نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
Nayab hasan
ترجمہ:نایاب حسن
ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری(Gregory Currie)نے نیو یارک ٹائمس میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛کیوںکہ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائے یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے‘‘۔
حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔یارک یونیورسٹی،کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار( Raymond Mar) اورٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley)نے2006اور2009میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی،جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں،وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں،ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریےسے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں،وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔2010میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں،ان کے مطابق:ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں،ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔
مطالعے کی ایک قسم ہے ،جسےDeep readingیا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں،اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading)کی اصطلاح کااستعمال ہوتا ہے،جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ ؍ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہناہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جارہاہے اور اسے خطرات لاحق ہیں ، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے،جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آنلائن نشوو نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا؛بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز؛مثلاً ناول،شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے،جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں،جن کے اندرخاص طورپر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
دماغی سائنس،نفسیات اور نیوروسائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے،کتاب میں ڈوب کرکیا جاتاہے اور جومحسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتاہے)ایک منفرد تجربہ اور اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طورپر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے،مطبوعہ صفحات میں فطری طورپر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے،جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طورپر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے(کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟)اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔
یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سےمربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات،تلمیحات و استعارات سے مالامال زبان سے معاملہ کرتا ہے بایں طورکہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے،جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظرحقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جوکہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں،وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں،وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات وتحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں ،مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا؍پڑھنا دونوں میں تجربے،نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سےبہت فرق ہے۔بہت سی ایسی دلیلیں ہیں،جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا،جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔مثال کے طورپر مئی2013میں برطانیہ کے نیشنل لٹریسی ٹرسٹ نے آٹھ سے سولہ سال کے درمیان کے34910بچوں کے تحقیقی جائزے پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی،جس میں ریسرچرز نے بتایا تھا کہ39فیصد بچے اپنے گھروں میں الیکٹرانک آلات کے واسطے سے پڑھتے ہیں اور صرف28فیصد بچے مطبوعہ کتابیں پڑھتے ہیں،مگر آن سکرین پڑھنے والے مطالعہ کو انجواے کرنے میںتین گنا کم تھے،اسی طرح ایسے ایک تہائی بچوں کی کوئی پسندیدہ کتاب نہیں تھی۔اس جائزے میں یہ بھی پایا گیا کہ جو بچے یا نوجوان روزانہ صرف آن سکرین پڑھتے ہیں،ان کے مطالعے کا تناسب ان لوگوں سے تقریباً دو گنا کم ہوتا ہے جو روز مطبوعہ کتابیں پڑھتے ہیں یا مطبوعہ کتابوں کے ساتھ آن سکرین بھی پڑھتے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ نئی نسل کس طرح مطالعہ کرتی ہےیہ جاننا مفید ہوگا کہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے طورطریقے اور صلاحیت کی نشوونمود کس طرح ہوئیہے۔امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعات و لسانی تحقیق کی سابق ڈائریکٹراور انسانی ذہن کے مطالعے پر متعدد کتابوں کی مصنفہ ماریانا وولف(Maryanne Wolf)نے لکھاہے کہ’’انسان کے اندر پیدایشی طورپر پڑھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘‘۔ اس کے برخلاف اس کے اندر سمجھنے اور بولی جانے والی زبان کی تخلیق کی صلاحیت ہوتی ہے،جو ہماری جینز کی ہدایت کے مطابق عام حالات میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور پڑھنے کی صلاحیت لازمی طورپر ہر انسان کو ذاتی محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کرنا ہوتی ہے۔ہم دماغ کے جن اجزا کو مطالعاتی گروپ کے طورپر استعمال کرتے ہیں،وہ دراصل دوسرے مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس گروپ؍اجزا کا طاقت ور یا کمزور ہونا اس پر منحصر ہے کہ ہم اسے کتنی بار اور کتنی قوت سے استعمال کرتے ہیں۔
گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اوروہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے،پھردورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘سے تعبیر کیاہے۔نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتاہے ،تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے۔الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کوتحلیل و تجزیہ ،چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے،جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں ۔
یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ(Frank Kermode) نے’’جسمانی مطالعہ ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘کے ذریعے بیان کیاہے۔اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق وممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا،تو ہم انھیںایک لطف انگیز و مسرور کن تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطورانسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اورکسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اوران کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتےہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے، اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے،ایسی جگہیں، جہاں وہ محضـ’’گہرے مطالعے‘‘کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔
(اوریجنل مضمون دی ٹائم میگزین میں شائع ہوا ہے)
مولانا انظر شاہ کشمیری کی اس کتاب کے صرف نام میں ہی کشش نہیں ہے، اس کے درون میں بھی صاحبِ ذوق قاری کی تسکین کا وافر سامان ہےـ اس کتاب میں یوں تو جن علما، دانشوران اور سیاست دانوں کے خاکے کھینچے گئے ہیں، ان پر لکھنے والوں نے بہت لکھا ہے، مگر انظرشاہ صاحب کی بات ہی کچھ اور ہےـ مولانا کے اسلوب میں زبردست دل آویزی ہے، ان کی سلسبیلی نثر قاری پر جادو کرتی ہے، اس کے حواس پر چھا جاتی ہے، اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہےـ ان کے اسلوب میں ندرت بھی ہے اور جدت بھی، وہ ایک عالمِ دین اور شیخ الحدیث ہیں مگر ان کا اندازِ تحریر بڑے بڑے صاحبِ اسلوب لکھاریوں سے آنکھ ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے، ان کی زبان میں روانی ایسی ہے کہ قاری ان کے الفاظ کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے، ان کی تحریر میں جاہ وجلال بھی ہے اور جمال و کمال بھی ہےـ ان کی قوتِ تخیل میں رعنائی ہے اور قوتِ تحریر میں زیبائی،جس طرح ان کی خطابت اپنے دور میں ممتاز تھی، بالکل اسی طرح ان کے انشا میں بھی تمیز و تفوق کے دسیوں پہلو ہیں ـ معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے مولانا انظر شاہ کشمیری کی نثر کے امتیازی اوصاف کی نشان دہی یوں کی ہے:
"انظر شاہ کشمیری کی نثر میں طلسسمی کیفیت ہےـ اردو میں ایسی پُردَم اور بلند آہنگ نثر لکھنے والے کم ہیں، جن کے جملوں کے زیر و بم اور موسیقیت سے وہ اذہان بھی متاثر ہوتے ہیں، جو لفظوں کے معانی و مفاہیم تک رسائی سے قاصر رہتے ہیں ـ ان کی نثر کی رمزیت اور اسراریت میں وہ کیفیت ہے کہ قاری اس کے سحر سے نہیں نکل پاتا اور اس کا ذہنی وجود نثر کی موجِ رواں میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے "ـ
(دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، ص: 78)
خصوصا خاکہ نگاری و سوانح نویسی میں ان کے قلم کی روانی اور اسلوب کی دلکشی کچھ زیادہ ہی اوج پر ہوتی ہےـ اس سلسلے کی باقاعدہ ان کی دو کتابیں ہیں: ایک "نقشِ دوام "ہے جس میں انھوں نے اپنے والد اور ہندوستان کے ممتاز محدث علامہ انور شاہ کشمیری کی سوانح دلچسپ و دلنشیں انداز میں لکھی ہے اور دوسری "لالہ وگل "ہے جو پہلی بار سن دوہزار میں شائع ہوئی تھی اور اس میں کل ستر خاکے تھے، انہتر بڑے انسانوں کے اور ایک خاکہ خطۂ کشمیر کا، جہاں سے ان کا آبائی تعلق تھا، اس جنتِ ارضی کی ایسی جمال انگیز صورت گری کی ہے کہ تھوڑی دیر کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں وادیِ کشمیر کی سیر کررہے ہیں ـ
ایک عرصے کے بعد اب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بڑی جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظرِ عام پر آیا ہےـ پہلے ایڈیشن کے مقابلے اس کا امتیاز ایک تو اس کے ظاہری سراپا کا حسن و جمال ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں مرتبِ کتاب نے ان سوانحی مضامین کو بھی شامل کر دیا ہے، جو مولانا نے سن دوہزار کے بعد سے دوہزار آٹھ میں اپنی وفات تک اپنے رسالے "محدثِ عصر "کے وفیات کے کالم میں لکھے، ایسے بائیس لوگوں کے خاکے اور ان پر تاثراتی مضامین کا اس ایڈیشن میں اضافہ کردیا گیا ہے، "ضمیمہ "کے تحت بھی سات آٹھ ان سوانحی مضامین کو شامل کیا گیا ہے، جو مختلف تقریبوں سے متعدد رسائل و مجلات میں لکھے گئےـ الغرض یہ کتاب اب کی بار پہلے سے زیادہ جامع اور خوب صورت انداز میں چھپی ہےـ
مولانا کے اسلوبِ تحریر اور اس کتاب کی تعریف میں اتنا کچھ لکھے جانے کے بعد الگ سے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ ہر علم دوست، کتاب بینی کے شائق اور باذوق افراد کے مطالعے کی میز پر اس کتاب کا ہونا کتنا ضروری اور مفید ہوگا! کتاب بیت الحکمت، دیوبند سے شائع ہوئی ہے اور وہاں کے تمام کتب خانوں میں مل جائے گی، دیوبند کے باہرمنگوانا چاہیں، تو بذریعہ فون اس نمبر 8006075484 پر رابطہ کر سکتے ہیں ـ
(استاذِ محترم کی یاد میں)
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انسان تھے اور خدا نے ان کی شخصیت میں کیسی دلکشی رکھ دی تھی! مفتی صاحب ہندوستان؛ بلکہ دنیا کے ایسے چیدہ و خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنھیں کم و بیش نصف صدی تک مسلسل علمِ حدیث کی تدریس کا موقع ملا اور انھوں نے ہزارہا طالبانِ علومِ نبوت کی علمی تشنگی بجھائی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں ان منتخب ترین اساتذہ میں سے ایک تھے جنھیں تمام طلبہ کے درمیان یکساں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی اور اس کی وجہ صرف ان کا تدریسی کمال،افہام و تفہیم کا اثر انگیز انداز اور پڑھانے کا ایسا دلنشیں طَور تھا،جو شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ لگ بھگ گیارہ سال قبل جب ہم وہاں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے ،تب اس جماعت میں کم و بیش آٹھ سو طلبہ ہوتے تھے،اسی سال انھیں صحیح بخاری کی تدریس کی ذ مے داری ملی تھی،سنن ترمذی وہ پہلے سے پڑھا رہے تھے۔ دوسرے اساتذہ کے گھنٹوں میں عموماً آدھی یا دو تہائی درس گاہ خالی ہوتی تھی ،مگر مفتی صاحب کی کلاس میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی،جو طلبہ کلاس میں ان کی آمد کے بعد پہنچتے وہ عموماً آدھے اندر اور آدھے باہر رہ کر سبق سنتے۔ ان سے استفادے کے لیے دیوبند کی دوسری درسگاہوں کے طلبہ بھی جوق در جوق آتے تھے۔ جب حدیث کی عبارت خوانی ہوتی اوراس کے بعد مفتی صاحب کی تقریر شروع ہوتی ،تو ایک عجیب ہی سماں ہوتا،دلکش و سحرانگیز و دلنشیں ،ہر طالب علم سراپا سماعت بن جاتا،مکمل ذہنی و جسمانی حاضری کے ساتھ سبق سنتا۔ وہ ایسے استاذ تھے کہ ان کے سبق میں شاید ہی کوئی طالب علم ذہنی غیاب کا شکار ہوتا ہوگا،ان کے اسلوبِ کلام اور اندازِ بیان میں ایک مقناطیسیت تھی،جو طالب علموں کو ہمہ تن اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی۔ مفتی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھاتے ہوئے اپنا ارتکاز موضوع پر رکھتے اور اس کی تفہیم میں تمام متعلقہ دلائل و براہین کو اس خوب صورتی اور منطقی ترتیب سے بیان کرتے کہ طالب علم عش عش کرنے لگتا۔ کم و بیش تیس پینتیس سال تک انھوں نے فضیلت (دورۂ حدیث شریف) کی اہم کتاب سنن ترمذی کا درس دیا اور 2009سے تاحیات صحیح بخاری بھی ان کے زیر درس رہی۔
ان کی ظاہری شخصیت میں بھی مخصوص نوع کی وجاہت تھی،جو ایک محدث کے شایانِ شان ہوتی ہے۔ سادگی و بے تکلفی ہوتی ،مگر اس میں کشش ایسی کہ دل و نگاہ کو اپنا اسیر بنالے۔ اپنے گھر سے دارالعلوم تک کی مسافت عموماً رکشے سے طے کرتے،صددروازے سے دارالعلوم میں داخل ہوتے،احاطۂ مولسری میں پہنچ کر دوتین بار کلی کرتے،چوں کہ وہ پان کھانے کے عادی تھے تو تدریسِ حدیث سے قبل اہتمام سے کلی ضرور کرتے،پھر درس گاہ (دارالحدیث )میں داخل ہوتے،مسندِ تدریس پر بیٹھتے،ایک طالب علم بلند و خوش الحان آواز میں حدیث پاک کی عبارت پڑھتا،اس کے بعد اس حدیث پر مفتی صاحب کی گفتگو ہوتی۔ میں یہ سطور لکھتے ہوئے اس لذت کوپھر سے محسوس کر رہاہوں ،جس سے ان کے در س میں ہم لطف اندوز ہو تے تھے۔ مفتی صاحب پڑھاتے نہیں تھے،جادو کرتے تھے،طالب علم اور سامع کے حواس پر چھا جاتے تھے ،وہ بولتے نہیں تھے موتی رولتے تھے،ان کی نگہ دلنواز تھی اور ادا دلفریب،ان کی امیدیں قلیل تھیں اور مقاصد جلیل،وہ اقبال کی تعبیر ’’نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو‘‘ کی نہایت ہی تابناک مثال تھے۔
جب ہم دورۂ حدیث شریف میں تھے ، تو ششماہی امتحان میں ترمذی و بخاری میں پچاس پچاس نمبرات (تب دارالعلوم میں کل نمبرات پچاس ہوا کرتے تھے)حاصل کرنے والوں کی مفتی صاحب نے خصوصی حوصلہ افزائی کی اور ایسے طلبہ چند ایک ہی تھے۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے ایک میں بھی تھا،مفتی صاحب نے ایسے سب طالب علموں کو بعد نماز عصر اپنے گھر بلاکر دعائیں دیں ،تحسین آمیز کلمات سے نوازا،حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سنن ترمذی کی شرح عنایت فرمائی۔ انھیں یہ شکایت رہتی تھی کہ اب طلبہ محنت نہیں کرتے اور اس کا وہ ہمیشہ اپنی کلاسوں میں اظہار کرتے۔ پرانے محدثین و علما اور خود دارالعلوم کے اساتذۂ متقدمین کے واقعات و حالاتِ زندگی سے چیدہ چیدہ واقعات سناتے اور طلبہ کو مہمیز کرتے۔ وہ طلبہ و اساتذہ کے راست تعلق اور رابطے پر زور دیتے تھے؛تاکہ افادہ و استفادہ کا عمل تیز اور نتیجہ خیز ہو؛ اس لیے ہم نے ہمیشہ ان کی زبان سے سنا کہ ایک ایک جماعت میں کئی کئی سو طلبہ کا ہونا درس و تدریس کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے،مگر پھروہ یہ بھی کہتے کہ چوں کہ دارالعلوم کو اس کے معیار کے مطابق اساتذہ نہیں ملتے،اس وجہ سے مجبوری میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو دورۂ حدیث میں غالباً پندرہ سو یا اس سے بھی زیادہ طلبہ ہوتے ہیں۔
سال کے آْخری دن ہونے والی ان کی پندو نصائح سے معمور تقریر بھی یادگار ہوتی تھی ۔ اس دن وہ خود بھی جذبات سے لبریز ہوتے اور طلبہ پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ آخری حدیث کا سبق ہوتا،تشریح کی جاتی اور پھر وہ باتیں ہوتیں جو فضیلت کی تکمیل کرنے والے طلبہ کے لیے زندگی بھر کام آنے والی ہوتیں ۔ وہ اپنے طلبہ کی تین جماعتوں میں تقسیم کرتے :اعلی،متوسط اور ادنی اور پھر ان میں سے ہر ایک کو عملی زندگی کا ٹاسک بتاتے۔ اسی کے مطابق سرگرمِ کار ہونے کی تلقین کرتے۔ جب طالب علم آخری دن ان کی کلاس سے اٹھتا توگرچہ اسے اس بات کا غم ہوتا کہ مفتی صاحب جیسے عظیم استاذ سے جدا ہونا پڑ رہا ہے،مگرساتھ ہی اسے خوشی بھی ہوتی کہ اس کا دامن علم و فکر کے جواہر ریزوں سے بھرا ہوا ہے۔ مفتی صاحب نہایت ذہین انسان تھے اوران کا دماغ گویا ایک وسیع و عریض کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں ہر وقت موجود و مستحضر رہتیں۔
مفتی صاحب کا کارنامہ صرف یہی نہیں ہے کہ انھوں نے کم و بیش نصف صدی تک علم حدیث پڑھا یا اور ہندوبیرون ہند کے ہزارہا طلبہ ان سے سیراب ہوئے،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ عصرِحاضر کے طلبہ کے ذہنی مستوی کا ادراک کرتے ہوئے در سِ نظامی کی کئی اہم کتابوں کی لسانی تہذیب و تسہیل کاکام کیا اور انھیں نئے لباس میں شائع کیا۔ بانیِ دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کی متعدد کتابوں کی تسہیل فرمائی اور انھیں نئی نسل کے لیے سہل الفہم بنایا،درسِ نظامی کی متعدد اہم کتابوں کی آسان اردو زبان میں تشریحیں کیں اور جامع ترمذی کی آٹھ جلدوں میں ،جبکہ صحیح بخاری کی بارہ جلدوں میں شرحیں لکھیں اور امام ولی اللہ دہلوی کی معرکۃ الآرا کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی منفرد و ممتاز شرح رحمۃ اللہ الواسعہ لکھ کرعلمی دنیا پر احسانِ عظیم کیا۔ ان کے علاوہ بھی مختلف درسی کتابوں کی دسیوں شروح تحریر کیں اور دیگر موضوعات پر بھی اہم کتابیں لکھیں۔
الغرض مفتی صاحب کی پوری زندگی نہایت ہی سرگرم وماجرا پرور رہی۔ ان کی پیدایش 1940میں گجرات کے ضلع پالن پور میں ہوئی تھی،1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی اور1972۔73میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے اور تاحیات علمِ حدیث وفقہ کی امہاتِ کتب کی تدریس کی خدمت انجام دی۔لگ بھگ اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ پاک حضرت مفتی صاحب کی کامل مغفرت فرمائے،پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہم جیسے ان کے ہزارہا شاگردوں کی طرف سے انھیں بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ (آمین)
جسٹس مدن بھیم راؤ لوکُر
ترجمہ:نایاب حسن
دہلی فساد سے متاثر ہونے والے علاقوں کامیں نے دورہ کیاہے،ان میں سے بعض تو میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں،ہرگلی میں جلی ہوئی دکانیں اور مکانات بکھرے پڑے ہیں۔یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے، دکان ومکان تو دوبارہ بنائے جاسکتے ہیں،مگر اس فساد کے دوران جوجانیں تلف ہوئیں ان کا بدل کہاں سے آئے گا؟اس فساد میں پچاس سے زائد لوگ بلاکسی وجہ صرف نفرت کی وجہ سے مارے گئے۔بچوں کوان کے والدین کے(صحیح یاغلط) نظریہ وافکارکی وجہ سے سزادی گئی،یہ انصاف ہے یاناانصافی ہے؟کیامحض مالی مدداور معاوضے سے اس درد اور تکلیف کا مداواہوسکتاہے،جس سے یہ بچے اوران کے والدین گزر رہے ہیں؟ کیا بدلے میں انھیں یہی کچھ دیاجاسکتاہے اوربس؟شیووہاراور دیگر فسادزدہ علاقوں کے معاینے کے دوران میرے ذہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہے۔
عیدگاہ کامنظر بھی تکلیف دہ تھا۔وہاں کافی سارے ریلیف کیمپ لگے ہوئے ہیں،مجھے بتایاگیاکہ ان کیمپوں میں تقریباً ایک ہزارلوگ رہ رہے ہیں۔اہلِ خیر جماعتیں اور افراد چٹائیاں،کمبل،کھانا،دوائیں فراہم کررہے اور وہاں مقیم لوگوں کی راحت کا سامان کررہے ہیں۔میڈیاکے ایک طبقے کودیکھاکہ وہ فساد متاثرین کے بیانات ریکارڈ کررہاہے۔توقع ہے کہ یہ بیانات جانچ کرنے والوں کے ذریعے ثبوت و شواہد کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اگر سٹیبلشمنٹ بھی ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے۔فساد متاثرین کی بازاآبادکاری کے لیے جو کچھ تھوڑی بہت مددکی جارہی ہے وہ غیر سرکاری تنظیموں اور اہلِ خیر افراد کی طرف سے کی جارہی ہے،رفاہی ریاست کی جانب سے بہت معمولی مدد کی جارہی ہے۔
مگر اس فساد پر الزام تراشی کا کھیل شروع ہوچکاہے اور یہ تب بھی جاری رہے گاجب اس کی جانچ پوری ہوجائے گی یا انکوائری کمیشن اپنی رپورٹ سونپ دے گی۔اس کا ایک متوقع نتیجہ تویقینی ہے کہ…اگرانتظامیہ کے کسی فرد کو گڈگورننس کا آئیڈیاہوتا یا سٹیبلشمنٹ نے مناسب قدم اٹھایاہوتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بہت سی دکانیں اور مکانات جلنے،لٹنے اور تباہ ہونے سے بچ سکتے تھے۔بیوروکریٹک نااہلی اور انتظامی ناکارگی نے مل کرخوں ریزی کے لیے ماحول سازی کاکام کیا،جوایک دو نہیں،پورے تین دن تک جاری رہی۔ایسالگتاہے کہ پولیس اور انتظامیہ سے مرکب سٹبلشمنٹ کمبھ کرنیوں کی زدمیں تھے اور اس کی نہایت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
معقول احساسِ ذمے داری دہی کا فقدان:
پوری زندگی قانون کا طالب علم رہنے کی حیثیت سے،میں حیرت زدہ رہ گیاکہ عدلیہ نے کسی معقول ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔قانون کے مطابق ہر عوامی آفت یا نسلی فساد کے متاثر شخص کو قانونی خدمت کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اورپر ہونے والے ظلم کے خلاف کیس فائل کرے،مثلاً ہونے والے نقصان کے معاوضہ وغیرہ کے لیے۔پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کردہ قانون کے تحت دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی ذمے د اری تھی کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کرتی،مگر وہ کہاں تھی؟ انصاف تک رسائی محض ایک نعرہ نہیں،مقصداور ہدف ہوناچاہیے۔اس اتھارٹی نے اس فساد کے پورے ایک ہفتے بعدپانچ ہیلپ ڈیسک قائم کیے،مگر ان میں سے جن دو ہیلپ ڈیسک کامیں نے معاینہ کیا،وہاں کے وکلا کو خود ہی مدد کی ضرورت ہے،انھیں اپنی ذمے داری کاکچھ پتاہی نہیں۔میں ان خیر اندیش وکلاکی کوششوں کی تحقیر نہیں کررہا،مگر مجھے یقین ہے کہ جب دہلی لیگل سروسزاتھارٹی اپنی سالانہ رپورٹ تیار کرے گی تو اس میں فساد متاثرین کے مفاد میں کیے گئے قانونی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیاجائے گا۔ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔
البتہ دہلی ہائی کورٹ سے جب رجوع کیاگیا تواس نے فوری ایکشن لیا۔دیررات کیس کی سماعت کی اور فساد متاثرین کو راحت دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جواب دہی سے متعلق سوالات کیے۔گرچہ اگلے ہی دن عوام کے محافظین کوایسا لگاکہ ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس وقت ماحول سازگار نہیں ہے اور کیس کو اگلے چھ ہفتوں کے لیے لٹکادیاگیا۔آپ تصور کیجیے کہ ایک شخص گھریلو تشددکا شکار ہے یا ایک عورت جنسی ہراسانی کی شکارہے اور وہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانے جاتی ہے اور وہاں ایس ایچ اواسے کہتاہے کہ ابھی رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے،چھ ہفتے بعد آنا،توکیااس عرصے میں اس کے ساتھ دوبارہ تشددیاہراسانی کاامکان نہیں ہے؟کیا یہ حیرت ناک لاجک نہیں ہے؟یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کواس سلسلے میں مداخلت کرنی پڑی اورہائی کورٹ کوحکم دیناپڑاکہ سماعت میں جلدی کرے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین میں سے کتنے لوگ سپریم کورٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
ایک بار اگر ایف آئی آر درج ہوجائے تو متعلقہ مبینہ الزام کی تحقیق شروع ہوجاتی ہے؛لیکن اگر ایف آئی آر ہی درج نہ ہو تو کسی قسم کی تفتیش نہیں ہوسکتی۔کئی سارے فیصلے ہیں، جن میں کورٹ نے متاثرشخص کے ذریعے ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر پر سوالات کیے ہیں۔بہت سے کیسزمیں تاخیر کی مناسب وجہ بتائی گئی اور بہت سے کیسز میں ایسا نہیں ہوا،جس کی وجہ سے ملزم رہاکردیاگیا،ایف آئی آر کی اس حد تک اہمیت ہے۔تفتیش کی جو سب سے اہم خاصیت ہے وہ ہے ثبوتوں کو جمع کرنا اور اگر ان ثبوتوں کو مٹانے یا گواہ کو متاثر کرنے کا امکان پایاجائے تو ملزم کو انوسٹی گیشن آفیسرکے ذریعے گرفتار بھی کیاجاسکتاہے؛لہذااگر دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کو چار ہفتوں کے لیے مؤخر کردیاگیاہے،تواس عرصے میں ایک ہوشیار ملزم چالاکی کا مظاہرہ کرکے اپنے خلاف اہم ثبوتوں کومٹا سکتا اور گواہوں کو دھمکی یالالچ دے کر خاموش کرسکتاہے،جس کے نتیجے میں پولیس اس کے حوالے سےno offence report فائل کردے گی اور اس طرح یہ پورا کیس ہی بند ہوجائے گا۔اس پورے سلسلے کو انصاف کہاجائے گا یا ناانصافی؟
عدلیہ کی اخلاقی ذمے داری:
فرقہ وارانہ فسادات کے موقعوں پر عدلیہ کی ذمے داری نہایت اہم ہوتی ہے؛کیوں کہ وہ ہنگامہ آرائی کو فساد بننے سے روک سکتی ہے۔عدلیہ کے پاس نہ توتلوار ہے اور نہ ہی وہ ریاست کےpurse stringپر کنٹرول رکھتی ہے، البتہ وہ اس اعتبار سے طاقت ور ہے کہ اسے اخلاقی اتھارٹی اور عوامی اعتماد حاصل ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدلیہ جو کہتی یاکرتی ہے،زمینی سطح پراس کا غیر معمولی اثر ہوتاہے، اس سے قطع نظر کہ تلواراور purse stringکس کے ہاتھ میں ہے۔اسی وجہ سے ایسی صورت حال میں فوری ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے؛لہذاکورٹ سے یہ کہتے ہوئے کہ رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے کیس کو مؤخر کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اکثروبیشتر جب ریاست اور پولیس اپنی تمام تر قانونی طاقت و قوت کے باوجود ناکام ہوجاتی ہے، تو کورٹ کی مداخلت سے ہی ماحول سازگار بنتاہے۔ سامراجی نظریہ ختم ہوناچاہیے کہ کورٹ ری ایکٹیوہو،اس کی جگہ عوامی مفاد میں یہ نظریہ تشکیل پاناچاہیے کہ کورٹ فعال ہو۔اگرایسانہیں ہواتواے ڈی ایم جبل پورکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر اپنی پہنائیوں سے باہر نکل آئے گااور ہماراپیچھا کرتارہے گا۔
حالیہ واقعات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ پولیس نے اظہارِ خیال کی آزادی اور اشتعال انگیز بیان بازی کو پوری طرح خلط ملط کردیاہے۔سیاسی قوت رکھنے والے افراد کی جانب سے اشتعال انگیز تقریر اور نعرے بازی، جو غداری کے جرم میں آئے یا نہ آئے،مگر نفرت انگیز بیان بازی کے زمرے میں تو آتی ہی ہے،مگر اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔دوسری طرف کمزورلوگوں کوایسے عمل کے لیے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیاجس کی وجہ سے معمولی جھڑپ بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ اس کے ذریعے ”نفرت پھیلائی جائے یااس کی کوشش کی جائے،قانون کے مطابق قائم حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکایاجائے یابھڑکانے کی کوشش کی جائے“،اس پس منظر میں اوہاراکے جواب میں بروسلی کا مشہور مقولہ کتنا درست ہے کہ ”اگرآپ لکڑی کے تختے کوتوڑتے ہو،تووہ مڑکر حملہ نہیں کرے گا“۔پس ایک دوسرے پرالزام تراشی کے کھیل سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جو لوگ دہلی فساد کے ملزم ہیں،کیاان کی شناخت ہوگی اوران پر مقدمہ ہوگا اور اگر ہوابھی،توکیاانھیں سزاملے گی؟ہماری عدلیہ کوتو1984فسادات میں سجن کمارپرالزام ثابت کرنے میں پورے35سال لگ گئے۔اب حالیہ فسادکے مجرموں کوکب تک پکڑاجائے گااور کب تک سزاملے گی،پتانہیں اور اس کی کس کو فکر ہوگی؟
آخری بات:
ہمیں اپنے ملک کے عظیم الشان دستور کے دیباچے کو پڑھنا چاہیے اور اس میں موجود ان چار اہم ترین الفاظ کی قدرکرنی چاہیے”انصاف،آزادی،مساوات، اخوت“۔ اورسوچنا چاہیے کہ ہم ان تمام یا ان میں سے بعض الفاظ کی معنویت کوبھی سمجھ رہے ہیں یا بالکل ہی نہیں سمجھ رہے؟
(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیاکے سابق جسٹس اور فی الوقت سپریم کورٹ آف فیجی کے جج ہیں۔اصل مضمون آج کے روزنامہ دی ہندومیں شائع ہواہے)
نایاب حسن
مشرف عالم ذوقی اردوحلقے میں اپنے مخصوص بے باک وشفاف اسلوبِ تحریر کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ان کے ناولوں میں عصری حسیت اور احوال وواقعات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے، ان کی کہانیوں میں ملکی و عالمی منظرنامے کی ایسی عکاسی ہوتی ہے،جس سے ان کا قاری ذہنی وفکری طورپر بآسانی مربوط ہوسکتاہے۔ذوقی صاحب کا قلم سیال ہے اور لکھنے کی رفتار تیزتر،وہ گزشتہ چاردہائی سے زائد عرصے سے لکھ رہے ہیں،ایک درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پرآچکی ہیں،ان میں زیادہ تر ناول، چند افسانوی مجموعے،ایک نثری نظموں کا مجموعہ اور ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ”آبِ روانِ کبیر“ شامل ہیں۔
سال2019کے اخیرمیں ان کاتازہ ناول”مرگِ انبوہ“کے نام سے ہندوستان میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے ذریعے منظر عام پرآیاہے اور پاکستان میں صریرپبلی کیشنز اس کی اشاعتی ذمے داری اٹھارہاہے۔ناول کے پہلے حصے میں مرکزی کردار پاشامرزااوراس کے دوستوں کے حوالے سے اکیسویں صدی کی نئی نسل کے مسائل و نفسیات کوزیر بحث لاتے ہوئے ہماری جنریشن کی جلدبازی اور پوری دنیاکو چند لمحوں میں زیر کرلینے یا نئے نئے ایڈونچرز کے شوق پر واقعات ومکالمات کی روشنی میں بڑی چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے۔اس ذیل میں الومناتی گروہ اور ہلاکت ناک بلیووہیل گیم کے کرشموں پربھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔نئی نسل نئے ماحول میں پرانی قدروں سے اتنی بوراوردور ہوتی جارہی ہے کہ وہ جلدازجلد ہر نقشِ کہن سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے،اسی کا مظہر پاشامرزااوراس کا دوست ریمنڈ ہے۔پاشامرزاکو اپنے باپ جہاں گیرمرزا سے چڑ،بلکہ نفرت ہے اور ریمنڈبھی روز اپنے باپ سے لڑتااور نئی نئی مہم جوئیوں میں مصروف رہتاہے۔ناول کا دوسرا حصہ جو ہندوستان کے حالیہ چھ سات سال کے سماجی و سیاسی منظرنامے پرمبنی ہے،وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ناول نگارنے جہانگیرمرزا کی سرگذشت کی شکل میں اس عرصے میں پورے ہندوستان اور خصوصاً یہاں کے مسلمانوں پر بیتنے والے سانحات کو بڑی وضاحت کے ساتھ اور دوٹوک انداز میں بیان کیاہے۔کہانی کی بنت اور کرداروں کی تقسیم وتحدید،پھر ان کے مکالموں اور ان کے گرداگردواقعات کے سلسلے حقائق سے معمور ہیں۔ناول نگار نے بی مشن کو اس سرگزشت کا سینٹر بنایا ہے،جس کے اشاروں اور حکم سے پورے ملک میں حالات برق جیسی رفتارسے بدل رہے ہیں، ”جادوگر“ کا کردار بھی نہایت دلچسپ ہے،جوآن کی آن میں ایک ہنگامۂ رستاخیز برپاکردیتاہے،جس کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈورہے اور وہ جیسے چاہتاہے،تصرف کرتاہے۔اس کے ایک اشارے سے ملک بھر کے بینک خالی ہوجاتے ہیں،لوگ کیش لیس ہوجاتے ہیں،وہ ایک طبقے کے خلاف کوئی بات کرتاہے اور اس کے بھکت اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں،وہ ایک خوفناک سایے کی طرح لوگوں کے پیچھے لگ جاتاہے،کوئی بھی شخص،اس کی زندگی،اس کا گھر اس جادوگرکی دست رس سے دور نہیں ہے۔جادوگرکی شخصیت ایسی زبردست قوت سے عبارت ہے کہ اس کے خلاف کہیں بھی کوئی آواز اٹھ رہی ہو،اسے پتالگ جاتاہے اورپھر وہ لمحے بھر میں اپنے مخالف آوازکو خاموش کردیتاہے۔”راکیش وید“بی مشن کا ایک مضبوط رکن ہے،جس کاکام یہ ہے کہ وہ بی مشن سے نالاں مسلمانوں میں اپنے ہمدردتلاش کرے، اسے کسی طرح ہموار کرکے بی مشن کے حق میں استعمال کرے اور پھر اس سے کام لے کر اسے زندگی کی الجھنوں سے آزاد کردے،حتی کہ جہاں گیر مرزا جو ایک نظریاتی انسان،تخلیق کاراور ادیب و صحافی ہے وہ بھی راکیش وید کے جھانسے میں آجاتا ہے،حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بی مشن کا حصہ بن جاتاہے،گرچہ اس کی وابستگی طویل نہیں ہوتی،مگر اس کے اثرات جہاں گیرمرزاکے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔راکیش ویدکی جوتصویرکشی ناول نگارنے کی ہے،اس کے مطابق وہ بہ یک وقت ہمدردبھی ہے اورنہایت سفاک بھی،وہ زندگی کو مصیبت سے تعبیر کرتاہے اور موت کواس مصیبت سے آزادی بتاتاہے،اس کے مطابق ”جادوگر“ کا احسان ہے کہ وہ اس ملک کے مسلمانوں یا اپنے مخالفین کو مصیبت(زندگی)سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ناول میں استعمال کیے گئے استعارات،کنایات،تشبیہات میں غضب کی معنویت ہے۔ اس وقت پورے ملک میں این آرسی /سی اے کے خلاف پرزوراحتجاجات ہورہے ہیں، ذوقی نے اس ناول میں چندماہ قبل ہی این آرسی کےبھیانک مضمرات وعواقب کی نشان دہی کی تھی،تب شمال مشرقی ہندوستان میں آوازیں اٹھناشروع ہوگئی تھیں، مگرسینٹرل انڈیامیں تقریباًخاموشی تھی،پھرجب پارلیمنٹ سے شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون پاس کیاگیا اورحکومت نے سی اے اے کے بعد پورےملک میں ان آرسی کے نفاذکا عزم ظاہرکیا،تب لوگوں کواس کے خطرات کاادراک ہوا،جس کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پوراملک سرگرمِ احتجاج ہے ـ
اس ناول میں ذوقی نے دائیں بازوکی سفاک سیاست،اس کے طریقۂ عمل اور طرزِفکرپربڑی بے باکی سے تبصرہ کیا ہے،ساتھ ہی سیکولرزم کے ہندوستانی ورژن پرنہایت سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے اشتراکی افکارو تصورات کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں کی پس گردی کے اسباب پربھی روشنی ڈالی ہے۔مختلف مکالمات کے بین السطورمیں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے دوہرے پن کوبھی آشکاراکیاہے۔
اس ناول کی ادبی قدروقیمت کیا ہے، وہ توناقدین طے کریں گے،مگر ایک قاری کی حیثیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مفروضہ ہوائی وتخیلاتی کہانیوں پرمبنی اور محض ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لیے لکھے جانے والے ناولوں کے مقابلے میں ذوقی کایہ ناول زیادہ پڑھنے لائق ہے کہ اس میں انھوں نے پوری صداقت وواقعیت پسندی کے ساتھ ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے کی عکاسی کی ہے،اس اعتبار سے یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ہمارے خیال میں وہ تخلیقی شہہ پارہ زیادہ تعریف و تحسین کا حق دار ہے،جس میں سماج کے گردوپیش کے حالات واشخاص و سانحات کو کرداروں میں ڈھال کر پیش کیاجائے۔ذوقی کے پچھلے ناولوں میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے اور اس ناول میں بھی یہ خوبی بہ تمام و کمال موجودہے۔اخیر میں ”دولفظ“کے عنوان سے انھوں نے اردوکے روایتی ناقدین سے شکایت کی ہے کہ وہ ایسے ناول کو سیاسی رپورٹنگ قراردے کر نظر انداز کردیتے ہیں،پھر انھوں نے انگریزی،عربی،ہسپانوی،روسی ودیگر زبانوں کے معروف وایوارڈیافتہ ناول نگاروں کے حوالے سے درست لکھاہے کہ زیادہ تر عالمی تخلیقی شہہ پاروں کا ربط متعلقہ ملکوں کی یاعالمی سیاسیات سے رہاہے۔
یہ ناول زبان و اسلوب کے اعتبار سے بھی بڑا سلیس اور سہل و شیریں ہے،مشرف عالم ذوقی جدتِ تعبیر اور ندرتِ اداپر زیادہ زور نہیں دیتے،ان کا ارتکازقوتِ ترسیل پرہوتا ہے،جواس ناول میں بھی بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے،کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی یا زبان و بیان کا اٹکاؤ نہیں ہے،آپ ایک رومیں پوری کتاب پڑھ سکتے ہیں، کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی ـ البتہ بعض مقامات قابلِ توجہ ہیں،مثلاً صفحہ نمبر 110پرایک جملہ ہے”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ دیکھ سکتی ہوں“۔یہاں باہر کا ”منظر“ ہونا چاہیے تھایاجملے کی ساخت یوں ہونی چاہیے تھی”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ کرسکتی ہوں“۔صفحہ نمبر126پرایک جملہ ہے”میں ڈائری کھولوں یاپہلے ڈائری کھولنے سے قبل اپنی زندگی کے ان صفحوں میں جھانک آؤں…“اس میں ”پہلے“لفظ زائدہے۔اسی طرح ایک لفظ جو بار بار استعمال ہواہے اورہرجگہ غلط کمپوژ ہوگیاہے،اس کی نشان دہی بھی ضروری ہے،ناول میں ”سارہ“ جہاگیر مرزاکی بیوی ہے، اس کایہی املا ہے اورکتاب میں یہی لکھابھی گیا ہے، مگرکُل اور سب کے معنی میں ”سارا“ کوبھی تقریباً پوری کتاب میں ”سارہ“ ہی لکھاگیاہے،اس سے سخت الجھن ہوتی ہے اور پڑھنے والا پہلی نظر میں اسے”سارہ“جہاں گیرمرزاکی بیوی سمجھ لیتا ہے، پھرپوراجملہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ یہ تو ”سارا“ ہے۔ بہرکیف ایسی دوچارفروگذاشتوں سے قطع نظریہ تازہ ناول ہراعتبارسے شاندارہے،کتاب و ادب دوست طبقے کے علاوہ ہراس باشعور ہندوستانی کویہ ناول پڑھنا چاہیے، جوبرق جیسی تیزی سے بدلتے قومی منظرنامے کوسمجھنا چاہتاہے،اس کی تہوں میں اترناچاہتاہے ـ تقریباساڑھے چارسوصفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت پانچ سوروپے نہایت مناسب ہے ـ کتاب کا ٹائٹل عنوان سے ہم آہنگ اورطباعت خوب صورت ہےـ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہےـ
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
نایاب حسن
شہریت ترمیمی بل بالآخر دونوں ایوانوں سے پاس ہوگیا اور حکومت ملک کے ایک بڑے طبقے کو شہریت سے محروم کرنے یا اس کا ناطقہ بند کرنے کے لیے قانونی جواز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس بل کا پارلیمنٹ میں پیش کیاجانااور پارلیمنٹ کے اجلاس کودیگر اہم موضوعات سے ہٹاکر اس میں الجھانا دراصل حکومت کی پالیسی تھی،حکومت نہیں چاہتی کہ اس ملک کے اصل مسائل منظر عام پر آئیں اور پبلک ڈسکشن کا حصہ بنیں۔جو لوگ ملک کے حالات و معاملات پرنگاہ رکھتے ہیں،انھیں اندازہ ہوگاکہ گزشتہ مہینے ڈیڑھ مہینے کے عرصے میں قومی سطح پر کئی مسائل سامنے آئے،جے این یو میں فیس بڑھوتری پر ہنگامے چل رہے تھے کہ دہلی یونیورسٹی کے ایڈہاک اور گیسٹ ٹیچروں کی رساکشی شروع ہوگئی،ادھر ملک بھر میں بے روزگاری و مہنگائی کا عفریت مسلسل اپنے پنجے گاڑے ہواہے،مگر ان تمام اہم ایشوز کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت نے اپنی ترجیحات کچھ اور طے کررکھی ہیں۔عوام سے جڑے مسائل و موضوعات سے اس حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور ایسی حکومت کو یقیناً عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی،جس کی اَساس ہی مذہبی منافرت پر قائم ہواورجسے اسی بنیاد پر ووٹ ملا ہوکہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹربنائے گی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کوحکومت اس لیے نہیں دی گئی کہ وہ ترقیاتی وفلاحی ایجنڈوں پر کام کرے گی،بی جے پی دراصل آرایس ایس کے اس دوررس منصوبے کے تحت برسرِ اقتدار آئی ہے،جس میں اکھنڈبھارت کی تشکیل اور ہندوراشٹرکے خواب کی تعبیر سرفہرست ہے اور اسے ووٹ بھی اسی منصوبے پر کام کرنے کے لیے ملتاہے۔
آسام میں پہلے این آرسی کانفاذہوا،جو لمبے عرصے سے اٹکاہوا تھا،اس میں انیس لاکھ لوگ اپنی شہریت کے دستاویزات فراہم کرنے سے رہ گئے،جن میں اتفاق سے زیادہ تعداد ہندووں کی تھی،اب بی جے پی کوایک نیاسیاسی حربہ ہاتھ آیااور امیت شاہ نے اپنی تقریروں میں کھلے عام یہ اعلان کرنا شروع کردیاکہ این آرسی سے باہر رہ جانے والے ہندو،سکھ،بودھ اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،انھوں نے مشرقی و شمال مشرقی ریاستوں میں کھلے عام یہ باتیں کہیں اور وہاں کے غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا زہر گھولتے رہے۔اس کے بعدشاہ نے اپنی اس بات کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل تیار کروایا،جسے پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں پیش کیاگیا اور ہزارہنگاموں کے باوجود اکثریت سے یہ بل پاس بھی ہوگیا۔دیکھنے والوں نے دیکھاکہ دونوں ایوانوں میں امیت شاہ کی تقریر حسبِ روایت جارحانہ،منتقمانہ اور رعونت سے لبریز تھی،انھوں نے واضح طورپر یہ کہاکہ پڑوس کے ملکوں میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کیاجاتاہے؛اس لیے ہندوستان انھیں پناہ دینا چاہتاہے؛حالاں کہ انھوں نے یہ بھی کہاکہ یہ بل شہریت دینے کے لیے ہے،کسی کی شہریت چھیننے کے لیے نہیں ہے،مگر شہریت دینے کی جو وجہ بتائی گئی،اس میں صاف طورپر مذہب کو اوپر رکھاگیا،یعنی پاکستان،بنگلہ دیش و افغانستان کے ہندو،سکھ وغیرہ کو ان کے مذہب کی وجہ سے پناہ دی جائیگی،جبکہ انہی ملکوں سے اگر مسلمان یہاں پناہ لینا چاہتاہے،تواس کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔حالاں کہ اگر ہندوستان ایک جمہوری سٹیٹ ہے اور یقیناً ہے،توپھر اس امتیاز وتفریق کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے پارلیمنٹ میں باقاعدہ پڑوس کی اقلیتوں کے حالات پر بحث ہوتی ہے اورانھیں پڑوسی ملکوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے پناہ دینے کا قانون بنایاجاتاہے،مگر جب دنیاکے ممالک ہندوستانی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے /بولتے ہیں،تویہ حکومت اسے اپنا داخلی مسئلہ بتاکر ناقابلِ توجہ قراردے دیتی ہے،یہ سیاسی منافقت ہے یا مذہبی عصبیت و منافرت؟
اس قانون کے روبہ عمل آجانے کے بعد باہر سے آنے والے مسلمانوں کامسئلہ توچھوڑیے،پہلے سے جو ہزاروں روہنگیااور دیگر مسلمان یہاں پناہ گزین ہیں،ان پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی۔وہ اپنے ملک بھی نہیں جاسکیں گے کہ انھوں نے ان ملکوں کوچھوڑاہی اس وجہ سے تھاکہ وہ ان کے لیے قابلِ رہایش نہیں رہے تھے۔اب ہندوستانی حکومت انھیں یا تو بزوروجبر ہندوستان بدر کرے گی یا انھیں ڈٹینشن کیمپوں کے حوالے کردیاجائے گا۔یہ ڈٹینشن کیمپ کیاہے اور کیسا ہوتا ہے،اس کی سب سے اندوہ ناک مثال ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں موجودڈھائی لاکھ سے زائد وہ بہاری ہیں،جوانیس سو سینتالیس میں اسلامی مملکت کا خواب سجائے اپنے وطن کو چھوڑکر مشرقی بنگال کوچ کرگئے تھے اورجنھیں 1971میں غیر بنگالی ہونے کی بناپر نئے وجودپذیر ہونے والے بنگلہ دیش نے بھی قبول نہیں کیااور مملکتِ خدادادبھی انھیں اپنانے سے انکاری ہوگیا،بے چارے تب سے اب تک کیمپوں میں پڑے ہیں،رہتے اسی روئے زمین پر ہیں،مگر ان کا کوئی وطن نہیں ہے،ان کی دوتین نسلیں اسی بے وطنی کا کرب سہتے گزرگئیں اور مستقبل کا بھی کچھ پتانہیں۔اگر ہمارے ملک میں یہ نیاقانون بنتاہے،تویقیناً یہاں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کیساتھ بھی یہی ہونے والاہے۔اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال تب پیدا ہوگی،جب بہت سے اسی ملک کے شہری بعض کاغذات و دستاویزات کی نایابی کی وجہ سے غیر ملکی قراردے دیے جائیں گے اور انھیں بھی ان کیمپوں کے حوالے کردیاجائے گا۔جس حکومت میں کسی مسلم نام والے شخص کو سنسکرت تک پڑھانے کی اجازت نہ ہو،بھلے اس کا خاندان برسوں سے کیرتن بھجن گاتاچلاآرہاہو،وہاں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کسی مسلمان کو غیر ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے کتنی معمولی وجہ کافی ہوسکتی ہے۔
اس بل کے قانونی معائب و نقائص کو توچھوڑیے کہ اس پر بڑے بڑے ماہرین ِقانون لکھ اور بول رہے ہیں،مگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔بات اصل یہ ہے کہ امیت شاہ سال دوسال قبل یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی آنے والے پچاس سال تک حکومت میں رہے گی،اسی مقصد سے انھیں وزارتِ داخلہ سونپی گئی ہے۔اگر آپ اس سال کے عام انتخابات کے بعد کے سیاسی احوال پر نظر رکھتے ہوں،تو محسوس کیاہوگا کہ پہلے ٹرم میں جو توجہ اورمحوریت مودی کو حاصل تھی،وہ اب امیت شاہ کوحاصل ہے،بہ تدریج مودی پس منظر میں چئلے گئے ہیں اور اس کی وجہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران رونما ہونے والے چند نہایت متنازع،مسلم مخالف اور حساس واقعات ہیں۔سب سے پہلے اگست میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370کا تحلیل کیاجانا،جس کے بعد شدت پسندہندووں،اس ملک کے جانب دار و متعصب میڈیا اور حکومت نے مسلسل جشن منایا،مختلف شہروں میں بی جے پی کی طرف سے باقاعدہ ایسے پوسٹرزلگائے گئے،جن میں اس قسم کی باتیں لکھی گئیں کہ گویا بی جے پی نے کشمیر پر قبضہ کیاہے،اس کے بعد گزشتہ ماہ ایودھیاکیس کا فیصلہ اوراب سی اے بی بل کا پاس ہونا۔یہ سارے واقعات ایسے ہیں کہ اس ملک کے زیادہ تر اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے دلوں میں ایک قسم کا احساسِ فتح مندی پیدا کرتے ہیں اورانھیں یہ لگتاہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو دبائے رکھے؛بلکہ ملک بدرکردے،یہی کافی ہے،انھیں اورکچھ بھی نہیں چاہیے۔موجودہ ہندوستان میں تعلیم،صحت،روزگار وغیرہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا،انتہاپسندانہ سیاست کے عروج نے عوامی سائیکی اور اس ملک کے زیادہ تر شہریوں کے شعور پر مذہبی تعصب کا دبیزپردہ ڈال دیاہے،سو کچھ بعید نہیں کہ حالیہ قانون کے پاس ہوجانے کے بعد بی جے پی حکومت کی عمر میں مزید اضافہ ہوجائے۔
مگرمعاملہ ساراکاسارامایوس کن نہیں ہے کہ یہ ملک ہزاروں سال سے تنوعات ِ فکر و نظر کا مرکزرہاہے،سواس بل کے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے پہلے دن سے ہی ملک کے حساس و بیدار طبقوں میں حکومت کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط لہر چل رہی ہے،یہ لہر پہلے پہل غیر مسلم دانشوروں اور مثقّف افراد سے شروع ہوئی اور اب تعلیمی اداروں تک پھیل چکی ہے۔قابل ذکرہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی پہلے سے شمال مشرقی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں اس بل کے خلاف زبردست احتجاج جاری ہے۔اب یہ احتجاج ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرنے کی راہ پر گامزن ہورہاہے اور اسے ہر حال میں پورے ملک میں پھیلنا چاہیے۔بات صرف یہ نہیں کہ اس قانون کا نقصان مسلمانوں کوپہنچے گا،بات یہ ہے کہ یہ قانون اس ملک کی جمہوری روح کے منافی ہے۔مسلمان توخیر ستر سال پہلے ہی ہرحال میں یہاں رہنے کا فیصلہ کرچکاتھا،سووہ ذہنی و نفسیاتی طورپر ہر قسم کے سیاسی حربے کامقابلہ کرنے کے لیے تیارہے۔
(استاذِگرامی مولاناصداقت حسین قاسمیؒ کی یادمیں)
نایاب حسن
ابھی کچھ دیر قبل استاذمکرم مفتی ثناءاللہ قاسمی اور دیگر چند احباب کے ذریعے خبر ملی کہ بالاساتھ(سیتامڑھی)کے بزرگ عالم دین اور دارالعلوم بالاساتھ کے استاذحضرت مولانا صداقت حسین قاسمی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ مولانا سے باقاعدہ تلمذکا شرف ہمیں حاصل نہ تھا،مگر وہ ہمارے استاذتھے،جن دنوں(غالباً2005میں)وہ ایک سرکاری مدرسے سے سبک دوش ہوکر آئے تھے اور دارالعلوم بالاساتھ میں ان کی تقرری ہوئی تھی،ان دنوں ہم وہاں عربی چہارم ،پنجم کے طالب علم تھے۔ویسے اس گاؤں میں انھیں پہلے بارہادیکھا تھا،مگر باقاعدہ دید و شنید کی نوبت اسی وقت آئی،جب وہ دارالعلوم بالاساتھ سے منسلک ہوئے۔ان کی شخصیت بڑی بھلی،ستھری اور نکھری ہوئی تھی،وہ دیوبندکے قدیم فضلامیں تھے اور مولانا سید ارشدمدنی کے رفیق درس تھے،اپنی طالب علمی اورخصوصامولاناارشد مدنی سے وابستہ واقعات بڑی دلچسپی سے سناتے،ان کی گفتگو،طرزِبیان،شستہ روئی و خندہ جبینی نے ہمیں بے حد متاثر کیا،ان کاسراپابھی بڑا نستعلیق تھا،ان کالباس و پوشاک عام علماسے منفرد ہوتا،دیکھنے میں بڑے وجیہ اور باعظمت لگتے اوران سے مل کر ،تبادلۂ خیال کرکے دل دماغ ان کی علمی و ادبی رفعت کا قائل ہوجاتا تھا۔
مولانا کی پوری زندگی مَدرَسی تعلیم و تدریس میں گزری،مگر ان کا مطالعۂ ادب حیرت ناک حد تک وسیع و عریض تھا،ہزاروں برمحل اشعاران کے نوک زبان تھے،جنھیں وہ عام گفتگو کے دوران بھی اتنی خوبی سے استعمال کرتے کہ باذوق سامع عش عش کرنے لگتا۔اسی وجہ سے جب ہماری کلاس کا کوئی گھنٹہ خالی ہوتا،تو ہم مولانا کو تلاش کرتے اور ان سے استفادے کے لیے اپنی کلاس میں انھیں مدعوکرتے،ہم نے ان سے کوئی کتاب نہیں پڑھی،مگر ان کی صحبت میں ہمیں کئی کتابوں کا علم حاصل ہوا۔جوش ،کلیم عاجز،فیض،پروین شاکر،ماہرالقادری اور دیگر ادیبوں اور شاعروں پر ان کامطالعہ بڑاعمیق تھا۔جوش کی مشہور نظم’’جنگل کی شہزادی‘‘جو لگ بھگ ساٹھ اشعار پر مشتمل ہے اور ’’فتنۂ خانقاہ‘‘جس میں لگ بھگ چالیس اشعار ہیں اور ان دونوں نظموں میں جوش نے سیکڑوں مفردات اور نئی نئی تعبییرات استعمال کی ہیں،یہ دونوں نظمیں مولانا کو ازبرتھیں اوراپنے مخصوص سٹائل میں جب وہ انھیں پڑھتے،تو سن کر مزاآجاتا تھا۔یہی نہیں،ان کے علاوہ بھی بیسیوں شعراکی غزلیں اور نظمیں انھیں یاد تھیں۔ہماری ادبی نشوونمامیں غیرمحسوس طورپرمولانامرحوم کی بے مثال وباوقارادبی شخصیت اور ان کی ادب نوازی و خردافروزی کاحصہ رہا۔ان کی تحریک پر ہی ہم نے جوش،کلیم احمد عاجز،مولانا دریابادی،ماہر القادری وغیرہ کو عمرکی اس منزل میں پڑھا،جب عام طورپرمدارس کے طلبہ ان کے ناموں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ جامعہ کے اختتامی پروگراموں میں عموماً میں اناؤنسرہوتا،تومقررین و شعراکو مدعوکرنے کے لیے مناسب وموزوں اشعار مولانا سے ہی حاصل کرتا اور وہ اشعار ایسے ہوتے،جو میرے لیے بالکل ناشنیدہ ہوتے اور نہایت معنی خیز!فارسی ادب کا ان کامطالعہ بھی بڑاعمیق تھااوروہ گلستاں و بوستاں کے سیکڑوں اشعارارتجالاًسناسکتے تھے۔مولاناکی شخصیت ایک جیدعالم دین،ایک عمیق النظر ادیب و ادب نواز کی تھی،ان کی عمردرس و تدریس میں بسر ہوئی اور تصنیف و تالیف کاانھیں موقع ہی نہیں مل سکا،ورنہ ان کے قلم سے علم و ادب کے گہرہاے آب دار و تاب دار سامنے آتے۔
مدارس کے ماحول میں ایسے اساتذہ خال خال ملتے ہیں،جن کی نظر اور نظریے میں اس درجہ وسعت و کشاد ہو اور جو طلبہ کے تئیں اتنے خیر خواہ ہوں اور ان سے اتنی بے تکلفی سے پیش آئیں کہ طلبہ ان کے گرویدہ ہوجائیں اور اپنی ہر مشکل بلا کسی جھجھک کےان سے بیان کرسکیں،مولانا مرحوم میں یہ خوبی کمال درجے میں پائی جاتی تھی۔ جب ہم عربی ششم میں تھے،تو اس زمانے میں مولانا کو نائب ناظم تعلیمات بنایاگیاتھا۔اس درجے میں اصول فقہ کی ایک اہم کتاب’حسامی‘‘پڑھائی جاتی ہے،یہ کتاب جن استاذکے پاس تھی،ہم ان سے مطمئن نہ تھے یا ہماری ذہنی سطح اتنی بلند نہ تھی کہ ہم ان کی درسی تشریحات کو سمجھ سکیں ؛چنانچہ عیدالاضحی تک کسی طرح ہم ان سے استفادے کی کوشش کرتے رہے،مگر پھرمعاملہ دگر گوں ہونے لگا،ہمیں سبق بالکل سمجھ میں نہ آتا،جس کی وجہ سے ہمارے تمام رفقائے درس پریشان تھے،ہم نے سوچاکہ اگر یہ کتاب فلاں استاذِمحترم پڑھائیں،توشاید ہمیں کچھ پلے پڑسکے،مگر مسئلہ یہ تھاکہ ایساممکن کیسے ہو؟بالآخرہم نے مولاناصداقت حسین صاحب سے ملنے اور اس سلسلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیااوران کے سامنے اپنی مشکل پیش کی ،مولانا نے پوری کشادہ دلی اور کھلے پن کے ساتھ ہماری بات سنی ،ہم سے پوچھاکہ:تم لوگ یہ کتاب کن کے پاس پڑھنا چاہتے ہو؟ہم نے نام لیا اور انھوں نے فوراً ہامی بھرلی؛چنانچہ اگلے دن سے حسامی کا درس دوسرے استاذدینے لگے۔
مولاناکی شخصیت بڑی من موہنی اور شاداب تھی،اتنی کہ انھیں تصورکریں تو ذہن و دماغ کے پردے پر بے ساختہ یادوں کے حسین مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ان کاطرزِپوشش،ان کے چلنے کا انداز،ان کا طورِگفتگو،پان کی سرخی میں ڈوبے ان کے لبوں سے جھڑتے ادب پارے،ان کی پاٹ دار آوازاور ان کی بے پناہ شفقت و محبت ہم جیسے طالب علموں کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔ جب۲۰۱۲میں میں نے مشہور ادیب و خطیب و شاعرآغاشورش کاشمیری کی مختلف کتابوں سے مضامین کاایک انتخاب مرتب کرکے شائع کیا اور دیگر اساتذہ و کرم فرماؤں کے ساتھ مولاناکی خدمت میں بھی اس کاایک نسخہ ارسال کیا ،توکچھ ہی دن بعد مولانا نے مجھے فون کیااور اتنے حوصلہ افزاکلمات کہے کہ میں خوشی و مسرت سے لبریز ہوگیا،ان کی بے پناہ شفقت و محبت کی بارش میں بھیگ گیا۔پھر انھوں نے شورش کے ادبی امتیازات،خطابی فتوحات اور صحافتی خدمات پرنہایت وقیع گفتگوکی۔کچھ دن بعد جب میں گھرگیااوراساتذہ سے ملاقات کی غرض سے دارالعلوم بالاساتھ پہنچا،تو مولانا سے بھی ملاقات ہوئی،ملتے ہی گلے سے لگالیا،دیر تک دعائیں دیتے رہے،میری حقیر و معمولی قلمی سرگرمیوں پربے پناہ مسرتوں کا اظہار کیا۔اس کے بعد اپنی دوسری کتابیں بھی مولاناکی خدمت میں پیش کرنے اور ان کی دعائیں سمیٹنے کی سعادتیں ملتی رہیں۔اب کے عیدالاضحی کے موقعے پر میں گاؤں گیاتھا،مگروقت کی تنگی اور اپنی بدقسمتی کی وجہ سے بالاساتھ اپنی مادرعلمی اور اساتذہ کی خدمت میں حاضرنہ ہوسکا،ان دنوں وہاں عیدالاضحی کی تعطیل کے دن بھی تھے اور مجھے بالکل معلوم نہ تھاکہ مولاناعلیل ہیں،ورنہ ان کی خدمت میں ضرورحاضر ہوتا۔ ملال ہے کہ ایک عرصے سے مولاناسے کوئی رابطہ نہیں رہاتھا،اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے،ان کی تعلیمی و تدریسی خدمات کوقبول فرمائے اوروارثین واہلِ خانہ کو صبرِجمیل عطافرمائے۔(آمین)
نایاب حسن
قرآن کریم کاایک پہلو علمی ہے کہ اس کے ظاہری الفاظ و تعبیرات سے علوم و فنون کے مختلف پہلووں پر استدلال کیا جائے اور اس کا دوسرا پہلو خالص عملی اور انسان کی اجتماعی و انفرادی زندگی سے وابستہ ہے،قرآن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے،جو ہمارے نبی پاکﷺکو دیاگیا تھااورتب کی فصیح و بلیغ عربی قوم سے لے کر آج تک کوئی بھی انسانی فردیا جماعت اس کی ایک آیت کا بھی مقابل ومماثل نہ پیش کر سکی۔آپ ؐسے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاٹھی کا معجزہ دیا گیا تھا ،کہ اس کو پتھر پر مارنے سے نہر جاری ہوجاتی یا اسے زمین پر پٹکتے تو وہ سانپ کی شکل اختیار کرلیتی،اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا موم ہوجایاکرتاتھا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیردیتے ،تو وہ صحت مند ہوجاتے یا مردہ ان کے حکم سے زندہ ہوجاتا؛ لیکن آخری پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کاخالص علمی معجزہ دیا گیا ، یہ معجزہ قیامت تک کے لیے ہے ؛کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا،آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، آپؐ کے ذریعے لایاگیا دین قیامت تک کے لیے ہے؛اس لیے آپ کا یہ معجزہ بھی قیامت تک کے لیے ہے، یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدی کے بعد بھی قرآن کی تعلیمات تازہ ہیں اور قرآن نے جوحقائق بیان کردیے ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ ہیں۔ سائنس داں اورمحققین صدیوں کی ریسرچ اور کھوج کے بعد آج جو باتیں بیان کررہے ہیں ، ان میں سے بہت سی باتیں قرآن چودہ صدی قبل ہی بیان کرچکاہے ۔
قرآن پاک کی اسی ابدیت وجامعیت کے پیش نظر اس کے معارف و نکات کی تشریح و تفسیر پر اب تک دنیا بھرکی سیکڑوں زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اوریہ سلسلہ تاہنوز جاری و ساری ہے،ماہرینِ علوم و فنون نے مختلف حوالوں سے قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس سمندر سے علم و فکر کے رنگا رنگ موتی نکالے ہیں۔ہندوستان کو اس حوالے سے ایک طرح کا امتیاز حاصل ہے کہ یہاں مختلف زمانوں میں بے شمار تراجمِ قرآن لکھے گئے،تفسیریں لکھی گئیں اور قرآن پاک کی توضیح و تبیین پر علماومفکرین کی ایک بڑی جماعت نے اپنا علمی،ذہنی و فکری سرمایہ صرف کیا۔
اِس وقت ہمارے پیش نظر پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر کا اجمالی جائزہ‘‘ہے، جس میں شروع سے لے کر اب تک ہندوستان بھر میں قرآنیات پر ہونے والے کام کا تحقیقی جائزہ لینے کی قابلِ قدر کوشش کی گئی ہے۔پروفیسر صاحب معاصر علمی حلقے میں خاصے متعارف ہیں ،جامعہ ہمدرددہلی میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ اور بیس سے زائد مختلف علمی و تحقیقی کتابو ں کے مصنف و مرتب ہیں۔زیر نظر کتاب بھی ان کی غیر معمولی محنت و کاوش ، دقت نظری وبصیرت مندی کا نمونہ ہے،اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عربی و اردو کے علاوہ تیلگو، بنگلہ، سنسکرت، گورمکھی،کنڑ،سندھی،کشمیری،گجراتی،ہندی،انگریزی وغیرہ زبانوں میں ہونے والے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کا تعارف پیش کیاہے،ان کے تعارف میں انھوں نے بلا تفریق تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے لکھی گئی کتابوں کو پیش نظررکھاہے،مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور قادیانی تراجم و تفاسیرِ قرآن بھی مؤلف کے زیر تذکرہ آئے ہیں۔کتاب کے مشمولات کی جامعیت و ہمہ گیریت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شروع سے اب تک قرآنیات پر ہونے والے کاموں کا تقریباً احاطہ کرلیا ہے اوران کی یہ کتاب ہندوستان میں قرآنیات کی تفہیم،تفسیر و تحقیق کے تعلق سے ایک بہترین انسائیکلوپیڈیا قراردیے جانے کے لائق ہے۔
کتاب کا آغازترتیب وار پانچ تقریظوں سے ہوا ہے،ان سے قبل مؤلف نے اپنے ابتدائیہ میں کتاب کی تالیف کے تعلق سے اپنی محنت،متعلقہ موضوع کی وقعت و گیرائی اور اس کتاب کے مشمولات پر مختصر گفتگو کی ہے۔مقدمہ میں مؤلف نے قرآن اور تفہیمِ قرآن کے تعلق سے مختلف علمی پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،سوصفحات میں پھیلا ہوا یہ مقدمہ علوم القرآن پر مؤلف کے درک و بصیرت کا آئینہ دار ہے اور قرآنِ کریم کے طالبِ علم کے لیے اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہیں،اس مقدمے میں فاضل مؤلف نے وحی کی اقسام،نزولِ قرآن کے مراحل،قرآن کریم کے نام،تلاوتِ قرآن کے آداب، ترجمہ، تفسیر، تاویل کی تعریف وتشریح،مفسرین کے طبقات ،مختلف زمانی مراحل میں لکھی جانے والی اہم تفاسیر کی نشان دہی اور ہندوستان میں تفسیر نویسی کے آغاز پر نہایت پر مغز اور علم ریز گفتگو کی ہے۔صفحہ نمبر۱۷۱؍سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے،مختلف مرکزی عناوین کے تحت کتابوں کا تعارف پیش کیاگیا ہے،پہلا عنوان ہے ’’قرآن کریم کی ہندوستانی تفاسیر‘‘دوسرا عنوان ہے’’قرآن کریم کے بعض اجزاکی تفاسیر‘‘تیسراعنوان ہے ’’قرآن کریم کے اردوفارسی تراجم‘‘چوتھا عنوان ہے’’قرآن کریم کے منظوم تراجم و تفاسیر‘‘چھٹا عنوان ہے’’قرآن کریم کی آیاتِ احکام کی تفاسیر‘‘اس کے تحت بارہ کتابوں کا ذکر ہے،ساتواں عنوان ہے ’’تفاسیر قرآن کریم کی ہندوستانی شروح و حواشی اور تعلیقات‘‘اس کے تحت مختلف تفاسیر قرآن کی سو ہندوستانی شروح،حواشی وتعلیقات کا تعارف پیش کیا گیا ہے،آٹھواں عنوان ہے’’شیعی علماکے تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت مختلف دور میں شیعی علماکے ذریعے کے کیے گئے ڈیڑھ سو سے زائد تراجم و تفاسیرِ قرآن کا ذکر ہے،نواں عنوان ہے’’قرآن کی موضوعی تفاسیر‘‘اس کے تحت آٹھ کتابوں کا تذکرہ ہے،دسواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے قادیانی تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت پندرہ کتابوں کا تعارف ہے،’’گیارہواں عنوان ہے’’عیسائی علماکے قرآنی تراجم‘‘اس کے تحت پانچ تراجمِ قرآنی اوران کے عیسائی مترجم کے نام نقل کیے گئے ہیں،بارہواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم‘‘جس میں مختلف زبانوں میں کیے گئے بہت سے تراجمِ قرآنی کا ذکر ہے ۔ تعارف میں عام طورپر زیر تذکرہ کتاب کا سن تالیف،مختصر تعارف،بعض مفسرین کے علمی مقام و مرتبہ کی تعیین اورکہیں کہیں نمونۂ ترجمہ و تفسیربھی درج کردیاگیا ہے، مؤلف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جس تفسیریا ترجمے کا ذکر کریں ،توساتھ میں کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف بھی کرادیں،مگر اس کے باوجود بہت سی ایسی تفاسیر اور ترجمے رہ گئے،جن کے بارے میں مؤلف کوصرف کتاب اور مصنف کے نام کا پتا چل سکاہے،بہر کیف مجموعی طورپر یہ ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے اور اس سے ہندوستان میں(ماقبل ومابعدآزادی) گزشتہ سیکڑوں سال کے دوران قرآنیات پر ہونے والے کاموں کاایک خوب صورت خاکہ سامنے آجاتا ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کتاب میں بعض خامیاں بھی ہیں،حالاں کہ فی الجملہ کتاب کے اسلوب میں سلاست ووضاحت ہے،مگربعض جگہ زبان و بیان پیچیدہ ہوگیا ہے،کئی مقامات پر ایک کتاب کے تعارف کے دوران دوالگ الگ مراجع کے حوالے سے ایک ہی بات مکرر لکھی گئی ہے،صفحہ نمبر۲۸۵پر ’’اردوتفاسیر‘‘کے حوالے سے مولانایحی کاندھلوی سے منسوب تفسیر’’الکوکب الدری‘‘کا ذکرآیاہے،حالاں کہ ’’الکوکب الدری‘‘مولانا کی تفسیر نہیں ؛بلکہ عربی زبان میں سنن ترمذی کا نوٹ ہے،جسے بعد میں ان کے صاحبزادے مولانامحمد زکریاکاندھلوی نے اپنے حاشیے کے ساتھ دوجلدوں میں شائع کروایا ہے اور علم حدیث سے وابستگی رکھنے والے حلقوں میں مقبول و متداول ہے۔علی گڑھ سے ایک علمی و تحقیقی رسالہ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘کے نام سے جولائی ۱۹۸۲ء سے شائع ہورہاہے،اس کے موجودہ مدیر مولانا سید جلال الدین عمری اور معاون مدیرڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہیں،مؤلفِ محترم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر’’تدبرقرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے اس رسالے میں شائع شدہ خورشید حسن رضوی کے مضمون کے حوالے سے تدبرقرآن کا تفسیری نمونہ پیش کیا ہے،مگر رسالے کانام وہ صفحہ نمبر۱۸۹؍پر’’تحقیقات‘‘اور اگلے صفحے پر’’سہ ماہی تعلیمات‘‘لکھ گئے ہیں،ظاہر ہے ایک تحقیقی تالیف میں اس قسم کی غلطی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ،اسی طرح قرآن کریم کی آیتوں کی تعداد صفحہ نمبر۷۲؍پرچھ ہزار دوسوپچاسی لکھی ہے،جبکہ صفحہ نمبر۱۰۲؍پرچھ ہزار چھ سوچھیاسٹھ،حالاں کہ دوسری تعداد ہی زیادہ مشہور ہے،مگر فاضل مؤلف کو اپنی تحقیق کے مطابق کسی ایک ہی راجح تعداد کا ذکرکرنا تھا۔کئی جگہ عربی عبارتیں غلط املا میں لکھی گئی ہیں،جو یقیناً کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں،مگر ان کی تصحیح ہونی چاہیے تھی،کئی اردو الفاظ بھی غلط کمپوزہوگئے ہیں،امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کرلی جائے گی۔
بہر کیف پروفیسر غلام یحی انجم کی یہ کتاب ہندوستان میں علومِ قرآنی پر ہونے والے کاموں کا بھرپوراحاطہ کرتی ہے اور غالباً اردو زبان میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہوگی،جس میں مختلف ادوارمیں مختلف طبقات ومکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے کیے گئے قرآن پاک کے تراجم ،تفاسیرکا جامعیت کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیاہے۔کتاب کی طباعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے ۲۰۱۷ء میں ہوئی ہے ،طباعت معیاری،دیدہ زیب اور خوب صورت ہے، ۶۰۰؍سے زائد صفحات پر مشتمل اس گراں قدر کتاب کی قیمت۲۶۰؍روپے نہایت مناسب ہے۔ امید ہے کہ موصوف کی یہ کتاب قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گنجِ گراں مایہ اور آیندہ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔