جمیعت علما کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعہ فرضی خبروں کی نشر و اشاعت کے معاملے میں حکومت ہند اور پریس کونسل اوف انڈیا کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یہ نوٹس اس پٹیشن کے جواب میں ہے جو جمیعت نے بعض ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی تھی۔ اس پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ان چینلوں نے جھوٹ گڑھ کر کرونا وائرس کے پھیلنے کا الزام تبلیغی جماعت کے سر منڈھ دیا اور اسے اس طرح پیش کیا کہ نہ صرف تبلیغی جماعت بلکہ پوری مسلم قوم کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے۔ انقلاب (اٹھائیس مئی) میں شایع ایک خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ کے اس قدم سے مولانا محترم کو "قلبی سکون” حاصل ہوا ہے اور وہ "گودی میڈیا” کے خلاف اس کاروائی کو "خوش آئند” قرار دے رہے ہیں۔ میرے حساب سے سپریم کورٹ کی یہ کاروائی "سکون” دینے کی بجاے پریشان کن ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پرانی روش پر قائم رہتے ہوۓ ایک بار پھر سے دو ٹوک فیصلہ نہ سنا کر معاملے کو ٹال دیا ہے۔ میں یہاں پر چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
جس پریس کونسل آف انڈیا کو نوٹس جاری کیا گیا ہے ٹیلی ویژن چینلس اس کے دائرۂ اختیار میں آتے ہی نہیں ہیں۔ پریس کونسل ایک قانونی ادارہ ہے جس کے پاس نیم عدالتی اختیارات ہیں مگر یہ محض اخبارات اور رسائل تک محدود ہیں۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو جب دوہزار گیارہ سے چودہ کے بیچ اس کے چیئرمین تھے تو انہوں نے ایک تجویز رکھی تھی کہ اس کا نام بدل کر "میڈیا کونسل” کر دیا جاۓ اور ٹیلی ویژن چینلوں کو بھی اس کے تحت کر دیا جائے، مگر چینلوں کے مالکان نے اس کی زبردست مخالفت کی اور اسے اظہار راۓ کی آزادی پر حملہ قرار دیا، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے آپ کو "سیلف ریگولیٹ” کرتے ہیں، یعنی اپنے عمل کی نگرانی خود کرنے کے اہل ہیں اور اس کے لئے کسی سرکاری ادارے کو دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے. سپریم کورٹ نے حکومت کو بھی نوٹس جاری کیا ہے، یہ بھی ایک مذاق سے کم نہیں۔ جس حکومت نے لنچنگ جیسے سنگین جرم کی روک تھام میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور سپریم کورٹ کی وارننگ کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا بلکہ اس کے وزیر لنچنگ کے سزا یافتہ مجرموں کو ہار پہناتے نظر آئے اب اس حکومت سے یہ پوچھنا کہ تم نے ٹی وی چینلوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی چہ معنی درد؟
سپریم کورٹ نے حکومت اور پریس کونسل کو نوٹس جاری کرتے ہوۓ یہ حکم بھی دیا ہے کہ نیشنل براڈکاسٹنگ اتھارٹی (این بی اے) کو بھی اس مقدمے کا ایک فریق بنایا جائے، اس سلسلے میں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ نام نہاد اتھارٹی ٹیلی ویژن چینلس کے مالکان کی ایک پرائیویٹ انجمن ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یہ نہ حکومت کو جواب دہ ہے نہ عوام کو. ملک میں چار سو کے قریب چینلس ایسے ہیں جن کے پاس خبریں اور حالات حاضرہ کا پروگرام نشر کرنے کا لائسنس ہے، ان میں سے صرف اکہتّر چینلس این بی اے کے رکن ہیں، یعنی بیس فی صد کے قریب، بقیہ اسّی فی صد اس پرائیویٹ ادارے کی گرفت سے بھی آزاد ہیں، این بی اے نے اپنی ایک ذیلی تنظیم بنا رکھی ہے جس کا نام ہے نیشنل براڈکاسٹنگ سٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ایس اے)۔ اگر کوئی شخص این بی اے کے کسی رکن چینل کے خلاف شکایت کرے تو این بی ایس اے اس کی سنوائی کرتا ہے اور اگر شکایت کو صحیح پاتا ہے تو اپنے رکن چینل کو حکم دیتا ہے کہ اپنے چینل پر اس کی تردید نشر کرے۔ اب تک کی روایت یہ رہی ہے کہ زیادہ تر رکن چینل نے این بی ایس اے کے فیصلے کو نہیں مانا ہے، بلکہ جس چینل کے خلاف فیصلہ آیا وہ ناراض ہو گیا اور این بی اے سے استعفیٰ دے دیا، بعد میں جب معامله ذرا ٹھنڈا ہوا تو اس کے دوست چینل اسے منا کر واپس این بی اے میں لے آئے۔ این بی اے کے موجودہ صدر رجت شرما جو کہ انڈیا ٹی وی کے مالک اور ایڈیٹر ہیں ایسے ہی ایک "ناراض” رکن ہیں جو نہ صرف واپس آئے بلکہ انجمن کی قیادت بھی ان کے سپرد کر دی گئی۔
اس پرائیویٹ انجمن کا اپنے ممبران پر کتنا زور چلتا ہے اس کا اندازہ ماضی قریب کی دو مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جنوری دو ہزار اٹھارہ میں ارنب گوسوامی کے ریپبلک ٹی وی نے دلت لیڈر جگنیش میوانی کی ایک ریلی کی رپورٹنگ کی جو انتہائی قابل اعتراض تھی، اس کی شکایت ہوئی اور این بی ایس اے نے اپنی تفتیش میں ریپبلک ٹی وی کو مجرم گردانا۔ حکم ہوا کہ سات ستمبر دو ہزار اٹھارہ تک ریپبلک معافی مانگے، تاریخ آئی اور گزر گئی، ریپبلک نے معافی نہیں مانگی، این بی ایس اے یا اس کی جنم داتاتنظیم این بی اے کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں تھی کہ ریپبلک کے خلاف ایکشن لیتے۔ اُسی سال مئی میں بالکل یہی حرکت زی نیوز نے سائنس داں اور شاعر گوہر رضا کے معاملے میں کی، مقدمہ مارچ دو ہزار پندرہ کا تھا جب زی نیوز نے دہلی میں منعقد شنکر-شاد کے سالانہ مشاعرے کو "افضل پریمی گینگ کا مشاعرہ” گردانتے ہوۓ گوہر رضا کو "ملک دشمن” قرار دیا اور ان کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ کئی طرف سے زی نیوز کے خلاف شکایت ہوئی، این بی ایس اے نے فیصلہ گوہر رضا کے حق میں سنایا اور سترہ مئی دو ہزار اٹھارہ کی تاریخ طے کی معافی نامہ نشر کرنے کی۔ زی نیوز نے معافی نہیں مانگی، اس کے باوجود اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
اب ایسے ناکارہ ادارے کو سپریم کورٹ نے فریق بنایا ہے اور ہم لوگ خوش ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پاس پہلے سے ایک مقدمہ اس ادارے کو آئین کے دائرے میں لانے کا پڑا ہے جس پر گزشتہ سات سالوں سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے،دو ہزار تیرہ میں ایک سماجی تنظیم نے یہ پیشی لگائی تھی جس کے جواب میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی تین وزارتوں کو، پریس کونسل کو، الیکشن کمیشن کو اور این بی اے اور این بی ایس اے کو نوٹس جاری کیا تھا۔ ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے، نہ کسی نے جواب دیا نہ ہی سپریم کورٹ نے اس حکم عدولی کا نوٹس لیا، پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے خلاف تازہ معامله جو کہ جمیعت نے اٹھایا ہے اس کا بھی مجھے کوئی مستقبل نظر نہیں آتا ہے، سپریم کورٹ نے پندرہ جون تک تمام فریقوں سے جواب مانگا ہے، قوم خوش ہے کہ جواب آئے گا اور حکومت اور ٹیلی ویژن چینل والے ہاتھ باندھے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے، اتنا بھولا پن بھی ٹھیک نہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمیعت علماء ان لوگوں کی طرف سے مقدمہ دائر کرواتی جو ٹیلی ویژن اینکرز کے ذریعہ پھیلاۓ گئے جھوٹ کا شکار ہوۓ جیسے قصبوں اور دیہاتوں کے مسلمان دکاندار اور سبزی اور پھل فروش جنہیں پیٹا گیا، ذلیل کیا گیا اور ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ ہریانہ میں ہارے والی گاؤں کے مسلمانوں کا مسلہ بھی عدالت پہنچانا چاہیے جن پر ٹیلی ویژن اینکرز کی غیر ذمّہ دارانہ اور سماج دشمن حرکتوں کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ تبلیغی اجتماع سے لوٹے ایک شخص کو مار مار کر ادھ مرا کر دیا گیا اور پوری مسلم آبادی کو مارتے پیٹتے مندر لے جا کر گؤ جل اور گنگا جل پینے پر مجبور کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ اب سے تم ہندو ہو۔ یہ سب ایسے معاملے ہیں جن پر ارنب گوسوامی، سدھیر چودھری اور ان کے ہم نواؤں کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ جمیعت علماء کو اپنی توجہ اس طرح کے واقعات پر مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ ایک ایسے مقدمے پر جس کا کوئی مستقبل نہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)