نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے آصف اقبال تنہا، نتاشا ناروال اور دیوانگنا کالیتا کو فوراً رہا کرنے کا حکم سنایا جس کے بعد جمعرات کی شام ان تین طلبہ کارکنان کی تہاڑ جیل سے رہائی عمل میں آئی۔جیل سے باہر آنے پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے ممبران اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے آصف اقبال تنہا کا زبردست استقبال کیا۔ آصف اقبال تنہا نے سفید ماسک پہن رکھا تھا جس پر No CAA اور No NRC لکھا ہوا تھا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں جمع ہوئے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے آصف اقبال نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اپنے تمام حمایتی، میرے وکلاء اور وہ تمام لوگ جو دوسروں کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تنہا نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی وہ تمام سیاسی قیدی بھی رہا ہو جائیں گے جنہیں اپنے نظریات اور شناخت کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔آصف اقبال نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ جیل میں کووڈ19 کے مسائل کو حل کرے۔ زیادہ بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے چھوٹی موٹی سزاؤں والے قیدیوں کو رہا کرے اور تمام قیدیوں کو ویکسین لگانے کا انتظام کرے۔نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے آصف اقبال نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی لڑائی عوام میں امتیاز برتنے والے قانون CAA کے خلاف ہے، ناکہ کسی خاص عقیدے کو ماننے والے لوگوں کے خلاف۔ ہمارا پر امن احتجاج جاری رہے گا۔ آصف نے مزید کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ معزز کورٹ نے پرزور انداز میں کہا کہ ہمارا پرامن اور جمہوری احتجاج کا فسادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ اہم اور مثالی ثابت ہوگا۔ عدلیہ پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے آصف اقبال تنہا نے امید کی کہ مقدمات کی سماعت تیز رفتاری سے ہوگی اور ہم سب جلد ہی بری ہو جائیں گے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں موجود طلباء اور کارکنان نے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر قید طلباء کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
No NRC
صفدرا مام قادری
صدر شعبئہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
پارلیامنٹ کے ایوانوں میں وزیرِ اعظمِ ہند نے دلی کے انتخاب سے ٹھیک پہلے کے دو دنوں کا خوب خوب سیاسی استعمال کیا اور اشارے کنایے، رمز و ایما اور علامت و تجرید، نہ جانے اور بھی کتنے سیاسی حربے تھے جن کا استعمال کرکے انھوں نے اپنا پیغام قوم کے سامنے دیا۔ اب نریندر مودی کی حکومت کے چھے برس ہونے کو آئے مگر پتا نہیں ان کے مشیران اور ان کی پشت پر کھڑی ماہرین کی فوج نہ جانے کس علمی غفلت میں پڑی رہتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حملے جس انداز سے کرتے ہیں، انھیں آراستہ کرنے کے لیے ہندستان کی تاریخ اور سیاسی ارتقا کے بہت سارے علمی مواد بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بار بار فاش تاریخی اور تحقیقی غلطیاں کبھی بے علمی سے ہو جاتی ہیں اور کبھی جان بوجھ کر کی جاتی ہیں۔
ایک زمانے میں مشہور جدید شاعر مظہر امام کے ہم نام ایک نو آموز شاعر پیدا ہوگئے اور رسائل و جرائد میں ان کی کچی پکی غزلیں بزرگ شاعر کے نام کی وجہ سے شایع ہونے لگیں۔ اکثر رسائل کے مدیر مظہر امام کا نام دیکھتے اور کلام کی پڑتال کیے بغیر انھیں شایع کردیتے۔ بہت ساری غزلیں اور ان کے اشعار ناموزوں ہوتے اور مظہر امام خجل ہوتے کہ لوگ ان سے ایسی فاش غلطیوں کی توقع نہ کرتے تھے۔ آخر میں مظہر امام نے ایوانِ اردو، نئی دہلی میں اور دوسرے رسائل میں اپنا مکتوب شایع کرایا کہ یہ صاحب اپنی غزل شایع کراتے ہیں اور لوگ باگ مظہر امام سے اس کی تقطیع کراتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہی حال ہے۔ کبھی ۷۵۸۱ء کے انقلاب میں ساورکر کی قربانیوں کو وہ یاد کرتے ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ پارلیامنٹ میں عمر عبداللہ کو جس خبر کی بنیاد پر وہ ملک دشمن قرار دینے کے لیے اتاولے بنے، حقیقت یہ ہے کہ ویسا بیان کہیں تاریخ میں درج ہی نہیں ہوا۔ وزیرِ اعظم کی دلی یونی ورسٹی کی ڈگری کا سوال ہو یا مرکزی کابینہ میں وزیر اور سابق وزیرِ تعلیم اسمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقتوں کا سوال ہو، ہر جگہ ایک بار اعلان ہوتا ہے اور تین بار اصلاح کرنے کے باوجود گناہوں کے پہاڑ سر پر لادتے جانے کی مہم میں نریندر مودی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ دنیا میں یہ سوال ہندستانی عوام سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تمھارے وزیر اعظم یا اقتدار میں مست بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس چار پڑھے لکھے لوگ ایسے نہیں جنھیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خبر جس میں صحافی کا نام ۰۲۴/ لکھا ہوا ہو، اسے حقیقی خبر آخر وزیر اعظم نے کیسے سمجھ لیا اور تصدیق و توثیق کے بغیر پارلیامنٹ میں نہ صرف یہ کہ اعلان کیا بلکہ سابق وزیر اعلا کو بغیر کسی ٹرائل کے جیل مین ڈالنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ آر۔ایس۔ایس۔ کے لوگ بڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور سنجیدگی سے علمی کاموں میں منہمک جماعت ان کی صلاح پر مامور ہیں۔ ممکن ہے کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہو مگر نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت میں جو سیاسی بساط بچھی ہوئی ہے، اس کے ماہرین اصول و ضوابط اور علم و اخلاق کے دائرہئ کار سے الگ تھلگ جینے کے عادی ہیں۔ انھیں اقتدار تو چاہیے اور جس قیمت پر بھی ملے، انھیں اسے حاصل کرنا ہے مگر ملک اور قوم کے حالات کے وہ نگہبان بنیں، زندگی اور سماج کی جواب دہی قبول کریں، اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ فائدہ انھیں اس بات کا حاصل ہے کہ وہ ایک ایسی اپوزیشن کے سامنے کھڑے ہیں جو ناٹک نوٹنکی کے کردار میں تو کامیاب ہوسکتے ہیں مگر پارلیامنٹ یا عوام کی عدالت میں گھسیٹ کر زیر و زبر کرنے کی صلاحیت ان میں ہرگز نہیں، اس لیے سب کام اسی طرح سے ہورہے ہیں اور نریندر مودی کو بھی کچھ خاص بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ہندستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں فیض اور حبیب جالب رہ رہ کر اپنا انقلابی کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ ”میں نہیں مانتا“ اور ”ہم دیکھیں گے“ نظموں پر ہی سیاست داں اور انتظامیہ کے لوگ پریشان تھے مگر نریندر مودی کی تقریر سنتے ہوئے اچانک وقفے میں یو ٹیوب پر حبیب جالب غزل سرا مل گئے اور انھوں نے اپنی پاٹ دار آواز میں عجیب و غریب مطلع پڑھا:
سرِ ممبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
حبیب جالب نے پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں یہ شعر کہا تھا مگر انھیں کیا معلوم ک تین دہائیوں کے بعد ہندستانی اقتدار پر ایک شخص ایسا مسلط ہوگا جس کے لیے یہ شعر اس سے بھی بڑھ کر موزوں ہوگا۔ خدا ایسے البیلے شاعر کو خوش رکھے اور موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کی جزا بھی عطا کرے۔ منموہن سنگھ کے بارے میں حزبِ اختلاف کے لوگ ان کی خاموش طبیعت کے لیے کبھی کبھی ازراہِ مذاق مونی بابا کہتے تھے۔ وہ کم بولتے تھے، لوگ کہتے تھے کہ کانگریس صدر کی طرف سے انھیں آزادانہ طور پر بولنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی بھی یہ الزام عاید کرتی تھی کہ ملک کے بہت سارے سلگتے ہوئے سوالوں پر وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں۔ نریندر مودی کے لیے کون کافر ہے جو یہ بات بول دے کہ وہ کم بولتے ہیں۔ ان کے سامنے سو سوال ہوں تو وہ دو سو جواب دے سکتے ہیں۔ یوں بھی آر۔ایس۔ایس۔ میں ان کا کام پرچارک کا تھا۔ اسے صرف بولنا رہتا ہے۔ نریندر مودیی یا تو دنیا دنیا گھومتے ہیں یا قریہ قریہ بولتے ہیں۔ وہ خود اعلان کرتے ہیں کہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے وہ کام کرتے ہیں۔ مگر اکثر و بیش تر یہ دیکھا گیا کہ پارلیامنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں اور بولنے کی خاص جگہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ الیکشن کی میٹنگ میں بولتے ہیں یا جہاں جہاں سیدھے فائدے اور نقصان کا معاملہ ہوتا ہے،و ہاں وہ تقریر فرماتے ہیں۔ گذشتہ دنوں مہاراشٹر کے انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے اور وہ ممبئی میں دونوں ہاتھوں کو بھانجتے ہوئے کیا کیا نہ کہہ گئے۔ اپنی پارٹی اور اپنی قیادت کا ایسا فاتحانہ گن گان کیا کہ ہفتہ عشرہ میں ساری ہیکڑی نکل گئی اور مہاراشٹر کی سیاست سے باہر ہونا ان کے مقدد کا حصہ ہوا۔
نریندر مودی کی تقریروں کا خلاصہ تیار کیجیے اور اسے امتحان کی کاپی سمجھ کر جانچ کیجیے تو ایک استاد کی حیثیت سے یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ وہ اپنے جوابوں میں عدم معقولیت کے شکار ہیں۔ سوال ’الف‘ کا پوچھا گیا، وہ جواب دیں گے مگر نفسِ مضمون میں ’ب‘ کا اندراج ہوگا۔ امتحان کے پرچوں میں بعض شریر اور غیر ذمہ دار طالب علم سوالوں کو بار بار لکھ کر کاغذ بھر دیتے ہیں یا فلمی گانے اور غیر متعلق باتیں جمع کرکے کاغذ سیاہ کرتے ہیں۔ توقع یہ ہوتی ہے کہ ممتحن غیر سنجیدہ ہوا اور عجلت پسندی کے راستے کا مسافر بن گیا تو بچے کا بیڑا پار۔
نریندر مودی کی تقریروں کا انداز اور جواب در جواب، لطفِ بیان، الزامات کی مرحلہ وار ترتیب کو پیش نظر رکھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ شخص ہر سوال کا ترتیب وار جواب دے رہا ہے۔ پیشے ور تالی بجانے والے اور میزیں تھپتھپانے والے بھی موجود ہوتے ہیں مگر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس شخص نے ایک بھی کسی بنیادی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ ملک میں امن و امان کیسے قائم کروگے۔ سوال یہ تھا کہ بے روزگاری کا علاج کیا ہوگا، دریافت طلب بات یہ تھی کہ منہگائی پر لگام کیسے لگے گی اور پوچھا تو یہ گیا تھا کہ ملک کو صنعت کاروں کے ہاتھوں بیچنے کی مہم پر آپ لگام کب لگائیں گے؟ پوچھا یہ گیا تھا کہ نوٹ بندی سے آپ نے ہندستان کو کیا دیا؟ ملک کی معیشت کو اور کہاں تک آپ گرائیں گے؟ سوالات یہ سب تھے مگر جو جواب آئے وہ کشمیر، پاکستان، شاہین باغ، رام مندر اور اسی انداز کے معاملات تھے۔ فارسی کہاوت پہلے ہی سے مشہور ہے: سوال از آسماں و جواب از ریسماں۔ ایرانیوں نے بھی کہاں جانا تھا کہ یہ کہاوت ایک دن ہندستان کے وزیر اعظم پر ہی زیادہ موزوں بیٹھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کو اپنے کام پر ووٹ نہیں چاہیے۔ دھیرے دھیرے صوبائی حکومتیں سمٹ رہی ہیں۔ مگر ابھی پارلیمنٹ کا اتنخاب تو بہت دور ہے، چار برس میں ہفت اقلیم طے کرلیں گے یا پاتال تک پہنچا دیں گے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے بعد بہ فضلِ تعالیٰ دلی سے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی بے دخل ہورہی ہے۔ صنعت کاروں اور آگے ای۔وی۔ایم۔ کا سہارا ہے مگر ان سب سے بڑھ کر ہندستانی عوام ہی انھیں سچاسبق دیں گے۔ راہل گاندھی کی بے وقوف زبان استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت میں ڈنڈوں کی محدود حیثیت ہوتی ہے، ووٹ سے ہی نریندر مودی کی تقریروں کی سلسلہ بند ہوگا اور ہمیشہ کے لیے اس ظالم حکمراں سے ملک کو نجات ملے گی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے ۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات سننے اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے ؛ مگر گذشتہ ہفتے صوبۂ کرناٹک کے ضلع ٹمکور سے تعلق رکھنے والے محترم مولانامحمد خالد بیگ ندوی صاحب(جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پراسلامی مزاج کے ساتھ عصری اسکولس قائم کرنے اور چلانے کی تحریک سے وابستہ ہیں)بعض مقامی علماء کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لائے اور علماء و دانشوران کے بڑے مجمع سے مختلف مقامات پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ مدلل گفتگوفرمائی،الحمدللہ سارے ہی پروگرام توقع کے مطابق کامیابی سے ہم کنار ہوئے ، بالخصوص این آرسی کے سلسلے میں بہت سے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں تھیں ان کا ازالہ ہوا اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے ؟اس پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ۔زیرنظرتحریر میں مولانا محترم کی گفتگو کو افادۂ عام کے لیے قدرے ترمیم وتفصیل کے ساتھ تحریرکے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہماراملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوارسانحہ پیش آیا،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1924ء میںآرایس ایس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی؛اس لیے تقسیم کے نازک موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے ؛لہذا بھارت اب ہندوراشٹر ہوگا۔ اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسندرہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میںمختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف،مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔
گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے ؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایاگیا اور ایسا کھیل کھیلاگیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے ؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے ، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکارہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبورکیاجاسکے ۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کے ایک ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا اس نے پوری تیاری کے ساتھ گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکرکام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپرگئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولاناابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پرتحقیقات کا آغاز کیا پھرمسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعدصرف دو گھنٹوں کے اندراندر سردار پٹیل کے ذریعہ اس بات کااعلان کروایا گیاکہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کانمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا ۔اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیااور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیاتھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد19 افراد پرمشتمل ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کے لیے نظام العمل ترتیب دیاگیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے ؛ کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایاجاسکتا ہے ،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میںاسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چنداورحقائق بھی ملاحظہ فرمائیں!
آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک:
جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں ،معروف دانشور اوربے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کوعیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے ۔ حال ہی میں اس’پراسرار‘ سمجھی جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سے انگریزی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب شائع ہوکر دادتحسین حاصل کرچکی ہے ۔ یہ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف اہم اور بنیادی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے ہے ۔ درج ذیل اقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے ۔
آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائدشاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ،دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے ۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اورجماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیاہے ۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموںکے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے ، اور ان کے لئے ا سکولوں اور کالجوںسے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میںاپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے ۔
قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سا ل میںآر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہران کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے ۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے ۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیںمشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاںویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پرآر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے ۔
ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے ؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے ، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولرقوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کوفروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔
کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے :
یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جودفعہ مرتب کی گئی ابتداً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی۔دوسری ترمیم 1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔ اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیںبلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے ۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک ؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پررہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تونہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے ‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے ،اور اس سے ملک کی سیکولرحیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیایا کچھ اور بھی؟؟
اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھیںکہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں۔ 1:ولادت ،2:وراثت،3:رجسٹریشن ،4:نیچرلزیشن۔
ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں ،البتہ اخیرکی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یاہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنے کا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانی بھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی ،سات سال بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبے پرجوشہریت اسے دی جائے گی اسے رجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہے یعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپررہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میںسے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں توحکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اوراس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں ؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے ؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائے اور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے ،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھار ت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جاسکے ۔یاد رکھیں !آگے چل کر اگر این آرسی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیںاور فلاں ملک سے قانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئے ہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنے پرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق ومراعات حاصل نہیں ہوں گی۔
ہمارے لیے لائحہ عمل :
ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزیدتیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میںرکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کاخاتمہ ہے ؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کے لیے مسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولے کر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میںبہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے ؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے ۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہی ہو)تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیںغیرمسلموں سے ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی ؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کے لیے تیارہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔اگر ہیں تواپنا نام اور والد کا نام وغیرہ سب میں یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے ؟یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیںاین آرسی کا خوف ہے ،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبرہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکارکردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویزبنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے ۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونے والوں کے لیے کیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے ؟اس حوالے سے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیں!
26؍جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے ،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔یکم جولائی 1987 سے 3؍دسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میںسے کسی ایک کی شہریت ثابت کرنا ضروری ہے ۔پھر3؍ دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کاہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد پر انہیں شہریت دی جائے گی۔ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ضرورمدددآئے گی اورہم کامیاب و کامران ہوں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نتیش کماراپناموقف واضح کریں،جمہوریت پسندوں کےساتھ ہیں یافرقہ پرستوں کےساتھ؟
اےایم یوطلبہ یونین کےسکریٹری حذیفہ عامر رشادی اورشاہنوازبدرقاسمی کاکشن گنج کےمختلف احتجاجی دھرنوں سےخطاب
کشن گنج: گزشتہ شب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے سکریٹری حذیفہ عامر رشادی اورسماجی کارکن وصحافی شاہنوازبدرقاسمی نے جمعیۃ علماء کشن گنج کے ترجمان وسکریٹری مفتی محمد مناظر نعمانی کی رہبری میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف ہورہے مختلف احتجاجی دھرنوں اور پروگراموں میں شرکت کی،حذیفہ عامر رشادی نےکشن گنج کے پواخالی میں دستور ہند بچاؤ کمیٹی کے زیر انتظام منعقد احتجاجی دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کی جمہوریت اور یہاں کے آئین کے خلاف ہے، انہوں نے حکومت وقت کو نشانہ بناکر کہا کہ ملک میں ڈھیروں مسائل ہیں جن پر بات ہونی چاہئے اور جس طرف حکومت کی نظر ہونی چاہئے، بالخصوص ملک اقتصادی پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہاہے اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، یہاں کی چھوٹی بڑی صنعتیں تباہی کے دھانے پر ہیں اور دیگر بے شمار مسائل ہیں جن پر حکومکت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، مگر حکومت چوں کہ ناکارہ اور نکما لوگوں کی ہے اس لئے وہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے یہاں نفرت کی سیاست کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہندوستان وہ مٹی ہے جہاں انیکتا میں ایکتا ہے، جہاں کی مٹی میں پیار اور محبت ہے مگر نفرت کے ان پجاریوں کو یہاں کی محبت اور بھائی چارگی سے بیر ہے اس لئے وہ لڑاؤ اور سیاست کرو پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہم ان کے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے،انہوں نےآخرمیں بہارکےوزیراعلی نتیش کمارسےپوچھاکہ آپ اپناموقف واضح کیجےکہ آپ جمہوریت پسندوں کےساتھ ہیں یافرقہ پرستوں کےساتھ،بہکاوےکی سیاست اب نہیں چلنےوالی ہے۔ان کے قافلے میں شریک صحافی اورسماجی کارکن شاہنوازبدرقاسمی نے بھی ان احتجاجی دھرنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ دہلی،جامعہ ملیہ،جے این یو اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ سے اٹھنے والی آواز اب ملک کے گوشہ گوشہ تک پہنچ چکی ہے، وہ سرکار جو ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کی بات کررہی تھی آپ کے ان ہی احتجاجوں کی بدولت ان کے سر اب بدل گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہمیں ابھی بیٹھنا نہیں ہے جب تک کہ حکومت پورے طور پر اس قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔واضح رہے کہ حذیفہ عامر رشادی اپنے قافلہ کے ساتھ پواخالی، بہادرگنج، سونتھا ہاٹ اور بھٹہ ہاٹ کے احتجاجی دھرنوں اور پروگراموں میں شریک ہوئے، ہر جگہ کے لوگوں نے ان مہمانوں کا زوردار استقبال کیا اور ان کے خطابات سے مستفید ہوئے،اس احتجاجی وفدمیں اےایم یوطلبہ یونین کےسابق صدرابوعفان فاروقی،طلبہ لیڈراحمرفریدی،رخسان عامر،عارف اقبال اورفہداعظمی شامل رہے،حذیفہ عامررشادی نےکشن گنج میں واقع اےایم یوسینٹرکابھیمعائنہ کیااورطلبہ وانتظامیہ سےملاقات کی۔
دیوبند کے شاہین باغ میں بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کی والدہ کانتی والیہ کا خطاب
دیوبند:(ایس۔چودھری)متنازعہ شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کا عیدگاہ میدان دہلی کا شاہین باغ بناہواہے ،یہاں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل خواتین نہایت عزم و حوصلہ کے ساتھ مظاہرہ کررہی ہے، مظاہرہ میں جہاں بڑی تعداد میں خواتین اپنی حاضری درج کرارہی ہیں وہیں متعدد سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب بھی سے خواتین کوحمایت مل رہی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ پورے جذبۂ خلوص کے ساتھ احتجاج کرنےوالی خواتین کی خدمت میں مصروف ہیں، صاحب خیر حضرات بھی ہر طریقہ سے متحدہ خواتین کمیٹی کی اس تحریک کو تعاون کررہے ہیں۔ متحدہ خواتین کمیٹی دیوبند کی جانب سے عیدگاہ میدان میں گزشتہ آٹھ دن سے جاری تحریک پر ضلع انتظامیہ کی گہری نظر ہے اوریہاں بڑی تعداد میں پولیس اور فورس تعینات ہے ،اتنا ہی نہیں بلکہ افسران بھی سلسلہ وارطریقہ عیدگاہ کے میدان کے آس پاس راؤنڈ لیتے ہیں اور اس تحریک کو ختم کرانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں لیکن خواتین ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان کاکہناہے کہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا،اس وقت تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ گزشتہ دیر شام بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کمل والیہ کی والدہ کانتی والیہ یہاں عیدگاہ میدان میں خواتین کے ساتھ پہنچیں، اس دوران انہوں نے غیر معینہ مدت کے لئے جاری خواتین کے دھرنے کو بھیم آرمی کی حمایت کا اعلان کیا۔ کانتی والیہ نے پولیس انتظامیہ پر الزام لگایا کہ انہیں دھرنے میں پہنچنے سے روکاجارہاتھا، جس کی وجہ سے انہیں یہاں آنے میں کافی تاخیر ہوئی۔ انہوں نے اسٹیج سے اعلان کیا کہ اگر باباصاحب کے آئین میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کریگا اس کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر لایا گیا ہے،انہوں نے کہاکہ وہ لوگ جو ذات پات کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے تھے اب وہ مذہبی بنیادوں پرملک کے لوگوں میں نفرت کے بیج بورہے ہیں۔ کانتی والیہ نے کہا کہ تنظیم کی خواتین قانون واپس ہونے تک ہڑتال میں شامل رہیں گی۔ کمیٹی کی صدر آمنہ روشی ، ارم عثمانی ، فریحہ عثمانی اور دیگر خواتین نے وفد کا استقبال کیاـ شب نور،صبا اور صاحبہ نے کہاکہ ملک کی آزادی میں ہر طبقے نے قربانیاں دی ہیں۔ لیکن آج آزادی کے 73 سال بعد وطن عزیز کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی سازشیں چل رہی ہیں جسے کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دیر رات تک خواتین موم بتیاں لیکر احتجاج گاہ تک مارچ کرتی رہیں ، جبکہ نوجوان بھی عید گاہ میدان کے باہر نعرے بازی کرکے دھرنے پر بیٹھی خواتین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
راےچور کرناٹک
دودن قبل شہرِگلستان بنگلور کے قدوس صاحب عیدگاہ میں منعقدہ جشنِ جمہوریہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےمولانا ارشد مدنی صاحب نےموہن بھاگوت جی کے ساتھ ہوئی اپنی گفتگو کا ذکرکرتے ہوئے یہ فرمایا کہ "بھاگوت جی نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں اور آپ میں ایک فرق ہے کہ آپ ہندوستان کے رہنے والے کو ہندی (یائے نسبتی کے ساتھ ) کہتے ہیں اور ہم ہندو (واو نسبتی کے ساتھ )کہتے ہیں ہمارے ہندو کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ مسلمان عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ اپنی اپنی مذہبی شناخت اور اپنے شعائرپر عمل پیر ہونیکے باوجود ہندوہیں "ـ(حاصل ِگفتگو )
پھر مولانا نے فرمایا کہ اگر آپ کے نزدیک اسکا واقعی یہی مطلب ہے اورآپ کی یہ اصطلاح ہے تو ٹھیک ہے اس اعتبار سے ہمیں کوئی ترددنہیں ؟
مولانا کے اس بیان کے بعد مسلم طبقے میں بالخصوص بعض اہل علم حضرات اور دانشوران کو کافی تشویش اور شدید اشکال ہےاور علمی وفکری اعتبار سے اشکال کوئی بری بات بھی نہیں ہےاور نہ ہی نفس اختلاف توہین ومخالفت ہے کیونکہ ہمارے اپنے خیال کے مطابق مذہبی تشخص کا مسٸلہ ہے بڑی سے بڑی شخصیت سے بھی علم وتحقیق کی بنیاد پر آدابِ ِاختلاف کے ساتھ اشکال واختلاف ہوسکتا ہے اور سنجیدہ تنقید کی جاسکتی ہے ۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں البتہ متکلم کے منشاومراد پر غور کیا جانا چاہیےـ
چنانچہ مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب کی بھی ایک تحریر آئی ہے، جس میں انھوں نے مختلف علمی اور سماجی دلاٸل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ لفظِ ہندو اب یا کچھ عرصے سے ایک خاص مذہب اور خاص ثقافت کے لٸے استعمال ہوتا آیا ہے اور عرف میں بھی اس کا یہی مطلب لیا جاتا ہے اور العرف حاکم قاعدے کا بھی حوالہ دیا ۔
چونکہ احقر ایک دن پہلے ہی بلہاری میں مولانا مدنی دامت برکاتہم کے ہمراہ رہا اور مذکورہ مسٸلے پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہا اس لیے
اس سلسلے میں میری پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ اصول سب کے نزیک مسلم ہے کہ (١)اگر متکلم اپنے کلام کی خود وضاحت کردے اور اپنے معنی ومرادکو بیان کردے تو کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے لفظ کے معروف یا اپنے سمجھے ہوئے مفہوم پر مصر رہے (٢) دوسری بات یہ ہے کہ کسی بات کو حکایتِ حال یا نقلِ واقعہ کے طور پر بیان کریں تو وہ متکلم کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ منقول عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہےـ
(٣)تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی مصلحت وحکمت کے پیش نظر کوئی بات کہی جائے تو اسے اسی حکمت ومصلحت کے تناظر میں لیا جاتا ہے، کلی اور مجموعی طور پر نہیں ـ
(چوتھی) بات یہ ہے کہ ایک جملے کا مطلب بالاستیناف وبالاستقلال کچھ سمجھ میں آتاہے اور سیاق وسباق اس کی تردید کردیتا ہے یا وضاحت کردیتا ہے، تو اس کی مکمل بات لی جاتی ہے،صرف درمیان کی بات نہیں
پھر یہ کہ ہرفرد کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور نظریہ دلیل وتحقیق کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس سے اختلاف کرنا آدمی کا اپنا حق ہے کوئی تسلیم کرے کوئی نہ کرے اس پر اصرار بھی غلط ہے،
اب اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ احقر الحمد للہ پرسوں بروز اتوار ٢٦ جنوری کے اجلاس کے بعد کل بروز پیر ٢٧ جنوری کے بلہاری میں منعقدہ اجلاس میں حضرت مولانا کے ساتھ تھا اور قیام گاہ میں بھی اور پھر ہوائی اڈے تک پہنچانے تک حضرت کی معیت حاصل رہی، اس دوران اسی مسٸلے پر مختلف علمااور دانشوران سے مولانا کی فون پر بات ہوتی رہی اور کچھ اشکال ہم خدام نے بھی کیے لہذا میری گفتگو بے بصیرت اور بے تحقیق اور ازخود نہیں بلکہ مولانا کے اپنے خیالات وجوابات ہیں ـ
پہلی بات کا جواب: مولانا کے مطابق یہ ہے کہ ان کے (بھاگوت جی ) کے نزدیک اگر ہندو کا یہ مطلب ہے اور جب وہ خود سے بیان کررہے ہیں کہ ہمارے نزدیک ہندو کا مطلب یہ ہے تو ہم کیوں ان سے کہیں کہ تم غلط کہہ رہے ہو، جب وہ دھرم کی بنیادپر نہیں کہہ رہے ہیں، اگر واقعی ان کےنزدیک ہندو کا مطلب مذہبی ہندو ہے، تو اسے ہم بالکل نہیں مانتے اورجب اسی نظریے کےساتھ وہ بات پیش کریں گے، تو ہم مخالفت کریں گے ہم کیوں مانیں گے ؟ فی الوقت ایک آدمی اپنی طرف سے یہ بات کہہ رہا ہے تو اسے موقع تو دیاجائےکہ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ نہیں کہ قبل ازوقت ہم ہی تردید کردیں گےکہ تم غلط کہتے ہو؟ایک بات تو یہ ہوئی کہ ہندو کا مطلب ان کے نزدیک ہندوستان کا رہنے والا ہے، لہذا ان کے خیال کے مطابق اس حدتک ہمیں اختلاف نہیں ۔
دوسری بات حضرت نے یہ ارشاد فرمائی کہ یہاں مذہب کا کوئی مسٸلہ نہیں ہے کہ ہم ہندو ہوگٸے یامذہبی اعتبار سے ہمیں ہندو کہنا چاہیے، یہ ان کا نظریہ اور ان کی اصطلاح ہے، ہم اپنے مذہب کو کیسے چھوڑسکتے ہیں؟اور مذہب پر کیسے مصالحت کرسکتے ہیں؟اور نہ ہی ہم مذہبی ہندو کہلائے جاسکتے ہیں؟اس نقطے میں ان سے ہمارا اتحاد نہیں ہوگا،
پھر اپنے بیان کے متعلق فرمایا کہ میری پوری گفتگو کا حاصل صرف اور صرف ہندو مسلم قربت ہےاور اسی پس منظر میں یہ بات میں نے کہی ہے؛ اس لیے کہ ستر سالوں سے اسی نفرت کی بنیاد پر ہزاروں فسادات ہوئے ہیں میں چاہتا ہوں اگر آریس یس واقعی اپنا نظریہ بدل کر آتی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے؟
اسی طرح بھاگوت جی کی گفتگو کے متعلق فرمایاایک آدمی اگر دس باتیں کہتا ہے اوردو باتیں ہمارے مطابق کہتا ہے اور آٹھ باتیں ہمارے مخالف کہتا ہے، تو دو میں ہم اتفاق کریں گے اور آٹھ میں مخالفت کریں گے۔
کسی نے کہا کہ بھاگوت جی نے فلاں جگہ سی اے اے کی تائید کی ہے ؟
تو حضرت نے فرمایااگر واقعی ایسا کہا ہے، تو ہم کل ہی اس معاملے میں ان کی مخالفت کریں گے ہم نے ان سے ادھار تھوڑی کھارکھا ہے کہ ہر بات میں انکی تائید کرتے پھریں ہم تو بس ہندو مسلم نفرت کو مٹانا چاہتے ہیں اور دونوں کی قربت کےلٸے کوشاں ہیں اسی لٸے یہ بات کہی ہے کہ ان کے اِس نقطے میں اتفاق ہے اور اُس نقطے میں اختلاف ہےـ
کسی نے کہا کہ بھاگوت جی نے کہیں یکساں سول کوڈ کی تاٸید ہے؟
حضرت نے فرمایا کہ یہ ثابت ہوجائے کہ کہاں کہا ہے اور کب کہاہے،تو ہم پرزور مخالفت کریں گے،اس لٸے کہ یہ ہمارا مذہبی مسٸلہ ہے،ہم شریعت کو چھوڑکر اور اپنا مذہبی تشخص چھوڑکر یکساں سول کوڈ ہرگز نہیں قبول کرسکتےـ
اسی طرح اپنے بنگلور کے خطاب کے دوران ہی فرمایا ہے کہ بی جے پی اگر واقعی آریس یس کے مذکورہ نظریات پر چل رہی ہے تو سی اے اے کا کالا قانون واپس لےـ
اس میں ایک بہت بڑی مصلحت پیش نظر ہے کہ اگر بی جے پی واقعی آریس یس کو اپنا روحانی پیشوا مانتی ہے،تو پھر یہ بات بی جے پی کو ضرور لینا چاہیےـ انہی کی بات ان کے حوالے کی گٸی ہے، اگر حکومت یہ بات نہیں لیتی اس کامطلب یہ ہے کہ بی جے پی آریس ایس کے نظریات پر بھی نہیں چل رہی ہے وللعاقل تکفیہ الاشارة ۔
اس سیاق وسباق سے بھی مولانا کا موقف واضح اور ان کے غلط نظریے کی تائید نہیں ہوتی ہے ۔پھر یہ بات بھی مولانا نے ارشاد فرمائی کہ بھائی میں نے جو کچھ کہا اپنے طور پر سوچ سمجھ کر کہا محض ہندو مسلم اتحاد کے مفاد میں کہا، اگر کسی کو میرے نظریے سے اختلاف ہے، تو ٹھیک ہے اس کو حق ہے، نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، ہمارا یہ خیال اور نظریہ ہے، مگر میرا مقصد تو یہی تھا اوریہی ہے،کوئی کچھ سمجھے اس کی اپنی بات ہے آر ایس ایس اگر اپنا نظریہ بدل کر اتحاد کا ہاتھ بڑھاتی ہے، تو ہمیں کوئی تکلف نہیں اور اگر نظریہ نہیں بدلتی ہے، تو ہمارا پہلے بھی اختلاف تھا،آج بھی رہےگا،مگر انھیں اپنی بات کہنے کے بعد موقع تو دیں، ہم ہی کیوں قبل ازوقت تردید کردیں ؟ جبکہ وہ خود سے نظریہ بدلنے کی بات کہہ رہے ہیں ـ
ان مذکورہ اقتباسات اور گفتگو کے بعد عرض ہے کہ کسی بھی موقف پر کلام کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ خود صاحب کلام سے اس کی وضاحت لی جائے، بالخصوص جبکہ متکلم کوئی بااثر اور صفت مقتدائیت کا حامل ہو،
لہذا جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی صاحب ہوں یا کوئی دوسرے صاحب ہوں ! حضرت کی منشااور سیاق وسباق کے بعد ان کے کلام کا مطلب اور نظریہ یہ ہے اور فقہ ہی کا قاعدہ ہےالاصل فی الکلام الحقیقة اورواذا تعذرت الحقیقة یعدل الی المجازکے تحت آپ غور فرمائیں صاحبِ کلام کا مطلب اس کی حیثیتِ عرفی اور مزاج ومنہاج کے مطابق کلام کا مفہوم لیاجاتا ہے اور جس شرط کے ساتھ حضرت نے لفظِ ہندو کی تائید کی ہے،وہ بھی واضح ہے،آپ غور فرمالیں،باقی آپکو مزید انشراح کی ضرورت ہے،تو آپ ازخود حضرت مولانا سے بات کرلیں اور اطمینان حاصل کرلیں،یہ اور بہتر اور انسب رہےگا اس لٸے کہ ملک کے احوال اور نظریات پر آپ خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں ـ یہ چند سطور حاضر خدمت ہیں،امید کہ سنجیدگی سے غور فرمائیں گےـ
عبدالعزیز
عام طور پر لوگ تشدد کا جواب تشدد سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کیلئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے‘ لیکن اصلاح اور انقلاب کیلئے یہ طرز عمل نہ کبھی مفید ہوا ہے اور نہ کبھی مفید ہوگا۔ اس وقت ملک میں جو مظاہرے اور احتجاج کالے قانون کے خلاف ہورہے ہیں اس کی قیادت عورتوں، طالب علموں اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ گاندھی جی یا جئے پرکاش نرائن کی طرح ملک کو کوئی قائد میسر نہیں ہے۔ موجودہ احتجاج کا سلسلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں کے ایک مظاہرے سے شروع ہوا۔ مظاہرین پر دہلی پولس نے صرف ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ بہت سے طالب علم زخمی ہوئے تھے اور بہت سے لوگوں کو شدت کی چوٹ آئی تھی ان کو علاج کیلئے اسپتال میں داخل کرنا پڑا تھا۔ ایک طالب علم کو اپنی ایک آنکھ سے محروم ہونا پڑا۔ ظالم پولس ظالم حکمراں کے اشارے پر جامعہ کی لائبریری، کینٹین، مسجد یہاں تک کہ غسل خانہ تک میں گھس کر طالب علموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ کئی طالبات جن میں عائشہ رینا اور لدینا فرزانہ آگے آگے تھیں۔ اپنے ایک ساتھی عبداللہ کی جان پولس کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہوئیں۔ چالیس پچاس سے زائد طالب علموں کو پولس نے گرفتار کرلیا۔ یہی گرفتاری پورے ملک میں مظاہرے کا سبب بنی۔ پولس اسٹیشن میں جہاں طلبہ حراست میں لئے گئے تھے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ بہت سماجی کارکن، حقوق انسانی علمبردار ہرش مندر اور یوگیندر یادو جیسے لوگ پولس اسٹیشن طلبہ کی رہائی کیلئے آناً فانا پہنچ گئے۔ مظلوم طلبہ کو پولس کے خلاف شدید مظاہرے کی وجہ سے رہائی دینی پڑی۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج و مظاہرہ کیا تھا تو یوگی پولس نے طلبہ پر ظلم کی حد کردی تھی۔ ہزار سے زائد طلبہ کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ یونیورسٹی کو بند کردینا پڑا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مظاہرے کے بعد پورے ملک میں اکثر یونیورسٹی کے طلبہ نے مظلوم طلبہ کی یکجہتی کیلئے سڑکوں پر اتر آئے۔
کچھ ہی دن کے بعد شاہین باغ میں عورتوں کا دھرنا شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر دھرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں اس دھرنے سے ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوا۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ احتجاج ہورہا ہے۔ دھرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب ملاکر ایک بڑی تحریک ملک میں شروع ہوگئی ہے۔ اس احتجاج یا تحریک سے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بھی بی جے پی کا غلبہ ہے، لیکن بی جے پی رہنمائی اور رہبری سے محروم ہوگئی ہے۔ فلاسفر اور اسکالر غلبے اور رہنمائی کے بارے میں یہ فرق بتاتے ہیں کہ رہنمائی دل و دماغ پر فتحیابی کا نام ہے۔ اور یہ ایسی فتحیابی ہوتی ہے کہ اپوزیشن میں بھی یہ جگہ پیدا کرلیتی ہے۔ غلبے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبادل سے آگے ہے لیکن اس کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور مخالفین آگے ہوجاتے ہیں۔ پروٹیسٹ کی شدت کے باوجود بی جے پی کا غلبہ ابھی بھی مستحکم ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے اس کی رہبری باقی نہیں ہے۔ مئی 2019ء میں بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں اکثریت حاصل ہوئی اس وقت اس کی رہبری سمجھی جاتی تھی اوراس نے اس رہبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’تین طلاق‘ اور غیر قانونی طور پر کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ اور اس کی تقسیم، اجودھیا بھی اسے حاصل ہوا لیکن کورٹ کے ذریعے اور پھر شہریت کے قوانین میں ترمیم۔ بی جے پی کے حکمرانوں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ دستور کو کنارے لگا دیا جائے اور جو ان کا قدیمی نظریہ ہے ہندوؤں کی برتری اور مسلمانوں کی کمتری کو مستحکم کردیا جائے۔ لیکن جب سے پروٹیسٹ یا احتجاج شروع ہوا ہے بی جے پی کا خواب چکناچور ہونا بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گالی گلوج پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ روز ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے مسٹر انوراگ ٹھاکر وزیر حکومت ہند نے جو نعرہ بلند کیا ’ملک کے غداروں کو‘ جواب میں کہا گیا ’مارو ان سالوں کو‘۔ اس رویے اور انداز سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ اب وہ پولرائزیشن کے ذریعے دہلی کے الیکشن کو جیتنا چاہتے ہیں۔ اروند کجریوال کی حکومت نے جو پانچ سال میں عوامی خدمات کا کام کیا ہے جس سے ان کی مقبولیت و محبوبیت عوام میں کافی ہے، اس کی طرف سے لوگوں کا ذہن ہٹاکر ہندو مسلمان کرکے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ شاہین باغ جیسی عظیم تحریک کو بدنام کرنے کی ہر طرح سے بی جے پی کی طرف سے کی گئی۔ اب اس تحریک کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی کے اسپانسر کی بات کہی جارہی ہے۔ کپیل مشرا نے دہلی کے الیکشن کو ہندستان بمقابلہ پاکستان کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ شاہین باغ سے پاکستان کے لوگ داخل ہورہے ہیں۔ ان چیزوں سے بی جے پی کی فطری شکست کا اندازہ ہوتا ہے۔ کجریوال کے مقابلے میں ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مودی کا چہرہ دکھاکر دہلی میں فرقہ پرستی اور نفرت کو پھیلاکر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
شرجیل امام نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے جسے بی جے پی والے ایک ماہ بعد وائرل کر رہے ہیں اور اس پر غداری اور قوم دشمنی کا الزام لگا رہے ہیں۔ شاہین باغ میں شرجیل امام نے نہ تقریر کی اور نہ وہاں وہ گیا۔ شرجیل نے شاہین باغ کے دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل جاری کی تھی جس کی شاہین باغ میں بیٹھی خواتین نے سخت مخالفت کی تھی۔ اس کے باوجود شرجیل امام کے بیان یا تقریر کو شاہین باغ سے جوڑا جارہا ہے۔ شاہین میں صرف مسلمان عورتیں ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم خواتین بھی ہیں۔ بی جے پی کے سوا شاہین باغ کے دھرنے کو ہر پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ اکثر و بیشتر پارٹیوں کے لیڈران نے وہاں جاکر احتجاج پر بیٹھی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ پنجاب سے لگ بھگ ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے کیلئے آئے۔ پنجاب کے سکھوں کی طرف سے وہاں لنگر خانہ بھی جاری ہوا۔ ہریانہ کی چھتیس برادری کی طرف سے لنگر خانہ کھولا گیا ہے۔ دور دراز سے یہاں تک کہ کلکتہ سے وہاں فنکار بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔ کلکتہ کے دو آرٹسٹوں نے لوہے کے ذریعے ہندستان کا بڑا نقشہ بنایا ہے۔ نقشے پر ‘No CAA, No NRC, No NPR’ لکھا ہوا ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔
ملک بھر میں کالے قانون کے خلاف جو احتجاج ہورہا ہے اس کا سروے تو نہیں ہوا ہے لیکن براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر، اسکالر اور سیاسی سائنسداں آسوتوش ورشنی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”احتجاجیوں میں سے ہر چوتھا آدمی ہندو یا غیر مسلم ہوتا ہے۔ اور بغیر کسی شک و شبہ کہ احتجاج بین المذہبی ہے یعنی جس میں سارے مذاہب کے لوگ شامل ہیں“۔ (دی انڈین ایکسپریس، 28/1/2020)
تحریک کو آگے بڑھانا، اس کے مقاصد کا تحفظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہونی چاہئے کہ یہ تحریک ایسی ہو کہ بین المذہبی معلوم ہو۔ سارے مذاہب کی تحریک معلوم ہو۔ دوسری جو چیز یہ ہونی چاہئے کہ بی جے پی یا اس کے کارندے یا لیڈر کتنا بھی مشتعل کرنے کی کوشش کریں احتجاجی کسی طرح بھی مشتعل نہ ہوں اور نہ متزلزل ہوں۔ اور کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے معمولی درجے میں بھی ہنگامہ یا تشدد ہو۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں پر جب حملہ ہوا تھا وہاں کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کے سر پر چوٹ آئی تھی اور وہ لہولہان بھی ہوئی تھی لیکن اس نے کہا تھا کہ ”بی جے پی کے تشدد اور پولس کے ظلم کا مقابلہ ڈیبیٹ (مباحثہ) اور ڈسکشن (بحث) کے ذریعے جواب دیا جائے گا“۔ آئشی گھوش نے یہ نہیں کہا کہ اینٹ کا جواب وہ پتھر سے دیں گی۔ یہی طرز عمل تحریک کیلئے زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ تشدد کا جواب عدم تشدد سے دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن ان کا جواب سنجیدگی اور متانت سے دینے میں کبھی چوکنا نہیں چاہئے۔ ہمارا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ”ہم خاموش ہر گز نہیں رہیں گے، تشدد بالکل نہیں کریں گے“۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
فریدی صدیقی مصباحی،مسقط (عمان)
جس کی تجلیوں سے حرارت لہو میں ہے
جانبازی کا چراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
جن سے ملے ہیں بسمل و اشفاق جیسے لال
اُن ماؤں کا سُراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
میرے گُلوں کو آتا ہے شعلوں سے کھیلنا
ایسا نڈر دماغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہرگز جُھکے گا ظلم کے آگے نہ میرا سر
گرچہ میں داغ داغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
زخموں میں مسکرانے کا فن مجھ سے سیکھیے
ہر غم سے بافراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہے میرے میکشوں میں نشہ ، صبر و عزم کا
خودداری کا اَیاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
بُزدل نہیں ، یہاں پہ ٹھہرتے ہیں سرفروش
بَرتَر زِ حَدِّ زاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
غنچے بھی اے فریدی یہاں کے دلیر ہیں
ہمت سے باغ باغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
قصّہ ستر(۷۰)برسوں کا ہےـ ہندوستان کی جمہوریت جہاں سے شروع ہوئی تھی وہاں سے آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے کئی برسوں پیچھے چلی گئی ہے ۔ آج ہندوستان میں جو طاقتیں راج کررہی ہیں اور جس طرح سے راج کررہی ہیں اسے نہ ہی تو جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے۔ ویسے کہنے کو تو ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی زبان فخر یاگرو سے بیرون ملک ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہوئے تھکتی نہیں ہے۔ اور نہ ہی حکمرانوں کو جمہوری اصولوں کا پابند ۔ ملک میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے اور مضبوط نہ ہونے کی وجوہات سیاسی بھی ہیں اور سماجی معاشی اور تعلیمی وتہذیبی بھی ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ یقیناً سیاسی ہے۔ یہ سیاست ہی ہے ، چاہے کانگریس کی سیاست ہو یا اسی طرح کی دوسری نام کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کی یا پھر ہندوتوادی سیاسی جماعتوں کی ، ان سب کی سیاست نے نہ ملک کو آگے بڑھنے دیا ہے ، نہ ہی شہریوں کو ایک بہتر سماج میں ڈھلنے دیا ہے اور نہ ہی تہذیبی ، تعلیمی اور معاشی سطح پر لوگوں کو مضبوط ہی ہونے دیا ہے۔ نہ ہی کل ان سب نے ملک اور ملک کے لوگوں کی خوشحالی ، امن وامان اور ترقی کے لئے فکر کی اور نہ ہی آج کررہے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، اور بڑا ہی خوش آئند ہے کہ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ’ شاہین باغ‘ پیدا ہوگئے ہیں اور ایک ’ نئی آزادی‘ کے لئے پھر سے تحریک آزادی ہی جتنی بڑی ایک تحریک کھڑی ہوگئی ہے۔ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے طلباء نے مرکز کی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کی حکومت کے، لوگوں کو مذہب کے نام پر شہریت دینے کے ’کالا قانون‘ کے خلاف ایک ایسی زوردار آواز بلند کی جس نے سرکای ایوانوں کو ہلادیا ہے ۔ اور اس آواز میں ’ شاہین باغ‘ کی باہمت خواتین نے اپنی آواز ملاکر قصر شاہی میں ایک زلزلہ پیدا کردیا ۔ آج ان سب کی آواز میں سارا ملک آواز ملا رہا ہے ۔ اور وہ بھی بلاتفریق مذہب ، مسلک ، ملّت ، ذات پات ۔ جے این یو کے سابق طلباء لیڈر کنہیا کمار کے بقول ’’یہ بے ایمانوںسے جنگ ہے ، ایک ایسی جنگ جو ملک میں ایک نئے انقلاب کی علامت ہے ۔‘‘
اب ملک جمہوری اور سیکولر قدروں کے تحفظ کے لئے طلبااور خواتین سے ہی آس لگائے ہوئے ہے ، لیکن کچھ عناصر ایسے ہیں جو پوری طرح سے کوشاں ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی اور بقا کی یہ جو تحریک چلی ہے ، یہ کمزور پڑ جائے ۔ صرف کمزور ہی نہیں یہ تحریک دم توڑ دے ۔ اس میں علماے کرام بھی ہیں ، دانشوران بھی ، سیاسی پارٹیاں بھی ہیں اور سیاست دان بھی ۔ اور ’یرقانی ٹولہ‘ تو ہے ہی ۔ ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک تو علماء کرام نے فرنگیوں کے سامنے جھکنے سے بہتر اپنی جانوں کو قربان کرنا سمجھا تھا، لیکن مجھے حیرت ہے کہ آج علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں ،اپنی خواہشات اور اپنے مفادات کے لئے خود تو ’ دُم دبانے ‘ کو راضی ہے ساتھ ہی مدرسوں کے طلباء کو بھی ’ دُم دبانے‘ یا با الفاظ دیگر ’بزدلی‘کا درس دے رہی ہے !! ایسا نہیں ہے کہ طلباء اور خواتین کی سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مخالف تحریک میں علماء کرام بالکل نہیں آئے ، آئے لیکن وہ علماء کرام جن سے امیدیں تھیں کہ وہ یقیناً اس تحریک میں نوجوانوں کے ہمسفر بنیں گے ، وہ منظر نامے سے اوّل روز سے غائب رہے ، آج بھی غائب ہیں ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ بیربل کی طرح سب اپنی اپنی کھچڑیاں پکارہے ہیں ، کل جماعتی تنظیم کے نام پرمیٹنگوں پر میٹنگیںہورہی ہیں ، وہ مولوی حضرات جو ایک میٹنگ میں نظر نہیں آتے دوسری میں نظر آتے ہیں اور جو دوسری میں نظر آتے ہیں وہ تیسری میٹنگ سے غائب رہتے ہیں ۔ اتحاد واتفاق آج بھی مفقود ہے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مظاہرے کرواتے ہیں ، تجاویز منظور کرواتے ہیں اور فکروتشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں پر ان کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ان طلباء اور خواتین کی، ان بوڑھوں اور بچوں کی ’ حوصلہ افزائی‘ کریں جو سب کی لڑائی لڑرہے ہیں ، صرف اپنی نہیں۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کل اس تحریک کی ’ تاریخ‘ لکھی جائے گی تو مورخ کے پاس علمائے کرام ،مسلم دانشوران ، بڑے بڑے ادیبوں اور شعرا اور ماہرین تعلیم اور پروفیسر صاحبان میں سے ، جن کی بہت بڑی تعداد ہے ، بس گنتی ہی کے نام ہونگے !! ان میں اور نریندر مودی میں ایک بات مشترک ہے ، مودی بھی ملک کا غم لے کر بیرون ملک گھومتے ہیں اور یہ سب بھی قوم کے غم میں بیرون ملک جاکر شاہی مہمان بنتے ہیں۔۔ مجھے حیرت ہے کہ کل کا مورخ جب تحقیق کرے گا کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی تحریک میں مدرسوں کے کتنے طلباء شریک تھے تو یہ جان کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء تو بلاتفریق مذہب سڑکوں پر تھے ، مودی اور شاہ کی حکومت اور ’ کالے قانون‘ کے خلاف نعرے لگارہے تھے پیٹھ پر لاٹھیاں کھارہے تھے مگر طلباء مدارس اپنے کمروں اور اپنی کلاسوں میں ’ قید ‘ تھے ۔ جی ہاں ، یہ تو تحریک میں شامل ہونے کے لئے بیقرار تھے پر ان کے اساتذہ کرام نے ، ان کے دارالعلوموں کے منتظمین اور ذمے داران نے ان پر دروازے بند کردیئے تھے ۔ مانا کہ انہیں ان بچوں کی حفاظت کی فکر تھی ، انہیں پولس سے بالخصوص یوپی کی یوگی کی پولس سے خطرہ تھا، پر کوئی تو راہ ایسی تھی جسے اپناکر مدرسے کے یہ بچے آج کی نوجوان نسل کی تحریک میں اپنی آواز ملاسکتے تھے۔ میں کسی کا نام نہیں لونگا، ان سب کے چہرے ، ان کے نام سے کوئی ایسا نہیں جو واقف نہ ہو ، بس اتنا کہنا ہے کہ انہیں پہچان لو کہ اس ملک سے اگر لوگوں کو نکلنا پڑا تو اس کے ذمے دار یہی ہونگے ، ان کی خاموشی ہی ان کا سب سے بڑا جرم ہوگی ۔ اور اگر لوگوں کو ملک سے نکلنا نہ پڑا تو اس کا سہرا ان کے نہیں ،یقین مانیں کہ یہ سہرا بندھوانے آئیں گے ، طلباء اور ملک بھر کی شاہین باغوں کی شاہنیوں کے سر بندھے گا ۔
طلباء کو اور شاہین باغ۔ ملک بھر کے شاہین باغ ۔ کی خواتین کو ہمارا ، ہم ہندوستانیوں کا سلام ہے ۔۔۔ لیکن یہ سلام اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے نہیں ہے ۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر پر کانگریس کی دوسرکاروں ، پنجاب اور راجستھان نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں قرار دادیں منظور کی ہیں ، کیرالہ میں بھی قرار داد منظور کی گئی ہے ، لیکن ہنوز کئی ریاستوں کی اسمبلیوں میں شہریت قانون کے خلاف قرار داد منظور نہیں ہوسکی ہے ۔ جب تک تمام غیر بی جے پی ریاستوں میں قرار دادیں منظور نہیں ہوتیں کسی بھی سیاسی پارٹی کو سلام نہیں کیا جاسکتا ۔ اور انہیں تو کبھی بھی نہیں جو سی اے اے منظور کرانے میں مودی اور شاہ کی سرکار کے ساتھ تھے ۔ نتیش کمار قابل معافی نہیں ہیں اور مایاوتی بھی قابل معافی نہیں ہیں ۔ یہ کیسے خود کو اس ملک ، اس ملک کے لوگوں ، اقلیتوں ، پچھڑوں اور دلتوں کا نیتا قرار دے سکتے ہیں کہ سی اے اے تو ان سب کے ہی خلاف ہے !! ملک آزاد تو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ میں ہوا تھا لیکن یہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کا دن تھا جب ’آئین ہند‘ کو تنفیذ کیا گیا تھا ۔ یہ دن اس لئے ہندوستانیوں کے لئے اہم ترین ہے کہ اسی روز انگریزوں کے بنائے ہوئے ’ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵‘ کی جگہ ہم سب کا اپنا آئین نافذ ہوا تھا ، وہ آئین جس نے ’ ہندوراشٹر‘ کے نظریے کو مسترد کرکے ایک ’ جمہوری نظام‘ کو ہم سب کی زندگیوں کا حصہ بنایا تھا۔ آئین جو مذہب ، تعلیم ، سماج ، تہذیب وثقافت ہر طرح سے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے بلکہ امن وامان سے اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ یہ آزادی آج خطرے میں ہے اور نتیش کمار ، مایاوتی ، رام ولاس پاسوان جیسوں سے اسے کہیں زیادہ خطرہ ہے ۔ ’یرقانی ٹولہ‘ تو ہے ہی آئین مخالف ، اسے تو اس ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ میں ڈھالنا ہے اور یہ جو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کا ہوا چھوڑا گیا ہے اسی مقصد کے لئے ہے ۔۔۔ لیکن ایک امید کی کرن طلباء اور خواتین نے جلائی ہے ، اس کرن کو جلتے رہنا چاہیئے، ہم سب کو چاہیئے کہ اسے بجھنے نہ دیں۔
کچھ ذکر مہاراشٹر کا کرتے چلیں ۔ مہاراشٹر نے اس بار اسمبلی الیکشن کے بعد جو دیکھا وہ جمہوری ہندوستان کا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ایک فرقہ پرست پارٹی ، بی جے پی کو سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود حکومت حاصل کرنے نہیں دیا۔ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کانگریس اور این سی پی سے ہاتھ ملاکر ’ مہاوکاس اگھاڑی‘ کا قیام کیا اور بی جے پی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ مانا کہ شیوسینا کی سرشت میں ’ فرقہ پرستی ‘ ہے پر آج اگر یہ بی جے پی کے خلاف کھڑی ہوئی ہے تو اسے مضبوط کرنے کی کوشش ضروری ہے تاکہ یہ اپنی سرشت کو بدل سکے ۔ بی جے پی اس کے لئے تیار نہیں ہے ، اس نے اب ’ مہاراشٹر نونرمان سینا‘ (منسے)کے سربراہ راج ٹھاکرے کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ابھی یہ تعلق جگ ظاہر نہیں ہے لیکن جس طرح سے راج ٹھاکرے نے اپنی پارٹی کا رخ ’ ہندوتو‘ کی طرف موڑا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ
کوئی معشوق ہے پردۂ زنگاری میں
اور یہ معشوق بی جے پی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ راج ٹھاکرے اب این آرسی کے حامی بن گئے ہیں ، انہوں نے اپنے صاحبزادے امیت ٹھاکرے کو ’ہندوتو‘ کی حفاظت کا عہد دلایا ہے ، وہ ’ بنگلہ دیشیوں‘ کے خلاف تحریک شروع کررہے ہیں ۔ یعنی مہاراشٹر میں سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں ایک ہوا بنانے کی تیاری ہے ، اس کا ایک مقصد لوگوں کو ’ بالخصوص مسلمانوں کو ‘ ڈرانا ور دھمکانا اور بی جے پی کے نظریات کو مضبوط کرنا ہے ۔ لہٰذا یہاں بھی ایک بہت بڑی تحریک کی ضرورت پڑے گی ، ایسی تحریک جو سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کی آواز کو دباسکے۔ تو آئیں ہم سب آج ’ یوم جمہوریہ‘ کے روز یہ عہد کریں کہ ’’ہم اس ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کی بقا اور حفاظت کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ۔‘‘
ڈاکٹرخالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025
یہ وہ صنفِ نازک ہے، جس کے بہت ناز و نخرے اٹھائے گئے ہیں
زمانے سے اس کی نزاکت، لطافت کی کتنی عجب داستانیں کہی جارہی ہیں
بھلا کوئی دیوان ایسا کہاں ہے کہ اس کے سراپا کی تمثیل و تشبیہ جس میں نہیں ہو
یہ سب نقش و تصویر، سب رقص و آواز اسی پیکرِ نازک اندام کے ترجماں ہیں
مگر اب وہ لیلیٰ ، وہ شیریں، وہ سلمیٰ، وہ عذریٰ نہیں ہے
وہ شاہین باغی ہے، شاہین باغی
کہ جس کی صدائے بغاوت نے ایوانِ فسطائیت میں قیامت کا لرزہ بپا کردیا ہے
وہ رضیہ ہے، جھانسی کی رانی ہے، شمشیر و خنجر ہی زیور ہے جس کا
وہ درگا کی اوتار ہے، سر کچلتی ہے جو تانا شاہی کے اس راکچھس کا
یہ وہ شیرنی ہے کہ جس کی دہاڑوں سے فسطائیوں کا کلیجہ دہلنے لگا ہے
سنو ہٹلرو، تانا شاہو!
کہ نرگس بھی آئینہ خانے سبھی توڑ کر، حُرّیت کا علم تھامے میدان میں آچکی ہے
کہ اب اس نے طے کرلیا ہے
جنازہ نکالے گی وہ آمریت کا اک دن
منوواد کودفن کرکے ہی دم لے گی اب وہ
سو اے ماہرینِ لغت! آپ سے معذرت، میں اسے آج سے صنفِ نازک نہیں، صنفِ آہن کہوں گا.
نئی دہلی:انگریزی نیوز ویب سائٹ”مکتوب میڈیاڈاٹ کام“کے مطابق صحافی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم شاہین عبداللہ کو آج علی گڑھ میں یوپی پولیس نے ڈٹین کرلیاہے اورانہیں علی گڑھ کے نزدیک اپرکوٹ پولیس اسٹیشن لے جایاگیاہے۔وہ ’’مکتوب میڈیا‘‘ کے لیے علی گڑھ کے شاہ جمال علاقے میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے خواتین کے احتجاج کی رپورٹنگ کے لیے گئے تھے۔قابل ذکرہے کہ شاہین عبداللہ کی تصویر 15دسمبر2019کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی کے دوران وائرل ہوئی تھی،انہیں ان کی ساتھی طالبات عائشہ رینا،چندایادو اور لدیدہ فرزانہ پولیس سے بچاتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔بعدمیں یہی تصویر ملکی و عالمی سطح پرشہریت ترمیمی قانون و این آرسی کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط علامت کے طورپر ابھرکرسامنے آئی۔ابھی دودن قبل بھی شاہین عبداللہ کاایک ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوا تھا،جس میں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دہلی میٹرومیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی نعرے لگارہے تھے۔
چند دنوں قبل ماحولیاتی تحفظ کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ایماء پرریاست بہار میں انسانی زنجیر بنائ گئ تھی لیکن وہ ناکام رہی اس کی بنیادی وجہ نتیش کمار کی دوغلی پالیسی تھی جس کے تحت انہوں شہریت ترمیمی بل کی حمایت کی تھی اور این پی آر کے نفاذ کے لئے مکمل زمین ہموار کی تھی ریاست کے لوگوں کی ناراضگی جائز اور توقع کے مطابق تھی چنانچہ عوام اس انسانی زنجیر میں بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد نے سی اے اے این پی آر اور مجوزہ این آرسی کے خلاف صدائیں بلندکیں دیکھنےوالوں نے دیکھاکہ لوگ سروں پرمذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف پٹیاں باندھ کر اور ہاتھوں میں بینرلیکر انسانی زنجیر میں کھڑے ہیں جس کامطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ ریاست کی عوام ترجیحی بنیاد پرسیاہ قوانین پرقدغن لگانے کامطالبہ کررہی ہیں اب خبر یہ آرہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف جاری جدجہد میں انسانی زنجیرکوشامل کیاہے جسے امارت شرعیہ کی تائید و حمایت حاصل ہے امارت شرعیہ نے اس کا اعلان مورخہ 22 جنوری 2020کو منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں کیاگیا یہی وجہ ہے کہ اور امارت کے کارکنان بھی انسانی زنجیر کوکامیاب بنانے کےلئے تگ و دو کررہے ہیں
*یہ انسانی زنجیر مورخہ25جنوری 2020روز سنیچر کو بنائ جائے گی اور دوبجے سے تین بجے تک لوگ شامل زنجیر رہیں نماز کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے وقت کا تعین کیا گیاہے*
وقت کی نزاکتوں اور حالات کی سنگینیوں سےلوگ واقف ہیں اسلئے یہ بتانے اور سمجھانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ لوگ کیوں شامل زنجیر ہوں تاہم اتنی سی بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ وقت ماضی کی خامیوں کے تلاش کرنے اور خوبیوں پراترانے کا موقع نہیں دیناچاہتاہے بلکہ ہم سے یہ تقاضہ کرتاہے کہ ہم جوکچھ کرسکتےہیں ملک وملت کی بہتری کےلئے کریں جولوگ کچھ بھی اچھاکررہےہیں ان کاساتھ دیں اور متفقہ طور پر خوف کے لباس کواتار پھینکیں ورنہ آنے والے دن بہت تباہ کن ہوسکتےہیں خدا ملک و ملت کی حفاظت فرمائے….!
جامعہ احتجاج کا۳۳؍ واں دن، وارث پٹھان سمیت متعددسیاسی وسماجی رہنماؤں کاخطاب
نئی دہلی۔ ۱۴؍جنوری: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، سی اے اے کے خلاف طلبائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا آج ۳۳؍واں دن تھا۔ حسب سابق آج بھی بڑی تعداد میں طلبا و اطراف کے عوام نے احتجاج میں شرکت کی اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے لگائے۔ آج کےاس احتجاج میں مظاہرین سے رام موہن رائے (جنرل سکریٹری گاندھی گلوبل فیملی ، چیف ایڈیٹر نتیہ نوتن میگزین، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)وارث پٹھان (ترجمان مجلس اتحادالمسلمین) ، ناصر سرپنج (سرپنج بجنور)، جسٹس کولسے پاٹل، مدثر حیات (سابق جنرل سکریٹری اے ایم یو اولڈ بوائز ) ، صدف جعفر (سماجی کارکن)، پروفیسر بھوپیندر چودھری ، شہزاد احمد، ڈاکٹر دیو کمار (دہلی یونیورسٹی)، انگھش مان چودھری (نئی دہلی) نے خطاب کیا۔ تمام مقررین نے طلبہ کے حوصلوں کی تعریف کی اور تحریک شروع کرنے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کو ملک تقسیم کرنے والا قانون قرار دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس کولسے پاٹل نے کہا کہ موجودہ حالت میں ہندوستان کو بچانا سب سے اہم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نریندر مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے دلال ہیں اور آر ایس ایس ملک کا دشمن ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مسلمان خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت غریبوں اور مظلوموں کی دشمن ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں اور ہمارا خون بھی ایک جیسا ہے، اگر حکومت این آر سی لاناچاہتی ہے تو اسے ڈی این اے سے ہماری شناخت کرنی ہوگی۔ ہم کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہیں، میں ہندووں سے کہناچاہتا ہوں کہ ہم ان کے نہیں بی جے پی اور آیس ایس کےمخالف ہیں، انہوں نے کہاکہ حکومت اس ملک کو تاجروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناناچاہتی ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان وبائیکلہ حلقہ اسمبلی کے سابق ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہا کہ پولس جب کیمپس میں ہوتی ہے تو کچھ غنڈے یونیورسٹی میں گھس جاتے ہیں، اورمودی زندہ باد، گولی مارو سالوں کو جیسے نعرے لگاتے ہیں، اور پولس خاموش تماشائی رہتی ہے اس سے پولس کا دوہرہ رویہ اجاگر ہوتا ہے۔ سی اے اے کے تعلق سے انہو ں نے کہاکہ میں اپنے کاغذ نہیں دکھاؤں مجھے دیکھنا ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم سی اے اے کو سمجھ نہیں رہے ہیں، حکومت کو یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو اس کے حقوق سے محروم رکھے۔ اخیر میں انہوں نے آئین کی تجاویز بھی پڑھیں۔ سماجی کارکن انشومان چودھری نے کہاکہ آسام کے ڈٹینشن سینٹروں کے حالات خوفناک ہیں، جہاں اپنی شہریت ثابت نہ کرسکنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد نے خودکشی کرلی ہے، انہو ں نے کہاکہ این آر سی، این پی آر، سی اے اے آسام کے لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹا ہے اگر پورے ملک میں یہ نافذ ہوا تو عوام کےلیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے رکن بھوپیندر چودھری نے کہاکہ میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جو طویل وقفے سے شاہین باغ میں ڈٹی ہوئی ہیں، انہوں نے حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا چاہتی ہے، انہوں نے کہاکہ حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر چل کر ملک میں ہاہا کار مچا رہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہم کسی بھی حال میں اپنے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف لکھنؤ میں جیل جاچکی صدف جعفر نے کہاکہ یہاں موجود ہرلڑکا، ہر لڑکی تاریخ بنانے کے لیے ہے، خود کو پولس حراست میں لیے جانے پر انہو ںنے کہاکہ میرا احتجاج قانون کے خلاف نہیں تھا، بلکہ یہ متاثرین کے حقوق کےلیے تھا۔ انہوں نے حکومت کو للکارتے ہوئے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، کیوں کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ڈٹینشن سینٹر کی دیواریں کتنی مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گلوبل فیملی کے جنرل سکریٹری رام موہن رائے نے کہاکہ آزادی کا معنی ہوتا ہے مساوات لیکن یہ حکومت تقسیم کی سیاست کررہی ہے انہوں نے مزید کہاکہ حکومت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سے، خواتین سے ان کے حقوق سلب کرناچاہتی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۵؍ دسمبر کو جامعہ کے طلبا کو کیمپس میں گھس کر دہلی پولس نے خوب مارا پیٹا تھا اس کے ایک ماہ مکمل ہونے پر کل بڑی تعداد میں طلبانے گیٹ نمبر ۷؍ پر اکٹھا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ طلبا نے چلو جامعہ‘ کے نام سے تحریک شروع کی ہے جس میں بڑی تعداد میں طلبا وعوام شریک ہوں گے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ ہماری آوازحکمرانوں کو سننی پڑے گی، جامعہ ملیہ کی آواز ہر یونیورسٹی کی آواز ہے۔
شاداب ظفر
جیسے جیسے "این آر سی اور سی اے اے” پر غیر معینہ میعاد کے احتجاجات زور پکڑتے جارہے ہیں، ویسے ویسے ان احتجاجات کو پٹری سے اتارنے کی ہر ممکن کوشش قوم و ملت کے ہی کچھ بہی خواہان کی طرف سے کی جارہی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود مسلم نوجوانوں کا شعور الحمدللہ اس وقت اتنا بلند ہے کہ ان بد طینت لوگوں کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
احتجاجات کے تحفظ اور ان کو ہائی جیک ہونے سے بچانے کے لئے بہت سے احباب نے مشورے اور آرا دی ہیں اور دے رہے ہیں-تمام کے مشورے اور آرا ہمارے لئے قابلِ احترام اور لائق غور ہیں!
لیکن لکھنے کے لئے فقط شاہین باغ اور جامعہ ہی نہیں ہے؛بلکہ مزید کچھ ظلم اور ناانصافیاں آپ کو آواز دے رہی ہیں،جن سے ہم نے ان احتجاجات کے تحفظ کی آڑ میں قطعی طور پر پہلو تہی اختیار کرلی ہے!
"سی اے اے این آر سی” کے تعلق سے اٹھے ہوئے اس طوفان کو ہم بھول چکے ہیں، جس کو ختم کرنے اور اس کے نام پر ظلم کرنے کاخصوصاًیوپی حکومت اعلان کرچکی ہے،جس کو لوگ شاہین باغ، جامعہ اور ان جیسے احتجاجات کے شور میں گم کر چکے ہیں۔
تمام پڑھنے لکھنے اور تجزیہ و بیان دینے والوں کی ترجیحات کا مرکز دہلی بن چکا ہے؛ لیکن قوم کے اور اترپردیش کے نوجوانوں کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے!
ہمیں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ہم مجموعی طور پر اترپردیش کے حالات سے بےنیاز اور وہاں کے مسلمانوں کی جانی قربانیوں سے غافل ہوچکے ہیں۔
اس کے لئے لکھنا اور قلم اٹھانا بند کرچکے ہیں، اترپردیش کے اضلاع میں احتجاجات کے دس پندرہ دن بعد تک بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری زور وشور سےجاری ہے۔
جو لوگ احتجاجات کے فوراً بعد قربانی دینے والوں کے گھر والوں سے ملنے گئے تھے اور بڑے بڑے وعدے کر کے آئے تھے،”جیل بھرو تحریک” کی شکل میں حکومت کو للکارنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے،وہ تمام کے تمام چپی سادھ کرمنہ لپیٹ کر بیٹھ چکے ہیں۔کہاں گئے وہ وعدے کرنے والے؟
کہاں گئے نوجوانوں کو گرفتار نہ کرنے کی کال دینے والے؟کہاں گئے وہ لوگ، جو مرنے والوں کے گھر بھی پہنچےتھے اوران پرہونے والےظلم کا ان کو پتہ بھی ہے۔ظالم کو ظالم کہنے کے بجائے وہ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔اب بھی محض شک کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں ۔ایک ایک گاؤں سے دس بیس پچاس بےقصوروں کو اٹھایا جارہا ہے۔لیکن ہم لوگ شاہین باغ اور جامعہ کے تحفظ کےغم میں نڈھال ہورہے ہیں۔فقط ضرورت وہیں نہیں ہے بلکہ اترپردیش کے اضلاع مظفر نگر، میرٹھ، بجنور وغیرہ میں ہورہی ناانصافی پر بھی اپنے قلم کو حرکت دیجے۔ ورنہ آپ کا یہ قلم بےمروت ہے، آپ کے یہ دعوے کھوکھلےہیں، آپ کے یہ معاملات ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، آپ کی بڑی سے بڑی کانفرنس بےفائدہ ہے اور آپ کی زبان و قیادت بیکار ہے!
انڈین ایکسپریس کے مطابق جموں وکشمیر کے تعلق سے دائر کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی رٹ پر گزشتہ 10 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت کو دو ہدایات جاری کیں۔
1- انٹرنیٹ پر عاید پابندی فوراً اٹھائی جائے ۔
2- دفعہ 144 یا کوئی اور پابندی نافذ کرتے وقت اس کا سبب بھی عام کیا جائے ۔
جسٹس ایس وی رمانا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے کہا کہ Freedom of speech کے تحت انٹر نیٹ بھی دستور کی دفعہ 19(1) A اور 19(1) G کی رو سے شہریوں کا محفوظ حق ہے۔۔۔ اس پر غیر متعینہ مدت تک پابندی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
دفعہ 144 کے بار بار نفاذ پر بھی عدلیہ نے ناگواری اور عدم اطمینان کا اظہار کیا اور جموں وکشمیر کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ جب دفعہ 144 یا اس طرح کی دوسری پابندیاں نافذ کرتے وقت عوامی طور پر اس کے ٹھوس اسباب بھی بیان کئے جائیں’ تاکہ متاثر لوگ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکیں۔
سپریم کورٹ کی ان دو واضح ہدایات سے یہ تو واضح ہوگیا کہ مرکزی حکومت نے دستور کی دفعہ 19 کی دو شقوں کی کھلی خلاف ورزی کی اور شہریوں کے حقوق غصب کئے۔ اس کے علاوہ دفعہ 144 کا بے جا’ بارہا اور غیر آئینی استعمال کیا اور پابندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے شہریوں کے حق پر بھی ڈاکہ ڈالا۔
سوال یہ ہے کہ 160 دنوں تک حکومت نے شہریوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا اس کی تلافی کیسے ہوگی۔ سوال یہ بھی ہے کہ خود عدالت نے اتنے اہم معاملہ کی سماعت میں اتنا وقت کیوں لگادیا۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ گزشتہ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پُرامن طلبہ پر پولیس نے جو زیادتیاں کی تھیں ان کے خلاف سپریم کورٹ نے 16 دسمبر کو دائر رٹ پر سماعت نہیں کی۔ دو دن بعد جب مختصر سماعت کی تو یہ کہہ کر معاملہ کو موخر کردیا کہ پہلے تشدد تھمے تب سماعت ہوگی۔
تشدد کون کر رہا تھا؟ تشدد تو پولیس کر رہی تھی۔حکومت اسے روک نہیں رہی تھی۔اب سپریم کورٹ کے سوا کون تھا جو پولیس کو روک سکتا تھا۔ لیکن جب کچھ دنوں کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت کی تو یہ کہہ کر معاملہ خارج کردیا کہ پہلے ہائی کورٹ جائیے۔ ہائی کورٹ پہنچے تو وہاں بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ وہاں 4 فروری کی تاریخ دیدی گئی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عارضہ قلب یاخطرناک ایکسیڈنٹ کے کسی serious مریض کا خون بہہ رہا ہو اور اسے فوری طور پر علاج اور آپریشن کی ضرورت ہو لیکن اسے ایک مہینہ کے بعد کی تاریخ دیدی جائے ۔۔
سپریم کورٹ نے اگر جموں وکشمیر اور جامعہ ملیہ کے معاملات میں سرسری ہی سہی فوری سماعت کرکے عارضی احکامات جاری کردیے ہوتے تو کشمیریوں پر 160 دن تک ظلم جاری نہ رہتا’ جامعہ کے طلبہ پر مزید ظلم نہ ہوتا اور جے این یو کا تشدد شاید وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔
دوسری خبر یہ ہے کہ دہلی میں سیماپوری کے علاقے میں مظاہرین پر جو تشدد ہواتھا اور اس میں جو لوگ گرفتار ہوئے تھے’ ان میں سے کچھ کی ضمانت ہوگئی ہے۔ اب ایڈیشنل جج صاحب نے زرِ ضمانت کے علاوہ ضمانت کی جو اہم شرط رکھی ہے وہ یہ ہے کہ ایک متعینہ دن اور وقت پر ضمانت پر رہا ہونے والے لوگ تھانہ سیما پوری میں حاضری دیں گے اور SHO صاحب CCA کے تعلق سے پائے جانے والے ان کے شکوک وشبہات پر انہیں لیکچر دیں گے۔
حیرت ہے کہ پولیس کب سے سیاسی مقرر کا کام انجام دینے لگی۔ یہ کام پولیس کا ہے ہی نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کام عدالت کا بھی نہیں ہے کہ وہ اس شرط پر ضمانت دے کہ ملزمین تھانے جاکر تھانے دار صاحب سے سی اے اے کے تعلق سے اپنے شکوک وشبہات دور کریں ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے عدالت کانگریسی نظریات رکھنے والوں کو اس پر مجبور کرے کہ وہ بی جے پی کے نظریات قبول کریں ۔ یا مہاتما گاندھی کے پیروکار ہٹلر کی پیروی کریں ۔
تیسری خبر گجرات سے ہے جہاں کے اسمبلی اسپیکر نے ایک مسلم ممبر اسمبلی کو یہ کہہ کر بالجبر بٹھادیا کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔ گجرات اسمبلی میں CAA پر مودی حکومت کا ساتھ دینے کے سلسلے میں بحث ہورہی تھی۔اسی دوران کانگریس کے ممبر اسمبلی عمران بھائی نے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے مداخلت کی۔لیکن اسمبلی اسپیکر راجندر ترویدی نے انہیں بالجبر روکتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔اس پر جب اسمبلی کے کانگریس لیڈر نے اعتراض کیا تو اسپیکر نے یہ جملہ دوبارہ ادا کیا۔ بی جے پی کے ہاؤس لیڈر نے اسپیکر کی حمایت کی اور کہا کہ اسپیکر نے کچھ غلط نہیں کہا۔
اسپیکر کا عہدہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ وہ کسی پارٹی کا نہیں ہوتا۔ بلکہ اپوزیشن کے حقوق کا تحفظ اس کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جس ملک میں حکمرانوں کی نیت میں فتور آجائے اور جہاں متاثرین کے تئیں عدالتوں کا رویہ سرد ہوجائے وہاں اگر اسمبلی کا اسپیکر مسلم ممبر اسمبلی کو بالواسطہ طور پر پاکستانی قرار دیدے تو اس میں اسپیکر کا کیا قصور ہے۔ یہ تو اس کا احسان ہے کہ یہ ماننے کے باوجود کہ فلاں ممبر اسمبلی پاکستان نواز ہے’ اسے اسمبلی میں بیٹھنے دے رہا ہے۔ باہر نہیں پھینکوا رہا ہے۔
پتہ نہیں یہ نیتا اپنے آپ کو ڈیڑھ سیانا کیوں سمجھتے ہیں ـ پورا ملک اس وقت سی اےاے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف برسر احتجاج ہے، کچھ ریاستوں نے اپنے یہاں سی اےاے اور این آرسی نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے( اس انکار کی قانونی حیثیت ابھی واضح نہیں ہوسکی ہےـ) مگر این پی آر کے متعلق ابھی ساری مخالف ریاستیں خاموش ہیں، جبکہ سب جانتے ہیں کہ موجودہ این پی آر کے پیٹ میں این آرسی چھپا ہوا ہے ـ
مگر بہار والے نیتش بابو سب سے اسمارٹ ثابت ہورہے ہیں ـ انھوں نے مردم شماری کے نام پر این پی آر کا کام شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے ـ جبکہ قانون کی معمولی فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مردم شماری ہردس سال کے بعد پارلیمنٹ کے بنائے سنسِس ایکٹ 1948 کے تحت ہوتی ہے، وہ دس سال 2021 میں پورے ہوں گے نیز این پی آر سیٹیزن شپ ایکٹ 2003 کے تحت ہونا ہے ـ نیتش بابو نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے دونوں ایکٹ کو خلط ملط کردیا ہے اور ایک سال پہلے ہی مئی 2020 سے دونوں کا کام شروع کردینے کا اعلان کیا ہے ـ
واضح ہو کہ حکومتِ بہار نے 3 جنوری 2020کو ایک گزٹ جاری کیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ 20 مئی 2020 سے 28 جون 2020تک این پی آر اور مردم شماری کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا ـ اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی رائے کا انتظار ہے کہ کوئی حکومت دو الگ الگ ایکٹ کے تحت بنے ہوئے قوانین کے لئے ایک ساتھ گزٹ کیسے جاری کرسکتی ہے، جبکہ ابھی ایک قانون پر عمل درآمد کا وقت آیا ہی نہیں ہے؟
تاہم نتیش بابو ہمیشہ سے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کے عادی رہے ہیں، اس بار بھی وہ چاہتے ہیں کہ مودی، شاہ سے اُن کی یاری بھی بنی رہے اور حسب سابق مسلمان بھی بے وقوف بنتے رہیں ـ
توجناب نیتش کمار صاحب اب بہت ہوچکا، اس بار دوناؤ کی سواری کرنے والے کا جو حشر ہوسکتا ہے، وہی عبرتناک حشر آپ کا انتظار کررہا ہے ـ ہم بے وقوف ضرور ہیں مگر اتنے بھی نہیں!
(ہر باعزت ہندوستانی کا درد، جسے بد نیت تخت نشین نظر انداز کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔)
محمد رضی الرحمن قاسمی
ینبع، مدینہ طیبہ
کندھے سے معصوم بچہ لگا تھا، اور وہ خاتون ڈبڈبائی آنکھوں سے مشہور ٹی وی صحافی رویش کمار سے بات کرتے ہوئے اس درد کا اظہار کر بیٹھیں، جو ہر باعزت ہندوستانی کا درد ہے کہ عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے کچھ بد نیت افراد کون ہوتے ہیں کہ کہ ایک سو کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کی بے عزتی کریں اور ان سے یہ پوچھیں کہ تم لوگ اسی مٹی سے ہو،اسے ثابت کرو۔
یہ واقعہ 5 جنوری 2020 کی سرد رات کا ہے، جب وہ اپنے معصوم بچے کے ساتھ ملکی آئین کے مخالف قوانین "سی اے اے، این پی آر اور این آر سی” کے خلاف بیس دن سے زیادہ سے شاہین باغ میں مسلسل چلنے والے احتجاج میں یہ درد لئے موجود تھیں۔
سی اے اے، این پی آر اور این آر سی جیسے قوانین میں "ہر سمجھ دار اور باعزت ہندوستانی فرد” کو جو باتیں بہت زیادہ چبھتی ہیں، ان میں سب سے پہلی بات "بے عزتی کا احساس” ہے کہ عوامی ووٹ سے منتخب مٹھی پر بد نیت تخت نشین افراد (جن میں سے کئی پر متعدد جرائم کا الزام ہے اور کیس چل رہے ہیں اور کئی کورٹ سے سزا یافتہ بھی ہیں) باعزت ہندوستانیوں سے اپنی مٹی سے رشتے کا اور اس سے محبت کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔
دوسری بات جو چبھتی ہے، وہ ایک جمہوری ملک میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کر کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بد ترین کوشش ہے۔
تیسری بات جو چبھتی ہے، وہ ہندوستانی دستور کے بنیادی ڈھانچے میں ایسی تبدیلی لانے کی کوشش ہے، جس سے ملک کا جمہوری کردار ہی مخدوش ہو جائے گا اور اگر اس کو نہیں روکا گیا، تو آئندہ اور بھی بدترین اور عوام مخالف قوانین لانے کا راستہ کھل جائے گا۔
جامعہ ملیہ سے چلنے والی "سی اے اے، این پی آر اور این آر سی مخالف تحریک” نہ صرف پورے ہندوستان کے سمجھدار طلبۂ و طالبات کی آواز بن گئی ہے؛ بلکہ پورے ملک کے ہر انصاف پسند اور باعزت شہری کی آواز اور دل کی صدا بن گئی ہے، تسلسل کے ساتھ روزانہ ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے احتجاج اس کا واضح ثبوت ہیں، بلکہ شاہین باغ دہلی میں ہونے والا احتجاج (جس میں اکثریت خواتین کی ہے، جن میں سے بہتوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی ہوتے ہیں۔)اور اس جیسے بعض احتجاج ایسے بھی ہیں، جو پچیس دنوں سے زیادہ سے مسلسل چل رہے ہیں۔
یہ ملک گیر مسلسل ہونے والے احتجاج ہمیں ایک حقیقت بتاتے ہیں اور ساتھ ہی ان احتجاجات نے ہمیں بہت کچھ سکھایابھی ہےـ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی قانون’ ملک اور ملک کے باشندوں کے لئے ہوتا ہے، جب ان تینوں قوانین کو ملک کے عوام نے رد کر دیا اور شدت سے ان پر نا پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں، اس کے باوجود بھی تخت نشین بد نیت ٹولےکو ان قوانین کے نفاذ پر اصرارہے، جو صاف اس بات کا پتا دیتا ہے کہ اس بد نیت ٹولے کا مقصد ان قوانین سے وطن اور اہل وطن کی بہتری نہیں ہے؛ بلکہ ان سے غلط مقاصد کا حصول اور اپنے سیاسی فائدے کی ناپاک فکر ہے۔
اگر مقصد وطن اور اہل وطن کی بہتری ہوتا، تو عوام کی اس متحد آواز کو اہمیت دیتے ہوئے تخت نشین افراد فوری طور پر ان قوانین کو دستوری انداز میں ختم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے اور کرتے، نہ کہ یوں بے حسی اور انانیت دکھاتے کہ چاہے جو ہو، ہم اپنے فیصلے سے نہیں ہٹیں گے۔
ان ملک گیر مسلسل ہونے والے احتجاجات نے ہمیں بہت کچھ سکھایا اور بھولی باتیں یاد دلائی ہیں:
ان میں سے ایک یہ ہے کہ بد نیت ارباب اقتدار کے ٹولے کی کھلی ہوئی دستور مخالف حرکتوں نے ہر باعزت اور سمجھ دار ہندوستانی کو ہندوستان کاایک ذمے دار شہری ہونے کا احساس دلادیا۔
دوسرے یہ کہ یہ شعور بیدار کیا کہ آگ اپنے کسی بھی پڑوسی کے گھر میں لگے، اسے اپنا نقصان سمجھ کر اسے بجھانے کی کوشش کرنی ہے، یہی انسانیت ہے، ورنہ اس آگ کا شعلہ ہمارے گھر پہنچ کر ہمارے آشیانےکو بھی خاکستر کر دے گا۔
تیسرے یہ کہ ہندوستان کی خوبصورتی مختلف مذاہب و ادیان اور مختلف سوچ اور فکر کے لوگوں کے ایک ساتھ ہونے اور محبت سے رہنے میں ہے۔
چوتھے یہ کہ ووٹ دینا جمہوری ملک میں ایک بہت بڑی ذمے داری ہے، جس میں کی جانے والی نا سمجھی پورے وطن کو چند بد نیتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنادیتی ہے اور جس نا سمجھی اور جذباتیت کا درد اوراس سے ہونے والے نقصانات کی کسک وطن اور اہل وطن کو برسوں جھیلنی پڑتی ہے۔
پانچویں یہ کہ نوجوان نسل کی رہنمائی ضرور کی جائے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قیادت میں اُن کو اُن کا صحیح مقام دیا جائے کہ ایک بہتر، متوازن اور نڈر قوم کی تشکیل ہو سکے۔
ان ہونے والے احتجاجات نے ان اسباق و پیغامات کے ساتھ ساتھ ہم ہر باعزت ہندوستانی کو ایک بڑے امتحان میں کھڑا کردیا ہے، وہ امتحان ہے ہمت و حوصلہ کا، عزیمت کا، ڈٹے رہنے کا۔ ہم ہندوستانیوں کو اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے، نہ ہمیں گھبرانا ہے، نہ پیچھے ہٹنا ہے، بس اپنے مشن کو لئے ہوئے ڈٹے رہنا ہے، یہ یاد رکھیں کہ جیت حق کی ہی ہوتی ہے، گو کبھی فاصلے تھوڑے لمبے ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اقتدار کے نشے میں چور نا عاقبت اندیش تخت نشینوں کو اکثر نوشتۂ دیوار نہیں دکھائی دیتا ہے۔
ہندوستانی نوجوانو، طلبۂ و طالبات، باعزت اور انصاف پسند (مرد و خواتین )ہندوستانیو! ڈٹے رہو، اگر حکومت سمجھداری کا ثبوت دے گی تو ان ملک مخالف قوانین کو واپس لے گی کہ ملک کی سالمیت اور باشندوں کی بہتری سے بڑھ کر ان کی اَنا نہیں ہے، ورنہ جیسے ان سے پہلے کے مغرور و متکبر اور عوامی آواز کو نظر انداز کرنے والے نشانِ عبرت بن گئے، یہ بھی بن جائیں گے اور – ان شاء اللہ- ایسا ہی ہوگا، بس شرط ہے منزل پر نگاہ رکھ کر ڈٹے اور جمے رہنے کی۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ نقاب پوش قاتل کون ہیں ؟ کون ہیں وہ شہدے جنہوں نے ملک کو تباہی کے نزدیک پنہچا دیا،وہ قاتل کون ہیں جو نقاب لگائے آتے ہیں ، ہمارے تعلیم یافتہ بچوں کو قتل کرتے ہیں، کیا ان کے لئے ہی اچھے دن کا نعرہ دیا گیا ؟ کیا حقیقت میں یہ اچھے لوگ تھے ؟ اور ہندوستان بھول گیا تھا کہ ان کے لباس پر خون کے اتنے داغ ہیں ، جو کبھی دھل نہیں سکتے،کیا ہم نے قاتلوں کو حکومت سونپ دی اور بھول گئے کہ ہلاکت سے کھیلنے والے ، گندی ذہنیت رکھنے والے اور دہشت پھیلانے والے اگر اقتدار سنبھال لیں تو یہ اقتدار ملک کی ترقی کے لئے نہیں ، موت کے جشن کے لئے ہوگا،یہ موت کا جشن گجرات لیبارٹری کے بعد اب اس ملک کا نصیب بن چکا ہے، جن کے پاس اسکول کی ڈگریاں تک نہیں تھیں ، جیل کے مجرمانہ سرٹیفکیٹ ضرور تھے ، انہوں نے پورے ملک کو آج کی تاریخ میں موت کے حوالے کر دیا، کیا ہم سفاک قاتلوں کی تاریخ سے واقف نہیں ؟ ہم ایسے قاتلوں سے کیا امید کر رہے تھےاور اب ، جب پورا ہندوستان سلگ رہا ہے ، ہم ان سے کس بات کی امید کر رہے ہیں ؟کیا ان میں ، پولیس ، اور میڈیا والوں میں کویی فرق ہے،پولیس ہاتھ باندھے انہیں سیلوٹ کرتی ہے، معصوم نوجوانوں کے قتل کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے اور یوگندر یادو جیسےلیڈروں کو روکتی ہے کہ وہ بے گناہوں اور معصوموں کو ہلاک ہونے سے بچا نہ لیں،پولیس ، میڈیا ، حکمران ، نقاب پوش دو ہی چہرے ہیں اور اس وقت یہ دو چہرے پورے ہندوستان کو مذہب کے نام پر جلانے اور سلگانے میں لگے ہیں،بزدل نقابوں میں آتے ہیں،موت کا کھیل کھیلتے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر ہزاروں کی موت کا جشن مناتے ہیں،علی گڑھ کو جلایا،جامعہ کو جلایا،جے این یو کو مسلسل جلانے کے بعد بھی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو نقاب لگا کر موت کا وحشی کھیل کھیلنے آ گئے، ایک مخصوص پارٹی اور انکی فسطائی تہذیب ان کو محب وطن کہتی ہے،انہیں پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں بھیجتی ہے اور سیاست کی بساط سے نکل کر قاتلوں کی فوج ملک کی جمہوریت کا نام و نشان مٹانے میں لگ جاتی ہے،کس کو داد دی جائے ؟ کس کی تعریف کی جائے ؟ تاریخ کی کتابوں میں ایسے قاتلوں کے لئے معافی نہیں ہے، مگر یہ وقت ہے جب ہم پچھلے بیس برسوں کا جائزہ لیں،گودھرا اور گجرات ماڈل کا تذکرہ کریں اور ملک ہندوستان میں پھیلے انتشار ، قتل و غارت گری کا تجزیہ کریں اور ایک دنیا کو بتائیں کہ جب قاتل اور دہشت گرد سلطنتیں سنبھالتے ہیں تو ہلاکو اور چنگیز ہوتے ہیں اور ایک دن اسی بے رحمی سے وقت انکا کام بھی تمام کر دیتا ہےـحقیقت میں دیکھا جائے تو یہی ہورہا ہےـ
امریکہ—ہندوستان : کل اور آج
ٹرمپ نے کرنل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا،ایران نے سرخ انقلاب کا نعرہ دیا،عالمی سیاست بھی موت کے جشن کا حصّہ ہے، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کا مسمار ہونا امریکہ کی چالبازی تھی اور مودی نے اس موت کے جشن سے بہت کچھ سیکھاـ دنیا کی دوسری بڑی قوم نشانے پرآ گئی اور دہشت گرد ٹھہرائی گیی،تعریف بدل گئی،میزائلیں،راکٹ لانچرس، اے کے 47 وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنے والا مسلمان دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اُٹھ، وہ جارہا ہے مسلمان … دہشت گرد…. ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین نے بھی بتایا ہتھیار اٹھانے والا مسلمان،توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان، آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان،چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان،کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر چھپی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین،بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ…. طالبان بھی مسلمان…. افغانستان سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔ امریکہ میں، انگلینڈ میں،ہندوستان میں، پاکستان میں،وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔
میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ’زانی‘ کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو، بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو، ممبئی کا فساد ہو یا کشمیری چنار کے پتے، میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آجاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک، ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتاہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے دوسرے کے پھٹے میں پاﺅں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیں کرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جارہی ہیں ـ عراق برباد،لیبیا برباد، افغانستان برباد، پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے بیس برسوں تک تک فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہوچکی ہےـ
امت شاہ اور مودی کے لئے راستہ مشکل نہیں تھا، گھس پیٹھئے ، یہ انکی سیاسی لغت کا سب سے دلچسپ لفظ ہےـ اسلام، اسلام اور مسلمان ـ امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں، شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا”شٹ "جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہوگا،یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہواکہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔
سی اے اے ، این آر سی کے بعد کے احتجاج کی گونج میں مودی اور امت شاہ کو بھی یہی لفظ سنائی دیا "شٹ”ـ نفرتوں نے یلغار کیا تو امریکا یاد آیا اور موت کے جشن نے بیس برسوں میں پوری طرح اپنے پاؤں پھیلا دےـ امریکہ جس کی ’فرعونیت‘ جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق و فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی، ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اُسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کردیا تھا ۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑچکے تھےـ ا مریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا،اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی تھی، یہی کھیل ہندوستان میں شروع ہوا،تمام ایجنسیاں مودی امت شاہ کی جیب میں،اپنے پالتو انڈسٹریلسٹ،اپنا انتخابی کمیشن،اپنا ریزرو بینک،اپنی عدلیہ،امریکہ میں بہت حد تک ضمیر محفوظ تھا،یہاں ضمیر مردہ، صحافت مردہ!
مردوں نے تعلیم کے دروازے پر پہرہ بیٹھایا، جہالت کو سجدہ کیا،ملک کو نیلام کیا، مسلمانوں سے کھلے عام دشمنی کا اظہار کیا،علیگڑھ ، جامعہ اور جے این یو تک سنگینیں لے کر پہنچ گئےـ
بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے نےکافی قبل اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ امریکہ کے فوجی اور معاشی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر حملے کیوں ہوئے۔ آزادی کی نشان اسٹیچو آف لبارٹی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ یعنی یہ غصہ جمہوریت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ بلکہ امریکی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ان سے نفرت نہیں کرتی،وہ امریکی حکومت کے طرز عمل سے نفرت کرتی ہے۔ یہاں معاملہ مختلف تھا،یہاں گوڈسے ہیرو تھا، یہاں منو اسمرتی کا قانون نافذ، یھاں میڈیا بکاؤ،اور سارا کھیل آسان ہوتا گیاـ
۳۱مئی ۲۰۰۳ءنیویارک کے ریور سائڈ چرچ میں ارن دھتی رائے نے جو بیان دیا وہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔
”ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب ہمیں یہ جاننے کے لئے بھی ایک دوڑ میں شامل ہونا پڑرہا ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری آزادی چھینی جارہی ہے۔ ایسے دور میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اس دوڑ سے الگ ہونے اور اس طرح کے تمام واقعات، حادثات سے مکمل ’پولیٹیکل‘ تھیسس لے کر لوٹنے کا جوکھم چند لوگ ہی اٹھاسکتے ہیں۔ ہم ایک مشکل دور سے دوسرے مشکل دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں سیٹلائٹ اور ٹی وی میڈیا لگاتار ہمارے دماغوں میں بھرنے کا کام کررہی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی زمین کے بارے میں غور کرنا ہے ، سوچنا ہےـ ہم جنگ کے ملبے سے ہوتے ہوئے تاریخ کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ کتنے شہر ختم ہوگئے،کھیت سوکھ گئے، جنگل کٹتے جارہے ہیں،کتنی ہی ندیاں تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ کتنی ہی عظیم الشان لائبریریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے، میں امریکی سامراج کے، ایک غلام کی حیثیت سے بول رہی ہوں، ایک ایسا غلام جو اپنے بادشاہ کا قصیدہ نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ اس کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔“
ارن دھتی کل بھی احتجاج کا حصّہ تھیں ، آج بھی ہیں ـ ا رن دھتی نیویارک کے ریورس سائیڈ چرچ میں غلام بن گئی تھیں،مسلمان اور ہمارا اربن نکسل جے این یو کی وادیوں میں آزادی کے لئے لڑتا ہوا اپنی قربانی دے رہا ہے،گودھرا ،گجرات کی خوفناک تاریخ لکھنے والے ملک کی بربادی پر دستخط کر چکے ہیں ـ عالمی سیاست سے ہندوستان تک ، مسلمان سے دانشور طبقہ تک نشانے پر ہےـ
نئی تاریخ میں مسلمان گھس پیٹھئے ہیں اور مسلمانوں کی حمایت میں ، سیکولرزم اور جمہوریت کی حمایت میں ، آئین کے تحفظ کے لئے اس وقت پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا ہےـ وہ بزدلانہ کاروائی کریں گے، وہ ہلاکت کی نئی کہانیاں لکھیں گے،مگراحتجاج جاری رہے، احتجاج کا جاری رہنا ضروری ہے،جے این یو کا بہتا خون رنگ لائے گاـ
شاعروں ادیبوں اور فن کاروں سے ہر غلط آدمی اس لیے گھبراتا ہے کیوں کہ سچ کا سامنا مشکل ہے۔
صفدر امام قادری
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ظلم کا چکّر اور تباہی کتنے دن، کتنے دن۔ ایسے دستور کو مَیں نہیں مانتا ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ وقت اور تاریخ کی نبض پر اُنگلی رکھ کر پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ اور لکیریں نہیں، جمیعتِ انسانی کی آہوں میں شعرا اور ادبا نے بارودبھر کر ظالم اور جابر پر وار کیا ہے۔ ’گیتا‘ میں ہی جب کہہ دیا گیا کہ ’شبد برھم ہے‘۔ اس لیے لفظ نہیں مرتے ۔ شاعر ادیب گزر جاتے ہیں مگر فضائوں میں ان کے لفظ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم بن کر تقاضاے وقت کے تحت ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
حبیب جالب کب کے گزر گئے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوانوں نے جب ہندستانی حکومت کے جبریہ قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو انھیں حبیب جالب کی کئی نظمیں یا د آنے لگیں اور ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔‘ جیسے مصرعے کچھ ایسے موزوں ثابت ہوئے جیسے اُسی دن کے لیے اور اسی تحریک کے لیے یہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر اُتار دیے گئے ہوں۔ حبیب جالب کی آواز سے لے کر درجنوں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور فن کاروں نے اِسے گانا شروع کر دیا۔ اب ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں بنگال سے لے کر کیرل تک یہ نظم گائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کے ایک احتجاجی ظاہرے میں کان پور کے آئی ۔ آئی ۔ ٹی کے طلبا کو فیض کی نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ یاد آ گئی۔ حبیب جالب نے فیض کے نقشِ قدم پر چل کر انقلابی شاعری شروع کی تھی۔ یہاںتو خود بہ نفسِ نفیس فیض نظر آتے ہیں۔ وہ فیض جو انگریزوں سے آزاد ی کو ’داغ داغ اُجالا‘ اور’شب گزیدہ سحر‘ کہہ چکا تھا، اب جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ایک خواب دیکھتا ہے۔ اب سے چالیس برس پہلے جلا وطنی کے دور میں امریکا میں رہتے ہوئے جنوری کی ایک ٹھٹھری صبح میں فیض نے یہ نظم کہی تھی۔ پانچ برس بعد وہ امید اور خوشی کے خواب دیکھتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ فیض، حبیب جالب اور احمد فراز سب کو برِّ صغیر کی آزادی ، خوش حالی، امن و امان اور جمہوری اقدار کی بحالی کے خواب دیکھنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے جیل اور جلا وطنی کا مجرم قرار دیا۔
عجب اتّفاق ہے کہ مذکورہ تینوں شعرا دنیا کے اس خطّے سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے مگر تینوں شعرا جب پیدا ہوئے تو ان کے وطن کا نام ہندستان تھا۔ اڑچن اس بات پر بھی ہے کہ انقلاب کی بات کرنے والے اور اپنی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے بول بولنے والے یہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بھی اُسی پاکستان میں دفن ہوئے ۔ اب ہندستان میں ایک ایسی نسل پل بڑھ کر حکومت کر رہی ہے جسے یہ تمام لکھنے والے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی بات کرنا اور سچ بولنا اس حکومت کو بغاوت کی بات لگتی ہے۔ جب یہ بات پاکستانی شاعر اور نثر نگار کی زبان سے ہو تو حکومتوں کا یا ان کی ہم خیال جماعتوں کا تلملا جانا فطری ہے۔ اسی لیے جانچ کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے نتائج میں آخر آخر یہ بات سامنے آئے گی کہ چوں کہ ان مظاہرین نے ہندستان کے دشمن ملک پاکستان کے شعرا کا کلام پڑھا، ا س لیے ان پر بغاوت کا مقدّمہ چلناچاہیے۔ میرٹھ کے ایس۔ پی۔ نے ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی گالی دیتے ہوئے جو ہدایت پیش کی ، اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان آپ نے کیوں دیا تو انھوںنے ان مظاہرین کے نعروں میں پاکستان کے الفاظ تلاش کیے۔ اس لیے جہاں جہاں ایسی نظمیں پڑھی جائیں گی، موجودہ عہد کے حکمراں اور ان کے انتظام کار ہمیں پاکستانی قرار دے کر ہم پر مقدّمہ چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
وہ دن گئے جب ہندستان کا وزیرِ اعظم برِّ صغیر ہی نہیں تیسری دنیا کی قیادت کی بات کرتا تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کی شناخت عالمی سطح کی سیاست اور ہندستان کی ناوابستگی سے جانی جاتی تھی۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص ساری کمیونسٹ حکومتوں کے لیے ہندستان ایک محبوب جگہ تھی۔ عالمی سیاست اور حکومت سازی کا یہ سبق، جنگِ آزادی کی یہ تحریک اور خاص طور سے ہندستان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے ہندستان کے عوام اور خواص کے لیے ماٹن لوٗ تھر کنگ بھی اپنے تھے اور نیلس منڈیلا تو صد فی صد ہندستانی ہی معلوم ہوتے تھے۔ انقلاب کے مغنّیوں کے طور پر ہمیں ناظم حکمت اور پابلو رنرودا اور مایا کونسکی ، سب کے سب اپنے معلوم ہوتے تھے۔ پِکاسو اور مونے ویسے ہی لگتے تھے جیسے رضا اور حسین۔ ششدر شرما اور پاش، زلفیہ بِن جا مِن مولایس___سب ایک ہی مزاج کے فرد تھے اور ایک ہی کارواں کے مسافر۔ سب ہمیں ظلم سے بچا نے اورانصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہواہوتا تو ہندستانی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے اندھی سرنگ میں بند ہوتے اور سب ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجدوں میں دم گھٹنے سے مر چکے ہوتے مگرایسا نہیں ہوا۔تیلگووالا اردوکو پسندکرتا ہے اورہندی کا شاعر فارسی کا دیوانہ ہے۔ رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے لے کر فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید اور پروین شاکر تک آزادیِ اظہار پر مرمٹنے والی خواتین کے راگ اور بول پر کئی نسلوں نے اپنی زندگی بدلی۔
آج کے وزیرِ اعظم تو سیاست دانوں میںسب سے بڑے سیلانی ہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن ایک نئے ملک کی سیر کرکے لوٹتے ہیں مگر بین الاقوامی پالسی کا یہ حال ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان و نیپال سے بھی ہم وار رشتے قایم نہیں رکھ سکتے ۔ عالمی سیاست اور مریکا روٗس پر اُن کے کہے کا کیا اثر ہوگا، وہ سری لنکا اور برما سے بھی توازن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط نہیں کر سکتے۔ وہ ایسے نقطۂ نظر کے پروردہ ہیں جسے اپنے ملک کو بھی ایک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنانے میں دل چسپی نہیں ۔ عافیت اور شانتی، امن و امان اور محبت و خیر سگالی کے الفاظ اور جذبات ان کی سیاست کے موافق نہیں، اس لیے وہ کوئی بڑا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
آج کی حکومت کو بڑے بول بولنے اور اپنی بات سنانے میں زیادہ دل چسپی ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کو جمہوریت میں اس لیے وقار حاصل ہوا کیوں کہ یہاں مختلف نقطۂ ہاے نظر کے افراد تبادلۂ خیال کرکے کوئی روشن اور زیادہ معقول راستہ تلاش کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو اپنے نقطۂ نظر پر اتنا بھروسا ہے کہ وہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کے سارے سیاست دان بھی یک رائے ہو جائیں تب بھی وہ ایک اِنچ اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہندستان کی سرحد کا معاملہ نہیں ہے، قانون بنانے اور ملک کے باشندوں پر قانون کے نفاذ کا سوال ہے۔ جس کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور آئینی نہ جانے کتنے پہلو ہیں مگر بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی اور کسی ترمیم کی گنجایش نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بغیر کسی گفتگو کے قانون شب خونی انداز میں منظور کر لیے جاتے ہیں۔
حبیب جالب اور فیض سے خوف آخر کیوں کر آیا؟ بھگت سنگھ سے انگریز حکومت کیوں ڈرتی تھی۔ اشفاق اللہ اور کھدی رام بوس کی عمر ہی کیا تھی مگر اُن کے سچ بولنے سے سب کو خوف آتا تھا۔ آج کی حکومت ہر سچے آدمی سے ڈرتی ہے۔ ہر حقیقت پسند سے بھاگتی ہے۔ ہر سچے مسئلے کو دوٗر سے ہی سلام کرتی ہے۔ کاہے کو غریبی اور بے کاری سے رشتہ رہے۔ بے روزگاروں کو ہی ختم کر دینے کا منصوبہ ہے۔ دلِت اور اقلیت آبادی کو وہاں پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں عزّتِ نفس کے ساتھ جینے سے بہتر مر جانا معلوم ہوتاہے۔
اب نوجوانوں کی باری ہے۔ پہلے یونی ورسٹیاں دنیا میں نئے خواب دیکھنے کے لیے گھر آنگن ہوتی تھیں۔ ہماری تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے چہکتے ہوئے نغمہ ریز پرندے تھے۔ زندگی اُڑتی گاتی اور مسکراتی ہوئی ایک نئی دنیا پیدا کرتی تھی مگر یہاں پانچ ٹرلین معیشت پانے میں ہمارے نوجوان جیلوں کی سلاخوں میںبند ہو جائیں یا بحرِ ہند میں غرقاب ہو جائیں، کسی کو کیا پڑی ہے۔ سڑکوں پر گلیوں میں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ کتب خانوں میںطلبا کو لاٹھیاں اور گولیاں لگ رہی ہیں۔ ٹھٹھری ہوئی راتوں میں سڑکوں پر معصوم عورتیں اپنی بے زبان اولادوں کے ساتھ نئی زندگی کا خواب لے کر اُتر رہی ہیں۔ فیض اور جالب ہی نہیں ان کے ہزاروں مردہ اور زندہ ساتھی ہم رکاب ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد مردہ فیض ظالموں کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تو جو زندگیاں سڑکوں پر ہیں ان کی طاقت کا ابھی ظالموں کو اندازہ نہیں ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم کے مصرعے یا دآتے ہیں:
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ میرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ میں شعبۂ اردوکے صدر ہیں
Email: [email protected]
رابطہ: 8860931450
14/12/19سے شمال مشرقی ریاستوں میں CAB کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ 9/12/19کو پارلیمنٹ سے اس کے پاس ہونے کے بعد پورا ملک CAAکے خلاف سڑکوں پر اتر آیا، ملک کی مایہ ناز 25 یونیورسٹیز CAAکے خلاف میدان عمل میں آگئیں اوراب اس احتجاج پرایک ماہ کاعرصہ بیت گیا، خواتین بچے، بوڑھے، جوان خون جمادینے والی سردی میں بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ، 26 شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہیں، ہزاروں گرفتار ہیں، پولیس کی بربریت الگ۔اس سب کے باوجود یکم جنوری 2020کو مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ Minister of State for Home Affairsجے کشن ریڈی وارانسی میں پوری ڈھٹائی اور رعونت کے ساتھ کہتے ہیں کہ CAAکو ہماری حکومت واپس نہیں لے گی، شہریت (ترمیمی) قانون میں جو بھی ترامیم کی گئی ہیں، ان سے کسی بھی طرح سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ (راشٹریہ سہارا، 2؍جنوری 2020، صفحہ 1) ایسی سنگ دل حکومت کے خلاف آخر دم تک لڑنا چاہیے:
اس شہر سنگ دل کو جلادینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمیں پر
اک حشر اس زمیں پہ اُٹھا دینا چاہیے
ہم احتجاج کریں ، پُرامن مظاہرے کریں ، ہم دائرۂ ”امن و قانون“ میں رہتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس سے ملک کا آئین مضبوط ہو ، یہ ملک کسی ایک کمیونٹی ، مذہب، ذات ، فرقے کا نہیں ہے، یہاں پر نہ کوئی اکثریت ہے اور نہ کوئی اقلیت، یعنی ایسی کوئی کمیونٹی، ذات یا فرقہ نہیں ہے جو تن تنہا 60فیصد ہو، ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہر غیرمسلم ، چڈھی پہننے والے رنڈوے یعنی آر ایس ایس نہیں ہے،ہر ہندو بھی ہندو نہیں ، اعلیٰ ذات کے ہندو بھی گوتروں میں منقسم ہیں، چٹرجی، بنرجی، تیواری ، مکھرجی، چکرورتی، جھا، پانڈے، پراشر، دترے، مشرا، شرما وغیرہ۔ اور پسماندہ طبقات کو 6745حصوں میں تقسیم کردیاگیاہے۔ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی اور مسلم رہے الگ۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اور ذات کی بنیاد پر قانون سازی بالآخر برہمن ازم کی فرعونیت و بالادستی کو وجود میں لائے گی، جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تمام انسان ہماری خدمت کے لیےپیدا کیے گئے ہیں، اس لیے جس کے پاس جو کچھ بھی وسائل ہیں یا جو بھی طریقۂ احتجاج استعمال کرسکتا ہو، ضرور کرے۔ بھوک ہڑتال کرے، خاموش احتجاج کرے، جیل بھرے، کینڈل مارچ نکالے ، دھرنا دے، جلسے جلوس منعقد کرے، ہر دس آدمی کا ایک گروپ، 2 میمورنڈم ضرور دے ایک سپریم کورٹ کے ”چیف جسٹس“ کے نام اور دوسرا ”صدر جمہوریہ“ کے نام ، خیال رہے کہ میمورنڈم کے بغیر احتجاج کی کوٸی اہمیت نہیں ،بینکوں سے جمع شدہ رقم نکال کر معاشی دبائو Economic Pressureڈالیں، عربی قلم کاروں کو چاہیے کہ اپنے قلم کی روانی سے عالم عرب کو بیدار کریں، انگریزی قلم کاروں کو چاہیے کہ مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو جھنجھوڑ یں، غرض جو انسان جو کچھ بھی کرسکتا ہو، کرے۔ علانیہ پلاننگ کریں، خفیہ پلاننگ کریں، ملاقاتیں کریں، آگے آنے والوں کو حوصلہ دیں، پیچھے ہٹنے والوں کی ڈھارس بندھائیں، بالخصوں امت مسلمہ اپنی پوری طاقت جھونک دے۔ ہم بھارت کو دوسرا فلسطین ، دوسرا برما، دوسرا سنکیانگ نہیں بننے دیں گے، چاہے جو قربانی دینی پڑے:
بڑھ کر طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل تو گیا
مسلمانو! یہ وقت ہے اُٹھ کھڑے ہونے کا، کچھ کر گزرنے کا، تاریخ رقم کرنے کا، قربانیاں دینے کا، ڈٹ جانے کا، اَڑجانے کا، مسلم قیادت پر لازم ہے کہ اتحاد کا ثبوت دے، میٹنگوں اور ملاقاتوں سے آگے بڑھ کر سیکولر ہندو دیگر مذاہب و فرقوں کی تنظیموں کو ساتھ لے کر صاف اور واضح اعلان کرے اور آخر دم تک امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کو بچانے کی قسم کھائے:
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیاہے کہ کہیں احتجاج کمزور نہ پڑجائے، وہ لکھتے ہیں :
’’یاد رکھنا چاہیے کہ ملک بھر میں احتجاج میں شامل نوجوان مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ ایسا طبقہ ہے جس کے ہاتھ میں کسی بھی سطح پر اقتدار نہیں ہے، اس لیے اندازہ ہے کہ جلد ہی ان کا جوش و خروش سرد ہوجائے گا اور وہ اپنی ملازمت اور کیرئر کو لے کر فکرمند ہوجائیں گے۔ ان پرُجوش نوجوانوں کے والدین بھی جلد ہی ان پر دبائو ڈالنا شروع کردیں گے کہ وہ نیتاگری ترک کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔ دراصل کچھ نوجوان جو اس احتجاج میں شریک ہیں ، انہوں نے مجھے بتایاکہ ان کے والدین ان سے کافی ناراض ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ جلد ہی احتجاج کا جوش و خروش ختم ہوجائے گا، دوسری طرف یہ بھی محسوس کیا جارہاہے کہ بی جےپی حکومت کے لیڈران ایسا فیصلہ لے سکتے ہیں کہ قوت قہاری کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیاجائے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ہوچکاہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ’جب پڑی مار شمشیراں کی تو مہاراج میں نہیں ہوں ‘ اس لیے جب پولیس کا بے رحم ڈنڈا چلے گا تو نوجوان کے دل و دماغ کا انقلابی بخار ختم ہوجائے گا، اس کا مجھے خدشہ ہے۔‘‘
اس قسم کے ”خدشات“ کو سامنےرکھتے ہوئے تمام ”غیربی جے پی“ بھارتیوں کو مورچہ سنبھالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، ڈٹے ہوئے حضرات کو بھرپور تعاون و حوصلہ بھی دیں اور ان کے متبادل کےطورپر بھی تیار رہیں۔
جھارکھنڈ میں نومبر – دسمبر 2019 میں ہوئے حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں ،اور اقلیتوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں ـ تین دہائیوں کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی انچاس سے پچیس پر سمٹ گئی ہے ، تین دہائیوں سے بی جے پی اس علاقے کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے ، اس علاقے کی کل اکیاسی نشستوں میں سے اٹھارہ (18) تا سینتیس (37) سیٹیں اسے اسمبلی انتخابات میں ملتی رہی ہیں،اورنومبر دو ہزار میں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت وہ بتیس سیٹوں کے ساتھ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی پارٹی تھی ،(فروری دوہزار میں ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں کل تین سو چوبیس ارکان والی اسمبلی میں بی جے پی کو کل سڑسٹھ (67) سیٹیں ملی تھیں ،اور ان میں بتیس جھارکھنڈ میں آگئی تھیں ،)اور اس نے جنتادل یو اور سمتا پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی ـ
اس علاقے کی دوسری سب سے بڑی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہے اور اس کو بارہ تا انیس سیٹیں ملتی رہی ہیں ، جھارکھنڈ بننے کے وقت اس پارٹی کے پاس صرف بارہ سیٹیں تھیں ـ
تیسرے نمبر کی پارٹی کانگریس ہے اور اس کو اس علاقے میں چھ تا چودہ سیٹیں ملتی رہی ہیں، جھارکھنڈ کے قیام کے وقت کانگریس کے پاس جھارکھنڈ میں کل گیارہ سیٹیں تھیں ـ
چوتھے نمبر کی پارٹی راشٹریہ جنتادل ہے، فروری دو ہزار کے بہار اسمبلی الیکشن میں آر جے ڈی کو کل ایکسو چوبیس سیٹیں ملی تھیں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت اس کے پاس جھارکھنڈ میں کل نو سیٹیں تھیں ، دوہزار پانچ(2005) میں سات ،اور دوہزار نو(2009) میں پانچ سیٹیں ملی تھیں ،دوہزار چودہ میں آر جے ڈی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ـ
کانگریس اور آر جےڈی نے دوہزار پانچ تا دوہزار تیرہ چار بار جے ایم ایم کو وزارت علیا کی کرسی تک پہنچایا، مگر ان تینوں کے ممبران اسمبلی مل کر بھی اکتالیس ممبران اسمبلی نہیں ہوتے تھے ،اور دیگر چھوٹی پارٹیاں ہمیشہ جے ایم ایم کو دھوکہ دے دیتی تھی ـ
جے ایم ایم کے شیبوسورین نے تین بار وزارت علیا کا حلف اٹھایا ،وہ پہلی بار دس دن ،دوسری بار چار ماہ تیئیس دن اور تیسری بار پانچ ماہ دودن وزیر اعلی کے منصب پر براجمان رہےـ
جھارکھنڈ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کا فائدہ ایک آزاد ممبر مدھو کوڈے نے بھی اٹھایا اور وہ بھی جے ایم ایم،کانگریس،اور آر جے ڈی ، اور دیگر پارٹیوں کی مدد سے 14/ ستمبر 2006 تا 23/ اگست 2008 ایک سال گیارہ ماہ آٹھ دن جھارکھنڈ کےوزیر اعلی رہےـ
جنوری دوہزار نو تا دوہزار تیرہ تین بار وہاں صدر راج بھی نافذ ہوا، وہاں صدر راج کی کل مدت بیس ماہ ایک دن ہےـ
جون دوہزار تیرہ میں جے ایم ایم ،کانگریس ،اور آر جے ڈی نے مل کر حکومت بنائی اور شیبوسورین کے منجھلے بیٹے ہیمینت سورین کو وزیر اعلی بنایا ،جے ایم ایم کے پاس اٹھارہ،کانگریس کے پاس چودہ اور آر جے ڈی کے پاس پانچ سیٹیں تھیں،یہ کل ملا کر سینتیس سیٹیں ہوئیں ، اکثریت کا اکتالیس کا آنکڑا پورا کرنے کے لیے چار پانچ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے ممبران کی حمایت حاصل کی گئی تھی ، یہ حکومت دسمبر دوہزار تک چلتی رہی ـ
جو حکمت عملی جے ایم ایم ، کانگریس اور آرجے ڈی نے دوہزار انیس کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہے وہ دوہزار پانچ ،دوہزار نو اور دوہزار چودہ کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہوتی تو جھارکھنڈ میں بی جے پی اتنی مضبوط نہیں ہوتی ،اور اسے مزید دس سال جھارکھنڈ میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تقریبا دوسال وہاں صدر راج نافذرہتاـ
دوہزار پانچ میں جے ایم ایم اور کانگریس نے متحد ہوکر اسمبلی الیکشن لڑا اور ان کو کل چھبیس سیٹیں حاصل ہوئیں ،سترہ جے ایم ایم کو اور نو(9) کانگریس کو، دوہزار نو(2009) میں کانگریس نے جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے اتحاد کیااور کل پچیس سیٹیں حاصل کیں ،چودہ کانگریس نے اور گیارہ جھار کھنڈ وکاس مورچہ نےـ
اس الیکشن میں جے ایم ایم کو اٹھارہ اور آر جے ڈی کو پانچ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ـ
جے ایم ایم ،کانگریس اور ارجے ڈی نے بعض آزاد اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر دوہزار تیرہ میں حکومت بنائی ،مگر چودہ سال میں دو بار کے اسمبلی الیکشن کے تجربات کے باوجود الائنس بناکر الیکشن نہیں لڑا ،اور دوہزار چودہ میں بی جے پی اور زیادہ مضبوط ہوگئی ،اس کو جھارکھنڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملیں، اسےکل سینتیس(37) سیٹیں ملیں, اسے دوہزار میں بتیس (32)، دوہزار پانچ میں تیس (30) ، اور دوہزار نو میں اٹھارہ، سیٹیں ملی تھیں ـ
دوہزار نو کے مقابلے بی جے پی کو دوہزار چودہ میں انیس سیٹیں زیادہ ملیں ،بی جے پی دوہزار چودہ کا الیکشن ،جے ڈی یو، ا اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر لڑا تھا ،جے ڈی یو کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی ،مگر آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو پانچ سیٹیں ملی تھیں ، اور بی جے پی نے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ،ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی کل تعداد بیالیس تھی ، چند ماہ کے بعد دو ہزار پندرہ میں جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے کل آٹھ(8) ممبران اسمبلی میں سے چھ (6)کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کرلیا ، اور دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو توڑ توڑ کر بی جے پی نے دوہزار انیس تک اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد انچاس کرلی ،اب اس نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں جے ڈی یو ،ایل جے پی اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین نے الگ الگ انتخاب لڑا، جھارکھنڈ میں جے ڈی یو اور ایل جے پی کی تو زیادہ مقبولیت نہیں ہے ، مگر بی جے پی کو آل انڈیا جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو نظر انداز کر نا مہنگا پڑا ،اور دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو نقصان ہوا ،ال جھار کھنڈ اسٹوڈنٹ یونین پانچ(5) سے دو (2)پر اور بی جے پی انچاس(49) سے پچیس(25) پر سمٹ گئی ـ
واضح رہنمائی:
دوہزار انیس کےجھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے لیے بہت واضح رہنمائی ہےـ دوہزار چودہ کے جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب میں جے ایم ایم کو تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں،اس نےکل انیس سیٹیں حاصل کیں ، دوہزار نو کے مقابلے میں ایک سیٹ زیادہ تھی ، کانگریس کو صرف چھ سیٹیں حاصل ہوئیں تھیں اسے دوہزار نو میں چودہ سیٹیں ملی تھیں ،آرجے ڈی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ،اس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ،وہ دوہزار سے دوہزار چودہ تک نو(9) سے زیرو پر آگئی ـ
جھارکھنڈ بننے کے بعد ہوئے تین اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان تینوں پارٹیوں کو اکٹھا ہونے پر اور کانگریس اور آر جے ڈی کو جے ایم ایم کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کر دیاـ
اگر یہ تینوں پارٹیاں اپنی روش پر اڑی رہتیں تو بی جے پی کی جیت یقینی تھی ، اس الیکشن میں بھی بی جے پی کو تینتیس فیصد سے زائد 33.37 ووٹ ملے ہیں ،اور یہ ووٹ اسے انہتر(79) سیٹوں پر ملے ہیں ،جب کہ جے ایم ایم اتحاد کو کل اکیاسی (81) سیٹوں پر پینتیس فیصد سے زائد 35.35 ووٹ ملے ہیں ـ
جمشید پور ایسٹ سے وزیر اعلی رگھوبر داس اپنے ساتھی اور وزیر سرجو رائے سے ہارے ہیں، سرجو رائے گزشتہ پانچ سال سینیر کیبینیٹ وزیر رہے ہیں ،اس الیکشن میں انہیں بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اپنی پرانی سیٹ چھوڑکر وزیر اعلی کے خلاف ہی کھڑے ہوگئےاور وزیر اعلی کو پندرہ ہزار آٹھ سو تینتیس ووٹوں سے ہراکر دکھادیا انہوں نے کل تہتر ہزار نو سو پینتالیس ووٹ حاصل کیےـ
دوہزار انیس کے جھار کھنڈ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں کو چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وقت کے راون کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا ہوگاـ دہلی ،بہار اور دیگر صوبوں میں بھی جھارکھنڈی نمونے پر عمل ہوـ
رواں سال دوہزار بیس(2020) کے فروری میں دہلی اسمبلی اور نومبر ،دسمبر میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ـ دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو متحد ہوکر الیکشن لڑنا چاہیے ، جس طرح جھارکھنڈ میں کانگریس نے جے ایم ایم کو اکیاسی (81) میں سے تینتالیس (43) سیٹیں دیں اور خود اکتیس (31) سیٹیں لیں ، اسی طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی کو زیادہ سیٹیں دےاور عام آدمی پارٹی کو کانگریس کی اہمیت سمجھنی ہوگی ، عام آدمی پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی خود اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہےاور کانگریس کو بھی اور مجموعی طور پر ہندوستان کے سیکولر زم اور گنگا جمنی تہذیب کوـ
انیس سو سڑسٹھ سے دہلی میں فسطائی طاقتوں کا بول بالا ہے ،انیس سڑسٹھ سے دوہزار انیس تک جن سنگھ اور بی جے پی ماں بیٹی کے کل اڑتالیس ممبران اور 1977میں کامیاب ہوئے جنتاپارٹی کے چھ اور بھارتیہ لوک دل کے ایک ممبر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ پچپن ہوجاتے ہیں ـ انیس سو سڑسٹھ تا دوہزار انیس کانگریس کے کل ممبران کی تعدادصرف بیالیس ہے،
دوہزار چودہ اور دوہزار انیس میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس سات میں سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی ہے ، عام آدمی پارٹی بھی دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی ہےـ
دوہزارچودہ اور دوہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے توعام آدمی پارٹی اور کانگریس کو فروری دوہزار بیس (2020) کا اسمبلی انتخاب متحد ہوکر لڑنا ہوگاـ
عام آدمی پارٹی کو دوہزار تیرہ کے اسمبلی انتخابات میں 29.30٪ ،دوہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات میں 32.90٪، دوہزارپندرہ کے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ 54.30٪ اور دوہزارانیس کے لوک سبھا انتخابات میں صرف اٹھارہ فیصد ووٹ ملے ہیں ، چارسال میں ہی چھتیس فیصد سے زائد ووٹ کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے،اگر اس خطرناکی کو عام آدمی پارٹی نے محسوس نہیں کیا تو یہ اس کے لیے بہت خطرناک ہوگاـ دوہزار تیرہ تا دوہزار انیس کے درمیان ہوئے چارانتخاب (دو اسمبلی کے،اور دو پارلیمان کے) ووٹ فیصد کو دیکھتے ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو کل چھیالیس سیٹوں پر اور کانگریس کو کل چوبیس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے چاہئیں، اگر دونوں میں اتحاد نہ ہوسکا تو بی جے پی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ـ
ہرش مندر کہتے ہیں کہ یوپی میں حالات بہت خطرناک رُخ اختیار کرگئے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یوپی میں آج وہی ہورہا ہے جو کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے ہوتا رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر فورس توڑ پھوڑ مچاتی ہے اور بے گناہوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
2 اور 3 جنوری کے انڈین ایکسپریس کے شماروں میں بھی اس کے کچھ شواہد پیش کئے گئے ہیں۔۔ہرش مندر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں۔۔ وہ یوپی کے نو مختلف اضلاع کے کلکٹر بھی رہے ہیں ۔ لہذا وہ یوپی کے حالات پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے مظفر نگر اور دوسرے متاثرہ مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔۔۔ وہ مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس کے تعصب کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں ۔
ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی کچھ حد تک یوپی کی اصل تصویر دکھا رہا ہے۔اس کے علاوہ ’دی وائر‘ اور انفرادی طورپر ونود دوا‘ابھسار شرمااور رویش کمار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سرکاری مظالم کی قلعی کھول رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعلی نے پر امن مظاہرین سے ’بدلہ‘لینے اور نقصان کا ہرجانہ انہی سے وصول کرنے کی دھمکی دی ہے اسی وقت سے یوپی پولس بے خوف ہوکر نہتے اور بے قصور لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔۔۔ میں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ اب یوپی کے بے قصور لوگوں پر قیامت گزرنے والی ہے اور بہت سے قائدین کا نام لے کر ان سے درخواست کی تھی کہ یوپی کے ان بے کس وبے بس لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکلیں۔
انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی اشاعت میں سنبھل (مغربی یوپی) کے تعلق سے ‘کونین ایم شریف’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولس نے ’فسادیوں‘کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ واقعات کو بیان کیا گیاہے۔باقاعدہ ٹائم لائن کے ساتھ یعنی لمحہ بہ لمحہ اور Minute to minute حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں ایف آئی آر کے مرحلہ پر ہی پولس کو کلین چٹ بھی دیدی گئی ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بہت کمزور اور بے دم سی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک پیرا گراف لکھا گیا ہے۔
سنبھل کے 23سالہ محمد شہروز خان کو 20 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران گولی لگی تھی‘اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دوسرے بڑے ہسپتال کو ریفر کردیا گیا۔اس بڑے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شہروز کا دم نکل گیا۔۔۔ پولس نے اس تعلق سے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نہ تو ملزم کا نام ہے اور نہ کسی گواہ کا کوئی ذکر ہے۔۔۔یہی نہیں آج 14روز گزرجانے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کو اس کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔ایف آئی آر میں دفعہ 302کے تحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔یہ دفعہ قتل سے بحث کرتی ہے۔ایسی کمزور‘بے جان اور لا یعنی ایف آئی آر کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔۔۔عدالت میں اہل خانہ کو یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوجائے گا کہ شہروز کا قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پولس نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ حملوں میں جن17 افراد کو نامزد کیا ہے ان کے خلاف (سچی یا جھوٹی) تمام دستاویزات جمع کی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کی تفصیلات کو باریکی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔پولس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔یہ حال جب ہے کہ جب دونوں ایف آئی آر 24 گھنٹے کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے ایک ہی تھانہ میں لکھی گئیں۔انڈین ایکسپریس کو ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فساد مچانے کے تعلق سے جو ایف آئی آر تیار کی گئی ہے وہ اس مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے کہ پولس کو معقول شک کا فائدہ مل جائے گا جبکہ گولی لگنے سے نوجوانوں کی موت کی ایف آئی آر اتنی بودی لکھی گئی ہے کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ گولی چلانے کا ملزم کون ہے۔
انڈین ایکسپریس کی صحافی ارنیا شنکر نے آج اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مظفر نگرپولس نے چار لوگوں کو 10دنوں تک اپنی گرفت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ان پر پتھر بازی اور پولس پر حملہ کے الزامات عاید کئے گئے تھے۔یہ مظاہرے 20 دسمبر کو ہوئے تھے۔ان رہا شدگان میں ایک 50 سالہ سرکاری کلرک بھی ہے لیکن ابھی اس کے 20 سالہ بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری کلرک کا دعوی ہے کہ 20 دسمبر کی شب 10.30 پر ان کے گھر پر 50 پولس والوں اور قرب وجوار کے رہنے والے کوئی 60 لوگوں نے دھاوا بول دیا اور انہیں بہت زدوکوب کیا گیا۔اس کے بعد پولس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔ انہوں نے ارنیا شنکر کو بتایا کہ پولس نے ان کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک کیا اور جب انہوں نے پانی مانگا تو کہا گیا کہ اپنا پیشاب پی لو۔انہوں نے بتایا کہ اس رات تھانہ پر کوئی 100لوگ پکڑ کر لائے گئے تھے۔انہیں جب اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔
ارنیا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میرٹھ میں رہنے والا ایک خاندان بھی اسی روز یعنی 20 دسمبر کو شام سات بجے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر نکلا۔لیکن مظفر نگر کے میناکشی چوک پر انہیں پولس نے روک لیا۔شہر میں اس خاندان کی بہت سی اسٹیل کی فیکٹریاں ہیں۔اس گاڑی میں ایک 53سالہ مریض بھی تھا۔اس کے پاس تمام میڈیکل کاغذات تھے لیکن پولس والوں نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی اور انہیں گالیاں دیتے ہوئے تھانہ لے گئی۔
یہ رپورٹ مزید بہت سی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ یہ تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ پولیس نے جب نامی گرامی ہندو شہریوں کے ساتھ انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے تو عام مسلمانوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ لکھنؤ میں بزرگ ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں پولیس نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔اسی طرح ایک اور ہندو جوڑے کو بھی گرفتار کرکے بہت سخت دفعات لگادی گئی ہیں ان کی ایک سال کی بچی ایک ہفتہ تک تڑپتی رہی، اب جاکر محض ماں کو ضمانت مل سکی ہے۔
حیرت ہے کہ عدالتوں نے محض پولیس کی داستان پر یقین کیا اور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ اب جن لوگوں کو ثبوت نہ ہونے کے سبب پولیس نے رہا کردیا ہے کیا وہ ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے متاثرہ لوگوں کو ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہر قصبہ’ شہر اور ہر ضلع کے درد مند وکلاء کو گروپ تشکیل دے کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہئے۔ مسلم وکلا کو چاہئے کہ وہ گروپ بناکر مشہور ہندو وکیلوں کے گھروں پر جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس ‘لیگل گروپ’ کی قیادت کریں ۔
دہلی میں محمود پراچہ نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر پولیس کے خلاف شواہد جمع کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چن چن کر ایک ایک خاطی پولیس افسر کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے اور انہیں سزا دلوائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو منظم پیمانہ پر کرنا ضروری ہے۔ یوپی کے متاثرین بھی انہیں اپنی روداد بمع شواہد ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کام میں صاحبِ ثروت افراد متاثرین کا خاموشی سے تعاون کرسکتے ہیں۔محمود پراچہ کے دفتر کا نمبر یہ ہے
: 011-24358560
وزیر اعظم مودی اگرچہ رام لیلا میدان سے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت این آر سی پر غور نہیں کر رہی ہے، لیکن ان کے وزیر داخلہ امت شاہ اپنے پارلیمانی وغیرپارلیمانی بیانات کے ذریعے این آر سی کے نفاذ پر اصرار کرتے آئے ہیں۔ حکومت این آر سی کے پہلے قدم این پی آر کے نفاذ کا اعلان کرچکی ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور فاشسٹ تنظیمیں اپنے تمام تر وسائل اس پورے قضیے کو مسلمان بنام حکومت بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ 9 اگست 2019 کو ہم نے این آر سی کے تعلق سے ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، جس کو کچھ لوگوں نے افواہ اور ڈر پھیلانے کا الزام لگاکر مسترد کردیا تھا۔ ہم نے اپنی اُس تحریر کا آغاز اس دعا سے کیا تھا کہ خدا کرے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں وہ کبھی سچ ثابت نہ ہو۔ اِس تحریر کا آغاز بھی میں اسی دعا کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالی مسلمانان ہند کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور کبھی ان کو مصیبتوں میں گرفتار نہ کرے۔
کچھ باتیں ناگوار ہونے کے باوجود ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان کا تحلیل وتجزیہ نہ کیا جائے، تو حقیقی صورتحال کا ادراک نہیں ہوپاتا۔ ایک بڑی تعداد اب اس بات کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ اگر این آر سی ملک میں نافذ ہوتا ہے، تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ حق شہریت سے محروم ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کو جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، ملازمتوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے اور ڈٹینشن کیمپس میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ان خدشات کو آج بھی افواہ تسلیم کرتے ہیں، انہیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس پورے قصے میں جس لفظ کا ذکر نہیں ہے وہ ہے نسل کشی۔ این آر سی نافذ ہونے کی صورت میں نسل کشی فوری شروع نہیں ہوگی، بلکہ گزشتہ سو سال میں ہونے والی مختلف نسل کشیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ظالم معاشرہ مظلوموں پر ظلم کی بنیاد پڑنے کے تیس سال کے آس پاس حملہ آور ہوتا ہے اور کمزوروں کی نسل کشی کر دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ظلم وستم کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہتا ہے۔ گزشتہ سو سال میں ہونے والی تین بڑی نسل کشیوں کو ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں:
1- زار روس کی موت کے بعد ولادیمیرلینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔ زار کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین نے روس سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ لینن نے 917 میں یوکرین پر دوبارہ قبضہ کی مہم کا آغاز کیا اور تین چار سال کی جدوجہد کے بعد قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1924 میں لینن کے مرنے کے بعد اسٹالن اس کا جانشین بنا۔ اس ظالم حکمران کو یہ برداشت نہیں تھا کہ اس کے ماتحت علاقوں میں کسی بھی طرح کی آواز اس کے خلاف اٹھے۔ چنانچہ 1929 میں اس نے پانچ ہزار سے زائد یوکرینی پروفیسرز، سائنس داں، ماہرین تعلیم اور مذہبی قائدین کو گرفتار کرلیا اور ان کی بڑی تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا گیا یا باقی بچ جانے والوں کو ڈیٹینشن کیمپس میں بھیج دیا گیا۔ یوکرین کی 80 فیصد آبادی زراعت پیشہ تھی۔ ان کسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی ملکیت میں 24 ایکڑ سے زائد زمینیں تھیں اور یہ لوگ نسبتا امیر تھے۔ یوکرین میں ان لوگوں کو "کُلاک” کہا جاتا تھا۔ اسٹالن کو یہ خدشہ تھا کہ زمین داروں کے اسی طبقے کے ذریعے دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے، لہذا اس نے اس طبقہ کے افراد کو تمام انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا۔ ان کو سرکاری طور پر "عوام دشمن” اور "ملک دشمن” قرار دیا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی اور بچ جانے والوں کو سائبیریا کے جنگلات میں قائم ڈیٹینشن سینٹرز میں بند کردیا گیا۔ اسٹالن کے ذریعے کی جانے والی اس نسل کشی میں سات لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ظلم کی بنیاد پڑنے کے بارہ سالوں بعد یہ نسل کشی ہوئی۔
2- سنہ 1933 میں، دس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہٹلر نے جرمنی کا اقتدار سنبھالا۔ یہودی اس ملک میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے، وہ اپنے آپ کو وطنی اعتبار سے جرمن اور مذہبی اعتبار سے یہودی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرے جرمنوں کے شانہ بشانہ قربانیاں بھی دیں تھی۔ لیکن ہٹلر نے نسل پرستی کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور انیس سو پینتیس میں نوریمبرگ لا ملک میں نافذ کردیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی، غیر یہودیوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا، فوج اور پولیس کی ملازمتوں سے ان کو نکالا گیا، اسکولوں اور کالجوں سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا۔ اس عرصے میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے وزیر جوزف جوبیلس نے جرمنی میں پروپیگنڈا مہم شروع کی، ان کو جرمنوں کا دشمن اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اخبارات میں یہود مخالف مضامین شائع ہونے لگے، جگہ جگہ ان کے خلاف پوسٹرز لگنے لگے، جرمن فلم انڈسٹری بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی، فلموں میں ان کو ملک دشمن دکھایا جانے لگا اور آخرکار اسکولوں کا نصاب بھی بدل دیا گیا۔ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں کانسنٹریشن کیمپس کی تعمیر کا حکم دیا اور 1942 سے سرکاری فوجیوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کو کانسنٹریشن کیمپس میں لایا جاتا اور گیس چیمبرز میں بند کرکے ہلاک کردیا جاتا۔ ان کی ہلاکت پر نفرت کے پروپیکینڈے سے متاثر جرمنوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ یہودیوں سے جرمنی کی شہریت چھینے جانے کے سات سال کے بعد ان کی نسل کشی کی گئی۔
3- برما نے انیس سو بیاسی میں سٹیزن شپ قانون ملک میں متعارف کرایا اور روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا۔ اس قانون سے پہلے بھی روہنگیا کوئی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ دو سے زائد بچے پیدا کرنا قانونا جرم تھا، ان کی بہت سی زمینیں چھین لی گئیں تھی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو صفائی کرمچاری قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن 1982 کے شہریت قانون کے بعد ان پر ظلم میں اضافہ ہوا اور دو ہزار سترہ میں ان کی نسل کشی شروع ہوگئی، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور روہنگیا کی پوری نسل کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس ظلم میں برمی فوج کے ساتھ مقامی بودھ آبادی نے بھی پورا حصہ لیا۔ مقامی لوگوں کو یہ لالچ تھا کہ روہنگیا کے خاتمہ کے بعد ان کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہی قبضے میں آنی ییں۔ روہنگیا کے خلاف نسل کشی ظلم کی بنیاد پڑنے کے 35 سال کے بعد شروع ہوئی۔
ان تین مثالوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ نسلی یا مذہبی آبادی کی شہریت ختم کرنے کے فورا بعد اس کی نسل کشی کا آغاز نہیں ہوا، بلکہ چند سالوں تک اکثریتی آبادی میں نفرت کا پروپیگنڈا کرکے پہلے ماحول بنایا گیا اور پھر مقصد کو انجام دیا گیا۔ نسل کشی اچانک نہیں ہوتی ہے، بلکہ فاشسٹ طاقتیں اس کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہیں، اس کے پیچھے کئی سالوں کی محنت ہوتی ہے، تب جاکر نسل کشی کا جرم انجام دیا جاتا ہے۔
"جینوسائڈ واچ” نامی ادارے کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی کے دس ادوار لکھے ہیں۔ ذیل میں مختصراً ان ادوار کو بھارت کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کرکے ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ ان ادوار کو غور سے پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ بھارت اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ کیا نسل کشی محض ایک فریب ہے یا واقعی ایک خوفناک امکان ہے۔ یہ ادوار کچھ اس طرح ہیں:
1- کلاسیفیکیشن: ملک کے عوام کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، "ہم اور وہ” کے درمیان آبادی کو بانٹ دیا جاتا ہے، نسل کشی کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔
بھارت میں یہ تقسیم یوں تو بہت پرانی ہے، لیکن آزادی کے بعد سے اب تک اس تقسیم میں شدت ہی پیدا ہوئی ہے۔
2- سمبلائزیشن: یہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم ہے، اس درجے میں آکر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے مختلف لباس اور رنگ متعین ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیز فطری ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ الگ رنگ ولباس کا نتیجہ نسل کشی ہی ہو، لیکن جب رنگ ولباس سے اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے وزیراعظم نے حال ہی میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی ہے۔
3- ڈسکریمنیش: یعنی نسلی امتیاز۔ غالب گروہ اقلیتوں کے معاشرتی اور قانونی حقوق رفتہ رفتہ چھیننا شروع کردیتا ہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مغلوب گروہ کی شہریت بھی سلب کرلی جاتی ہے، جس سے ان پر ظلم وستم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ بھارت میں چند ماہ کے اندر، طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون لاکر شریعت میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا، بابری مسجد کو اکثریتی معاشرے کی تسلی کی خاطر عدالتی نظام کے تحت چھینا گیا، یکساں سول کوڈ کسی بھی وقت لایا جاسکتا ہے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعے شہریت چھینے جانے کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسام میں بہت سے بھارتیوں کی شہریت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے۔
4- ڈی ہیومنائزیشن: اس درجے پر آکر غالب گروہ مغلوب کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا شروع کردیتا ہے۔ مغلوب گروہ کو جانور کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا ناسور اور کینسر تصور کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی سرگرم ہوجاتا ہے۔
اس اصول کا بھارت کے موجودہ حالات سے موازنہ کیجیے۔ گائے کے مقابلے ایک مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تک سینکڑوں لوگوں کو ایک جانور کی وجہ سے ہجومی تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ میڈیا میں کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اگر گائے کا احترام نہیں کرسکتے تو جاؤ پاکستان۔ اکثریت کو اقلیت کے خلاف غیر انسانی سلوک پر بھڑکانے کے لیے میڈیا مکمل طور پر سرگرم عمل ہے اور کھلم کھلا مسلمانوں کو ذلیل کیے جانے کا عمل دن رات جاری ہے۔
5- آرگنائزیشن: نسل کشی ہمیشہ منظم ہوتی ہے، اس کے لیے کبھی حکومت کھل کر میدان میں آجاتی ہے اور کبھی ملیٹنٹ گروہوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ جارج اسٹانٹن کے مطابق دارفور میں سوڈانی فوج کے ذریعے "جنجاویڈ” نامی گروپ کا اسی لیے استعمال کیا گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارت میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو بھی مختلف مواقع پر حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
یہ واضح رہے کہ دو ہزار سترہ میں سی آئی اے نے بجرنگ دل کو ملیٹنٹ گروپ قرار دیا ہے اور حالیہ مظاہروں کے بعد پولیس ایکشن میں بجرنگ دل نیز آر ایس ایس کے کارندوں کی بربریت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔
6- پولرائزیشن: اس اسٹیج پر اکثریت اور اقلیت کے تعلقات کو بری طرح سے مجروح کیا جاتا ہے، بین المذاھب شادیوں پر پابندی عاید کی جاتی ہے، اکثریتی سماج کی معتدل شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو گرفتار یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اقلیتی سماج کی لیڈر شپ کو ختم کیا جاتا ہے۔
بھارت میں گوری لنکیش اور ان جیسی بہت سی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔ جن کو قتل نہیں کیا جاسکتا، ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ مسلم لیڈر شپ اولا تو موجود نہیں ہے اور جو ہے، اس کا نمبر ابھی نہیں آیا ہے، کیوں کہ اکثریتی سماج میں ابھی بہت سی معتدل اور انصاف پسند آوازیں باقی ہیں جو فاشسٹ طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔
7- پرپریشن: اس مرحلے میں نسل کشی کی ٹریننگ ہوتی ہے، لوگوں کو ہتھیار چلانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آخری حل یہی ہے۔ جرمنوں میں یہود کے خلاف فائنل سلوشن کی صدا بلند کی گئی تھی۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو ہم ختم ہوجائیں گے۔
بھارت میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کس تنظیم کے افراد منظم طریقے سے حاصل کررہے ہیں، یہ بتانے اور ثابت کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ان فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دوہزار پچاس تک مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ سی اے اے نامی قانون کے ذریعے اکثریت کو یہ میسج دیدیا گیا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انھوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں، پاکستان میں آزادی کے وقت تیئیس فیصد ہندو تھے جو اب صرف تین فیصد رہ گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مشہور جرنلسٹ پرسوں واچپئ کے مطابق آر ایس ایس حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ ہندو راشٹر کا قیام اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
8- پرسیکیوشن: یعنی اقلیتی گروہ کو سب سے پہلے اکثریتی سماج سے ممتاز کردیا جاتا ہے، ان کے علاقے الگ کردیے جاتے ہیں، اپنے علاقوں میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی ہے، بلکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کی زمینیں اور جائدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں، ان کو ڈٹینشن یا کانسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیا جاتا ہے۔
بھارت میں اقلیتیں اپنے لباس اور بہت سی معاشرتی خصوصیات کی بنا پر پہلے ہی ممتاز ہیں۔ تقریبا ہر شہر میں مسلم آبادی الگ ہے۔ مسلمانوں کو اکثریتی علاقوں میں رہنے کے لیے مکانات مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ مختلف صوبوں میں ڈٹینشن کیمپس کی تعمیر جاری ہے۔ آسام میں بہت سے لوگوں کو پہلے ہی ڈٹینشن کیمپ میں ڈالا جاچکا ہے۔
9- ایکسٹرمنیشن: یعنی اس مرحلے پر آکر قتل عام شروع ہوتا ہے، جس کو عالمی قانون کی زبان میں نسل کشی کہا جاتا ہے۔ عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اس مرحلے پر فوج بھی ملیٹنٹ گروپس کے ساتھ مل جاتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کرتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
10- ڈینایل: یعنی انکار۔ عموما مندرجہ بالا تمام مراحل میں اور خصوصا نسل کشی کے بعد حکومت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی نسل کشی سر زد ہوئی ہے۔ حکومت آزادانہ انکوائری میں رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتی۔ وہ امتیازی قانون بناتی بھی ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتی ہے۔
آپ سی اے اے کو ہی دیکھ لیجیے کہ یہ واضح طور پر ایک امتیازی قانون ہے، لیکن حکومت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ دس ادوار ہمارے خود ساختہ نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کی ریسرچ کا حصہ ہیں، البتہ ہم نے بھارت کے حالات سے موازنہ کرکے کچھ اضافات ضرور کیے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ ہم ان دس ادوار میں سے کس دور میں چل رہے ہیں۔ جس طرح فاشسٹ طاقتوں کے لیے یہ صورت حال "ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کا مصداق ہے، ملک کے انصاف پسند لوگوں اور اقلیتوں کے لیے بھی "کرو یا مرو” جیسی صورت حال ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے کا ملک کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ وزیر اعظم بھی زور دیکر یہ بات کہہ چکے ہیں، تو ایسے لوگ یا تو خواب خرگوش میں گرفتار ہیں، یا اپنے پرانے کرپشن اور دنیوی مفادات کی وجہ سے "مجبور” ہیں۔ آج اگر ملک خاموش بیٹھ گیا اور این پی آر کا عمل شروع ہوگیا تو حالات آئندہ چند سالوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ ان سطور کے پڑھنے کے بعد بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن میری دعا یہی ہے کہ خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں، خدا کرے کہ میں غلط ہوں۔
ڈکٹیٹروں کے پاس طاقت اس لئے ہوتی ہے کہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے ، لیکن جب عوام خوف کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتے ہیں تو یہی حکمران حبیب جالب اور فیض کی نظموں سے بھی ڈرنے لگتے ہیں ، یہی آج اس ملک میں ہو رہا ہے، ملک کے ہر خطّے میں ، ہر چوراہے سے فیض و جالب کی نظمیں نئے سویرے کو آواز دے رہی ہیں اور حزب اختلاف کو پاکستان کا لالی پاپ تھمانے والی حکومت پریشان ہے کہ ان نعروں کی موجودگی ، تیور اور گونجتی آواز انکے ہدف کو ناکام کر رہی ہے ۔ یہ آوازیں جمہوریت اور آئین اور ملک کی سلامتی کا درس دے رہی ہیں ،ان آوازوں میں اتنی طاقت ہے کہ فسطائیت کے قلعے ڈھا جائیں، آج اردو نغمے ، اردوکی انقلابی شاعری نے وہی کام کیا ہے، جو اردو زبان نے ملک کی غلامی کے دوران کیا تھا اور فرنگی زنجیریں اس حد تک کمزور ہو گئیں کہ انگریزوں کو اس ملک سے جانا پڑا ، فرنگیوں کے بعد اب ان شر پسندوں کی باری ہے ، کہ ظلم و ستم نے صبر کے پیمانے چھلکا دیے اور جب پیمانہ چھلک گیا اور چھلکے ہوئے پیمانے سے اردو کی انقلابی شاعری کے ساتھ فیض و جالب کا جن سامنے آ گیا اور کمال حقیقت کہ کیا ہندوکیا مسلم ،اس انقلاب کو گھر گھر پہنچانے میں پورا ملک ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔
منظر ۔ پس منظر:
سیاسی پس منظر یہ کہ جنگ کا ماحول تیار کرو اور مسلمانوں کو بے دخل کرو۔ امیت شاہ ہزاروں بار ان چھ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بیان دیتے آئے ہیں بلکہ مہم بھی چلاتے آئے ہیں ۔ہم اس سیاست سے واقف ہیں کہ جنگوں کو بہانا کیوں بنایا جاتا ہے ؟دوستی اور محبت بھری باتوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کام ہم مل کر بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ملک ایک نئی صورتحال سے گزررہا ہے، فسطائیت کا غلبہ ہے، مسلم مخالف رنگ شدید ہوچکا ہے، ان کے منصوبے خطرناک ہیں، ملک ہندوستان کو شام بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ، اب یہ ملک زعفرانی ہے، مگر ان کی نظر میں۔ہم اس ملک کو زعفرانی نہیں ہونے دیں گے۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے، لیکن پہلے وہ بھی خوف زدہ تھا، اب سڑکوں پر آ کر فیض کی نظمیں گا رہا ہے ۔’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ پھر یہ آواز جالب کی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے’’ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا‘‘ انقلابی نظموں نے ثابت کیا کہ انقلاب کو سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ، جو نغمہ جالب نے پاکستان کی ضیا الحق حکومت کے لئے لکھا ، آج وہی نغمہ مودی اور امیت شاہ کی مخالفت میں گونج رہا ہے۔مسلمان ، مسلمان اور پورا ملک ایک زبان ،میری سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی ، جس کی کمر سب سے زیادہ ٹوٹے گی ، وہ مسلمان ہوں گے۔ معاشی اعتبار سے جو سب سے زیادہ ذبح کیاجائے گا، وہ بھی مسلمان ہوں گے۔ اس ملک میں آر ایس ایس کی سوچ کی پہلی منزل مسلمان ہیں۔ اور اسی لئے آر ایس ایس بار بار یہ بیان دیتی آئی ہے کہ اس ملک کے تمام مسلمان کنور ٹیڈ ہیں۔ اور یہ بیان بھی برسوں سے دیتی آئی ہے کہ اس کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں ، اسلامی فکر رکھنے والوں سے ہے۔ کیونکہ ایک دن مسلمانوں کی گھر واپسی ہوکر رہے گی۔ 2014کے بعد کے سیاسی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے ہر دوسرا دن ، پہلے دن سے زیادہ بھیانک ثابت ہوا ۔ ان چھ برسوں میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے ، فرضی انکاؤنٹر کرنے والے ، مسجدیں شہید کرنے والے ، کریمنل ریکارڈ والے تمام مجرم جیل سے بری کردیے گئے۔ اور معصوم مسلمانوں پر جیل کی سلاخیں سخت ہوگئیں۔ آسمان میں ناچتے گدھ شکاری بن گئے کہ کیسے مسلمانوں کا شکار کیاجائے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کئے جانے لگے۔مسلمان سبز اسلامی پرچم لہرائے تو وہ پاکستان کا ترنگا ہوجاتا ہے۔ہر دوسرے دن ایک بیان آر ایس ایس کے کسی نہ کسی لیڈر کی طرف سے آجاتا ہے ، جس میں صاف صاف اور کھل کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان ملک دشمن ہیں۔بار بار مسلمانوں سے یہ صفائی مانگی جاتی ہے کہ وہ محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کریں اور ثبوت کے طورپر دادری میں رہنے والے محمد اخلاق کی فریج کا مٹن ، بیف بن جاتا ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ اپنی حد میں رہنے والے ، قانون کا پاس رکھنے والے محمد اخلاق کی فریج میں رکھے مٹن کو عدلیہ بھی بیف ثابت کرنے پر تل جاتی ہےاور اخلاق اپنے گھر میں بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کردئے جاتے ہیں اور اب شہریت کے نام پر ڈیٹینشن کیمپ کا کھلا دروازہ ہے، ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کی سازش ہے، مگر درمیان میں فیض و جالب آ گئے ۔یوگی ، امیت شاہ اور مودی کا کھیل بہت حد تک بگڑ گیا، اب انھیں ملک کا اعتماد حاصل کرنے میں صدیاں لگیں گی، فسطائیت کا ہمنوا کویئی نہیں ہوتا۔میڈیا ، میڈیا اور میڈیا ،اس برس ایسا بہت کچھ ہوا ، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لیکن یہ سب کس نے کیا ؟ ان ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے ؟ کیا مرکزی حکومت کو ذمے دار ٹھہرانا صحیح ہوگا ؟ کیا کانگریس اور کمزور اپوزیشن کو ان الزامات سے بری کیا جا سکتا ہے ؟ اصل مجرم کون ہے ؟2019 کا اصل مجرم ہے ہندوستانی میڈیا ،پہلے ہماری نہ ختم ہونے والی خاموشی میڈیا کے خلاف مورچہ لینے سے گھبراتی تھی ،اب عوام سڑکوں پر ہیں،شاہین باغ سے لے کر پورے ہندوستان میں،ہندوستان کی ہربربادی ، ہر قتل و غارت کے پیچھے میڈیا ہے۔ہندوستانی جمہوریت اور آزادی کا خون اسی میڈیا نے کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں دلت ،عیسائیوں سے زیادہ بڑا خطرہ مسلمانوں کو ہے ۔آزادی کے بعد سکھ ،جین ،عیسای مذہب کے پیروکار بہت حد تک ہندو مذہب میں ضم ہو چکے ہیں۔آر ایس ایس لابی بار بار مسلمانوں کی گھر واپسی کا اعلان کر رہی ہے۔میڈیا ایسے نعروں کو فروغ دے رہی ہے۔ آج ہندی اور انگریزی کے نناوے فیصد اخبارات حکومت کی اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انڈیا ٹوڈے جیسی نیشنل میگزین نے اپنا وقار کھو دیا،تمام چینلس حکومت کی زبان بولنے لگے۔نیوز اینکر سڑکوں چوراہوں پر انٹرویو لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اشتہار بازی کی مہم میں جٹ گئے،پرائم ٹائم کے تمام نیوز پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف عام اکثریت کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی ،یہ پہلے نہیں ہوا،دنیا کے کسی بھی میڈیا نے کسی بھی ملک میں غدارانہ اور دہشت گردانہ تیور نہیں اپنایا ۔امر یکہ اور برٹین میں بھی میڈیا کی آزادی فروخت نہیں ہوئی۔ میڈیا کا کام حکومت پر تنقیدکرنا ہے ،ملک میں توازن پیدا کرنا ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی جو بھی بربادی ہوئی ، جو بھی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں ،انکے پیچھے یہی میڈیا ہے،یہ میڈیا اب بھی اپنی دہشت گردیوں میں مصروف ہے۔یہ حقیقت ہے کہ نفسیاتی سطح پر بھی اب میڈیا خوف کے انجکشن لگا رہا ہے۔ میڈیا آہستہ آہستہ ایسے خوفناک راکشس میں تبدیل ہو چکا ہے کہ ٹی وی چینلس کی خبریں سنتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔اس ملک میں اب اصل بغاوت میڈیا کے خلاف ہونی چاہیے اور یہ شروعات بھی ہو چکی ہے،جھارکھنڈ شکست کے بعد میڈیا کی خاموشی بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے، حقیقت کہ ابھی 2024 تک میڈیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن یہ بھی عام تبدیلی نہیں کہ اس وقت ہندوستان جاگ چکا ہے ،فیض و جالب کے نغموں کا طوفان اُبل رہا ہے اور حکومت حیران کہ پانسہ تو صحیح چلا تھا ،نشانہ کیوں نہیں لگا ،عوام بیدار ہوں، تو شر پسندوں کا ہر نشانہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔
نئی دہلی:شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ لیکن دہلی کے شاہین باغ علاقے میں اس قانون کے خلاف جاری احتجاج انوکھا ہے۔جب عزم مستحکم اورجواں ہوتونہ سردی کی پرواہوتی ہے اورنہ عمرکی،متنازعہ ایکٹ کے خلاف ایساہی معاملہ دیکھنے کوآرہاہے ـ جہاں عزم وہمت کے پہاڑنوجوان ڈٹے ہوئے ہیں وہیں سردراتوں میں بزرگ خواتین بھی جمی ہوئی ہیں جواس عزم کااظہار کررہی ہیں کہ ہم کاغذنہیں دکھائیں گے،این آرسی ملک کے غریبوں کے خلاف ہے،سی اے اےدستورکے خلاف اورملک کوتقسیم کرنے والاہے۔سترسال سے زائدکی عمرکی خواتین کاکہناہے کہ ایکٹ کی واپسی تک احتجاج جاری رہے گا۔ شاہین باغ کے مظاہروں کی قیادت شاہین باغ اور جامعہ نگر میں رہنے والی خواتین کر رہی ہیں اور سخت سردی کے باوجود پچھلے 15 بیس دنوں سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان میں تین ایسی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں، جواپنی طرف سب کی توجہ مبذول کروا رہی ہیں اورسوشل میڈیاسے لے کرنیشنل میڈیاتک میں ان جے چرچے ہورہےہیں ۔اسماء خاتون 90 سال کی ہیں۔ بلقیس کی عمر 82 سال ہے اور سروری کی عمر 75 سال ہے۔ جب تین بزرگ خواتین سے ان کے مکمل نام پوچھے گئے تو انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہاکہ ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمارے پاس دستاویزات موجودنہیں ہیں۔ یہ ہمارے خلاف ہوسکتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ احتجاج میں حصہ لینے والی یہ تینوں بزرگ خواتین ا ب شاہین باغ کی دادی کے نام سے مشہور ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں،تینوں دادیوں نے بتایا کہ وہ احتجاج میں کیوں حصہ لے رہی ہیں۔تین بزرگوں میں سب سے بڑی اسماء خاتون کاکہناہے کہ مودی سے پوچھیں کہ ہم کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسا دن کیوں دیکھنا پڑا۔مجھے مظاہرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ہوں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں یہ قانون واپس کراناچاہتی ہیں تو اسماء خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ہم سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات دکھانے کوکہتے ہیں۔اس ملک میں بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے۔ سیلاب اور بارش سے بہت سارے لوگوں کےدستاویزات بہہ گئے۔ وہ کاغذ کہاں سے لائیں گے؟ میں مودی کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ اپنی 7 پشتوں کا نام لیں۔ میں آپ کواپنی نوپشتوں کانام بتاؤں گی۔تاہم، سی اے اے کی حمایت میں مظاہروں کے سوال پر، انہوں نے کہاہے کہ جولوگ اس قانون کو بخوبی نہیں جانتے، وہ اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔صرف مسلمان ہی مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ 75 سالہ سرووری کا کہنا ہے کہ ہم یہاں پیدا ہوئے اور یہیں مرنا چاہتے ہیں۔میں کوئی کاغذ نہیں دکھاؤں گی۔ یہ قانون ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے جو دستاویزات ظاہر نہیں کرسکتے ہیں۔میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔جب ان تینوں دادیوں سے پوچھا گیا کہ وہ کب تک یہ کام انجام دیتی رہیں گی تو وہ کہتی ہیں کہ ہمیں سردی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں سب کا تعاون حاصل ہو رہا ہے اورقانون واپس ہونے تک احتجاج جاری رہےگاـ
https://youtu.be/8_hAAJp-zD0