نئی دہلی:نیوز برانڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (این بی اے) نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ دو ملیالم نیوز چینلز کوبین کرنے کا فیصلہ وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کی معلومات کے بغیر لیا گیا۔ادارے نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔این بی اے کے صدر رجت شرما نے ایک بیان میں کیرالہ کے دو چینلز ’ایشیانیٹ نیوز‘ اور’میڈیا ون نیوز‘ پر 48 گھنٹے کی روک لگانے کے اطلاعات و نشریات کی وزارت کے فیصلے کی مذمت کی۔شرما نے کہا کہ این بی اے اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اظہار کئے گئے خدشات کی تعریف کرتا ہے جس کے بعد دونوں چینلوں پر سے روک کو واپس لیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ این بی اے مطالبہ کرتا ہے کہ وزیر اس بات کی جانچ کروائیں کہ ان کی منظوری کے بغیر نیوز چینلز نشر یات روکنے کا حکم کس طرح جاری کیا گیا۔اس میں کہا گیا ہے کہ این بی اے چاہتا ہے کہ جانچ رپورٹ اس کے ساتھ شیئر کی جائے۔این بی اے کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اے کے سیکری ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں گزشتہ ماہ ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی کوریج کے دوران ایک کمیونٹی کی حمایت اور پولیس کو لے کر تنقیدی رویہ اختیار کرنے کے الزام میں دو اہم ملیالم چینلز پر 48 گھنٹے کی پابندی لگا دی گئی تھی جس کے نافذ ہونے کے کچھ گھنٹے بعد ہی مرکزی حکومت نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔جاوڑیکر نے ہفتے کو کہا تھا کہ مودی نے پورے واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت میڈیا کی آزادی کی حمایت کرتی ہے۔
news
پرینکا گاندھی کا پی ایم مودی پر نشانہ، کہا وارانسی میں 365 دن میں سے 359 دن لگی دفعہ 144
وارانسی:کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے وزیر اعظم نریندر مودی پر نشانہ لگایا ہے۔پرینکا گاندھی نے جمعرات کو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سال 2019 میں وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں 365 میں سے 359 دن دفعہ 144 لگائی گئی اور پی ایم لوگوں سے کہتے ہیں کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ایک انگریزی ویب سائٹ کی خبر کا لنک شیئر کرتے ہوئے لکھاکہ پی ایم مودی کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں سال 2019 میں 365 دن میں 359 دن دفعہ 144 نافذ رہی اور پی ایم مودی لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دراصل، انگریزی ویب سائٹ کو بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ وارانسی کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں، یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔بتا دیں کہ ابھی حال ہی میں بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے کانووکیشن میں ایک طالب علم نے اپنی ڈگری اس لئے لینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے دوسرے ساتھی شہریت ترمیم قانون کے احتجاج کے دوران گرفتار کر لئے گئے ہیں۔بتا دیں کہ، شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف ملک کے کئی حصوں میں احتجاج ہوئے تھے،کئی جگہ مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔اتر پردیش، گجرات، دہلی، کرناٹک، مغربی بنگال، آسام کے ساتھ ہی بہار میں بھی اس پر زبردست احتجاج دیکھنے کو ملا تھا۔اتر پردیش اور دہلی میں تو مظاہروں نے پرتشددشکل لے لی تھی،جس کے بعد قانون نظام کو برقرار رکھنے کے لئے دفعہ 144 لگائی گئی تھی۔بتا دیں کہ، سی اے اے اور این آرسی کے خلاف گزشتہ دنوں اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سمیت ریاست کے کئی اضلاع میں تشدد مظاہرے ہوئے تھے۔یوپی میں مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد میں اتر پردیش میں تقریبا 15 لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔اپوزیشن پارٹیاں اس قانون کے پاس ہونے کے بعد سے حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔.
دہلی:آج دنیا ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس انقلاب کے پیچھے جدید ٹکنالوجی کا اہم کردار ہے، جس میں سرفہرست زبان کی رسائی ہے۔روز مرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے زبان ایک اہم ذریعہ ہے۔ اردو زبان کے لفظوں میں حویلیوں، محلوں،، جھگیوں، جھونپڑیوں کا درد یکساں ہے، یہ زبان دل و دماغ میں موجزن خیالات کی تصویر کشی کرتی ہے یہی سبب ہے کہ یہ سرحدوں سے آزاد ہے۔ اس زبان کے الفاظ دنیا کی سبھی زبانوں میں اپنی تاثیر کے باعث جگہ بنا رہے ہیں۔ گویا اردو کا رشتہ عالمی سطح پر قائم ہو چکا ہے۔ اس لیے آئندہ 26-28، فروری2020 کو عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد بہ موضوع ’ہندوستانی اور بیرونی زبانوں سے اردو کا لسانی و ادبی رشتہ‘ ہوگا۔
17/دسمبر2019بروز منگل، قومی اردو کونسل کے صدر دفتر جسولہ میں سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کے اہتمام کے سلسلے میں میٹنگ میں ان خیالات کا اظہار پروفیسر شاہد اختر کی صدارت میں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے کیا۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پچھلی چھ کانفرنسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی کانفرنسوں کے موضوعات میں قدرے یکسانیت تھی۔ لہٰذا ساتویں عالمی کانفرنس کا موضوع ایسا متعین کیا جائے جس سے زبانوں کے عالمی رشتے پر روشنی پڑے۔اردو زبان کی تشکیل میں السنہئ عالم کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پانچ ذیلی عنوانات طے کیے، جس کا احاطہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالے کریں گے جو درج ذیل ہیں۔
.1 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کا تاریخی پس منظر
.2 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کی نوعیت
.3 اردو اور دیگر زبانوں پر مرتب ہونے والے لسانی و ادبی اثرات کی توضیحات
.4 اردو اور دیگر زبانوں پر سیاسی، سماجی اور معاشرتی اثرات سے بدلتے لسانی و ادبی رشتے
.5 اردو اور دیگر زبانوں کے درمیان لسانی و ادبی رشتوں کا مستقبل
کانفرنس میں ہندوستان کی تمام ریاستوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے دانشوروں، ناقدین اور ماہرین لسانیات کی شرکت متوقع ہے۔
ممبران کمیٹی کے مشوروں سے موضوع کی تعیین عمل میں آئی۔ نیز متوقع مندوبین کی فہرست تیار کی گئی۔ میٹنگ میں شریک ممبران میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر مظفر علی شہ میری، پروفیسر کمل کشور گوئنکا،پروفیسر محمد اسد الدین، پروفیسر محمد شبیر،ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد، ڈاکٹر فضل الرحمن، ڈاکٹر مسرور احمد بیگ، کونسل کے ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ،ڈاکٹر انوار الحق، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر شاہد اختر اور ڈاکٹر عبد الرشید اعظمی نے شرکت کی۔
نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی اسکولوں کے طلباء و طالبات میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور ان میں مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر سال تعلیمی مقابلے منعقد کرتی ہے۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلباء و طالبات کو انعام دیتی ہے اور بچوں کی ہمت افزائی کے لیے کنسولیشن انعام بھی دیتی ہے۔ ان مقابلوں میں تقریری، فی البدیہہ تقریری، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز(سوال و جواب)، مضمون نویسی و خطوط نویسی، خوشخطی مقابلے اور امنگ پینٹنگ مقابلہ شامل ہیں۔ یہ تعلیمی مقابلے دہلی کے پرائمری تا سینئر سیکنڈری اردو اسکولوں کے طلباء و طالبات کے درمیان منعقد ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مقابلے 13/دسمبر تک جاری رہیں گے۔
آج صبح دس بجے اکادمی کے لان میں امنگ فی الفور پینٹنگ مقابلہ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مقابلہ تین زمروں پر مشتمل تھا۔ پرائمری (دوسری جماعت سے پانچویں جماعت کے طلبا و طالبات)، مڈل (چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت کے طلبا و طالبات) اورسیکنڈری و سینئر سیکنڈری زمرہ(نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبا و طالبات)۔ اس مقابلے میں تقریباً 72 اسکولوں سے 430 طلبا و طالبات نے حصہ لیا۔ پینٹنگ کے لیے طلبا و طالبات کو اسی وقت عنوانات دیے گئے تھے جن پر انھیں پینٹنگ بنانی تھی۔
دوپہر تین بجے سوال و جواب (کوئز) مقابلہ برائے سیکنڈری و سینئر سیکنڈری زمرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں 14 اسکولوں سے 50 طلبا و طالبات نے حصہ لیا۔ مقابلے کے کوئز ماسٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر شمیم احمد اور ریشماں فاروقی نے شرکت کی۔ اس مقابلے میں ہمدرد پبلک اسکول، سنگم وہار، جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور رابعہ گرلز پبلک اسکول کی ٹیم کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔دوسرے انعام کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین میموریل سینئر سیکنڈری اسکول، جعفرآباد کی ٹیم کو مستحق قرار دیا گیا جب کہ تیسرے انعام کے لیے شفیق میموریل سینئر سیکنڈری اسکول، باڑا ہندوراؤ کی ٹیم کو مستحق قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ گورنمنٹ سروودیہ کنیا ودیالیہ، نور نگر اور اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ کی ٹیم کو حوصلہ افزائی انعامات کے لیے مستحق قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم خان
شہریت ترمیمی بل کو کابینہ نے پہلے ہی منظوری نے دے دی تھی اور اب وہ ایوان زیریں میں بھی منظور ہوگیا ۔ وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو تلقین کی تھی کہ وہ دہلی میں رہیں کسی بھی وقت اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی نے جس طرح بغیر اعلان کے چوری چھپے اس کو اچانک ایوان زیریں میں پیش کرکے منظور کروالیا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایوان بالا میں بھی علاقائی جماعتوں کے تعاون سے اسےجلد ہی پاس کرا لیا جائے۔ اس قانون کے تحت پڑوس کے مسلم ممالک میں بسنے والے غیر مسلموں کو ہندوستانی شہریت دینے کی گنجائش نکالی گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہاں ان پر ظلم ہوتا ہے۔ اس موضوع کو زیر بحث لاکر نادانستہ طور پر حکومتِ ہند نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے؛ کیونکہ جتنے مظالم ہندوستان کے اندر اقلیتوں پر ہوتے ہیں ،شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتے ہوں۔ وزیرداخلہ کے منہ پر ہجومی تشدد کا ذکرکرکے راہل بجاج نے اس کا اعتراف کردیا ہے ۔ یہ عجیب دوہرا معیار ہے کہ ہندوستان کے اندر اقلیتوں پر مظالم کی جب بات ہوتی ہے، توحکومت اس کو داخلی معاملہ کہہ کر رفع دفع کردیتی ہے؛ لیکن دوسرے ممالک کا یہی مسئلہ عالمی بن جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقل مکانی کسی تعذیب کے چلتے نہیں ؛بلکہ معاشی خوشحالی کی خاطر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز سے مشرق وسطیٰ ، مشرق بعید ، آسٹریلیا ، یوروپ اور امریکہ میں جاکر بسنے والے ہندوستانیوں کی تعداد تین کروڈ دس لاکھ ہے۔ دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہندوستان چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ہندو باشندوں کی ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت پڑوسی ممالک سے لوگوں کو یہاں لاکر بسانے کی سعی کررہی ہے؛ لیکن آئے گا کون ؟ ہندوستان سے باہر جانے والوں کی سب سے بڑی تعداد 44لاکھ 20 ہزار امریکہ میں ہے ؛لیکن سعودی عرب میں بھی اکتالیس لاکھ ہندوستانی ہیں۔متحدہ عرب امارات میں اکتیس لاکھ اور ملیشیا میں تقریباً تیس لاکھ ہیں۔ ان کے درمیان مودی جی لمبی لمبی ہانکتے ہیں؛ لیکن انہیں وطن واپسی کے لیے نہیں کہتے ۔ وزارت خارجہ کے مطابق گیارہ لاکھ ہندوستانی تو پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور پانچ لاکھ بنگلا دیش میں رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو واپس آنے کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ؛اس لیے امیت شاہ اگر انہیں کو واپس لاکر بتائیں تو وہ ان کا بڑا کارنامہ ہوگا۔ دنیا کے کچھ ممالک میں شہریت حاصل کرنا مشکل اور کہیں پر ناممکن ہے۔ یوروپ وامریکہ میں شہریت مل تو جاتی ہے؛ لیکن اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ۔ہندوستانی شہری ہنسی خوشی ساری صعوبتیں برداشت کرکے وہاں کی شہریت اختیار کرکے اپنی ہندوستانی شہریت چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہند پڑوس کے ممالک میں رہنے والے غیر مسلموں کو شہریت سے نواز رہی ہے اور دوسری طرف خود اپنے ملک کے ہندو بڑی تعداد میں ہندوستانی شہریت چھوڑ کر غیر ملکی بن رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کسی کو شہریت نہیں دی جاتی؛ لیکن مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق بھی نہیں ہوتی ؛ البتہ اگر وہ پابندی اٹھ جائے، تو وہاں برسرِ روزگار لاکھوں ہندو باشندے برضا و رغبت اپنی ہندوستانی شہریت کو تیاگ کر ان مسلم ممالک کے شہری بن جائیں گے ۔ اس لیے شاہ جی یہ شہریت کا لالی پاپ دکھا کر اپنے بھکتوں کے سوا کسی کو بہلا نہیں سکتے ۔ 2014کی انتخابی مہم کے دوران مودی جی اعلان کیا کرتے تھے کہ ہم اقتدار میں آئیں گے/ توبرین ڈرین (brain drain) نہیں بلکہ برین گین (brain gain) ہوگا۔ دوسروں کے سجھائے ہوئے مکالموں پر اداکاری کرنا بہت آسان ہوتا ہےَ لیکن ان کو سمجھنا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر محنت و مشقت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مودی جی غالباً وہ نعرہ پوری طرح بھول چکے ہیں؛ اس لیے اب اگر ان سے ’برین ڈرین‘ کے بارے میں پوچھا جائے، تو ان کا برین کام نہیں کرے گا۔ ہندوستان کی اعلیٰ تعلیم گاہوں سے نکل کر یوروپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا ہمیشہ ہی باعثِ فخر سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہاں جانے والے شاذونادر ہی واپس آتے ہیں ۔ ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ کی چشم کشا مثال سب کے سامنے ہے۔ڈاکٹر کھرانہ 1945میں ملتان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ گئے اور 1948میں دہلی لوٹے،تو انہیں ملازمت نہیں ملی ۔ وہ دوبارہ باہر گئے اور 1966میں امریکی شہریت لینے کے بعد 1968 میں نوبل انعام حاصل کیا۔ مودی جی اس کے لیے پنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں؛ لیکن ابھیجیت بنرجی نے تو مودی جی کے اقتدار میں آنے کے پانچ سال بعد معاشیات میں نوبل انعام جیتا ہے۔ وہ اگر امریکہ میں جاکر زکر برگ کے بجائے بنرجی سے ملتے اور میڈیسن اسکوائر میں تماشہ کرنے کے بجائے ان کو اپنے ساتھ ہندوستان لاتے ،تو ان کے ساتھ ایک نوبل پرائز بھی آتا؛ لیکن جے این یو والوں سے تو سنگھ کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ ان کے بس میں ہوتو اپنے سارے مخالفین کو شہریت سے محروم کرکے پاکستان بھیج دیں ۔ اپنے شہریوں کوروزوشب پاکستان بھیجنے دھمکی دینے والے جب باہر والوں کو شہریت دینے کی بات کرتے ہیں ،تو ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے ۔ شہریت ترمیمی بل کے طلسم سے نکل کر جب ہندوستان کے عوام اس کی حقیقت سے روشناس ہوں گے، تو ان کو فریب دینے والے سیاستدانوں سے شہریت نہ سہی ، اقتدار ضرور چھین لیں گے؛کیونکہ خزانہ خالی ہونے کے سبب سرکار سی اے بی کا لالی پاپ پکڑا کر اسکولی تعلیم کے بجٹ میں تین ہزار کروڑ کی کٹوتی کرنے جارہی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں لوگ ایک ملک سے دوسرے مقام پر معاشی خوشحالی کے لیے ہجرت کرتے ہیں ،تو اس بات کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری معیشت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے ۔ حکومت یا بھکتوں کے علاوہ کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ فی زمانہ ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے ۔ بی جے پی رکن پارلیمان ڈاکٹر سبرامنین سوامی ہارورڈیونیورسٹی سے نوبل انعام یافتہ ماہرین معاشیات کے تحت ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں معلم کی ذمے داری بھی ادا کرچکے ہیں ۔ ڈاکٹر سوامی نےملک کی معیشت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہےکہ 2014میں یہ حکومت جن تین بنیادوں پر قائم ہوئی، ان میں سے اول ہندوتوا کا فروغ تھا، دوسرے بدعنوانی کا خاتمہ اور تیسرے خوشحالی یا ترقی۔ ان کے مطابق ہندوتوا کے علاوہ باقی دو معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ جہاں تک’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا تعلق ہے،اس نعرے کو دریا برد کردیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 2019ے بعد اس نعرے کو’سب کے ساتھ سب کا وناش ‘ میں تبدیل کردینا چاہیے۔ جس ملک کے اندر وکاس کے بجائے وناش کا بول بالا ہو، وہاں بھلا باہر سے کون آکر بسے گا؟