دہلی صرف بھارت کی راجدھانی نہیں ہے بلکہ اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنیاد پ پوری دنیا کے لئے مرکز توجہ ہے قدیم زمانے میں یہ شہرمتعدد سلطنتوں کا دار الحکومت رہا ہے تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس خوبصورت شہر کو ماضی میں جس طرح متعدد بار شادابی کی فضا میں مسکرانے کا موقع ملاہی اسی طرح متعدد بار ویرانی کا درد بھی جھیلنا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ شہر میں عہد قدیم کی بے شمار یادیں اور یادگاریں موجود ہیں جنہیں دنیابھرسے لوگ دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے آتےہیں عظیم تاریخ رکھنے والے اس شہرکے تذکرے سے شعراء کے کلام میں جان پیداہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر مرزا اسد اللہ خان غالب میر تقی میر غلام ہمدانی مصحفی الطاف حسین حالی اور شیخ ابراہیم ذوق جیسے متعدد قدیم اور بڑے شعرا نے بھی اپنے کلام میں دہلی کا تذکرہ بڑی خوش اسلوبی سے کیاہے لیکن انسان طاقت کے نشے میں چور ہوکر جب حیوانیت پر اترجاتاہے تو وہ انسانیت کو ختم کرنے میں یا کسی حسین شہر کوتاراج کرنے میں کوئی دریغ محسوس نہیں کرتاہے حکمرانوں کی تاریخ میں ایسے متعدد واقعات مل جاتےہیں گذشتہ ہفتہ دہلی میں مورخہ 23 فروری 2020سے مورخہ 25فروری 2020 تک مسلسل جوکچھ ہوا وہ بھی اسی کڑی کاایک حصہ ہے دہلی فساد کی جو تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا کے واسطے سے موصول ہونی ہیں انہیں دیکھنے کی ہمت جٹانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں نے ان اذیت ناک مرحلوں کا سامنا کیا ہے ان پر کیا کچھ گزرا ہوگا درندوں نے بے قصور اور نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی وہ تاریخ رقم کی ہے جوپوری انسانیت کو شرمسار کرنے والی ہے موصولہ اطلاعات کے مطابق اب تک 47 افراد دم توڑ چکےہیں سیکڑوں افراد زخمی ہیں ہوکر ہاسپیٹل میں زیر علاج ہیں جبکہ متعدد افراد لاپتہ ہیں ہیں بڑی تعداد میں دوکانیں اورمکانات آگ کے حوالے کردیئے گئے اورکچھ مساجد بھی جلادی گئیں ہیں یہ سچ ہے ابھی فسادنہیں ہورہاہے لیکن تباہی کے اثار جگہ جگہ صاف دکھائی دیتے ہیں جو ذہنی اذیتوں میں اضافہ کرتے ہیں اور بہترمستقبل کی موہوم امیدوں پر بھی پانی پھیرتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ساری بدتمیزیاں مخصوص نظریات کی بنیاد پر اور مرکزی حکومت کی سرپرستی میں انجام دی گئیں ہیں ورنہ پولس دنگائیوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہوتیں اور دنگائیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا تبادلہ کیوں ہوتا؟ تاہم اس معاملے میں ریاستی حکومت کے مایوس کن روپے نے بھی بہت سے سوالات کھڑے کردئیے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیجریوال کی وہ شبیہ ہے جس کی بنیاد پر انہیں انصاف پسند طبقات بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ ملتے رہے ہیں اور گذشتہ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں بھی بڑی تعداد میں ملے ہیں لیکن کیجریوال کی حالیہ غلط اور غیر منصفانہ پالیسیوں نے واضح کر دیا ہے کہ کیجریوال اور دوسرے سوکالڈ سیکولرپارٹیوں کی منزل بھی وہی ہے جو بی جے پی کی ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ بی جے پی منزل مقصود تک جلد پہونچناچاہتی ہے اور دوسری سیکولرجماعتیں کچھ تاخیر سے تاہم یہ طے ہے کہ منزل سب کی ایک ہی ہے اور وہ ہے نتیجے کی پرواہ کیے بغیر اکثریت کے مزاج کی ہر ممکن رعایت اگر یہ مقصد نہ ہوتا سیکولر ازم کا دم بھرنے والی پارٹیاں متفقہ لائحہ عمل کے تحت نفرت انگیز سیاہ قوانین کی مخالفت بڑے پیمانے پر کرتیں اور بی جے پی کو سی اے اے واپس لیناپڑتا میرا احساس ہے کہ اگر سی اے اے واپس نہیں لیاگیا تو مستقبل میں این آرسی رام مندر سے بڑامدعی بن کرسامنے آئے گا جس کے نتیجے میں نفرت کی سیاست کو مزید قوت حاصل ہوگی اور دیر سویر وہ سب کچھ ہوگا جوہماری نگاہیں دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں ہیں کون نہیں جانتا ہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ کانگریس کو حکومت میں رہنے کا موقع ملا ہے اور کانگریس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بی جے پی نے عروج کی منزل طے کی ہے یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اپنی مسلم مخالف ذہنیت کی ترویج و اشاعت میں ساری دلیلیں کانگریس کی تاریخ سے ہی ملتی ہیں بابری مسجد سے لیکر سی اے اے این پی آر اور این آرسی تک کے معاملات اس کی واضح ترین مثالیں اب سوال یہ ہے کہ کب تک یہ سب چلتارہے گا کیا ہمیں جلد از جلد کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کرناچاہئے اگرہاں تو کیا کرناچاہئے میرے نزدیک اس سوال کا جواب بحث و تمحیص کا موضوع ہے لیکن حد سے زیادہ بحث و تمحیص بھی کسی کام کے وقوع کےلئے مضرت رساں ہی ہے ضرورت اس بات کی ہے موقرتنظیمیں جلد از جلد اس پرغورکرکے کوئی لائحہ عمل طے کریں اور مسلمان اس پر عمل کریں مرکزی سطح پر نہ سہی لیکن ریاستی سطح پر تو ضرور کریں اگر کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا تو فسادات ہوتے رہیں گے جیسا کہ ہوتے رہے ہیں بلکہ مزید بڑے پیمانے پرہونگے مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہورہی ہے کہ سب کچھ لٹ پٹ جانے کے بعد جومرہم رکھے جاتےہیں خواہ وہ جمیعت و جماعت کی طرف سے ہوں یا ریاستی اور مرکزی سرکاروں کی طرف سے ان مرہموں کی حیثیت قتل کے بعدریاکاری کےلئے کئےگئے توبے سے زیادہ کچھ نہیں ہے تاکہ عوامی ہمدردیاں وصول کی جاسکیں اور سب کچھ اسی طرح چلتارہے جیساچلتارہاہے کون نہیں جانتا ہے کہ یہ دنیادارالاسباب ہے جہان وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو کامیابیوں کے اسباب اختیار کرتی ہیں کامیاب بننے کےلئے اسباب اختیار کرنے میں مسلم وغیرمسلم برابر ہیں اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ غیر مسلم اسباب پر ہی بھروسہ کرتےہیں اور انہیں وہی کرناچاہئے جبکہ مسلمان اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور نہ انہیں کرناچاہئے تاہم اسباب اختیار کر نابہرصورت ضروری ہے اب سوال یہ ہوتاہے کہ کیاکیاجائے اور کون سا سبب اختیار کیاجائے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کم ازکم تین کام کرنے ہونگے
1- اپنی صفوں میں اتحاد پیدا پیداکرناہوگا اتحاد قائم کرنے کے معنی یہ ہوئے کہ اپنے مسلک پرعمل کرتے ہوئے دوسرے کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر قدغن لگاناہوگا عموماً ہوتایہی ہے کہ اسٹیج پر اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت پردلائل پیش کئےجاتےہیں لیکن ذاتی مفادات کے تحت نجی مجلسوں میں انتشار کوہوادی جاتی ہے جو نہ صرف نفاق کی علامت ہے بلکہ امت کو کمزور کرنے کی حسب استطاعت ایک کوشش ہے اس کے علاوہ مختلف مسالک کے سرکردہ افراد کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے کاماحول بناناہوگا ملاقاتوں سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور اپنی قوم اور ہم خیال لوگوں کو سمجھاناہوگا کہ ہم کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ایک ہیں اس سلسلے سنگھ کے نظریات سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے جس نے واضح طبقاتی نظام ہونے کے باوجود دلتوں کی اکثریت اپنی طرف موڑ لیاہے یہ الگ بات ہے کہ دلتوں کو ہی اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی ہمارے یہاں تواتحاد کے امکانات بہت زیادہ ہیں پھر ہم یہ کام اپنی انفرادی و اجتماعی سطح پر کیوں نہیں کرسکتے ہیں جب بھی پریشانیاں آئ ہیں تو سب پرآئ ہیں اور اگر آئیں گی تو سب پر آئیں گی تاریخ یہی ہے کہ
ہواچلی تو کوئی نقش معتبر نہ بچا
کوئی دیا کوئی بادل کوئی شجر نہ بچا
کیفی سنبھلی
2- سیاسی استحکام کےلئے ایک نیاسیاسی محاذ بناناہوگا جمہوریت میں سیاسی قوت کی وہی حیثیت ہے جو جسم میں روح کی ہے جس قوم کے پاس سیاسی قوت نہیں ہوتی ہے وہ قوم استحصال کی شکار رہتی ہے اس کے افراد کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں اور اس پر اس پر سیاسی اعتبار سے مضبوط قوم کےلئے ظلم کرناآسان ہوجاتاہے کورٹ کے حکم کے باوجود کپل مشرا انوراگ ٹھاکر اور پردیش ورما جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہونا اور عابد حسین جیسے لوگوں پر کارروائی ہوجانا اس کی بہت تازہ مثالیں ہیں اسلئے ہمیں جلد از جلد سیاسی قوت کی مضبوطی کیلئے قدم بڑھاناہوگا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ سوکالڈ سیکولرپارٹیوں میں شامل ہوکر زیادہ سے زیادہ ٹکٹ حاصل کرلئےجائیں اس لیے کہ اراکین پارلیمان یا اراکین اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ملت کے حق میں بہت زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکاہےاس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے مسلمان بھی پارٹی کی
وفاداری کے اونچے درجے پر فائز ہونے کےلئےناانصافیوں کے خلاف مضبوط آواز بلند کرنےکی ہمت نہیں جٹا سکتے ہیں یا سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر پارٹی انہیں آواز بلند کرنے سے روک دیتی ہے ٹرپل طلاق بل پر حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی مرحوم جیسے شخص نے چندسال قبل اس کی وضاحت بھی کی تھی اسلئےنیاسیاسی محاذبنانے کا مطلب یہ ہے صوبائی سطح پر سیکولر ذہیت کے حامل افراد کوساتھ لیکر ایک سیاسی پارٹی بنانی ہوگی اور دوسری قدیم سیاسی پارٹیوں سے طے شدہ شرائط پر اتحاد کرکے انتخاب حصہ لیناہوگا اس سے سلسلے میں مولانا ابوالمحاس محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کوآئڈیل بنایاجاسکتاہے انہوں نے کانگریس میں ضم ہوکرکام کرنے کےبجائے اپنی سیاسی پارٹی بنانی تھی اور اپنی حکمت عملی سے ایسی تدبیر کی تھی کہ بہار میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کانگریس کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اور معاملہ یہاں تک پہونچا تھق کہ بہار میں ان کی حکومت بن گئ تھی جس کےتحت بیرسٹر یونس وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے یہ سچ ہے کہ مسلمانان ہند مولانا آزاد رحمہ اللہ علیہ کی پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے اگر مولانا ابوالمحاس محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی سیاسی پالیسیوں پر عمل کرتے توآج کاماحول بالکل دوَسراہوتا مولانا کی سیاسی پالیسی پر عمل کیوں نہیں ہوسکا یہ الگ موضوع ہے مجھے معلوم ہے آج کے دور میں مولانا کی سیاسی پالیسی پر عمل کرناپہلے کے بنسبت زیادہ دشوار ہے تاہم اس دشوار گزار راہ کوطے کئے بغیر مستقبل کاتابناک ہونااس سے زیادہ دشوار ہے
3- طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی اداروں کومضنوط بناناہوگا مضبوط بنانے کا مفہومِ یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام اداروں میں ایسے افراد بڑی تعداد میں تیار کرنے ہونگے جو مسلمان بن کر ملک کے اعلی عہدوں خاص طور پر عدلیہ وانتظامیہ سے منسک اعلی عہدوں پر فائز ہوسکیں اس کے لئےعصری کوچنگ یوپی ایس سی،جوڈیشیل یعنی ججوں کے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری ،وکلاء کی تربیت نرسری سےبارہویں تک کے معیاری اسکول جیسے آرایس ایس کی شاکھائوں کے ہیں جن میں ذہن سازی ہوتی ہے اور بڑے ہوکر یہی لوگ ہرجگہ ہوتے ہیں قائم کرنے ہونگے بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ملک کے طول عرض میں پھیلے ہوئے مدارس کے ذمہ داران خانقاہوں کے سجادگان اور بااثر مسلم شخصیات چاہ لیں یہ مشکل آسان ہوسکتاہے کم ازکم ضلعی سطح پر تو ہوہی سکتاہے باطل طاقتیں اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کےلئے جس طرح مصروف عمل ہیں ہم بہتر نظریات کی اشاعت کے لیے اگر اس قدر بھی مصروف عمل نہیں ہوسکتےتو ہمارے زندہ رہنے کا کیافائدہ ہے جب کہ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے
آخری بات یہ ہے کہ وقت نے سب کچھ واضح کردیاہے اسلئے ہمیں پدرم سلطان بود کی نفسیات سے باہر نکل بالکل نئ پلاننگ کے ساتھ مذکورہ تینوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا ذاتی مفادات کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی ہرممکن کوششیں کرنی ہونگی آگ اور پانی کے دریاسے گزرناہوگا اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف گالیاں دیں گی ملت کے نمائندہ افراد کو اس جانب جلدازجلد قدم بڑھانا چاہئے اسلئے کہ اب کچھ بچانہیں خوف کے سائے میں ہماری زندگی ہے اور ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(اقبال)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)