کیامستقبل رہ جائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن ریاستی حکومتوں نے سی اے اے این پی آراور این آرسی کے خلاف تجاویز منظورکی ہیں یا ان کی مخالفت کررہی ہیں وہاں کے ہندوومسلمان دونوں مل کر ان قوانین کی مخالفت کریں۔ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو انتباہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت کی سیاست سے ایک بارپھرملک تقسیم ہوجائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی سیاست نہ صرف ملک اتحادبلکہ اس کی ترقی کے لئے بھی انتہائی نقصاندہ ہے امن واتحاداور ہر شہری کی شراکت داری سے ہی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر آگے لے جایا جاسکتاہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرنے والے ابھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ عوام خودانہیں سبق سکھادیں گے۔ دیگرشرکاء میں جناب محمد علی شبیر، جناب حامدمحمد خاں، جسٹس چندراکمار، جسوین کور، پروفیسرکوڈنڈہ رام، وغیرہ شامل تھے۔
nrc
اشعر نجمی
مجھے آج بھی کانگریس کے "عہد زریں” میں ہونے والے عظیم الشان فرقہ وارانہ فسادات یاد آتے ہیں، بلکہ 1979 کے جمشید پور کے دنگے کو تو میں نے خود دیکھا بھی اور جھیلا بھی۔ کانگریس کے دور میں بھی پولیس کا وہی رویہ تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، البتہ اس وقت پولیس کانگریسی حکومت کے زیر اثر تھی اور آج بی جے پی کے انڈر وئیر میں ہے۔ خیر ہوتا یہ تھا کہ ہر فسادات کے بعد فوراً کانگریس کی ریلیف کمیٹیاں پہنچ جایا کرتی تھی اور دودھ اور شہد کی نہریں متاثرہ علاقوں میں بہا دیتی تھیں، کمبل تقسیم کیے جاتے تھے، مہلوکین اور زخمیوں کے لیے معقول رقموں کا اعلان کیا جاتا تھا، ہر محلے میں امن کمیٹیوں کا اعلان کیا جاتا تھا اور پھر وہی رٹے رٹائے فقرے دہرائے جانے لگتے تھے کہ اس کے لیے کوئی قوم ذمہ دار نہیں بلکہ ہر قوم کے مٹھی بھر لوگوں کا یہ کام ہے اور اس طرح بلی کی طرح اپنی غلاظت پر مٹی ڈال کر اسے چھپا دیا جاتا تھا۔ ہر فساد کے بعد کانگریس مسیحا کا نیا اوتار لے کر ابھرتی تھی اور جھولیاں بھر بھر کے ووٹ بٹورتی تھی۔ پھر زمانہ بدلا، لوگوں میں سیاسی شعور کا تھوڑا بہت اضافہ ہوا، معاملے پر نظر رکھی جانے لگی اور پھر وہ گھڑی بھی آگئی جب یہ انکشاف ہوا کہ رات کے اندھیرے میں گھر جلانے والے ہی صبح لوگوں کو کمبل تقسیم کررہے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اروند کیجریوال کانگریس کی اس وراثت کو آگے لے جانے کا کام کررہے ہیں لیکن ان کے حالیہ رجحان سے اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ وہ اس آزمودہ ٹرینڈ سے واقف بھی ہیں اور اس سے متاثر بھی ہیں۔ جس طرح اروند کیجریوال نے اپنے گھر پر پہنچے فریادیوں سے ملنے سے انکار کردیا بلکہ انھیں لاٹھیوں سے پٹوایا، جس طرح انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد یہ بیان دیا کہ دہلی میں فسادات کے دوران پولیس نے اپنا کام پوری ایمانداری سے کیا، جس طرح انھوں نے اس کنہیا کمار پر "دیش دروہ” کا مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی جس پر وہ دو سال پہلے ٹوئٹ کرچکے تھے کہ کنہیا نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کے لیے ان پر "دیش دروہ” کا مقدمہ چلایا جائے، حتیٰ کہ دہلی سرکار کے وکیل تک کہہ چکے تھے کہ کنہیا کمار پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں، وہی کیجریوال جو بغیر کوئی جانچ کمیٹی بٹھائے مرکزی سرکار کو محض خوش کرنے کے لیے اپنے کاؤنسلر طاہر حسین کو پارٹی سے معزول کردیتا ہے جب کہ مرکزی سرکار عدالت کے انتباہ کے باوجود اپنے بدنام زمانہ نیتاؤں کو اپنی گود میں بٹھائے ہوئے ہے، وہ کیجریوال آج جب دہلی فسادات کے متاثرین کے لیے ریلیف کا کام کرتا ہے تو مجھے کانگریس کی یاد آجاتی ہے۔ گویا اپنے ہدف پر حملہ کرو اور جب وہ چیخنے یا رونے لگے تو اس کے منھ میں روٹی کا ٹکڑا ٹھونس دو تاکہ وہ چیخنا اور رونا بھول کر روٹی چبانا شروع کردے۔ مجھے کیجریوال سے زیادہ ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ روح میں لگے زخموں کا علاج خیرات کے چند ٹکڑوں سے ہوسکتا ہے۔ کیجریوال جسموں پر لگے زخموں پر مرہم لگا سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کا کیا کریں گے جن کا ان پر بھروسہ مجروح ہوا ہے؟ مرنے والوں کو پانچ لاکھ دس لاکھ دینا صرف سودے بازی ہو سکتا ہے، کسی مرنے والے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کیجریوال کے کام کے طریقے پر اپنے ایک مضمون میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ ایک شاطر نیتا ہے، کرتے کم ہیں دکھاتے زیادہ ہیں۔ ان کی اس ریلیف کو ہی لے لیجیے،اس کی کچھ اس طرح اشتہار بازی ہو رہی ہے جس سے گمان ہوتا ہے جیسے "دہلی کا بیٹا” اپنے پاپوں کا پرائشچت کررہا ہو۔بلاشبہ مصیبت کی گھڑی میں لوگوں کی مدد کرنی ہی چاہیے جو دہلی سرکار کے اس میدان میں کودنے سے پہلے ہی لوگ انفرادی طور پر کر رہے ہیں جن میں سکھ قوم سب سے آگے ہے لیکن کیا ایک ریاست کی طرف سے خیرات کے نوالے ہی کافی ہیں یا ان دل گرفتہ اور ٹوٹے بکھرے لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنا بھی ریاست کا فرض اولین ہے؟ کیا کیجریوال کے پاس کوئی ایسا لائحہ عمل ہے جس پر وہ عمل درآمد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاکہ مستقبل میں دوبارہ فرقہ پرست طاقتوں کے سر اٹھانے سے پہلے اسے کچلا جاسکے یا پھر ہم اگلے کسی فسادات کا انتظار کریں کہ ہمیں اپنے عزیزوں کے خون اور آبرو کے عوض چند ٹکڑے خیرات کے مل جائیں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دُشینت دیو (صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا)
ترجمہ: عبدالعزیز
عام طورپر جب کسی شخص کا نا حق قتل ہوتا ہے یا ناحق کسی شخص پر حملہ ہوتا ہے یا کسی شخص کو گولی یا بندوق سے مار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کارروائی ایک فرد یا ایک شخص کے خلاف ہوئی، لیکن پروردگار عالم نے اپنی کتابِ مقدس میں فرمایا ہے: ”ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتاہے“۔ اس سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی کسی ایک شخص پر حملہ کرتا ہے یا دھمکی دیتا ہے تو صرف ایک شخص پر حملہ نہیں کرتا، ایک شخص کو دھمکی نہیں دیتا بلکہ ساری انسانیت پر حملہ کرتا ہے اور سارے انسانوں کو دھمکی دیتا ہے۔ کتابِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ ”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بخش دی“۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی و بقا اور احترام اس بات پر منحصر ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کی جان اور عزت و آبرو کا احترام موجود ہو اورہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا اور تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک فرد پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبے سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کادشمن ہے؛ کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسانی کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے، جس پر انسانیت کے بقا کا انحصار ہے“۔
دہلی میں فساد سے پہلے اور فساد کے بعد جو کچھ ہوا یا جو کچھ ہورہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ عدلیہ کا کردار آہستہ آہستہ قابل گرفت اور افسوسناک ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے بار ایسوسی ایشن کے صدر دُشینت دیو نے عدلیہ کی سست روی اور غیر مستعدی پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ””Jstice no done – Judiciary should have acted with greater alacrity in cases involving hate speech”۔ان کا یہ مضمون انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں آج (3مارچ) شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”27 فروری 2020ء کو بی جے پی کے لیڈروں کی جو نفرت انگیز تقریریں ہوئیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنا دستوری فرائض سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ وقت آچکا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو بتایا جائے کہ یہ دستوری اور آئینی طور پر کتنا اہم اور ضروری ہے“۔ مضمون نگار نے آگے کی سطروں میں لکھا ہے کہ جب کوئی پارلیمنٹ کا ممبر یا وزیر دستور کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ”میں سچائی پر قائم رہوں گا اور ہندستان کے دستور کی وفاداری کروں گا اورجو بھی میری معلومات میں فیصلے کیلئے لایا جائے گا بغیر کسی خوف، جانبداری، بغیر کسی غلط خواہش اور جذبہئ شفقت کے اپنی پوری ایمانداری اور سے بہتر صلاحیت کے ساتھ دستور کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی کروں گا“۔ دستور کی دفعہ 21کے مطابق ہر ایک جج پابند ہوگا کہ کوئی شخص اپنی زندگی اور ذاتی آزادی سے محروم نہ ہو۔ جو قانون دستور کی جانب سے مسلم ہے اس کا پاس اور لحاظ رکھا جائے“۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر پر مشتمل ایک بنچ نے مرکزی حکومت کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا کہ ”نفرت انگیز تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے وقت سازگار نہیں ہے، امن وامان کو یقینی بنانے کی اس وقت ضرورت ہے۔ سماعت ملتوی کردی گئی اور 13 اپریل کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ عدالت یہ سمجھنے سے قاصر رہ گئی کہ دہلی میں 40 سے زیادہ انسانی جانوں کا تلف ہوا اور 200سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ ہزاروں مکانات، دکانیں اور کارخانے تباہ و برباد ہوئے۔یہ انتہائی پریشان کن اور حیران کن ہے کہ حکومت کی طرف سے موزوں وقت کی بات کہی جارہی ہے۔ عدالت دستور کی گارجین اور دہلی کے شہریوں کی سرپرست ہے۔ اسے مستعدی سے کام لینا چاہئے تھا۔ قانون کا نفاذ مناسب وقت اور مناسب دن کیلئے ٹالا نہیں جاتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں، جبکہ انتظامیہ پورے طور پر ناکام ہو، ایسی حالت میں عدالت کو چاہئے کہ وہ حکومت کی مشنری کو عملی قدم اٹھانے پر زور دے“۔
یہی دہلی پولس ہے کہ جن لوگوں نے مرکزی حکومت پر تنقید کی تھی ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے میں کسی موزوں وقت کا انتظار نہیں کیا۔ کنہیا کمار اور ہرش مندر جیسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی ایک دستوری بنچ کے مقدمے کیدار ناتھ سنگھ بنام حکومت بہار (1962ء) میں ججوں نے غدارِ ی وطن کی دفعہ 124A (sedition under Section 124 A.) کے متعلق کہا کہ ”بطور تبصرہ و تنقید ایک شہری کا حق ہے کہ حکومت کے بارے میں جو کچھ چاہے لکھ سکتا ہے، کہہ سکتا ہے۔ اس وقت تک جب تک حکومت کے خلاف عوام کو تشدد برپا کرنے کیلئے اکسائے نہیں اور نہ ہی بدنظمی پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کرے۔ مزید لکھا گیا کہ الفاظ، تحریر یا گفتگو وغیرہ سے جب عوام میں بدنظمی اور بدامنی پیدا ہو تو عوامی مفاد کیلئے قانون دخل انداز ہوسکتا ہے“۔
نہارندو دت مجمدار بنام سلطان برطانیہ کے مقدمے میں 1942ء میں فیڈرل کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا لب لباب بھی سپریم کورٹ کے 1962ء کے فیصلے کے مطابق ہے۔ ”2013ء میں للیتا کماری بنام حکومت اتر پردیش کا جو فیصلہ ہوا تھا اس کو بھی دہلی ہائی کورٹ نے بالکل نظر انداز کیا، اس میں کہا گیا تھا کہ دفعہ 154 کے مطابق ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے۔ اگر قابل دست درازی جرم (cognisable offence)ہے اور اس کیلئے کوئی ابتدائی تفتیش کی اس معاملے میں ضرورت نہیں ہوتی“۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:شمال مشرقی دہلی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تیار کردہ ایک عبوری رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے تشدد کے دوران کم از کم 122 مکانات، 322 دکانیں اور 301 گاڑیوں کونقصان پہنچا یاوہ مکمل طور پرتباہ ہوگئیں۔ حتمی رپورٹ پیش کرنے تک ان کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔سینئر عہدیداروں نے پیر کے روز بتایا کہ عبوری رپورٹ اتوار کی صبح تک سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) کی سربراہی میں 18 ٹیموں کی ان پٹس کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ہدایت کے بعد یہ ٹیمیں شمال مشرقی دہلی میں فسادات سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات سروے کر رہی ہیں۔شمال مشرقی دہلی کے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر تعداد بڑھے گی کیونکہ ایس ڈی ایم کا سروے جاری ہے، جو ہفتے کے روز شروع ہوا تھا۔ اس تشدد میں اب تک کم از کم 47 افراد ہلاک اور 350 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ضلعی مجسٹریٹ (شمال مشرقی دہلی) ششی کوشل نے بتایا کہ ہر ایس ڈی ایم 60 محکمہ کی ٹیم کی قیادت کر رہا ہے، جس میں محکمہ محصولات کے عہدیدار اور سول رضاکار شامل ہیں، جو سروے میں مدد اور متاثرین کو امدادی ریلیف فراہم کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔ تاہم انہوں نے ’نقصانات کاجائزہ‘ عمل کے نتائج یا کتنے مقامات کا سروے کرنا باقی ہے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ رپورٹ میں درج ان اعدادوشمار سے ان املاک کی عکاسی ہوتی ہے جن کا سروے ایس ڈی ایم ٹیموں نے آزادانہ طور پر کیا تھا اور ساتھ ہی معاوضے کے دعوے کی درخواستیں جن میں جسمانی تصدیق ان ٹیموں نے مکمل کی تھی۔ساتھ ہی انھوں نے کہاکہ اس ہفتے کے آخرتک سروے مکمل ہوجائے گا۔گذشتہ ہفتے دہلی فائر سروسز کی تیار کردہ ایک عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیر اور جمعرات کی صبح کے درمیان کم از کم 79 مکانات، 52 دکانیں، پانچ گودام، چار مساجد، تین فیکٹریاں اور دو اسکول جلائے گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ دو پہیوں سمیت 500 سے زیادہ گاڑیوں کونقصان پہنچاہے۔سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ ان تخمینوں میں بھی اضافے کا امکان ہے۔
نئی دہلی:ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کی ہے اور ہندوستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ”جنونی تشدد“ کو غالب نہ ہونے دے۔ وہ شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات پر ردعمل کا اظہار کررہے تھے جس میں اب تک 46 افراد کی موت ہوچکی ہے اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ پر لکھاہے”ایران ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کرتا ہے۔ صدیوں سے ایران، ہندوستان کا دوست رہا ہے۔ ہم ہندوستانی حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور جنونی تشدد کو غالب نہ ہونے دیں۔آگے کی طرف پیش قدمی پرامن بات چیت اور قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے“۔
صفدر امام قادری
صدر شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
دلّی کے الیکشن میں جہاں ہر طبقے کے افرادنے کجریوال کو ووٹ دے کر تیسری بار وزیرِ اعلی کی کرسی پر بٹھایا، ٹھیک ایک ہفتے میں فرقہ وارانہ صورتِ حال میں ایسی ابتری آگئی ہے کہ اب آسانی سے اس سلسلے کو ختم ہوناخارج از امکان نظر آتا ہے۔ اقلیتی طبقے کے افراد فرقہ پرستوں کی زد پہ ہیں اور چار درجن سے زیادہ افراد جاں بہ حق ہو چکے ہیں۔ دلّی کی پولیس مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ہے، اُس نے کھُلی چھوٹ دے کر فساد برپا کرنے والوں کو سہولت دے رکھی ہے مگر ایسے عالم میں دلّی کی حکومت کے سربراہ اروند کجریوال اور اُن کی پارٹی ہر طرح سے یہ سوالوں کے حصار میں ہے۔ کیا اس انتشار اور نفرت کے ماحول کو ایک تماش بین کی طرح سے یہ لوگ دیکھتے رہیں گے؟ اقلیت آبادی جس نے ننانوے فی صد ووٹ عام آدمی پارٹی کو دے کر اُسے فاتح بنانے میں سرگرم تھی، اب خود کو ٹھگا ہوامحسوس کر رہی ہے۔
دلّی کے انتخاب کے پہلے جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور پھر شاہین باغ کے احتجاج سے اروند کجریوال کی سوٗجھ بوٗجھ کے ساتھ خود اختیار کردہ دوٗری نے سیاسی مبصّرین کے ذہن میں چند سوالات ڈال رکھے تھے۔ آخر دلّی پولیس کا بہانہ بنا کر وزیرِ اعلا سماجی اور سیاسی مسئلوں سے خود کو الگ تھلگ کیسے رکھ سکتا ہے؟ وہ اگر پورے سماج کا نگہہ بان ہے تو اسے میدانِ کارزار میں اُترنا ہی پڑے گا۔ وہ ساحل سے رزم ِ خیر و شر کب تک دیکھتا رہے گا؟ مگر اُس دور میں عام آدمی پارٹی کے بہی خواہوں نے بتایا کہ کجریوال بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوئی اضافی فائدہ نہیں دینا چاہتے، اس لیے اقلیتی مسئلوں میں دور سے ہی کام کر رہے ہیں۔ ہر چند اصولی سیاست جس کا دعوا اروند کجریوال کو ہے،اس کا یہ شعار نہیں مگر انھوں نے ووٹ کی خاطر جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور شاہین باغ احتجاج سے خود کو الگ رکھا اور اقلیت اور اکثریت دونوں طبقے کے افراد کے ووٹ لوٗٹنے میں کامیاب ہوئے۔
دلّی فسادات میں جس سیاسی چہرے کو سب سے زیادہ شہرت ملی، وہ عام آدمی پارٹی کے سابق رکنِ اسمبلی اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کپل مشرا ہیں۔ لوگ اسی سے دونوں پارٹیوں کے کردار و عمل کے اشتراک کی کہانیاں گڑھنے میں لگے ہیں۔کمار وشواس، شاذیہ علمی اور نہ جانے کتنے افراد ہیں جو اِن دونوں مورچوں پر حسبِ ضرورت فِٹ ہو جاتے رہے ہیں۔ ابھی درجنوں چہرے وقت آنے کے بعد اصلی شکل میں پہچانے جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے افراد تو کھُلے طور پر فرقہ پرستانہ سیاست کے کھیل تماشے کا حصہ ہیں مگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ انھی خیالات کا حامل ہے اور اسی طور پر سرگرمِ عمل ہے؛ اس کی شناخت ایک لازمی امر ہے۔
اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کی سیاسی پیدایش اور مکمل تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ انّا ہزارے کی تحریک اب کہاں ہے اور خود انّا ہزارے ہندستان میں کون سا سیاسی کام انجام دے رہے ہیں؟ اروند کجریوال خود کو اسی تحریک سے پیدا شدہ قرار دیتے ہیں۔ کیا اس تحریک کا یہی ایجنڈا تھا کہ کانگریس کی جگہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدارمیں بٹھا دیا جائے۔ ہزاروں جھوٹ اورغلط اشتہارات کی بنیاد پر انّا ہزارے کی تحریک آگے بڑھی تھی اور جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی حکمراں ہوئی، انّا ہزارے خاموش ہو گئے۔ کہاں گاندھی جیسے تیاگی لیڈر کہے جاتے تھے اور اب ان کے منھ پر تالا لگا ہوا ہے اور اُن کے تحریک کاربھارتیہ جنتا پارٹی میں اندر یا باہر سے تعاون کر رہے ہیں۔
اروند کجریوال کے ساتھ سب سے بڑی تعداد میں نوجوان لیڈروں کی وہ جماعت ہے جس کی پیدایش ‘Citizens for Equality’تحریک کے دوران ہوئی۔ یہ تحریک ہندستان میں کمزور طبقوں کے ریزرویشن کے خلاف مورچہ بندی میں سامنے آئی تھی۔ اُس زمانے کے احوال پر نظر رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس حلقے کے افراد کو نہ ہندستان کے آئینی ارتقا کا پاس تھا اور نہ ہی غلامی سے آزاد ہوئی قوم کے درجہ بند ماحول سے نکال کر مساوات کے راستے پر لانے کے لیے جنگِ آزادی کے مجاہدین نے کون سے خواب دیکھے تھے، اس کا کچھ لحاظ تھا۔ بس چند نوجوانوں کو مشتعل کرکے سڑکوں پر اُتار دینا اُن کا مقصد تھا۔ عام آدمی پارٹی میں اس تحریک سے نکلے ہوئے افراد ہزاروں کی تعداد میں شامل ہیں۔
اس بار دلّی الیکشن کے اختتام کے فوراً بعد اروند کجریوال کا پہلا بیان آیا کہ اگر ان کے پاس پولیس ہوتی تو شاہین باغ کے احتجاج اور سڑک جام دو گھنٹے میں ختم کرا دیتے۔ انھوں نے عوامی احتجاج کے نفسِ مضمون پر ایک لفظ نہ کہا اور نہ ہی انھیں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ اور ملک بھر کے بے چین عوام کے مسئلے یاد آئے۔ جس دن نتائج سامنے آئے، وہ ہنومان مندر کی طرف روانہ ہوئے اور حلف برداری کے ساتھ یہ بیان سامنے آیا کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ مل جُل کر دلّی کی ترقی کا راستا صاف کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جس مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرکے آپ نے انتخاب جیتا ہے، اسی سے مل کر کس طرح آگے بڑھیں گے؟اروند کجریوال کے سیاسی نظریے میں کتنا لچیلا پن ہے اور وہ کس طرح ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک پہنچ سکتے ہیں، یہ اب دیکھنے کی چیز ہے۔
اروند کجریوال کی پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے تئیں خصوصی توجہ کی تو خوب خوب داد دی گئی اور دلّی ہی نہیں، پورے ملک میں اس کے لیے ان کی پذیرائی ہوئی۔مگر صرف انھی کاموں کے لیے حکومت نہیں بنائی جاتی۔ انگریزوں کی غلامی میں تعلیم، صحت اور مادّی ترقی کے دوسرے وسائل رفتہ رفتہ سامنے آنے لگے تھے۔ مگر ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر ہمارے آباواجدادنے یوں ہی غلامی سے نجات حاصل نہیں کی تھی۔ سیاسی قیادت صرف پانی، بجلی اور صحت نہیں۔ روتی، کپڑا اور مکان کا سیاسی نعرہ چار دہائی پہلے لگا تھا۔ آج ملک میں عوام کو اس سے آگے بہت کچھ چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزادی کی حصولیابیوں کے چھیننے والی قوّتوں سے لڑائی سب سے پہلے ہو۔
اروند کجریوال سماجی انصاف اور سماجی ہم آہنگی کے لیے جنگ کی قیادت نہیں کرسکتے۔ وہ یوں بھی کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق نوکرشاہ ہیں۔ ایک طرف فائدے سے رغبت اور دوسری جانب اعلا عہدے دار کی تابع داری۔ بھلے وہ تیسری بار وزیرِ اعلا بنے ہوں مگر ان کے ذہن سے یہ آرکی ٹائپ ابھی بھی زائل نہ ہوا۔ اسے بعض لوگ سنسکار بھی کہتے ہیں۔ انھیں کمزور طبقے، محروم جماعتوں اور اقلیت آبادی کے حقوق اور ان کے سلسلیسے حساس ذہن سے کام کرنے کی توفیق نہیں۔ اس لیے اب آیندہ پانچ برس کی مشکلات کو سمجھنا پڑے گا۔
انّا ہزارے سے لے کر بابا رام دیو تک اروند کجریوال کے متعدد ساتھیوں کو ہندستانی عوام نے اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔ یہ سب لوگ فرقہ ورانہ خیر سگالی اور قومی اتحاد کے علم بردار نہیں ہوسکتے۔یہ اکثریتی آبادی کے نمایندہ بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کبھی باہر سے اور کبھی اندر سے تعاون کرنے کے کھلاڑی ہیں۔ یوں بھی ووٹ کی تعداد سیاست میں اقلیت، پس ماندہ طبقات اور محروم جماعتوں کا محافظ کوئی نہیں ہوتا۔ دلّی کی تعلیم یافتہ آبادی میں بھی کہاں کوئی عوامی انقلاب سامنے آ رہا ہے؟ عوام اور خاص طو ر سے کمزور اقلیت آبادی پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور باقی دوسرے افراد تماش بین ہیں۔
ملک کی تقسیم کے وقت فسادزدہ علاقوں میں کانگریس کے کارکنوں کے ذریعہ سرد مہری دکھانے پر گاندھی بہت ناراض ہوئے تھے۔ رام منوہر لوہیا کو خط لکھ کر جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی حفاظت کے لیے کلکتے سے بلایا تھا۔ مصیبت کی اُس گھڑی میں سیاست دانوں کو گاؤں اورمحلّوں میں پھیل جانے کو فسادات کو روکنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کا نسخہ بتایاتھا۔ اسی لیے فرقہ پرستوں نے اُن کی جان لی تھی۔ اروند کجریوال اور ان کے عوامی نمایندے اگر دلّی کے فساد زدہ علاقوں میں سڑکوں پر آجائیں تو نہ صرف یہ کہ فسادات رُک سکتے ہیں بلکہ یہ بات یقین تک پہنچ سکتی تھی کہ وہ ووٹ کے بدلے اپنے عوام کی جان اور مال کی حفاظت کرنے کا وعدہ بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اروند کجریوال کے لیے یہ موقع تاریخ میں عظمت پانے کا ہے یا اُس کے سیاہ ابواب میں اضافہ کرنے کا؛ اب اسی کا انتظار ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
2014ء سے ہی ’ہندو راشٹر‘ کیلئے ہندوتو کے پجاری کوشاں ہیں۔ اس کیلئے ان کے پیش نظر ایک کام یہ ہے کہ مسلمانوں کا جینا ملک میں حرام کر دیا جائے۔ نئی نئی تدبیروں، چالوں اور سازشوں سے اس کام پر ان کے چھوٹے اور بڑے سب لگے ہوئے ہیں۔ 2014ء سے لے کر 2019ء تک مسلمان ظلم پر ظلم سہتے رہے لیکن کسی بڑی مخالفت کیلئے نہ وہ سڑک پر اترے اور نہ ہی صدائے احتجاج بڑے پیمانے پر بلند کی۔ صبر و تحمل سے کام لیتے رہے اور اس امید میں رہے کہ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی کو دوبارہ گدی پر بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گامگر جارحانہ قومیت کے بل بوتے پر مودی-شاہ کو دوبارہ ملک میں انارکی اور فتنہ و فساد پھیلانے کا موقع مل گیا۔ مودی پہلے سے بھی بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے۔ نشہ اقتدار اس قدر چڑھا کہ قانون پر قانون بنانے لگے۔ ’تین طلاق‘ پر بھی قانون بنایا۔ کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو آناً فاناً ہٹایا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر بھی ملک میں سناٹا رہا لیکن جب شہریت ترمیمی بل دونوں ایوانوں میں منظور ہوکر قانونی شکل اختیار کرلیا تو ملک کا سناٹا ٹوٹا۔ خاموشی ختم ہوئی۔ احتجاج اور دھرنے کا دور شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے ملک بھر میں دھرنا اور احتجاج غیر معمولی تحریک کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ دھرنے کا آغاز شاہین باغ دہلی سے ہوا۔ شاہین باغ کے طرز پر سیکڑوں شاہین باغ کالے قانون کے خلاف وجو دمیں آگئے۔
دسمبر 2019ء سے دہلی کے اسمبلی الیکشن کی ہمہ ہمی شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ(8فروری2020ء) قریب آتی گئی الیکشن کی گرمی میں اضافہ ہوتا گیا۔جب الیکشن کو 10-15 دن باقی تھے تو بی جے پی نے انتخابی کامیابی کیلئے ساری قوت جھونک دی۔ دو سو سے زائد ایم پی، گیارہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، مودی کابینہ کے تقریباً سارے وزراء اور آس پاس کی ریاستوں کے بی جے پی کے لیڈران مودی-شاہ کی قیادت میں انتخابی میدان میں پوری طاقت سے اتر گئے۔ شاہین باغ ایک بڑا مدعا بی جے پی والوں کیلئے ہوگیا۔ ہر لیڈر شاہین باغ کا نام لینے لگا۔ مودی، شاہ، یوگی، گری راج سنگھ، کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما کے علاوہ بہت سے سنگھی لیڈروں نے شاہین باغ کوHotpotato (جھمیلے کی چیز) کی طرح استعمال کرنے لگے۔ اس سے بی جے پی والے اس سے دومقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ شاہین باغ کو ان لوگوں نے مسلمانوں کا دھرنا یا تحریک بتانے کی کوشش کی۔ حالانکہ غیر مسلم حضرات بھی بڑی تعداد میں شریک تھے اور ہیں۔ فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے شاہین باغ کا استعمال کثرت سے کرنے لگے۔ اس شاہین باغ سے سارے ملک بھر کے شاہین باغ کو ختم کرنے بلکہ تحریک کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ بی جے پی کا یہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ دوسرا مقصد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا تھا، عام آدمی پارٹی کی جیت سے اس مقصد پر بھی پانی پھر گیا۔ ان دونوں مقاصد کے پورے نہ ہونے سے بی جے پی نے دہلی میں مسلم مخالف فساد کا منصوبہ بنایا۔ شروعات جعفر آباد کے شاہین باغ سے کپل مشرا نے پولس کو الٹی میٹم دے کر کی۔ الٹی میٹم 23فروری کو دیا اور 24فروری سے فساد بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا۔ پولس، حکومت اور بی جے پی سب نے مل کر غریب مسلم بستیوں کو نہ صرف جلایا بلکہ 40 مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا۔ سیکڑوں مسلمانوں کو زخمی کر دیا جو اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اربوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کی گئیں۔ چند ہندوؤں کی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ ان کی جائیدادوں کو بھی نقصان پہنچا۔ فساد کرانے میں بی جے پی کی حکومت اور بی جے پی کے لیڈران ماہر ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ فساد کیسے برپا ہوتا ہے۔ پہلے وہ فرقہ وارانہ ماحول تیار کرتے ہیں اور جب پورے طور پر ماحول تیار ہوجاتا ہے تو ماچس کی تیلی سے فساد کی آگ لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
بی جے پی کے ایم پی پرویش ورما نے دہلی کے ہندوؤں کو خوف زدہ کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران کہاکہ ”شاہین باغ کے لوگ تمہارے گھروں میں داخل ہوں گے اور تمہاری بہنوں اور بیٹیوں کا بلتکار کریں گے اور تمہیں قتل کریں گے“۔ کپل مشرا نے جن کو شاید بی جے پی والوں نے فساد کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی، دہلی کے اسمبلی انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کا نہ صرف مقابلہ بتایا بلکہ شاہین باغ سے پاکستانیوں کے داخل ہونے کا راستہ بتاتے ہوئے یہ کہاکہ دہلی میں یہیں سے پاکستانی داخل ہوں گے۔ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ای وی ایم کے بٹن کو اس قدر زور سے دبانے کی بات کہی کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر مسلمانوں کو غدار بتاتے ہوئے کہاکہ دیش کے غداروں کو گولی مارو۔ مجمع عام میں موجود سارے لوگوں نے اسے بار بار دہرایا۔
ان سب کے سردار 2002ء کے گجرات فساد کے ذمہ دار وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہاکہ ”جعفر آباد، سلیم پور اور شاہین باغ میں جو کچھ ہورہا ہے سنجوگ (اتفاق) نہیں ہے پریوگ (تجربہ) ہے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بہت بڑی چال ہے“۔ بھلا یوگی ادتیہ ناتھ کیسے شاہین باغ کو بھولتے، انھوں نے کہاکہ ”کجریوال شاہین باغ والوں کو بریانی بھیجتے ہیں“۔ شاہین باغ اور بریانی یوگی کیلئے مسلمان کی علامت ہیں۔ مسلمان- مسلمان، پاکستان-پاکستان اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات، عصمت دری کے ساتھ قتل، یہ وہ سب چیزیں تھیں جس سے ماحول پورے طور پر فساد کیلئے تیار ہوگیا۔ کپل مشرانے جعفر آباد کے شاہین باغ کی خواتین و مرد سے محاذ آرائی (Confrontation) سے فساد کا آغاز کیا جو ابھی تھما نہیں ہے۔ انوراگ ٹھاکر کا گولی مارنے کا نعرہ کل بھی دہلی کے راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پر دہرایا گیا۔ ایک روز پیشتر بی جے پی کے ایم ایل اے ابھئے ورما نے لکشمی نگر میں مارچ کیا اور نعرہ بلندکیا ”پولس کے ہتیاروں کو گولی مارو سالوں کو“۔
مشہور صحافی خاتون شوبھا ڈے کا مضمون آج (یکم مارچ) ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے:”Wanted: People who have the spine to confront hate-mongers.” (ضرورت ہے ایسے لوگوں کی نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرسکیں)۔ خاتون صحافی نے اپنے مضمون میں بی جے پی کی طرف سے نفرت پھیلانے والوں کا نام لے لے کر لکھا ہے کہ ان کی شرارت محض اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ملک میں ان کے ساتھ محاذ آرائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ خود محاذ آرائی کرکے فتنہ و فساد کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ لوگ امن و انصاف اور ہندو مسلم اتحاد کے غارت گر ہیں۔
میرے خیال سے دہلی کا فساد بہت ہی اندوہناک اور غمناک ہے۔ جس طرح پولس نے فساد میں حصہ لیا اور بلوائیوں کو تین دنوں تک چھوٹ دی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اب فساد ہی ایک ایجنڈا ہے جس سے وہ احتجاج، دھرنے اور تحریک کو ختم کرنے کا منصوبہ اور عزم رکھتے ہیں۔ محترمہ شوبھا ڈے نے صحیح کہا ہے کہ ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی نفرتوں کو صحیح جواب دے کر ختم کرسکیں۔ دنیا بھر میں اب ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ مودی حکومت بھی بدنام زمانہ ہوگئی ہے۔ مودی اپنی شخصیت کو جس قدر چمتکار بتانا چاہ رہے تھے وہ ساری چمک دمک ماند پڑتی جارہی ہے۔ بدنام زمانہ، نام نہاد مسلمان ایم جے اکبر اور عمیر الیاسی کو جنیوا بھیج کر دنیا کو بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندستان کے مسلمان خیر و عافیت سے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کی بنیاد امتیاز اور تفریق پر نہیں ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں بی جے پی کیلئے کارآمد محض اس لئے ہیں کہ دونوں بدنام زمانہ ہیں۔ ایم جے اکبر کو شاید ایک سال بعد نمودارہوئے ہیں۔ ان پر ایک نہیں بیسیوں خواتین کی طرف سے جنسی ہوس رانی کا الزام لگا خود بی جے پی نے ان کو کنارے لگادیا تھا۔ اب ان کی بے جان شخصیت کو مسلمانوں کی دشمنی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ عمیر الیاسی کی بھی شخصیت جھوٹ اور فریب کی شاہکار ہے۔ اپنے آپ کو ملک کے سارے ائمہ کرام کی انجمن کا صدر بتاتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ دو چارامام بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں سے مدد لینے کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی ایسے لوگوں کا سہار الے رہی ہے جو خود بے سہارا ہوگئے ہیں۔
مشہور مصنف اور قلم کار چیتن بھگت نے اپنے ایک مضمون میں جو آج (یکم مارچ) کے ’دی ٹائمس آف انڈیا‘ میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ”Why a prosperous, harmonious Hindu Rashtra is an impossibility” (ایک فلاحی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی ایک ہندو راشٹر کیوں ناممکن ہے)۔ چیتن بھگت ایک اچھے دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔انھوں نے دلائل اور شواہد سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندو راشٹر کی جدوجہد ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جائے گی اور لوگ جدید سائنسی سوچ اور سماجی ہم آہنگی سے محروم ہوجائیں گے۔ مضمون نگار نے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔ جب سے مودی کی حکومت ہوئی ہے ہندستان کی معاشی حالت بحران کی شکار ہے۔بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال میں پہلی بار ایسی بے روزگاری ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پریشان کسان خودکشی کر رہا ہے۔ مذہبی دھماچوکڑی کچھ اس طرح ہے کہ مسلمان، دلت اور پسماندہ طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ غربت اور افلاس میں مبتلا ہوگیا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی پالیسی سے مذکورہ لوگوں کے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ کارخانے بڑی تعداد میں بند ہوگئے ہیں۔ کئی قسم کے کاروبار حکومت کی مذہبی پالیسی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں۔ ان سب کے باوجود نہ موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور نہ حکمراں جماعت کی بیداری کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں بلکہ روز بروز معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دہلی شہر میں جو لوگ تباہ و برباد ہوئے ہیں۔محنت و مشقت سے جنھوں نے اپنا گھر بنایا تھا، کاروبار شروع کیا تھا وہ سب کے سب تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ ان کو پھر سے زندگی شروع کرنے میں کتنی دشواریاں اور مشکلیں پیش آئیں گی۔ ہر کوئی جانتا ہے مگر ان فرقہ پرستوں اور فسادیوں کو ذرا بھی خیال نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ان کے اندر سے بالکل ختم ہوگئی ہے۔ حیوانوں سے بدتر ہوگئے ہیں۔ ان کو زیر کرنے کی اب ایک ہی شکل باقی رہ گئی ہے کہ امن پسندوں اور انصا ف پسندوں کا اتحاد بڑے پیمانے پر ہو۔ ساتھ ساتھ پر امن ماحول اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یہی دو چیزیں یعنی امن اور ہندو مسلمانوں کا اتحاد ان کے ہندوتو اور راشٹر واد کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ فساد، فتنہ ان کیلئے مرعوب غذائیں ہیں۔ اسی سے ان کی سیاست، جماعت اور حکومت زندہ ہے۔ اگر فتنہ فساد نہ ہوں، امن و اتحاد بحال رہے تو ان کیلئے یہی چیز سامانِ موت ثابت ہوسکتی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:نارتھ ایسٹ کے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں گلی محلے میں راشن کی کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ لیکن راشن لینے والوں کی بھیڑ اتنی زیادہ ہو گئی کہ کچھ ہی دیر میں دکانوں سے راشن ہی ختم ہوگیا۔ موج پور کے رہائشی ایک بزرگ سجادنے بتایا کہ گزشتہ پانچ چھ دنوں سے کھانے پینے تک کی دکانیں بندتھیں۔لوگوں کے گھروں میں راشن ختم ہوگیاہے۔ ارد گرد کی تمام دکانیں بند تھیں۔ جمعہ کو4سے 5 دکانیں کھلی تھیں۔ دکانیں کھلتے ہی اتنی زیادہ بھیڑ ہو گئی کہ ایک گھنٹے میں ہی دکانوں سے آٹا، چاول، دال، تیل،صابن تک ختم ہوگیا۔ لوگ لائن لگا کر سامان لے رہے تھے۔ اس کے بعدسیکورٹی کے پیش نظر دوکانوں کو ڈیڑھ سے دوگھنٹے کے بعد بند کر دیا گیا۔برہم پوری کے رہائشی عارف احمد نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ مزدوری کرنے والے ہیں۔روزکماکرلاتے ہیں، پھر راشن لا کر کھاتے ہیں۔کرایہ پر رہنے والے بہت سے خاندان راشن نہیں ملنے کی وجہ سے اپنے گاؤں چلے گئے ہیں۔ ایک بزرگ شمشاد احمد نے بتایا کہ لوگوں نے دکانیں کھلوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بزرگ نے کہاہے کہ دوکاندار اب دکان کھولنے سے منع کر رہیں۔ لیکن انہیں سیکورٹی دیے جانے کی بات سمجھا کر منا لیاگیاہے۔موج پور کے وجے پارک میں بھی دکانیں نہیں کھلنے پر لوگ پریشان ہیں۔وجے پارک کے رہائشی شکیل احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سے چھ دنوں سے گھر میں نصف کھانا بن رہاہے۔ اس سے پہلے دن میں تین بار کھانا بنتا تھا، لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے گھر میں رکھے راشن کے مطابق ہی کھانابنا رہے ہیں۔گزشتہ پانچ دنوں سے سبزی نہیں مل رہی ہے۔گھر میں پہلے سے رکھی دال اور چاول بنا کرگزارا چلا رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان ساحل انصاری نے بتایا کہ حالات عام نہیں ہیں۔ دوکاندار اپنی دکانیں کھولنے کوتیارنہیں ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں کھانے کے لیے راشن نہیں بچاہے۔ بتا دیں نارتھ ایسٹ کے جعفرآباد، سیلم پور، موج پور، گھونڈا،کروال نگر بھجن پورہ، چاند باغ سمیت دیگر علاقوں میں ہوئے تشدد کے بعد سے پولیس نے دفعہ -144 لگائی ہوئی ہے۔ ڈر کی وجہ سے مارکیٹ اور دکانیں بندہیں۔
(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن
حوصلے نہیں چھین سکتے ۔شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین ، اُس وقت بھی ڈٹی ہوئی تھیں جب شہر دہلی جل رہا تھا ۔ اور آج جب حالات کچھ کچھ قابو میں آرہے ہیں تب بھی ڈٹی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ایک ویڈیو، جووائرل ہورہا ہے ، چند ’شرپسندوں‘ کی شاہین باغ پر حملے کی ’ منصوبہ بندی‘ کو ظاہر کررہا ہے ۔ یرقانی شرپسندوں اور فسادیوں نے ساری دہلی پر خوف ودہشت کی فضا طاری کررکھی ہے لیکن سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے صرف دہلی ہی میں نہیں ملک بھر میں جاری ہیں ۔ اِن احتجاجی مظاہروں کا جاری رہناحوصلوں کی برقراری کا بھی ثبوت ہے اور اس کا بھی کہ جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن آئین مخالف سیاہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بند نہیں کرواسکتے ہو ۔۔۔
دہلی میں تشدد کا مقصد سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں بالخصوص شاہین باغ کے مظاہرے کو روکنا ہی تو تھا۔۔۔ دو مہینے سے زائد عرصے سے جاری ان مظاہروں کے دوران نہ کبھی کوئی تشدد ہوا اور نہ ہی مظاہرین کی جانب سے کبھی کوئی شرپسندی کی گئی ، یہ مظاہرے اپنے آغاز ہی سے ’پرامن ‘ تھے اور ہیں ۔۔۔ لیکن صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر بی جے پی کے ایک قائد کپل مشرا نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی ٹھانی۔ پولس کے حفاظتی گھیرے میں’موج پور‘ میں کھڑے ہوکر دھمکی دی کہ اگر تین دن کے اندر سی اے اے کے خلاف مظاہرے کرنے والے نہ ہٹے تو دیکھ لیں گے ۔ دھمکی بے حد صاف تھی ۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جو کسی زمانے میں عام آدمی پارٹی میں ہوا کرتے تھے حالانکہ ان کا خاندانی پس منظر آر ایس ایس کا ہے ۔ پارٹی سے نکالے گئے اور جہاں کا ’خمیر‘ تھا اسی پارٹی یعنی بی جے پی میں شامل ہوئے ۔ چونکہ ’ ضمیر‘ کے نام پر ان کے پاس ’بے ضمیری‘ کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے یہ ’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسا زہریلا نعرہ لگاتے اور یرقانی ٹولے کو اشتعال انگیزی کے لئے اکساتے رہے ۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں دو بھگوا دھاریوں کے ذریعے گولی باری کی وارداتیں ہوئی تھیں تب ہی اگر بی جے پی کی مرکزی سرکار چاہتی تو کچھ دنوں بعد جلنے والی دہلی کو جلنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن یہ اسےمنظور نہیں تھا۔ جس روز چھٹ پٹ تشدد کی وارداتیں شروع ہوئی تھیں اس روز بھی اگر وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی پولس چاہتی تو ’شرپسندوں‘ کو جن میں کپل مشرا پیش پیش ہیں حراست میں لے کر دہلی کو جلنے سے بچاسکتی تھی ، لیکن انہیں تو شاید دہلی کو جلتا دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔ شاید یہ چاہتے تھے کہ نیرو نے جس طرح روم کو جلتے ہوئے دیکھا اور بانسری بجائی تھی، یہ دہلی کو جلتے دیکھیں ۔ یہ بانسری تو خیر نہیں بجارہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کی ’ مہمان نوازی‘ میں لگے تھے ، اور یہ ’ مہمان نوازی‘ بھی ایک اعلیٰ ترین قسم کی تفریح ہی تھی۔ لہٰذا ’ شر پسند‘ جو یقیناً دہلی کے ساتھ بیرون دہلی سے آئے تھے جی بھر کر دہلی کو لوٹتے رہے ۔ وہ دہلی جو ماضی میں بار بار لٹی ہے اور اب لگ رہا تھا کہ اس کے لٹنے کے دن ختم ہوئے ، پھر سے لٹ گئی۔ ویسے تو دہلی ۱۹۸۴ء میں بھی لٹی تھی، اس وقت کانگریس کا راج تھا ۔ اس وقت سکھ فرقہ نشانے پر تھا۔ اس معاملے میں کانگریس کے کئی سیاست دانوں کو سزا بھی ملی ہے ۔ منموہن سنگھ جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے سکھوں کے قتل عام کا ’ کفارہ‘ ادا کرنے کی ہمت بھی کی تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کے دور میں دہلی لٹی ہے ، جلی ہے اور نشانے پر مسلمانوں کے ساتھ عام دہلی والے بھی رہے ہیں ، ہندو بھی۔ اور یقین مانیئے کسی بھی شرپسند کو سزا نہیں ملے گی ۔ کم از کم وہ جو شرپسندی کے لئے لوگوں کو اکسارہے تھے ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما سب محفوظ رہیں گے ۔ امیت شاہ جی نے بھی لوگوں کو مشتعل کرنے میں کوئی کم اہم کردار ادا نہیں کیا ۔ شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے والے بیان کو ’شریفانہ‘ بیان تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اور نہ ہی وزیراعظم نریندر مودی کے ’ سینوگ‘ اور ’ پریوگ‘ والا بیان ایک جمہوری سیکولر ملک کے وزیراعظم کے شایانِ شان کہلاسکتا ہے ۔ پر ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ گجرات فسادات میں بھی ملوث ہونے کا ان پر الزام ہے پر کیا ان کا کچھ بگڑا ؟ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس مرلی دھر نے ان شرپسند بھاجپائی لیڈروں کو لگام لگانے کی کوشش کی تھی، ان کا راتوں رات تبادلہ کردیاگیا ۔ باقی عدلیہ بغیر ریڑھ کی ہڈی والی ہے ۔ یہ دہلی کو جلتا تو دیکھ سکتی ہے پراسے جلانے والوں کو لگام نہیں لگاسکتی۔
دہلی اسمبلی کے الیکشن سے ہی سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرے بالخصوص شاہین باغ اور وہاں کی خواتین بی جے پی کے نشانے پر تھیں ، آج بھی ہیں ۔ انہیں دیش کے غدار قرار دیا گیا ، انہیں گولی مارنے کی بات کی گئی۔ اور پھر ساری دہلی پر سی اے اے کی حمایت کرنے والوں نے آگ اور خون کی برسات کردی ۔ یہ فسادات گجرات 2002ء کی یاد دلاتے ہیں ، کیونکہ گجرات فسادات ہی کی طرح یہاں بھی لوگ زندہ جلائے گئے ۔ اکبری بیگم کی عمر ۸۵ سال کی تھی، وہ اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ دہلی کے کھجوری خاص سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور گمری ایکس ٹنیشن میں رہتی تھیں ۔ ایک مسلح ہجوم وہاں پہنچا ، یہ دوکانوں مکانوں کو جلارہا تھا ، اس نے اکبری بیگم کے چار منزلہ مکان کو بھی آگ کے حوالے کردیا ۔ اکبری مکان کے تیسرے منزلے پر تھیں، وہ آگ سے بچ نہیں سکیں ۔ اکبری کے بیٹے ۴۸ سالہ سلمانی کا کہنا ہے کہ ماں گئی ، مکان اور دوکان کچھ نہیں بچ سکا ۔ شاہد کی داستان لے لیں ، ابھی چار مہینے قبل اس ۲۸ سالہ نوجوان کی شادی ۲۰ سالہ شازیہ سے ہوئی تھی ۔ شاہد کو مشتعل ہجوم نے ماردیا ۔ اور شازیہ دوماہ کی حاملہ ہے ! راہل سولنکی نوجوان تھا ، اسے پولس کی گولی چاٹ گئی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کی موت کا ذمے دار کپل مشرا ہے ۔ درد اور الم بھری بے شمار کہانیاں ہیں ، مہتاب کی ، فاروقیہ مسجد کو جلانے کی ، اشوک نگر کی مسجد پر ہنومان کا جھنڈا لہرانے کی ، مصطفےٰ آباد کے ایک نوجوان محمد عمران کے پولس کی گولی سے اعضاء مخصوص کے چیتھڑے بن کر اڑنے ، لوگوں کے اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ نفرت پر محبت حاوی رہی ہے ۔ دونوں فرقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو پناہ دینے ، مندر کی حفاظت کرنے اور اپنی جانوں کو دوسروں کے لئے خطرے میں ڈالنے کی ۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقی ہندوستان جس کو ختم کرنے کے لئے یہ سب ہورہا ہے ۔ یہ سب یعنی نفرت کا پرچار ، زہریلی تقریریں ، غداروں اور گولی ماروں کے نعرے، کرنٹ پہنچانے کی باتیں اور سی اے اے جیسے غلیظ قانون کے ذریعے فرقہ وارانہ سطح پر فرقوں کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج قائم کرنے کی کوششیں۔
دہلی کو جلانا منصوبہ بند تھا۔ یہ سازش کس کی تھی ،اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے کہ جلتی دہلی کو ، عوام کو اور دہلی والوں کو جب مدد کی ضرورت تھی ، جب آگ بجھانے کے لئے انہیں پانی چاہیئے تھا تب مدد دینے اور پانی پہنچانے والے ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھے ۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا ذکر کرنا اب فضول ہے ۔ ان میں ’ سیاسی جرأت‘ کا فقدان ہے لہٰذا وہ چاہے جس قدر ترقی دہلی کو دلادیں جب بھی دہلی کو آگ اور خون سے بچانے کی ضرورت ہوگی وہ بہت دور کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔۔۔ ان پر چھپا ہوا ’ سنگھی‘ ہونے کا الزام
لگ رہا ہے ، میں اس الزام کو نہیں مانتا لیکن میں یہ بھی نہیں مانتا کہ پولس محکمہ آپ کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے آپ بے بس تھے ۔ آپ مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کرسکتے تھے ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آپ کو جوابدہ ہیں ان کی لگامیں کس سکتے تھے ، اپنے ممبرانِ اسمبلی اور کونسلروں اور لیڈروں کی پوری فوج سڑکوں پر اتارسکتے تھے اور خود ان کے ساتھ اترکر امن وامان کے لئے مارچ کرسکتے یا دھرنا دے سکتے تھے ۔آپ خاموش رہے ، یہ خاموشی بہت کچھ بولتی ہے ۔ کانگریس کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ دہلی اسمبلی میں اس کا ایک بھی رکن نہیں ہے ۔ لیکن رکن نہ ہونے کا مطلب ’ بے بسی‘ تو نہیں ہے ۔۔۔ پنڈت نہرو کانگریس ہی کے تو تھے۔۔۔ ایک واقعہ ابھی حال ہی میں پڑھا ہے ۔ ۱۹۴۷ء کے تقسیم فسادات کے دوران جب پنڈت جی اپنی کار سے کٹاٹ پلیس کے پاس سے گذر رہے تھے تو انہوں نے دو فرقوں میں تشدد ہوتے دیکھا، وہ کار سے اترے ، اپنے حفاظتی گھیرے کو توڑا اور نہتے دوڑتے ہوئے دنگائیوں تک پہنچے اور دنگا روک دیا ۔ کانگریسی پنڈت جی کی میراث کی بات تو کرتے ہیں پر ان میں میراث سنبھالنے کی استعداد نہیں ہے ۔ یہ بزدل ہیں ۔ پولس پوری طرح متعصب اور جانبدار رہی ۔۔ ۔مسلم قیاد ت کا ذکر کیا کریں ، کہ یہ قیادت تو ذکر کے قابلِ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ۔سچ بے حد تلخ ہے ، بی جے پی اور مودی وشاہ کی سرکار نے تو دہلی تشدد کو نہیں روکا ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسوں کو لگام نہیں دی ، پولس کو بے لگام کیا ، نفرت بھڑکائی پر اس کام میں ان کی مدد کیجریوال اینڈ کمپنی نے بھی کی ، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اور مسلم لیڈروں نے بھی ، وہ مسلم لیڈر جو ابتدا ہی سے شاہین باغ احتجاجی مظاہرے اور وہاں خواتین کے دھرنے کے مخالف رہے ہیں۔۔۔ گویا یہ کہ دہلی کا یہ قتل عام سب کی ’ محنتوں کا ثمرہ ہے ‘۔۔۔ مگر کچھ ہوجائے سی اے اے مخالف احتجاج جاری رہے گا ، جاری رہنا بھی چاہیئے ، امیت شاہ لاکھ یہ کہتےرہیں کہ یہ مسلم مخالف قانون نہیں ہے ، نہ ہو مسلم مخالف ، یہ آئین مخالف قانون توہے ۔اور اس کا ہونا سارے ملک کے لئے خطرناک ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مسعود جاوید
فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے۔ صدیوں سے ہوتے آۓ ہیں اور شاید ہوتے رہیں گے بس وقت کے ساتھ ساتھ ان فسادات کی نوعیت اور غرض و غایت بدلتی رہتی ہے۔
ماقبل آزادی کی نوعیت اتنی سنگین تھی کہ ملک کو دو حصوں میں منقسم کردیا اور بہت سارے مسلمان مملکت خداداد پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے یا پاکستان کو ہندوستان پر ترجیح دیتے ہوئے کوچ کر گئے۔
مابعد آزادی ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں ناکردہ گناہ کے احساس جرم کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔ چونکہ ماقبل آزادی کی نفرتوں کے اثرات دونوں فرقوں کے ذہنوں میں باقی رہ گئے تھے اس لیے وقتاً فوقتاً چھوٹی چھوٹی باتوں پر تصادم ہوتے رہتے تھے اور اسے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فساد کا رنگ دے دیا جاتا تھا۔
١- فسادات ہو جاتے ہیں :
اس کی نوعیت دو بھائیوں کے درمیان جھگڑے کی ہوتی ہے جس میں وقتی طور پر تلخی اور بدمزگی ہوتی ہے اور ظاہر ہے وجہ فساد معمولی اور ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے اس لئے بعض غیر سماجی عناصر کی طرف سے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کے باوجود’ جلد ہی غم و غصہ زائل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مسلم کی دکان کے سامنے کسی غیر مسلم نے گاڑی لگا دی یا کسی غیر مسلم دکاندار کے ساتھ کوئی مسلمان سامان واپس کرنے کو لے کر الجھ گیا یہ دونوں معاملات ذاتی نوعیت کے ہیں لیکن دونوں نے اپنے ذاتی مسئلے کو دو فرقے کا مسئلہ بنا کر فائدہ اٹھانا چاہا اور ” خواہ مخواہ” لوگوں نے حمایت کی کہ چونکہ وہ غیر مسلم ہے اس لئے مسلم دکاندار نے گاڑی لگانے سے روکا یا چونکہ سامان واپس کرنے والا مسلم ہے اس لئے غیر مسلم دکاندار نے واپس لینے سے انکارکردیا۔ ” خواہ مخواہی ہندو ” اور "خواہ مخواہی مسلمان” جمع ہو گئے اور بات دونوں فرقوں کے مابین مار پیٹ میں تبدیل ہوگئی شہر کی دکانیں بند ہو گئیں یا کر دی گئیں۔ جگہ جگہ پتھراؤ ہونے لگے۔ اس طرح کے فسادات میں مدت تصادم بمشکل گھنٹہ بھر ہوتا ہے ، معمولی جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
٢- فسادات ہونے دیۓ جاتے ہیں
یہ فسادات کی وہ قسم ہے جس میں ذاتی یا کسی معمولی مقامی جھگڑے کو دو فرقہ پرست گروہ مافیا یا سیاسی چھوٹ بھیۓ اپنا حساب چکانے کے لئے یا سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور چونکہ ان ” نیتاؤں یا دبنگوں کے "گہرے تعلقات” پولیس افسران سے ہوتے ہیں اس لئے ان کے اشارے پر پولیس فساد کنندگان کے خلاف فوری کارروائی کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ انتظامیہ ڈپٹی کمشنر/ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی مجرمانہ سرد مہری پولیس کو بروقت مناسب کارروائی نہ کرنے کی غیر تحریری اجازت دیتی ہے۔۔ کانگریس دور حکومت میں زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات میں انتظامیہ اور پولیس کا رویہ اسی نوعیت کا ہوتا تھا اس کا بنیادی غرض و غایت اقلیتوں کا قتل کرانا نہیں ہوتا تھا بس وقتاً فوقتاً اقلیتوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہوتا تھا کہ جن سنگھ/آر ایس ایس تم اقلیتوں کا ازلی دشمن ہے وہی ان فسادات کے پیچھے ہے اور اس دشمن سے تم اقلیتوں کی حفاظت صرف اور صرف کانگریس کر سکتی ہے۔ اقلیتی طبقے بالخصوص مسلمانان ہند کی اول و آخر ترجیح جان و مال کی سلامتی سیکورٹی ہے اس لئے کانگریس کے دامن امان میں پناہ لیتے رہے یا کانگریس کے ہاتھوں استحصال ہوتےرہے۔ مگر وقفہ وقفہ سے کانگریسی سیاست کے فسادات کی شکل میں یاد دہانی کے انجکشن لگائے جاتے رہے تا آنکہ ١٩٧٧ ایمرجنسی ہندوستان کا سیاہ باب وغیرہ کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں نئی تبدیلی نمودار ہوئی جو گرچہ بہت پائیدار ثابت نہیں ہوئی پھر بھی کانگریس بنام جن سنگھ کا خاتمہ ہوا اور جنتا دل پھر اس کا شیرازہ بکھرا اور لالو پرساد یادو مسلم یادو اشتراک کے نتیجے میں ایک مضبوط لیڈر کی حیثیت سے بہار میں اقتدار میں آۓ۔ انہوں نے مسلمانوں کے مزاج کو سمجھا اور ان کی اول و آخر ترجیح سیکورٹی کو یقینی بنانے اور فرقہ وارانہ فسادات پر ذرہ برابر چشم پوشی کو برداشت نہیں کرنے کا عہد کیا اور علی الاعلان فسادات کی بابت پولیس کپتان کی جوابدہی طے کر دی کہ اگر کسی ضلع میں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو فوراً وہاں کے ایس پی کو معطل یا برخواست کیا جاۓگا۔ لوہردگا شہر میں فساد ہوا پولیس کپتان فساد کو قابو کرنے میں تساہلی برتی۔ وزیر اعلی لالو پرساد بنفس نفیس ایک ایس پی کے ساتھ ہیلی کاپٹر سے لوہردگا پہنچے اور اسی وقت پہلے سے موجود ایس پی کی سرزنش کی اور نۓ ایس پی کو چارج دلایا۔ ۔۔۔۔ اس واقعے نے بہار کے ہر پولیس کو ایسا میسیج دیا کہ ان کے دور اقتدار شاذونادر ہی کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوا ہو۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت نہیں چاہے گی تو فسادات نہیں ہوں گے۔ اگر ہوں گے تو بمشکل آدھے گھنٹے میں اس پر قابو پا لیا جائے گا۔
بدقسمتی سے سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں مسلمانوں کا ایک دیرینہ مطالبہ ، ٹارگیٹڈ فرقہ وارانہ فساد کے خلاف ایکٹ، ٢٠٠٨ سے کانگریس کے سامنے رہا مگر اس کا بل کانگریس نے ٢٠١٤ تک پیش کرنے سے کتراتی رہی۔
٣- فسادات کراۓ جاتے ہیں
فرقہ وارانہ فسادات منظم طور پر کرانے کی جو روش موجودہ دور میں عام ہوئی ہے وہ بہت خوفناک ہے اس لئے نہیں کہ اس سے جان و مال کا کافی نقصان ہوتا ہے بلکہ اس لئے ہیبت ناک ہے کہ اس قسم کے فسادات میں مذہبی جنونیت اور مخصوص نظریات کے حامل عناصر اور تنظیموں کے لوگ مذہبی نعرے اور علم بلند کر کے ہندووتوا بنام مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پچھلے چند سالوں میں مذہبی تشدد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ جو غیر مسلم فرقہ وارانہ ہم آہنگی چاہتے ہیں ان کی آواز کو میڈیا میں کوئی اسپیس نہیں ملتی یا انتہا پسند لوگ ان کو ٹرول کرنے لگتے ہیں۔
احوال دہلی : چند روز قبل شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوۓ ہونے دیۓ گۓ یا کرواۓ گۓ اس سے قطع نظر یہ فسادات کی وہ قسم تھی جس میں مذہبی منافرت کارفرما تھی۔ اور فسادات پر قابو پانے کے معمول کے مطابق طریقہ کار کا اختیار نہیں کرنے کی وجہ سے دہلی حکومت اور دہلی پولیس سوالات کے گھیرے میں ہے۔ اس لئے کہ مانا کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت کے تحت دہلی پولیس نہیں ہے لیکن دہلی کی سڑکیں تو کیجریوال صاحب کی پہنچ میں ہیں۔ دونوں فرقوں میں ان کی پارٹی کے افراد ان علاقوں میں کثیر تعداد میں ہیں ان کو لے کر اسی روز امن مارچ کر سکتے تھے۔ وزیر داخلہ اور لیفٹینٹ گورنر کے دفاتر کے سامنے اسی شام دھرنا دے کر نیم فوجی دستے بھیجنے پر اصرار کر سکتے تھے۔ ان علاقوں میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر اور ایم ایل اے کو متحرک کر سکتے تھے۔ ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں وزارت داخلہ کی ناک کے نیچے تین دنوں تک شمالی مشرقی دہلی جلتی رہی اور بی جے پی کے منسٹر ایم پی ایم ایل اے نے متاثرہ علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا امن قائم کرنے کی اپیل کرنے سے بھی گریز کیا سواے ایم پی گوتم گمبھیر کے ! بلا تفریق مذہب و برادری مارے گئے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور فسادیوں کی مذمت سیاسی جماعتوں بالخصوص عوام کے منتخب نمائندوں کا اخلاقی فرض ہے اس سے گریز کا کیا کوئی جواز ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی : دہلی تشدد پر کانگریس نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت، وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پرنشانہ لگایاہے۔ کانگریس کے ترجمان آنند شرما نے ایک پریس کانفرنس میں دہلی تشدد پر مرکز اور دہلی حکومت کو جم کر گھیراہے۔ آنند شرما نے کہاہے کہ ملک اور قومی راجدھانی دہلی میں حالیہ دنوں میں جوواقعات ہوئے ہیں، ان سے کچھ اہم سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ مخالفت کرناشہریوں کابنیادی حق ہے۔ احتجاجی مظاہروں پر انتظامیہ کا رویہ تشویش ناک ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ہر قانونی دفعات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے ہی سہی لیکن کہاہے کہ دفعہ 144 لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ مخالفت کرنے پر دفعہ 124 اے کے تحت کیس کیا جا رہاہے۔ غداری کاالزام لگایاجارہاہے۔دہلی تشدد کا ذکر کرتے ہوئے آنند شرمانے کہاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد اور تشدد کے بعد لوگوں کی ہوئی موت پر کانگریس کی تجویزمیں ہم نے کہا کہ جان بوجھ کر کارروائی نہیں کی گئی۔ تشددرک سکتاتھا۔اسی پولیس نے تشدد روکا ہے ایک دن میں، جس نے 4 دن تک دہلی کو جلانے دیا۔ اب جو کارروائی ہورہی ہے، وہ بھی یک طرفہ ہو رہی ہے۔ جولوگ دھرنے پر مخالفت میں بیٹھے تھے، ان پر سنگین دفعات کے تحت مقدمے تیارکیے جا رہے ہیں۔ عدالتوں سے ابھی کوئی راحت نہیں ملی ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں، وکیل ہیں، بھارت کے شہری ہیں اورحقوق کی بات کرتے ہیں، ان پر سنگین دفعات لگانا غلط ہے۔ جولوگ مخالفت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں اٹھیں گے، ان پر دفعہ 307 کے تحت کیس درج کرنا غلط ہے۔ اتنی سنگین دفعات کے تحت کیس کا بننا غلط پیغام دیتا ہے۔ اس پر حکومت سے کوئی امید نہیں کرتے ہیں کہ وہ انصاف کرے گی۔ہمیں نہ وزارت داخلہ سے، مرکزی حکومت سے نہ ہی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے، نہ ہی دہلی کے وزیراعلیٰ سے توقع ہے جو ان موضوعات پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔پر یہ توقع اور امید ہماری عدالتوں سے ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گی۔ آئین کی صحیح معنوں میں حفاظت بھارت کی سپریم کورٹ کا مذہب اور فرض ہے۔ اگر شہریوں کے حق پراثرپہنچتا ہے اور انصاف ملنے میں تاخیر ہوئی تو صحیح معنوں میں وہ آئین کو چوٹ پہنچاتی ہے۔آنند شرما نے کہا کہ ہم یہ سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قانونی مقدموں کودیکھے کہ لوگوں پر ایسے مقدمے لگائے گئے ہیں، جن میں ضمانتیں نہیں ملتیں۔کچھ لوگوں کو ضمانت دی نہیں جا رہی ہے۔ ان کی جانچ کرائی جائے۔ اس سے حکومت کی نیت سامنے آئی ہے، حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر انتشار اور تصادم نہ ہو۔ حکومت چاہتی ہے ماحول بگڑے۔ حکومت یہ کام حکومت، انتظامیہ اور پولیس کے غلط استعمال سے کر رہی ہے۔
ابھیشیک شریواستو
ترجمہ: اشعر نجمی
منگل کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی واپسی کی فلائٹ پکڑی،ایک غیر معمولی شخصیت دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئی۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال دیر رات پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، پھر وہاں اگلے دن فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چلے گئے۔ بدھ کے روز، ان کا دورہ ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوا، جب انھیں مقامی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا ،”جو ہوا سو ہوا ، انشااللہ،امن ہوگا …”
وزارت داخلہ نے 1978 میں جاری کردہ ایک اہم نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ دہلی کے ایس ڈی ایم اور مجسٹریٹ کے اختیارات دہلی کے کمشنر آف پولیس کے ماتحت ہیں۔ اسی اطلاع کا استعمال کرتے ہوئے ، 5 اگست 2016 کو دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر ایس ڈی ایم کے ذریعہ عائد کردہ دفعہ 144 کو دہلی پولیس کے ڈی سی پی نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔دہلی کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں دہلی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے درمیان حقوق کی ترجیحات کے تنازعہ کا فیصلہ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی پولیس کمشنر کے حقوق میں دراندازی کی ہے۔ اس کے ایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ڈوبھال نے وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا اور یہ مقتدر اعلیٰ کی منظوری سے کیا گیا۔
اگر یہ بات ڈوبھال کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ امن کے قیام کے لیے ڈوبھال نے جس طرح سے مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور ٹیلی ویژن پر جس طرح سے اس کو نشر کیا گیا ، یہ اپنے آپ میں نہ صرف ایگزیکٹیو بلکہ مقننہ کے دائرہ اختیار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ شورش زدہ علاقے میں مقننہ سے بطور قاصد قومی سلامتی صلاح کار کوبھیجا جانا سب کی نظر میں آگیا۔ اگر ہم اس کا موازنہ بالکل اسی نوعیت کے ایک منظر سے کرتے ہیں جو آج سے چھ ماہ قبل سری نگر کی سڑکوں پر ہوا تھا ، تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہلی کی سیاست کی کوکھ میں کیا پوشیدہ ہے۔
ڈوبھال کو سڑک پر آئے دو دن نہیں ہوئے تھے کہ تین ہفتہ قبل تیسری بار دہلی کے وزیر اعلی بننے والے اروند کیجریوال نے دھماکہ کردیا۔ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت ایک ہی جھٹکے میں دے دی گئی۔
کیجریوال، جنھوں نے شیلا دکشت کے خلاف سیاست کا آغاز کیا تھا، آج وہ سیاست کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں جہاں وہ خود شیلا دکشت بن گئے ہیں۔ اسے دو واقعات سےسمجھیں۔ 2013 میں اروند کیجریوال کا سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اس بحث میں واپس آگیا ہے جس میں وہ شیلا دکشت کو عصمت دری کے واقعات پر قابو نہ پانے پر لعنت بھیج رہے ہیں اورالزام عائد کرتے ہیں کہ شیلا دکشت دوسروں کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دہلی میں تین روزہ فسادات کے پہلے دو دن میں، اگر کیجریوال اور ان کے حمایتی، ایم ایل اے اور وزیروں کے ٹوئٹ دیکھیں تو وہ سب فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں کوئی زمینی کام کرنے کے بجائے بالکل شیلا دکشت کے انداز میں "پولیس اپنے ہاتھ میں نہیں” ہونے کا رونا رو کر دنگوں سے اپنا پلہ جھاڑ رہے تھے۔
دوسرا واقعہ سال 2012 کا ہے۔ اسی سال ایک کارٹونسٹ، اسیم ترویدی کے خلاف ممبئی میں "دیش دروہ” کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اروند کیجریوال نے ممبئی سے دہلی تک متعدد دھرنا مظاہروں کے ذریعے اسیم کے خلاف غداری کے درج شدہ الزامات کی مخالفت کی اور اپنی ابتدائی سیاست کو دھار بخشی۔ آج اسی اروند کیجریوال نے کنہیا کمار اور دیگر طلباکے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے گرین سگنل دے کر اپنی سیاست کا ایک کامیاب دائرہ مکمل کیا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ کیجریوال کا "شیلانیاس ” ہو گیا ہے۔
شاہ اور مودی کے جال میں:
جس دن اجیت ڈوبھال کو ٹی وی پر ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ، امریش مشرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھی۔واضح رہے کہ امریش مشرا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بنارس سے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑے تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے آر ایس ایس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کے دو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں ، وہ ایک "سازشی تھیورسٹ” کا تمغہ حاصل ہے، لیکن اس بار انھوں نے یہ سوال اٹھا کر نبض پر انگلی رکھ دی کہ ایک منتخبہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر کیوں مکالمہ کررہے ہیں؟
اگر دہلی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی حکومت خود منتخب کرتی ہے تو پھر یہاں کی منتخبہ حکومت نے اپنے علاقے میں این ایس اے کو اپنی جگہ کیسے دے دی؟ اول تو ہر بات پر یہ دلیل دینا کہ "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے” دہلی سرکار کی قوت ارادی کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے، دوسرے معاملے کا دہلی پولیس یعنی وزارت داخلہ کے بھی پار چلے جانا آخر کس رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ آدھی ریاست کا رونا روتے ہوئے کیا اروند کیجریوال خود بھی "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep state) کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیجریوال کی آدھی ادھوری طاقت میں اور کتنے دن باقی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر پوری کرونولوجی دیکھیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اتوار کی شام، سموار اور منگل کو فسادات ہوئے تھے۔ دہلی میں پچاسوں گواہ ہیں جو بتائیں گے کہ انھووں نے کتنے ایم ایل اے اور وزراکو فون لگایا۔ ایک وکیل نے نومنتخب ایم ایل اے آتشی مارلینا سے فون پر التجا کی تودوسری جانب سے آواز آئی ،”یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔”راقم الحروف نے بدھ کے روز دو بار وزیر گوپال رائے کو فون کیا، نہ ہی فون اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کال بیک ہوا ۔دو دن بعد آخر کار چارو ناچار کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گئے، جہاں شہید سپاہی رتن لال کے دروازے پر مقامی لوگوں نے انھیں اور منیش سسودیا کو پیچھے دھکیل دیا۔” کیجریوال واپس جاؤ”کے نعرے لگ گئے، وہ لوٹ آئے۔
اگلی صبح انھوں نے دہلی اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز میلینیا ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کیا اور پھر فسادات پر آئے۔ ان کے اس جملے کو غور سے پڑھیں:
"میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ان فسادات سے کس کا نقصان ہوا۔ ان فسادات سے سب کو نقصان پہنچا۔ ان فسادات میں کون مرا، بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ویربھان کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ محمد مبارک کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ پرویش کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ ذاکر کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل سولنکی کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ شاہد کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ محمد فرقان کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل ٹھاکر کی موت ہوگئی،وہ ہندو تھا۔ ”
عام طور پر جہاں دو فرقوں کے مابین جھگڑے میں،مقتول اور حملہ آور دونوں کی شناخت بتانا صحافت میں ممنوع ہوتاہے، وہیں ایک منتخب رہنما اور وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقتولین کا مذہب بتا رہے تھے اور ایک ہندو کو ایک مسلمان کے ساتھ گنتی کرکے توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے دن پریس کانفرنس میں اپنی تقریر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کیجریوال نے لکھا،”ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔”
یہ کس کی زبان ہے؟ یہی بات منموہن سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے عہدے کے دوران لیفٹ وِنگ انتہا پسندی یعنی کمیونسٹ انتہا پسندی سے نبرد آزما ریاستوں کے ڈی جی پی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ اب یہی بات ہم گزشتہ چھ سالوں سے نریندر مودی کے منہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی ملک کی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کرنا چاہتا ہے تو پھر مقتولین کے مذہب کو گن کر لاشوں کے انبار کو متوازن کرنا ، اپنے دائرہ اختیار کو این ایس اے کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور چار سال سے اٹکے ہوئے دیش دروہ کے ایک فیصلے کو فساد کی گرمی کے درمیان پاس کر دینا کون سی سیاست ہے؟
بدھ کے روز اسمبلی جانے سے پہلے، کیجریوال کو اپنے دروازے پر طلبا اور نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعہ اور جے این یو کے طلبا نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کیجریوال اور دہلی حکومت کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور واٹر کینن اور لاٹھیوں سے انھیں کھدیڑا گیا۔ کیجریوال، جنھوں نے کبھی دفعہ 144 کو توڑ کر اور ایک دہلی کے قلب میں ریل بھون کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، جنھوں نے کبھی 26 جنوری جیسے حساس وقت کی بھی پرواہ نہیں کی، گزشتہ وہ ہفتے بالکل مختلف اوتار میں نظر آئے۔
کتنا دور کتنے پاس:
کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے کی منظوری کے بعد، جمعہ کی شام سے ہی ان کے پرستاروں میں کیجریوال کے بارے میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ وہی رائے دہندگان ہیں جنھوں نے 11 فروری کو انتخابی نتائج کے دن کیجریوال کی کامیابی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین باغ سے سیاسی فاصلہ بنا کر عام آدمی پارٹی نے حکمت عملی سے کام لیا جو درست تھا۔ جب کیجریوال نے سموار اور منگل کو فسادات سے دوری بنائی تو ان کے حمایتیوں کی منطق وہی پرانی تھی ، "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے۔”
دہلی پولیس ساتھ نہ ہونے کی منطق میں جو بھی پھنسے ، انھوں نے اس حقیقت سے منھ موڑ لیا کہ ایسا کہہ کر کیجریوال نے 48 گھنٹوں کے لیے میدان فسادیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ ڈوبھال نے یہیں بازی مار لی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کیجریوال کے پاس دہلی پولیس ہوتی بھی تو کیا الگ ہوجاتا ؟ (یاد کیجیے الیکشن پرچار کے دوران اروند کیجریوال ایک سے زائد بار اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر دہلی پولیس ان کے پاس ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔مترجم)
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران دہلی پولیس کے پاس 13200فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ 23 فروری کو 700 پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی کال، 24 فروری کو 3400 کالز، 25 فروری کو 7500 کال اور 26 فروری کو 1500 کالز۔
اکالی دَل کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نریش گجرال کا ایک خط وائرل ہوا ہے ، جسے انھوں نے جمعرات کو دہلی پولیس کمشنر کو لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے لوگوں کے کہنے کے باوجود مصیبت میں پھنسے لوگوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ شرومنی اکالی دَل برسوں سے پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اگر اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کال پر دہلی پولیس عمل نہیں کرتی ہے تو پھر کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کو کس بات پر خوش فہمی ہے؟
در حقیقت ، لااینڈ آرڈر یعنی پولیس کا اپنے پاس نہ ہونا، دہلی حکومت کے لیے ایک آسان بہانہ تھا اور ہے، جس کے سہارے اس نے اہم امور سے خود کو دور رکھا۔ شاہین باغ میں شہریت مخالف ترمیم قانون تحریک سے متعلق کیجریوال کا بیان یاد رکھیں، جس میں انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو للکارا تھا کہ پولیس ان کی ماتحت ہے تو وہی راستہ کیوں نہیں خالی کرالیتے؟ اب ایک بار پھر انھوں نے اپنے کونسلر طاہر حسین کو پارٹی سے نکال کر اور ہر مجرم کو یکساں طور پر سزا دینے کا مطالبہ کرکے اپنا پلہ جھاڑ لینے والی سیاست کی ہے، جب کہ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انھوں نے کپل مشرا کے معاملے پر اب تک اپنی زبان نہیں کھولی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کپل مشرا بھی ان ہی کی پارٹی کے نیتا رہے ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کیجریوال کپل مشرا پر خاموش ہیں، وہی کپل مشرا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے والے جسٹس مرلی دھرکا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے!
پانچ سال پہلے کا سبق:
آخرکیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ لا اینڈ آرڈر کی آڑ میں متنازعہ معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی کیجریوال کی سیاست دراصل وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے، بلکہ مرکزی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید قریب ہونے کی ایک مشق ہے؟ "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep State) یکطرفہ نہیں بنتی، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہیں۔ اگر ہم کیجریوال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ان کی تیسری انتخابی کامیابی میں "ڈیپ اسٹیٹ” کی شمولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور زیادہ پیچھے جائیں گے توہمیں وہی سوال اٹھانا پڑے گا جو نومبر 2014 میں اٹھایا گیا تھا لیکن جسے ہوا میں اڑا دیا گیا: "Modi for PM, Kejriwal for CM” کا نعرہ کس نے دیا تھا؟
اگر آپ اپنی یادداشت پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پر پراسرار طور پر ایک نعرہ شائع ہوا تھا جو کہتا تھا: "Delhi Speaks: Modi for PM, Arvind for CM”! جب اس پر ہنگامہ ہوا تو پارٹی نے اسے فوراً ہی ہٹا دیا تھا، لیکن فروری 2015 میں دہلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ نعرہ عام آدمی پارٹی کے غیر آفیشیل انتخابی اعلان کی طرح ہوگیا۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا گیا کہ مودی کا وزیر اعظم بننا اور دہلی میں کیجریوال کی فتح دونوں ایک دوسرے پر منحصر مظاہر ہیں اور ضروری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آج سے چند سال قبل اس طرح کی باتوں کو سازشی تھیوری سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جاتا تھا۔ کانگریسی لیڈر آنند شرما نے توکھل کر اس تھیوری کو میڈیا میں ڈال دیا تھا لیکن اس وقت سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ڈوبھال این ایس اے تھے ، نہ مودی وزیر اعظم تھے اور نہ ہی اروند کیجری وال دہلی کےوزیر اعلیٰ۔
آج یہ تینوں اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ اگر دہلی جلتی ہے تو مودی احمد آباد میں ہوتے ہیں ، ڈوبھال سڑک پر ہیں اور اروند کیجریوال اپنے گھر میں۔ کیا کچھ اور یاد کرنے کرانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
[email protected]
اتوار ۳۲ فروری کو بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں ایک ریلی کی اور اسٹیج پر ایک ڈی سی پی کی موجود گی میں ریلی میں شامل لوگوں کی طرف سے دہلی پولس کو وارننگ دی کہ اگر ٹرمپ کے جانے تک آپ نے چاند باغ اور جعفرآباد علاقوں میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نہیں ہٹایا تو پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے ہمیں راستے پر آنا پڑے گا۔ کپل مشرا کا یہ بیان دراصل اس پریشر کوکر کی سیٹی تھی جو دہلی اسمبلی انتخابات کی پرچار مہم کے دوران وزیر اعظم مودی جی نے سنیوگ اور پریوگ کی سیاست کے نام، وزیر داخلہ امت شاہ نے شاہین باغ کو کرنٹ پہنچانے کے نام،مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے گولی مارو سالوں کو کے نام کپل مشرا نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ مقابلے کے نام اور گری راج سنگھ نے اسلامک اسٹیٹ کے نام تیار کیا تھا، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف خوب مسالہ بھرا تھا اور اسے نفرت کی آگ پر رکھ چھوڑا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ جب یہ پریشر کوکر پھوٹے گا تو ووٹوں کے ذریعہ ان کو فائدہ پہنچائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کا ووٹ فیصد ضرور بڑھا لیکن وہ ہار گئے۔ شاید اسی ہار سے بوکھلا کر انہوں نے اس پریشر کوکر کو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں خاص طور سے مسلمانوں پر پھوڑ دیا۔ یوں تو کپل مشرا نے ٹرمپ کے جانے تک شانتی بنائے رکھنا کا اعلان کیا تھالیکن شاید اسے بھی دوسروں کے سر تھوپنے کے لئے ٹرمپ کی موجودگی میں ہی اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنا دیا، ویسے بھی کوکر میں پریشراتنا تھا کہ تین دن تک اس کا نہ پھٹنا ممکن نہیں تھا، نفرت کی آگ میں دہک رہے لوگ تین دن کا صبر نہیں کرسکے اور انہوں نے چن چن کر مسلمانوں اور ان کی گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور سی اے اے کے خلاف پرامن مظاہرین پر بری طرح لاٹھیاں برسانے والی، آنسو گیس کے گولے داغنے والی، یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں گھس کے طلبا کو بری طرح مارنے والی، یہاں تک کہ نہتے مظاہرین پر فائرنگ تک کرنے والی پولس نے سی اے اے کے حمایتیوں کے ذریعہ ہوئے فساد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، لاٹھی چارج اور فائرنگ تو دور کی بات ہے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لئے پولس کی طرف سے آنسو گیس کے گولے داغنے کی بھی کوئی خبر نہیں ہے بلکہ scroll.in نے ۵۲فروری کے ایک مضمون میں مختلف رپورٹرس کے ٹویٹ کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ پولس یا تو چپ چاپ کھڑی فسادیوں کی بربریت کا تماشہ دیکھتی رہی یا خود بھی ان کے ساتھ فساد میں شامل ہو گئی، کہیں تو فسادیوں نے اپنا سمجھتے ہوئے پولس کے لئے ناشتے وغیرہ کا بھی انتظام کر رکھا تھا جسے اس نے قبول بھی کیا۔ پولس کا یہ رویہ حیرانی کی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اور نظام قانون و انصاف کے لئے شرم کی بات ہے۔ فسادات پولس نے کنٹرول نہیں کئے بلکہ اس وقت کنٹرول ہوئے جب قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوال میدان میں اترے فساد زدہ علاقوں کے گلی کوچوں میں گئے لیکن یہ بھی پورے تین دن کے ننگے ناچ کے بعد ہوا اور اس میں بھی فسادیوں پر اور انہیں بھڑکانے والوں پر کسی کارروائی کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ مسلم علاقوں میں جاکر ان شاء اللہ ماشاء اللہ کا دور چلایا گیا،سوال یہ ہے کہ ڈوال صاحب نے یہی کام فسادات کی ابتداء میں کیوں نہیں کرلیا؟ اگر ڈوال صاحب شراعات میں ہی مورچہ سنبھال لیتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوئے ہوتے۔ کیا سرکار نے کوئی ٹارگیٹ سیٹ کر رکھا تھا جس کے لئے تین دن درکار تھے؟ کیا ڈوال صاحب مسلم علاقوں میں یہ پیغام دینے گئے تھے کہ ان گھبرانے کی ضرورت نہیں اب کھیل ختم ہوچکا مقصد حاصل ہوچکا؟ یہ فسادات دراصل سرکار کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں یہ ہم نہیں کہہ رہے خود سرکار کے فیصلے اور اس کے افسروں کی باتیں کہہ رہی ہیں، ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ سرکار فسادات کو روکنے کے لئے فساد بھڑکانے والے اپنے لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس ضمن میں جب دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے ایک عرضی کی سماعت کے دوران دہلی پولس پر پھٹکار لگاتے ہوئے کمشنر اور سالیسیٹر جنرل کو بھڑکاؤ بھاشن دینے والے بی جے پی لیڈروں انوراگ ٹھاکر پرویش ورما اور کپل مشرا پر ایف آئی آر درج کرنے کے متعلق فیصلہ کرنے اور دوسرے ہیدن کورٹ کو جانکاری دینے کا حکم دیا اور پوچھا کہ ان لیڈروں پر پہلے ہی کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو دونوں افسروں نے اول تو اس میں ٹال مٹول کرتے ہوئے ایک دن کا وقت مانگا اور پھر صاحب اسی دن رات میں سرکار نے جسٹس مرلی دھر کا دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کالیجیم اس تبادلے کی سفارش پہلے ہی کرچکا تھا لیکن عین اس وقت جب کہ دہلی میں فساد جاری تھا اور اس فساد کو روکنے کے لئے جج صاحب اہم سنوائی کر رہے تھے پولس کے متعلق ان کا رویہ بھی سخت تھا اور اگلے ہی دن اس ضمن میں کوئی اہم فیصلہ ہونا تھاایسے وقت میں آناً فاناً ان کا تبادلہ کردئے جانے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتاہے کہ سرکار نہیں چاہتی کہ فسادات کنٹرول نہ کرنے والی پولس پر کوئی قانونی آنچ آئے اور فسادات کے محرک بنے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے لیڈروں پر کارروائی کی جائے اور ہوا بھی ایسا ہی جب اگلے دن دوسری بینچ نے مذکورہ عرضی کی سماعت کی تو جیسے فیصلہ ہی بدل گیا،جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے نیتاؤں پر آف آئی آر درج کرنے کے جس فیصلے کے لئے مشکل سے ایک دن کا وقت دیا تھا اب اسی فیصلے کے لئے نئی بینچ نے چار ہفتوں کا وقت دے دیا ہے۔ یعنی بھیا کپل مشرا بولتے رہئے۔ اور اب تو انہیں کپل مشرا کے مقابلے طاہر حسین مل گیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس کے چھت پر فسادی سامان ملا اور اس نے ہی انفارمیشن بیورو کے ایک افسر کو قتل کیا، فسادات بھڑکانے والا بیان دینے والے اور اس ضمن میں خود پولس کو وارننگ دینے والے کپل مشرا پر تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی وہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنی گرفتاری کی مانگ کرنے والوں کو دہشت گردوں کے حمایتی کہہ رہے ہیں۔ طاہر حسین کو بھی تا دم تحریر گرفتار تو نہیں کیا جاسکا لیکن اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے اس کی پراپرٹی سیل کردی گئی ہے۔ دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ کپل مشرا کی پارٹی بی جے پی اس کے بچاؤ میں کھڑی ہے جبکہ طاہر حسین کی پارٹی عآپ نے ابھی تحقیقات ہونے اور گناہ طے ہونے سے پہلے ہی اسے ڈس اون کر دیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ طاہر حسین پر کوئی کارروائی نہ ہو ہمارا کہنا تو یہ ہے اگر وہ واقعی مجرم ہے تو اس کے خلاف کٹھور کارروائی ہو لیکن اتنی ہی کٹھور کارروائی فریق مخالف کے دنگائیوں پر اور دنگا بھڑکانے والوں پر بھی ہونی چاہئے، جس طرح فسادات مسلم مخالف تھے اسی طرح کارروائی بھی یک طرفہ مسلمانوں کے خلاف نہ ہو۔لیکن ایسا کچھ ہوگا اسکی کوئی گارنٹی نہیں کیوں کہ خبروں کے مطابق ابھی بھی بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بی ایل سنتوش پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کہا کہ ’گیم اب شروع ہوا ہے‘ بعد میں اسے چینج کر کے کہا کہ ’فسادیوں کو انڈین قانون کے ایک یا دو سبق سکھائے جانے چاہئے‘ چہ معنی دارد؟ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ فسادیوں سے ان کی مراد اپنی پارٹی کے اشتعال انگیز لیڈر ہوں، یعنی کیا اب مسلمانوں کے خلاف پولس کارروائی کا فساد ہوگا؟ مسلمانوں کو قانونی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ کیجریوال کی کارروائی بھی دیکھئے،مانا کہ پولس ان کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن لوگ تو ان کے ہیں، دلی کے لوگوں کی اکثریت نے انہیں منتخب کر کے وزیر اعلیٰ بنایا ہے اور انہیں دیکھئے کہ ادھر دلی جل رہی ہے اور وہ اپنے ممبران کے ساتھ راج گھاٹ پر امن کے لئے دعا کرنے بیٹھ گئے، ارے صاحب جس طرح آپ ووٹ مانگنے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکلے تھے اسی طرح اب لوگوں کو فسادات سے باز رکھنے کے لئے اورفسادات سے بچانے کے لئے بھی سڑکوں اور گلی کوچوں میں آپ کو جانا چاہئے تھا، جو کام پولس نہیں کرسکی وہ کام آپ کے جانے سے ہوسکتا تھا،عآ ؑپ کے سبھی ممبران اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کرفساد زدہ علاقوں میں نکل جاتے تو دنگائیوں کی ہمت بھی ٹوٹتی،اور پولس بھی شرم کے مارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے لگتی لیکن گاندھی واد کا ڈھونگ کرنے والوں کو یہ نہیں سوجھا۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ جس گاندھی کی سمادھی پریہ امن کی دعا مانگنے کے لئے گئے تھے فسادات روکنے کے لئے وہ گاندھی اکیلا فسادیوں کے بیچ چلا جایا کرتا تھا؟پولس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے کہہ کر انہوں نے دراصل اپنی اخلاقی ذمہ داری سے منھ موڑا ہے؟ انہوں نے فساد متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا بہت اچھا کیا قابل ستائش کام کیا لیکن زخم لگنے سے روکنا مرحم لگانے سے بہتر اہم اور ضروری ہوتا ہے یہ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز / رام چندر گوہا
بھارتیہ جنتا پارٹی میں دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اور دہلی کے فساد میں سرکار کی ناکامی سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پولس کمشنر کے پر کترے گئے۔ دوسرے شخص کو اسپیشل پولس کمشنر کے عہدے پر بٹھایا گیا، پھر دہلی کا پورا چارج قومی دفاع کے صلاح کار اجیت ڈوبھال کو دے دیا گیا۔ یہ دونوں کام وزیر اعظم نے ہی کیا ہوگا۔ اس میں وزیر داخلہ کا کتنا دخل ہے کہنا مشکل ہے۔ ممتاز صحافی آسو توش کا کہنا ہے کہ امیت شاہ سے کویا تو حاشیہ پر لاکھڑا کر دیا گیا یا دہلی کے نظم و نسق کو پٹری پر لانے کی ایسی کوشش کی گئی ہے۔
آج (29فروری) مشہورکے تاریخ داں رام چندر گوہا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا ہے۔ "The home minister must be replaced, but that is unlikely to happen.” (وزیر داخلہ کو بدلنا ضروری ہے مگر ایسا شاید ہی ہو- نظریاتی تعلق مانع ہوگا)۔
مسٹر رام چندر لکھتے ہیں کہ ”جیسے ہی نریندر مودی 2019ء کے انتخاب میں کامیاب ہوئے میں نے اپنے ایک کاروباری دوست سے جو اپنی تجارت کو ٹیکنیکل جدت کاری سے ترقی دی اور جو غیر متعصب ہے اور سیاست دانوں سے احتراز کرتا ہے، بات چیت کی جس کا میں معترف ہوں، حلف وفاداری سے پہلے میرے کاروباری دوست کو بڑی بے چینی تھی کہ کابینہ میں کن لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ دوسری بار کے الیکشن میں بھی کامیابی کا سہرا امیت شاہ کے سر باندھا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر کے بجائے حکومت میں کوئی بڑا عہدہ سنبھالیں گے، مگر کون سا عہدہ ان کو دیا جائے گا اس پر قیاس آرائی زوروں پر تھی۔ عام طور پر یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ انھیں وزیر خزانہ کا عہدہ سونپا جائے گا۔ اس سے میرے کاروباری دوست کو بیحد اضطراب اور بے چینی تھی کیونکہ امیت شاہ کے اندر جارحیت اور لا ابالی پن ہے۔ وہ کب کیا کریں گے کہنا اور سمجھنا مشکل ہے۔ ملک کی معاشی حالت بدتر ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ایسے وقت میں امیت شاہ جیسے شخص کو وزیر خزانہ بنانے کی بات سے میرے دوست اور دیگر کاروباری لوگ بیحد پریشان تھے۔
آخر کار امیت شاہ کو وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ اس سے کاروباری دنیا کے لوگوں کو راحت ملی۔ ناتجربہ کاری کے باوجود نرملا سیتا رمن کے بارے میں ان لوگوں نے سوچا کہ وہ کم خراب ثابت ہوں گی“۔
تاریخ داں رقمطراز ہیں کہ ”مجھے امیت شاہ کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پہلے سے ہی ہیں۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت ہے۔ الیکشن لڑانے کی بھی قابلیت ہے مگر الیکشن میں کامیابی اور ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کے حق کی ادائیگی اور ذمہ داری بالکل دوسری چیز ہے۔ ایک ایسا متعصب شخص جو اقلیت کا کھلا دشمن ہو اس پر لوگ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟میرے اندر یہ احساس تھا۔ امیت شاہ ایک اچھے یا خراب وزیر خزانہ ہوسکتے تھے، یہ ایک قیاس آرائی تھی مگر اس وقت وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا وزیر داخلہ ہونا تباہ کن ثابت ہوچکا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو ہٹانا اور شہریت کیلئے سیاہ قانون سازی سے ہندستان کی سوسائٹی کو دو حصوں میں بانٹ دینا تباہی کو دعوت دینا ہے۔
یہ کہنا کہ دفعہ 370 کے ہٹانے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی یہ ایک خواب و خیال کی بات تھی۔ جو لوگ بھاجپا کی تاریخ اور پالیسی سے واقف ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر جیسا مسلم اکثریتی علاقہ ان کی نظر میں کھٹکتا تھا جسے وہ کمزور و کمتر کرنا چاہتے ہیں۔ ’سی اے اے‘ کو انھوں نے ہندو/مسلم کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے بنایا ہے۔ باہر کے تین ملکوں سے مذہبی ایذا رسانیوں سے عاجز غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات ایک بہانہ ہے۔ اصل میں مسلمان ان کا نشانہ ہے کہ ان کو کیسے ستایا اور پریشان کیا جائے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے بار بار ’این آر سی‘ کے نفاذ کی باتیں ہوئیں اور بعد میں سی اے اے کے نفاذ کے متعلق تکرار سے باتیں دہرائی گئیں جن سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس شدت کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلمانوں نے کالے قانون کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔ خاص طور پر مسلم خواتین مردِمیدان بنیں اور ملک بھر میں یہ تحریک زوروں سے چل پڑی اور مقبول عام ہوگئی۔ اس تحریک میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی قابل لحاظ حدتک شریک ہونے لگے ہیں۔ یہ تحریک اتنے زوروں پر ہوگی اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اتنی زبردست ہوجائے گی مودی اور شاہ کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ میں مگن تھے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے بیرون ملک ہندستان اور سرکار کی زبردست بدنامی ہورہی ہے۔ سی اے اے سے بھی بیرونی ممالک ناخوش ہیں اور مذمت و مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ ملک بھر میں اس احتجاج کی مقبولیت ہورہی ہے اور دھرنا تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وزیر اعظم کی ضد ہے کہ وہ ایک انچ بھی ’سی اے اے‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر وہ فرماتے رہتے ہیں کہ ان کا ’این آر سی‘ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے برعکس ان کے وزیر داخلہ کا رخ کچھ اور ہے۔ وہ سی اے اے پر بضد ہیں اور این آر سی سے بھی سی اے اے کا تعلق ہے اس پر اپنی رایوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
دسمبر 2019ء کے آخری ہفتہ میں یہ بالکل عیاں ہوگیا تھا کہ CAA (شہریت ترمیمی قانون) hot potato (شکل اور پیچیدہ) ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہوتا گیا“۔
مسٹر رام چندر گوہا آگے لکھتے ہیں کہ ”میں نے ایک دانشور سے جو سرکاری افسر رہ چکا ہے جو ہندستان کی تاریخ جدید پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ایک لمبی گفتگو کی جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی شخصیت اور دونوں کے تعلق پر ایک اچھا خاکہ پیش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے تعلقات کچھ ایسے ہیں جیسے ماضی میں جواہر لعل نہرو اور کرشنا مینن کے تھے۔ دونوں میں ایک نظریاتی تعلق تھا اور ذاتی لگاؤ بھی تھا۔ دونوں سماج وادی جمہوریت پسند (Democratic Socialist) تھے۔ دونوں فطری طور پر امریکہ کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کرشنا مینن نہرو کی نازک حالات میں ایک ادبی ایجنٹ کی حیثیت سے کتاب وغیرہ فراہم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ 1930ء میں ان کی کتابوں کی اشاعت کیلئے یورپ کا دورہ بھی کیا تھا۔
آزادی کے بعد کرشنا مینن نے امریکہ میں سفیر ہند کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد بیرون ملک خاص طورسے اقوام متحدہ میں ہندستان کے مفادات کی نمائندگی کی۔ بعد میں جواہر لعل نہرو نے انھیں اپنی کابینہ کے اہم عہدہ پر فائز کیا۔ 1959ء میں فوج کے سربراہ کے ایس تھیمیا سے کھلے عام لڑ پڑے۔ اسی سال چین نے ہماری سرحدوں پر حملے کردیئے۔ اس وقت یہ بالکل عیاں تھا کہ کرشنا مینن کی دوسری چیزوں کے علاوہ ان کی تلون مزاجی اور جارحیت مغرب سے ہتھیاروں کی سپلائی مشکل میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے جواہر لعل نہرو کیلئے کرشنا مینن قرضہ جات (Liabality) بن گئے تھے۔ انھیں 1959ء میں ہٹا دینا چاہئے تھا مگر نہرو ان کی ہر غلطی اور خامی کو نظر انداز کرتے رہے۔ 1962ء تک کام سے لگائے رہے لیکن چین کے ہاتھوں ہندستان کی شرمناک شکست کی وجہ سے کرشنا مینن کو از خود گدی چھوڑنی پڑی۔
ہمارے اور سول سرونٹ دانشور کے مکالمہ کے دوران اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا امیت شاہ نریندر مودی کیلئے اس وقت وہی ثابت نہیں ہورہے ہیں،جو جواہر لعل نہرو کے آخری دور میں کرشنا مینن ان کیلئے ثابت ہوئے تھے۔ میں نے کہاکہ ان دونوں کے تعلقات ان دونوں کے مقابلے میں گہرے ہیں لیکن کچھ دنوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ایسا لگا کہ وزیر اعظم اپنے وزیر داخلہ کو بدل دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ نہرو اور مینن کی طرح دونوں ذاتی طور پر گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ایک ہی نظریہ اور مسلک سے منسلک ہیں۔
مکالمہ کے دو مہینے بعد امیت شاہ نے زبردست طریقے سے دہلی الیکشن میں پولرائزیشن کیا۔ پولس کی رپورٹ کے مطابق جب بی جے پی کے سیاستدانوں نے نفرت انگیز اور زہر آلود تقریریں کیں تو وہ خاموش رہے جس کی وجہ سے دہلی جلنا شروع ہوگئی، جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان کے دورے پر تھے۔
امیت شاہ کو وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ایک سال سے کم ہواہے لیکن اس مدت میں ہمارے سماج کا تانا بانا، ان کی گفتار و کردار کی وجہ سے انتہائی بگڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ آواز مسلسل اٹھ رہی ہے کہ ایک نئے وزیر داخلہ کا تقرر کیا جائے۔ وزیر اعظم کو یہ گونج ضرور سنائی دے رہی ہوگی۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس پر لوگوں کو شک و شبہ ہے کہ اس وقت جو انصاف اور قومی مفاد کا تقاضہ ہے کیا وہ پورا کرسکیں گے؟“
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی فساد کی بابت ایک دوست نے پوچھا : اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب دیا : وہی جو ہم کرتے ہیں تو وہ تعجب سے بولے: لیکن ہم لوگ تو بڑے سکون سےاقامت دین کا کام کررہے تھے کہ درمیان میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ اب ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ان سے دریافت کیا کہ ہم لوگ اقامت دین کا کام کیوں کرتے ہیں ؟ وہ بولے : تاکہ دنیا کا نظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلے اور ہر سو عدل و انصاف قائم ہوجائے ۔ سوال کیا : اگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے تو کیا فرقہ وارانہ فساد ہوں گے؟ یا ان کو جاری و ساری رہنے کی چھوٹ ملے گی؟ تووہ بولے : یہ کیسے ممکن ہے؟ پھرپوچھا : تو کیا آپ فساد کی آگ بجھاتے رہنا چاہتے ہیں ، لیکن اس کو لگنے سے روکنا نہیں چاہتے؟ انہوں نے کہا : جی ، اسی لیے ہم اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں اور یہی ہمارے لیے رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے ، مگر کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان نامساعد حالات میں بھی ہم انہیں روایتی سرگرمیوں میں مصروف رہیں؟ جب پوچھا کہ یہ کس نے کہا تو وہ خاموش ہوگئے۔
زندہ تحریکات اپنے حالات سے بے نیاز نہیں ہوتیں ۔اس دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے تقاضے ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے ۔ وقت کے ساتھ مختلف سرگرمیوں کی اہمیت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔ فسادات کے دوران اس کو رکوانے کے لیے انتظامیہ پر سیاسی اور سماجی دباو ڈالنا۔ فساد کا شکار ہونے والوں کی باز آباد کاری کا اہتمام کرنا۔ پست ہمت ہونے والے لوگوں کا حوصلہ بلند کرنا ۔ زخمیوں کا علاج کروانا، یتیم اور بیوہ ہونے والوں سہارہ بن جانا اور فساد برپا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلانے کی جدوجہد کرنا وہ اضافی کام ہیں جو ان حالات کا تقاضہ ہوتے ہیں ۔معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ یا انہیں قربان کرکے اس عارضی ذمہ داری کو اداکرنا لازمی ہوتا ہے لیکن یہ ساری سرگرمیاں بھی اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں جس کے لیے تحریک اسلامی برپا ہوئی ہے۔ یہ کوئی الگ سے کیا جانے والا کام نہیں ہے اور ان کی اہمیت یا اجروثواب کسی صورت کم نہیں ہے۔
فساد کے زمانے میں جب کے مکان و روجان کے جلنے اور لوگوں کے مرنے کی خبریں اور ویڈیوز کی سوشیل میڈیا میں بھرمار ہو جاتی ہے توعوام کے اندر ہیجان و اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ایسےمیں انسان کے اندر ٹھہراؤ نہیں رہتا ، عقل ماند پڑ جاتی ہے اور راہِ حق پر گامزن رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں فرمانِ ِ ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبرو نماز سے مدد لو، ‘‘۔آزمائش کے دوران مستقل مزاجی کے ساتھ مقصد حیات پر ڈٹے رہنا امشکل ہوتا ہے ۔ایسے میں صبر کے ساتھ نماز کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ بندۂ مومن جس طرح خوشی و غمی ہر حال میں نماز پڑھتا ہے، اسی طرح تنگی و آسانی کے مراحل میں اپنے مقصد حقیقی پر قائم رتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کی جدوجہد میں منہمک رہے۔ مشکل ترین حالات میں چونکہ ہم اگر نماز نہیں چھوڑ سکتے تو دین حق سے کیسے دست بردار ہوسکتے ہیں ؟صبر و نماز میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان کواپنے رب سے قریب ترکرکے اللہ کی مددو نصرت کا حقدار بناتے ہیں ۔ اس لیے آگے یہ بشارت دی گئی ہے کہ ’’ اللہ صبر کرنے الوں کے ساتھ ہے‘‘۔
انسان جب یہ بھول جاتاہے کہ قضاء و قدر کے فیصلے آزمائشوں کے توسط سے نافذ ہوتے ہیں تو تذبذب کا شکار ہونےلگتا ہے حالانکہ ارشادِ قرآنی ہے’’ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ محض یہ کہنے سے ، چھوڑ ئیے جائيں گے کہ ہم ایمان لے آئے ؟ اور ا ن کی آزمائش نہیں کی جائيگی ـ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ہم نے اُنہیں آزمایا تھا ( اور انہیں بھی آزمائيں گے ) سو اللہ ضرور معلوم کر لے گا جو ( اپنے ایمان میں ) سچے ہیں اور انہیں بھی ( جان لے گا ) جو کہ جھوٹے ہیں ـ (العنکبوت : 1 3). یہی بات ایک اور جگہ اس طرح فرمائی گئی ’’(اے اہل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائیگی‘‘۔ جہانِ فانی میں سنت الہی کی اس معرفت کے بعد مشکل ترین حالات میں صبر و استقلال کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنا سہل ہوجاتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
(اروند کیجری وال کی ایماپر دہلی پولس کا طلبہ پر ظلم اور میرے ساتھ بربریت کی انتہا،میری داڑھی نوچی گئی اور پولس والے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسلسل مارتے رہے، یہاں تک کہ میں لہو لہان ہوگیاـ جامعہ ملیہ اسلامیہ کےطلبہ لیڈرقاسم عثمانی کی آپ بیتی)
اس تحریک میں گزشتہ دو ماہ میں تین بار پولس کی بربریت کا شکار ہوچکا ہوں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ حوصلہ نہیں ٹوٹتا، لیکن ۲۶ فروری کی رات میں جو واقعہ پیش آیا اس نے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اس لیے لکھ رہا ہوں، کیوں کہ ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ کسی کے ساتھ بھی یہ چیزیں پیش آسکتی ہیں اگر آپ کے ساتھ ہو تو حیران مت ہونا ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں پر یہ پتہ ہو پولس مار سکتی ہے تو وہاں مت جایا کرو تو میں ان کو یہ بتاناچاہتا ہوں کہ میرا دل ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے اپنے بھائی اور بہنوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھوں اور بس موبائل سے ویڈیو آگے شیئر کرکے یہ سوچ لوں کہ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ جہاں تک بھی ہوتا ہے ظلم کے خلاف سڑک پر آواز اُٹھانے میں حصہ لیتا ہوں اور ان شاء اللہ لیتا رہوں گا۔ تین دن دلی جلتی رہی اور دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال راج گھاٹ پر آنکھ بند کرکے شانتی کا ڈرامہ رچتے رہے اور بار بار وزیر داخلہ سے حالات کو سدھارنے کی اپیل کرتے رہے، وہی وزیر صاحب جو ایک کمیونٹی کو کرنٹ لگا کر مار دینا چاہتے تھے۔ کیجری وال کی اس خاموشی پر جامعہ الومنائی ایسوسی ایشن اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے کیجری وال کے گھر جاکر ان سے سوال کرنے کا اعلان کیا،جب ہم کیجری وال کے گھر پہنچے اس وقت بھی ہر جگہ سے ظلم کی خبریں آرہی تھیں ،ہم نے ان سے بات کرناچاہا تو اندر سے خبر آئی صاحب ابھی سو رہے ہیں، صبح ساڑھے نو بجے اُٹھیں گے۔ تین دن ہم لوگ سو نہیں پائے لیکن ایک وہ وزیر اعلیٰ جو آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے مارے گئے لوگوں کے ووٹ پاکر وزیر اعلیٰ بنا وہ مزے کی نیند لے رہا تھا۔
ہم لوگوں نے ٹھان لیا تھا کہ بنا ملے ہم واپس نہیں جائیں گے لیکن وزیر اعلیٰ جس بنا پر اپنی لاچاری کا اظہار کرتا ہے کہ پولس ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اس پولس کو اس نے طلبا پر حملہ کرنے کےلیے آگے کردیا ، پولس نے تین بج کر تیس منٹ پر ہمارے اوپر واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے تمام طلبہ بری طرح بھیگ گئے لیکن ہم لوگ وہاں سے نہیں ہٹے اس کے بعد انہوں نے غنڈہ گردی کا اصل ننگا ناچ شروع کردیا، وہ لاٹھی لے کر ہمیں دوڑانے لگے ۳۰۰ میٹر تک ہمارے پیچھے بھاگتے رہے، ہم ایک جگہ جاکر رک گئے کیوں کہ ہم سوچ رہے تھے شاید سویا ہوا وزیر اعلیٰ طلبا کے مطالبات کو سنے گا لیکن وہ خواب میں بھی مجھے لگتا ہے کہ امیت شاہ سے امن کی اپیل کررہا ہوگا ۔ ہمیں چاروں طرف سے پولس نے گھیر لیا تھا، سبھی نے میری طرف اشارہ کیا کہ اسے پکڑو کیوں کہ میرے چہرے پر داڑھی تھی اور میرا لباس کرتا پاجامہ تھا۔ چار پانچ پولس والوں نے مجھے گھیر لیا اور مجھے مارنے لگے، مجھے سڑک پر ہی گرا دیا ایک پولس والا میری داڑھی کھینچنے لگا اورمجھے زبردستی پولس وین میں ڈال دیا۔ جیپ کے اندر ایک پولس والاتھا اس کی سوچ ایسی تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے،وہ بار بار کہہ رہا تھا میں کٹر گجر ہوں، تجھے کاٹ دوں گا اور لگاتار مجھے مارتے رہے،مجھے پاکستانی کٹوا کہتے رہے، وہ اپنے ہاتھوں سے بوٹ سے مار رہے تھے اور مارتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگا رہےتھے،وہ سوچ رہے تھے کہ میں بھی ان کے ساتھ یہ نعرہ لگاؤں، وہ اس طرح مار رہے تھے کہ کہیں سے خون نہ نکلے لیکن ایک پولس والے نے اپنا بوٹ میرے منہ پر مارا جس کی وجہ سے میرا پورا منہ خون سے بھر گیا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، مجھ سے اُٹھا نہیں جارہا تھا میرے اور دوسرے ساتھیوں کو دوسرے کمرے میں رکھا تھا مجھے زبردستی کھینچتے ہوئے اس کمرے تک لے کر گئے، وہاں بھی لگاتار میری داڑھی اور کرتے پاجامے پر غلط تبصرے کرتے رہے، اس کے بعد سب لوگوں کو ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا صرف مجھے چھوڑ کر، جب سب چلے گئے تو دو پولس والوں نے مجھے دوبارہ مارنا شروع کردیا اس کے بعد مجھے ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا ۔ میں بالکل بھی بات کرنے کی حالت میں نہیں تھا ہمیں وہاں سے اسپتال لےجایاگیا، اسپتال میں بھی وہ لوگ مسلسل مجھے گالیاں دیتے رہے، ڈاکٹر کے سامنے مجھے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔ ایک پولس والا بولا اسے رات ہی گولی مار دیتے دھرتی کا بوجھ ختم ہوجاتا ۔ پولس والے ڈاکٹر پر بار بار یہ دباؤ بناتے رہے کہ میڈیکل رپورٹ میں سب کچھ نارمل لکھنا، اس اندھے ڈاکٹر کو میرے منہ سے نکلتا ہوا خون بھی نظر نہیں آرہا تھا اور اس نے بھی یہی لکھ دیا۔خیر دوبارہ پولس اسٹیشن لایا گیا اور میں شکر ادا کرتا ہوں اللہ کا اور ان تمام لوگوں کا جنہوں نے بہت کوشش کرکے ہمیں ظالموں کے ظلم سے آزاد کرایا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ وہ فی الحال کسی بھی شخص کے خلاف جلدبازی کیس درج نہیں کرناچاہتی ہے۔ اگرچہ اشتعال انگیز تقریروں کی ویڈیوز کی جانچ کی جارہی ہے لیکن پولیس کی پہلی ترجیح دہلی کے حالات کو معمول پرلانے کی ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ٹال دیا گیا۔بی جے پی کے تین متنازعہ لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اوپر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگانے والی درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کیاہے۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس کے پاس صرف ان رہنماؤں کے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ساری ویڈیوزموجودہیں جن کی پڑتال کی جا رہی ہے، اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان پر کارروائی کی جائے گی. دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ٹھیک نہیں ہوگا. کیونکہ اس وقت دہلی پولیس کو حالات کو معمول پر کی کوشش کر رہی ہے اس کے کام کاج کے اوپر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔وہیں مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں قانون و انتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو پارٹی نہیں بنایاگیاہے،لہٰذامرکزی حکومت کو بھی اس میں پارٹی بنایا جائے تا کہ مرکزی حکومت بھی اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ مرکز کی اس مانگ کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو پارٹی بنا کر نوٹس جاری کیا اور 4 ہفتے میں جواب دینے کوکہا ہے۔سماعت کے دوران ہی دہلی پولیس نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ دہلی تشدد معاملے میں اب تک کل 48 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام ایف آئی آر تشدد کے معاملے میں ہیں۔ پولیس علاقوں کے حالات کو جلد سے جلد معمول پرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔غور طلب ہے کہ کل دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھرنے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز تقریر معاملے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اس بات پر غور کریں اور کورٹ میں آج دہلی پولیس کو وہ رپورٹ دینی تھی لیکن آج اس معاملے کی سماعت جسٹس مرلی دھرکے سامنے نہیں بلکہ چیف جسٹس کے سامنے ہوئی۔ بتا دیں کہ کل اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کرنے والے تھے لیکن کل چیف جسٹس کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے جسٹس مرلی دھر نے معاملے کی سماعت کی تھی۔وہیں آج اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس نے کی اور انہوں نے مرکزی حکومت کو پارٹی بناتے ہوئے نوٹس جاری کرکے 13 اپریل تک جواب دینے کو کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی سماعت 13 اپریل کو ہوگی۔
نئی دہلی:دہلی میں ہوئے تشددکی تحقیقات کے لیے خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔ دہلی پولیس کے ایڈیشنل سی پی کرائم بی سنگھ کی قیادت میں یہ ایس آئی ٹی کام کرے گی۔ کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی دوٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مل کر نارتھ ایسٹ دہلی میں تشدد کی تحقیقات کریں گی۔دہلی میں ہوئے تشددمیں اب تک مرنے والوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔تشددکے معاملات میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اورکیسزدرج کیے جارہے ہیں۔تقریباََایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔ایس آئی ٹی (خصوصی تفتیشی ٹیم) کی جانچ ٹیموں کے سربراہ دوڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ایک ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور دوسری ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیوہوں گے۔ دونوں ٹیموں میں چار چار اے سی پی ہوں گے۔یعنی کل آٹھ اے سی پی شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں میں تین تین انسپکٹر، چار چار سب انسپکٹر اور پولیس اہلکار شامل رہیں گے۔دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا نے بتایاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اور کیسز درج کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔رندھاوا نے بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات کنٹرول میں ہیں اورحالات بالکل عام ہیں۔ پہلے کے مقابلے پی سی آر کال بہت کم آ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے ساتھ مل کر امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ہر زاویہ سے تشدد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔کئی جگہ چھاپے ماری چل رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تشددکی مکمل تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی سے ہوگی۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔
(وائس چانسلرنلسار یونیورسٹی آف لا،حیدرآباد)
ترجمہ:نایاب حسن
بتیسویں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بارکہاتھاکہ ”ایسی جمہوریت زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتی،جواپنی اقلیتوں کے حقوق کے اعتراف کواپنے وجودکی بنیادنہیں سمجھتی“۔دہلی کے حالیہ فسادات میں تیس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں،گھروں کونذرِ آتش کیاگیااور ایک پوری مارکیٹ کوجلادیاگیاہے،مگر جو منظرلمبے عرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ کودہشت زدہ رکھے گا،وہ اشوک نگرکی بڑی مسجد کی شہادت کا منظر ہے،اس نے6دسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پروفیشنلزم کے فقدان پر دہلی پولیس کوڈانٹ پلائی ہے،دہلی ہائی کورٹ نے بھی کہاہے کہ وہ دہلی میں دوسرا1984نہیں ہونے دے گا۔مسلمانوں نے بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیا، حالاں کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں تھیں۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے پر چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزراہے کہ دہلی میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔عہدِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کیاہوگا،مگر اُس وقت اِس ملک میں وہ آئین نہیں تھا،جوکہ اب ہے۔
دستورسازی میں شامل ہمارے ملک کے دوراندیش رہنماؤں کواقلیتوں کے اندیشوں کا ادراک تھا؛اسی وجہ سے انھوں نے ان کواپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے اوراس کی تشہیر وتبلیغ کا حق دیا اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔مہاتما گاندھی نے تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہاتھاکہ ایک ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسابرتاؤ کرتاہے۔دستور ساز اسمبلی میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں تجویز پیش کرتے ہوئے جی بی پنت نے کہاتھا”اقلیتوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کااطمینان بخش حل ہی آزاد ہندوستان کی صحت،ترقی اور مضبوطی کو یقینی بنائے گا،جب تک کہ ملک کی اقلیتیں پوری طرح مطمئن نہ ہوں،ہم ترقی نہیں کرسکتے؛بلکہ ہمارے لیے اچھی طرح ملک میں امن و امان قائم رکھنا بھی مشکل ہوگا“۔
دستورکے آرٹیکل25سے30تک کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے۔اس کے باوجود گزشتہ کم ازکم پانچ سالوں کے دوران ایک کے بعد دوسرے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوں کو”اینٹی نیشنل“ اورملک کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاگیا۔2014کے جنرل الیکشن میں ”گلابی انقلاب“کا حوالہ دینا،2016میں آسام الیکشن کے دوران تمام بنگلہ دیشی مہاجرین کو ملک سے باہر کرنے کی بات کرنا،انھیں دیمک قراردینااور حالیہ دہلی الیکشن کے دوران”گولی مارو…“جیسے نعرے لگانا سب اسی منظم نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے مجرم ہیں،گرچہ انھوں نے بعد میں اپنے بیان پر معافی مانگی اوراسے واپس لے لیا،جبکہ انوراگ ٹھاکر یا کپل مشرانے ایسانہیں کیا۔
منگل کے دن الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی ایک نچلی عدالت کو ایک کیس پرآگےکارروائی سے روکاہے،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ گیان واپی مسجد1664میں اورنگ زیب کے ذریعے کاشی وشوناتھ مندر کوتوڑکربنائی گئی تھی۔حتی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ(1993)میں ”عدمِ رجوع کا تحفظ“ملک کے سیکولر اقدار کا ایک لازمی جز ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کیاتھاکہ”عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ بنیادی طورپرایک سیکولرسٹیٹ کے فرائض کاحصہ ہے۔یہ تمام مذاہب کی برابری کے تعلق سے ہندوستان کے عہد کی عکاسی کرتاہے۔اس سب سے اوپر عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس پختہ ذمے داری کا اعتراف ہے جوکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی دستوری قدر کے طورپرتمام مذاہب کی برابری کا تحفظ کرے،یہ ہمارے دستورکاایک بنیادی وصف ہے“۔
اس ایکٹ میں تمام عبادت گاہوں کی صورتِ حال کو15اگست1947کی حالت پر برقراررکھنے کی بات کی گئی ہے۔اسی وجہ سے کورٹ نے تبصرہ کیا کہ”قانون تاریخ اور قوم کے مستقبل سے خطاب کرتا ہے، تاریخی غلطیاں ان لوگوں کے ذریعے نہیں ٹھیک کی جاسکتیں،جو قانون کواپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔عوامی عبادت گاہوں کے تحفظ کے سلسلے میں پارلیمنٹ نے واضح طورپر کہاہے کہ تاریخ اور تاریخی غلطیوں کو حال اورمستقبل کوبربادکرنے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا“۔
سپریم کورٹ نے22-23دسمبر1949کاحوالہ بھی دیاتھا،جب کچھ بیراگی زبردستی بابری مسجد میں جاگھسے اور مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے خفیہ طورپررام کی مورتیاں نصب کردی تھیں۔کہاجاتاہے کہ مورتیوں کی تنصیب ہی”مسجدکے انہدام اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر مسلمانوں کو اس سے بے دخل کرنے کاسبب بنی“۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس وقت بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں یقین دہانی کے باوجود اسے منہدم کردیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اب تک عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کلیان سنگھ کو کوئی سزانہیں دے سکاہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے صاف طورپر کہا تھا کہ”مسجد کا انہدام اوراسلامی ڈھانچے کو گراناقانون کی حکمرانی(rule of law)کی شرمناک خلاف ورزی تھی“۔
بابری مسجد شہادت کے دوملزمین اب نئے رام مندر ٹرسٹ کے ممبرہیں،اگریہ مسجد کومنہدم کرنے کاانعام نہیں توکیاہے؟حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مجرمانہ کیسز میں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک حقیقت جس پر زیادہ بات نہیں ہوتی،وہ یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بارہااُس کارسیواسے منع کیاتھا،جوبابری مسجد کے انہدام پر منتج ہوا۔یہ اطلاعات تھیں کہ مسجد کو منہدم کرنے کے آلات بڑی تعداد میں ایودھیا پہنچائے جارہے ہیں،مگرایسالگتاہے کہ فیصلہ سازی میں غلطی ہوئی۔2017میں سپریم کورٹ نے ریاستِ گجرات بنام آئی آرسی جی کیس میں 2002کے گجرات فسادات کے دوران 567 مذہبی مقامات،مساجد،درگاہوں اور خانقاہوں کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی ذمے داری حکومتِ گجرات پر ڈالنے سے منع کردیا،جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کوان مقامات کی مرمت اور تعمیرِ نوکا حکم دیاتھا؛بلکہ یہ بھی کہاتھاکہ اگر ان جگہوں کے متولی اور دیکھ ریکھ کرنے والوں نے ان کی تعمیر یا مرمت کروالی ہے،تواس پر ہونے والا خرچہ حکومت اٹھائے۔اس کیس میں جسٹس دیپک مشرااورجسٹس پی سی پنت کی دورکنی بنچ نے پرائیویسی فیصلے میں نو ججوں کی بنچ کے اس نظریے کو نظرانداز کردیاکہ بنیادی حقوق کوایک ساتھ پڑھنا چاہیے، گودام میں بند ہوکر نہیں۔دوججوں کی بنچ نے یہ بھی کہاتھاکہ معاوضہ صرف اس صورت میں دیاجائے گا،جب زندگی اور شخصی آزادی کا حق تلف کیاجائے،دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر معاوضہ نہیں دیاجاسکتا،حالاں کہ اصل بات یہ تھی کہ معاوضہ اس لیے دیاجاناتھاکہ ریاستی حکومت مذہبی مقامات کے تحفظ میں ناکام رہ گئی تھی۔
کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرمذہبی مقامات کی مرمت کے لیے سرکار کی طرف سے پیسہ دیاجائے،تواس سے سیکولر سٹیٹ کے دستور کے آرٹیکل27کی خلاف ورزی ہوگی،مگر ایسا لگتاہے کہ یہ موقف تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ اختیارکیاگیا گیا؛کیوں کہ کیرالا حکومت آرٹیکل290Aکے تحت تراونکور دیوسوم فنڈ کو سالانہ46.5لاکھ روپے دیتی ہے اور تمل ناڈوحکومت دیوسوم فنڈکومندروں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ13.5لاکھ روپے دیتی ہے،اس کے علاوہ متعدد حکومتیں مندرسمیت مساجد، مدارس اور چرچوں پر بہت ساراپیسہ خرچ کرتی ہیں۔
سی اے اے کی دستوری حیثیت کے سلسلے میں دائر پٹیشن کو نہ سن کراورطلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی پر توجہ نہ دے کرعدالتِ عظمیٰ نے صورتِ حال کی حساسیت کے تئیں غفلت کا اظہار کیاہے۔سپریم کورٹ نے اوبی سیز کے ریزرویشن کے تعلق سے منڈل کمیشن کی سفارشات ماننے سے اس لیے انکارکردیاتھاکہ اونچی ذات کے ہندواحتجاج کریں گے،اسی طرح اگرسی اے اے پر روک لگادیاجاتا،توملک بھر میں جاری احتجاجات بھی ختم ہوجاتے۔آج اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں،دستور کے آرٹیکل25سے 30میں ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں،ان کی بے رحمی کے ساتھ خلاف ورزی ہورہی ہے۔سینٹ زویرس کالج،احمد آباد فیصلے (1974)میں جسٹس ایچ آرکھنا کے الفاظ میں ”یہ قوانین اقلیتوں کے حق میں ایک پختہ عہد کی طرح ہیں…جب تک دستور اپنی موجودہ حالت میں باقی رہے گا،ان حقوق کونظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔اگر ایسی کوئی بھی کوشش کی جائے،تویہ نہ صرف اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی؛بلکہ یہ قانونی طورپر ایک ناقابلِ معافی عمل ہوگا“۔لہذاعدالتِ عظمی اور حکومت کوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کا اعتماد بحال کریں؛ تاکہ یہ حقوق محض دستورِ ہند کے صفحات کی زینت بن کرنہ رہ جائیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ انڈین ایکسپریس)
وزیر اعظم نریندر مودی سے تو اُمید تھی ہی نہیں
ایک آپ ہی سے اُمید تھی لیکن اروند کیجریوال جی ! آپ نے بڑا مایوس کیا ۔جب دہلی اسمبلی الیکشن کی تاریخی جیت کے بعد ، جسے ہم سب بی جے پی اور بھگوا ٹولے کی ذلیل ترین شکست قرار دیتے ہیں ، آپ اپنے ماتھے پر بڑا سا ٹیکہ لگا کر نمودار ہوئے ، یا جب آپ نے ’ہنومان چالیسا‘ کا پاٹھ کیا اور ہنومان مندر گئے ، تب ہم سب نے اسے آپ کا دھارمک معاملہ قرار دیا۔ اب اس ملک میں جسے جمہوری اور سیکولر کہا جاتا ہے اور جہاں کا آئین سب کو اپنے اپنے مذاہب پر چلنے کی آزادی دیتا ہے اگر آپ نے پوجا پاٹھ کرلی تو کوئی گناہ تو نہیں کیا ۔ ہاں ، دِل میں ایک شک سا ضرور اُٹھا کہ بھلا اروند کیجریوال جیسا شخص جس نے اب سے پہلے کبھی بھی یوں کھلم کھلااپنے دھرم کا اظہار نہیں کیا تھا بھلا کیوں خود کو اس قدر دھارمک ’جتلانے ‘ میں لگا ہوا ہے ! لیکن اس شک کو بھی ہم سب نے ذہنوں سے جھٹک دیا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ آدمی زیادہ سے زیادہ مذہبی ہوتا جاتا ہے (بہتوں کے ساتھ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے ) ممکن ہے کیجریوال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ حالانکہ آئین کی بات کرنے اور’نئی طرح کی سیاست کی شروعات‘ کا اعلان کرنے والے کیجریوال اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کسی عوامی پلیٹ فارم سے مذہب کا پرچار نہیں کیا جاتا ۔سرکار ی افسران ، عہدیداران ،وزرائے اعلیٰ ،وزراءاور وزیر اعظم و صدر جمہوریہ ہند تک کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی تو ہے ، لیکن سرکاری تقریبات میں مذہب کے استعمال کی یا سیاسی اجتماعات میں مذہب کے دکھاوے کی آزادی نہیں ہے ۔ جو بھی یہ کرتا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پھر بھی سوچا کہ شاید آپ یہ سب بی جے پی کو چڑھانے ، جلانے کیلئے کررہے ہیں ۔ بی جے پی والوں کے ذہنوں میں یہ حقیقت ٹھونسنے کیلئے یہ سب کررہے ہیں کہ دھارمک ہوتے ہوئے بھی سیکولر ہوا جاسکتا ہے ۔ لیکن دہلی فسادات کے دوران آپ اور آپ کی سیاسی جماعت ’آپ‘ کے لیڈروں اورو دھائکوں کے روّیے نے ’شک‘ کوزائل ہونے نہیں دیا۔
کیجریوال جی! دلّی والوں نے آپ کو کتنے پیار اور کس محبت سے ووٹ دیا تھا! انہوں نے بی جے پی ، آر ایس ایس اور مودی و شاہ ، انوراگ ٹھاکر ،کپل مشرا ، پرویش ورما ان سب کی نفرتوں کو اپنے پر حاوی ہونے نہیں دیا اور نہ ہی ان کی دھمکیوں سے ڈر محسوس کیا ، باہر نکلنے، قطار میں لگے اور ’آپ‘ کی جھولی میں ووٹ ڈال دیئے ۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ جب دہلی جل رہی تھی اور آپ کو ووٹ دینے والے ’مدد مدد ‘ کی گہار لگا رہے تھے ، جب مار کھاتے ، لٹتے ، پٹتے لوگ آپ کی طرف اُمید کی نظر لگائے تھے ، تب آپ نے اپنی نظریں پھیر لیں ! ان پر جوامن و امان کے مطالبے کیلئے آپ کے مکان پر پہنچے پولس کی لاٹھیاں چلیں ۔ دہلی جلتی رہی اور آپ امیت شاہ سے ملاقات کرکے یاتو ان کی تعریف کرتے رہے یا فوج بلانے کا مطالبہ ۔ افسوس ہے کیجریوال جی ! دہلی نے آپ کو محبت دی اور آپ نے دہلی کو جلوا دیا۔ آپ کے اراکین اسمبلی کو جب مدد کیلئے پکارا گیا تو ان کا جواب تھا ’پولس کا محکمہ ہمارے پاس نہیں ہے ‘ ’ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے‘ ’یہ علاقہ ہماری اسمبلی کی حد میں نہیں آتا‘ ۔یا پھر کچھ کہنا نہ ہوتا تو فون ہی نہیں اُٹھاتے تھے ۔کیا اسی لیے دہلی والوں نے اور خود شہر دہلی نے آپ کو منتخب کیا تھا! ہم سب آپ کے چاہنے والے تھے ،آپ ’بھکت‘ بھی کہہ سکتے ہیں ، اسی لیے جب آپ پر تنقید یا نکتہ چینی ہوتی تھی تب عقل کو کہیں دور رکھ کر آپ کا دفاع کرتے تھے ۔ اب یہ آپ کی ’چاہ ‘ دل سے نکل سی گئی ہے ۔ یقیناً اب آپ خوب کام کریں گے ، آپ نے موت ، تباہی ، بربادی ،یتیمی اور معذوروں کے ’ریٹ ‘ طئے کردیئے ہیں ، ۲۰؍ ہزار سے لے کر دس لاکھ روپئے تک کا معاوضہ ممکن ہے کہ بربادوں کے چہروں پر کچھ مسکان لے آئے لیکن وہ شہر دہلی جس سے آپ نے بار بار ’محبت‘ کا اظہار کیا ہے وہ تو اب بدل ہی گیا ہے۔ اور یہ تبدیلی وہ عناصر چاہتے تھے جن کے خلاف آپ کھڑے تھے اور لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ وہ تو کامیاب ہوگئے، نفرت جیت گئی ،آپ ہارگئے ۔ یہ لچر جواب کہ’میرے پاس پولس نہیں ہے ‘آپ کے اوپر لگے داغ کو دھو نہیں سکتا۔ الزام سخت ہے کہ آپ اندر سے ’سنگھی‘ ہیں ۔ کاش یہ الزام ’غلط ہو‘۔ ٹھاکر سنجے سنگھ آپ کے راجیہ سبھا کے رُکن کا ایک آڈیو وائرل ہوا ہے ، وہ ایک مسلم رکن اسمبلی کو ڈانٹ رہے ہیں ، ان کی کچھ باتیں سن کر از حد تکلیف ہوئی ،وہ تو سیکولر تھے-اللہ کرے وہ سیکولر ہی رہیں ۔ کیجریوال آپ سے مایوسی نہ ہوتی اگر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہتے جلتی ، لٹتی ، پِٹتی دہلی کی سڑکوں پر اُتر آتے ، جیسے مہاتما گاندھی اُترآیا کرتے تھے ، اور پھر آپ دیکھتے کہ شہر دہلی جلنے سے بچ جاتا ۔ پر آپ کیا اب تو یہاں کوئی بھی مہاتما گاندھی نہیں ۔ سب گوڈسے واد ی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ایسے ماحول میں جب مذہبی نفرت کا بول بالا ہو، وہاں لاشوں کا مذہب طے کرکے امن نہیں قائم کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس یہی ہو رہا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی لاشوں کو گننے اور انھیں دوسرے سے زیادہ مظلوم قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو اور تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے اس بات کو دھیان میں رکھا جارہا ہے کہ کسے مظلوم دکھانا اور کسے ظالم؟ کس کی جارحیت پر پردہ ڈال دینا ہے اور کس کے حملے کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایک خاص قوم کے سر پر منڈھنا ہے؟ حملہ آور کا نام شاہ رخ ہے یا انوراگ مشرا؟ سوشل میڈیا ہی نہیں، بیشتر اردو ہندی اخبار بھی یہی کررہے ہیں، ظاہر ہے انھیں اپنے قارئین کے مذہب اور اس مذہبی نفسیات کا خوب اچھی طرح علم ہے، اس لیے وہ بھی نیوز چینلوں کی طرز پر اپنا اپنا خیمہ منتخب کرچکے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے درمیان سنسنی، مایوسی، دل گرفتگی، بیچارگی، بے بسی اور ساتھ ساتھ غصہ بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس سے یہ اخبار خوب اچھی طرح واقف ہیں لیکن انھیں بھی اپنا رزق حلال کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خبریں پیش نہ کی جائیں لیکن سنسنی خیز خبریں کیسے پیش کی جائیں، سرخیاں کیسے لگائی جائیں، کالم کیسے طے کیے جائیں، تجزیے کس طرح کے ہوں، اس آرٹ سے بیشتر پروفیشنل اردواور ہندی صحافی بے خبر ہیں۔ معاف کیجیے گا، سوائے ایک خاص قوم یا فرقے کے جذبات سے یہ اخبارات اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح ہمارے قومی لیڈر۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندی اور اردو صحافت میں جری اور انصاف پسند صحافیوں کی کمی ہے، لیکن اس ٹرینڈ کے لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے موقف یا تحفظات کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتے۔ میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔”ممبئی اردو نیوز” کے ایڈیٹر شکیل رشید کے قلم سے جب جب ایسی تحریریں نکلیں جو ہماری قومی لیڈرشپ کا محاسبہ کرتی نظر آتی ہیں یا مذہبی قیادت کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کے مداح بھی ان کے خلوص کو طعنہ مارتے نظر آئے، گویا ایک اردو اخبار کو صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے نہ کہ حقائق کی گرفت کرنی چاہیے، یا ایک اردو اخبار کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جواز جوئی کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرکے ان کی صفوں کو درست کرنا چاہیے۔
کیا وجہ ہے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے ہندوؤں کی فہرست اردو اخباروں میں نظر نہیں آتی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مارنے والوں کی قوم کے نام پر بٹہ لگتا ہے جسے بچانے کا کام اردو اخباروں کا ہے؟ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ فساد اور بربریت کا مذہب بھی اب طے ہوچکا ہے، جب کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دہشت گردی اور فسادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس جملے کا استعمال حسب ضرورت اور حسب مصلحت جگہ جگہ بدلا بھی جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ہی زیادہ نقصان ہوا یا مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن پھر یہاں سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ کیا ایک جان کی قیمت نہیں ہے؟ کیا اب ترازو کے دونوں پلڑوں پر لاشوں کو رکھ کر تول کر فیصلہ کیا جائے کہ کس قوم کی لاشوں کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا اب تعداد کے اعتبار سے مظلوم اور ظالم طے کیے جائیں گے؟ اگر 85 سال کی بوڑھی اکبری کو زندہ جلانے کی خبرسنسنی خیز ہے تو کیا 19 سالہ وویک چودھری جس کے بائیں طرف ڈرلنگ مشین گھسیڑ دی گئی، وہ کم خوفناک ہے؟ اگر 22 سالہ اشفاق کی گردن میں دو بار وار اور اسے پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ہمارے دلوں کو مٹھیوں میں جکڑنے کے لیے کافی ہے تو کیا دوسری طرف 25 سالہ نتن کمار اور اس کے ضعیف والد پر جنونی بھیڑ کا حملہ ہمارے دل و دماغ دونوں کو نہیں جھنجھوڑتا؟ اگر ایک طرف اسحاق خان (24)، محمد مدثر (30)، محمد مبارک حسین (28)، شان محمد (35)، مہتاب (22)، شاہد (25)، محمد فرقان (30)، دلبر محسن علی (24)، اور معروف علی (30) وغیرہ جیسے مرنے والوں کے نام ہیں تو دوسری طرف دیپک کمار (34)، ویر بھان (50)، پرویش (48)، راہل سولنکی (26)، راہل ٹھاکر (23)، رتن لال (42)، انکت شرما (26)، ونود کمار (50) اور امن (17) جیسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو کیا آپ ان لاشوں کو گنیں گے کہ اس میں کتنے مسلم ہیں اور کتنے ہندو؟ اور پھر الیکشن میں جس طرح ووٹنگ کی تعداد پر جیت اور ہار طے کی جاتی ہے، کیا اسی طرح ظالم اور مظلوم طے کیے جائیں گے؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سامنے جو لاشیں پڑی ہیں وہ مذہبی شدت پسندی اور جارح قوم پرستی کا شکار انسانیت کی لاشیں ہیں اور آپ کو باور کرارہی ہیں کہ نہ ہندو خطرے میں ہے اور نہ مسلمان، اگر کچھ خطرے میں ہے تو صرف انسانیت خطرے میں ہے، جسے بچانا ہمارا کام ہے۔ سرکار، پولیس، سیاسی پارٹی اور نیتا جب بے کار ہوجائیں تو انسانیت حرکت میں آتی ہے اور وہ اپنا کام اپنی صفوں اور اپنے گھر سے شروع کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر تعصب کا اور قوم پرستی کا چشمہ نہیں ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو صرف کپل مشرا نظر آتا ہے لیکن وہ ہندو افسر نظر نہیں آتا جس نے اس کے خلاف رپورٹ کی تھی جس کے پاداش میں اسے سسپنڈ کردیا گیا؟ آپ کو گوتم گمبھیر بھی نظر نہیں آتا جسے اب ٹوئٹر میں غدار کہا جارہا ہے؟ آپ کو وہ ہندو بھی نظر نہیں آتا جو 9 مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے خود فسادیوں کی نذر ہوگیا۔ آپ دہلی بھر کے گردواروں پر نظر کیوں نہیں ڈالتے جن کے دروازے مسلمانوں اور دیگر فسادزدگان کے لیے کھول دیے گئے۔ آپ کو وہ دلت بھی نہیں دکھتے جو حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مسلم محلوں کے سامنے بیری کیڈ لگا کر سینہ سپر ہوگئے۔یہ کہانی یک طرفہ نہیں ہے، ہمیں دوسری طرف ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو مظلوموں کی شناخت ان کے مذہب سے نہیں کرتے۔ کئی مسلمانوں نے ہندو خاندانوں کی جان بچائی، انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعد میں انھیں ان کے لوگوں کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ ایک ویڈیو تو ایسا بھی میری نظروں سے گزرا جس میں مسلمانوں نے ایک فسادی کی بھی حفاظت کی، اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ذرا سوچیے یہ کیسے ہندو اور مسلمان تھے جنھوں نے نفرتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ محبت کا جزیرہ بنایا تھا۔یہ لوگ لاشوں کو گننے والوں میں سے نہیں تھے، یہ انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھے اور انھی کے دم سے یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب سماج کی ہم آہنگی اور اس کے اعتبار پر چوٹ لگائی جارہی ہو اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کے تانے بانے کو بکھیرا جا رہا ہو تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟ کیا ہم بھی اس جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال کر اس کی تپش بڑھاتے رہیں گے یا ہم ٹوٹے بکھرے اور خوفزدہ سماج میں حوصلے اور خود اعتمادی کی شمع روشن کریں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز
جنوری 2018ء میں سپریم کورٹ کے چار سینئر جج صاحبان جسٹس چلمیشور، جسٹس کورین جوزف، جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس مدن لاکر نے ایک پریس کانفرنس کا خطاب کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ”جمہوریت خطرے میں ہے اور عدالتی نظام میں مداخلت ہورہی ہے“۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے بارے میں اشارتاً کہا گیا تھا کہ وہ ججوں کی بنچوں کی تشکیل میں مقدمہ کے پیش نظر ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کی مداخلت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اوریہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر وہ ملک کے عوام کو حالات سے باخبر نہیں کرتے تو ان کا ضمیر کبھی گوارا نہیں کرتا۔ ان چار ججوں میں سے جسٹس رنجن گگوئی بعد میں ’چیف جسٹس آف انڈیا‘ بنے۔ انھوں نے توقع کے مطابق حق و انصاف کے قیام کیلئے کام کرنا شروع کیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک جنسی معاملے میں ان کو اس طرح پھنسا دیا گیا کہ وہ بڑی مشکل سے اس معاملے سے بری ہوئے۔ اس کے بعد ہی سے ان کا انداز بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ 2014ء میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہی نریندر مودی نے ججوں کی ایک کانکلیو میں کہا تھا کہ ”انتظامیہ اور عدالت میں تال میل ہونا چاہئے“۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ عدالت حکومت کا خیال رکھے اور حکومت عدالت کا خیال رکھے۔ کسی سربراہ سلطنت کا اس طرح کی بات کہنا جمہوریت میں کسی سانحہ سے کم نہیں ہے کیونکہ عدالت کے سامنے مرکز کی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں وہ فریق ہوا کرتی ہیں۔ عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ طاقتور فریق کا خیال رکھے اور کمزور فریق سے بے اعتنائی کا سلوک کرے۔ جب یہ چیز عدالتوں کی طرف سے ہوتی ہیں تو عدالتیں بے معنی ہوجاتی ہیں اور ان سے حق و انصاف کی توقع کسی کو بھی نہیں ہوتی۔
گزشتہ 22فروری کو سپریم کورٹ کے ایک جسٹس ارون مشرا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ”وزیر اعظم غیر معمولی جینئس ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر سوچتے ہیں اور مقامی سطح پر کام کرتے ہیں“۔ سپریم کورٹ کے کسی جسٹس کا انتظامیہ کے سربراہ کی تعریف کرنا نہ صرف عجیب و غریب ہے بلکہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ اس بیان کی سپریم کورٹ کے بار ایسوسی ایشن میں بھی مذمت کی گئی۔ چار ججوں کی کانفرنس میں جو کچھ کہا گیا تھایہ اس کی ایک علامت ہے۔
گزشتہ کل (26فروری) دہلی ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل بنچ جسٹس مرلی دھر کی سربراہی میں حقوقِ انسانی کے کارکن مسٹر ہرش مندر کی ایک پٹیشن کو جو دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کے متعلق تھی سماعت ہورہی تھی، جس میں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے بھڑکاؤ اور زہریلے بیانات پر عرضی گزار نے پولس کی غفلت اور لاپرواہی کا ذکر کیا تھا۔ جسٹس مرلی دھر نے مذکورہ تین لیڈروں کے اشتعال انگیز بیان کی کلپ کورٹ روم میں دکھاتے ہوئے مسٹر مہتا سے کہاکہ”آخر ان تینوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کیا؟“ سالیسٹر جنرل مسٹر تشار مہتا نے جب کہاکہ ”مناسب وقت میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے گا“۔ اس پر جسٹس مرلی دھر نے کہاکہ ”وہ مناسب وقت کب آئے گا جب ساری دلی جل جائے گی؟“ انھوں نے یہ بھی کہاکہ ”وہ دہلی کو 1984ء کی دہلی بننے نہیں دیں گے“۔ اس طرح جسٹس مرلی دھر نے سالیسٹر جنرل مسٹر تشار مہتہ کو منہ توڑ جواب دیا۔ بالآخر ان کو خاموش ہونا پڑا۔ مرلی دھر نے پولس کی لاپرواہی پر زبردست ریمارک پاس کرتے ہوئے تینوں لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کیا۔ واضح رہے کہ ان تینوں کے بیانات پر ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کافی چرچا رہا۔ انوراگ ٹھاکر وزیر اعظم کی کابینہ کے نائب وزیر خزانہ ہیں۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران ’غداروں کو گولی مارو‘ جیسی بات کہی تھی۔ اس نعرے کو بار بار دہرایا بھی تھا۔ پرویش ورما بی جے پی کے ایم پی ہیں انھوں نے دہلی اسمبلی انتخاب کی مہم کے دوران شاہین باغ کو ’منی پاکستان‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ اگر اروند کجریوال جیت گئے تو شاہین باغ والے ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہو بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے، اس وقت نریندر مودی اور امیت شاہ آپ کا بچانے نہیں آئیں گے“۔
کپل مشرا پہلے ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے۔ کجریوال کی کابینہ کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ کجریوال سے اَن بن ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران دہلی کے انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ”شاہین باغ سے دہلی میں پاکستان والے داخل ہورہے ہیں“۔ یہ نفرت انگیز اور زہر آلود بیانات کے خلاف کسی قسم کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ کپل مشرا نے 23فروری کی شام کو اپنے ایک ہزار حامیوں کے ساتھ جعفر آباد کے میٹرو اسٹیشن کے پاس پہنچے جہاں خواتین اور مرد کالے قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھے تھے۔ پہلے دھرنے والوں سے نوک جھونک کرنے کی کوشش کی گئی پھر شمال مشرقی دہلی کے ڈی سی پی (کرائم) کو بلا کر کپل مشرا نے تین دنوں کا الٹی میٹم دیا کہ اگر تین دنوں میں یہ جگہ خالی نہیں کی گئی تو پولس سے کچھ نہیں کہیں خود خالی کرادیں گے۔ وہ محض ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کا انتظا کر رہے ہیں۔ 23فروری کو یہ دھمکی آمیز بیان اور کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے تنازعے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ فساد کا سبب بنا۔ پولس نے کپل مشرا کے الٹی میٹم کے خلاف کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی ایف آئی آر درج کیا۔ جسٹس مرلی دھر نے اس پر بھی اپنا اعتراض ظاہر کیا۔ دن میں سماعت ہوئی اور رات میں صدر جمہوریہ ہند نے چیف جسٹس آف انڈیا سے مشورے کے بعد جسٹس مرلی دھر کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ ٹرانسفر کردیا۔ یہ عدالتی تاریخ میں ایک بڑا سانحہ شمار کیا جائے گا۔
اس ٹرانسفر کو کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ”حکومت کی اس کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ جو انصاف کرے گا اس کو بخشا نہیں جائے گا“۔ انھوں نے اس ناانصافی (Injustice)کو "classic hit-and-run” سے تعبیر کیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ”جسٹس مرلی دھر کا ٹرانسفر افسوسناک ہی نہیں بلکہ غمناک ہے۔ آدھی رات کا یہ ٹرانسفر عدالتی نظام کی تاریخ میں ایک سانحہ کی طرح یاد کیا جائے گا“۔ راہل گاندھی نے اسے جسٹس لویا کے ٹرانسفر سے ملاتے ہوئے کہا ہے کہ جج لویا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس ٹرانسفر نے اس کی یاد تازہ کردی۔ پرینکا گاندھی نے کہا ہے کہ کروڑوں لوگ عدلیہ پر اعتبار کرتے ہیں جسے حکومت نے اپنی غفلت اور لاپرواہی کو چھپانے کیلئے عوام کے اس عتبار کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔
جسٹس مرلی دھر کے ٹرانسفر کے بارے میں دہلی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے وکلاء کی انجمنوں کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔ اگر وکلاء اس طرح کے ٹرانسفر پر خاموش رہتے ہیں تو پھر کسی بھی جج کو جرأت و ہمت نہیں ہوگی کہ مرکزی حکومت یا حکمراں جماعت کے لیڈروں کے خلاف حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر کرسکے۔ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے جو 2018ء کے شروع میں کہا تھا اس کا ظہور اب کھلم کھلا ہونا شروع ہوگیا۔ سول سوسائٹی اور عدالتوں کے وکلاء کو عدلیہ اور جمہوریت کو بچانے کیلئے خاموش نہیں رہنا چاہئے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شیونرائن راج پروہت
(زیر نظر تحریر دراصل انڈین ایکسپریس کے صحافی شونرائن راج پروہت کی اس انگریزی رپورٹ کا اردو ترجمہ ہے جس میں انہوں نے دہلی کے جمناپارمیں فساد زدہ علاقوں میں پیش آنے والی اپنی سرگزشت بیان کی ہے۔انڈین ایکسپریس نے آج کی اشاعت میں اس فساد کے مختلف پہلوؤں پراپنے نصف درجن رپورٹروں کی شاندار اور تفصیلی رپورٹیں بھی شائع کی ہیں۔ہم پر واجب ہے کہ انگریزی صحافیوں اور خاص طورپرانڈین ایکسپریس کے صحافیوں کی ستائش میں دو بول ضرور بولیں۔ ایم ودود ساجد)
”یہ کوئی دن کے ایک بجے کا عمل تھا۔میں کراول نگر کی ایک بیکری کے سامنے بیکری کے مالک کا موبائل نمبر نوٹ کرنے کے لئے رکا۔اس بیکری کے سارے بنے ہوئے مال اور فرنیچر کو آگ کے حوالہ کرکے بیچ سڑک پر ڈال دیا گیا تھا۔40سال کی عمر کا ایک شخص میرے پاس آیا اور پوچھا: کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟۔میں نے خود کو ایک صحافی کے طورپر متعارف کرایا۔اس نے مجھ سے میری نوٹ بک چھین کر اس پر نظر دوڑائی۔اسے کچھ موبائل نمبروں اور صورتحال پر میرے کچھ نوٹس کے علاوہ کوئی مشکوک چیز نہیں ملی۔اس نے مجھے دھمکی دی کہ تم یہاں سے رپورٹنگ نہیں کرسکتے۔اس نے میری نوٹ بک کو بھی اسی آگ کے حوالہ کردیاجس میں بیکری کا سامان جل رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے مجھے کوئی پچاس لوگوں نے گھیرلیا۔ان کا شک بڑھتا گیا کہ میں نے اپنے موبائل میں تشدد کی تصاویر کھینچی ہیں۔انہیں میرے موبائل میں ایسا کوئی ویڈیویا فوٹو نہیں ملا۔لیکن انہیں اس پر تشفی نہیں ہوئی اورانہوں نے میرے موبائل میں موجود ہر ویڈیو اور ہر فوٹو کو ڈلیٹ کردیا۔
انہوں نے مجھ سے پھر پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟کیا تم جے این یو سے ہو؟انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ۔جو کچھ مجھے مزید پیش آنے والا تھا یہ اس کی طرف اشارہ تھا۔میری موٹر سائکل ایک گلی میں کوئی دوسو میٹر دور کھڑی تھی۔میں موٹر سائکل کی طرف جانے لگا۔جیسے ہی میں اس گلی میں مڑا مجھے ایک اور ہجوم نے گھیر لیا۔اس کے ہاتھ میں لاٹھی‘ڈنڈا اور لوہے کی چھڑیں تھیں۔انہوں نے بھی مجھ پر تشدد کی فوٹوز کھینچنے کا الزام دوہرایا۔ایک نقاب پوش نوجوان نے مجھ سے فون دینے کو کہا۔میں فون دینے کو تیار نہیں تھا۔میں نے کہا کہ تمام فوٹوز اور ویڈیوز ڈلیٹ کردی گئی ہیں۔وہ زور سے چیخا: فون دے۔وہ پھر میری پشت پر آگیا۔اس نے میرے کولہے پر لوہے کی چھڑ سے دوبار ضرب لگائی۔ میں کچھ دیر کے لئے بے جان سا ہوگیا۔مجھ پربھدی گالیوں کی بوچھار ہونے لگی۔ اب کچھ سمجھدار قسم کی آوازیں آنے لگیں: تمہیں اپنی جان زیادہ پیاری ہے یا فون؟میں نے اس نوجوان کو اپنا فون دیدیا۔انہوں نے نعرے لگائے اور وہ نوجوان میرا فون لے کر بھیڑ میں گم ہوگیا۔
مجھے لگا کہ میں چھوٹ گیا ہوں۔لیکن یہ وقتی تھا۔جلد ہی پیچھا کرکے مجھے ایک دوسری بھیڑ نے گھیرلیا۔ایک پچاس سالہ شخص نے میری آنکھوں پر لگا چشمہ اتارکر نیچے پھینکا اور پھر اس کے اوپر چڑھ گیا۔پھر اس نے ’ہندوؤں کے غلبہ والے علاقے سے رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں‘مجھے دو تھپڑ مارے۔انہوں نے میرا پریس کارڈ چیک کیا:۔۔۔۔ شونرائن راج پروہت‘ ہونہہ‘ ہندو ہو؟بچ گئے!۔۔۔۔لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہوئے۔۔انہوں نے مجھ سے ’اصلی ہندو‘ہونے کا مزید ثبوت مانگا:۔۔۔ بولو جے شری رام۔۔میں خاموش رہا۔—انہوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ اگر جان بچانا چاہتا ہے تو فوراً بھاگ جا۔ان میں سے ایک نے کہا: ایک اور بھیڑ آرہی ہے آپ کے لئے۔۔۔میں اپنی موٹر سائکل کی طرف بھاگا۔میں نے بائک کی چابی کے لئے اپنا تھیلا(Bag) چھان مارا۔ایک ایک منٹ قیمتی تھا۔بھیڑ میں سے ایک اور بولا: جلدی کرو وہ لوگ چھوڑیں گے نہیں۔۔۔میں بائک اسٹارٹ کرکے اندھوں کی طرح بھاگا۔مجھے یاد نہیں کہ میں کس گلی میں جارہا ہوں۔بس اپنی جان بچانی تھی‘سومیں انجان گلی میں گھس گیا۔۔۔۔۔“
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
دہلی کے خوں ریز فساد کے تعلق سے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں آج پہلی سرخی ہے: "The Real Beast” (اصلی درندے)۔ دوسری ذیلی سرخی ہے: ”بدمعاشوں کی دہلی کے علاقے میں مٹر گشتی، 4کی ہلاکت، پولس کی ملی بھگت“۔ اسی خبر میں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے بیسیوں بلوائی ایک نہتے نوجوان احتجاجی کو گھیر کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی چھڑ سے وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے مار رہے ہیں۔ مظلوم بے سدھ زمین پر پڑا تھا اور اس کا کپڑا خون آلود ہے۔ اسی روز صبح کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ سے دہلی ہوائی اڈہ پر پہنچے۔ عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کے ’سابر متی آشرم‘ دیکھنے گئے۔ پھر ٹرمپ اور مودی نے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ نے دھواں دھار تقریر کی۔ دونوں کی زبان پر ہندستان کی مذہبی آزادی، کثرت میں وحدت جیسی باتیں رواں تھیں۔ جب ٹرمپ تقریر کر رہے تھے تو دہلی فساد کی آگ سے جل رہا تھا۔ دہلی کے متعدد علاقے اور خاص طور پر شمال مشرقی حصے کے مسلم فرقے پر ہتھیار بند غنڈے پولس کے ساتھ حملے کر رہے تھے۔ دکانیں، مارکیٹ اور مسجدوں کو جلا رہے تھے۔ اس فساد کی تیاری اتوار کے دن ہی ہوگئی تھی۔ دہلی کے شمالی اور مشرقی حصے جعفر آباد میں بی جے پی کا بدنام زمانہ لیڈر کپل مشرا نے جلوس نکالا جہاں عورتیں، بچے CAA کے خلاف پُرامن دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کپل مشرا نے پولس کو اَلٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین روز میں دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کو ہٹایا نہیں گیا تو وہ خود طاقت کے زورپر ہٹادیں گے۔ الٹی میٹم میں تین روز کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کے بعد ہی وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ٹرمپ احمد آباد میں تھے اور جعفر آباد میں کپل مشرا کے غنڈے پولس کے ساتھ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور مقامی لوگوں پر اینٹ پتھر سے حملے کر رہے تھے۔ ایک کلپ وائرل کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کے دن شام کے وقت پتھر، اینٹ کے ٹکڑے لاریوں پر لادے جارہے ہیں۔ پولس کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیان دیا ہے کہ ابھی اس ویڈیو کی تصدیق ہورہی ہے۔
سوموار کے دن دہلی کے جعفر آباد سے فساد شروع ہوا، جہاں مسلمانوں کی بہت معمولی آبادی ہے اور موج پور میں بھی فساد برپا ہوا جہاں پڑوس میں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ مقامی باشندوں نے ایک اخبار کے نامہ نگار کو بتایا کہ پولس کی موجودگی میں دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے۔ پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی رہی۔ روئٹرس نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جو لوگ شہریت ترمیمی قانو کی حمایت کر رہے تھے پولس ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ بھیڑ پولس کی موجودگی میں مسلمان کے اسٹور کو تباہ و برباد کر رہی تھی اور ایک گاڑی میں آگ لگا رہی تھی۔ پولس نے آواز دے کر شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کو پتھر پھینکنے کیلئے اکسایا۔ کئی نوجوان لڑکے موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر آگ لگا رہے تھے۔ روئٹرس کا کہنا ہے کہ ان میں ایک امیت نام کے شخص نے کہا کہ ہم لوگ CAA کے حامی ہیں۔ اگر یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور جگہ تلاش کرلیں۔ روئٹرس نے بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے فسادی نوجوان زدوکوب کر رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ بلوائی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’سی اے اے‘ کے مخالفین کی مذمت کر رہے تھے۔ سوموار کے دن ’سی اے اے‘ کے حامیوں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا تھا۔ بہت سے گھروں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے تھے۔ اس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ’سی اے اے‘ کے حامیوں کا گھر ہے۔
جعفر آباد کے ایک اسکول کے معلم امین سبحان نے ’ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”نوجوانوں کا گروپ ہندو بھائیوں کے گھروں پر زعفرانی جھنڈے کیوں لگا رہے تھے؟ یہ فساد منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے متنازعہ لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی“۔ مشتعل بلوائیوں نے اتوار کے دن دھرنے اور احتجاج پر پرامن طریقے سے بیٹھے مرد اور خواتین کو راستے سے زبردستی اٹھا رہے تھے۔ ان سب کو مرکزی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ سلیم پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کملیش کمار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم لوگ دہشت گردی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی سزا دے رہی ہے۔ کملیش کے ایک دوست فیضل نے جن کی ایک لاؤنڈری کی دکان ہے کہاکہ پولس اگر حرکت میں آگئی ہوتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا اور جو لوگ فساد میں مارے گئے ہیں وہ بچ جاتے۔ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ فیضل نے پوچھا۔ سماجی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ”ہریانہ کے ایک علاقہ لونی سے بجرنگ دل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس فسادمیں حصہ لیا اور بلوائیوں سے مل کر دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ پولس تماشائی بنی رہی اور ان علاقوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں پولس بلوائیوں کی مدد بھی کرتی رہی“۔ رادھے شیام نے کہا۔ جعفر آباد کے قریب کا علاقہ نور الٰہی کے مسلمانوں کے بارے میں اکرام علی نے کہاکہ ”اب ڈر اور خوف سے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں“۔
دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے شر انگیز اور فساد انگیز بیان بازی کرتے رہے۔ کپل مشرا نے جو اس فساد کے خاص مجرم ہیں انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ شاہین باغ کی طرف سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی نہ تو الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اورنہ پولس کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔ کپل مشرا اپنی جیت درج کرانے کیلئے مہم کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے مگر فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کا نام آیا ہے کہ اتوار کے دن ہی پولس کے بغلگیر ہوکر سی اے اے کے مخالفین کو الٹی میٹم دے رہے تھے کہ دھرنے پر جو خواتین اورمرد بیٹھے ہوئے ہیں ان سے تین دنوں کے اندر جگہ خالی کرادی جائے ورنہ وہ خود خالی کرادیں گے۔ پولس ان کی باتوں کو ہنس ہنس کر ٹال رہی تھی۔ پولس کے اندر خفیہ کارندے ہوتے ہیں جن کو ان حالات میں خاص طور پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لیکن جب پولس خود فسادیوں سے ملی ہو تو پھر فسادیوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ فساد کے دوران پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کو اینٹ پتھر پھینکنے کیلئے اکساتی رہی۔ جب خود پولس بلوائی بن جائے یا بلوائیوں کا ساتھ دے تو فسادی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
دہلی کی پولس جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوئی ہے زعفرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سانحہ ہو۔ شاہین باغ کے قریب کا معاملہ ہو، ہر جگہ پولس کی جانبداری اور طرفداری دیکھنے میں آتی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ جامعہ ملیہ کے طالبعلموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ دہلی ہائی کورٹ تاریخ پر تاریخ دینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی کے حالیہ فساد کے سلسلے میں آج ہی (25فروری) سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔ مہلوکین کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سپریم کورٹ کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا یا حق و انصاف مظلومین کو ملے گا۔اس بار پہلے سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ چار افراد مارے بھی گئے ہیں۔ ڈر اور خوف سے اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں۔ پولس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ایسی صورت میں پولس سے حق و انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عدالت کو فساد کی تحقیق کا بلا تاخیر آرڈر دینا چاہئے تاکہ اصلی فسادیوں اور درندوں کے خلاف جلد کارروائی ہو اور دہلی پولس کے سیاہ کارناموں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ بھی فاش ہو۔ امید ہے کہ اس بار عدالت انصاف مانگنے والوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، عورت کے اندر طاقت نہیں ہے، عورت کے اندر کار آمد صلاحیت نہیں ہے اس لیے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بیشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس میں عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے. کیونکہ ایک عورت کے اندر بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر صبر کے میدان میں دیکھا جائے تو اس میں بھی عورت یعنی حوا کی بیٹیاں کامیاب نظر آتی ہیں صرف کمانے والی عورت کامیاب نہیں ہوتی بلکہ گھر بسانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت کرنے والی اور شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے بچوں کی پرورش کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے اور جہاں مرد کی آواز کو دبانے اور طاقت کے بل پر کچلنے کا ماحول پیدا ہوجائے تو وہاں ڈھال بن کر کھڑی ہوجانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے. فرعون ایک ظالم تھا لیکن اس کی بیوی آسیہ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت ہاجرہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکی اداؤں کو حج کے ارکان میں شامل کر دیا، حضرت خدیجہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ بیوہ ہوتے ہوئے چالیس سال کی عمر میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، حضرت فاطمہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ جنتی خاتون کی سردار ہوں گی جب انکی سواری پل صراط سے گذرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ سارے کے سارے لوگ اپنی نگاہیں نیچی کرلو فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے حضرت بی بی رحمت ایک کامیاب عورت ہیں جب حضرت ایوب علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہونے لگی یعنی امتحان ہونے لگا تو سخت مصیبت کے عالم میں جب سبھی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور بستی سے بھی نکال دیا تب بھی بی بی رحمت نے ساتھ نہیں چھوڑا.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید الکونین کی بیٹی ہو کر چکیاں چلاتے چلات ہاتھوں میں چھالے پڑجایا کرتے تھے پھر بھی دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں.
حضرت حنظلہ کی شادی ہوئی ہے ابھی پہلی رات ہے بیوی کے ساتھ شب زفاف منارہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ہوتا ہے حنظلہ اٹھتے اور جہاد میں شریک ہونے کیلئے نکلنے لگتے ہیں بیوی غسل کرنے کے لئے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ نہیں رکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور پھر بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر جنگ میں میں شہید ہوجا ؤں تو تمہیں دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے تم دوسری شادی کرلینا بیوی بھی بول تی ہے کہ ائے میرے سرتاج جاؤ رسول اللہ کی جانب سے جہاد کا اعلان ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ مگر ایک وعدہ کرو کہ جنگ میں شہید ہوگئے تو کل میدان محشر میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کریگا تو مجھے بھول نہ جانا بلکہ مجھے بھی ساتھ جنت میں لیجانے کے لیے اللہ رب العالمین سے سفارش ضرور کرنا جنگ میں حضرت حنظلہ کی شہادت ہوئی روایات میں یہی ملتا ہے کہ بیوی نے دوسری شادی نہیں کی.
تعلیم و تربیت کے میدان میں دیکھا جائے تو صحابی ربیع الفروخ کی بیوی حاملہ ہیں اور ربیع الفروخ جہاد کے لیے جارہے ہیں اور چالیس ہزار اشرفیاں بیوی کو دیکر میدان جنگ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں اور واپس آنے میں ستائیس سال لگ جاتے ہیں یعنی ستائیس سال کے بعد جب واپس آتے ہیں تو ڈائریکٹ گھر نہیں آتے بلکہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی کو پیغام بھیجتے ہیں کہ میں گھر آرپار ہوں شریعت کا یہی اصول بھی ہے کہ جب تم زیادہ دنوں کے بعد گھر واپس آؤ تو پہلے گھر خبر کردو، بیوی ہو تو اس تک پیغام پہنچا دو تاکہ وہ تمہارے استقبال کی تیاری کرلے چنانچہ جب ربیع الفروخ نے گھر آنے کا پیغام بھیجا تو بیوی نے کہا کہ آپ مسجد میں ٹھہریں عشا کے بعد گھر آنے کی اجازت ہے ربیع الفروخ مسجد میں ٹھہرتے ہیں ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز ادا کرتے ہیں ایک نوجوان امامت کرتا ہے شاندار قرأت سن کر اور بعد نماز خطاب سن کر ربیع الفروخ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کر دعائیں کرتے ہوئے زبان سے یہ کلمات ادا کیا اے اللہ کاش میرے پاس بھی کوئی بیٹا ہوتا تو میں بھی اسے ایسا ہی عالم دین بناتا بعد نماز عشاء بیوی نے پیغام بھیجا اے ربیع الفروخ اب آپ گھر تشریف لاسکتے ہیں پیغام ملنے کے بعد وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے دروازے پر پہنچ کر دستک دیتے ہیں تو وہی امامت کرنے والا نوجوان آکر دروازہ کھول تا ہے ربیع الفروخ سوچتے ہیں کہ میں کہیں کسی اور کے دروازے پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن پھر دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گھر تو میرا ہی ہے نوجوان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ گھر میرا ہے ان کی بات سن کر نوجوان کہتا ہے کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ گھر میرا ہے میں نے آج تک آپ کو اس گھر میں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے ساری باتیں سن کر بیوی دروازے پر آتی ہے سلام کرتی ہے استقبال کرتی ہے اور گھر میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے نوجوان سے کہتی ہے کہ بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں جب تم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے میرے پیٹ میں تھے تبھی تمہارے والد جہاد کے لیے چلے گئے تھے اور آج ستائیس سال بعد واپس آئے ہیں اس کے بعد ربیع الفروخ سے بیوی بولتی ہے کہ آپ نے جاتے وقت چالیس ہزار اشرفیاں جو دی تھیں میں نے اس سے تمہارے اس بیٹے کی پرورش کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا بتائیے کیا آپ مجھ سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا ائے میری بیوی تم ایک کامیاب عورت ہو حوصلہ مند عورت ہو تم نے میری شریک حیات ہونے کا حق ادا کردیا تم نے امانت میں کوئی خیانت نہیں کی میں تم سے بیحد خوش ہوں.
ایک اور عورت جن کا نام اسما ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر دیا تو اسما بنت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں تو حضرت اسما نے حجاج کے دربار میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا حجاج بن یوسف نے قتل کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر لٹکا دیا تو حضرت اسما وہاں پہنچ کر مسکراتی بھی ہیں اور روتی بھی ہیں حجاج بن یوسف یہ ماجرا دیکھ کر ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ماں ہونے کی بنیاد پر بیٹے کے قتل پر غم ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قتل ہونے کے بعد بھی میرے بیٹے کا سر اونچائی پر ہے اور قاتل زمین پر میرے بیٹے کے پیروں کے برابر کھڑا ہے یہ سن کر حجاج بن یوسف غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولتا ہے اے عورت اپنے بیٹے کا انجام دیکھ تو حضرت اسما نے جواب دیا کہ دیکھ رہی ہوں تونے میرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی لیکن میرے بیٹے نے راہ حق میں شہادت پاکر تیری آخرت تباہ کردی یہ تھا حضرت اسما کا دو ٹوک جواب کہ ظالم کے سامنے بھی حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا.
بلند ترین مقام رکھنے والی عورتوں میں ایک نام حضرت مریم کا بھی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں وہ حضرت مریم جنہوں نے ملک الموت سے بھی گفتگو کی ہے جب انکی روح قبض کرنے کی غرض سے عزرائیل آئے تو حضرت مریم نے کہا کہ کس لئے آئے ہو انہوں نے جواب دیا کہ روح قبض کرنے کے لئے تو مریم نے کہا کہ میں روزے سے ہوں اور میرا بیٹا جنگل میں پھل لینے کے لیے گیا ہے اسے واپس آلینے دو تو عزرائیل نے کہا کہ تمہارا بیٹا جنگل سے آئے یا نہیں آئے مجھے اس سے مطلب نہیں ہے وقت مقررہ سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا اور ایسا ہی ہوا کہ جب وقت پورا ہوا تو عزرائیل نے روح قبض کرلی حضرت عیسٰی علیہ السلام جنگل سے پھل لیکر واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے.
عورت یقیناً گھروں کی زینت ہے عورت بذات خود ایک زیور ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی خوبیوں پر نگاہ ڈالا جائے خوبصورتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ نیک سیرت ہونا کامیابی کی ضمانت ہے عورت کے اندر صبر کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جب اس کا چھوٹا بچہ سخت سردی کے موسم میں بھی بستر پر پیشاب کردیتا ہے تو اس وقت وہ عورت اتنا حصہ لپیٹ کر بچے کو اس پر سلاتی ہے اور خود بغیر بستر کے سوجاتی ہے یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے، یہ مضبوط حوصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کے ماحول میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد کو رمضان المبارک کا فرض روزہ گراں گذر تاہے لیکن عورت ہے جو رمضان کے روزے بحسن خوبی رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایام میں نفلی روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے.
ایک عورت کا حوصلہ اور صبر دیکھنا ہو تو کربلا کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یکے بعد دیگرے لوگ شہادت کا جام پیتے جارہے ہیں اور حضرت زینب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی جارہی ہیں بلکہ لاشوں کو ترتیب سے خیمے کے اندر رکھتی جارہی ہیں اور وہ وقت بھی آیا کہ اب بھائی کا نمبر آگیا یعنی حضرت زین العابدین بیمار ہیں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود میدان کارزار میں جارہے ہیں اور حضرت زینب نے میدان جنگ میں اپنے بھائی حسین کو روانہ کرکے صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ ائے حوا کی بیٹیوں جب اسلام پر آنچ آئے تو اپنے بھائیوں کو شہادت کی راہ میں دولہا بنا کر روانہ کر دینا اسی سرزمین کربلا سے حضرت شہربانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ اے حوا کی بیٹیوں جب کوئی اسلام کا سہاگ اجاڑنا چاہے تو تم اپنا سہاگ اجاڑ کر مذہب اسلام کا سہاگ اجڑنے سے بچالینا.
اور آج ہندوستان میں بھی عورتوں کا حوصلہ دیکھا جاسکتا ہے جمہوریت ھندوستان کی آن، بان اور شان ہے، دستور ہند ملک کا زیور ہے، امن و رواداری ہندوستان کا سرمایہ ہے اور اس سرمائے کو لوٹنے کی کوشش کی جانے لگی، آئین تحت آئینی منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر آئینی قدم اٹھایا جانے لگا، این آر سی، سی اے اے جیسا قانون بنایا گیا تو شاہین باغ، گھنٹہ گھر سمیت بیشمار مقامات پر عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہین باغ میں خواتین جمہوریت بچانے کی آواز بلند کر رہی ہیں اور متنازعہ شہریت قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اس دوران انکے اوپر الزامات بھی لگائے گئے، سردی کے موسم میں بچوں کی موتیں بھی ہوئیں، انہیں توڑنے کی اور منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن وہ ملک اور ملک کے آئین کو اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لئے شیشہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں اور آج ملک کے کسی بھی حصے میں شہریت قانون سے متعلق احتجاج ہوتا ہے تو اس میں شاہین باغ کا ذکر ضرور ہوتا ہے آئے حوا کی بیٹیاں تمہارے حوصلوں کو سلام !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شمالی دہلی کے تقریبا 11 علاقوں میں فساد پھوٹ پڑا ۔یہ فساد مکمل طورپر منصوبہ بند اور ٹارگیٹڈ تھا۔ ہمارے ملک کے حالات جس طرف جارہے ہیں اور جس بھٹی میں ہمارا ملک پک رہا ہے ، ایسے حالات میں گھروں کے اندربیٹھنا ، یا سڑکوں پر نکلی قلیل تعداد پر بھروسہ کرکے خود کوبچالینا نہ صرف بزدلی ہے بلکہ اپنے آپکو اور اپنی نسلوں کو غلام بنانے کے مترادف ہے ۔
ملک کے اکثر وبیشتر دانشورحضرات کہہ چکے کہ یہ حکومت آسانی سےاپنے ”فلسفے“ سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔ہندو فسطاٸی طاقتیں ، موجودہ حالات کیلٸے شبلی نعمانی کے مطابق 19ویں صدی کے آخر ہی سے متحرک ہیں۔RSS کا سن قیام 1925 صرف ان طاقتوں کے منصوبہ بند ہونے کا سال تھا ۔ان طاقتوں کا آسانی سے پیچھے ہٹنا، تقریبا ناممکن ہے۔موجودہ صورت حال ان کے لٸے ”کرو یا مرو“کی ہے۔دوسری طرف ہم مسلمانوں کیلٸے بھی بعینہ یہ ہی صورتحال ہے یعنی ”کرو یا مرو“
لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان ”بھوتوں“ کا کوٸی علاج نہ ہو۔ضرورت ہے کہ اہل ایمان شعور وسمجھ اور ہمت وحوصلہ کاثبوت دیں ۔اورمکمل طورپر تمام اہل ایمان کو سڑکوں پر آجانا چاہٸے اورمضبوط منصوبہ بندی کرکے اپنے ساتھ BJP اور RSS کے علاوہ، غیر مسلموں کو ساتھ ملاکر پرامن احتجاج کریں ۔انتہائی احساس وافسوس کی بات ہے کہ ابھی بھی کتنے ہی شہر ایسے ہیں جہاں Protest نہیں ہورہے ہیں،یا انہوں نے صرف میمورنڈم پر اکتفا کیا ہے۔
مسلم قیادت پر لازم ہے کہ CAA کی مخالفت کرنے والے تمام غیر مسلم ذمہ داران کیلٸے حوصلہ افزائی اور انعام واکرام کا اعلان کرے،جسکو قرآن نے ”تالیف قلب“ کا نام دیا ہے۔
اہل ایمان کو سمجھ لینا چاہٸے کہ موجودہ وقت کی بڑی سے بڑی قربانی اور بڑے سے بڑا نقصان، جانی ہو مالی۔ بعدکےنتاٸج کودیکھتےہوٸے کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوں ! اپنے گھروں سے باہر نکلو، شعور کی آنکھیں کھولو، ملک کے سیکولزم کی بقا کیلٸے ہرقسم کی قربانی دینے کے لٸے تیارہوجاٶ۔وقت اچھا ہے شاید آٸندہ کبھی غیر مسلم بھاٸیوں کی اتنی زیادہ حمایت نہ مل سکے۔اسکو کیش کرالو اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنی اندرونی تنظيم واتحاد کا بھی پورا خیال رکھو ۔یعنی ”ایک قاٸد ایک پارٹی“ اور وسیع پیمانے پر نوجوانوں کی ذہن سازی، تربیت وریاضت،خود حفاظتی Self Defence کے طریقے سکھاٸیں جاٸیں اور دستاویزی رابطہ بندی پردھیان دیا جاٸے ۔واعدو لھم مااستطعتم من قوة (القرآن)
احمد علی برقی اعظمی
ہے سبھی کے ان دنوں ورد زباں شاہین باغ
ہے جہاں میں مظہر عزم جواں شاہین باغ
جامعہ نے ملک وملت کو دکھائی جس کی راہ
بن گیا ہے اس کا میر کارواں شاہین باغ
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، نے آج کی ہے جو رقم
ولولہ انگیز ہے اک داستاں شاہین باغ
محو ہو سکتا نہیں جو صفحہ تاریخ سے
حریت کا ہے وہ نقش جاوداں شاہین باغ
گونجتی ہے ہر طرف جس کی صدائے احتجاج
پوچھتے ہیں لوگ ہے آخر کہاں شاہین باغ
آج تک جن کا نہ تھا کوئی کہیں پرسان حال
ایسے مظلوموں کی ہے تاب و تواں شاہین باغ
اپنے حق کی بازیابی کی بصد جوش و خروش
لڑ رہا ہے جنگ بے تیر وکماں شاہین باغ
ہندو مسلم سکھ عیسائی ہیں سبھی اس میں شریک
آج جس تحریک کا ہے ترجماں شاہین باغ
دیکھ کر سب کچھ جو برقی اعظمی خاموش تھے
آج ہے ان بے زبانوں کی زباں شاہین باغ
جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگاہم خاموش بیٹھنے والے نہیں، ممبئی میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں مولانا سید ارشدمدنی کا اعلان
نئی دہلی:مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانو ن منظور نہیں جو آئین کی بنیادکو زدپہنچاتا اورشہریوں کے حقوق کو صلب کرتاہو، ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی اس تقریر کا ابتدائیہ ہیں جو انہوں نے مجلس منتظمہ کے اجلاس کے اختتام پر ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، تقریر کیاتھی ایسامحسوس ہورہا تھا کہ سامعین کے دلوں کی آواز تھی اورلوگ ہمہ تن گوش تھے، انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا چنانچہ شہریت کے حصول کے عمل میں ان کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے، جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں، جمعیۃعلماء ہند نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندواور مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتی اپنے قیام سے لیکر اب تک وہ ہندومسلم اتحادکے راستہ پر چل رہی ہے، مولانامدنی نے آگے کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرنے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا، انہوں نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے، سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں، وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔
کوئی غلط کام اگر کسی شناخت کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس کی کراہیت مزید بڑھ جاتی ہے،مثلاً زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب دہلی پولیس کا روپ دھارن کر کے کچھ سنگھی غنڈوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کی بے رحمی سے پٹائی کی. ان چند غنڈوں کی وجہ سے دہلی پولیس کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ـ دہلی پولیس نے ان غنڈوں کو نہ تو گرفتار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی بیان ہی دیا. اس سے صاف یہی ظاہر ہوا کہ مٹھی بھر ان غنڈوں کو دہلی پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی. اس واقعہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دہلی پولیس میں ایماندار افسران نہیں ہیں. بلکہ ممکن ہے کہ اکثریت ایمانداروں کی ہی ہو لیکن چند منافقوں کی وجہ سے پوری پولیس برادری کو بدنامی اٹھانی پڑی ـ
ایسا ہی کچھ معاملہ ہماری مذہبی برادری کا ہے. کچھ لوگ مذہبی لبادہ اوڑھ کر ایسی ایسی مذموم حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پوری کمیونٹی بدنام ہوتی ہے. افسوس تو تب ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی سرزنش کرنے کے بجائے ان کی داڑھی ٹوپی سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ان کے بچاؤ میں آگے آ جاتے ہیں. حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ مذہبی شناخت کے ساتھ مذہب کو بدنام کرنے والی حرکتیں کریں ان کے ساتھ سختی سے نبٹا جائے تاکہ چند لوگوں کی وجہ سے مذہب بدنام نہ ہوـ
تقریباً دیڑھ سال پرانی بات ہے ایک اسم باسمی "زاہد” صاحب نے میری ایک فیس بک پوسٹ من و عن اپنے نام، پتے اور موبائل نمبر کے ساتھ روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ میں شائع کروا لی. میں نے اخبار میں دئے ہوئے نمبر پر انہیں کئی بار فون کیا. ممکن ہے میرا نمبر ان کے پاس محفوظ ہو یا ٹرو کالر پر انہوں نے میرا نام دیکھ لیا ہو، انہوں نے میری کال ریسیو نہیں کی. میں نے انہیں واٹس ایپ پر میسج بھیجا اور ان سے کال کرنے کو کہا. "حضرت” نے میرا میسج دیکھا لیکن تب بھی کال کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکے تو اگلی بار مجھے انہیں ڈرانا پڑا. میں نے انہیں وائس میسج بھیجا کہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہوں، آپ ایک سند یافتہ مفتی ہونے کے باوجود اس طرح کی گھٹیا حرکت کرتے ہیں ـ "حضرت” کو تب شاید احساس ہوا کہ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں. انہوں نے مجھے فون کیا،پہلے تو وہ انکارکرتے رہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسی کوئی حرکت نہیں کی ـ انہوں نے وضاحت پیش کی کہ میری تحریر انہیں پسند آئی تو انہوں نے کاپی پیسٹ کرکے اسے قومی تنظیم کو فارورڈ کر دیا. قومی تنظیم والوں نے اس تحریر کو "مفتی” صاحب کے نام کے ساتھ شائع کر دیا. "مولانا” کی اس وضاحت پر مجھے ہنسی بھی آئی اور بے انتہا غصہ بھی. میں نے مولانا سے کہا کہ چلیے مان لیا کہ قومی تنظیم والوں نے آپ پر مفت کا احسان فرما دیا لیکن ذرا یہ تو بتاییے کہ آپ کی فیس بک وال پر اور مختلف واٹس ایپ گروپس میں آپ کی آئی ڈی سے آپ کے نام کے ساتھ جو اس مضمون کا تراشا گردش کر رہا ہے اور ہر کمنٹ پر آپ چہک چہک کر "شکریہ جزاک اللہ خیرا” لکھ رہے ہیں کیا یہ کام بھی قومی تنظیم کے دفتر سے انجام پا رہے ہیں؟ اب مولانا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا. میں نے تھوڑا سخت لہجہ اختیار کیا تو مولانا معافی مانگنے لگے. میں نے اخبار میں معذرت نامہ شائع کرنے کو کہا ساتھ ہی فیس بک پر بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کو کہا. میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کے پاس "شرعی داڑھی” ہے، نام کے ساتھ "مفتی” کا سابقہ اور ایک بہت ہی بڑے مدرسے کا لاحقہ ہے. میرے پاس نہ تو شرعی داڑھی ہے اور نہ ہی کوئی سابقہ اور لاحقہ. دنیا تو یہی سمجھے گی کہ مولانا ہی صحیح ہوں گے… کامران میاں نے ہی چوری کی ہوگی”
مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ اخبار میں معذرت نامہ شائع کروائیں گے لیکن دیڑھ سال گزر جانے کے باوجود انہوں نے معذرت نامہ تو شائع نہیں کروایا ہاں خبر ملی کہ انہوں نے” عمرہ” فرما لیا ہےـ
مجھے اس بات کا زیادہ افسوس نہیں ہے کہ مولانا نے میری تحریر اپنے نام سے کیوں شائع کروا لی یا کسی "باریش” حضرت نے میری غزل کا سرقہ کیوں کیا؟مجھے افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ ایسی گری ہوئی حرکتیں انجام دے کر اس طرح کے لوگ پوری کمیونٹی کو بدنام کرتے ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ احباب سب کچھ جانتے بوجھتے بھی "داڑھی ٹوپی” کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے ایسی مذموم حرکت کرنے والے لوگوں کے دفاع میں آگے آ جاتے ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے لوگوں سے برات کا اظہار کیا جائے کہ ان کی وجہ سے پوری کمیونٹی بدنام نہ ہو لیکن ہوتا الٹا ہے،داڑھی ٹوپی کو نشان زد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،مقصد بس اتنا ہے کہ جو لوگ "داڑھی، ٹوپی اور مذہب” کی آڑ میں غیر اخلاقی اور غیر شائستہ حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں "ایکسپوز” کیا جائے تاکہ دوسروں کو اس طرح کی مذموم حرکت کرنے کی ہمت نہ ہوـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)