ڈاکٹر ممتازاحمد خاں
بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں بہار کے جن ادیبوں نے اپنے علم وفضل، تنقیدی نگاہ اورادبی اکتسابات کے بل بوتے پر اپنا مقام بنایا اُن میں پروفیسر نجم الہدیٰ کانام نمایا روشن اور ناقابل فراموش ہے۔ نجم الہدیٰ اردووفارسی زبان وادب کے سند یافتہ عالم اورپرفیسر کے ساتھ ساتھ قادرالکلام شاعر اور مستند تنقید نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ شعروادب کا ذوق ان کو ورثے میں ملا۔ ادبی کتب ورسائل ان کے گھر آتے تھے جن کے مطالعے سے انھوں نے ادب وشاعری کی صلاحیت وقابلیت پیدا کی ۔ نجم الہدیٰ کی ولادت موتیہاری شہرمیں ان کے نانا خاں بہادر محمدجان ایڈوکیٹ کے گھر ۲؍اگست ۱۹۳۷ء کو ہوئی۔ نجم الہدیٰ صاحب کے والد نورالہدیٰ ضبطؔ موتیہاری پولیس سروس میں سب انسپکٹر تھے۔ وہ اچھے شاعرتھے۔ نجم الہدیٰ نے اپنے والد ہی سے ابتدا میں اپنے اشعار پر اصلاح لی۔ نجم الہدیٰ کے سب ماموں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ان میں تین ماموں عنایت الرحمان صاحب، جمیل الرحمٰن صاحب اور پروفیسر شکیل الرحمٰن ادب وشاعری سے نہ صرف گہرا شوق وشغف رکھتے تھےبلکہ اچھے شاعر وادیب تھے۔چھوٹے ماموں پروفیسر شکیل الرحمٰن اردو کے پروفیسر ہوئے اورکئی بڑے عہدوں پر فائزرہ کر بڑا نام پیدا کیا۔ شکیل الرحمٰن نے ایک ناقد ومصنف کی حیثیت سے اردوادب میں اونچا مقام بنایا۔ ان کی دودرجن سے زائد کتابیں ان کی ادبی خدمات کی شاہدہیں۔
نجم الہدیٰ صاحب کی ابتدائی تعلیم ان کے گھر پر مظفرپور میں ہوئی۔ انہوں نے عابدہ ہائی اسکول مظفرپور میں دسویں جماعت تک تعلیم پانے کے بعد بھاگلپور ضلع اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔پھر انھوں نے ٹی این جے کالج بھاگلپور سے آئی ۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ مظفرپور کے ایل ایس کالج میں انھوں نے بی ۔اے کی تعلیم پائی۔ یہاں سے انھوں نے اردو آنرس کے ساتھ بی۔ اے فرسٹ کلاس سے پاس کیا اور کامیاب طلبہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ایم اے (اردو) کی تعلیم شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ میں ہوئی۔ ۱۹۵۸ء میں ایم اے فرسٹ کلاس سے پاس کیا۔ یہاں انہوں نے اردو کے نامور اساتذۂ کرام یعنی پروفیسر اختر اورینوی، علامہ جمیل مظہری، پروفیسر سید محمد صدرالدین فضا شمسی، ڈاکٹر محمد مطیع الرحمٰن ، ڈاکٹر محمد ذکی الحق، ڈاکٹر سیدنواب کریم کے لیکچر سُنے۔ بی۔ اے آنرس کے زمانے میں وہ پروفیسر اختر قادری، شاہ عطاء الرحمٰن عطاؔ کاکوی وغیرہ سے استفادہ کرچکے تھے۔ نجم الہدیٰ صاحب کے ہم جماعت طلبہ بھی بعد میں بڑے ادیب وشاعر ہوئے۔ مظفرپور کالج میں ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی اور ڈاکٹر متین احمد صباؔ ان کے خاص دوست تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں ڈاکٹر سید مظفراقبال، ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ وغیرہ ان کے خاص ساتھی اور دوست ہوئے۔
نجم الہدیٰ صاحب نے جب فارسی میں ایم اے کرلی اور فرسٹ کلاس میں فرسٹ پوزیشن لائی تو پروفیسرا جتبی حسین رضوی پرنسپل ملت کالج دربھنگہ نے انہیں اردو وفارسی کالکچرر بنایا ۔ انھوں نے ایک سال ملت کالج میں کام کیا۔ پھر وہ جولائی۱۹۶۲ءمیں ایل ایس کالج مظفرپور میں لکچرر مقرر ہوئے۔۱۹۷۷ء میں وہ ایک طویل فرصت لے کر مدراس یونیورسٹی میں اردو فارسی اور عربی کے شعبہ میں ریڈر مقرر ہوئے پھر ۱۹۸۳ءمیں یہیں پروفیسر آف اردو کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ایک مدت تک کام کرنے کے بعد وہ دسمبر۱۹۸۸ء کو شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور واپس آگئے اور یہاں پروفیسر، صدر شعبہ اور ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز(Dean Faculty of Humanities)کے عہدے سے ۳۱؍اگست۱۹۹۸ءکومدتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔
پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب بحمدللہ اس مضمون کے لکھے جانے کے دن یکم فروری ۲۰۲۰ء تک زندہ سلامت ہیں اور مظفرپور کے جیل روڈ میں بودوباش رکھتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد برسوں توانا اور تندرست رہے اور مسلسل لکھتے پڑھتے اور رسالوں میں چھپتے رہے۔ اِدھر چند برسوں سے زیادہ کم زور ہوگئے ہیںاور اب مکان سے باہر نہیں نکلتے۔
مضامین اورتصانیف: نجم الہدیٰ صاحب کی ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے ہوئی۔ کالج میں آنے کے بعد وہ ادبی موضوعات پر مضامین لکھنے لگے شروع میں ان کی شعری تخلیقات ہفتہ وار پیام مشرق دہلی میں شائع ہوئیں۔ اس کے مدیر صاحب زادہ مستحسن فاروقی تھے۔
نجم الہدیٰ صاحب کا پہلا تنقیدی مقالہ ’’ادب اورتہذیب کا رشتہ‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’کتاب‘‘لکھنؤ میں ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی اشاعت سے وہ ادبی دنیا میں مشہور ہوگئے۔ بعد میں یہ مقالہ دیگر رسائل میں بھی شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مضمون ’’غالب کافن‘‘ ماہنامہ ’’آہنگ‘‘ گیا میں ۱۹۷۰ء ہی میں شائع ہوا۔ اس رسالے کے مدیر کلام حیدری تھے۔ اس مضمون کی داد بڑے بڑے ادیبوں نے دی۔ پھر تو ادبی وتنقیدی موضوعات پران کے بہت سے مضامین مدراس یونیورسٹی جرنل کے علاوہ دکن کے رسالوں میں چھپے۔
پرفیسر نجم الہدیٰ کی مندرجہ ذیل تصانیف شائع ہوچکی ہیں:
۱۔ فن تنقید اور تنقیدی مضامین (۱۹۶۶)، دوسری بار ۱۹۷۳ء اور تیسری بار ۱۹۸۹ء
۲۔ مثنوی کافن اوراردو مثنویاں(۱۹۷۶ء)
۳۔ کردار اور کردارنگاری(۱۹۸۰ء)
۴۔ مسائل ومباحث (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) (۱۹۸۳ء)
۵۔ تصوف اور کلام پوربی (۱۹۸۴ء)
۶۔ تنقیدی مسئلے (۲۰۱۷ء)
نوٹ: آخر الذکرکتاب تنقیدی مسئلے ان کی پانچ مذکورۂ بالا کتابوں پر مشتمل کلیات ہے جو ۷۱۶صفحات کو محیط ہے۔
ترتیب۔ آسمانِ فن کا سفر: علیم صبانویدی۔ یہ کتاب علیم صبانویدی کی شاعری پرادیبوں کے لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ جسے ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ پروفیسر نجم الہدیٰ نے مرتب کرکے شائع کیا۔
نجم الہدیٰ صاحب کی مختصر فہرست کتب کو دیکھ کر قارئین یہ نہ سمجھیں کہ ان کا کل اثاثہ یہی کتابیں ہیں۔ نجم الہدیٰ صاحب کے بے شمار مضامین رسالوں اور کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں اب تک کسی نے مرتب کرکے منظر عام پر نہیں لایا ہے۔ نجم الہدیٰ کاتصنیفی وتخلیقی سفر نصف صدی سے زائد عرصے کو محیط ہے۔ ان کے مضامین کی ایک ناتمام فہرست میں یہاں پیش کرنا چاہتاہوں:
(i)قمر اعظم ہاشمی شخص اور مصنف (ii)پروفیسر عبدالمغنی میری نظر میں (iii)پروفیسر اختر قادری شخصیت اور شاعری (iv)اعلیٰ حضرت کے شاعرانہ امتیازات (v)طارق جمیلی کی شاعری(vi)قدیم اردو غزل کا دکنی مزاج (vii)اجتبیٰ رضوی کی شاعری(viii)نیشنلزم اینڈ اردو پوئٹ اکبرالہٰ آبادی (انگریزی میں) (ix)یونیورسل بردرہوڈ اینڈ اسلام(انگریزی میں)(x)علقمہ شبلی کی شاعری’ خواب خواب زندگی‘ کے حوالے سے(xi)فیض کی شاعرانہ شبیہ: نسخہ ہائے وفا کے آئینے میں(xii)جمیل مظہری کے چند فکری ابعاد (xiii)مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے چندپہلو۔ (xiv)غضنفر کے ناول ’دِوّیہ بانی‘کامطالعہ۔
مذکورہ بالامضامین کے علامہ نجم الہدیٰ صاحب کی وہ تحریریں ہیں جوانہوں نے اپنے ہمعصروں، دوستوں ، شاگردوں کی کتابوں کے لئے تعارف، مقدمہ وغیرہ عنوانات سے لکھیں۔
فنکار : نجم الہدیٰ کی ابتدا ایک شاعرکی حیثیت سے ہوئی۔ وہ ایک سنجیدہ اور منفرد فنکار کی حیثیت سے اپنے تجربات واحساسات کا اظہار نظموں اور غرلوں میں کرتے رہے۔ اتبدا میں نظم کاسانچاان کو زیادہ راس آیا۔ چنانچہ ان کے سرمایۂ سخن میں نظموں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ قادر الکلام شاعر ہیں۔ انہوں نے حمدیں اور نعتیں لکھیں۔ آغاز سخن میں انھوں نے اپنی نظمیں صبح نو پٹنہ، بیسویں صدی دہلی، ماہنامہ شمع دہلی، میں شائع کرائیں۔ پھر ان کی شعری تخلیقات کتاب لکھنؤ، ماہنامہ اِ رم بنگلور، ماہنامہ پونم حیدرآباد، ماہنامہ مریخ پٹنہ، سہ ماہی شاعری کراچی اور رنگِ ادب کراچی وغیرہ رسالوں میں چھپیں۔
نجم الہدیٰ کی نظموں میں والدہ مرحومہ کی یاد میں پراثر اور پھر پور تخلیق ہے جوانھوں نے اپنی والدہ مکرمہ کی وفات پر لکھی اس وقت وہ بی اے کے طالب علم تھے۔ شروع کی نظموں کو پڑھیے تو ان میں دو طرح کے تجربات بیان ہوئے ہیں۔ ایک تجربہ تو زندگی، اس کی تلخی اور اس کی بے ثباتی ہے۔ ایسی نظموں میں حقائقِ حیات اور مظاہرِ کائنات پر غوروفکر کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان میں شاعر کی بصیرت وآگہی کا سراغ ملتاہے۔ شاعر وقت کی تیزگامی، چیزوں کی بدلتی اورفنا ہوتی ہوئی حالت اور کائنات کی وسعت وبے کرانی میں انسان کی بے دست وپائی کو بڑی حسرت سے دیکھتاہے۔ ایسی نظموں میں والدہ مرحومہ کی یادمیں،وقت، آگہی، رہینِ آرزو، خود فریبی، تنکے کا سہارااورکھلونا وغیرہ اعلیٰ درجے کی تخلیقات ہیں۔
دوسری قسم کی نظمیں وہ ہیں جن میں شاعر کے جمالیاتی تجربات واحساسات کا اظہار ہوا ہے۔ شکایت، آرزوئے گم نامی، مجھے منظورہے، تجاہل، ایک مرتعش سایہ اور وہ آنکھیں۔ ان نظموں کے علاوہ ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں شاعر نے اپنے خواب کے پریشان ہونے اور اپنے رنگ دل کے پُرخون ہونے کا اظہار بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں ان کی نظمیں: رنگِ دلِ پُرخون کا خیال، خوابِ پریشاں ، تنکے کا سہارا اور کھلونا۔ ایک مضمون میں ان کی تمام نظموں کا تجزیہ اور تنقیدی جائزہ ممکن نہیں ۔ قارئینِ کرام کے لیے چند نظمیں نقل کروں گا، ایسی نظمیں جو مجھے اعلیٰ درجے کی معلوم ہوتی ہیں۔ ایک نظم سوچ لیجیے اب بھی ، ملاحظہ ہو:
نذرِ عشق کے بدلے آپ نے محبت دی
آپ سے محبت کی بھیک کس نے مانگی تھی
آپ نے غلط سمجھا عاشقی کے جذبے کو
لاکھ والہانہ ہو عشق میں ہے خودداری
آپ کا ستائش گر آپ سے نہیں کم تر
آپ میں تکبّرہے، اس میں خود نگہ داری
فرطِ غیط سے پہلے سوچنا بھی لازم تھا
پھر مآل کیا ہوگا سوچ لیجیےاب بھی
دوسری نظم تجاہل بھی مختصر ہے،مگرایک نادر تجربے کا حسین اظہار ہے:
میرے لوٹ آنے پہ وہ تیری مسرت کی ادا
جو چھپائے نہ چھپی محفلِ اغیار میں بھی
کیسے سمجھوں کہ مری خاطر تھی
ایک پُر کیف تبسم کی کرن
جو ترے چاند سے مکھڑے کے لئے ہالا بنی
فرق سے تابقدم وہ تری سر شاری سی
کس لئے تھی، یہ مجھے کیامعلوم
وجدکا سا جو تِرا عالم تھا
دیرتک اس میں تغیّر نہ ہوا
رقص فرما تھی بہرسودنیا،
ترے چہرے پہ حیا کی تنویر
فرطِ بہجت سے جوآمیز ہوئی
روشنی قلب کی کچھ تیزہوئی
دیکھنے والی نگاہوں کا نشانہ بھی بنی
کون جانے کہ ہوا کیوں ایسا!
لَوٹ کر میں جو نہ آتا تو بھلا کیا ہوتا!
نجم الہدیٰ کی نظموں کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ان کی شاعری احساسات وجذبات کی شاعری ہے ۔ ان نظموں میں شاعر کے ذاتی حالات وسانحات کے نشانات اور سائے بھی لہراتے ہیں۔ خوابِ پریشان، رنگِ دلِ پُر خون کا خیال، تنکے کا سہارا، شاعر کے نجی تجربات وجذبات کے ترجمان ہیں۔ان میں حُزن وملال، محرومی وناکامی اور حسرت وحرمان کی کیفیات ملتی ہیں۔ ملاحظہ ہو یہ نظم ۔
چاندنی سوئے زمین جب بھی فلک سے اتری
میرے بکھرے ہوئے خوابوں کو جلوہ میں لائی
اپنے رستے ہوئے زخموں کا پتہ مجھ کو ملا
ڈھونڈکر جب بھی ملی مجھ سے مری تنہائی
جب کبھی رات کو تاروں میں ہوئی سرگوشی
دل کے ویرانے میں سنّاٹے کا احساس بڑھا
اپنی ہی روح کے شیون کا گمان گزرا ہے
جب فضاؤں میں کوئی حسنِ ترنّم جاگا
جب بھی مشاطگیِ مہرسے نکھری سے سحر
تیرگی میرے مقدر کی ابھرآئی ہے
جب کہیں دور جلا کوئی تبسم کا دیا
شمعِ احساس کی لَو اس سے بھی تھرّائی ہے
جب کبھی پھول کھلے ہیں تو یہ محسوس ہوا
میری دنیا پہ خزاں ہی کا گھنا سایا ہے
دامنِ چرخ ہوا جب بھی شفق سے مے گوں
مجھ کورنگِ دلِ پُر خوں کا خیال آیا ہے
یہ نظم شاعر کے اندر ونی کرب واندوہ اور اس کی تنہائی ونارسائی کی بہت حسین تصویر کشی ہے۔ باہر کی دنیا بہار، روشنی، رنگ، پھول، موسیقی، مسرت اور تبسم سے آباد ہے مگر شاعر کا اندرون خزاںؔ، تیرگیؔ، بے رنگی،ؔ سناٹےؔ، اندوہؔ وملاؔل ، درد وکرب اور افسردگی سے معمور ہے۔ نظم کے چار بندہیں،ہربندمیں ایک ہی تجربے کو الفاظ اور نقوش بدل بدل کر پیش کیا گیاہے اور جب آخری بند ختم ہوتاہے تو نظم کی تکمیل کا احساس ہوتاہے۔ نظم میں لفظوں کی ترتیب سے جو موسیقی اور ترنم پیدا ہوا ہے۔ وہ خوشگوار اور تاثر خیز ہے۔ نظم کا آہنگ حُزنیہ ہے۔یہ حُزنیہ لے نجم الہدی کی دیگر نظموں میں بھی دیکھنےکو ملتی ہے۔ نظم’’ تنکے کا سہارا‘‘ میں ایک ایسے باپ کاتجربہ واحساس بیان ہوا ہے جس کے گھر کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہاں ایک ایسے باپ کا تجربہ بیان ہوا ہے جو زندگی کے چالیس برس گزار چکا ہے۔ باپ کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ شاعر اس کے خیالات اور تمناؤں کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتاہے۔ باپ سوچتا ہے کہ اگر اب اس کے گھر اس کی ایک اولاد پیدا ہوجائے تو اس کو بے حد خوشی ہوگی اور اس نومولود بچے کی پرورش میں باپ اپنا پچھلاسب دکھ بھول جائے گا اور وہ بچہ اس بوڑھے ہوتے ہوئے آدمی کے لئے ڈوبتے شخص کو تنکے کاسہارا کے مصداق ہوجائے گا۔ پھر وہ سوچنے لگتاہے کہ کیا وہ اس بچے کو پال پوس کر بڑا کرنے تک زندہ رہے گا۔ ان متضاد خیالات کو نظم میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ نظم ایک پارۂ فن بن گئی ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک نادر ونایاب تخلیق ہے۔ مکمل نظم ملاحظہ ہو:
’’وہ ترے ترشے ہوئے لب ، تری معصوم آنکھیں ؍ ناک ستواں سی میانِ لب وچشم ِجادو؍ریشمی بالوں کا گچھّا تری پیشانی پر؍ وہ دمکتی ہوئی پیشانی تری؍ چاند سا چہرہ ترا میرے اندھیرے گھر میں ؍ جیسے سائل کو طلائی کو ئی سکہ مل جائے؍ رس میں ڈوبے ہوئے کچھ بول ترے میٹھے سے؍ اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یہ خواب ترے؍ دیکھتاہوں میں تری راہ نہ جانے کب سے؍عمرِکوتاہ کے چالیس برس بیت گئے۔
میری امیدوں کے محور!، مرے بچے!؍مری آنکھوں کے نور!؍کون جانے مری تقدیر میں توہے کہ نہیں؍ کس طرح مجھ کو یقیں آجائے؍میری تخئیل کی دنیا میں جو ابھرے ہیں نقوش؍ دہر کے واقعہ خانے میں ٹھہر پائیں گے۔
کاش ایسا ہو کہ تیرا یہی موہوم وجود؍ زخم کھائے ہوئے دل کا مرے مرہم ہوجائے؍ لمحہ لمحہ مری بجھتی ہوئی شمعِ ہستی؍ تیرے آنے سے ذرا دیر کولو دے اُٹھے؍ سخت حالات کا کچلا ہوا یہ ناتواں جسم؍ تجھ کو گر پائے تو اک بار توانا ہوجائے؍ اور معصوم ساننھّا سا، یہ کو مل سا وجود؍ ڈوبتے شخص کو تنکے کا سہارا ہوجائے۔
کون جانے کہ تواب آئے بھی میرے گھر میں؍ تجھ کو پروان چڑھانے تلک جی پاؤں گا؟؍ اور دستورِ جہاں کے مصداق؍ میری پیری کا عصا تو ہوگا‘‘
نظموں کے علاوہ نجم الہدیٰ کے کلام میں غزلیں بھی ملتی ہیں۔ ابتدائے شعر گوئی کی ایک غزل کے چند شعرملا حظہ فرمائیے اور شاعر کی قدرتِ کلام کا اندازہ لگائیے:
خامُشی پُراثر ہوتو کیا کیجیے
راز خود مشتہر ہو تو کیا کیجیے
آپ کا تیر دل سے تو میں کھینچ لوں
پھر خلش عمر بھر ہو تو کیا کیجیے
آپ وعدہ نبھائیں گے سچ ہے مگر
زندگی مختصر ہو تو کیا کیجیے
آپ نے لب کشائی نہیں کی مگر
ہم سخن جب نظر ہو تو کیا کیجیے
طولِ تکمیل قسمت میں تھا ہی نہیں
داستاں مختصر ہوتو کیا کیجیے
اسی زمانے کی دوسری غزل صرف پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کا رنگِ تغزل بھی مذکورہ بالا غزل جیسا ہی ہے۔ صرف چند شعر:
لذتِ غم کا ناشناس نہیں
تجھے کھوکر بھی میں اداس نہیں
اے تری بے رخی کے میں قرباں
اس قدر میں بھی ناسپاس نہیں
کیوں محبت پہ مرمٹے ہو نجم ؔ
عشق کچھ زیست کی اساس نہیں
بعض غزلوں میں ہندی کے الفاظ زیادہ استعمال ہوئے ہیں جو قاری کو ایک نئے اور خوشگوار ذائقہ سے ہمکنار کرتے ہیں۔مندرجہ ذیل غزل میں شاعر اپنے ہجر کو بہت درد بھرے لہجے میں بیان کرتاہے۔یہ غزل شدید وحدتِ تاثرکی بنیاد پر گہرا نقش چھوڑتی ہے:
پھولوں سے انگلی جلتی ہے، رنگ پہ دھوکا کھائے کون
نِردئی ہے یہ ساری دنیا اِس سے پریت لگائے کون
دھرتی اپنی پیاس بجھالے، بادل ٹوٹ کے برسالے
میرے نین ہیں دیدکے پیاسے ان کی پیاس بجھائے کون
تجھ سے بچھڑکے بھول گیاہوں خوشیوں کا سندرسنسار
سپنوں کے اُس دیس کی ہائے مجھ کو راہ دکھائے کون
ڈوب چلی ہے من کی نیّا، روٹھ گیا ہے کھیون ہار
اوب گیاہوں میں جینے سے، اِس کو پار لگائے کون
نجمؔ اکیلا سوچ رہاہے چاروں اور اندھیرا ہے
جیون پتھ کے اندھیارے میں من کا دیپ جلائے کون
نجم الہدیٰ کی بعد کی غزلوں میں دنیا کی بے ثباتی، خالقِ کائنات کی رحمت ورافت اور اس رب کریم کی معرفت کا ذکر زیادہ ہے۔ ایسی غزلوں میں عارفانہ رنگ گہرا ہے اور اشعار میں تسلسل کے سبب ایک تاثّر پایا جاتاہے ۔ اس ضمن میں ایک غزل ملاحظہ ہو:
دل کی باتیں کون سنائے کون یہاں سننے والا ہے
جوہے اپنی ذات میں گم ہے ہرانساں بس بول رہاہے
رنگ بھی دھوکا ، لمس بھی دھوکا، ذائقہ بھی بس لمحے بھر کا
بوئے گل اور سمعِ ترنّم، تیز ہوا کا ایک جھونکا ہے
دنیا دنیا لذت لذت اپنی مسرت ڈھونڈنے والے
تیرے ہی دل میں وہ مضمر ہے باہردھوکا ہی دھوکا ہے
شاعر معرفتِ کردگارکے ساتھ ساتھ اپنے گردو پیش کا تجربہ اور شعور بھی حاصل کرتاہے۔ اسے دوست ودشمن کی پہچان بھی حاصل ہوتی ہے۔ وہ معاشرہ اور اقتدارِ وقت کے معاندانہ اور ظالمانہ روّیے کو بھی سمجھتاہے۔ شاعر خوف زدہ یا مستقبل سے مایوس نہیں ہے۔ اسے یقین ہے کہ حالات بدلیں گے اور انسانیت کے دشمن روسیاہ، پست اور ناکام ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی حفاظت وحمایت فرمائے گا۔ نجم الہدیٰ کی مختلف غزلوں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
کہتاہے عدو ہر چیز مری، ہردھن میرا، ہرفن میرا
اور میرے لئے اللہ کی رحمت پر تکیہ ہے دھن میرا
وہ شخص جو کل تک ہمدم تھا، خنجر لیے رستے میں ہے کھڑا
اس پر بھی ہے اس کا یہ دعویٰ، ہے دوست مرادشمن میرا
ہردوست مقید ذات میں ہے، ہر دشمن با ہر گھات میں ہے
اللہ تری رحمت کے سوا، اب اور کہاں مامن میرا
نجم الہدیٰ اپنے زمانے اور اپنے ماحول سے باخبر ہیں۔ انہیں انسانی قدروں کے زوال کا رنج وملال ہے۔ وہ انسانیت اور امن وسکون کے غارت گروں کے عزائم سے متفکر ومتردد ہیں۔ مگر انہیں یقین ہے کہ نّشۂ قوت اور غرور ِاقتدار میں اللہ کے معصوم بندوں کو جسمانی وروحانی اذّیت پہنچانے والوں کا زوال ضرور ہوگا اور بالآخر حق وصداقت کی فتح ہوگی اور بندگانِ خدا کو امن وعافیت اور اورعدل وانصاف کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ چھوٹی بحر میں مندرجہ ذیل غزل کے چند اشعار دیکھیے:
دہشت اہلِ نار کتنے دن
نشّۂ اقتدار کتنے دن
ناتواں کو کہے وہ دہشت گرد
جھوٹ کا اشتہار کتنے دن
بے قصوروں کو دے سزائے جرم
ظلم کا کاروبار کتنے دن
یہ شہیدوں کی بے کفن لاشیں
برسرِ رہ گزر کتنے دن
امن عالم کو جس سے خطرہ ہے
طاقتِ نابکار کتنے دن
اے خدا! توڑدے غرور اس کا
حشر کا انتظار کتنے دن
نجم الہدیٰ کی شاعری ان کے احساسات وجذبات کی ترجمان ہے۔ ان کا عقیدہ، ان کے نظریات، ان کا زاویۂ نگاہ ان پر گُزری ہوئی واردات سب اس میں پیوست ہوگئی ہیں۔ ان کی نظموں کو دیکھیے تو ان میں موضوعات ومواد کا تنوع ملے گا اور ان میں ہیئتوں کے سانچے بھی قسم قسم کے ملیں گے۔ لفظیات کے اعتبار سے ان کی نظموں اور غزلوں کا الگ الگ رنگ اور ذائقہ ہے۔ فارسی ترکیبیں جابجا ملتی ہیں اور عربی کے مشکل الفاظ سے بھی انہیں اجتناب نہیں ہے۔ مگر تمام الفاظ اور ترکیبات معنویت سے بھرپور ہیں اور ان کی ترتیب ایسی ہے کہ موسیقی کا آہنگ قاری کولطفِ غنائیت سے ہمکنار کرتاہے۔ ہندی کے الفاظ بھی بہت برمحل اور برجستہ استعمال ہوئے ہیں۔پڑھنے میںمٹھاس کا احساس ہوتاہے۔
نجم الہدیٰ کی غزلیں ہوں یا نظمیں سنجیدگی اور اعلیٰ تہذیب وشائستگی کی سطح سے قاری کے ساتھ مکالمہ کرتی ہیں۔ اعلیٰ نسانی اقدار، بہترین افکار، مطہر جذبات ، لطیف احساسات اور خوش آہنگ صوتی زیروبم سے مزین ہونے کے سبب نجم الہدیٰ کی نظمیں اور غزلیں اپنی انفرادیت قائم کرتی ہیں اور ناقابل فراموش تاثر چھوڑتی ہیں۔
تنقید نگار: ایک اچھے شاعر اور ناز ک خیال فنکار ہونے کے باوجود نجم الہدیٰ کی شعری تخلیقات تسلسل وتواتر سے معروف ادبی رسالوں میں شائع نہیں ہوئیں۔ اس لئے ادب کی دنیا میں بحیثیت شاعر ان کی وہ شہرت نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھی۔ مگر جب ان کی کتاب ’فن تنقید اور تنقیدی مضامین‘ ۱۹۶۶ء چھپی اور ان کے دو وقیع مقالے (i) ادب اور تہذیب کا رشتہ اور (ii)غالبؔ کا فن شائع ہوئے تو ان کی طرف سب کی نگاہیں اٹھ گئیں اور ان کی تنقیدی صلاحیت کی ستائش ہونے لگی۔ پھر ان کی تصنیف ’’کردار اور کردار نگاری‘‘شائع ہوئی تو نظری تنقید میں انہوں نے اپنا سکہ جمالیا۔ نجم الہدیٰ کے تنقیدی مضامین کا صرف ایک مجموعہ’’ مسائل ومباحث‘‘ شائع ہوا جو بارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں نظری تنقید کے نمونے بھی ہیں اور عملی تنقید کے نمونے بھی۔ نظری تنقید کے باب میں ان کے تین مضامین بے حد اہم ہیں:
(ایف) ادب اور تہذیب کا رشتہ
(ب) فن اور فنکار
(ج) ادب میں ابلاغ کا مسئلہ
ان مضامین کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نجم الہدیٰ خالص نظریاتی موضوعات پر گفتگوکے اہل ہیں۔ وہ وسیع المطالعہ ہیں اور ادب وتنقید کے جدید تر مسائل ومباحث سے پوری طرح باخبر بھی ہیں۔ اپنے ذاتی مطالعے اور غور وفکر سے اپنی الگ رائے قائم کرتے ہیں۔ وہ کسی کے مقلّد نہیں ہیں اور نہ مقبولِ عام فیشن اور بدلتے ہوئےرجحانات ونظریات سے مرعوب ہوتے ہیں۔ وہ انگریزی اور اردو ادب کے اصل ماخذ تک رسائی رکھتے ہیں۔ ادق اور خالص نظریاتی وفلسفیانہ موضوع پر لکھنا بہت مشکل اور جوکھم کاکام ہے مگر نجم الہدیٰ صاحب کو ایسے ادق اور بھاری بھرکم موضوعات راس آتے ہیں۔ بے شمار اردو اور انگریزی کتب کے مطالعے کے بعد وہ ایسی مدلل، مفصل اور منطقی گفتگو کرتے ہیں کہ قاری ان کا مضمون پڑھ کر مطمئن ومطلع ہی نہیں ہوتا بلکہ موضوع زیرِ بحث سے متعلق واضح فہم لے کر اٹھتاہے۔
نجم الہدیٰ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ انھوں نے اردو وفارسی کے کلاسیکی شعروادب کوخصوصاً نہ صرف بغور بلکہ ذوق وشوق کے ساتھ پڑھاہے۔ ادب پارہ نثری ہویا شعری وہ مواد وفن کی گہرائی میں اثر کر تجزبہ وتشریح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فن پارے کے محاسن ومعائب پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ جدید شاعروں اور نثر نگاروں کو پڑھ کر ان کا تجزیہ ومحاسبہ کرنے کے بھی اہل ثابت ہوئے ہیں۔
نجم الہدیٰ کے مضامین کے مجموعہ مسائل مباحث میں عملی تنقید کے باب میں چار گراں قدر مقالے ہیں:
(i) غالبؔ کا فن (ii)فکرِاقبالؔ کامحور: آفاقیت وعصریت کے تناظر میں (iii)انیسؔ کا اسلوب وآہنگ (iv)اقبالؔ بانگ درا کے آئینے میں۔
ان مقالوں کے علاوہ نجم الہدیٰ کے وہ مضامین ہیں جو انھوں نے اخترقادری، عبد المغنی، طارق جمیلی، اجتبیٰ رضوی، علقمہ شبلی، فیض احمد فیض، جمیل مظہری ، ابوالکلام آزاد ، علیم صبانوبدی، راہی فدائی ، غضنفر وغیرہ پر لکھے اور جو مختلف رسالوں ، سوینئروں اور کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ سب مضامین عملی تنقید کی ذیل میں آتے ہیں۔ نجم الہدیٰ کی تنقیدی روش ترقی پسندوں اور جدیدیوں کی بنائی ہوئی روش سے بالکل الگ ہے۔ وہ نہ ترقی پسندوں کے ساتھ رہے نہ جدیدیوں کے ساتھ۔ مطالعہ انھوں نے تمام اہم فنکاروں اور ناقدوں کا کیا لیکن ان کے بارے میں رائے اپنی قائم کی۔ نجم الہدیٰ کی تنقیدی تحریروں میں مطالعے کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ ہوتاہے۔ وہ اونچی سطح سے عالمانہ انداز میں گفتگوکرتے ہیں۔ کسی موضوع پر بہت مطالعہ اور غور وفکر کے بعد قلم اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے دیگر بڑے ناقدوں کے مقابلے میں کم لکھاہے۔ مگران کے یہاں ارجنل فکر ملتی ہے۔وہ کسی موضوع پر سرسری گفتگو نہیں کرتے ۔ انھوں نے جہاں جیّد فنکاروں اور ادیبوں پر مضامین لکھے وہیں نئے اور نسبتاً کم معروف اور غیر معروف ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات پر بھی لکھے۔
جدیدیت اور جدید تنقید پر جس وقت بہت کم لوگ فکرانگیز گفتگو کرسکتے تھے۔ اس وقت نجم الہدیٰ نے اپنی کتاب فنِ تنقید اور تنقیدی مضامین کے دوسرے ایڈیشن میں مفصل گفتگو کی اور جدیدیت کے زیرِاثر لکھے جانے والے ادب کے عناصر ترکیبی اور جدیدیت کے متبعین کے افکار ونظریات کی تشریح کی اور تجزیہ کیا۔ انھوں نے جدیدیت کے بہت سے مفروضات ونظریات سے اختلاف بھی کیا۔ فن برائے فن، اور فن برائے فنکار، کے نظریے کو رد کیااور منطقی اندازمیں اس نظر ے کی مہملیت واضح کردی۔ اپنےمقالہ اردو تنقید کے جدید میلانات میں جدید تنقید کی سمت ورفتار کی نشان دہی کی اور جدید تنقید کے میلانات کی ٹھیک ٹھیک اور غیرمبہم تو ضیح وتشریح کی۔ اس سلسلے میں ان کے مندرجہ ذیل اقتباسات ان کی فکر کو آئینہ کردیتے ہیں:
ث’’فنی شعور ہمارے صدیوں کے اجتماعی وجدان کا ماحصل ہے۔ یہ ہمارا اثاثہ ہے جس میں ہم تبدیلی یا اضافہ تو کرسکتے ہیں لیکن اس سےبالکل الگ ہوکر کچھ نہیں کرسکتے ۔ ادب میں روایت کے ورثے کو کلّیۃً ترک کرنا تمام انسانی وراثتوں سے منہ موڑناہے‘‘۔
ث’’ ادب نہ تو خالصتاً سماج کی پیداوار ہے، نہ ادیب کے مجرد ارادے کی۔ اس کی تخلیق میں سماج اور فرد دونوں دخیل ہیں۔ فرد اس لئے اہم ہے کہ تنہا اس کا ذہن ادب کو وجود میں لانے کا ذمہ دار ہے لیکن سماج کی اہمیت اس لئے ہے کہ ادیب کا ذہن اپنے تخلیقی عمل میں ہیئت اور مواد دونوں کے لیے سماج کا محتاج ہے۔ اس طرح تخلیق کی جولاں گاہ میں افراد متحرک ہو تے ہیں اور سماج محرک۔ یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہاں سماج، کا استعمال گردو پیش کے وسیع مفہوم میں ہوا ہے اور یہ فنکار کی خارجی دنیا کا اشاریہ ہے جس میں معاشرہ اور اس سے ما ورا کائنات اور ما ورائے کائنات سب کچھ شامل ہے‘‘۔
ث’’انفرادیت کے خول میں سمٹ جانے والے ہپّیوںنے ادب کو بھی کچھ ایسی ہی راہ دکھا ئی ہے۔ نئی علامات اور نئے پیکر، الفاظ کے نئے مفاہیم اور نئے استعمال نے ادب کا جدید قالب تیار کیا ہے۔ نظریات کی سطح پر ابلاغ و ترسیل کی ضرورت سے انکار نے عہد حاضر کے ادبیات کے ایک قابلِ لحاظ حصے کوچیستاں سرائی کا مترادف بنادیا ہے، اس لئے شعروادب میں ہیئت کو معنی سے مطلقاً الگ کردینے کی کوشش ملتی ہے۔ یہ کوشش ادب سے اس کاتہذیبی منصب چھین لینے کی کوشش ہے۔ ہر نیاتجربہ اگر روایت کی بنیاد پر ہو تو روایات کے موجودہ سرمائے میں وقیع اضافہ کرتاہے۔ اور روایت سے ایسا انحراف جو فضا میں معلق ہو عدم توازن کی دلیل ہے‘‘۔
پروفیسر نجم الہدیٰ ادب وتنقید سے متعلق اپنا سوچا سمجھا ہوا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی بات دو ٹوک اور صاف صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے مقبول عام تنقیدی افکار ونظریات نہیں اوڑھے۔ وہ جدت اور تجربے کو پسند کرتےہیں۔ مگر جدت طرازی اور نئے تجربے کے نام پر ہرالٹی سیدھی تحریر کونہیں مانتے۔ وہ بھیڑچال سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ اپنی روش بدلتے ہیں۔ وہ علمیت اور متانت سے اپنے خیالات پیش کرتے ہیں۔ تنقید کو ادبی گپ یاجملے بازی اور انشا پردازی کافن نہیں بناتے۔ وہ فن کے مبہم اور ناقابلِ فہم اور ناقابلِ بیان اسرار وغوامض کے قائل نہیں ہیں۔ وہ ہیئت کو مواد سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھتے نہ وہ ادب کو اس کے سماجی پس منظر سے کاٹ کردیکھتے ہیں۔ تخلیقِ ادب اورتنقیدِ ادب ان کے نزدیک ایک ذمہ دارانہ ، سنجیدہ اور بامقصد عمل ہے۔ وہ انگریزی نقاد ٹی- ایس ایلیٹ کے بقول ادب کی عظمت محض ادبی معیار سے متعین کرنے کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ یہ مانتے ہیں کہ کوئی چیز ادب ہے کہ نہیں اس بات کاتعین تو صرف ادبی معیار ہی سے ہوگا۔
نجم الہدیٰ ادب میں عدم وابستگی کے مسئلے میں واضح موقف رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی فنکار یا ناقد اپنے اخلاقی اورمذہبی معتقدات سے گلو خلاصی حاصل کرلیتاہے تو ضروری نہیں کہ تمام ادیب وفنکار اپنے جملہ اخلاقی وانسانی معتقدات سے یکسر الگ ہوجائیں جو انہیں وراثت میں ملے یا جو انھوں نے اپنے مطالعے اور غور وفکر سے پائے۔ نجم الہدیٰ ادب میں مسلمہ انسانی ،روحانی اور اخلاقی تعلیمات واقدار سے انحراف اور برگشتگی کو نہ صرف نا پسند کرتے ہیں بلکہ ا سے انسانیت اور ادب کے لئے مضر خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ فنکاروں اور فن پاروں کی جانچ پرکھ کے دوران فاسد مواد اورانسان دشمن تعلیمات وترغیبات کی گرفت بھی کرتے ہیں۔
ماحصل یہ کہ نجم الہدیٰ کی شخصیت غیر معمولی ہے۔ اس مضمون میں صرف ان کے حالاتِ زندگی مختصر طور پرلکھے گئے۔ مگر ان کی انسانی واخلاقی اور علمی وادبی خوبیوں سےمتعلق بہت سی باتیں بیان ہونے سے رہ گئی۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں بتادوں کہ نجم الہدیٰ صاحب بہت خوبصورت ،خوب سیرت اور مہذب انسان ہیں۔ وہ خوش مزاج ، خوش خلق ،شریف اور دیندار انسان ہیں۔ خودداری استغنا ، سادگی اور علمیت وشرافت ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ وہ فنا فی الادب ہیں۔ زرگری اور عہدہ ومنصب کے حصول میں سرگردانی سے وہ کوسوں دور رہے۔ تدریس وتعلیم اور تصنیف وتخلیق ان کا ہمہ وقت کا مشغلہ رہا۔نجم الہدیٰ صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ توکل إلیٰ اللہ اور محبتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہیں۔ ملت اسلامیہ کا بہت درد رکھتے ہیں۔ انسانی قدروں کے علم بردار اور سارے عالم کے انسانوں کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں، عزتِ نفس کی حفاظت کرنے والے، غیور ومستغنی ہیں۔ وہ اقبالؔ شناسوں میں معزز مقام رکھتے ہیں۔ وہ علم العروض اورعلم البلاغت کے ماہر ہیں۔ انھیں اردو گریمر کے رموز ونکات پر مضبوط گرفت ہے۔ املا، تلفظ ، روزمرہ، محاورہ ،صرف ونحو، واحد وجمع اور تذکیر وتانیث کے اصول ومسائل سب انھیں ازبر ہیں۔ علم زبان(لسانیات) کے مسائل سے بھی خوب واقفیت ہے۔ وہ بیک وقت کئی زبانوں کے عالم ہیں، ماہرنثّار اور منجھے ہوئے انشا پر داز ہیں۔ صحت ِزبان کے معلمِ لاثانی ہیں۔ طالب علموں، ادیبوں اور ریسرچ اسکالروں کے ہمدرد،رہنما اور مربی ہیں۔ آج جب وہ ۸۴سال کے ہوگئے ہیںان کی ضعف وناتوانی بڑھتی جارہی ہے ، مگر ان کا حافظہ ابھی بہت اچھاہے۔ان کی آنکھوں کی بصارت قائم ہے۔ وہ چند صفحات لکھ سکتے ہیں۔ مگرطویل مضمون لکھنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ البتہ ڈکٹیش(Dictation)کے ذریعے لیٹے لیٹے یا بیٹھے بیٹھے صرف چند صفحات یاسطور لکھوادیتے ہیں۔ وہ کسی کو مایوس ومحروم نہیں کرتے ۔ دلداری ودل جوئی ان کا شعار ہے۔ وہ میرے اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے محسن ومربی ہیں۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنے کا شرف مجھے بھی حاصل ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ اتنے شفیق اوربزرگ شخص کی محبتوں اور شفقتوں کا وافر بہرہ مجھے ملا ہے۔
ــــــــــــ
حاشیہ
ڈاکٹر نجم الہدی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر تفصیلی گفتگو ڈاکٹر ثریا جہاں نے اپنے تحقیقی مقالے میں کی ہے ،یہ مقالہ پروفیسر نجم الہدیٰ:’’ ناقد وشاعر‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوچکاہے۔ نجم الہدیٰ صاحب کے نانیہالی خاندان پر بھرپور مواد پروفیسر شکیل الرحمٰن کی خود نوشت آشرم، میں مل جائے گا۔
Dr. Mumtaz Ahmad Khan
Retired Associate Professor
Univ. Departmaent of Urdu, B.R.A. Bihar University Muzaffar pur
Phon :9852083803