نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
Nayab hasan qasmi
نایاب حسن
"دی وائر” ویب سائٹ نے ایک سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق مدھیہ پردیش میں تئیس مارچ کو دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو، جبکہ وہ ہاسپٹل جا رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر کر پہلے تو بد زبانی کی اور جب انھوں نے کچھ مزاحمت کی، تو دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ پولیسیا لاٹھی سے مار مار کر ان کے جسم کو "لالہ گوں” بنادیاـ وہ بے چارے تب سے کوشش میں ہیں کہ پولیس کے خلاف معاملہ درج کروا سکیں، مگر دوماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں کامیابی نہیں ملی ہے ـ وائر نے اس سلسلے کی جو تفصیلات درج کی ہیں، دلچسپ ہیں، دلچسپ کیا ہیں، عبرت ناک کہہ لیں ـ ان پولیس والوں کو جب بعد میں پتا چلا کہ جس کی ٹُھکائی کی ہے، وہ گرچہ ڈاڑھی والا ہے اور اس کا لُک مسلمانوں جیسا ہے، مگر وہ تو ہندو ہے، اس وجہ سے انھوں نے متعلقہ شخص سے معذرت کی اور ساتھ ہی صفائی پیش کرتے ہوئے کھلے پن کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بھئی ہم تو دنگوں میں بھی ہندووں کی سائڈ پر رہتے ہیں، پھر عام حالات میں کیسے کسی ہندو کو مار سکتے ہیں ـ جس بندے نے آپ کو پیٹ دیا ہے، وہ پکا ہندو ہے، اسے آپ کی ڈاڑھی سے دھوکہ ہوا اور آپ لپیٹے میں آگئے ـ ہائے! کتنے بھولے اور سیدھے لوگ ہیں یہ پولیس والےـ
یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سیم اسی قسم کا واقعہ ماہ فروری میں نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کے دوران بھی رپورٹ کیا گیا تھاـ وہ واقعہ مشہور انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے رپورٹر کا تھا، جسے کسی جگہ فسادیوں کی بھیڑ نے گھیر لیا تھا اور بڑی مشکل سے اپنے آپ کو ہندو ثابت کرنے کے بعد اس کی جان چھوٹ سکی تھی ـ غالباً اسی بندے کو پینٹ کھول کر اپنی مذہبی پہچان بتانے کے لیے کہا گیا تھا ـ بعد میں انڈین ایکسپریس میں اس کی مفصل سٹوری چھپی تھی ـ
ان دوواقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف اس ملک کی پولیس اور عام متشدد ہندو ایک پیج پر ہیں ـ مدھیہ پردیش پولیس نے جو کچھ کہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اس پر تمام ہندوستان کی پولیس عمل کرتی ہےـ سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے جیسے متعدد ان انصاف پسندوں نے بھی اس حقیقت کو بار بار آشکار کیا ہے، جو خود ایک طویل عرصہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں کام کر چکے ہیں ـ وہ لکھتے ہیں کہ اسی وجہ سے یادہ تر؛ بلکہ تقریبا تمام فسادات میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہندووں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ ہندووں کو پولیس کی شکل میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور مسلمان اگر کہیں مضبوط ہوں، پھر بھی کھل کر ہاتھ پاؤں نہیں چلا پاتےـ "کامن کاز "نامی این جی او نے دوہزار انیس کی جو پولیسنگ کے عمل پر اپنی رپورٹ پیش کی ہے، اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریبا پچہتر فیصد ہندومسلم فسادات یا معمولی جھگڑوں میں بھی پولیس یہ مان کر چلتی ہے کہ غلطی مسلمانوں کی ہوگی؛ چنانچہ ان کے ساتھ اس کا برتاؤ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ مجرموں کے ساتھ کیا جانا چاہیےـ
پولیس میں چوں کہ مسلمانوں کی نمایندگی آٹے میں نمک جیسی ہوتی ہے؛ اس لیے مسلم پولیس اہلکار بعض دفعہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتےـ اس حوالے سے مجھے پھر وبھوتی نارائن اور ہاشم پورہ قتلِ عام پر ان کی کتاب کا حوالہ دینا چاہیےـ جب یہ شرمناک واقعہ رونما ہوا تو اس وقت ضلع غازی آباد کے ڈی ایم نسیم زیدی نامی مسلمان تھے اور سب سے پہلے اس سانحے کی خبر جن لوگوں کو ہوئی، ان میں وہ بھی تھے؛ بلکہ وہ اسی رات مقامِ حادثہ پر بھی پہنچے تھے، سارے حقائق ان کے سامنے تھے، مگر ہوا کیا، وہ سارا ملک جانتا ہےـ اسی طرح اسی سانحے کی تفتیش جس سی آئی ڈی کرائم برانچ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے سپرد کی گئی تھی، اس کا نام بھی خالد رضوی تھا، مگر اپنی نوعیت کے اس انوکھے اور انسانیت کو شرمسار کردینے والے حادثے پر عدالت کا جوفیصلہ آیا، وہ آپ کے علم میں ہوگاـ پچاسوں بے قصوروں کے قاتل بری کردیے گئے، انصاف منہ تکتا رہ گیاـ
بعض تجزیہ کارجب آزاد ہند کے پولیس نظام کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں مختلف حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزادی کے فورا بعد ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے باقاعدہ ریاستوں کو سرکلر جاری کرکے یہ ہدایت دی تھی کہ پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی کم سے کم کی جائےـ وبھوتی نارائن نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ہی اس کا ذکر کیا ہے، البتہ انھیں اس بات کی صحت پر شبہ ہے، انھوں نے کوشش کی کہ پٹیل کا یہ تحریری فرمان کہیں سے ان کے ہاتھ لگے، مگر انھیں کامیابی نہیں ملی ـ ویسے پٹیل کی شخصیت و کردار اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں ان کے مجموعی نقطۂ نظر سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بات معنی خیز ہونی چاہیےـ نیز آزادی کے بعد سے اب تک پولیس ڈپارٹمنٹ میں مسلمانوں کے داخلے کا جو تناسب رہاہے، وہ بھی کچھ کہتا ہےـ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مسلمان تو بے چارے اس لائق ہی کتنے ہوتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا حصہ بن سکیں؟ مگر پھر سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ جتنے مسلمان اس لائق ہوتے ہیں، کیا انھیں بھی انصاف کے ساتھ اس شعبے میں لیا جاتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ فسادات اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں عموما مسلمان یک طرفہ پیٹے جاتے ہیں ـ پولیس میں اگر برابری نہ سہی، مجموعی آبادی کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی نمایندگی ہوتی، تو ایک قسم کا توازن رہتاـ اپنے فرقے والوں کے ساتھ ہمدردی تو فطری بات ہے، آپ لاکھ قانون یا جمہوریت وغیرہ کے راگ الاپیں، مگر زمینی سطح پر بات کچھ اور ہی ہوتی ہےـ آزادی سے پہلے سے ہی اس ملک کی پولیس میں اس قسم کی نفسیات پائی جاتی ہے؛ چنانچہ اُس زمانے میں رونما ہونے والے فسادات کے ریکارڈ کو کھنگالیے تو آپ کو یہ ملے گا کہ مسلم پولیس والے عموما مسلمانوں کے فیور میں کھڑے ہوتے تھے اور ہندو پولیس والے ہندووں کی حمایت میں اور جس کا جہاں زور چلتا، بازی مار لیتا تھاـ آزادی سے چند ماہ پہلے بنگال کے نواکھالی، بہار کے پٹنہ وآس پاس اور پنجاب میں جو کشت و خون ہوا تھا، کیا وہ پولیس والوں کی اعانت وحوصلہ افزائی کے بغیر ہوا ہوگا؟
(ایوارڈ یافتہ ہندوستانی ناول نگار رحمن عباس نے 2019 میں "ہولوکاسٹ اور ہندوستان و پاکستان میں اقلیتوں کے مستقبل” کے موضوع پر تحقیق کی غرض سے یورپ میں کچھ عرصہ گزاراتھا۔ دراصل اس موضوع پر وہ ایک ناول لکھ رہے ہیں ، جس کے لیے مواد کی فراہمی اور متعلقہ مقامات و سانحات کے تاریخی پس منظر سے راست واقفیت کے لیے انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ یورپ میں نازیوں کے خلاف (8 مئی کو) یومِ فتح کے موقعے پر انھوں نے جرمن بیسڈ سہ لسانی ویب سائٹ قنطرہ (qantara.de) کے صحافی ڈومینک مولر کے ساتھ اپنے ناول کے پروجیکٹ اور ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے تشویشناک احیا پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ یہ پوری گفتگو مذکورہ ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے، ‘‘قنطرہ’’ کے شکریے کے ساتھ اردو قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔ )
سوال:آپ ہندوستان کی سیکولر مسلم اقلیت کے رکن ہیں۔ جہاں ان دنوں مسلمانوں کے خلاف "کورونا جہاد” جیسا لفظ دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ کے نزدیک ہندوستان کی موجودہ صورتحال کس حد تک خطرناک ہے؟
رحمن عباس: صورتحال انتہائی خطرناک ہے ؛کیونکہ یہ دائیں بازو کی نسل پرست طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ ہندو قوم پرست اقلیتوں کی توہین کرتے ہیں اور انھیں تمام بیماریوں کی وجہ بتاتے ہیں ۔ ماضی قریب ہی میں عالمی برادری نے دیکھا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کس طرح مسلم اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے "لو جہاد” جیسی اصطلاح استعمال کی ۔ سیاسی طور پر پھیلائی گئی اس نفرت کی بنا پر ما وراے عدالت سرِراہ لوگوں کی جانیں لے لی گئیں اور اسے ایک منظم منفی پروپیگنڈے کے ذریعے معمول بنا لیا گیا ۔
ہم "کورونا جہاد” کوبھی اسی مہم کی توسیع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ،جس کو سوشل میڈیا ، مین سٹریم میڈیا اور حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستداں چلا رہے ہیں۔ اس کے نتائج تمام ہندوستانی معاشرے میں نظرآرہے ہیں؛چنانچہ ہندو، مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں اور سامان خریدنے سے انکار کررہے ہیں ، کئی ہندو ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کے علاج سے انکار کردیا،اسی طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔
سوال:یورپ میں آپ کی تحقیق کا ہدف کیا ہے؟
رحمن عباس: مجھے اپنے اگلے ناول کے لئے ریسرچ گرانٹ ملی ہے۔ بنیادی طورپر اسی کے لیے میں نے یورپ کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ؛تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یورپ میں نازی فکرکو کیسے فروغ حاصل ہوا؟ اس نے جرمن معاشرے کو کس طرح متاثر کیا؟ اور یہ آئیڈیالوجی کس طرح یہودیوں ، کمیونسٹوں ، سیاسی مخالفین ،سنتی، روما ، معذور اور دیگر جماعتوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کشی کا سبب بنی؟
ہندوستان میں مسلمان ، دلت ، عیسائی اور قبائلی باشندے دائیں بازو کے انتہا پسندوں یا بالادست ہندو طاقتوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک ، الگ تھلگ کیے جانے اور ظلم و ستم کے شکار ہیں ، اسی طرح پاکستان میں شیعہ اور ہندو اقلیتوں کو مسلم شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔
جرمنی اور یورپ میں ہولوکاسٹ کے پس منظر کے طور پر جو کچھ ہورہا تھا اس کی مذمت کرنے میں سماجی وسیاسی حلقے اور نظریات کی ناکامی کا مَیں مطالعہ وتعین کرنا چاہتا تھا۔ میں برصغیر ہند کے عوام کو فاشزم کے رجحانات و خصائل سے آگاہ کرنے کے لیے جرمنی کے نازی عہد سے حاصل شدہ اہم اسباق سے متعارف کرواناچاہتا تھا۔
درحقیقت گزشتہ دو دہائیوں کے بارے میں میرا تجزیہ ، جس دوران برصغیر پاک و ہند میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے ، اسی طرح ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی متعدد مذہبی و سیاسی تنظیموں کے سلسلے میں میری تحقیقات بھی ممکنہ نسل کشی کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ان ملکوں کی موجودہ صورتِ حال جرمنی میں نازیوں کے عروج کے زمانے سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
سوال:پچھلی صدی کے آغاز میں نازیوں کے دورِ حکومت میں جرمنی کی صورتحال سے ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کس قدر مماثلت رکھتی ہے؟
رحمن عباس: نازی ازم ایک نسل پرست اور بالادستی کے حصول کانظریہ تھا۔ اس کے ماننے والوں نے قوم پرستی کو اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا ۔اسی طرح قوم پرست سوشلسٹوں نے آریاؤں کی برتری کے نظریے کو عام کیا اور اس خیال کو بھی کہ وہی حکمرانی کے لائق ہیں۔
جس طرح نازیوں نے یہودیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کیا ،البتہ خاص طور پر یہودیوں کو جرمن مفادات کے تئیں غدار بتایا گیا اور ایڈولف ہٹلر نے پہلے 1933 میں یہودیوں کی تجارت و صنعت کے قومی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس کے بعد 1935 میں نورمبرگ قوانین کے ذریعے یہودیوں کی شہریت اور ان کے بنیادی حقوق کوبھی کالعدم کردیا۔ ہندوستان میں بھی ٹھیک اسی طرح کے حالات پنپ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کا پروپیگنڈہ جاری ہے ،جس کے نتیجے میں ہندوستانی شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون لایا گیا ہے، یہ قانون ہندوستانی پارلیمنٹ سے دسمبر 2019 میں پاس ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت تین ممالک (پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان) سے تعلق رکھنے والے تمام غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی،جبکہ ان میں سے کسی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارک وطن کو ہندوستان کی شہریت نہیں دی جائے گی ، مزید برآں نئے شہری رجسٹر کی تیاری کے نام پر ہندوستانی شہریوں سے متعدد دستاویزات مانگے جارہے ہیں، جن میں والدین یا دادا دادی کے برتھ سرٹیفکیٹس بھی شامل ہیں،ان کے ذریعے سے ہی ان کی شہریت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ ایسا صرف مسلمانوں کو اس ملک سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
ترجمہ: نایاب حسن
(1)
لوگ زندگی کے غلام ہوتے ہیں،یہی غلامی ان کے دنوں کو ذلت و مسکنت سے اور راتوں کوآنسووں اور خون سے لبریز کردیتی ہے۔اب دیکھیے ناکہ میری پیدایشِ اولین پر ستر ہزارسال کا عرصہ گزرچکاہے اور میں نے اب تک شکست خوردہ وپابہ زنجیرغلاموں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے روے زمین کے مشرق و مغرب کے چکر لگائے،زندگی کی دھوپ چھاؤں میں گھومتا رہا،غاروں سے لے کر محلوں تک کا سفر کرتے ہوئے قوموں کے قافلے دیکھے؛لیکن ان سب میں مجھے محض بوجھ تلے دبی ہوئی گردنیں ،زنجیروں میں جکڑے ہوئے دست وپاواور گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ذلیل لوگ نظر آئے۔
میں نے بابل سے پیرس اور نینویٰ سے نیویارک تک کے انسانوں کا پیچھاکیااور ریت پر اس کے نقوشِ قدم کے ساتھ اس کی قید کے اثرات بھی دیکھے،وادیوں اور جنگلات سے نسلوں اور صدیوں کے نوحوں کی بازگشت سنی۔
میں محلوں،تعلیم گاہوں اور عبادت خانوں میں گیا،تختۂ شاہی،قربان گاہوں اور منبروں پر کھڑاہوا،تودیکھا کہ کاری گر تاجر اور صنعت کار کاغلام ہے،تاجر فوجی کا غلام ہے،فوجی مذہبی کاہنوں کا غلام ہے،مذہبی کاہن بتوں کا پجاری ہے اور بت تومٹی کا ڈھیرہے،جسے شیطان نے جنم دیا اوراسے مردہ سروں کے ٹیلوں پر رکھ دیاہے۔
میں طاقت وراور مالدارلوگوں کے گھروں اور کمزور و فقیر انسانوں کی جھونپڑیوں میں گیا،ہاتھی دانت اور سونے سے سجی ہوئی پرفریب کوٹھریوں اور مایوسی وموت کے سایوں سے بھرے ہوئے کے ٹھکانوں پر گیا،تومیں نے دیکھاکہ بچوں کو دودھ میں غلامی ملاکر پلایاجارہاہے،حروفِ تہجی کے ساتھ انھیں غلامی اور ذلت کی بھی تعلیم دی جارہی ہے،بچیاں لباس کے ساتھ خود سپردگی کاپیراہن بھی پہن رہی ہیں اور عورتیں صرف طاعت و فرماں برداری کے بستر پر سورہی ہیں۔
میں نے گنگاکے کنارے سے ساحلِ فرات اور نیل کے سرچشمے سے لے کر جبلِ سینا،یونان کے میدانوں سے لے کر روم کے کنیسوں،قسطنطنیہ کی گلیوں سے لے کر لندن کی بلندوبالا عمارتوں میں بسنے والی نسلوں کوآبزرو کیاہے۔ میں نے دیکھاکہ ان تمام مقامات پر غلامی اپنے قاتل جلوس کے ساتھ چلتی ہے اوراسے لوگ خدامان لیتے ہیں،اس کے قدموں پرشراب واموال بہاتے ہیں ،کبھی اسے فرشتہ کہتے ہیں،پھراس کی مورتی کے سامنے دھونی دیتے ہیں ،کبھی اسے نبی بنالیتے ہیں،اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ،کبھی اسے مذہب کانام دے دیتے ہیں،پھراسی کے لیے آپس میں لڑتے مرتے ہیں،کبھی اسے قوم پرستی کہتے ہیں،پھر اس کی مشیئت کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں اوراسے روے زمین پر اللہ کاسایہ قراردیتے ہیں،پھر اس کے کہنے پر ایک دوسرے کے گھر بار تباہ کردیتے ہیں ۔ کبھی اسے بھائی چارے کانام دیتے ہیں،پھر اسی کے لیے سخت محنت ومشقت کرتے ہیں ،کبھی اسے مال اور تجارت کانام دیتے ہیں۔الغرض یہ سب مختلف نام مگر ایک ہی حقیقت ہے اور ایک ہی جوہر کے مختلف پہلو ہیں،بلکہ یہ ایک دائمی بیماری ہے جو مختلف بیماریوں اور رِستے ہوئے زخموں کا سبب بنتی ہے اور لوگوں میں زندگی کی طرح یہ بیماری بھی نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کھیتی کی فصلوں کی طرح اس کی بیج بھی ایک زمانے سے دوسرے زمانے اورایک فصل سے دوسری فصل میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
(2)
غلامی کی جن عجیب و غریب شکلوں کومیں نے دیکھا،ان میں سے ایک اندھی غلامی ہے۔ یہ وہ ہے جو دورِ حاضر کے لوگوں کوان کے آباواجدادکے کھونٹے سے باندھ دیتی ہے،انھیں گزشتہ لوگوں اور با پ داداؤں کی رسموں ،رواجوں کے تابع کردیتی ہے اوروہ لوگ ایسے ہوجاتے ہیں،گویا قدیم آتماؤں کے جسم اوربوسیدہ ہڈیوں کی قبروں کے ڈھیرہوں۔
گونگی غلامی،یہ وہ ہے جو مرد کی زندگی کوایسی بیوی کے دامن سے باندھ دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتا اور عورت کے جسم کو ایسے شوہر کے بستر پر ڈال دیتاہے جسے وہ پسند نہیں کرتی اور ان دونوں کی زندگیوں کو ایک دوسرے سے اس طرح مربوط کردیتی ہے جیسے کہ جوتا اور پاؤں ۔
بہری غلامی، یہ وہ غلامی ہے جو لوگوں کو اپنے گردوپیش اور ماحول کے آداب و اطوار کا پابند ،اس کے رنگوں میں رنگنے والا،اس کے طرزِرہایش و پوشش کواپنانے والا بنادیتی ہے،پس ان کی اپنی حیثیت محض صداے بازگشت کی ہوتی ہے اور ان کے اجسام سایوں کی طرح ہوتے ہیں،جن کا خارج میں اپنا کوئی وجودنہیں ہوتا۔
لنگڑی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بڑے بڑے تیس مار خانوں کو چال بازوں کے جال میں پھنسادیتی ہے،طاقت ور لوگوں کو ایسے لوگوں کی گرفت میں دے دیتی ہے جو شہرت وعزت کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں،پس ان کی حیثیت ایسے آلات کی ہوجاتی ہے جنھیں انگلیاں حرکت دیتی ہیں،پھر روک دیتی ہیں اور کام ختم ہونے کے بعد انھیں توڑ دیتی ہیں۔
سفید(مائل بہ سیاہی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو بچوں کی روحوں کو وسیع تر فضاؤں سے لیتی اور حرماں نصیبی و تیرہ بختی کی آماجگاہوں میں لا ڈالتی ہے،جہاں غباوت کے ساتھ فقر و تنگ دستی اور مایوسی کے ساتھ ذلت و مسکنت اپنا پنجہ گاڑے ہوتی ہے،ایسے بچے محرومی کی حالت میں بڑے ہوتے،مجرم بن کر زندگی گزارتے اور ذلت کی موت مرتے ہیں۔
سیاہ(مائل بہ سفیدی)غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو چیزوں کو ان کی اصل قیمت کے عوض نہیں خریدتی،اشیاکے نام فی الحقیقت کچھ ہوتے ہیں اور وہ انھیں کوئی اورنام دیتی ہے،پس یہ مکروفریب کو ذہانت سے تعبیر کرتی،بکواس گوئی کو علم ریزی کہتی،کمزوری کونرمی اور بزدلی کو خودداری کانام دیتی ہے۔
ٹیڑھی غلامی،یہ وہ غلامی ہے جو خوف زدہ وکمزورلوگوں کی زبانوں کو حرکت دیتی ہے،تو وہ بے سوچے سمجھے بولتے ہیں، سوچتے کچھ ہیں اورکرتے کچھ اور ہیں،ذلت و مسکنت کے سامنے ان کی حیثیت کپڑے جیسی ہوجاتی ہے،جسے وہ جب چاہے لپیٹ دیتی اورجب چاہے بکھیر دیتی ہے۔
کبڑی غلامی،یہ وہ ہے جو ایک قوم کو دوسری قوموں کی روایات و قوانین کے تحت چلاتی ہے۔
خارش زدہ غلامی،یہ وہ ہے جو شاہزادوں کومحض نسل ونسب کی برتری کی بناپرتاجِ شاہی پہناتی ہے۔
کالی غلامی،یہ وہ ہے جومجرموں کی معصوم و بے گناہ اولاد پر عاروندامت کادائمی ٹھپہ لگادیتی ہے۔
(3)
ان مختلف نسلوں کا پیچھاکرتے کرتے جب میں بورہوگیااوران قوموں کے جلوسوں کو دیکھ دیکھ کرتھکن محسوس ہونے لگی،تومیں وادیِ خیال میں تنہا جا بیٹھا،جہاں زمانۂ گزشتہ کے سایے اور آیندگاں کی روحیں قیام کرتی ہیں۔ وہاں میں نے ایک کمزور سے سایے کو دیکھاکہ وہ تن تنہا سورج کوگھورتے ہوئے چل رہاہے،میں نے اس سے سوال کیا:
تم کون ہو؟تمھارانام کیاہے؟
تواس نے کہا:
میں آزادی ہوں۔
میں نے پوچھا:
تمھاری اولادیں کہاں ہیں؟
تواس نے کہا:ایک کو توتختۂ دار پر چڑھادیاگیا،دوسرا پاگل ہوکر مرا،تیسراابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔
پھر وہ دھند کے دبیزپردوں میں چھپ کرمیری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
نایاب حسن
حکومت کی منصوبہ بندی، تبلیغی جماعت کے امیر کی کورنگاہی ونرگسیت اورسب سے زیادہ تبلیغی جماعت کی آڑمیں مسلمانوں کے خلاف اس ملک کے انسانیت کش میڈیا کے انتھک پروپیگنڈے کی بدولت "گئوماتا”کے بعد اب”کوروناوائرس” ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ماب لنچنگ کی ایک نئی تمہید کے طور پر ابھر رہاہےـ گزشتہ چنددنوں میں دہلی، پنجاب، ہریانہ وکرناٹک میں دس سے زائدایسے واقعات رونماہوچکے ہیں، جن میں مسلمانوں کوجان سے مارنے یامحلہ وبستی سے نکالنے کی دھمکی دی گئی ہےـ راجستھان میں ایک مسلم خاتون کوہسپتال میں ایڈمٹ نہ کرنابھی اسی کاشاخسانہ تھاـ ہمارے ایک عزیزدوست شادان نفیس، جوکانپورسے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے بتایاکہ صرف مشرَّع حلیہ اورڈاڑھی ٹوپی کی وجہ سے تین تین کلینک والوں نے مشین خراب ہونے کابہانہ بناکر ان کے والدصاحب کاایکسرے کرنے سے منع کردیا ـ کوروناوائرس کے اثرات کی مدت میں جس قدرتوسیع ہوگی، اسی قدراس ملک کے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی قسم کازہریلاماحول پھیلےگاـ
حکومت جن لوگوں کی ہے، وہ موجودہ قیامت خیزحالات میں نہ توطبی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، نہ انھیں وائرس سے متاثرہونے یامرنے والوں سے کوئی لینادیناہےـ انھیں پتاہے کہ اس ملک میں توویسے بھی سالانہ لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر، نالوں اورگٹرزمیں، بھوک اورفاقہ کشی اوردیگر اسباب کی بناپرمرتے ہی رہتے ہیں، تو اگرکورونا وائرس سے پچیس پچاس ہزارلوگ مرجائیں توکیافرق پڑتاہےـ پس عوامی بے چینی میں ابال نہ آنے پائے، اس مقصدسے وہ اپنے روایتی وآزمودہ ایجنڈے پرگامزن ہیں ـ امیت شاہ دوسری تمام سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوکر پوری یکسوئی اورانہماک کے ساتھ اسی ایجنڈے پرعمل کروارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف مودی نے ملک کے اسی فیصدعوام کومورکھ بنانے کاکام اپنے ذمے لےرکھاہےـ
ایسے گمبھیرحالات میں خودہماری ذمے داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہماری سے میرامطلب ہم مسلمانوں کی اورساتھ ہی جوبچے کھچے انصاف پسند برادرانِ وطن ہیں ان کی ـ اولاً توہم(مسلمان) اپنے اندریہ حوصلہ پیداکریں کہ ہمارا کوئی طبقہ اگرکوئی ایسی غلطی کرتاہے،جس کے منفی اثرات من حیث المجموع تمام قوم پرپڑسکتے ہیں،توسنجیدگی اورتوازن کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کی بروقت گرفت کیجیے اورغلطی پرتنبیہ کیجیے؛تاکہ اس کے نقصانات سے قوم محفوظ رہ سکےـ کورونا وائرس کے ملک میں بتدریج پھیلنے کی وجہ سے حکومتی ہدایات اورشرعی تعلیمات کی روشنی میں جن دنوں ملک کے تمام نمایندہ مسلم ادارے نمازباجماعت اوردیگرمذہبی اجتماعات سے مسلمانوں کوروک رہے تھے، انہی دنوں سعدصاحب کاایک بیان سوشل میڈیاکے سہارے مسلمانوں کے درمیان وائرل ہورہاتھا، جس میں وہ بڑی مضبوطی؛ بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ مسلمانوں کومسجدکی طرف رجوع کرنے کی دعوت دے رہے تھے، اسی پربس نہیں، انھیں ڈاکٹروں کی اس ہدایت پربھی شدیداعتراض تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، وہ باقاعدہ حدیث کاسہارالے کر مسلمانوں کوابھاررہے تھے کہ تم مصافحے کاعمل ہرگزنہ چھوڑناـ یہ چیزیں یقیناعام مسلمانوں کے ساتھ خاص مسلمان یعنی ہمارے دیگراہلِ علم قائدین تک بھی پہنچی ہوں گی، تب انھیں سعدصاحب سے رابطہ کرکے صورتِ حال کی خطرناکی کے بارے میں بتاناچاہیے تھا، اگر ایسا ہواہوتا توشایدنوبت یہاں تک نہ پہنچتی ـ
دوسراکرنے کا ضروری کام اِس وقت بھی اوربعدمیں بھی یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا جس میں نیوزویب سائٹس اورسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس شامل ہیں، وہاں ہمارے نوجوانوں کوبھرپور اورمؤثرموجودگی درج کروانی چاہیے اورمین سٹریم میڈیاکی مغالطہ انگیزیوں کوکاؤنٹرکرناچاہیے ـ کسی تنظیم کی جانب سے اخبارکے اجرا یاکوئی میڈیاہاؤس قائم کرنے کے مطالبے یاخواہش سے ہم لوگ دست بردار ہوجائیں، توہی بہترہے؛ کیوں کہ ماضی میں ایسی کئی مہمیں چھیڑی گئیں، جو”چندہ بٹورنے "تک محدودرہ گئیں یاانفرادی طورپرقوم کے کچھ صحافیوں نے اخبارنکالا، تووہ بھی یاتوحالات کے چیلنجزکامقابلہ نہ کرسکے یاان کی نیتیں پہلے سے ہی ناصاف تھیں، سوان کے اخبارات بھی آئے اورگئےـ لہذاہم ان سب جھمیلوں میں پڑے بغیر سوشل میڈیاجہاں کروڑوں لوگ ہروقت موجودہوتے ہیں اورفی زمانہ کوئی بھی سماجی بیانیہ قائم کرنے میں اس کاغیرمعمولی رول ہے، اسے ہم مسلمانوں یاکسی بھی طبقے کے خلاف مین سٹریم میڈیا کے پروپیگنڈے کاجواب دینے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ـ حالات بہت عجیب رخ اختیارکررہے ہیں، ایسے میں لمبی لمبی باتیں کرنے اورمنصوبے انڈیلنے کی بجاے موجودہ ہندوستانی میڈیاکوکاؤنٹرکرنے کا یہی فوری اور مؤثرطریقہ ہوسکتاہےـ
نایاب حسن
طنزومزاح کے معروف شاعر اسرار جامعی طویل علالت کے بعد آج وفات پاگئےـ ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی اورکئی ماہ تک جامعہ نگرکے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہےـ اسرارجامعی کی پیدایش گیا، بہارمیں1938میں ہوئی،ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حاصل کی،رانچی کالج سے بی ایس سی اوربرلاکالج آف ٹکنالوجی سے انجینئرنگ کیاتھاـ شروع سے ہی قلندرانہ وصف پایاتھا، سوکہیں ٹک کر کوئی ملازمت وغیرہ نہیں کی، تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے وطن میں ہی "اقبال اکیڈمی "قائم کی اوراس کے تحت کچھ علمی وادبی کام کیے، پھرکل وقتی شاعر ہوگئےـ اسرارجامعی نے اردوکی مزاحیہ شاعری میں بڑی اہم اورنمایاں خدمات انجام دیں، ان کاایک شعری مجموعہ بھی شاعرِ اعظم کے نام سے شائع ہوا، اس کے علاوہ غیرمطبوعہ کلام کاایک بڑاذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں ـ
جب میں 2014میں دہلی آیا تواتفاقاایک دن ان سے غالبا بٹلہ ہاؤس بس سٹینڈپرملاقات ہوگئی، علیک سلیک کے بعد انھوں نے اپنے تازہ قطعے کی پرچی تھمائی اورچلنے لگے، میں نے نام دیکھا توچونک گیا، چوں کہ پہلے سے ان کانام سناہواتھا اوریہ بھی جانتاتھاکہ وہ بڑے شاعرہیں، سوان کے پیچھے پیچھے ہولیا، مزیدخبرخیریت معلوم کی، اپنے بارے میں بتایا، ان سے معلوم کیاکہ کہاں رہتے ہیں؟ اپنے "کرایہ خانے "کے بارے میں بھی بتایاـ اس کے بعد ان سے باقاعدہ شناسائی ہوگئی، پھروہ میرے کمرے پربھی آنے لگے، 2015میں انھوں نے اپنے پرچے "پوسٹ پارٹم "کاآخری شمارہ نکالا، جس کے لیے موادکی فراہمی میں مَیں نے ان کاتعاون کیا، وہ کافی خوش ہوئے اورجب بھی، جہاں بھی ملتے، اس تعاون کے لیے میراشکریہ اداکرتےـ جب تک صحت مند اورچلنے پھرنے کے قابل رہے، میرے کمرے پرآتے رہے، میں بھی ان سے ملنے جاتارہاـ پھران کی طبیعت بگڑی اوربگڑتی چلی گئی، پہلے جہاں رہتے تھے، وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوئے یامنتقل کیے گئے،بہت دنوں تک ملاقات نہ ہونے کے بعدمیں نے اپنے طورپرکئی لوگوں سے ان کے بارے میں معلوم کیا، مگرکچھ پتانہیں چلتا، پھرایک دن ڈاکٹرعبدالقادرشمس صاحب نے بتایاکہ وہ توبہت خستہ حالت میں ہیں اورفلاں ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ـ ویسے توان کی پوری زندگی ہی کچھ ایسی آسودہ نہیں رہی، مگرآخرمیں بالکل ہی اکیلا اوربے یارومددگارہوگئے تھے، ڈاکٹر عبدالقادرشمس صاحب کواللہ پاک جزائے خیردے کہ انھوں نے اس مرحلے میں ان کی خبرگیری کی اوراپنے صاحبزادے عمارجامی کومستقل اس کی ذمے داری دے رکھی تھی ـ ان کی تجہیزوتکفین کاانتظام بھی انھوں نے ہی کیاـ
اسرارجامعی کے شاعرانہ قدوقامت پربڑے بڑے ناقدین نے گفتگوکی اوران کی شاعرانہ برتری کوتسلیم کیاہےـ ابتدامیں شفیع الدین نیر کواستادبنایا پھررضانقوی واہی کی شاگردی اختیارکی اوربتدریج اپنی ایک منفردراہ نکالی اورآسمانِ شعروادب پرچھاگئےـ ان کے کلام کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ لفظوں اورترکیبوں کے معمولی ہیرپھیر سے بات کوکہیں سے کہیں پہنچادیتے اورگہرے معانی پیداکرلیتے تھے ـ ان کے طنزمیں پھکڑپن نہیں ہوتاتھا،ایک خلوص اورہمدردی ہوتی تھی،ان کاطنزایساہوتاتھاکہ وہ شخص بھی سن کر مزے لیتاجوان کاہدف ہوتاـ انھوں نے زیادہ ترملک کے سیاسی احوال پر طنزیہ شاعری کی اوربڑے بڑے سیاست دانوں کی موجودگی میں ان کے خلاف اشعارپڑھےـ اس کے علاوہ سماجی احوال اورادبی حلقوں کی کج رویوں پربھی انھوں نے طنزکے تیربرسائےـ
اسرارجامعی کی خدمات کے اعتراف میں متعدداداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے سرفرازکیاگیا، مگر وہ جس قدوقامت کے شاعرتھے اس اعتبارسے انھیں ادبی حلقوں میں مقبولیت یامادی سرخروئی حاصل نہیں ہوسکی، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فطری طورپرنہایت سادہ اورہرقسم کی ہوشیاری وچالاکی سے کوسوں دورتھے، جوآج کل کے سکہ بندادیبوں اورشاعروں کاطرۂ امتیازسمجھاجاتاہے اورلوگ اپنی صلاحیت وخدمات کے زورپرنہیں بلکہ سرکاردربار کی چاپلوسی کرکے یاادبی گروہ بندیوں کاحصہ بن کر ناموری وشہرت اورمال ودولت حاصل کرتے ہیں ـ اسرارجامعی نے کبھی اپنی انااوراصول واقدارسے سمجھوتانہیں کیا،جس کی وجہ سے وہ اپنے عہد میں طنزومزاح کے "شاعرِاعظم ” ہونے کے باوجودہمیشہ خستہ حال رہے اورعبرت ناک زندگی گزاری ـ ان کاخاندان بہارکاایک موقرخاندان تھا، ان کے بھائی اوربھانجیاں بھی ہیں، مگرسب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف، قدآور دانشورولیڈرسیدشہاب الدین ان کے پھوپھاتھےـ جامعی صاحب دنیامیں زندگی بسرکرنے کے داؤپیچ سے قطعانابلدتھے،سو انھیں قدم قدم پر خساروں سے دوچارہوناپڑا، کسی زمانے میں دہلی کے جامعہ نگرمیں ان کی سیکڑوں گزکی زمینیں تھیں، جن پران کے مبینہ ہمدردوں نے ہی قبضہ کرلیا اوراخیر عمر میں ان کےپاس رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی نہیں تھاـ کبھی کوئی شناسااپنی بلڈنگ کاکوئی کمرہ دے دیتااورکبھی کسی جاننے والے کے یہاں چند ماہ رہ لیتےـ اسرارجامعی کی وفات پرادباوشعراافسوس کااظہارکررہے ہیں، مگران کی زندگی میں بہت کم لوگوں نے ان کی احوال پرسی کی ـ میں انھیں اکثرکہاکرتاتھاکہ آپ بلاشبہ ایک عظیم شاعرہیں، لوگوں کوبھی اس کااندازہ ہے، مگراس کااظہاروہ آپ کی وفات کے بعد کریں گے اورآپ کے نام پرروٹیاں توڑی جائیں گی، جیسے غالب کے نام پرتوڑی جارہی ہیں، غالب بے چارے خودتوکس مپرسی کی زندگی گزارتے رہے، مگراپنے بعداپنی ذات سے منسوب ایک مستقل روزگارچھوڑگئےـ یہ سن کروہ ہنس دیتے اورادھر ادھرکی باتیں کرنے لگتےـ
دوہزاراٹھارہ میں بعض نیوزچینلوں نے باقاعدہ ان کے تعاون کے لیے خبریں چلائیں، مگردہلی سے لے کر بہارتک کے دسیوں اردواداروں اوراردوکی وردی پوش شخصیات میں سے کسی کوتوفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کی طرف مددکاہاتھ بڑھائے، دہلی حکومت سے ملنے والاوظیفہ بھی انھیں مردہ قراردے کر بند کردیا گیا،جامعی صاحب جگہ جگہ اپنی زندگی کاثبوت دکھاتے رہے،بعض اخباروں نے لکھابھی، متعلقہ وزیراور اوکھلاکے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگرنتیجہ صفررہاـ
بہرکیف اب تووہ واقعی وفات پاچکے ہیں اوراپنے پیچھے اپناقیمتی کلام اورشعری سرمایہ ہی نہیں، عبرت وموعظت کی ایک پوری داستان بھی چھوڑگئے ہیں ـ خدااپنے جواررحمت میں جگہ دےـ
جسٹس مدن بھیم راؤ لوکُر
ترجمہ:نایاب حسن
دہلی فساد سے متاثر ہونے والے علاقوں کامیں نے دورہ کیاہے،ان میں سے بعض تو میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں،ہرگلی میں جلی ہوئی دکانیں اور مکانات بکھرے پڑے ہیں۔یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے، دکان ومکان تو دوبارہ بنائے جاسکتے ہیں،مگر اس فساد کے دوران جوجانیں تلف ہوئیں ان کا بدل کہاں سے آئے گا؟اس فساد میں پچاس سے زائد لوگ بلاکسی وجہ صرف نفرت کی وجہ سے مارے گئے۔بچوں کوان کے والدین کے(صحیح یاغلط) نظریہ وافکارکی وجہ سے سزادی گئی،یہ انصاف ہے یاناانصافی ہے؟کیامحض مالی مدداور معاوضے سے اس درد اور تکلیف کا مداواہوسکتاہے،جس سے یہ بچے اوران کے والدین گزر رہے ہیں؟ کیا بدلے میں انھیں یہی کچھ دیاجاسکتاہے اوربس؟شیووہاراور دیگر فسادزدہ علاقوں کے معاینے کے دوران میرے ذہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہے۔
عیدگاہ کامنظر بھی تکلیف دہ تھا۔وہاں کافی سارے ریلیف کیمپ لگے ہوئے ہیں،مجھے بتایاگیاکہ ان کیمپوں میں تقریباً ایک ہزارلوگ رہ رہے ہیں۔اہلِ خیر جماعتیں اور افراد چٹائیاں،کمبل،کھانا،دوائیں فراہم کررہے اور وہاں مقیم لوگوں کی راحت کا سامان کررہے ہیں۔میڈیاکے ایک طبقے کودیکھاکہ وہ فساد متاثرین کے بیانات ریکارڈ کررہاہے۔توقع ہے کہ یہ بیانات جانچ کرنے والوں کے ذریعے ثبوت و شواہد کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے اگر سٹیبلشمنٹ بھی ساتھ مل کر کوئی قدم اٹھائے۔فساد متاثرین کی بازاآبادکاری کے لیے جو کچھ تھوڑی بہت مددکی جارہی ہے وہ غیر سرکاری تنظیموں اور اہلِ خیر افراد کی طرف سے کی جارہی ہے،رفاہی ریاست کی جانب سے بہت معمولی مدد کی جارہی ہے۔
مگر اس فساد پر الزام تراشی کا کھیل شروع ہوچکاہے اور یہ تب بھی جاری رہے گاجب اس کی جانچ پوری ہوجائے گی یا انکوائری کمیشن اپنی رپورٹ سونپ دے گی۔اس کا ایک متوقع نتیجہ تویقینی ہے کہ…اگرانتظامیہ کے کسی فرد کو گڈگورننس کا آئیڈیاہوتا یا سٹیبلشمنٹ نے مناسب قدم اٹھایاہوتا تو بہت سی جانیں بچائی جاسکتی تھیں اور بہت سی دکانیں اور مکانات جلنے،لٹنے اور تباہ ہونے سے بچ سکتے تھے۔بیوروکریٹک نااہلی اور انتظامی ناکارگی نے مل کرخوں ریزی کے لیے ماحول سازی کاکام کیا،جوایک دو نہیں،پورے تین دن تک جاری رہی۔ایسالگتاہے کہ پولیس اور انتظامیہ سے مرکب سٹبلشمنٹ کمبھ کرنیوں کی زدمیں تھے اور اس کی نہایت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
معقول احساسِ ذمے داری دہی کا فقدان:
پوری زندگی قانون کا طالب علم رہنے کی حیثیت سے،میں حیرت زدہ رہ گیاکہ عدلیہ نے کسی معقول ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔قانون کے مطابق ہر عوامی آفت یا نسلی فساد کے متاثر شخص کو قانونی خدمت کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اورپر ہونے والے ظلم کے خلاف کیس فائل کرے،مثلاً ہونے والے نقصان کے معاوضہ وغیرہ کے لیے۔پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کردہ قانون کے تحت دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی ذمے د اری تھی کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کرتی،مگر وہ کہاں تھی؟ انصاف تک رسائی محض ایک نعرہ نہیں،مقصداور ہدف ہوناچاہیے۔اس اتھارٹی نے اس فساد کے پورے ایک ہفتے بعدپانچ ہیلپ ڈیسک قائم کیے،مگر ان میں سے جن دو ہیلپ ڈیسک کامیں نے معاینہ کیا،وہاں کے وکلا کو خود ہی مدد کی ضرورت ہے،انھیں اپنی ذمے داری کاکچھ پتاہی نہیں۔میں ان خیر اندیش وکلاکی کوششوں کی تحقیر نہیں کررہا،مگر مجھے یقین ہے کہ جب دہلی لیگل سروسزاتھارٹی اپنی سالانہ رپورٹ تیار کرے گی تو اس میں فساد متاثرین کے مفاد میں کیے گئے قانونی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیاجائے گا۔ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے۔
البتہ دہلی ہائی کورٹ سے جب رجوع کیاگیا تواس نے فوری ایکشن لیا۔دیررات کیس کی سماعت کی اور فساد متاثرین کو راحت دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جواب دہی سے متعلق سوالات کیے۔گرچہ اگلے ہی دن عوام کے محافظین کوایسا لگاکہ ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اس وقت ماحول سازگار نہیں ہے اور کیس کو اگلے چھ ہفتوں کے لیے لٹکادیاگیا۔آپ تصور کیجیے کہ ایک شخص گھریلو تشددکا شکار ہے یا ایک عورت جنسی ہراسانی کی شکارہے اور وہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانے جاتی ہے اور وہاں ایس ایچ اواسے کہتاہے کہ ابھی رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے،چھ ہفتے بعد آنا،توکیااس عرصے میں اس کے ساتھ دوبارہ تشددیاہراسانی کاامکان نہیں ہے؟کیا یہ حیرت ناک لاجک نہیں ہے؟یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کواس سلسلے میں مداخلت کرنی پڑی اورہائی کورٹ کوحکم دیناپڑاکہ سماعت میں جلدی کرے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین میں سے کتنے لوگ سپریم کورٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
ایک بار اگر ایف آئی آر درج ہوجائے تو متعلقہ مبینہ الزام کی تحقیق شروع ہوجاتی ہے؛لیکن اگر ایف آئی آر ہی درج نہ ہو تو کسی قسم کی تفتیش نہیں ہوسکتی۔کئی سارے فیصلے ہیں، جن میں کورٹ نے متاثرشخص کے ذریعے ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر پر سوالات کیے ہیں۔بہت سے کیسزمیں تاخیر کی مناسب وجہ بتائی گئی اور بہت سے کیسز میں ایسا نہیں ہوا،جس کی وجہ سے ملزم رہاکردیاگیا،ایف آئی آر کی اس حد تک اہمیت ہے۔تفتیش کی جو سب سے اہم خاصیت ہے وہ ہے ثبوتوں کو جمع کرنا اور اگر ان ثبوتوں کو مٹانے یا گواہ کو متاثر کرنے کا امکان پایاجائے تو ملزم کو انوسٹی گیشن آفیسرکے ذریعے گرفتار بھی کیاجاسکتاہے؛لہذااگر دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کو چار ہفتوں کے لیے مؤخر کردیاگیاہے،تواس عرصے میں ایک ہوشیار ملزم چالاکی کا مظاہرہ کرکے اپنے خلاف اہم ثبوتوں کومٹا سکتا اور گواہوں کو دھمکی یالالچ دے کر خاموش کرسکتاہے،جس کے نتیجے میں پولیس اس کے حوالے سےno offence report فائل کردے گی اور اس طرح یہ پورا کیس ہی بند ہوجائے گا۔اس پورے سلسلے کو انصاف کہاجائے گا یا ناانصافی؟
عدلیہ کی اخلاقی ذمے داری:
فرقہ وارانہ فسادات کے موقعوں پر عدلیہ کی ذمے داری نہایت اہم ہوتی ہے؛کیوں کہ وہ ہنگامہ آرائی کو فساد بننے سے روک سکتی ہے۔عدلیہ کے پاس نہ توتلوار ہے اور نہ ہی وہ ریاست کےpurse stringپر کنٹرول رکھتی ہے، البتہ وہ اس اعتبار سے طاقت ور ہے کہ اسے اخلاقی اتھارٹی اور عوامی اعتماد حاصل ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عدلیہ جو کہتی یاکرتی ہے،زمینی سطح پراس کا غیر معمولی اثر ہوتاہے، اس سے قطع نظر کہ تلواراور purse stringکس کے ہاتھ میں ہے۔اسی وجہ سے ایسی صورت حال میں فوری ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے؛لہذاکورٹ سے یہ کہتے ہوئے کہ رپورٹ درج کرنے کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے کیس کو مؤخر کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اکثروبیشتر جب ریاست اور پولیس اپنی تمام تر قانونی طاقت و قوت کے باوجود ناکام ہوجاتی ہے، تو کورٹ کی مداخلت سے ہی ماحول سازگار بنتاہے۔ سامراجی نظریہ ختم ہوناچاہیے کہ کورٹ ری ایکٹیوہو،اس کی جگہ عوامی مفاد میں یہ نظریہ تشکیل پاناچاہیے کہ کورٹ فعال ہو۔اگرایسانہیں ہواتواے ڈی ایم جبل پورکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر اپنی پہنائیوں سے باہر نکل آئے گااور ہماراپیچھا کرتارہے گا۔
حالیہ واقعات سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ پولیس نے اظہارِ خیال کی آزادی اور اشتعال انگیز بیان بازی کو پوری طرح خلط ملط کردیاہے۔سیاسی قوت رکھنے والے افراد کی جانب سے اشتعال انگیز تقریر اور نعرے بازی، جو غداری کے جرم میں آئے یا نہ آئے،مگر نفرت انگیز بیان بازی کے زمرے میں تو آتی ہی ہے،مگر اس پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔دوسری طرف کمزورلوگوں کوایسے عمل کے لیے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیاجس کی وجہ سے معمولی جھڑپ بھی نہیں ہوئی چہ جائیکہ اس کے ذریعے ”نفرت پھیلائی جائے یااس کی کوشش کی جائے،قانون کے مطابق قائم حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکایاجائے یابھڑکانے کی کوشش کی جائے“،اس پس منظر میں اوہاراکے جواب میں بروسلی کا مشہور مقولہ کتنا درست ہے کہ ”اگرآپ لکڑی کے تختے کوتوڑتے ہو،تووہ مڑکر حملہ نہیں کرے گا“۔پس ایک دوسرے پرالزام تراشی کے کھیل سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جو لوگ دہلی فساد کے ملزم ہیں،کیاان کی شناخت ہوگی اوران پر مقدمہ ہوگا اور اگر ہوابھی،توکیاانھیں سزاملے گی؟ہماری عدلیہ کوتو1984فسادات میں سجن کمارپرالزام ثابت کرنے میں پورے35سال لگ گئے۔اب حالیہ فسادکے مجرموں کوکب تک پکڑاجائے گااور کب تک سزاملے گی،پتانہیں اور اس کی کس کو فکر ہوگی؟
آخری بات:
ہمیں اپنے ملک کے عظیم الشان دستور کے دیباچے کو پڑھنا چاہیے اور اس میں موجود ان چار اہم ترین الفاظ کی قدرکرنی چاہیے”انصاف،آزادی،مساوات، اخوت“۔ اورسوچنا چاہیے کہ ہم ان تمام یا ان میں سے بعض الفاظ کی معنویت کوبھی سمجھ رہے ہیں یا بالکل ہی نہیں سمجھ رہے؟
(مضمون نگار سپریم کورٹ آف انڈیاکے سابق جسٹس اور فی الوقت سپریم کورٹ آف فیجی کے جج ہیں۔اصل مضمون آج کے روزنامہ دی ہندومیں شائع ہواہے)
نایاب حسن
دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام پر اب تک جن مسلم ممالک کے ردِعمل سامنے آئے ہیں،ان میں انڈونیشیا،ترکی،پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ملیشیا و ترکی نے سی اے اے پر بھی حکومتِ ہندکی تنقید کی تھی۔ایرانی وزیر خارجہ نے پیرکے دن ٹوئٹ کرکے دہلی فساد کو”مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد“قراردیااور ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کیاکہ مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی لکھاکہ”ہندوستانی مسلمانوں کے قتلِ عام پر ساری دنیاکے مسلمانوں کے دل مغموم ہیں“۔انھوں نے تہدید آمیز اندازمیں لکھاکہ”اگر ہندوستان انتہاپسند ہندووں پر لگام نہیں لگاتا،تو عالمِ اسلام اسے الگ تھلگ کردے گا“۔ہندوستان نے ایران کے اس رویے پرناراضگی جتائی اور ایرانی سفیر سے احتجاج درج کروایاہے۔ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ ہورہاہے،وہ ہماراداخلی معاملہ ہے،باہر والوں کوبولنے کا حق نہیں ہے۔گرچہ دہلی فساد پر ایران کے اس سخت ردعمل کوبعض سیاسی تجزیہ نگار امریکہ و خلیجی ممالک سے ہندوستان کی قربت کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں،جن سے ایران کی رسہ کشی کی طویل تاریخ ہے۔آج کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں کے سی سنگھ نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ چوں کہ ہند-ایران مذہبی و ثقافتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے؛اس لیے ایران کا ہندوستان کی موجودہ صورتِ حال پر بے چینی کا اظہار کرنابنتاہے،ساتھ ہی انھوں نے چین میں اویغورمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایران کی خاموشی کی طرف بھی اشارہ کیاہے اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چین چوں کہ خطے میں ایران کا ہمدردہے،شاید اس لیے ایران اس کے خلاف نہیں بولتا۔یہ بات ہم پاکستان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف شاید ہی مذمت کا کوئی بول سننے کو ملتاہے۔بہرحال حقیقت جوبھی ہو،مگر یہ بڑی بات ہے کہ ایران نے کھل کر دہلی فساد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیااورحکومتِ ہندکودفاعی پوزیشن میں ڈال دیاہے۔
بنگلہ دیش نے گرچہ17/مارچ کو ”مجیب صدی“تقریبات میں کلیدی خطبہ دینے کے لیے مودی کو دعوت دے رکھی ہے،مگر وہاں پہلے این آرسی/سی اے اے پر ہندوستان کے خلاف احتجاج ہورہاتھا،اب دہلی میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف زور دار احتجاج ہورہاہے۔کل بعد نماز جمعہ متعدد بنگلہ دیشی تنظیموں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں احتجاجی مارچ نکال کر مودی کو بنگلہ دیش بلائے جانے کی مخالفت کی،انھوں نے اعلان کیاہے کہ اگرمودی بنگلہ دیش جاتے ہیں،تووہ لوگ انسانی زنجیر بناکر مودی کے خلاف ملک گیر احتجاج کریں گے،انھوں نے اپنی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے مطالبہ کیاہے کہ مودی جیسے انسان کو،جس کی حکومت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں،بنگلہ دیش کے بانی سے منسوب تقریبات میں خطاب کرنے کے لیے نہ بلایاجائے۔
اس پورے سیناریومیں عالمِ عربی کا موقف نہایت ہی شرمناک اور قابلِ افسوس ہے۔دہلی میں قتل و غارت گری کے خلاف پوری دنیا میں ہنگامہ ہورہاہے،عالمی میڈیا میں اس کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے،حتی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس پر بحث و نقاش ہورہاہے،مگر خلیجی و غیر خلیجی عربی ممالک کے حکمرانوں کو گویا موت آگئی ہے،ان کی زبانوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لفظِ تسلی سننے کونہیں ملا،چہ جائیکہ وہ ہندوستانی حکومت کے خلاف کوئی مضبوط قدم اٹھاتے۔کیااسلامی اخوت محض ایک ڈھکوسلہ ہے اوراس کا خارج میں کوئی وجودنہیں ہے؟ایک طرف ہندوستان کے مسلمان ہیں کہ یہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر موضوع اور ہر معاملے میں عالمی اسلامی اخوت کے نعرے لگاتے اور خصوصا عربی ممالک کو غیر معمولی احترام تقدیس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں،دوسری طرف یہ جبہ وعقال پوش قوم ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے دنیاکی سب سے بڑی مسلم آبادی سڑکوں پر ہے اور ہندوستان کی راجدھانی میں ان کی جان و املاک تباہ و برباد کردی گئیں،مگر اس پورے عرصے میں ان مردودوں سے ایک حرفِ تسلی سننے کونہیں ملا۔ حالاں کہ سعودی عرب سے لے کر متحدہ عرب امارات اور کویت و بحرین اور دیگر عرب ممالک جن سے ہندوستان کے گہرے تجارتی و اسٹریٹیجک تعلقات ہیں،وہ چاہیں تو ہندوستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں فرقہ وارانہ امن و امان قائم رکھے۔ایسے دباؤکااثر ہوتایانہیں ہوتاہے،اس سے قطعِ نظر عالمی ڈپلومیسی پراس کااثرضرور پڑتاہے۔جس طرح ایران یا ترکی اور انڈونیشیا وملیشیانے بیانات دیے، توان کے بیانات کے بعد کچھ ہوایانہیں ہوا،مگر ہندوستانی حکومت نے یقینی طورپر اپنے آپ کو دباؤ میں محسوس کیاہے اور یہی وجہ ہے کہ باربار یہ بولنے اور صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور ہمارے ملک کے لوگ محفوظ ہیں اوراسی دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کوعمیر الیاسی اور ایم جے اکبر کوجنیوا بھیج کرہیومن رائٹس کونسل میں صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
عام طور پر آقا جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے غلام کی غلامی اتنی ہی بڑی اور عظیم ہوا کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمراں عام طور پر امریکہ کی غلامی پرفخر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا حال اور بھی براتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی وہاں جمہوریت سے کہیں زیادہ آمریت جلوہ گر تھی۔ ہر آمر امریکہ کی غلامی پر نازاں رہتا تھا۔ ایوب خاں نے اپنے زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی یالکھوائی تھی، جس کا عنوان تھا ”آقا نہیں دوست“۔ کتاب کے سرورق پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے ؎
اے طائرلاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کتاب کا مقصد اچھا تھا مگر اس کتاب سے پاکستان کی غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں غلامی عروج پر ہوگئی تھی۔ سابق صدرامریکہ جارج واکر بش کے ایک فون آنے سے پرویز مشرف ڈھیر ہوجایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی مدد سے پاکستان کا اچھا خاصا استحصال امریکہ نے کیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امریکی حملے سے افغانستان میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ اب وہاں جمہوریت کی ایک حد تک جلوہ نمائی ہے۔ عمران خان امریکہ کی غلامی کو ملک وقوم کیلئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہئے کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی غلامی عروج پر ہے۔ مودی ہندستان میں اپنی محبوبیت اور مقبولیت کیلئے امریکہ کا کئی دورہ کرچکے ہیں۔ ان کے آخری دورے پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کیلئے ‘Howdy, Modi!’ (ہاؤڈی مودی) کا پروگرام منعقد کیا تھا جس پر کروڑوں کا صرفہ آیا اور شاہی خرچ غریب ہندستان نے برداشت کیا۔ آئندہ 24 فروری کو دو روزہ دورے پر صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں۔ آقا کی آمد سے پہلے مودی چشم براہ ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی شہنشاہ آرہا ہے اور ملک کی رعایا ان کے استقبال میں کہہ رہی ہے کہ ؎
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد آباد (گجرات) کے غریبوں کی غریبی چھپانے کیلئے اونچی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں سے غریبوں کی جھی جونپڑی کو زور زبردستی ہٹایا جارہا ہے تاکہ بادشاہ سلامت کی نظر مودی کی ریاست یا ملک پر نہ پڑے اور بادشاہ سلامت ناراض نہ ہوجائیں۔ صدر ٹرمپ تاج محل دیکھنے آگرہ بھی جائیں گے۔ آگرہ میں بھی راستوں کی مرمت بھی زوروں پر ہورہی ہے اور دیواروں کی لیپاپوتی بھی ہورہی ہے۔ یوگی کو تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخ سے نفرت ہے لیکن سینے پر پتھر رکھ کر تاج محل کے آس پاس کے علاقے کی صفائی ستھرائی اور تزئین وآرائش کا کام زوروں پر ہے۔ یوگی ہوں یامودی ایک ایسے کلچر اور ایک ایسی ذہنیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں غلامی رچی بسی ہے بلکہ غلامی وراثت میں ملی ہے۔ برطانیہ دنیا کا سامراج تھا تو ان کے پرکھے برطانیہ کے وفادار تھے اور برطانیہ کی غلامی پر ناز کرتے تھے۔ مودی کو یقین تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے ان کی پگڑی اونچی ہوجائے گی لیکن گزشتہ روز (19فروری) ایک ایسی تقریر کی کہ مودی کی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں امریکہ سے اچھا برتاؤ نہیں کیا ہے لیکن میں مودی کو بیحد پسند کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہاکہ تجارتی یا دفاعی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد ہندستان سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ”نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ہوائی اڈے سے احمد آباد تک 70لاکھ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے رہیں گے“۔ اس تقریر سے ہوسکتا ہے کہ اگر مودی اپنے آپ کوہندستان سے بڑا سمجھتے ہوں تو دل میں خوشی محسوس کر رہے ہوں کہ آقا نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔حالانکہ آقا کے دورہئ ہند کا سارا مقصد اپنے صدارتی انتخاب کیلئے ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہندستانی یا گجراتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کرنے کیلئے ووٹ دیں۔ ’ہاؤڈی موڈی‘ کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے ایک کارکن کی طرح اپنے آقا کے حق میں نعرہ بلند کیا تھا کہ ”دوسری بار ٹرمپ سرکار“۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ہندستان میں اسی نعرے کو دہراتے ہیں یا کوئی نیا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکن ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی دوسرا امیدوار ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہوں۔ مودی جی کو اس نکتہ پر غورکرنے کا وقت شاید نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے ان کو یہ سجھاؤ دیا کہ ایک دوسرے ملک میں کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو نعرہئ انتخاب بلند کرنا انتہائی غلط ہے اور ملک کے مفاد میں صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی کو اوپر اٹھا دیا لیکن ہندستان کو نیچے گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ملک کاکوئی بھی سربراہ ہو اور جب وہاں جمہوریت ہوتی ہے تو سربراہ مستقل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ملک سے بیزاری اور سربراہ سے پیار محبت کی نمائش ڈونالڈ ٹرمپ اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں۔دونوں کی ذہنیت تقریباً یکساں ہے۔ دونوں انسان دشمنی اور عوام دشمنی پر یقین رکھتے ہیں۔نریندر مودی کا اگر آر ایس ایس سے تعلق ہے تو ٹرمپ کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ ٹرمپ کی رگِ جاں پنجہئ یہود میں ہے اور مودی کی رگِ جاں آر ایس ایس کے پنجے میں ہے۔ مودی جب بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملے ہیں تو ان کا Body Language (جسم کی زبان) بچکانہ ہی نظر آیا۔ ان کی مرعوبیت بھی عیاں تھی۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں مودی جی اپنے ملک میں رہیں گے، یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے مہمان کے سامنے جھکے رہیں اور اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ یہاں بھی وہ شاید ہی اپنے معیار کو بلند رکھ سکیں اور پرواز میں کوتاہی نہ کریں۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے مگر مودی جی کی شاہ خرچی اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے پہلے ہی کی طرح ہے کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں رائے، مشورہ اور آزادیِ اختلاف و انحراف، حقوق اور حریت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے دونوں سربراہوں کو انسانیت اور جمہوریت کی ان قدروں سے دوردور کا واسطہ نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا مواخذہ کچھ ایسا ہورہا تھا کہ وہ شاید ہی امریکہ کی صدارت کی کرسی پر فائز رہ سکیں لیکن وہ بال بال بچے۔ مودی جی کے خلاف پورے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی اور سیاہ قانون کی وجہ سے مخالفت اورمزاحمت ہورہی ہے۔ غور کیاجائے تو ان دونوں سربراہوں کی اپنے ملک میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں ہے۔ دونوں اپنی مقبولیت کیلئے کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچا اورسمجھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ہندستان کے وزیر اعظم کی شاہ خرچی غریب ملک کے پیسے سے اور غریبوں کی غربت اور افلاس کو اونچی دیواروں سے چھپانے کی کوشش سے مودی کی نیک نامی پر بٹا لگ رہا ہے ؎’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
تحریر:ڈاکٹرمازن مطبقانی
ترجمہ:نایاب حسن
اس مضمون میں علمِ استشراق کے بالمقابل علمِ استغراب پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی،علم استغراب کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں مغرب(امریکہ و یورپ) کا اعتقادی، قانونی، تاریخی،جغرافیائی،اقتصادی،سیاسی و ثقافتی تمام پہلووں سے مطالعہ کیاجائے۔اب تک یہ شعبہ مستقل علم کی حیثیت اختیار نہیں کر سکاہے؛لیکن اسلامی و عربی ممالک میں جونئی علمی علمی بیداری پیدا ہورہی ہے،اس کی روشنی میں امکان ہے کہ علمی تحقیق کے ادارے اور عالمِ اسلامی کی اعلیٰ تعلیم کی وزارتیں اس سمت میں ہمت کریں گی،قدم بڑھایاجائے گا اور ایسے علمی شعبے قائم کیے جائیں گے،جہاں مغرب کاعقیدہ و فکر و تاریخ اور اقتصاد و سیاست تمام شعبوں میں علمی و اختصاصی مطالعہ کیا جائے گا۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کرسکتے ہیں،ہم ایسی دنیا کے بارے میں کیسے پڑھ سکتے ہیں جوہم سے میلوں ؛بلکہ صدیوں آگے پہنچ چکی ہے؟تو معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ اگر ہم دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور کی طرف رجوع کرتے ہیں ،تو دیکھتے ہیں کہ قرنِ اول کے مسلمان جب اسلامی دعوت لے کر دنیا کی طرف نکلے،تو وہ دوسری قوموں کے عقائد ،رسم و رواج اور روایات سے واقف تھے،وہ جہاں دعوت و تبلیغ کے لیے جارہے تھے،اس سرزمین کی سیاست،معیشت و جغرافیہ سے انھیں آگاہی ہوتی تھی۔آپ پوچھ سکتے ہیں کہ انھیں ان باتوں کا علم کیسے حاصل ہوتا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ قریش تاجر لوگ تھے،سردی و گرمی کے موسموں میں دنیاکے مختلف ممالک کا تجارتی سفر کیاکرتے تھے،مگر ان کے یہ اسفار محض تجارتی اور خرید و فروخت کے نقطۂ نظر سے نہیں ہوتے تھے؛وہ ان اسفار کے دوران ان ملکوں کے نظامِ حکومت اور سماجی ،سیاسی و اقتصادی احوال سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے۔مختلف قوموں سے اختلاط کی وجہ سے ان کے عقائد سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی تھی،پھر قرآن کریم نے بھی انھیں یہود و نصاریٰ وغیرہ کے عقائد کے بارے میںتفصیل سے بتایا۔ اسی وجہ سے قرنِ اول کے مسلمانوں کو دیگر اقوام سے متعارف ہونے اور ان کے ساتھ تعامل اور دوسری قوموں کے پاس موجود مفیدوسائلِ تمدن سے استفادے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی؛چنانچہ انھوں نے دیوان،ڈاک،بعض اہم صنعتوں مثلاً کاغذسازی وغیرہ کا علم حاصل کرکے انھیں اتنی ترقی دی کہ ان صنعتوں پر مسلمانوںکی چھاپ لگ گئی۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مطالعۂ مغرب کے کچھ نقوش ہمیں اسامہ بن منقذکی کتاب’’الاعتبار‘‘میں ملتے ہیں ،جس میں انھوں نے صلیبیوں کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیاہے،ان کے طبائع و اخلاق اور خصوصیات و عیوب بیان کیے ہیں ۔ایک دلچسپ بات انھوں نے اُس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یہ بیان کی ہے کہ ان مردوں میں غیرت کا فقدان ہے؛چنانچہ ایک مردکواس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاکہ اس کی بیوی کسی غیر مرد سے ملے،اس سے بات چیت کرے،حتی کہ اس سے تنہائی میں ملے؛بلکہ وہ شخص خوداپنی بیوی کی کسی اجنبی سے ملنے پر حوصلہ افزائی کرتاہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے بارے میں جانیں۔اس سلسلے کی ابتدا غالباً رفعت رفاعہ طہطاوی اور خیر الدین تونسی وغیرہ نے یورپ کے حوالے سے کی تھی،انھوں نے مغرب کی جن چیزوں کے مطالعے پر زوردیاتھا،وہ وہاں کا سیاسی نظام تھا،جو انتخاب و سیاسی آزادی پر قائم ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کی اجتماعی زندگی اور عورت و مرد کے باہمی تعلقات پر بھی توجہ دی تھی۔تونسی و طہطاوی کی کتابیںایسے وقت میں منظر عام پر آئیں،جب عالمِ اسلامی پس گردی کی تباہیوں سے دوچار تھا،ایسے میں ان کا مغربی نمونۂ حیات سے متاثر و متحیر ہونا لازمی تھا،گرچہ انھوں نے اپنے زعم میں مغرب کی خوبیوں کواسلامی خوبیوں اور خصائص سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس صدی کے نصف میں دوبارہ مطالعۂ مغرب کی آواز مستشرقین کے ایک عالمی سمینار میں اٹھائی گئی۔رودی بارت نے اپنی اہم تصنیف’’الدراسات العربیۃ والاسلامیۃ في الجامعۃ الالمانیۃ‘‘(ص:15)میں اس طرف توجہ دلائی کہ عالم اسلامی کو اُسی طرح مطالعۂ مغرب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،جیسے مغرب عالمِ اسلامی کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد شاہدنے اپنے ایک علمی لیکچر میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی، جوانھوں نے کنگ سعود یونیورسٹی میں 1414ھ میں دیاتھا،اس کی تلخیص رسالہ’’مرآۃ الجامعۃ‘‘میں شائع ہوئی تھی،پھر ڈاکٹر حسن حنفی کی کتاب’’مقدمۃ في علم الاستغراب‘‘کے نام سے سامنے آئی۔میں مطالعۂ مغرب کے اہداف کے سلسلے میں اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کرناچاہتاہوں:
’’اپنے اورغیرکے درمیان تعلق کے تاریخی نقص کو دور کرنا،دوسرے کو دارِس کی بجاے مدروس بناکراس کے احساس ِ عظمت کو دور کرنا،اپنے احساسِ کمتری کومدروس کی بجاے دارس بناکر دور کرنا،چاہے مغرب کی زبان کو پڑھنے کا معاملہ ہویا وہاں کی ثقافت،علوم،مذاہب اور نظریات و افکارکوجاننے اور پڑھنے کا‘‘۔
مطالعۂ مغرب کی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس نے ایک ایسی تہذیب و تمدن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے،جو آج سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے اور طہ حسین و لطفی سید کی کتابوںکی وجہ سے مغرب کی طرح مسلمانوں کی ازسرِ نو ترقی کے سلسلے میں تردداورتشکک پھیلایاگیا اور یہ تلقین کی گئی کہ وہ اپنی خصوصیات و شناخت سے دست بردار ہوجائیں ،اپنے آپ کو مغرب کے حوالے کردیں اور مغربی طرزِ زندگی کو اس کی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں سمیت اختیار کرلیں۔حالاں کہ بعد میں طہ حسین نے اپنے س قسم کے افکار سے رجوع کرلیاتھا؛چنانچہ ان کی کتاب’’مستقبل الثقافۃ في مصر‘‘دوبارہ شائع نہیں ہوئی۔ اسی طرح اس کتاب کے بارے میں ان سے جب ایک بار سوال کیاگیا،تو انھوں نے جواب دیا کہ:وہ پرانی کتاب ہے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کریں؟اگر ہم حقیقی معنوں میں مغرب سے واقفیت حاصل کرنااور مغربی تہذیب کی مثبت حصول یابیوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،تواس سلسلے میں ایک مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔اس کے لیے مختلف عربی و اسلامی یونیورسٹیز میں مطالعاتِ مغرب کی خاکہ سازی کے لیے دسیوں انجمنیں اور کمیٹیاں بنانی ہوں گی۔مگر یہ کام کرنے سے قبل ہمیں مطالعۂ مغرب کے بہترین طریقوں کے بارے میں غوروفکر کرنا ہوگا۔مجھے یاد آتاہے کہ امریکہ نے اپنے یہاں انیسویں صدی کے آغاز میں مطالعۂ مشرق(استشراق)کا سلسلہ شروع کیاتھا،مگر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد غیر اختیاری طورپر مشرقِ وسطیٰ یا عربی و اسلامی ملکوں میں اس کی حیثیت برطانیہ جیسی ہوگئی،جس کے بعد امریکی حکومت نے عربی،ترکی،فارسی،اردو اور مختلف ملکوں اور خطوں کے خصوصی مطالعے کے سینٹرزمیں سرمایہ کاری کی تجویز پاس کی۔
عربی زبان کی تدریس وتحقیق کے پروگرام شروع کرنے کے بعد امریکی یونیورسٹیز نے خصوصاً برطانوی اورعموماً یورپی یونیورسٹیز کے اساتذہ سے مدد لی کہ وہ امریکی یونیورسٹیز میں پڑھائیں،اسی طرح مشرقِ بعید کے مطالعات کے شعبوں میں پڑھانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بلائے گئے،جیساکہ پرنسٹن یونیورسٹی نے فلپ کے ہتی کو مشرقی مطالعات کا شعبہ قائم کرنے کے لیے بلایاتھا۔پھرمشرقِ وسطی کے مطالعات کے شعبوں اور دوسرے علمی اداروں کے مابین دیگر سماجی و انسانی مطالعات کی طرح علمی و تحقیقی تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔اس وقت بیس سے زائد امریکی یونیورسٹیز کے عربی و اسلامی شعبے وفاقی حکومت سے امداد پارہے ہیں ؛تاکہ وہ امریکی حکومت کی ضروریات کی تکمیل کے منصوبے پر مضبوطی سے کا م کرتے رہیں۔
عالمِ اسلام میں یورپی زبانوں کی تدریس و تعلیم کم نہیں ہے،مگر ہمیں ضرورت ایسے لوگوں کی ہے،جو ان زبانوں میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ مقام تک پہنچیں،پھر مغربی یونیورسٹیز میں پڑھیں اور مغرب کے موضوعات و مسائل پر ریسرچ کریں،صرف ایسے موضوعات پر نہیں ،جو اسلامی دنیاسے تعلق رکھتے ہیں۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جومغربی ادب کو اس طرح سمجھتے ہوں،جیسے مثال کے طورپر پروفیسر ایڈرورڈ سعید سمجھتے تھے،انھوں نے مغربی ادب کے دیدہ ورانہ مطالعے کے ذریعے مغربی عقلیت کے اَعماق میں اترکراسے سمجھاتھا۔اسی طرح ہمیں ایسے انسان کی بھی ضرورت ہے جو مغربی علم ِسماجیات کا گہراعلم رکھتاہو؛ تاکہ وہ مغربی معاشرے کواس طرح جان سکے گویاوہ اسی کا ایک فردہے۔یہ مسئلہ مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ آج مغربی دنیامیں یورپی و امریکی نسل کے بہت سے مسلمان رہتے ہیں،جوان کے معاشرے کوحقیقی طورپرسمجھ سکتے اور جس قسم کی معلومات بھی حاصل کرناچاہیں ،آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں،انھیںکوئی مشکل نہیں پیش آئے گی۔
دھیان دینے کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارامطالعۂ مغرب ان ملکوں سے مستفاد ہونا چاہیے،جو اس سلسلے میں سبقت رکھتے ہیں،ایسے متعدد یورپی ممالک موجودہیں، جہاں امریکی اسٹڈیزکے ادارے کھولے گئے ہیں؛چنانچہ لندن یونیورسٹی کے اکانومک و پولٹیکل کالج میں امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم ہے،اسی طرح مونٹریال یونیورسٹی میں امریکی اسٹڈیز کا شعبہ ہے،جرمنی میں بھی ہے،پاکستان نے بھی امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم کیاہے۔
البتہ ہمارا مطالعۂ مغرب، مغرب کے مطالعۂ مشرق سے مختلف ہونا چاہیے؛کیوںکہ مغرب نے تو مشرق کا مطالعہ اس لیے شروع کیاتھا کہ اس کا حکم وہدایت عیسائی مذہبی اداروں او رپاپائیت کی طرف سے تھااور مقصدیہ تھا کہ مسلمانوں کی قوت اور عیسائیوں کے زیرنگیں ممالک میںاسلام کی اشاعت کا راز معلوم کیاجائے۔وہ صرف مسلمان اور اسلام سے شناسائی نہیں حاصل کرنا چاہتے تھے؛بلکہ ان کے دواور مقاصد تھے:ایک یہ کہ عیسائیوں کو اسلام سے متنفر کیاجائے اور دوسرا یہ کہ اسلامی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مذہبی مبلغین تیار کیے جائیں۔
اس آغاز کے بعد یورپی استعمار کا ظہور ہوا اور اس نے بھی اس کی ہم نوائی؛ بلکہ اس سے آگے نکلنا ضروری سمجھا؛تاکہ اسے وہ استحکام حاصل ہوجواس کا مقصد تھا؛چنانچہ اہل مغرب کے پاس ایسے کئی عالم اسلامی کے ماہرین ہوئے ،جنھوں نے استعمار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔پھرایک زمانے کے بعد استعماری لہریں محدود اور ختم ہوتی چلی گئیں،مگر مغرب کی یہ خواہش برقراررہی کہ وہ عالمِ اسلامی میں داخل ہو، تاکہ مغربی ملکوں کا خام مواد وہاں آسانی سے داخل کیاجاسکے،پھراسے تیارشدہ سامان کی شکل میں اسلامی دنیامیں رائج کیاجاسکے؛چنانچہ ان ملکوںکیسماجی طرززندگی میں بدلاؤآنااور مخصوص قسم کے طرزِاخلاق کواختیار کرنااوراسے مضبوطی سے تھامنا یقینی تھا،پھر ہمارے ممالک ان کے وسائل و اسباب ومصنوعات کی کھلی مارکیٹ بن گئے۔(الاماشاء اللہ)
پس ہم اگر مغرب کا،مغربی اداروں کا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں توپہلے ہمیں مادی قوت کے ان اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ہوگا،جو ان کے پاس ہیں،خود قرآن کریم میں اس کی ہدایت دی گئی ہے کہ’’ان سے مقابلے کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو،تاکہ تم اس کے ذریعے ان لوگوں پر اپنا رعب جمائے رکھوجوکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں‘‘۔(الانفال:60)توجس طرح امریکی مثلاً اس کوشش میں ہیں کہ وہ جاپانی مینجمنٹ اور اس کی تخلیقی اور تیز رفتارترقی کی قوت کارازمعلوم کرسکیں،اسی طرح ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ان کی قوت کے اسباب کا پتالگائیں۔جس طرح انھوں نے اپنی زندگی میں مینجمنٹ،صنعت،معیشت،تعلیم وثقافت کے شعبوں کے نظام کے اطلاق ونفاذکا میکانزم تیارکیاہے،ایسےہی ہمیں کرناہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جب مغرب کا مطالعہ کریں گے، تو ہمارا کوئی استعماری مقصد نہیں ہوگا،ویسے بھی مسلمانوں کا مزاج کبھی استعمارینہیں رہا۔مجھے سلطنت عثمانیہ کے دفاع میں لکھی گئی محمد جلال کشک کی یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ وہ نہ تو استعماری حکومت تھی اورنہ اسے ایسا کہاجاسکتاہے، انھوں نے اپنے اس دعویٰ کی متعدددلیلیں بھی پیش کی ہیں۔مغرب کے مطالعے سے ہمارا مقصد محض اپنے مفادات کا تحفظ کرناہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس تصور کوسمجھناہے، جسے مغرب نے ایجادکیااور دنیاکی بہت سی حکومتوں سے زیادہ طاقت ورہوگیا۔
تیسری بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ ہے کہ یہی امت، امتِ دعوت و شہادت ہے، حضور اکرمﷺکے پہلے کے انبیاعلیہم السلام اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے،پھر تمام مسلمانوں کو یہ ذمے داری دی گئی (قل ہذہ سبیلي أدعوإلی اللّٰہ علی بصیرۃ أناومن اتبعن)اورحدیث میں ہے کہ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاداب رکھے، جس نے میری بات سنی،پھر اسے ذہن میں بٹھالیا،پھراسے ان لوگوں تک پہنچایا، جنھوں نے نہیں سنی تھی؛کیوںکہ بہت سے وہ لوگ، جنہیں وہ بات پہنچائی جائے گی وہ اس سننے والے سے زیادہ باشعور و بیدار مغزہوںگے‘‘۔حضورﷺکایہ آخری پیغام محض ایک اعتقادی سسٹم کا حصہ نہیں ہے، جس کا تعلق انسان اوراس کے رب سے ہے،جیساکہ عیسائیت میں ہے اور اسے ماننے والوں کا خیال ہے کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایاہے’’جوقیصر کا ہے وہ اس کے لیے چھوڑدواور جو اللہ کا ہے،وہ اس کے لیے خاص رکھو‘‘۔اس کے برخلاف حضورﷺکایہ پیغام سماجی،سیاسی،معاشی،اخلاقی و فکری الغرض زندگی کے ہرپہلو میں نافذہوگااورہمیں جب امتِ شہادت بنایاگیاہے،توان لوگوں کے بارے میں ہم کیسے گواہی دے سکیں گے،جنھیں حقیقی معنوں میں جانتے ہی نہ ہوں؟
مغرب کا مطالعہ دنیا کی نظرمیں مغرب کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؛کیوںکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ’’کسی قوم سے دشمنی تمھیں ناانصافی پرنہ ابھارے،تم انصاف کرو،یہی تقوی کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرو‘‘۔اسی طرح ہمیں اپنے رشتے داروں اور والدین کے معاملے میں بھی انصاف کا حکم دیاگیاہے۔اس حوالے سے ہمارے لیے حضرت عمروبن العاصؓکایہ قول نمونہ ہونا چاہیے،انھوں نے رومیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا:’’ان کے اندر چار خصلتیں ہیں:آزمایش کے وقت وہ نہایت بردباراورمتحمل ہوتے ہیں،مصیبتوںسے بہت جلد باہرنکل آتے ہیں،جنگ میں پیچھے ہٹنے کے بعد تیزی سے پلٹتے ہیں،مسکینوں اور یتیموں کے خیرخواہ ہیں اور پانچویں اچھی بات یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بادشاہوں کے ظلم سے محفوظ رکھاہے‘‘۔
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)