میں نے لکھا تھا کہ دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان کی عوام کی اکثریت مذہب ذات برادری کی بنیاد پر تفریق اور نفرت میں یقین نہیں رکھتی۔
آج ٧٠ میں سے ٦٣ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کی جیت اس کا زندہ ثبوت ہے۔
١- در اصل شاہین باغ میں سڑک جام سے متاثر ہونے والوں کی تعداد چند ہزار میں ہے لاکھوں میں نہیں۔
٢- یہ بھی بہت حد تک صحیح ہے کہ عموماً "سیکولر” ووٹ ہی غیر بی جے پی پارٹیوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود دہلی میں ٢٠١٤ میں 70 میں سے 67 اور اس بار بھی 63 سیٹوں پر کامیابی ایک واضح اعلان ہے کہ دہلی کے ووٹرز باشعور ہیں انہیں ” پاکستان، شاہین باغ، بریانی، گولی مارو، وغیرہ کی حقیقت کی سمجھ ہے۔ جہاں تک بی جے پی کی 3 سے 7 سیٹ کی بات ہے تو جس قدر محنت ملک کے ” طاقتور ترین” لوگوں نے گھر گھر جاکر کی ہے اس کے نتیجے میں بعض لوگوں کا "ان” کی باتوں میں آجانا فطری ہے۔
٣ – ٢٠٠ یونٹ تک بالکل فری بجلی اور فری محلہ کلینک کے علاوہ پانی سڑک اور سیوریج سے مستفید ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ سیاسی طور پر بی جے پی سے وابستہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کا اپنی مقامی ضرورتوں کو ترجیح دینا فطری تقاضا ہے۔
٤- کیجریوال نے مثبت تشہیر اپنایا انہوں نے مودی یا کسی اپوزیشن لیڈر پر ذاتی حملے نہیں کیۓ۔
٥ – کیجریوال نے اپنے قول وفعل کو” ہندو مسلم ” سے الگ رکھا۔ نہ وہ شاہین باغ اور جامعہ کے اسٹیج پر اۓ اور نہ ہی فرقہ واریت کے کسی موضوع پر اپنی تشہیری مہم میں بات کی۔
٦- عام آدمی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں کی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔
٧- دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کے ان نعروں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی کہ :
– شاہین باغ کے لوگ ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی بہن بیٹیوں کی عزت لوٹ لیں گے اور اس کے بعد ان کا قتل کر دیں گے۔ اس وقت مودی اور امت ساہ ان کی حفاظت کے لئے سامنے نہیں آئیں گے اگر ابھی ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔
– شاہین باغ میں دہشت گردی اور انسانی بم بنانے کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ اسے روکنے کے لئے بی جے پی کی جیت ضروری ہے
– شاہین باغ ملک سے الگ ہونے کے دہانے پر ہے۔
– شاہین باغ کا احتجاج اپوزیشن پارٹیوں کے اشارے پر ہو رہا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر جن کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج ہو رہا ہے اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
دراصل دہلی کے ووٹرز کو پچھلے پانچ سالوں میں عام آدمی پارٹی کی نصف حکومت اور بی جے پی کی نصف حکومت (میونسپل کارپوریشن، پولیس لاء اینڈ آرڈر اور لیفٹینٹ گورنر) کی کارکردگی اور عدم کارکردگی کا موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ اور ووٹرز نے پایا کہ ایک ویلفیئر اسٹیٹ رفاہی ریاست کی ذمے داریوں کو عام آدمی پارٹی حکومت نے بہت حد تک نبھایا۔
دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کی دروغ گوئی پر مبنی تشہیر کی حقیقت کو سمجھا۔ جب بی جے پی کے کسی لیڈر نے کہا کہ گھروں میں جو پانی سپلائی ہو رہا ہے وہ پانی کم کیچڑ زیادہ ہے۔ جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہے تو ظاہر ہے لوگوں نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ بجلی بل زیرو یا بہت کم کے خلاف بی جے پی نے الزام لگایا کہ بل ہر ماہ دو سے پانچ ہزار روپے کے آتے ہیں ظاہر ہے ہزاروں لوگ مفت اور سستی بجلی سے مستفید ہوتے ہیں وہ بی جے پی کی باتوں پر کیوں یقین کریں گے۔ اسی طرح اسکول ہسپتال اور سڑکوں کے بارے میں بی جے پی تمام تر کوششوں کے باوجود ووٹرز کو گمراہ نہیں پائی۔
دہلی ریاست میں بی جے پی نے اپنی نصف حکومت کی کسی کارکردگی کا ذکر کسی تشہیری مہم میں نہیں کیا اس لئے کہ کوئی قابل ذکر کام کیا ہی نہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)