نئی دہلی:نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے آج خبردارکیاہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ترقیاتی چیلنجوں میں اور زیادہ پریشانی آئیں گی۔وہ دو رپورٹوں کا اجرا کرنے کے بعد ایک مجمع سے ورچوول خطاب کررہے تھے۔ پہلی رپورٹ ہندوستان میں پیدائش کے وقت جنسی شرح کا تناسب اور دوسری ہندوستان میں عمردراز لوگوں کی آبادی: اسٹیٹس اور سپورٹ نظام۔ یہ رپورٹ آج نئی دہلی میں آبادی اور ترقی کے لیے ارکان پارلیمان کی بھارتی ایسوسی ایشن (آئی اے پی پی ڈی) کے ذریعے جاری کی گئی ہے۔آئی اے پی پی ڈی کے ذریعے آبادی اور ترقیات پر توجہ مرکوز کرنے کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ ہم سب کو آبادی اور ترقی کے درمیان تعلق کو تسلیم کرنا چاہیے’۔انہوں نے ماہرین کے ذریعے تیار اس پروجیکشن کا حوالہ دیاہے کہ سن 2036 تک ہندوستان کی آبادی ایک ارب 52 کروڑ تک بڑھنے کی توقع ہے۔ (2011 کے تعلق سے 25 فیصد)بنیادی سہولیات کی فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں غریبی کی لائن سے نیچے رہنے والے افراد کا آبادی کا25 فیصد ہونا اور تقریباً اتنا ہی ناخواندہ افراد کا ہونا شامل ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے عوام الناس پر زور دیا کہ وہ اپنے خاندانوں کی منصوبہ بندی کریں۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہ جیسا کہ پچھلے سال یوم جمہوریہ کے موقع پر جناب نریندر مودی نے کہا تھا کہ جو لوگ چھوٹے خاندان کی پالیسی اپناتے ہیں، وہ ملک کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔ نائیڈونے سیاسی پارٹیوں اور عوامی نمائندگان پر زور دیا کہ وہ اس اہم معاملے پر توجہ مرکوز کریں اور عوام الناس میں بیداری پیدا کریں۔ہندوستان کے قدیم مشترکہ خاندانی نظام کے احیا پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا خاندانی نظام دوسرے ملکوں کے لیے ایک ماڈل ہونا چاہیے، جسے وہ اپنا سکیں۔نائیڈو نے واضح کیا کہ ہمارے روایتی مشترکہ فیملی نظام میں ہمارے بزرگوں کو ایک باوقار رتبہ حاصل تھا اور وہ سچائی، روایات، خاندانی ناموس اورجبلیت کے نگراں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کو بہت زیادہ دیکھ بھال، پیار محبت، شفقت اورپرانے بزرگوں کی قیادت اوررہبری حاصل ہوتی تھی۔نائب صدرجمہوریہ نے کہاہے کہ بزرگوں کونظراندازکرنے،انہیں الگ تھلگ کرنے اور ان کے ساتھ نازیبا سلوک کی خبروں سے وہ بہت زیادہ ناامید ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ یہ مکمل طور پر ایک ناقابل قبول رجحان ہے۔ انہوں نے مزیدکہاہے کہ بچوں کا مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے خاندانوں میں موجود بزرگوں کی دیکھ بھال کریں۔وینکیانائیڈونے زوردیاہے کہ ہم اپنی بزرگ آبادی کو نئے زمانے کی ضروریات سے باخبرکریں، تاکہ وہ باقاعدہ زندگی جی سکیں اور قوم کی تعمیر میں حصہ لے سکیں۔ انہوں نے کہاہے کہ اگرنوجوان ملک کے لیے سماجی اعدادوشمار کا ڈویڈنٹ ہیں تو بزرگ سماجی اعدادوشمار کا بونس ہیں۔نائب صدر جمہوریہ نے اس ضرورت پرزور دیا کہ طبی فوائد کی فراہمی اور انشورنس کوریج کو یقینی بناکر بزرگوں کی خصوصی ضرورتوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ہمیں اپنے صحت نظام کو ازسرنو مرصع کرنے کی ضرورت ہے۔اس بات پر تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہ طویل مدت سے ہندوستان کو غیرمعتدل جنسی شرح تناسب کاسامناہے، نائیڈو نے کہا کہ جنسی شرح تناسب ایک خاموش ایمرجنسی ہے اور اس کے سنجیدہ نتائج ہوسکتے ہیں، جو ہمارے معاشرے کے استحکام پر منفی طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ نائیڈو نے ملک میں جنس کی مخصوص جنس کی جانچ کرواکر حمل ضائع کرنے کے تناظر میں پی سی-پی این ڈی ٹی قانون کو سختی سے نافذ کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہاہے کہ لڑکی ہونے کی صورت میں حمل ضائع کرنے کے پاگل پن کوختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وضع کیا جائے، جس میں کسی بھی قسم کا جنسی امتیاز نہ ہو۔ نائیڈو نے اسکولوں میں سماجی تعلیم دینے پر بھی زور دیا، تاکہ بچے ذمہ دار اور حساس شہریوں کے طور پر بڑے ہوں اور جو جنسی امتیاز کو غیراخلاقی سمجھیں۔نائب صدر جمہوریہ نے لڑکیوں کو حمل میں ہی ضائع کرنے اور جہیز پر پابندی لگانے کے قوانین کا سختی سے نفاذ کرنے پر زور دیا،نیز تمام لڑکیوں کے لیے مفت لازمی تعلیم کویقینی بنانے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو جائیداد میں برابری کا حصہ ملنا چاہیے، تاکہ وہ اقتصادی طور پر بھی بااختیار ہوجائیں۔نائیڈو نے کہاہے کہ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ پارلیمنٹ اور تمام ریاستوں کی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مناسب ریزرویشن ہو۔
Naidu
نئی دہلی:نائب صدرجمہوریہ ہندایم وینکیا نائیڈو نے آج پڑوسی ملکوں سمیت دیگر ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات پر رائے زنی سے گریز کریں اور زور دے کر کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کو ملک کے اتحاد، سالمیت ، حفاظت اور خود مختاری کے تحفظ کے بڑے مفاد میں ختم کیا گیا ہے۔نائب صدر جمہوریہ نے سشماسوراج کی تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیر خارجہ کے طور پر وہ بھارت کے موقف کو بہت ہی واضح طور پر اور بہت ہی میٹھے اور سنجیدہ انداز میں بیان کرتی تھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کے موقف کو سخت انداز میں بھی بیان کرتی تھیں۔نوجوان سیاستدانوں پر زور دیتے ہوئے کہ انہیں ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھیں اور ان کی خاصیتوں کو اپنائیں۔نائیڈونے کہاہے کہ سشما ایک عمدہ شخصیت کی مالک تھیں، جو کسی کی بھی درخواست پر غور و خوض کے ساتھ فوری طور پر قدم اٹھاتی تھیں چاہے وہ دوست ہوں ،ان کے حامی ہوں یا بڑی تعداد میں عوام ہوں۔انہوں نے یہ بھی کہا ‘‘یہ حقیقت کہ انہیں سات موقعوں پر لوک سبھا کے لیے چنا گیا اور تین بار اسمبلی کے لیے چنا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام میں کتنی زیادہ مقبول تھیں۔انہوں نے ان کی خاصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ وزیر خارجہ تھیں توان کا مزاح ، انسانی ہمدردی والا مزاج اور کسی بھی مسئلے پر فوری قدم اٹھانا سوشل میڈیا پر پوری طرح ظاہر ہوتا تھا۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ملک کے لاکھوں عوام اْن سے محبت کرتے تھے اور حالیہ دنوں میں وہ بھارت کے سب سے زیادہ مقبول وزرا خارجہ میں سے ایک تھیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہاہے کہ سوراج ایک عمدہ خاتون تھیں۔ انہوں نے اْن کو اْس موثر انداز کو یاد کیا ، جس میں انہوں نے 1996 میں لوک سبھا میں ایک تقریر کے دوران بھارتیتاکوبیان کیاتھا۔ زبان کی پاکیزگی، الفاظ کا انتخاب اور خیالات کی وضاحت کچھ عناصرہیں جس کی وجہ سے وہ ایک مقبول مقرر بنی تھیں۔نائب صدر جمہوریہ نے کہا تھا کہ وہ جذبے سے سرشار ایک قوم پرست تھیں اور انہوں نے واضح اندازمیں اپنے نظریات کااظہار کیا۔نائب صدر جمہوریہ نے سشما سوراج کو بھارتیہ ثقافت کی ایک مثالی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت جدید سوچ اور روایتی اقدار کا امتزاج تھیں۔ انہوں نے کہاہے کہ سشما سوراج ایک کنبے کے فرد کی طرح تھیں۔انہوں نے یادکیاہے کہ وہ رکشا بندھن پر کس طرح ان کے گھر آکر ان کی کلائی پر راکھی باندھی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ جب ملک میں کچھ دن پہلے یہ تہوار منایا گیا تو میں اپنے خوشگوار تعلقات کو یاد کر کے جذباتی ہو گیا تھا۔پنجاب یونیورسٹی کے سابق طلبا کی ایسوسی ایشن اور قانون کے محکمے پر ہر سال سشما سوراج کے اعزاز میں ایک یادگاری لیکچر کا اہتمام کرنے کے فیصلے پر نائب صدر جمہوریہ نے یاد دہانی کرائی کہ یادگاری خطبات یا یادگاری تقریبات محض خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ نوجوان نسل میں جذبہ پیدا کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں کہ وہ عظیم مردوں اور خواتین کی خاصیتوں کو اپنائیں۔
نئی دہلی:نائب صدر جمہوریہ ہندایم وینکیا نائیڈو نے آج تعلیم سے انتظامیہ تک مختلف میدانوں میں مادری زبان کا استعمال کرکے مختلف بھارتی زبانوں کو تحفظ اور فروغ دینے کے لیے کہا۔علم کی فراہمی:مادری زبان کے موضوع پر ایک آن لائن ویبنار کا افتتاح کرتے ہوئے، جس کا انعقاد یونیورسٹی آف حیدر آباد کے تیلگو ڈپارٹمنٹ اور تیلگو اکیڈمی نے مل کر کیا تھا، جناب نائیڈو نے ہر ریاستی سرکار کی طرف سے متعلقہ سرکاری زبان کو خصوصی طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔یہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہ زبان کسی تہذیب کی شہ رگ ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور روایات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ موسیقی ، رقص ، ریت رواج، تہوار ، روایتی علم اور وراثت کو تحفظ دینے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔پرائمری اسکول تک مادری زبان میں تعلیم فراہم کرانے کے بارے میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی زبان تبھی مقبولیت حاصل کرتی ہے جب اسے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض ہماری سوچ ہے کہ کامیابی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب تعلیم انگریزی میں حاصل کی جائے۔ تحقیق سے پتہ لگا ہے کہ جو لوگ اپنی مادری زبان میں ماہر ہوتے ہیں، وہی دوسری زبانیں بھی سیکھ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ 2017 تک کے نوبیل انعام یافتگان ( نوبیل امن انعام جیتنے والوں کو چھوڑ کر ) وہ شخصیتیں ہیں، جنہوں نے اپنی مادری زبان میں تعلیم مکمل کی۔اسی طرح دیگر ملکوں کے سروے نے بھی عالمگیریت پر بڑا اثر ڈالا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ جن قوموں نے مادری زبان کو اہمیت دی وہ آج سرفہرست 50 قوموں میں شامل ہیں۔نائیڈو نے کہا کہ سوچنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ اگر کوئی انگریزی میں مہارت کا حامل ہے تو وہ جدید تحقیق کرسکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اختراع سے متعلق عالمی انڈیکس میں 40 سے 50 سرفہرست ملکوں میں سے تقریبا 90 فیصد وہ ممالک ہیں جن میں تعلیم ان کی مادری زبانوں میں دی گئی۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بہت سی غیر ملکی اہم شخصیتیں ، انگریزی جاننے کے باوجود بھارتی سرکردہ شخصیتوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اپنی مادری زبان کا استعمال کرتی ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ ایسا کرکے عزت نفس کا پیغام دیتی ہیں۔جدید ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مادری زبانوں کو فروغ دینے کی ضرورت کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ پیچیدہ سائنسی اور تکنیکی اصطلاحوں کو بھارتی زبانوں میں آسان بنانا چاہیے۔مختلف بھارتی زبانوں سے متعلق تحقیق کو مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے محققین کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے الفاظ تلاش کریں جو متروک ہوتے جارہے ہیں اور انہیں اپنی روز مرہ کی گفتگو ، مضامین اور نصابی کتابوں میں فروغ دیں تاکہ ختم ہوتی ہوئی زبانوں کو جلا دی جاسکے۔اساتذہ اور والدین سے یہ اپیل کرتے ہوئے کہ وہ اپنے بچوں کی اس بات کے لئے حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے گھروں اور دیگر جگہوں پر مادری زبان میں بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سبھی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی اور دیگر سرگرمیوں کے لئے اصول ہونا چاہئے۔ نائیڈو نے میڈیا سے بھی کہا کہ وہ مادری زبانوں کو وسیع پیمانے پر فروغ دے۔یونیورسٹی آف حیدر آباد کے وائس چانسلر جناب پی اپا راؤ ، ڈی آر ڈی او کے چیئر مین ڈاکٹر ستیش ریڈی ، یو نیورسٹی آف حیدر آباد کے تیلگو ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ پروفیسر ارونا کماری ، شانتا بائیو ٹیک کے چیئر مین جناب کے ایل ورا پرساد ریڈی، تیلگو اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب اے ستیہ نارائن ریڈی اور تلنگانہ ریاستی سرکاری زبان سے متعلق کمیشن کے چیئر مین جناب دیولا پلی پربھاکر راؤ بھی اس آن لائن ویبنار میں شرکت کرنے والی شخصیتوں میں شامل تھے۔
نئی دہلی:نائب صدر نے آج بدعنوانی کو ملک کی ترقی اور ترقی کو متاثر کرنے والی سب سے بڑی خرابی اور لعنت قرار دیا ہے اور حکومت سول سوسائٹی اور بڑے پیمانے پر عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وقوم سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں۔ وہ آج نئی دہلی میں کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی)کے دفتر کے احاطے میں بابا صاحب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے مجسمے کی نقاب کشائی کے بعد اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔سابق صدر، اے پی جے عبدالکلام کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے نائیڈونے اس بات پر زور دیا کہ کہ والدین کے علاوہ اساتذہ، طلباء کے کرداروں کی تشکیل اور قدر پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ڈاکٹر امبیڈکر کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، نائب صدر نے کہا کہ وہ ایک کثیر الخیال ذہین شخص تھے۔ ایک بین کثیر نظریات رکھنیو الے ماہر سیاستدان، فلسفی، عظیم دانشور، نامور فقیہ، ماہر معاشیات، مصنف، معاشرتی اصلاح کرنے والے اور ایک انسان دوست والے شخص تھے۔نائب صدر نے کہا کہ آج تک ہمارآئین ایک مقدس کتاب ہے اور تمام معاملات کے لیے رہنما اور روشنی کا مینار ہے اور ملک کے ہر شہری سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کرے کہ ہمارے آئین کے تقدس کو ہر وقت برقرار رکھا جائے اور کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔یہ کہتے ہوئے کہ ڈاکٹر امبیڈکر مظلوموں کے مسیحا ہیں۔ نائب صدر نے کہا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی، صنفی مساوات اور تعلیم کے ذریعہ خواتین کو سماجی برائیوں سے آزاد کرنے پر پختہ یقین کیا ور ذات پات کی رکاوٹوں کو ختم کرنے اور تمام لوگوں کے لئے مساوات کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کی۔انہوں نے کہاہے کہ ’’ان کا مجسمہ نصب کرنے کا مقصد ہمیں اس عظیم انسان کے نظریات کی یاد دلاتا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلیں ان کی تعلیمات کو یاد رکھیں جو ہم سب کے لیے رہنما اصول ہیں۔ایک مضبوط اور قابل اعتماد ادارہ ہونے پرسی اے جی کی ستائش کرتے ہوئے نائب صدر نے سی اے جی کو آزادی اور وسیع مینڈیٹ کو یقینی بنانے کس ہمارے آئین کے معمار، خاص طورپر ڈاکٹر امبیڈکر کو دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی اے جی کی بنیادی اقدار- آزادی، مقصدیت، سالمیت، اعتماد، پیشہ ورانہ مہارت، شفافیت اور مثبت نقظہ نظر کو ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی اور کام نے متاثر کیا۔ انہوں نے احتساب، شفافیت اور گڈگورننس کو جمہوریت کے لئے انتہائی ضروری قرار دیا۔نائب صدر نے سی اے جی کی رپورٹ اور قانون ساز کمیٹیوں کی اس کے نتیجے میں ہونے والی بات چیت کو سراہا تاکہ حکومت کے ریگولیٹری فریم ورک، گورننس ڈھانچے اور ترسیل کے طریقہ کار میں متعدد تبدیلیاں پیدا ہوسکیں۔ معیشت ، کارکردگی اور حکومتی کارروائیوں کی تاثیر کو یقینی بنایا جائے۔نائیڈونے سپریم آڈٹ اداروں(ایس اے آئی)کی بین الاقوامی برادری میں عمدہ ساکھ حاصل کرنے اور اس کی 2022 تک مکمل طورپر پیپر لیس آفس بننے کی کوشش کے لیے بھی سی اے جی کی تعریف کی۔اس سے قبل کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل، مسٹر راجیو مہرشی نے اس اجتماع کا خیر مقدم کیا اور ڈپٹی سی اے جی انیتا پٹنائک نے شکریہ ادا کیا۔
زندگی اور انسانیت کے تئیں نیا رجحان اپنایا جانا چاہیے
نئی دہلی:نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے کورونا کے دوران زندگی گزارنے کیلئے نئے طریقے اختیار کرنے پر زور دیا ہے اور اس وائرس سے نمٹنے کے لیے یعنی اس کے ساتھ معمول کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے 12نکات پر مبنی فریم ورک بھی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کورونا کی وبائی مرض نے ہمیں اب تک جو سبق سکھائے ہیں، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ا نہوں نے زندگی اور انسانیت کے تئیں نئے رجحانات اپنانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس اب تک متوقع م مدت سے زیادہ عرصے تک اپنے اثر کے ساتھ باقی رہے۔گزشتہ رات 4.0لاک ڈاؤن کے اعلان کے فورا بعد جس میں پابندیوں کو خاطر خواہ حد تک نرم کاری سے ہمکنار کیا گیا ہے۔ نائیڈو نے 1539الفاظ پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون فیس بْک پر تحریر کیا ہے، جس کا تعلق کووڈ-19 کے وبائی مرض کے پس منظر میں فلسفیانہ اور اخلاقی اقدار و موضوعات سے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں آئندہ زندگی کو گزارنے کے لئے زندگی کی ضروریات پر بھی احاطہ کیا گیا ہے۔نائیڈو کی تحریر میں خصوصی توجہ اس با ت پر دی گئی ہے کہ زندگی الگ تھلگ رہ کر نہیں گزاری جا سکتی ہے اور اس وائرس کے پھوٹ پڑنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جو چیز کسی ایک شخص پر کہیں بھی اثرانداز ہوتی ہے، اس کا اثر دوسری جگہوں پر بھی پڑتا ہے خوا ہ یہ مرض ہو یا معیشت۔کورونا سے قبل کی زندگی کی نوعیت کی تفصیل کا ذکر کرتے ہوئے نائیڈو نے کہا ہے کہ انسان مسرت کی تلاش میں ایک قرضدار بن گیا ہے اور مادی زندگی کی ترقی نے کنبوں کو چھوٹا کر دیا ہے اور اب معاشرے میں محض غرض کے تحت تعلقات رکھے جاتیہیں اور انسان کے ذہن میں تکبر اس حد تک آ گیا ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ الگ تھلگ رہ کر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے، اسے دوسرے کی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی۔نائب صدر جمہوریہ ہند نے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ اس وائرس کے سلسلے میں ہر حال میں صحیح اورسائنٹفک اطلاع ہی بہم پہنچائے نہ کہ اسے ایک عظیم تباہی بنا کر پیش کرے۔ جناب نائیڈو نے عوام سے کہا ہے کہ وہ مختلف انداز میں زندگی گزاریں اور محفوظ رہیں۔
راجیہ سبھا کے 68 سال کی مدت میں اپوزیشن کی اکثریت رہی لیکن قانون بنانے پر اثر نہیں پڑا:نائیڈو
نئی دہلی:راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے بدھ کو کہا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے 68 سال کی مدت کار میں 39 سال اپوزیشن کے ارکان کی تعداد زیادہ رہی ہے لیکن اس کا قانون بنانے پر منفی اثر نہیں پڑا۔انہوں نے راجیہ سبھا کی پہلی میٹنگ کی 68 ویں سالگرہ پر فیس بک پر لکھے پوسٹ میں ایوان بالا کا سفر یاد کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔نائیڈو نے کہاکہ راجیہ سبھا کا الیکشن اور مدت لوک سبھا سے مختلف ہوتی ہے۔اس سے کسی حکومت کے لئے ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ اس کے پاس لوک سبھا میں ضروری اکثریت ہو لیکن راجیہ سبھا میں نہ ہو۔گزشتہ چند سالوں میں یہی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ پہلی بار 1968-70 کے دوران ہوا تھا اور گزشتہ 31 سالوں سے اسی طرح کی صورتحال بنی رہی ۔نائب صدر نے کہا کہ راجیہ سبھا کے اس سال کے بجٹ سیشن تک 5472 میٹنگیں ہوئیں اور اس نے 3857 بل منظور کئے ۔انہوںنے 1961، 1978 اور 2002 میں تین سیشن کا بھی ذکر کیا جب راجیہ سبھا نے بالترتیب جہیز ممنوع بل 1959، بینکاری سروس کمیشن (نرسن) بل 1977 اور دہشت گردی کی روک تھام بل 2002 کو ناقابل قبول کر دیا تھا۔1959 میں اس وقت کی حکومت کے پاس ایوان بالا میں اکثریت تھی۔سال 1970 میں بھی راجیہ سبھا کا لوک سبھا سے الگ موقف تھا۔اس وقت راجیہ سبھا نے 24 ویں آئینی ترمیم بل کو مسترد کر دیا تھا جس میں اس وقت کے حکمرانوں کی ریاستوں کو ختم کرنے کی شق تھی۔ایسے ہی دو اور آئین ترمیم بل تھے جن میںپنچایتوں اور نگر پالیکائوں کو مضبوطی فراہم کرنے کی بات کہی گئی تھی،انہیں بھی راجیہ سبھا نے مسترد کر دیا تھا جو بعد میں جاکر پارلیمانی قانون بنے۔نائیڈو نے موجودہ حکومت کے پاس کافی تعداد نہ ہونے کے باوجود جی ایس ٹی، تین طلاق، جموں کشمیر تنظیم نو، شہریت ترمیم جیسے بہت اہم بل کو منظور کئے جانے کو بھی یاد کیا۔
لاک ڈاؤن کے بعد روڈ میپ کے لیے معیشت پر صحت کا مسئلہ مقدم ہوگا:وینکیا نائیڈو
نئی دہلی:ملک کی قیادت 14 اپریل کے بعد جب کورونا وائرس کی وجہ سے 3 ہفتوں کا قومی لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گا اور اس کی بنیاد پر کیا فیصلہ لیا جائے اس پر غور ہو رہا ہے۔ نائب صد رجمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو نے تمام شراکت داروں سے اپیل کی ہے کہ اس فیصلے میں عوامی صحت کو معیشت کے استحکام پر ترجیح دی جائے۔لاک ڈاؤن کے دو ہفتے مکمل ہونے کے بعد اپنے تجزئے میں جناب نائیڈو نے کہا ہے کہ اگلا ہفتہ ، 15 مارچ سے نافذ ملک گیر پابندیوں سے باہر نکلنے سے متعلق فیصلے کے لئے اہم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وائرس کے پھیلا کی شدت اور شرح سے متعلق اعداد وشمار کی بنیاد پر ہی لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کی حکمت عملی ہوگی۔وزیراعظم اور ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ لاک ڈاؤن کے خاتمے سے متعلق صلاح ومشورے کا ذکر کرتے ہوئے نائیڈو نے عوام سے اپیل کی کہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ ہو ، وہ اس پر عمل کریں اور 14 اپریل کے بعد بھی اگر مشکلات کا دور جاری رہتا ہے تو وہ اسی جذبے سے حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت سماج کے کمزور طبقات کی مدد اور راحت رسانی نیز ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔22 مارچ کو جنتا کرفیو کو عوام کی مکمل حمایت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ 25 مارچ سے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن ہے اور پانچ اپریل کو چراغاں کیا گیا تھا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ روحانیت ہندوستان کی قدروں کا اہم حصہ ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ روحانی نجات کا مطلب یہی ہے کہ آدمی اپنے بندھے ٹکے ڈھروں سے آزادی حاصل کرے اور عوام الناس کی فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہو اور ملک کے عام نے یہ بات دکھائی ہے کہ یہی بنیادی قدر ہمارے یہاں بہتات میں ہے۔ بحران کی اس گھڑی میں یہی جذبہ ہمیشہ اس چیلنج پر قابو پانے میں مدد دے گا۔نائب صدر نے عالمی برادری سے کہا کہ موجودہ بحران سے صحیح سبق حاصل کریں اور اداروں، بنیادی ڈھانچہ، ہمہ اطلاعات کو باہم شیئر کرنے اوربین الاقوامی تعاون نیز انفرادی اعمال کو مؤثر ہونے اور ان میں لاحق کمیوں کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہو، ایسا کرنا لازم ہے۔
کولکاتہ:نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو نے اتوار کو کہا کہ بھارت تنوع میں وحدت، تکثیری اقدار اور تمام مذاہب کے پرامن وجود کے لیے جانا جاتا ہے۔روٹری انٹرنیشنل کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان اقدار کی حفاظت ہونی چاہئے اور جنسی یا لوگوں کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہوناچاہیے۔وینکیانائیڈونے ملک کے نوجوانوں سے سماجی ہم آہنگی پر توجہ دینے اور کمیونٹیز کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کے لیے کام کرنے کی اپیل کی ہے۔نائب صدر نے کہا کہ بھارت اپنے تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے اور امن اور ترقی کے ماحول کا حمایتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کو فروغ دینے والی کسی بھی طاقت کے خلاف مقابلے کا عزم لینا چاہیے۔وینکیانائیڈونے کہاہے کہ ہم اپنے تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔آئیے ایک رخ اپنائیے۔ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں امن کو فروغ ملے۔کسی ملک کا نام لیے بغیر نائب صدر نے کہاہے کہ کہاوت ہے کہ آپ دوست کو تبدیل کر سکتے ہیں لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کر سکتے۔مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکھڑ اور ریاست کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیربرتیا باسو نے بھی نائب صدر کے ساتھ اسٹیج شیئرکیاہے۔