کوئی غلط کام اگر کسی شناخت کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس کی کراہیت مزید بڑھ جاتی ہے،مثلاً زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب دہلی پولیس کا روپ دھارن کر کے کچھ سنگھی غنڈوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کی بے رحمی سے پٹائی کی. ان چند غنڈوں کی وجہ سے دہلی پولیس کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ـ دہلی پولیس نے ان غنڈوں کو نہ تو گرفتار کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی بیان ہی دیا. اس سے صاف یہی ظاہر ہوا کہ مٹھی بھر ان غنڈوں کو دہلی پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی. اس واقعہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دہلی پولیس میں ایماندار افسران نہیں ہیں. بلکہ ممکن ہے کہ اکثریت ایمانداروں کی ہی ہو لیکن چند منافقوں کی وجہ سے پوری پولیس برادری کو بدنامی اٹھانی پڑی ـ
ایسا ہی کچھ معاملہ ہماری مذہبی برادری کا ہے. کچھ لوگ مذہبی لبادہ اوڑھ کر ایسی ایسی مذموم حرکتیں کر بیٹھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے پوری کمیونٹی بدنام ہوتی ہے. افسوس تو تب ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی سرزنش کرنے کے بجائے ان کی داڑھی ٹوپی سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ان کے بچاؤ میں آگے آ جاتے ہیں. حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ مذہبی شناخت کے ساتھ مذہب کو بدنام کرنے والی حرکتیں کریں ان کے ساتھ سختی سے نبٹا جائے تاکہ چند لوگوں کی وجہ سے مذہب بدنام نہ ہوـ
تقریباً دیڑھ سال پرانی بات ہے ایک اسم باسمی "زاہد” صاحب نے میری ایک فیس بک پوسٹ من و عن اپنے نام، پتے اور موبائل نمبر کے ساتھ روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ میں شائع کروا لی. میں نے اخبار میں دئے ہوئے نمبر پر انہیں کئی بار فون کیا. ممکن ہے میرا نمبر ان کے پاس محفوظ ہو یا ٹرو کالر پر انہوں نے میرا نام دیکھ لیا ہو، انہوں نے میری کال ریسیو نہیں کی. میں نے انہیں واٹس ایپ پر میسج بھیجا اور ان سے کال کرنے کو کہا. "حضرت” نے میرا میسج دیکھا لیکن تب بھی کال کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکے تو اگلی بار مجھے انہیں ڈرانا پڑا. میں نے انہیں وائس میسج بھیجا کہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہوں، آپ ایک سند یافتہ مفتی ہونے کے باوجود اس طرح کی گھٹیا حرکت کرتے ہیں ـ "حضرت” کو تب شاید احساس ہوا کہ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں. انہوں نے مجھے فون کیا،پہلے تو وہ انکارکرتے رہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسی کوئی حرکت نہیں کی ـ انہوں نے وضاحت پیش کی کہ میری تحریر انہیں پسند آئی تو انہوں نے کاپی پیسٹ کرکے اسے قومی تنظیم کو فارورڈ کر دیا. قومی تنظیم والوں نے اس تحریر کو "مفتی” صاحب کے نام کے ساتھ شائع کر دیا. "مولانا” کی اس وضاحت پر مجھے ہنسی بھی آئی اور بے انتہا غصہ بھی. میں نے مولانا سے کہا کہ چلیے مان لیا کہ قومی تنظیم والوں نے آپ پر مفت کا احسان فرما دیا لیکن ذرا یہ تو بتاییے کہ آپ کی فیس بک وال پر اور مختلف واٹس ایپ گروپس میں آپ کی آئی ڈی سے آپ کے نام کے ساتھ جو اس مضمون کا تراشا گردش کر رہا ہے اور ہر کمنٹ پر آپ چہک چہک کر "شکریہ جزاک اللہ خیرا” لکھ رہے ہیں کیا یہ کام بھی قومی تنظیم کے دفتر سے انجام پا رہے ہیں؟ اب مولانا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا. میں نے تھوڑا سخت لہجہ اختیار کیا تو مولانا معافی مانگنے لگے. میں نے اخبار میں معذرت نامہ شائع کرنے کو کہا ساتھ ہی فیس بک پر بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کو کہا. میں نے مولانا سے کہا کہ آپ کے پاس "شرعی داڑھی” ہے، نام کے ساتھ "مفتی” کا سابقہ اور ایک بہت ہی بڑے مدرسے کا لاحقہ ہے. میرے پاس نہ تو شرعی داڑھی ہے اور نہ ہی کوئی سابقہ اور لاحقہ. دنیا تو یہی سمجھے گی کہ مولانا ہی صحیح ہوں گے… کامران میاں نے ہی چوری کی ہوگی”
مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ اخبار میں معذرت نامہ شائع کروائیں گے لیکن دیڑھ سال گزر جانے کے باوجود انہوں نے معذرت نامہ تو شائع نہیں کروایا ہاں خبر ملی کہ انہوں نے” عمرہ” فرما لیا ہےـ
مجھے اس بات کا زیادہ افسوس نہیں ہے کہ مولانا نے میری تحریر اپنے نام سے کیوں شائع کروا لی یا کسی "باریش” حضرت نے میری غزل کا سرقہ کیوں کیا؟مجھے افسوس اس بات کا زیادہ ہے کہ ایسی گری ہوئی حرکتیں انجام دے کر اس طرح کے لوگ پوری کمیونٹی کو بدنام کرتے ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ احباب سب کچھ جانتے بوجھتے بھی "داڑھی ٹوپی” کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے ایسی مذموم حرکت کرنے والے لوگوں کے دفاع میں آگے آ جاتے ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے لوگوں سے برات کا اظہار کیا جائے کہ ان کی وجہ سے پوری کمیونٹی بدنام نہ ہو لیکن ہوتا الٹا ہے،داڑھی ٹوپی کو نشان زد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،مقصد بس اتنا ہے کہ جو لوگ "داڑھی، ٹوپی اور مذہب” کی آڑ میں غیر اخلاقی اور غیر شائستہ حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں "ایکسپوز” کیا جائے تاکہ دوسروں کو اس طرح کی مذموم حرکت کرنے کی ہمت نہ ہوـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)