اکیس دن لاک داؤن وہ بھی اس ملک میں جہاں ستر فیصد عوام بھوک مٹانے کے لئے نیی صبح کا انتظار کرتی ہے . حکومت نے جھگی جھوپڑی اور فٹ پاتھ پر بصرہ کرنے والوں کے لئے ایک لفظ نہیں کہا .کوئی وعدہ نہیں کیا . لاک داؤن یا کرفیو کے ماحول میں شاہین باغ کا احتجاج ختم کر دیا گیا . اب ملک میں کورونا ہے اور این پی آر کا کوئی تذکرہ نہیں . کیا دنیا بھر کی عالمی طاقتوں نے کورونا اپنے اپنے مسائل سے فرار کے لئے ہایی جیک کیا ہے . چین ، اٹلی ، ایران ، ہسپانیہ کی تباہی کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا . مگر ہندوستان کی سیاسی فضاء کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بر وقت حکومت کو بہت سے مسائل سے بچنے کے لئے ایک خوبصورت کھلونا مل گیا ہو . رنجن گگویی ، بابری مسجد اور رافیل معاملہ ، معاشی طور پر تباہ ہندوستان ، این ار سی ، این پی آر ، شاہین باغ ..یہ تمام معاملات کورونا کی دھمک میں گم ہو گئے . مسلمانوں کی شہریت کا معاملہ اس وقت تک زندہ ہے ، جب تک شاہین باغ زندہ ہے . علما کے بیانات کام نہیں آئینگے . احتجاج ہی کام اے گا . اس لئے ، اس حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا کہ جب کورونا کی دھمک میں کمی اہے ، احتجاج کو پھر سے شروع کر دیا جائے . حکمرانوں کے کیی بیانات ایسے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو مسلمان منظور نہیں .
شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم میں سیاست اور سماج کا جو خوفناک چہرہ آرویل نے دکھایا ہے ، وہ آج کے ہندوستان کا بھیانک سچ ہے .، .قیادت کرنے والے وہ چہرے ہیں جو انسان اور جانوروں کا فرق بھول گئے . ملک کو فسادات کے بے رحم شعلوں میں جھونک دینے کی سازش ہوتی رہی . ہجومی تشدد عام ہے اور اور اس کاروبار سے فائدہ اٹھانے والے قاتل جانتے ہیں کہ جب تک مرکزی اور ریاستی حکومت ان کے ساتھ ہے ، انکا کچھ نہیں بگڑے گا .. یہ موجودہ اینیمل فارم کے خوفناک کردار ہیں . جارج آرویل کے سوروں نے جمہوریت کو ہائی جیک کر لیا تھا .. ہم ایک ایسے ڈرامے کا حصّہ ہیں ، جہاں منہ کھولنے والے ، زبان کو جنبش دینے والے غدار قرار دے جا رہے ہیں ..٢٠٠٣ میں جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا ، اس وقت سعادت حسن منٹو کو لے کر میں نے ایک کہانی لکھی تھی ..منٹو اور خواب ..منٹو ایک لڑکی کے ساتھ گجرات کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے . وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا ہے کہ ایک حادثہ ہو جاتا ہے . اس کہانی کا آخری پیراگراف دیکھئے …
’تم اس بچے کو بچا سکتے تھے….‘ میں زور سے چیخی۔
’گائے اور بچے میں سے ایک‘…. شاید مجھ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا— ’ ایک اقلیت بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا۔ اس بستی میں گائے کے مرنے کا مطلب جانتی ہو…؟.‘
منٹو پلٹا۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کر کے اس ڈسٹ بین میں ڈال دیئے۔
منٹو غائب تھا…. لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھا تھا، وہ ابھی بھی ہل رہی تھی
— منٹو اور خواب
.ذاتی زندگی میں مداخلت کے دائرے بڑھتے جا رہے ہیں ..یہ ایجنسیاں کیا کرتی ہیں ، میں نے اپنی ایک کہانی میں اسکا ذکر کیا تھا ..آپ بھی دیکھئے ..
‘وہ ہنس رہا تھا۔ ’ایک لیپ ٹاپ لے آیا۔ آپکی نئی گلوبل دنیا سے جڑنا چاہتا تھا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر …. دوست بنا رہا تھا۔ لیکن وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ ہم پیچھے چلے گئے تھے۔‘
’آگے کیا ہوا بتاو ۔؟‘
’ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دو تین پولیس والے تھے۔ وہ دھڑدھڑاتے ہوئے اندر آ گئے۔ میرا نام پوچھا….گھر کے سامانوں کی تلاشی لی۔ میں باقاعدہ پوری دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک پولیس والا میرا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا کاریگری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا۔‘
’ لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا؟ ‘
آصف شیخ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی…. ’اسکرین پر اچانک ایمان تازہ ہو گیا سر۔ دنیا بھر کی اسلامی فوٹوز میرے لیپ ٹاپ کے اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ کچھ چہرے بھی تھے۔ پولیس والے نے میرا پاس ورڈ پوچھا۔ میں نے بتا دیا۔ نہ بتانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک پورے انہماک سے وہ اپنا کام انجام دیتا رہا۔ پھر میرے والدین سے کہا آپ سب کو میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا۔‘
— تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی
کیا اب سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستانی سیاست ہمیں کس موڑ پر لے آی ہے ..کیا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے ؟ آر ایس ایس کی شاخیں سوشل میڈیا پر زہر اگل رہی ہیں .کہیں مسلمانوں کی ہلاکت کے منصوبے بناہے جا رہے ہیں اور کہیں تصور کی نا پاک دنیا میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا جشن منایا جا رہا ہے ..یہ سب ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی پولیس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اب یقین کرنے کے سوا کویی چارہ نہیں کہ اس کاروبار میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں .. تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے .اشتعال انگیز بیان دینے والے انعام و اعزاز سے نوازے جا رہے ہیں . .ہجومی تشدد برپا کرنے والے ، ہتیا کرنے والے آزاد گھوم رھے ہیں .انکو نمائشی سزا بھی ملتی ہے تو ایسے لوگ شان سے رہا ہوتے ہیں اور بی جے پی کے لیڈران انکی تاج پوشی کے لئے بھی تیار رہتے ہیں …. شاہین باغ کی ضرورت کیوں پیش آیی ؟ کیونکہ مسلمان اس سیاسی نظام میں اپنا حق چاہتے ہیں . اور حکومت آیین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلمانوں کی شہریت کو قبول نہیں کرتی . شاہین باغ کی کامیابی یہ تھی کہ عالمی سطح پر فاشسٹ حکومت کا چہرہ بے نقاب ہوا اور حکومت کچھ دنوں کے لئے اپنے مقاصد میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آی . کیا کورونا کے بہانے حکومت مسلمانوں کی شہریت کو لے کر پھر کوئی مہرہ چلے گی کیونکہ اس وقت کرفیو کا ماحول ہے مگر حکومت کے پاس فیصلہ لینے کے لئے بہت وقت ہے اور وہ ایسا کر سکتی ہے .
تاریخ کے صفحے پلٹتا ہوں تو گویٹے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق نظروں کے سامنے ہوتے ہیں … آر ایل سٹوینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کا کردار ہٹلر اور مودی کی طرح رنگ بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے ..ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یا ڈریکولا یا خوفناک وائرس .. کیا ایک پوری تنظیم اس وقت ڈریکولا یا ڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ بری روح بن کر ہندوستان کی اقلیتوں کا خون چوس رہی ہے ..؟ اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عھد میں ، جہاں اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل قانون ، انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں ..؟ پورا ہندوستان ایک خونی ویمپائر کے تماشے کو بند آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟
انیس سو تینتیس میں، ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی، جس میں یہودیوں کو ذیلی انسان قرار دیا گیا اور ہٹلر کی خوفناک تانا شاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا. جرمنی کی طرف سے 1939 میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا … اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میں یہودیوں کا پیچھا شروع کیا. انہیں کام کرنے کے لۓ، انہیں جمع کرنے اور انہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا، . جنگ کے بعد ہٹلر کا مقصد یہودیوں کو ساری دنیا سےختم کرنا تھا. ہم بہت تیزی سے ایک اندھیری دنیا میں چھلانگ لگا چکے ہیں ..اور یہ کہنا مشکل نہیں …کہ ہم خیریت سے نہیں ہیں .
اقلیتوں کی ہتیا ہو رہی ہے اور اس غیر مہذب دنیا میں ، ہمیں لاک داؤن کی تنہایی کا شکار بنایا جا رہا ہے . .ہم گھر میں رہیں مگر حالات پر نظر رکھیں .
میڈیا مسلمانوں سے نفرت تقسیم کرنے کے لئے چھٹے سانڈ کی طرح آزاد ہے ..اظہار راہے کی آزادی کے قتل کا دردناک منظر دیکھنے کے لئے ہم زندہ ہیں ، اور یہ داستان آگے بڑھے ، ممکن ہے اس سے قبل سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹ دی جاہیں .. مگر ہم ہوشیار رہیں .یہ وقت کا تقاضہ ہے .آنکھیں کھلی رکھیں . اور شہریت چاہتے ہیں تو احتجاج کو مرنے نہ دیں ، یہ سب کے لئے ضروری ہے —
musharraf Alam zauqui
نایاب حسن
مشرف عالم ذوقی اردوحلقے میں اپنے مخصوص بے باک وشفاف اسلوبِ تحریر کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ان کے ناولوں میں عصری حسیت اور احوال وواقعات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے، ان کی کہانیوں میں ملکی و عالمی منظرنامے کی ایسی عکاسی ہوتی ہے،جس سے ان کا قاری ذہنی وفکری طورپر بآسانی مربوط ہوسکتاہے۔ذوقی صاحب کا قلم سیال ہے اور لکھنے کی رفتار تیزتر،وہ گزشتہ چاردہائی سے زائد عرصے سے لکھ رہے ہیں،ایک درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پرآچکی ہیں،ان میں زیادہ تر ناول، چند افسانوی مجموعے،ایک نثری نظموں کا مجموعہ اور ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ”آبِ روانِ کبیر“ شامل ہیں۔
سال2019کے اخیرمیں ان کاتازہ ناول”مرگِ انبوہ“کے نام سے ہندوستان میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے ذریعے منظر عام پرآیاہے اور پاکستان میں صریرپبلی کیشنز اس کی اشاعتی ذمے داری اٹھارہاہے۔ناول کے پہلے حصے میں مرکزی کردار پاشامرزااوراس کے دوستوں کے حوالے سے اکیسویں صدی کی نئی نسل کے مسائل و نفسیات کوزیر بحث لاتے ہوئے ہماری جنریشن کی جلدبازی اور پوری دنیاکو چند لمحوں میں زیر کرلینے یا نئے نئے ایڈونچرز کے شوق پر واقعات ومکالمات کی روشنی میں بڑی چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے۔اس ذیل میں الومناتی گروہ اور ہلاکت ناک بلیووہیل گیم کے کرشموں پربھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔نئی نسل نئے ماحول میں پرانی قدروں سے اتنی بوراوردور ہوتی جارہی ہے کہ وہ جلدازجلد ہر نقشِ کہن سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے،اسی کا مظہر پاشامرزااوراس کا دوست ریمنڈ ہے۔پاشامرزاکو اپنے باپ جہاں گیرمرزا سے چڑ،بلکہ نفرت ہے اور ریمنڈبھی روز اپنے باپ سے لڑتااور نئی نئی مہم جوئیوں میں مصروف رہتاہے۔ناول کا دوسرا حصہ جو ہندوستان کے حالیہ چھ سات سال کے سماجی و سیاسی منظرنامے پرمبنی ہے،وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ناول نگارنے جہانگیرمرزا کی سرگذشت کی شکل میں اس عرصے میں پورے ہندوستان اور خصوصاً یہاں کے مسلمانوں پر بیتنے والے سانحات کو بڑی وضاحت کے ساتھ اور دوٹوک انداز میں بیان کیاہے۔کہانی کی بنت اور کرداروں کی تقسیم وتحدید،پھر ان کے مکالموں اور ان کے گرداگردواقعات کے سلسلے حقائق سے معمور ہیں۔ناول نگار نے بی مشن کو اس سرگزشت کا سینٹر بنایا ہے،جس کے اشاروں اور حکم سے پورے ملک میں حالات برق جیسی رفتارسے بدل رہے ہیں، ”جادوگر“ کا کردار بھی نہایت دلچسپ ہے،جوآن کی آن میں ایک ہنگامۂ رستاخیز برپاکردیتاہے،جس کے ہاتھ میں پورے ملک کی باگ ڈورہے اور وہ جیسے چاہتاہے،تصرف کرتاہے۔اس کے ایک اشارے سے ملک بھر کے بینک خالی ہوجاتے ہیں،لوگ کیش لیس ہوجاتے ہیں،وہ ایک طبقے کے خلاف کوئی بات کرتاہے اور اس کے بھکت اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں،وہ ایک خوفناک سایے کی طرح لوگوں کے پیچھے لگ جاتاہے،کوئی بھی شخص،اس کی زندگی،اس کا گھر اس جادوگرکی دست رس سے دور نہیں ہے۔جادوگرکی شخصیت ایسی زبردست قوت سے عبارت ہے کہ اس کے خلاف کہیں بھی کوئی آواز اٹھ رہی ہو،اسے پتالگ جاتاہے اورپھر وہ لمحے بھر میں اپنے مخالف آوازکو خاموش کردیتاہے۔”راکیش وید“بی مشن کا ایک مضبوط رکن ہے،جس کاکام یہ ہے کہ وہ بی مشن سے نالاں مسلمانوں میں اپنے ہمدردتلاش کرے، اسے کسی طرح ہموار کرکے بی مشن کے حق میں استعمال کرے اور پھر اس سے کام لے کر اسے زندگی کی الجھنوں سے آزاد کردے،حتی کہ جہاں گیر مرزا جو ایک نظریاتی انسان،تخلیق کاراور ادیب و صحافی ہے وہ بھی راکیش وید کے جھانسے میں آجاتا ہے،حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بی مشن کا حصہ بن جاتاہے،گرچہ اس کی وابستگی طویل نہیں ہوتی،مگر اس کے اثرات جہاں گیرمرزاکے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔راکیش ویدکی جوتصویرکشی ناول نگارنے کی ہے،اس کے مطابق وہ بہ یک وقت ہمدردبھی ہے اورنہایت سفاک بھی،وہ زندگی کو مصیبت سے تعبیر کرتاہے اور موت کواس مصیبت سے آزادی بتاتاہے،اس کے مطابق ”جادوگر“ کا احسان ہے کہ وہ اس ملک کے مسلمانوں یا اپنے مخالفین کو مصیبت(زندگی)سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ناول میں استعمال کیے گئے استعارات،کنایات،تشبیہات میں غضب کی معنویت ہے۔ اس وقت پورے ملک میں این آرسی /سی اے کے خلاف پرزوراحتجاجات ہورہے ہیں، ذوقی نے اس ناول میں چندماہ قبل ہی این آرسی کےبھیانک مضمرات وعواقب کی نشان دہی کی تھی،تب شمال مشرقی ہندوستان میں آوازیں اٹھناشروع ہوگئی تھیں، مگرسینٹرل انڈیامیں تقریباًخاموشی تھی،پھرجب پارلیمنٹ سے شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون پاس کیاگیا اورحکومت نے سی اے اے کے بعد پورےملک میں ان آرسی کے نفاذکا عزم ظاہرکیا،تب لوگوں کواس کے خطرات کاادراک ہوا،جس کے نتیجے میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پوراملک سرگرمِ احتجاج ہے ـ
اس ناول میں ذوقی نے دائیں بازوکی سفاک سیاست،اس کے طریقۂ عمل اور طرزِفکرپربڑی بے باکی سے تبصرہ کیا ہے،ساتھ ہی سیکولرزم کے ہندوستانی ورژن پرنہایت سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے اشتراکی افکارو تصورات کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں کی پس گردی کے اسباب پربھی روشنی ڈالی ہے۔مختلف مکالمات کے بین السطورمیں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی و ملی تنظیموں کے دوہرے پن کوبھی آشکاراکیاہے۔
اس ناول کی ادبی قدروقیمت کیا ہے، وہ توناقدین طے کریں گے،مگر ایک قاری کی حیثیت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مفروضہ ہوائی وتخیلاتی کہانیوں پرمبنی اور محض ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لیے لکھے جانے والے ناولوں کے مقابلے میں ذوقی کایہ ناول زیادہ پڑھنے لائق ہے کہ اس میں انھوں نے پوری صداقت وواقعیت پسندی کے ساتھ ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے کی عکاسی کی ہے،اس اعتبار سے یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ہمارے خیال میں وہ تخلیقی شہہ پارہ زیادہ تعریف و تحسین کا حق دار ہے،جس میں سماج کے گردوپیش کے حالات واشخاص و سانحات کو کرداروں میں ڈھال کر پیش کیاجائے۔ذوقی کے پچھلے ناولوں میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے اور اس ناول میں بھی یہ خوبی بہ تمام و کمال موجودہے۔اخیر میں ”دولفظ“کے عنوان سے انھوں نے اردوکے روایتی ناقدین سے شکایت کی ہے کہ وہ ایسے ناول کو سیاسی رپورٹنگ قراردے کر نظر انداز کردیتے ہیں،پھر انھوں نے انگریزی،عربی،ہسپانوی،روسی ودیگر زبانوں کے معروف وایوارڈیافتہ ناول نگاروں کے حوالے سے درست لکھاہے کہ زیادہ تر عالمی تخلیقی شہہ پاروں کا ربط متعلقہ ملکوں کی یاعالمی سیاسیات سے رہاہے۔
یہ ناول زبان و اسلوب کے اعتبار سے بھی بڑا سلیس اور سہل و شیریں ہے،مشرف عالم ذوقی جدتِ تعبیر اور ندرتِ اداپر زیادہ زور نہیں دیتے،ان کا ارتکازقوتِ ترسیل پرہوتا ہے،جواس ناول میں بھی بخوبی محسوس کیاجاسکتاہے،کہیں بھی کسی قسم کی پیچیدگی یا زبان و بیان کا اٹکاؤ نہیں ہے،آپ ایک رومیں پوری کتاب پڑھ سکتے ہیں، کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی ـ البتہ بعض مقامات قابلِ توجہ ہیں،مثلاً صفحہ نمبر 110پرایک جملہ ہے”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ دیکھ سکتی ہوں“۔یہاں باہر کا ”منظر“ ہونا چاہیے تھایاجملے کی ساخت یوں ہونی چاہیے تھی”میں کھلی کھڑکیوں سے باہرکانظارہ کرسکتی ہوں“۔صفحہ نمبر126پرایک جملہ ہے”میں ڈائری کھولوں یاپہلے ڈائری کھولنے سے قبل اپنی زندگی کے ان صفحوں میں جھانک آؤں…“اس میں ”پہلے“لفظ زائدہے۔اسی طرح ایک لفظ جو بار بار استعمال ہواہے اورہرجگہ غلط کمپوژ ہوگیاہے،اس کی نشان دہی بھی ضروری ہے،ناول میں ”سارہ“ جہاگیر مرزاکی بیوی ہے، اس کایہی املا ہے اورکتاب میں یہی لکھابھی گیا ہے، مگرکُل اور سب کے معنی میں ”سارا“ کوبھی تقریباً پوری کتاب میں ”سارہ“ ہی لکھاگیاہے،اس سے سخت الجھن ہوتی ہے اور پڑھنے والا پہلی نظر میں اسے”سارہ“جہاں گیرمرزاکی بیوی سمجھ لیتا ہے، پھرپوراجملہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ یہ تو ”سارا“ ہے۔ بہرکیف ایسی دوچارفروگذاشتوں سے قطع نظریہ تازہ ناول ہراعتبارسے شاندارہے،کتاب و ادب دوست طبقے کے علاوہ ہراس باشعور ہندوستانی کویہ ناول پڑھنا چاہیے، جوبرق جیسی تیزی سے بدلتے قومی منظرنامے کوسمجھنا چاہتاہے،اس کی تہوں میں اترناچاہتاہے ـ تقریباساڑھے چارسوصفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت پانچ سوروپے نہایت مناسب ہے ـ کتاب کا ٹائٹل عنوان سے ہم آہنگ اورطباعت خوب صورت ہےـ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہےـ