نئی دہلی:جمعرات کے روز ٹویٹر نے کہاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی ویب سائٹ سے منسلک ایک اکاؤنٹ ہیک ہوگیاتھاجسے بعد میں صحیح کروایا گیا۔ٹویٹر کے ترجمان نے ایک ای میل بیان میں کہاہے کہ ہم اس سرگرمی سے واقف ہیں اور ہم نے ہیک کیے گئے اکاؤنٹ کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ہم اس صورتحال کی سرگرمی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس وقت ، ہم کسی دوسرے اکاؤنٹ کے متاثر ہونے کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ آپ اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری معلومات دیکھ سکتے ہیں۔ہیک کیے گئے اکاؤنٹ کے تقریباََپانچ لاکھ فالورز ہیں۔خبر کے مطابق وزیر اعظم کی ذاتی ویب سائٹ کاٹویٹراکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد سائبر مجرم نے وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں عطیہ کی درخواست کرنے والے کرپٹو کرنسی کااستعمال کرتے ہوئے اس پر ایک پوسٹ لگادی۔نئی دہلی:جمعرات کے روز ٹویٹر نے کہاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ذاتی ویب سائٹ سے منسلک ایک اکاؤنٹ ہیک ہوگیاتھاجسے بعد میں صحیح کروایا گیا۔ٹویٹر کے ترجمان نے ایک ای میل بیان میں کہاہے کہ ہم اس سرگرمی سے واقف ہیں اور ہم نے ہیک کیے گئے اکاؤنٹ کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ہم اس صورتحال کی سرگرمی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس وقت ، ہم کسی دوسرے اکاؤنٹ کے متاثر ہونے کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ آپ اپنے اکاؤنٹ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری معلومات دیکھ سکتے ہیں۔ہیک کیے گئے اکاؤنٹ کے تقریباََپانچ لاکھ فالورز ہیں۔خبر کے مطابق وزیر اعظم کی ذاتی ویب سائٹ کاٹویٹراکاؤنٹ ہیک ہونے کے بعد سائبر مجرم نے وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں عطیہ کی درخواست کرنے والے کرپٹو کرنسی کااستعمال کرتے ہوئے اس پر ایک پوسٹ لگادی۔
Modi
دوکروڑروزگارکاوعدہ کرنے والے مودی نے چودہ کروڑکوبے روزگارکردیا:راہل گاندھی
نئی دہلی:مرکزمیں مودی حکومت سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈرراہل گاندھی نے کہاہے کہ ملک کے نوجوانوں کے من کی بات،مودی سرکارروزگاردو۔یوتھ کانگریس کی جانب سے بے روزگاری کے معاملے پرشروع کی گئی ’’روزگاردومہم ‘‘ کی حمایت میں ایک ویڈیوپیغام میں راہل گاندھی نے مودی حکومت پرحملہ کرتے ہوئے کہاہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں نے 14 کروڑ نوجوانوں کو بے روزگار کردیاہے۔ویڈیو پیغام میں کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی نے کہاہے کہ جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ہر سال ملک کے نوجوانوں کو دو کروڑ نوکریوں کاوعدہ کیا۔ انہوں نے ایک بہت بڑاخواب دیا۔ لیکن سچ سامنے آیاہے کہ نریندر مودی جی کی پالیسیوں نے 14 کروڑلوگوں کوبے روزگارکردیا۔ راہل گاندھی نے کہاہے کہ ایساکیوں ہوا؟ نوٹ بندی ، غلط جی ایس ٹی اور پھر لاک ڈاؤن نے ان تین اقدامات نے ہندوستان کے معاشی ڈھانچے کو تباہ کردیا ہے اوراب سچائی یہ ہے کہ ہندوستان اپنے نوجوانوں کو روزگارمہیانہیں کراسکتا۔ویڈیوشیئر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے لکھاہے کہ ملک کے نوجوانوں کی پکار، روزگاردے مودی سرکار۔آپ بھی یوتھ کانگریس کے ہیش ٹیگ روزگاردو سے اپنی آواز جوڑ کر حکومت کو بیدار کرسکتے ہیں۔ یہ ملک کے مستقبل کاسوال ہے۔ راہل گاندھی نے کہاہے کہ یوتھ کانگریس بیروزگاری کے معاملے پر اتر رہی ہے اور یوتھ کانگریس اس مسئلے کوہرشہرمیں سڑکوں پراٹھائے گی۔
نئی دہلی:لداخ میں چینی دراندازی پر مرکزمیں مودی حکومت پرمسلسل حملہ کرنے والی کانگریس ویب سائٹ سے دستاویزہٹانے کے بعد ایک بار پھر جارح ہوگئی ہے۔ کانگریس نے کہاہے کہ جب ہم سوالات کرتے ہیں تو وہ ہمیں لال آنکھیں دکھاتے ہیں۔ساری دنیا نے کل دیکھا کہ کس طرح چینی تجاوزات پرمشتمل دستاویزات کوحذف کردیاگیا۔کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے جمعہ کے روزوزیراعظم پرحملہ کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیر اعظم (نریندر مودی) نے پہلے چینی دراندازیوں کے بارے میں کلین چٹ دی اور پھر پوری دنیانے دیکھاہے کہ جمعرات کے روز چینی تجاوزات سے متعلق دستاویزات ہٹا دی گئیں۔انہوں نے کہاہے کہ وزیر اعظم یاتواس معاملے پر خاموش رہتے ہیں یا ملک کو گمراہ کرتے ہیں، چین کویہ کہتے ہوئے کلین چٹ دیتے ہیں کہ ہمارے خطے میں کسی نے دراندازی نہیں کی ہے ۔نہ صرف یہ ، چینی دستاویزات کے بارے میں بات کرنے والی ایک دستاویز کو وزارت دفاع کی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیاگیاہے۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی ،جوبینکاری نظام اور جان بوجھ کر قرض ادانہ کرنے کے معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی پرحملہ آوررہے ہیں اور بھارت چین تنازعہ اور کورونا وائرس بحران پربھی مرکزی حکومت کوگھیرتے رہے ہیں۔انھوں نے الزام لگایاہے کہ بینکاری نظام کو صاف کرنے کی کوشش کی توآر بی آئی کے سابق گورنر ارجت پٹیل کوہٹادیاگیا۔ منگل کوآربی آئی کے سابق گورنر سے متعلق ایک خبر کوشیئر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ بینکنگ سسٹم کوصاف کرنے کی کوشش کی گئی ، لہٰذاانہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھوناپڑا۔وزیراعظم کیوں نہیں چاہتے تھے؟جان بوجھ کرنادہندگان کے بارے میں کوئی اقدام اٹھایاگیاہے۔
نئی دہلی:ہندوچین فوجی تصادم کے بعدکانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مرکزمیں بی جے پی حکومت کونشانہ بناتے ہوئے حکومت پرحملہ کیا۔ انہوں نے کہاہے کہ مجھے اس بات کی فکرنہیں ہے کہ میرا سیاسی مستقبل تباہ ہوجائے گا لیکن میں ہندوستانی سرزمین میں چینی دراندازی کے بارے میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔راہل گاندھی نے ایک ویڈیو بھی شیئر کی ہے۔ بتادیں کہ 15 جون کو بھارت اور چین کے مابین فوجی تصادم میں 20 ہندوستانی فوجیوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا۔پیرکوویڈیوپیغام شیئرکرتے ہوئے راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھاتھاکہ چین کی فوج نے بھارتی سرزمین پرقبضہ کر لیاہے۔ حقیقت کو چھپانا اور انہیں ایسا کرنے دینا’’دیش ورودھی ‘‘عمل ہے۔ لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کراناحب الوطنی ہے۔کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ویڈیوپیغام میں کہاہے کہ بطور ہندوستانی میری پہلی ترجیح ملک اور اس کے عوام ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چینی ہمارے علاقے میں داخل ہوئے۔ یہ چیز مجھے پریشان کرتی ہے۔میراخون ابلنے لگتا ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک اورملک کیسے داخل ہواہے۔
نئی دہلی:وزیراعظم نریندر مودی نے اتوارکے روزکہاہے کہ کورونا وائرس کا خطرہ ٹل نہیں پایا ہے اور اب بھی اتنا جان لیواہے جتناابتدائی دورمیں تھا۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ پوری طرح سے احتیاط برتیں۔آل انڈیاریڈیوپراپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘کے67 ویں سیشن میں لوگوں کے ساتھ اپنے خیالات شیئرکرتے ہوئے وزیراعظم نے کوروناوائرس کی وباکے دوران اہل وطن کی کوششوں کی تعریف کی ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔یہ بہت ساری جگہوں پرتیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمیں بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ کورونا وائرس اب بھی اتنا مہلک ہے جتنا ابتدامیں تھا۔ لہٰذا ہمیں پوری نگہداشت کرنی ہوگی۔مودی نے کہاہے کہ پچھلے چند مہینوں میں جس طرح سے پورے ملک نے متحداورکورونا وائرس کا مقابلہ کیا ہے اس نے بہت سے خدشات کو غلط ثابت کیاہے۔انہوں نے کہاہے کہ ملک میں اس وباسے شفاکی شرح دوسرے ممالک سے بہترہے۔نیزکوروناوائرس کے انفیکشن سے اموات کی شرح دنیاکے بیشتر ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یقینی طور پر ایک بھی فرد کو کھونا افسوسناک ہے ، لیکن ہندوستان اپنے لاکھوں شہریوں کی جان بچانے میں بھی کامیاب ہوگیاہے۔کورونا وائرس کے انفیکشن سے بچنے کے لیے وزیر اعظم نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ چہرے کے ماسک کا استعمال کریں ،دو گز پر عمل کریں ، بار بار ہاتھ دھوئیں ، کہیں بھی تھوکنے سے بچیں۔ساتھ ہی مکمل صفائی کا خیال رکھنے کی اپیل کی۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہمارے ہتھیار ہیں جوہمیں کوروناسے بچاسکتے ہیں۔ایک شہری کی حیثیت سے ، ہمیں اس سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے اورکسی کو بھی اسے لینے نہیں دیناچاہیے۔مودی نے یہ بھی کہایہ کہ پریشانی کی وجہ سے ، کچھ لوگ اس وقت ماسک کو ہٹاتے ہیں جب اس کی ضرورت ہو۔ انہوں نے کہاہے کہ ایسے لوگوں کو کوروناجنگجوؤں سے سیکھنا چاہیے جوگھنٹوں ماسک پہن کر لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ جہاں ایک طرف وطن عزیز کو پوری چوکسی کے ساتھ کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنا ہے ،دوسری طرف سخت محنت سے اپنے کام کو تیز کرنا ہوگا اور اسے ایک نئی بلندی پر بھی لے جانا ہے۔وزیر اعظم نے کورونا دور کے دوران لوگوں کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے زیتونا بیگم اور اننت ناگ کے بلدیہ صدر محمد اقبال کے ذریعہ کئے گئے کام کی تعریف کی۔مودی نے اس عرصے کے دوران ایک ’’مثبت‘‘ نقطہ نظر اپناتے ہوئے ، بہار ، جھارکھنڈ اور شمال مشرقی ریاستوں کے مختلف گروہوں کی صلاحیتوں اور ہنر کی بنیاد پر نئے تجربات کرنے پر بھی ان کی تعریف کی۔مودی نے بہارکے کچھ نوجوانوں کو اپنے دیہات میں کی کاشت کرنے کی تعریف کی اور کہاہے کہ لوگوں کی ایسی ہی کوششوں نے خود کفالت کی راہیں کھول دی ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ خودکفالت کی بات ہے۔وزیر اعظم نے کہاہے کہ اس بار بھی 15 اگست کو وبائی امراض کی اس تباہی کے درمیان کورونا وائرس مختلف حالات میں ہوگا۔انہوں نے وطن عزیز سے اپیل کی کہ وہ یوم آزادی کے موقع پر اس وبا سے آزادی کا عہد کریں ، خودکفیل ہندوستان کا عہد کریں، کچھ نیا سیکھنے اور سکھانے کا عزم کریں اور اپنے فرائض کی پاسداری کا عہد کریں۔وزیر اعظم نے دسویں اوربارہویں کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلباء کوبھی مبارک باددی ہے۔
(اسسٹنٹ ویب ایڈیٹر، دی کارواں میگزین، نئی دہلی)
ترجمہ: راشد خورشید
(چوتھی قسط)
فروری 2017 کو گوگوئی نے پردے کی آڑ لیکر ایک اور غیر معمولی فیصلہ سنایا. ہوا یہ کہ ہَجیلا نے بند کمرے میں پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعہ گوگوئی کو ایک نئے پراسیس ”شجرۂ نسب کی تحقیق“ (Family-tree Verification) سے متعارف کرایا. ”دی کارواں“ کی جولائی 2018 کی رپورٹ کے مطابق صرف چار لوگوں کو یہ پریزینٹیشن دیکھنے کی اجازت دی گئی، دیکھنے کے بعد گوگوئی نے بنا کسی عدالتی کارروائی کے اس پراسیس کو منظوری دیدی. ترمیم شدہ پراسیس میں عرضی گزاروں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کا نسب نامہ مع دستاویزات کی توثیق پیش کریں تاکہ اُنہیں کمپیوٹرائزڈ پلیٹ فارم پر اپلوڈ کرکے ایک ڈیجیٹل شجرۂ نسب تیار کیا جسکے، تاکہ جب خاندان کے دیگر افراد اپنی معلومات پیش کریں تو تحقیق کرنے میں آسانی ہو. سماجی کارکن عبد الباطن خاندیکر نے بتایا کہ اس پراسیس کا مقصد صرف جلاوطنی کو مزید تقویت فراہم کرنا تھا نہ کہ آباء و اجداد سے نسب نامہ ثابت کرنا.
گوگوئی اور ہَجیلا کے مابین ہونے والی گفتگو سے متعدد عدالتی خامیوں اور غیر معقولیت کا پتہ چلتا ہے. آرڈرز سے اتنا تو واضح ہوگیا تھا کہ ہَجیلا متعینہ مدت میں ہی پراجیکٹ مکمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے. عدالت نے دسمبر 2014 میں ہَجیلا کو حکم دیا کہ یکم اکتوبر 2015 تک اپڈیٹیڈ این آر سی کا ایک ڈرافٹ اور یکم جنوری 2016 تک اس کا فائنل ورژن شائع ہوجانا چاہئے. جولائی 2017 کو عدالت نے اپڈیٹیڈ این آر سی کا ڈرافٹ پیش کرنے کی متعینہ مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسی سال دسمبر کے اخیر تک پیش کرنے کو کہا. مگر 30 نومبر کو ہَجیلا نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ سال کے اخیر تک صرف دو کروڑ درخواستوں کے پراسیس کئے جانے کی امید ہے، اس لئے ڈرافٹ کی اشاعت کیلئے مزید مہلت دی جائے، مگر عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسی نامکمل ڈرافٹ کو 31 دسمبر تک پیش کرنے کا حکم دیا.
بعد ازاں 20 فروری 2018 کو عدالت کی طرف سے حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے، ”موجودہ تفصیلات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک ایڈیشنل اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی تقرری عمل میں لائی جائے. چنانچہ عدالت رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہیں. نیز یہ بھی واضح رہے کہ این آر سی کا ڈرافٹ تیار کرنے میں مصروف موجودہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہَجیلا اپنی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتے“. گوگوئی نے ایڈیشنل اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی تقرری کی درخواست کو رد کردینے کی کوئی وضاحت نہیں کی.
آخر کار 30 جولائی کو ہَجیلا نے این آر سی کا ڈرافٹ پیش کیا، جس میں سے آسام میں رہائش پذیر چالیس لاکھ لوگوں کے نام خارج کردیئے گئے. چند دنوں بعد اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اور رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے این آر سی پراسیس کے متعلق پریس کو بیان جاری کیے، نیز بقیہ دعوؤں اور اعتراضات پر شنوائی کیسے ممکن ہوسکتی ہے، اس کی بھی وضاحت کی. مگر یہ بات عدالت کو کچھ جچی نہیں. چنانچہ 7 اگست کو گوگوئی اور نَریمن نے کیس کو سماعت کیلئے درج کیا اور بر سرِ عدالت دونوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا، ”تم دونوں کو تو توہین عدالت کے جرم میں گرفتار کرا دینا چاہئے…تمہیں یہ سب بکواس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“ اس کے بعد بینچ نے دونوں کو سب کے سامنے معافی مانگنے کو کہا. نیز این آر سی کے متعلق کوئی بھی بیان دینے سے قبل عدالت سے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا.
بیشتر وکلاء اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ہَجیلا ایک راست باز اور ایماندار بیوروکریٹ کی حیثیت سے معروف تھے. گوتم بھاٹیا نے تو یہاں تک کہہ دیا، ”عدالتی ہدایات پر ان کی عملداری کو دیکھ کر بسا اوقات ایسا لگتا تھا کہ ہَجیلا عدالت کے ایجنٹ ہو کر ہی رہ گئے ہیں…مگر…فی الحال ان کے رویے میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے وہ بہت عجیب و غریب ہے…اب تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہوں، اپنے دماغ سے تو کچھ کر ہی نہیں رہے“.
خاندیکر کے مطابق پراجیکٹ کے ابتدائی چند ایام میں تو ہَجیلا مسلسل ان سے ملاقات کرنے آتے اور یہ یقین دلاتے تھے کہ این آر سی اتنے عمدہ طریقے سے انجام دی جائے گی کہ کوئی بھی شہری خارج نہیں ہونے پائے گا. مگر اگست کی شنوائی میں تو اس کے بالکل برعکس ہوا…اور اس کے بعد سے ہَجیلا نے لوگوں سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا“.
گوگوئی کے سر پر این آر سی کا بھوت اس قدر سوار ہوچکا تھا کہ انہوں نے اسٹیٹ مشینری کو ہی اپنے قبضے میں کر لیا، جس سے آسام کے تقریباً سبھی علاقے بری طرح متاثر ہوئے.
یکم دسمبر کو گوگوئی نے حکم جاری کیا کہ این آر سی اپڈیٹ کرنے میں مشغول ریاست کا تمام عملہ اس وقت تک کسی اور پراجیکٹ کو ہاتھ نہیں لگا سکتا جب تک یہ کام پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا. مگر اگلے ہی مہینے سابقہ حکم نامے میں رد و بدل کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر کام کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس پراجیکٹ کی ”اولیت و ارجحیت“ میں کوئی فرق نہ آنے پائے. جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک بیان جاری کیا کہ آنے والے عام انتخابات اور این آر سی دونوں کو یکساں اہمیت دی جانی چاہیے. چنانچہ ریاستی حکومت نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور اگلے ہی مہینے گوگوئی نے 3457 افراد کو این آر سی کیلئے مخصوص کرکے بقیہ کو انتخابات کی تیاری کیلئے فارغ کردیا. نیز الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی کہ الیکشن کی خاطر کسی بھی ڈی ایم یا اڈیشنل ڈی ایم کا تبادلہ نہ کیا جائے.
بیوروکریسی پر گوگوئی کا کنٹرول ہوجانے سے حکومت کی ان تمام اسکیموں پر سیدھا منفی اثر پڑا جنہیں این آر سی کے اپڈیٹ تک معلق رکھا گیا تھا. وزیر اعلی کے میڈیا ایڈوائزر ہِرشی کیش گوسوامی نے مجھ سے کہا، ”گزشتہ ساڑھے تین برس سے 55 ہزار افراد این آر سی کو اپڈیٹ کرنے میں مسلسل مصروف ہیں…لہذا ظاہر سی بات ہے کہ ترقی پر اس کا اثر تو پڑے گا ہی“. آسام سیکریٹریٹ کے بیشتر افراد نے اپنی شناخت مجہول رکھنے کی شرط پر بتایا کہ این آر سی کے باعث کس طرح ترقیاتی پروگرام اور دیگر حکومتی منصوبے بری طرح متاثر ہوۓ ہیں.
آسام حکومت کے ایک سیکریٹری کا بیان ہے کہ ریاست میں تقریباً چار لاکھ حکومتی اہلکار ہیں. اس نے اندازہ کرکے بتایا کہ ہفت جہت افسران والے شعبوں میں سے چار افسران کو این آر سی پراجیکٹ پر مامور کردیا گیا ہے. بقول اس کے، ”افسران کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے – کم و بیش 70 فیصد زمینی سطح کے افسران اس پراجیکٹ میں مشغول ہیں…آپ اگر گاؤں اور دیہاتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں کئی اسکول ایسے بھی ہیں جن میں گذشتہ تین برس سے ریاضی اور سائنس کیلئے صرف ایک ایک ٹیچر ہیں، کیونکہ سبھی کو تو اس کام میں مشغول کردیا گیا ہے “.
ایک اور سیکریٹری کا بیان ہے کہ این آر سی کے باعث ”انتظامی امور میں کافی سستی واقع ہوئی ہے“. مثلاً آسام کے بے گھر افراد کو زمین فراہم کرنے کیلئے ایک سروے کیا جاتا ہے، اس کیلئے ”گاؤں در گاؤں جاکر سرکاری اراضی کا پتہ کرکے بے گھروں کی ایک فہرست تیار کرنی ہوتی ہے، پھر انہیں زمین فراہم کی جاتی ہے“. مگر، اس کے مطابق، اب تک جس قدر یہ سروے ہوجانا چاہیے تھا اس کا صرف آٹھواں حصہ ہی ہوپایا ہے. کیونکہ”یہ ایک لمبا پراسیس ہے جس کے لئے پانچ سے چھ مہینے کا وقت درکار ہوتا ہے. مگر لوگوں کے این آر سی میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے…امسال ہمارا منصوبہ ایک لاکھ بے گھروں کو زمین فراہم کرنے کا تھا. لیکن اکتوبر تک صرف 35 ہزار افراد کو ہی دے سکے. جبکہ چھ مہینوں میں کم از کم پچاس ہزار لوگوں کو زمینیں فراہم کردی جانی چاہیے تھیں“.
داخلی و سیاسی شعبے کے ڈپٹی سیکرٹری سی پی فوکن (CP Phookan) این آر سی سے متاثر زدہ دیگر کاموں کے بارے میں کہتے ہیں، ”شمالی آسام میں نیشنل ہائی وے کیلئے زمینداروں کی زمینیں تو لی جا رہی ہیں مگر معاوضہ دینے میں قدرے تاخیر سے کام لیا جارہا ہے…وزیر اعلی مداخلت کرسکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کیا“. ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں. ”گذشتہ تین برسوں تک تو ترقیاتی مشینری کو مکمل ہائی جیک کرلیا گیا تھا. اگر کبھی ہم پوچھتے بھی کہ ‘آفیسر کہاں ہیں؟’ تو جواب ملتا کہ ‘این آر سی میں مشغول ہیں“.
گوگوئی نے ہرش مندر کی عرضی کے ساتھ جیسا برتاؤ کیا اس سے واضح ہوگیا تھا کہ این آر سی کا معاملہ ان کیلئے کس حد تک ذاتی اہمیت کا حامل ہے. جنوری 2018 میں، جب ہرش مندر ”نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن“ میں اقلیتوں کیلئے بطور اسپیشل مانیٹر خدمات انجام دے رہے تھے، تو انہیں ان چھ ڈٹینشن سینٹرز کا معائنہ کرنے کیلئے روانہ کیا گیا جنہیں آسام میں جیلوں کا ایک حصہ خاص کرکے غیر ملکی قرار شدہ لوگوں کو نظر بند کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا. مندر نے گوالپارا اور کوکراجھر میں واقع صرف دو ڈٹینشن سینٹرز کا جائزہ لیا. وہاں انہوں نے دیکھا کہ غیر متعینہ مدت تک کیلئے نظر بند ان قیدیوں کو بہت بری حالت میں رکھا گیا تھا، تمام اہل خانہ کو، حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ایک دوسرے سے علیحدہ ٹھہرایا گیا تھا، سینٹر میں کسی قسم کا کوئی قانون قاعدہ نہیں تھا. اس کے بعد انہیں دیگر سینٹرز میں جانے سے منع کردیا گیا، نیز این ایچ آر سی نے بھی مزید اس کام کو جاری رکھنے یا ان کی رپورٹ کو آگے بھیجنے سے انکار کردیا. بالآخر ماہ جون میں مندر نے اسپیشل مانیٹر عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور جو کچھ وہاں انہوں نے دیکھا تھا وہ سب مفصل طور پر بلا کم و کاست لکھ کر ذاتی طور پر شائع کیا. اس کے چند دنوں بعد اگست میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی برائے مفاد عامہ (public-interest litigation) بھی دائر کرکے مطالبہ کیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے، انہیں مفت قانونی امداد فراہم کی جائیں نیز انہیں اسی صورت میں ڈٹینشن سینٹرز میں ڈالا جائے جب اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو.
مارچ 2019 کو مندر نے اپنی عرضی کے ضمن میں ایک حلف نامہ بھی دائر کیا جس میں نشاندہی کی کہ کس طرح ڈی-ووٹرز اور غیر قانونی شہریوں کی شناخت میں بے ضابطگی اور بے ڈھنگے پن کا اظیار کیا گیا، اور ناقص فیصلے کئے گئے. انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اور آسام پولیس بارڈر آرگنائزیشن نے بارہا ”بغیر کسی تحقیق“ کے حقیقی اور قانونی شہریوں کے معاملات کو بھی فارینر ٹریبونلز کے سپرد کیا ہے. مندر کے مطابق، ان ٹریبونلز کو چند کیسز تو ایسے تصدیق ناموں (Verification Forms) کے ساتھ بھی بھیجے گئے جنہیں پُر ہی نہیں کیا گیا تھا. حلف نامے میں ٹریبونلز کی عملی کوتاہیوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی. مثلاً وہ نیم عدالتی ادارے جو قانونی شہریوں کو محض کاغذات میں اسپیلنگ مسٹیک، عمر اور پتے جیسے معمولی فرق پاۓ جانے کی بنا پر بھی غیر ملکی قرار دے رہے ہیں.
13 مارچ کو سپریم کورٹ نے حکومت آسام کے چیف سیکریٹری آلوک کمار کو حکم جاری کیا کہ وہ ایک حلف نامہ دائر کرکے بتائیں کہ اب تک کتنے افراد غیر ملکی قرار دئے جا چکے ہیں، کتنے ڈٹینشن سینٹرز میں قید ہیں اور کتنوں کو ان کے اصلی وطن روانہ کیا جاچکا ہے؟ چنانچہ مارچ کی اگلی 25 تاریخ کو حکومت آسام کی جانب سے ان تمام تفصیلات پر مشتمل ایک حلف نامہ دائر کردیا گیا. حلف نامے میں مذکور تعداد کو دیکھ کر میں تو حواس باختہ ہوگیا تھا. حلف نامے کے مطابق 1985 سے 2018 تک غیر ملکی قرار دیے گئے افراد کی مجموعی تعداد 112395 تھی. جنمیں 46899 افراد یعنی 41 فیصد تو وہ لوگ تھے جنہیں 2015 سے 2018 کے درمیان غیر ملکی قرار دیا گیا تھا. اس حلف نامے کا مصدر اور سورس آسام پولیس کے بارڈر ونگ (Border Wing) کو بتایا گیا تھا. اس میں لکھا تھا کہ 2015 میں 4072، 2016 می 5096، 2017 میں 15541 اور 2018 میں 22189 افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا. ریاست میں بی جے پی حکومت کے قیام سے پہلے اور بعد کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرنے پر صاف پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ مشینری اس معاملے میں کس جوش و جذبے کے تئیں کام سرانجام دے رہی تھی.
آلوک کمار کے حلف نامے میں یہ بھی ذکر تھا کہ غیرملکی قرار شدہ 2703 افراد کو ڈٹینشن سینٹرز کے قیام کے بعد سے مختلف مواقع پر قید کیا گیا. 17 مارچ 2019 تک آسام کے چھ ڈٹینشن سینٹرز میں ان قیدیوں کی مجموعی تعداد صرف 915 تھی. (لوک سبھا میں بذریعہ وزارت داخلہ پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 25 جون تک یہ تعداد بڑھ کر 1133 ہوگئی). ان 915 قیدیوں میں 799 تو وہ تھے جنہیں غیر ملکی قرار دے دیا گیا تھا، بقیہ 116 کی تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں ”فارینرز ایکٹ 1946“ اور ”پاسپورٹ ایکٹ 1920“ جیسے مختلف قوانین کے تحت نظر بند کیا گیا تھا.
حلف نامے کے مطابق آسام پولیس 1985 سے 2018 تک کل 467094 کیسز فارینر ٹریبونلز کے سپرد کرچکی تھی، 202024 ابھی پینڈنگ میں تھے، 262070 کو نبٹا دیا گیا تھا، جس میں سے 105102 کیسز کو 2015 کے بعد نبٹانے کا عمل انجام دیا گیا. اس حلف نامے میں یہ بھی مذکور تھا کہ مارچ 2013 سے کل 166 افراد کو ملک بدر کیا گیا، جنمیں سے چار توغیر ملکی تھے جبکہ بقیہ افراد کو غیر ملکی قرار دیا گیا تھا.
مابعد کی ایک شنوائی کے دوران، 9 اپریل کو گوگوئی نے چیف سیکریٹری کے مذکورہ بالا اعداد و شمار کو چیلنج کیا. انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ 2015 کے بعد سے غیرملکی قرار دیے جارہے لوگوں کے اضافے ٹریبونلز کی کس قسم کی کارکردگی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، بلکہ لائیو لا (Live Law) ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق گوگوئی نے چیف سیکریٹری آلوک کمار سے دریافت کیا :
”کیا آپ اس لمبی چھلانگ پر فخر محسوس کرتے ہیں؟ کیسز کو بحسن و خوبی نبٹا کر کیا آپ اپنے منہ میاں مٹھو بننا چاہتے ہیں؟… 2015 سے آپ نے کل چھیالیس ہزار غیر ملکیوں کی شناخت کی ہے مگر ڈٹینشن سینٹرز میں تو صرف دو ہزار ہی قیدی ہیں. بقیہ چوّالیس ہزار کہاں گئے؟“
رپورٹ کے مطابق گوگوئی نے جلاوطنی کے مسئلے میں بھی چیف سکریٹری پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا، ”حسب دستور یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کو جلاوطن کردیں جنہیں عدالت یا نیم عدالتی اداروں کی جانب سے غیرملکی قرار دیا جا چکا ہے…کیا آپ کی حکومت دستور ہند پر عمل کر بھی رہی ہے؟“
ان سارے سوالات کے بعد جب چیف سیکریٹری نے یہ تسلیم کیا کہ واقعی ان کی حکومت باقی ماندہ غیرملکیوں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوچکی ہے. تو گوگوئی نے کہا، ”ہم بوقت ضرورت جو کرنا ہوگا کریں گے، آپ بس یہ باتیں حلف نامے میں ذکر کردیں“.
ابھی چیف سیکریٹری جواب دینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ہرش مندر کیس کی پیروی کر رہے پرشانت بھوشن بول پڑے کہ غیرملکی قرار دیے جانے والوں میں سے بیشتر افراد نے خود کی شہریت ثابت کردی ہے، اور اسی وجہ سے جلاوطنی کے عمل میں دقت پیش آرہی ہے. فارینرز ایکٹ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ملک ہندوستان میں غیر ملکیوں کا داخلہ، ان کی موجودگی اور ان کو جلاوطن کرنے کی ساری ذمہ داری صرف مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے. کوئی بھی ملک غیر ملکی ثابت شدہ لوگوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے. بنگلہ دیش نے تو ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کے یہاں سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے ہندوستان گئے ہیں. نتیجتاً غیر ملکی قرار دیے گئے لوگ ایک طرح سے بنا وطن کے ہوکر رہ گئے ہیں.
گوگوئی نے سینیئر ایڈوکیٹ گورَب بنرجی کو اس معاملے میں Amicus Curiae بنا دیا تاکہ ”وہ غیرملکیوں کی شناخت کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے میں عدالت کی مدد کریں“.
گوگوئی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آلوک کمار نے ایک حلف نامہ دائر کردیا، جس میں گزارش کی کہ وہ قیدی جنہوں نے ڈٹینشن سینٹرز میں پانچ سال کی مدت پوری کرلی ہے انہیں چند شرائط کے ساتھ رہا کردیا جائے. جیسے:
● وہ ایک ایک لاکھ کی دو زر ضمانت کی ادائیگی کریں.
● رہائی کے بعد کسی ویری فائیڈ مقام پر ہی سکونت اختیار کریں.
● اپنی مکمل بائیو میٹرک انفارمیشن جمع کریں.
● ہر ہفتے لوکل پولیس اسٹیشن میں حاضری دیں.
● اگر کبھی جائے رہائش تبدیل کرنے کی نوبت آجائے تو اس سے بھی پولیس کو مطلع کریں.
یہ سب سن کر گوگوئی بھڑک اٹھے. اور 25 اپریل کو اگلی شنوائی میں جب آلوک کمار کی جگہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے حلف نامے کو پڑھ کر سنایا تو گوگوئی پلٹ کر بولے، ”اچھا!!! تو تم چاہتے ہو کہ کسی ایسے شخص کو جو غیر ملکی قرار دیا جاچکا ہے، اسے زر ضمانت کی ادائیگی کے بعد اس ملک میں رہنے دیا جائے؟ اور ایک غیر قانونی حکم کے ساتھ سپریم کورٹ بھی اٹھ کھڑا ہو؟“
عدالت میں گوگوئی کے بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے گَوتم بھاٹیا نے کہا کہ غیر متعینہ مدت تک کسی کو نظربند کرنا دستور ہند کی دفعہ 21 کی سراسر خلاف ورزی ہے. اس دفعہ میں کہا گیا ہے، ”کسی بھی شخص کی جان یا شخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کردہ ضابطے کے سوا کسی اور طریقے سے محروم نہ کیا جائے گا“. دیگر بنیادی حقوق کے برعکس دفعہ 21 فقط شہریوں کیلئے نہیں بلکہ ملک میں بسنے والے تمام افراد کیلئے یکساں ہے. گَوتم بھاٹیا نے کہا، ”قیدیوں کی رہائی سے انکار کرکے عدالت مسلسل دفعہ 21 کی سنگین خلاف ورزیوں کو منظوری دے رہی ہے… کوئی شخص بمشکل ہی اس کے پیچھے چھپی ستم ظریفی کو نظر انداز کرسکتا ہے: ایک طرف حکومت ہے جو ڈٹینشن سینٹرز کے قیدیوں کو رہا کرنا چاہتی ہے تو دوسری جانب عدالت، جو اس رہائی پر پابندی عائد کرنے میں کوشاں ہے. کون سیاسی کارگزار ہے اور کون چوکس محافظ؟ کسے حقوق کا پاسبان تسلیم کیا جائے اور کسے اس کی دھجیاں اڑانے والا؟…. یہ فرق کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے“.
گوگوئی نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق حکم جاری کرنے کو غیر قانونی قرار دینے کی وضاحت تو نہیں کہ، البتہ کمار کو ڈیپارٹمنٹ انکوائری کی دھمکی ضرور دے دی. گوگوئی نے کہا، ”تمہیں اس عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی حق نہیں. چیف سیکریٹری ! تم بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو. ہم تمہارے خلاف نوٹس جاری کر رہے ہیں کہ تم نے قانون کے حق میں ایک گستاخانہ بیان دیا ہے“. انہوں نے ریاستی حکومت کے رخ کو لیکر کمار کو سرزنش کرتے ہوئے کہا، ”غیرملکی قیدیوں کے متعلق مرکزی و آسام کی ریاستی حکومت کا یہ موقف ہونا چاہئے کہ انہیں جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے، مگر، چیف سیکریٹری! ہمیں ایسا کہیں نظر نہیں آتا“. حتی کہ بنرجی نے بینچ کو بارہا یہ بتایا کہ جس ملک کی طرف انہیں جلاوطن کیا جانا ہے پہلے اس ملک کا متفق ہونا ضروری ہے، اس کے باوجود گوگوئی اس بات پر مصر رہے کہ حکومت اپنے فرض میں ناکام ہوچکی ہے. انہوں نے تشار مہتا سے کہا، ”آپ تو آسام کے نمائندہ ہیں. کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ اس عہدے پر مزید برقرار رہنے کے اہل ہیں؟“
کمار نے بینچ سے معافی مانگی اور چند دیگر تجاویز کے ساتھ دوبارہ حاضر ہونے کی یقین دہانی کرائی، تب کہیں جاکر سماعت اختتام پذیر ہوئی. اس کے بعد ہی، آسام کے ڈٹینشن سینٹرز میں قیدیوں کی حالت سے متعلق ایک معاملے میں گوگوئی نے ریاست کے چیف سیکریٹری کو پھٹکار لگائی کہ انہوں نے ان قیدیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی. نیز حکومت کو بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قید کرنے اور انہیں ملک بدر نہ کرنے پر کافی برا بھلا کہا. تحریریں شکل میں صرف عدالت کے اس آبزرویشن کو درج کیا گیا کہ آسام کی طرف سے ”ایک حلف نامہ مزید دائر کرنے کی اجازت ہے“.
یکم مئی کو آلوک کمار نے ایک نیا حلف نامہ دائر کیا جس میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق ان کا نظریہ تو بالکل تبدیل ہوگیا تھا. رہائی والے سوال پر حلف نامے میں کہا گیا تھا، ”اس بارے میں ریاستی حکومت کا جو موقف پہلے تھا، اب بھی وہی ہے. یعنی اگر کسی قیدی کو رہا کیا جاتا ہے تو اس کے روپوش ہوجانے کا قوی امکان ہے، جس سے اس کو غیرملکی قرار دیے جانے کے پورے عمل پر پانی پھر جاۓ گا“. اس حلف نامے نے ملک بدر کرنے کی ذمہ داری سے ریاستی حکومت کو یہ کہہ کر نجات دلادی کہ اس نے تمام قسم کی ضروری معلومات مرکزی حکومت کو بہم پہنچا دی ہیں. آلوک نے بتایا کہ مرکزی حکومت کو سونپے گئے 253 مسودوں میں سے چار کو ملک بدر کئے جانے کا کام پورا ہوچکا ہے.
جب ہرش مندر کو احساس ہوا کہ ان کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، تو انہوں نے سپریم کورٹ رجسٹری سے درخواست کی کہ گوگوئی کو اس کیس کی شنوائی سے علیحدہ کردیا جائے. مگر رجسٹری نے ان کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ وہ بذات خود یہ درخواست چیف جسٹس کو پیش کریں. چنانچہ 2 مئی کو لنچ بعد ہرش مندر کی عرضی پر سماعت کیلئے ایک سہ رکنی بینچ گوگوئی کی عدالت میں لگائی گئی اور مندر نے بذات خود اس مقدمے کی پیروی کی.
گوگوئی نے اعلی ظرفی و بلند ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ”عموماً ہم عدالت میں کوئی درخواست قبول نہیں کرتے. مگر، چونکہ آپ ایک عام شخص ہیں اس لئے قبول کرلیتے ہیں…اب آپ کو جو بھی کہنا ہے بلا جھجھک بول سکتے ہیں“. چنانچہ ہرش نے ایک تحریری بیان پڑھنا شروع ہی کیا تھا، ”میں عدلیہ میں مکمل یقین رکھتا ہوں…“ کہ گوگوئی نے درمیان میں ہی ٹوک دیا اور بولے، ”ہرش مندر صاحب ! آپ یہ تحریری بیان نہ پڑھیں، آپ جیسی عظیم المرتبت شخصیت سے اس کی توقع نہیں کی جاتی. اپنے دل سے بولیں“.
ہرش نے دوبارہ بولنا شروع کیا، ”عالی جناب! میں بہت عزت کرتا ہوں…“ مگر گوگوئی پھر سے درمیان میں ٹپک پڑے اور بولے، ”عزت و احترام کا پتہ اعمال سے چلتا ہے نہ کہ آپ کے الفاظ سے “. اسی طرح جب تک ہرش مندر بولتے رہے، گوگوئی مسلسل ٹوکتے رہے.
جب مندر اپنی بات کہہ چکے تو گوگوئی اپنے دونوں بازوؤں کو عدالت میں پھیلا کر پرجوش لہجے میں گویا ہوئے، ”عدالت میں جب کوئی بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو ماحول کا جائزہ لینے کیلئے جج بہت کچھ بول جاتا ہے. کسی ہیلتھی ڈبیٹ (Healthy Debate) میں کہی گئی ساری باتوں کو آپ نے اظہارِ خیال سمجھ لیا، جبکہ اظہار خیال تو حکم کا درجہ رکھتا ہے“. اس کے بعد گوگوئی نے مندر سے 25 اپریل کی شنوائی کا وہ حکم پڑھنے کو کہا جس میں چیف سیکریٹری کو مزید ایک حلف نامہ دائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی. مندر نے کہا کہ ان کی تشویش کا باعث زبانی بیانات ہیں اور وہ اپنی زبانی بیانات کے ساتھ ہیں.
اس کے بعد گوگوئی نے یوں ظاہر کیا گویا انہیں بھی تشویش ہے. مگر ان کی اس تشویش میں ایک اعتبار سے مندر کے ارادوں پر الزام بھی تھا. آخر کار وہ پوچھ ہی بیٹھے، ”اگر ہم یہ کہیں کہ یہ سب کرنے کیلئے آسام حکومت نے آپ کو آمادہ کیا ہے، نیز باضابطہ کارروائی سے بچنے کی خاطر اس چیف سیکریٹری نے آپ کا استعمال کیا ہے، تو آپ کیا جواب دیں گے؟“ مندر نے جواب دیا، ”میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ سچ نہیں ہے“. تو گوگوئی بولے، ”دیکھئے آپ نے اس ادارے کو کتنا نقصان پہنچایا ہے“. مزید کہا، ”کسی معاملے کو ہاتھ میں لینے کی صلاحیت و عدم صلاحیت معلوم کرنے کی ذمہ داری جج کی ہوتی ہے نہ کہ فریق مقدمہ کی. اس لئے آپ حد سے تجاوز نہ کریں“. ایک موقع پر گوگوئی نے ہرش سے پوچھا، ”آپ یہ رائے کیسے قائم کرسکتے ہیں کہ چیف جسٹس نے قبل از سماعت ہی فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا آپ کی یہ بات ملک کے حق میں درست ہے؟“ گوگوئی نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ چیف جسٹس کے جانبدار اور متعصب ہونے کی تشویش ملک کے حق میں کیوں غیر درست ہے.
تھوڑی دیر گزری تھی کہ سولیسیٹر جنرل تشار مہتا بھی اس میں شامل ہوگئے. انہوں نے اس عرضی پر حیرانی ظاہر کی جس میں چیف جسٹس کو اس معاملے سے علیحدہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی. تشار نے کہا، ”یی بہت بیہودہ اور حقارت آمیز بات ہے“. اور درخواست کو تھوڑا پڑھنے کے بعد کہتے ہیں، ”یہ کون ہوتے ہیں بتانے والے کہ ایک جج کو کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ آپ عوام کے خیر خواہ بن کر کیا کسی کے بھی خلاف زہرافشانی کرنے لگیں گے؟“
تشار نے جیسے ہی یہ بکواس شروع کی. گوگوئی کرسی پر ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گئے. اور جب تشار نے کہا کہ وہ اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں تو گوگوئی بول پڑے، ”آپ کس بات کی مخالفت کر رہے ہیں؟ آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہم (عرضی پر شنوائی) سے برطرف ہوجائیں گے؟ غلطی سے بھی ایسا نہ سوچئے گا. اس سے علیحدہ ہونا ادارے کو تباہی کے دلدل میں ڈھکیلنے کے مترادف ہوگا“. تشار مہتا نے زور سے سر ہلا کر اس کی تائید کی، ”جی بالکل !“
گوگوئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”ہم صرف اس پر غور کر رہے ہیں کہ اس کے علاوہ ہم اور کیا کریں گے، ہم کسی کو بھی اس ادارے پر اپنی دھاک جمانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے“. تشار نے کہا، ”عالی جناب ! اس پر مزید کچھ کیا جانا چاہیے“.
دیگر ججوں کے ساتھ مختصر گفتگو کے بعد، گوگوئی نے یہ بات دہراتے ہوئے کہ کسی بھی معاملے کی شنوائی میں مشکل، عدم قابلیت، اور ناسمجھی کو معلوم کرنے کی ذمہ داری جج کی ہوتی ہے نہ کہ فریق مقدمہ کی، علیحدگی والی درخواست نامنظور کردی. اس کے بعد گوگوئی نے ہرش مندر کو برطرف کرکے ”سپریم کورٹ لیگل سروسز کمیٹی“ کو فریق مقدمہ کی حیثیت سے مقرر کردیا. نیز پرشانت بھوشن کو اس مقدمہ میں Amicus Curiae منتخب کرلیا. جب بھوشن نے بتایا کہ بنرجی پہلے سے ہی بحیثیت Amicus Curiae اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو گوگوئی نے جواب دیا، ”وہ ڈپورٹیشن یعنی جلاوطنی جیسے اہم کام پر مامور ہیں، اور آپ کو ڈٹینشن سینٹرز کے ایک محدود حصے پر مقرر کیا گیا ہے“.
شنوائی کے بعد میں نے ہرش مندر سے گوگوئی کورٹ روم کے باہر ملاقات کی. وہ بالکل مطمئن اور بے خوف نظر آرہے تھے. میں ان سے پوچھا کہ کیا انہیں اس قسم کے فیصلے کی پہلے سے توقع تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ”مجھے نہیں پتہ تھا کہ عدالت اس پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرے گی، یہ تو اور بھی منفی ہوسکتا تھا. میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ تو اس کا ایک جزو ہے جو ان لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے جن کی میں نمائندگی کر رہا ہوں“.
ہرش مندر کے بعد مقدمے کو ”سپریم کورٹ لیگل سروسز کمیٹی“ بنام”یونین آف انڈیا“ کردیا گیا. یہ بھی کیا طنز ہے کہ گوگوئی نے 10 مئی کو ایک حکم نامہ جاری کرکے قیدیوں کی رہائی سے متعلق چیف سیکریٹری کے ذریعہ پیش کردہ بیشتر تجاویز کو منظور کرلیا. اس وقت اس پر جس قسم کا بظاہر غیر مصالحانہ اور متشددانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ آلوک کمار سپریم کورٹ سے ایک ”غیر قانونی حکم نامہ“ جاری کرنے کی درخواست کر رہے ہیں، لگتا ہے اب باعث تشویش نہیں رہ گیا تھا. جب میں نے کمار سے این آر سی مسئلے پر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے صاف منع کردیا.
اس 10 مئی کے حکم نامے میں ریاستی حکومت کو گوہاٹی ہائی کورٹ سے مشورہ کرنے کو بھی کہا گیا تھا تاکہ ”اراکین و اسٹاف کی تقرری سمیت فارینر ٹریبونلز کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفصّل اسکیم تیار کی جا سکے“. لہذا گوگوئی نے ان قیدیوں کی رہائی کے متعلق سخت شرائط مقرر کرنے کے علاوہ اسی حکم نامے میں مستقل میں قیدیوں کیلئے ایک انسٹیٹیوشنل فریم ورک تیار کرنے کی بھی کوشش کی.
تشار مہتا نے مزید 200 فارینر ٹریبونلز کی خاطر ممبران منتخب کرنے کی تجویز سپریم کورٹ میں پیش کی. چنانچہ 30 مئی کو گوگوئی کی زیر صدارت وکیشن بینچ (Vacation Bench) نے یہ حکم جاری کیا کہ یکم ستمبر تک مزید 200 ٹریبونلز کی تشکیل عمل میں لاکر ان کے کام کو یقینی بنایا جائے.
اسی دن امت شاہ کی وزارت داخلہ نے فارینرز (ٹریبونلز) آرڈر 1964 میں ترمیم کرکے جو ابتک صرف آسام تک محدود تھا، اسے دیگر ریاستوں، یونین ٹریٹوریز اور ضلع مجسٹریٹ کو اپنے یہاں تشکیل دینے کی اجازت دیکر عام کردیا. اس سے ہرش مندر کو ایک اور موقعہ مل گیا اور ”انڈین ایکسپریس“ کے ایک اداریہ میں انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فارینر ٹریبونلز کے اختیارات میں توسیع سے ایسا ”انقلاب آئے گا جو تقسیم کی یاد تازہ کردے گا“.
این آر سی پر شنوائی سے گوگوئی کو آسام کے مختلف قبائل میں کافی شہرت حاصل ہوگئی، سواۓ ان متشدد آسامی وطن پرستوں (Chauvinists) کے جن کا ماننا تھا کہ شناختی عمل کے بعد بھی آسام میں لاکھوں غیر ملکی موجود ہیں، اور ہندو نیشنلسٹس کے، جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس سے مسلمان بڑی تعداد میں جلاوطنی کا شکار ہوں گے. آمسو تنظیم کے قانونی مشیر مصطفی خادم حسین کے مطابق گوگوئی نے کافی جوش و خروش کے ساتھ اس عمل کو انجام دیا، کیونکہ وہ آسام کی ترقی کے خواہاں تھے اور انہیں معلوم تھا کہ این آر سی کو صرف سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہی اپڈیٹ کیا جاسکتا ہے. حسین نے مزید کہا، ”لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، انہیں متعدد سماعتوں میں جانا پڑا. ہم یہ سب اس وجہ سے برداشت کر رہے تھے کیونکہ ہمیں انجام کار دیکھنا تھا“.
اکثر افراد نے اسی قسم کا اظہار خیال کیا. Infiltration نامی کتاب کے مصنف عبدالمنان صاحب نے مجھ سے کہا، ”میرے خیال میں این آر سی ایک بہت عمدہ عمل تھا. کیونکہ یہاں اقلیتی طبقہ کو امیگریشن کے نام پر جسمانی، ذہنی اور معاشی طور کافی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا. لیکن اب حکومت کے پاس کم از کم ایک دستاویز تو موجود ہے. چنانچہ اب اگر کوئی شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں اس کا نام غلط طریقے سے درج کیا گیا ہے تو اسے ثابت کرنا پڑے گا“. انہوں نے مزید کہا، ”گرچہ یہ ایک بہت بڑا عمل تھا اور اس میں کافی خامیاں بھی تھیں، مگر اسے بہت منصفانہ طریقے سے انجام دیا گیا، جوکہ صرف سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہوسکا“. عبد المنان کا ماننا تھا کہ گوگوئی نے اس پر جو دباؤ ڈالا وہ بالکل ضروری تھا. انہوں نے کہا، ”اگر سپریم کورٹ اس پر دباؤ نہیں ڈالتی تو یہ کبھی پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پاتا. اس پر اتنا زیادہ سیاسی دباؤ رہا ہوگا کہ بنا عدالت کے این آر سی کو آزادانہ طور پر انجام دینا ناممکن ہی ہوجاتا“. عبد المنان نے دلیل دی کہ گوگوئی کیلئے این آر سی کو اپڈیٹ کرنا بہت ضروری تھا، اور ”خوش قسمتی سے وہ عدالت میں موجود تھے، اور ان کا سوچنا بجا تھا کہ اگر ایک بار این آر سی کو تیار کرلیا گیا تو یہ سوال ہمیشہ کیلئے حل ہوجائے گا“.
عبد الباطن خاندیکر ان چند افراد میں سے ایک تھے جو اس پر تنقید کر رہے تھے. خاندیکر کا کہنا تھا کہ گوگوئی آسام کی متشدد وطن پرستی، جس کی جھلک اکثر آسامی ہندوؤں میں دکھتی ہے، سے متاثر تھے اور ان کے فیصلے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں. مثلاً، سپریم کورٹ نے دسمبر 2017 کو ایک قانون بنایا کہ گاؤں پنچایت سے شائع شدہ سرٹیفکیٹس کا استعمال کسی فرد کا اس کے آباء و اجداد جو 1971 کی مقررہ تاریخ سے قبل آسام میں موجود تھے، سے تعلق ثابت کرنے میں بطور معاون دستاویز شمار ہوگا. ان سرٹیفکیٹس کا مقصد ان شادی شدہ عورتوں کی رہائشی حیثیت کو قائم کرنے میں مدد کرنا بھی تھا جو عموماً شادی کے بعد دوسرے گھروں میں منتقل ہوجاتی ہیں. مگر ایک مختلف مطالبہ کرنے کے باعث گوگوئی کے حکم میں تھوڑی سی گڑبڑی یہ ہورہی ہے کہ سرٹیفکیٹس جاری کرنے والے افسران کو بھی حاضر ہوکر ان کی تصدیق کرنی ہوگی.
خاندیکر کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ سے زائد شادی شدہ عورتوں کو سرٹیفکیٹس جاری کرنے والوں کے ساتھ فارینر ٹریبونلز جانا پڑا تاکہ آباء و اجداد سے اپنا تعلق ثابت کرنے میں متبادل شواہد پیش کرسکیں. خاندیکر کا سوال تھا، ”اگر اس شخص کو گواہی دینے کیلئے بذات خود آنا پڑ رہا ہے تو پھر ان سرٹیفکیٹس کا مطلب کیا رہ گیا؟ اگر لوگوں کے پاس دیگر کاغذات ہیں تو وہ صرف پنچایت کے تصدیق ناموں پر کیوں تکیہ کر رہے ہیں؟“
2003 کے قوانین میں طے شدہ این آر سی ایپلیکیشن پراسیس کے مطابق، ”اصلاً آسامی باشندوں اور ان کے بیٹوں اور پوتوں“ کو اپنا نام شامل کرانے کیلئے اس پوری کارروائی سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں،”بشرطیکہ ان کی شہریت رجسٹری اتھارٹی کے یہاں شکوک و شبہات سے پاک اور اطمینان بخش ہو“. لہذا اصلی باشندوں کو 1971 سے قبل اپنے نسب نامے کا تعلق ثابت کرنے کیلئے کسی دستاویز کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے نام صرف علاقائی افسران کی صوابدید پر بھی شامل کئے جا سکتے ہیں. ان قوانین میں نہ ہی اصلی باشندوں کی کوئی تعریف کی گئی ہے، نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ ایک این آر سی آفیشیل کیسے ان کی شناخت کو ممکن بنا سکے گا.
اوریجنل شہریوں کی شناخت کے متعلق چند ہدایات کا مطالبہ کرتی متعدد عرضیوں پر گفتگو کرنے کے بعد گوگوئی نے جو فیصلہ صادر کیا وہ بھی پروویژن جتنا غیر واضح اور مبہم تھا. پروویژن نقل کرنے کے بعد سب سے پہلے تو انہوں نے کہا، ”جہاں تک اوریجنل آسامی باشندوں کو این آر سی میں شامل کرنے اور ان کے دعوؤں کو حل کرنے کی بات ہے، تو دستور کی شق 3 (3) اس مسئلے میں ذرا کم سخت اور قوی پراسیس میں یقین رکھتی ہے“. مزید کہا، ”جو اصلاً آسام کے باشندے نہیں ہیں ان کے برعکس اوریجنل آسامیوں کی شناخت کرکے انہیں این آر سی میں شامل کرنے کیلئے کسی انٹائٹلمنٹ (Entitlement) کا تعین نہیں کیا گیا ہے. انہیں فقط اپنی شہریت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا“. یہی بات مکمل این آر سی پراسیس کے بارے میں بھی کہی جا سکتی تھی کہ اس میں شمولیت کیلئے صرف شہریت کی ضرورت ہے، مگر گوگوئی نے بڑی آسانی سے اس پر گفتگو کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرلی کہ اوریجنل باشندوں کی شناخت کیلئے ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے جو ”کم سخت اور قوی پراسیس کا حامل ہو“۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
دنیا آج غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کررہی ہے، بدھ کی تعلیمات سے نمٹنے کا راستہ مل سکتا ہے:مودی
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کہاکہ دنیا آج غیر معمولی چیلنجوں سے دوچار ہے، بدھ کی تعلیمات سے نمٹنے کا کوئی راستہ مل سکتا ہے ۔ آج ہی کے دن مہاتما بدھ نے اپنے پہلے پانچ شاگردوں کو نصیحت دی تھی۔ انہوں نے کہاکہ میں آج پورنما کے موقع پر سب کو نیک خواہشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اسے گرو پورنیما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے گرو کو یاد رکھنے کا دن ہے جس نے ہمیں علم دیا۔ اسی جذبے سے ہم بھگوان بدھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بھگوان بدھ کا راستہ کئی سارے معاشروں اور دنیا کے ممالک کی فلاح و بہبود کی راہ دکھاتا ہے۔ اس سے شفقت اور احسان کی اہمیت کی وضاحت ہوتی ہے۔ بھگوان بدھ کی تعلیمات فکر اور عمل دونوں میں کام آتی ہے ۔ قبل ازیں صدر رام ناتھ کووند نے راشٹرپتی بھون سے دھم چکرا کے موقع پرپروگرام کا افتتاح کیا۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا غیر معمولی چیلنجوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ان چیلنجوں کا حل بھگوان بدھ کے نظریات سے مل سکتا ہے ۔
ایمرجنسی یعنی ہندوستانی جمہوریت کا ایک سیاہ اور شرمناک باب۔ 5؍سال قبل ایمرجنسی کی 4؍دہائیاں مکمل ہونے کے موقع پربی جے پی کے سینئر رہنما اور ملک کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی نے ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے ملک میں ایک بار پھر ہنگامی صورتحال کی پیش گوئی کی تھی۔ اگرچہ ایڈوانی جی اس سے پہلے بھی متعدد بار ایمرجنسی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تھے لیکن یہ پہلا موقع تھاجب ان کے خیالات سے ایمرجنسی کی مجرم کانگریس نہیں بلکہ خود ان کی اپنی پارٹی بی جے پی حیران و پریشان بغلیں جھانک رہی تھی۔ وہ بی جے پی جو ایمرجنسی کو یاد کرنے اوراس کی یاد دلانے میں ہمیشہ سب سے آگے رہتی ہے۔
ایڈوانی جی نے ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ملک کو متنبہ کیا کہ’’ جمہوریت کو کچلنے کی صلاحیت رکھنے والی طاقتیں آج پہلے سے زیادہ طاقت ور ہیں اور پورے اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ایمرجنسی جیسے واقعہ کو دوبارہ نہیں دہرایا جاسکتا‘‘۔ایڈوانی جی نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان کا سیاسی نظام ابھی بھی ہنگامی صورتحال (ایمرجنسی) کے حادثہ اور اس کے معنی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکا ہے اور میں اس امکان کو مسترد نہیں کرسکتا ہوں کہ مستقبل میں بھی ایسی ہی ہنگامی صورتحال پیدا کرکے شہری حقوق کی پامالی ہوسکتی ہے‘‘۔ایڈوانی جی کا یہ بیان اگرچہ پانچ سال پرانا ہے لیکن اس کی مطابقت پانچ سال پہلے سے زیادہ آج محسوس کی جارہی ہے۔ اگر ہم اپنے سیاسی اور آئینی اداروں کی موجودہ شکل اور عمل کو وسیع تناظر میں دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ آج ملک ایمرجنسی سے بھی کہیں زیادہ برے دور سے گزر رہا ہے۔
1975والے ہنگامی حالات تو ہم نے نہیں دیکھے البتہ اس وقت کی صورتحال کو کتابوں میں پڑھا ہے اور بہت سے واقعات اپنے بڑوں سے سنے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے آئینی شقوں کا سہارا لے کر ملک پر ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ لیکن آج ایمرجنسی کے باضابطہ نفاذ کے بغیر ، وہ سب کچھ ترقی اور شدید قوم پرستی کے نام پر ہورہا ہے جو ایمرجنسی کے دوران نظم و ضبط کے نام پر ہوا تھا۔
ایمرجنسی کے دور میں اس وقت کے کانگریس صدر دیوکانت برُوا نے چاپلوسی اور سیاسی بے حیائی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے ‘Indira is Hindustan & Hindustan is Indira’ کے نعرے لگائے تھے۔آج بی جے پی میں امیت شاہ ، روی شنکر پرساد, شیوراج سنگھ چوہان، دیوندر فڑنویس سے لے کر نچلی سطح تک کے بیشتر لیڈر موجود ہیں جو نریندر مودی کو ہر وقت آسمانی طاقت کا اوتار کہنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ ویسے اس کی شروعات مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کی تھی جنھیں نائب صدر بنادیا گیا ۔ موجودہ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے توحال ہی میں ان سب سے کئی قدم آگے بڑھ کر مودی جی کو دیوتائوں کا بھی رہنما قرار دے دیا ہے۔یہ مسئلہ صرف نریندر مودی یا ان کی حکومت کا ہی نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد ہندوستانی سیاست کا بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ Person Centeredرہی ہے۔ہمارے یہاں اداروں، اداروں کی وفاداری اور خود مختاری کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے جتنی اہمیت کسی کرشمائی لیڈر کو۔ نہرو سے لے کر مودی تک یہی کہانی ہے۔اس سے نہ صرف مختلف ریاستی آلات ، پارٹی سسٹم، پارلیمنٹ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالتی اداروں کی Effectivnessمیں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے بلکہ سیاسی من مانی اور غیر ضروری مداخلت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یہ صورتحال صرف سیاسی جماعتوں کی ہی نہیں ہے ۔آج ملک میں جمہوریت کے محافظ کہے جانے والے وہ ادارے بھی نظر نہیں آتے جن کی جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ایمرجنسی کے دوران جس طرح سے پُرعزم عدلیہ کی وکالت کی جارہی تھی ، آج بھی تقریباً ویسی ہی آوازیںسنائی دے رہی ہیں۔یہی نہیں ، بہت سے اہم معاملات میں عدالتوں کے فیصلے بھی حکومت کی منشا کے مطابق ہی ہورہے ہیں۔
جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر پہچانے جانے والے میڈیا کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ آج کی صحافت ایمرجنسی کے بعد جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے کارپوریٹ گھرانے میڈیا کے شعبہ میں داخل ہوگئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوڑ شروع ہوگئی ہے۔اس منافع بخش رجحان نے میڈیا اداروں کو تقریباً عوام دشمن اور حکومت کا چاپلوس بنا دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے میڈیا کو دو طرح سے اپنے قبضے میں کیا جارہا ہے۔ ایک اس کے منھ میں اشتہارات ٹھوس کر اوردوسرا سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ اس کی گردن مروڑنے کا ڈر دکھا کر۔ اس سب کے چلتے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کا فرق تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
تجارتی وجوہات کی بنا پر میڈیا کی جارحیت اور غیرجانبداری تو تقریباً ختم ہوہی چکی ہے ، اخلاقی اور جمہوری اقدار اور شہری حقوق سے وابستگی کا بھی کم و بیش اخراج ہوچکا ہے۔مین اسٹریم میڈیا یا یوں سمجھ لیں کہ گودی میڈیا کے علاوہ جو صحافی حکومت اور اس کے کاموں پر تنقید کرنے کی ہمت دکھا رہے ہیں انھیں بغیر کسی بنیاد کے ملک سے غداری کا مقدمہ کرکے ستایا جاررہا ہے۔ایمرجنسی کے دوران اور اس سے پہلے، جو لوگ حکومت کی مخالفت میں بات کرتے تھے انہیں امریکہ یا سی آئی اے کا ایجنٹ کہا جاتا تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ جو بھی شخص حکومت سے متفق نہیں اسے پاکستانی یا ملک مخالف قرار دیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد سے اب تک جمہوری نظام تو کسی حد تک چلتا آرہا تھا، لیکن جمہوری اداروں، روایتوں اور عقائد کا کٹاؤ جاری ہے۔لوگوں کے شہری حقوق بڑی خاموشی سے کترے جارہے ہیں۔ ستر کی دہائی میں،مرکز کے ساتھ ساتھ کانگرس کی بیشتر ریاستوںمیں حکومت تھی، اس لیے ملک پر آسانی سے ایمرجنسی تھوپی جاسکتی تھی۔اِس وقت، ملک کی آدھی سے زیادہ ریاستوں میں اکیلے یا اتحادیوں کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں ہے۔جبکہ اس کے برعکس ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس مسلسل زوال پذیر ہے۔ ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ان میں جدوجہد کی کا مادہ کبھی رہا ہی نہیں۔لہذا سڑکوں سے تو اس کا ناطہ ٹوٹا ہوا ہے ہی ، پارلیمنٹ میں بھی وہ موثر اپوزیشن کا اکردار ادا نہیں کرپارہی ہے۔دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔
ایمرجنسی کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ طاقت کا نزول(Decentralization of power)، آمریت ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نتیجہ تھا۔ آج پھر وہی نظارہ نظر آتا ہے۔اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جمہوری اقدار اور شہری حقوق کا اغوا ہر بار باقاعدہ اعلان کرکے ہی کیا جائے ،یہ ضروری نہیں۔یہ سب جمہوری احاطہ اور قانون کی آڑ میں بھی ہوسکتا ہے ۔ موجودہ حکمراں طبقہ اسی سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اورملک کی سب سے طاقتور وزیر اعظم اندراگاندھی تک کو ہلا دینے والا دہلی میں بہادرشاہ ظفر روڈ سے دلّی گیٹ کے راستے ترکمان گیٹ کے درمیان واقع رام لیلا میدان ’’ملک کے ایمرجنسی کی طرف تیزی سے بڑھتے قدم ‘‘ کو روکنے کے لیے کسی جے پی کی آمد کا منتظر ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بھوپال:کانگریس کے سینئر لیڈردگ وجے سنگھ نے پچھلے 18 دنوں سے ملک میں پٹرول اورڈیزل کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں پروزیراعظم نریندر مودی پر طنزکیااورکہاہے کہ کورونا وائرس ان کے لیے پیسہ کمانے کا موقع ہے۔ کانگریس کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف منعقدہ ریاستی وسیع احتجاج میں ، دگ وجے سنگھ چوراہا سے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ تک سائیکل سفر شروع کرنے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ آج جب عوام کو کورونا وائرس کے بحران کاسامناہے۔۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے مسلسل اٹھارہویں روز پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے۔انھوں نے کہاہے کہ جیسا کہ مودی جی کہتے ہیں ، ’’آپداکواوسرمیں بدلنے کاموقع ‘‘۔ان کے لیے کورونا وائرس موقع ہے ، پیسہ کمانے کا۔ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ، ہر چیز میں بدعنوانی۔ دگ وجے سنگھ نے کہاہے کہ سال 2008 میں جب اس وقت کی یو پی اے کے زیر قیادت مرکزی حکومت کے وقت خام تیل کی قیمت 140 ڈالر فی بیرل تھی اور پٹرول کی قیمت 50 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 40-22 روپے فی لیٹر تھی ، تب بی جے پی نے پورے ملک میں ہنگامہ کیاتھا۔انھوں نے کہاہے کہآج جب خام تیل 40 ڈالر فی بیرل ہے ، تو پٹرول-ڈیزل مہنگا ہو گیا ہے۔ڈیزل 80 روپے فی لیٹر تک جا پہنچا ہے اور پٹرول کی قیمت 80 روپے فی لیٹر کو عبور کرچکی ہے۔دگ وجے سنگھ نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ خام تیل کی کم بین الاقوامی قیمتوں کا سارا فائدہ عوام کودیا جائے۔ا نھوں نے کہاہے کہ مرکزی حکومت کو مرکزی ایکسائز ڈیوٹی کو کم کرناچاہیے۔ دگ وجے سنگھ نے دعویٰ کیاہے کہ جب سے مودی جی آئے ہیں،ڈیزل اور پٹرول پر34 روپے مزید ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ سال 2008 میں ، شیو راج سنگھ چوہان نے اس وقت کی یو پی اے کے زیرقیادت مرکزی حکومت کے خلاف وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ سے وزارت تک سائیکل لے کر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پرریلی نکالی تھی۔ اگران میں ہمت ہے تو پھر مودی کے زیر قیادت بی جے پی حکومت کے خلاف ہمارے ساتھ چلیں۔ ہم اس کے ساتھ وزارت جانے کے لیے تیارہیں۔اسی اثنا میں ، بی جے پی کے سینئرلیڈر اور مدھیہ پردیش کے ہوم ، پبلک ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفئیر کے وزیر نوروتم مشرانے کہاہے کہ کانگریس پیٹرول اور ڈیزل کا مظاہرہ کرکے عوام کی توجہ بانٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ اس کا سیاسی ڈرامہ ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ سال 2018 میں مدھیہ پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ، کانگریس نے اپنے منشور میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے کمی کرنے کوکہاتھا ، لیکن انہوں نے (اس وقت کی کمل ناتھ حکومت) نے جب ریاست میں حکومت بنائی تھی تو اس میں دوروپے کا اضافہ کیا تھا۔ مشرا نے کہاہے کہ وہ یہ بڑھتی ہوئی رقم ایوارڈ تقریب میں خرچ کر رہے تھے۔
یہ جائز سوالوں کے جواب دینے کا وقت ہے تو تو میں میں اور آپسی تکرار کا وقت نہیں ہے ۔
ہندوستان اور چین کے درمیان جو ‘جھڑپ’ ہوئی اس میں بیس بھارتی جوان شہید ہوئے، گیارہ جوان چینی قبضے میں چلے گئے تھے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا، وادی گلوان پر چین کا مکمل دعویٰ ہے، اور خبر ہے کہ وہ گلوان سے بہنے والی ندی کے دھارے کو موڑنے کے لیے کوشاں ہے، چینی فوج بلندی پر بیٹھی ہوئی ہے لہذا اسے ایک طرح سے تزویری برتری حاصل ہے، ایسے میں تو تو میں میں کی بجائے مرکزی حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ایک دوسرے کے جائز سوالوں کے جواب دینے کی اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ چین سے کیسے اس طرح نمٹا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی چین وادی گلوان پر سے اپنا دعویٰ بھی چھوڑ دے اور اس علاقے میں اس ‘جھڑپ’ سے پہلے والی پوزیشن میں واپس آ جائے ۔ یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ چین کے استعماری عزائم کسی سے بھی ڈھکے اور چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔بات صرف وادی گلوان ہی کی نہیں ہے بلکہ چین کی نظریں پورے لداخ پر گڑی ہوئی ہیں ۔ہندوستان اور چین کے بیچ ایک لمبی سرحد ہے جہاں سال بھر حالات تقریباً کشیدہ ہی رہتے ہیں ۔ کانگریسی لیڈر پی چدمبرم کا دعویٰ ہے کہ 2015 سے لے کر اب تک مودی راج میں چین سرحد پار سے 2264 بار گھس پیٹھ کر چکا ہے ۔یہ اعداد و شمار چدمبرم نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیش کیے کہ 2010 سے 2013 کے بیچ یعنی جب کانگریس کی حکومت تھی اور منموہن سنگھ وزیراعظم تھے چین نے 600 بار گھس پیٹھ کی تھی۔نڈا نے تو یہ دعویٰ تک کردیا کہ اس وقت کی کانگریسی حکومت نے 43000 کلو میٹر کا ہندوستانی علاقہ چین کو سرنڈر کر دیا تھا۔چدمبرم نے اپنے بیان میں نڈا کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے بی جے پی پر سخت وار کیا کہ کانگریس کے دور میں نہ تو کسی ہندوستانی علاقے پر چین قبضہ کر سکا اور نہ ہی کسی پر تشدد ‘جھڑپ’ میں بھارتی جوان مارے گئے ۔دونوں ہی جانب سے الزام در الزام کا سلسلہ جاری ہے ۔ کانگریس بالخصوص سونیا گاندھی اور راہل گاندھی روزانہ ہی مودی سرکار پر چین کے معاملے میں سوال کھڑے کر رہے ہیں ۔سوالات کا اٹھانا ایک جمہوری عمل ہے اور ایسے میں سوالات ضروری بھی ہو جاتے ہیں جب سوال کرنے والے یا والوں کو قوم دشمنوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بی جے پی نے جائز سوالوں کو بھی قوم دشمنی سے جوڑ دیا ہے، گویا یہ کہ اس ملک میں بی جے پی کی نظر میں قوم پرستی صرف اسی کی جاگیر ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایسا رویہ ہے جو اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو مزید سوالوں پر اکسا رہا ہے ۔جب سوال حالیہ جھڑپ پر اٹھایا جاتا ہے تو بی جے پی 1962 اور ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بات کرنے لگتی ہے نتیجے میں کانگریس کا رویہ مزید سخت ہو جاتا ہے ۔ماضی کو فراموش کر کے حال پر نظر رکھنی ہو گی، ماضی پر بس اتنی نظر ضروری ہے کہ تب کی غلطیاں دوہرائی نہ جا سکیں۔1962 میں ہندوستان، چین کے مقابلے بہت کمزور تھا لیکن بھارتی جوانوں نے مقابلہ تو کیا تھا، یہ کہہ کر ان کی بہادری پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جانا چاہئے کہ ہندوستان نے چین کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔اگر ماضی کے گڑے مردے اکھاڑے جاتے رہے تو حال نظروں سے غائب ہو جائے گا اور چین کو من مانی کرنے کے لیے مانگی مراد مل جائے گی ۔بہتر یہ ہوگا کہ مرکزی سرکار اس معاملے میں شفافیت برتے، اپوزیشن کے جائز سوالوں کے جواب دے ۔اور اپوزیشن مرکزی حکومت کو صرف سیاسی برتری کے لیے کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ حالات کی بہتری کے لیے حکومت سے پورا تعاون کرے۔
ملک کے لیے یہ ایک کٹھن گھڑی ہے، چین نے نیپال کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور وہ آنکھیں دکھانے لگا ہے ۔بنگلہ دیش پوری طرح سے چین کی گود میں جا کر بیٹھ گیا ہے، اور پاکستان سے کشیدگی چلی ہی آ رہی ہے ۔سری لنکا بھی روٹھا روٹھا ہے، ایسے میں ہندوستان کو ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جو پڑوسی ممالک کو چین کے دامن سے نکال بھی لائے اور اس کی سالمیت اور اقتدار پر بھی کوئی فرق نہ پڑے۔آج جبکہ کورونا کی وباء نے ملک کے معاشی حالات دگرگوں کر دیئے ہیں ملک کسی بھی طرح کی اور کسی کے بھی ساتھ لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا سیدھا مطلب تباہی ہوگا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کومتحد ہوکر اس سمت میں کام کرنا ہو گا ۔فوج اور سفارت کاری کی سطح پر مذاکرات کی جو کوششیں جاری ہیں ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔لیکن حقیقی حل تو سیاست دانوں کے ہی ہاتھ میں ہے اور اس کے لیے سب کا ایک رائے ہونا ضروری ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ملک کی سلامتی پروزیراعظم کومحتاط ہوکربیان دیناچاہیے،ہم تاریخی موڑپرہیں:منموہن سنگھ
نئی دہلی:سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پہلی بار چین کے مسئلے پر تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ملک کی سلامتی ، حکمت عملی اور حدود کے معاملے پر سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے۔ انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کی گفتگوسے کیااثرپڑے گا۔ منموہن سنگھ نے یہ تبصرہ پیر کو جمعہ کو ہونے والی کل جماعتی میٹنگ میں مودی کے بیان پرتنازعہ کے بعد کیا۔۔منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کو کچھ بڑے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہماری سرحدوں کی حفاظت میں مارے گئے فوجیوں کو انصاف مل سکے۔ اگر حکومت کوتاہی کرتی ہے تو یہ ملک کے عوام کے ساتھ غداری ہوگی۔سابق وزیر اعظم نے کہاہے کہ ہم ایک تاریخی موڑ پر ہیں۔ اس وقت حکومت کا فیصلہ اورعمل طے کرے گا کہ ہمارے بارے میں آنے والی نسلوں کی رائے کیاہوگی؟ ہماری قیادت کو ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ہندوستانی جمہوریت میں یہ ذمہ داری وزیر اعظم کے دفترکی ہے۔وزیر اعظم کو اپنے بیان سے چین کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔منموہن سنگھ نے کہاہے کہ چین سن 2000 سے اب تک متعدد بار وادی گلوان اور پیانگونگ جھیل میں دراندازی کرچکا ہے۔ ہم ان کی دھمکیوں اور دباؤ میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی ہم ملکی سالمیت سے سمجھوتہ کریں گے۔ وزیراعظم کو اپنے بیان سے ان سازش کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی فیصلہ کرناچاہیے کہ صورتحال زیادہ سنگین نہیں ہونی چاہیے۔
نئی دہلی:چین سے کشیدگی پر کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ایک بار پھر ٹویٹ کیا ہے۔ راہل گاندھی نے کہاہے کہ چین نے ہمارے فوجیوں کو مار ڈالا اور زمین چھین لی۔ اس کے باوجودبھی چین وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کیوں کر رہاہے؟راہل گاندھی نے ایک میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے۔ اس سے قبل کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے بیان کو ٹویٹ کرکے حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔کانگریس کے لیڈرراہل گاندھی نے کہاہے کہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا اہم مشورہ ہے۔ ہندوستان کی بہتری کے لیے ۔ مجھے امیدہے کہ وزیر اعظم شائستگی سے ان کی بات پر عمل کریں گے۔منموہن سنگھ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ آج ہم تاریخ کے ایک اہم موڑپرکھڑے ہیں۔ ہماری حکومت کا فیصلہ اور حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ہماری آئندہ نسلوں کا اندازہ لگانے کا فیصلہ کریں گے۔ ہماری جمہوریت میں ، یہ ذمہ داری ملک کے وزیر اعظم کی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے الفاظ اور اعلانات کے ذریعہ ملک کی سلامتی اور تزویراتی اورعلاقائی مفادات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں ہمیشہ بہت محتاط رہنا چاہیے۔یعنی ، منموہن سنگھ نے وزیر اعظم مودی کو مشورہ دیاہے ا کہ وہ اپنے فرائض پر بھی توجہ دیں اور اس طرح کے معاملات پربیانات نہ دیں۔ بتادیں کہ چین سے متعلق کل جماعتی اجلاس کے بعد ، وزیر اعظم مودی کے بیان پر بہت سارے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے دفترکوبھی صفائی دینی پڑی ہے۔
بیجنگ:لداخ کی وادی گلوان میں پرتشدد تصادم کے بعد ، چین کا سرکاری میڈیا بھارت پر الزامات لگانے پرتلا ہوا ہے۔ اس بار گلوبل ٹائمز نے لکھاہے کہ مودی کے کے بیان سے چین کو مورد الزام ٹھہرانے کی اخلاقی بنیادختم ہوگئی۔ یہ بیان تناؤکوکم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔کل جماعتی میٹنگ میں مودی نے ایک بیان دیا تھا کہ نہ تو کوئی ہماری سرحد میں داخل ہوا اور نہ ہی کسی نے ہماری چوکی پرقبضہ کیا۔ ا س بیان کواپوزیشن چین کی تائیداوراس کوکلین چٹ کے مترادف بتارہاہے۔اس کے ساتھ ہی گلوبل ٹائمز نے 40 چینی فوجیوں کی ہلاکت کے بارے میں کہاہے کہ مودی سرکار اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایسی بات کر رہی ہے۔ چین نے بھی نہیں چاہتاکہ تنازعہ اوربڑھے ۔اس لیے چین اپنی طرف سے ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتارہاہے۔چین میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد 20 سے کم ہے۔ اگر ہم نمبر بتاتے ہیں تو ہندوستان ایک بار پھر دباؤمیں آجائے گا۔ہندوستان کے اندر قوم پرستی کا احساس تیزی سے بڑھا ہے اور چین کے خلاف تیزی سے احتجاج بڑھ گیاہے۔بھارت کو گھر میں پیدا ہونے والی قوم پرستی کومطمئن کرناچاہیے۔ہندوستانی حکومت کی طرف سے کسی بھی طرح کی کارروائی کے لیے تیاررہنے پراس نے کہاہے کہ مودی اپنے ملک کے قوم پرستوں اور بنیاد پرستوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مودی اپنے ملک کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے الفاظ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ در حقیقت ، وہ اپنی فوج کوایک اور تنازعہ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ چین کی قابلیت نہ صرف فوجی معاملات میں بھارت سے بہترہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا زیادہ اثرہے۔اس موقع پر ، ہندوستان میں قوم پرستی عام ہے۔ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کا معاملہ ہوتا تو بھارت دباؤ میں کچھ اقدامات کرلیتا ، لیکن جب چین کی بات آتی ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔گلوبل ٹائمز نے ہندوستانی ماہر معاشیات سوامی ناتھن ایئر کا بیان بھی شائع کیاہے کہ چین فوجی اورمعاشی میدان میں بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر تصادم ایک بار پھر ہوا تو ہندوستان کو 1962 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ نقصان ہوگا۔بھارت کے اندر سے بھی بہت ساری آوازیں آئی ہیں ، جومودی سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی غلطیوں کو چینی محاذپر نہ دہرائیں۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں ہند وچین کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ میں20 ہندوستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد سے ہی مرکزی حکومت پر مسلسل حملہ آور ہیں۔ راہول گاندھی نے کچھ دیر پہلے ہی ایک اور ٹویٹ کرکے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کیا ہے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیاہے کہ نریندر مودی واقعی سرینڈرمودی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہندو چین کے فوجیوں کے مابین وادی گلوان میں پرتشدد تصادم کے بعد ، وزیر اعظم مودی نے کہاہے کہ کوئی بھی ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی اور کے قبضے میں ہے۔ آج ، کوئی نگاہ اٹھاکرہماری طرف نہیں دیکھ سکتا ہے۔مودی کے اس بیان کے بعد اپوزیشن مسلسل مودی سرکار پر حملے کرتی رہی ہے۔ مودی کے اس بیان کے بعد راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا تھاکہ بھائیو اور بہنو ، چین نے ہندوستان کے غیر مسلح فوجیوں کو مار کر ایک بہت بڑا جرم کیا ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان ہیروزکوبغیر کسی خطرے کے ہتھیاروں میں کس نے بھیجا اور کیوں؟ کون ذمہ دار ہے۔ہندوستان اور چین کے مابین سرحد پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے پیش نظر ، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کی مدد کرنے کا کہا ہے۔ ہندوستان اور چین کے مابین بڑھتی کشیدگی پر ٹرمپ نے کہاہے کہ یہ صورتحال بہت مشکل ہے۔ میں چین اور ہندوستان دونوں سے بات کر رہا ہوں۔ ہم ان کے مسئلے کو حل کرنے میں مددکریں گے۔دوسری طرف حکومت ہندٹرمپ سے کسی بات چیت کومستردکرتی رہی ہے اوربھارتی میڈیاٹرمپ کے جھوٹ گناتارہاہے ۔دیکھنایہ ہے کہ اس دعوے پربھارت کاکیاکہناہے۔بتادیں کہ اس سے قبل بھی ٹرمپ نے ہندوستان اور چین کے مابین ثالثی کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم ، ہندوستان اور چین دونوں نے اس تجویزکوٹھکرا دیا۔
نئی دہلی:وزیراعظم نریندر مودی نے ہفتے کے روز’’غریب کلیان روزگارابھیان‘‘ کا آغاز کیا۔ اس اسکیم کا آغاز بہارکے کھگڑیا ضلع کے تیلیہار گاؤں سے ہوا۔بہارمیں اسی سال الیکشن ہے اوربڑی تعدادمیں مزدورنتیش سرکارسے ناراض ہیں۔اس لیے مزدوروں سے متعلق پروگرام کابہارسے افتتاح الیکشن سے جوڑاجاسکتاہے۔ مودی نے اپنے خطاب کا آغاز لداخ میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاہے کہ شہدا کے لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ پورا ملک ان کے ساتھ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بہار سے منصوبہ شروع کرنے کی وجہ اس سال ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات ہیں۔وزیراعظم نے کہاہے کہ جب کورونا کی وبا کا بحران بڑھنے لگا تو آپ سب ریاست اور مرکزی حکومت کے خدشات میں مبتلا تھے۔ ہم نے اپنے مزدور بہن بھائیوں کے لیے خصوصی ٹرینیں بھی چلائیں۔انھوں نے یہ نہیں بتایاہے کہ دوماہ تک بے یارومددگارکیوں چھوڑدیاگیااورلاکھوں مزدورپیدل یاٹرک میں سوارہوکرنقل مکانی پرمجبورہوئے۔ٹرینیں توکافی بعدچلائی گئیں۔وزیراعظم نے کہاہے کہ کورونا کا اتنا بڑا بحران ہوا، جس کی وجہ سے دنیا حیرت زدہ تھی ، لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ ہندوستان کے دیہات نے جس طرح سے کوونا کا مقابلہ کیا ہے ، اس نے شہروں کو بھی سبق سکھایا ہے۔ گائوں کے لوگوں نے انتہائی موثر اندازمیں کورونا انفیکشن کی روک تھام کی ہے۔ دیہات کی آبادی 80-85 کروڑ ہے ، جو پورے یورپ ، امریکہ ، روس اورآسٹریلیا سے زیادہ ہے۔ اس آبادی کا کورونا کے ساتھ مقابلہ کرنابہت بڑی بات ہے۔ پنچایت تک ، ہمارے جمہوری نظام ، طبی سہولیات ، فلاح و بہبود کے مرکز کی صفائی مہم نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ پرسوں ، پٹنہ میں کوروناٹیسٹنگ کی ایک بڑی جدید ٹیسٹنگ مشین شروع کی جارہی ہے۔ اس مشین سے ہر دن تقریباََ 1500 ٹیسٹ ممکن ہوں گے۔ جب کہ بہارایسی ریاست ہے جہاں سب سے کم ٹیسٹ ہوئے ہیں اورطبی میدان میں نتیش سرکارمکمل طورپرفیل ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہاہے کہ آج روزگار کے لیے غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے ایک بہت بڑی مہم شروع ہوگئی ہے۔ یہ مزدوری بہن بھائیوں کے لیے گائوں میں رہنے والے نوجوانوں کے لیے وقف ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جولاک ڈاؤن میں اپنے دیہات لوٹ چکے ہیں۔میں نے اترپردیش کی ایک خبر دیکھی۔ کچھ مزدور وہاں قرنطینہ میں تعینات تھے۔انہوں نے رنگنے پینٹنگ اور پی او پی کے کام میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ رہیں گے ، اس سے کچھ ہنراستعمال کریں گے۔ انہوں نے مصوری سے اسکول کو بہت اچھا بنایا۔ اس نے میرے دماغ کو متاثر کیا۔ تب اس منصوبے کاخیال آیا۔
بھارت کورونا کے خلاف جنگ میں دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے:مودی
نئی دہلی:وزیراعظم نریندر مودی نے ملک میں جاری کورونا وائرس کے درمیان ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے وزرائے اعلیٰ سے بات کی۔اس دوران ، پی ایم مودی نے کہاہے کہ بھارت کورونا کے خلاف جنگ میں دوسروں سے بہتر کارکردگی کامظاہرہ کررہاہے۔ جئب کہ آئے دن کسیزکی تعدادتیزی سے بڑھ رہی ہے۔سخت لاک ڈائون کے باوجودکسیزمیں اضافہ لاک ڈائون کی ناکامی سمجھی جارہی ہے۔مزدورں کی غیرمحتاط نقل مکانی نے اس می اورااضافہ کیاہے۔اپوزیشن اسے حکومت کی ناکامی بتارہاہے ۔پی ایم مودی نے کہاہے کہ ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اموات کی شرح سب سے کم ہے۔انھوں نے کہاہے کہ تھوڑی سی لاپرواہی ، تھوڑی نرمی ، نظم و ضبط کی کمی کورونا کے خلاف ہماری لڑائی کو کمزور کردے گی۔ ان لاک 1 کو2 ہفتوں کا عرصہ گزرنے والاہے ، اس بحث کے دوران آنے والے تجربات کا جائزہ مزید تبادلہ خیال کے لیے بہت مفیدثابت ہوسکتا ہے۔پی ایم مودی نے کہاہے کہ دوگزفاصلہ بہت ضروری ہے۔ ماسک اور چہرے کوچھپانا ضروری ہے۔ یہ کورونا کو پھیلنے سے روکنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ جتناہم کورونا کو روک سکتے ہیں ، اتنی ہی معیشت بھی کھل جائے گی۔وصولی کی شرح 50 فیصد سے اوپرہوئی ہے۔بجلی کے استعمال میں اضافہ ہواہے۔ خریف کی بوائی میں 12 سے 13 فیصداضافہ ہواہے۔ کھادکی فروخت پچھلے سال سے زیادہ ہے۔انھوں نے کہاہے کہ مئی میں کھاد کی فروخت پچھلے سال کے مقابلہ میں دوگنی ہوگئی ہے۔ معیشت دوبارہ پٹری پرآگئی ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں ، برآمدات اپنی پرانی حالت میں واپس آگئیں اور کورونا کی سابقہ سطح تک پہنچ گئیں۔انہوں نے کہاہے کہ ہمیں ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جتنا ہم کوروناکوروک سکتے ہیں ، اتنی ہی اس کی افزائش بند ہوگی ، ہماری معیشت اتنی ہی زیادہ کھل جائے گی ، ہمارے دفاترکھلیں گے، بازار کھلیں گے ، نقل وحمل کے ذرائع کھلیں گے ، اور روزگار کے نئے مواقع زیادہ ہوں گے۔
خودکفیل ہندوستان بنانے کے لیے کورونا بحران کو موقع میں بدلنے کی ضرورت:مودی
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ایک خود مختار ہندوستان بنانے کے لئے کورونا بحران کو ایک مواقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو جن سامانوں کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے ان کا ملک میں بنانے کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہوںگے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہندوستان کو خود مختار بنانے کا ہدف ملکی کی پالیسی اور عمل میں سب سے اہم بن گیا ہے۔ کورونا بحران نے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کیا کہ اس سمت میں کی جانے والی کوششوں کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہندوستان کورونا بحران کے ساتھ ساتھ سیلاب، ٹڈی کے حملے اور زلزلے جیسے بہت سے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ خود مختار ہندوستان کی تعمیر کے لئے ہمیں بحران کو مواقع میں بدلنا ہوگا۔ جن سامان کا ہمیں درآمد کرنا پڑتا ہے انہیں خود ہندوستان میں تیارکرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔پی ایم مودی نے کہا کہ آئی سی سی نے 1925 میں اپنے قیام کے بعد سے آزادی کی جنگ کو دیکھا ہے ، شدید قحط اوردیگر بحران کو دیکھا ہے اور آپ ہندوستان کی ترقی کی راہ کا بھی حصہ رہے ہیں۔ اب اس وقت کی یہ اے جی ایم ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ہمارا ملک متعدد چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے۔ کورونا وائرس کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پوری دنیا کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے، ہندوستان بھی لڑ رہا ہے لیکن دوسرے بحران بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔
نئی دہلی:امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے وزیر اعظم مودی کے موڈ پربیان کے بعد ، پرشانت کشور نے طنزیہ انداز میں کہاہے کہ اب ہم اپنی تمام پریشانیوں کو ترک کر سکتے ہیں ، کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان واقعی خود کو عالمی سطح پرثابت کرچکا ہے۔ امریکہ کاصدر اب ہمارے وزیر اعظم کے مزاج کے بارے میں بتا رہا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ وہائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیاتھاکہ بھارت اور چین کے مابین تناؤکی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی کا موڈاچھانہیں ہے۔ لیکن ان کے بیان پر بہت سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت ہند سے وابستہ ذرائع نے اس کی تردیدکی ہے کہ حال ہی میں وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے مابین چین کے بارے میں کوئی بات ہوئی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے سری لنکا کے صدراور ماریشس کے وزیر اعظم سے کووڈ19 پر تبادلہ خیال کیا
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو سری لنکا کے صدر گوٹبایا راج پکشے اور ماریشس کے وزیر اعظم پی کے جگن ناتھ سے بات چیت کی اور کووڈ 19 وبا اور اس سے اقتصادی اثرات سے نمٹنے میں ہر ممکن حمایت دینے کی بات کہی۔وزیر اعظم مودی نے اپنے ٹوئٹس میں کہاکہ سری لنکا کے صدر گوٹبایا راج پکشے سے اچھی بات ہوئی۔سری لنکا کووڈ19 سے ان کی قیادت میں مؤثر طریقے سے جنگ لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اپنے قریبی شپنگ کے علاقے میں اپنے پڑوسی ملک کو اس وبا اور اس کے اقتصادی اثرات سے نمٹنے میں حمایت جاری رکھے گا۔مودی نے کہا کہ ہم نے ہندوستان کے تعاون سے سری لنکا میں ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے اور مضبوط سرمایہ کاری تعلقات پر اتفاق کیا۔وزیر اعظم مودی نے آج ماریشس کے وزیر اعظم پی کے جگن ناتھ سے بھی بات چیت کی۔مودی نے ٹویٹ کیاکہ گرمجوشی بھری بات چیت کے لئے آپ کا شکریہ وزیراعظم پی کے جگن ناتھ۔ماریشس میں کووڈ 19 کو کنٹرول کرنے کے لیے مبارک ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ممالک کے لوگوں کے درمیان گرمجوشی بھرا اور خصوصی تعلقات ہیں جو مشترکہ ثقافت اور اقدار پر مبنی ہے۔ہندوستان اس مشکل وقت میں ماریشس کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
امفان طوفان:مودی نے ہوائی سروے کرکے نقصان کاجائزہ لیا،1000 کروڑ کی امدادکااعلان
کولکاتہ:مغربی بنگال میں ہوئی بھاری تباہی کا جائزہ لینے وزیر اعظم نریندر مودی کولکاتاپہنچے۔ ایئر پورٹ پر گورنر جگدیپ دھنکھڑاور سی ایم ممتا بنرجی نے ان کااستقبال کیا۔ پی ایم نے بعد میں ہوائی سروے کر کے امفان سے ہوئی تباہی سے ریاست میں ہوئے نقصان کا جائزہ لیا، اس موقع پر وزیراعلیٰ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ہوائی سروے کے دوران متاثرہ علاقوں کے زیادہ تر مقام پانی سے گھرے نظر آ رہے تھے۔ طوفان کی وجہ سے بہت سے درخت اور بجلی کے کھمبے بھی گرگئے ہیں۔ ہوائی سروے کے بعدپی ایم نے جائزہ میٹنگ بھی کی ۔اس دوران وزیراعظم نے کہاہے کہ بنگال کانقصان بڑاہے،انھوں نے ایک ہزارکروڑکے پیکیج کابھی اعلان کیا۔ ممتا بنرجی نے امفان طوفان سے تقریباََ 1 لاکھ کروڑ روپے تک کے نقصان کاخدشہ ظاہرکیاہے۔ مغربی بنگال میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی۔ اس کے چلتے 72 لوگوں کی موت ہو گئی اور دو ضلع مکمل طور تباہ ہوگئے ہیں۔طوفان سے ہزاروں لوگ بے گھرہوگئے ہیں، بہت سے پل تباہ ہو گئے ہیں اور زیریں علاقے ڈوب ہو گئے ہیں۔ کولکاتہ اور ریاست کے کئی دیگر حصوں میں تباہی کے نشانات واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔
نئے فارمیٹ میں بہارالیکشن،ممکن ہےووٹروں کوپولنگ بوتھ نہ جاناپڑے:سشیل کمارمودی
پٹنہ:نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی نے دعویٰ کیاہے کہ اس بار بہار اسمبلی کا الیکشن مکمل طور پردوسری شکل میں ہو سکتا ہے۔ اس بارنہ تو ہیلی کاپٹر پرواز کریں گے، نہ ہی لیڈر پہلے کی طرح گھوم پھر سکیں گے۔سب سے بڑی تبدیلی تو یہ ہوسکتی ہے کہ ووٹروں کوبوتھوں پر جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔اس کے لیے الیکشن کمیشن بھی جائزے میں مصروف ہے۔لیکن اب تک الیکشن کمیشن نے ایساکچھ نہیں بتایاہے توسوال یہ کے الیکشن کمیشن کے جائز ہ کی بات سشیل کمارمودی تک کیسے پہونچی۔مودی صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہاہے کہ اس بار انتخابات میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہی اہم ہتھیارہوں گے۔ اب تک ہیلی کاپٹرکابڑاکردارہوتاتھا۔گزشتہ 20-25 سالوں سے یہ انتخابی مہم کا مضبوط حصہ رہاہے۔لیکن اس بار ایسا ہوتا نظرنہیں آتاہے۔ اب پرانے طور طریقے سے الیکشن ہونا ممکن نہیں لگتاہے۔ بڑی بھیڑ، لیڈروں کے ساتھ ہجوم اور بوتھوں پرلمبی قطار کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔پوری دنیا بدل گئی ہے۔ اب تک جس طرح الیکشن ہوتا آیا ہے، اب ویساہوناممکن نہیں لگتاہے۔
(صدرشعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ)
کورونا نے دنیا بھر کے عوام اور حکومتوں کے سامنے ایسے چیلنج پیش کر دیے ہیں کہ بڑے بڑے سوٗرما اور شہہ زور بھیگی بلّی بنے نظر آتے ہیں۔ قومی اور عالمی پالیسیاں بن رہی ہیں اور ہر ملک اور اس کی حکومت اپنی سطح پر کارگر اقدام انجام دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ ایسے میں بعض حکومتوں کے دل کا چور اُبھر کر سامنے آ رہا ہے۔ ہندستان جیسے ملک میں حکمراں جماعتوں میں بالعموم ایسی خوبیاں نظر نہیں آ پا رہی ہیں جن سے یہ کہا جائے کہ اقتدار میں بیٹھے اصحاب اس وبا سے عوامی فلاح و بہبود اور سماجی خدمت کی باتیں سیکھ رہے ہیں۔ بعض ملکوں کے سربراہ وبائی اَیّام میں منکسرالمزاج اور بُردبار ہو گئے ہیں اور اپنے عوام کے لیے سنجیدہ فکر و عمل میں رات دن منہمک ہیں۔ غور کریں تو سُپر پاور امریکہ کے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ بھی بار بار اپنی بے بسی کا اظہار کرنے سے گُریز نہیں کر پا تے۔ وہ بار بار چین کو اس لیے بھی نشانہ بنا نے میں مصروف رہتے ہیں کہ حالات اُن کے قابو میں نہیں مگر چین نے اپنے ملک کو اطمینان کی حالت میں پہنچا دیا۔
حکومتِ ہند کا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اُسے اپنی کوتاہیوں کے اظہار کا موقع ہی نہیں مِلا۔ اُسے اپنی پیٹھ تھپتھپانے سے زیادہ سروکا رہے۔ ابتدائی تین ماہ جس حکومت نے اپنی تیّاریوں میں ضایع کر دیے ہوں، اسے نادم ہونے کے بجاے شہہ زوری سے اپنی باتیں پیش کرنے کی عادت ہو تی جا رہی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ملک میں ایسا قانون نافذ ہے جس کے سبب پورا وفاقی ڈھانچا ایک آدمی کی مُٹّھی میں قید ہے۔ اُس کے سارے دشمن اب اُس سے مِل جُل کر رہنے اور مشکلات میں تعاون حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ پورے ملک کے لیے سب ایک شخص یا ایک حکومت فیصلے کر لے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ صاحبِ اقتدار کو مالکِ کُلّی ہونے کی عادت نہ ہو جائے۔ یہ سو ایمرجنسی کی ایک ایمرجنسی ہے۔
مرکزی حکومت نے بغیر کسی تیاری، صوبائی حکومتوں اور ماہرین سے صلاح و مشورے کے لاک ڈاؤن نافذ کیا جس کے ہزاروں مسائل سے پورا ملک پریشان ہے۔ کورونا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے یہ قدم اُٹھایا گیا یا پورے ملک میں حکومت کے خلاف چل رہے عوامی احتجاج کو حتمی طور پر ختم کرنے کے لیے یہ شب خوں ماری گئی؟ وبا کے سلسلے سے محکمہئ صحت نے ملک بھر کے صوٗبوں کے عہدے داران سے کوئی صلاح نہیں کی۔ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر ملک کی معاشی صورتِ حال اور عام لوگوں کی زندگی کے مسائل پر ایک لمحے کے لیے غور نہیں کیا گیا۔ مگر اس لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے مختلف صوبائی حکومتوں سے صلاح لینے کا ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔ آخر جب نفاذ میں نہیں پوچھا گیا تو اس کی توسیع میں کیوں مشورہ لیتے ہو؟
وبائی قانون اور غیر یقینی صورتِ حال کا حکومتِ ہند طرح طرح سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔ خاص طور سے پردے کے پیچھے سے کئی طرح کے کھیل تماشے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف لاک ڈاؤن ہے مگر جمہوری انداز سے جن لوگوں نے حکومتِ ہند کے خلاف عوامی مفاد کی باتیں کیں، ان کے خلاف چُپ چاپ پولیس کا رروائیاں چل رہی ہیں۔ کشمیر سے لے کر دلّی اور اُتّر پردیش کے مختلف شہروں میں مختلف تحریک کاروں کو جیل پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ معلوم ہو کہ جب جیل کے پُرانے قیدیوں کو پے رول پر رِہا کیا جا رہا ہو اور عام مقدّمات کو اِلتوا میں رکھنے کی باضابطہ ہدایت جاری ہے؛ ایسے میں یہ خاموش کھیل صرف سیاسی مفاد کے تحت ہی ہو سکتاہے ورنہ ان گِرفتاریوں اور مقدّمات کو چند ماہ اِلتوا میں ڈال دینے سے حکومتِ ہند کو وبا سے لڑنے میں کون سی دُشواری پید ا ہو جاتی۔
نریندر مودی کے سب سے چہیتے وزیرِاعلا اُتّر پردیش کے مالک و مختار یوگی جی ہیں جن کے ذمّے رام مندر بنانا اور اگلی حکومت کے لیے تیاری کرنا مقرّر ہے۔ کورونا کے متاثّرین کے اعتبار سے اُتّر پردیش اب مُلک کے نقشے میں اُبھر کر سامنے آ رہا ہے اور مریضوں کی تعداد کے معاملے میں چوتھے مقام پر پہنچ رہا ہے مگر کورونا قانون کے پردے میں یو۔پی۔ حکومت ہزار طرح کے انوکھے فیصلے کرنے میں اپنی خاص شہرت رکھتی ہے۔ پہلے انھوں نے سی۔اے۔اے کو کورونا کے نام پر اُلجھایا۔ پھر تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنی پوری شہہ زوری دکھائی۔ اذان کے خلاف فیصلہ لینے میں بھی انھیں اوّلیت حاصل رہی اور اب وبائی قانون کی دُہائی دے کر یو۔پی۔ کے بعض اضلاع میں یہ نوٹِس جاری کی جا رہی ہے کہ سڑک کے راستے سے پیدل جا رہے مزدوروں کو اشیاے خوردونوش کی تقسیم غیر قانونی ہے اور اس کے لیے معقول سزا دی جائے گی۔
وبائی قانون کے بہانے ہر ریاست عوامی مفاد کے خلاف نئے نئے قوانین بنارہے ہیں اور ان کا نفاذ جنگی پیمانے پر ہو رہا ہے۔ مزدوروں کے لیے چھ اور آٹھ گھنٹے کے بجاے بارہ گھنٹے کام لینے کے فیصلوں میں رفتہ رفتہ تمام صوبائی حکومتیں شامل ہو رہی ہیں۔ یہ انسان کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے جیسا ہے۔ پہلے مدھیہ پردیش اور راجستھان نے یہ شروع کیا، اُتر پردیش نے ۳/ برس کے لیے مزدور وں کے حقوق کے خلاف جاکر اس قانون کا نفاذ کر دیا۔ حقیقت میں یہ وبائی صورتِ حال اور مختلف ماحول کے بہانے غریب اور مزدور طبقے کے حقوق پر حملہ ہے۔
جب حکومت عوام کے دباو سے مجبور ہو کر ٹرین چلانے کے لیے آمادہ ہوئی، اُس وقت اچانک کرناٹک حکومت نے حکومتِ ہند کو منع کر دیا کہ ہمیں ٹرین نہیں چاہیے یعنی کرناٹک میں پھنسے ہوئے مزدوروں کو اپنے گھر نہیں جانا ہے۔ اس بات پر جب ہنگامہ شروع ہوا تو یہ معلوم ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیرِ اعلا سے وہاں کے بلڈرون نے ملاقات کرکے مزدوروں کو روکنے کی گزارش کی۔ کیوں کہ انھیں اب اپنے رُکے ہوئے کاموں کو شروع کرنے کی اجازت ملنے والی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان مزدوروں کو چالیس دن سے بھوکے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس وقت کسی نے انھیں نہیں پوچھا مگر جب انھیں اپنے وطن جانے کی آسانیاں حاصل ہورہی ہیں، اس وقت اپنے مفاد کے تحت سازش کرکے مزدوروں کو روک دیا جائے۔ اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہماری حکومتیں مزدوروں کی نہیں، جاگیر داروں کی ہی ہیں۔
وزیرِ اعظمِ ہند کو عوام کے نام سے اپنے نِرگُن اعلانات کرنے کا بہت شوق ہے۔ انھوں نے ایک روز جو فلسفہ طرازی کی، اس کی تعبیر و تشریح میں وزیرِخزانہ اور دوسرے وزرا کو روزانہ تفصیلات پیش کرنی پڑتی ہیں۔ ہر جگہ پُرانے قوانین میں تبدیلی یا چند برسوں کی معطّلی کا بیان ہوتا ہے۔ مزدوروں سے آگے بڑھ کر کسانوں کی فلاح کے نام پر اُنھیں آزاد بازار کا حصّہ بنا کر بڑی آسانی سے حکومت اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہے۔ ملک میں عوامی فلاح و بہبود کے ہزاروں قوانین برسوں کے غور وفکر اور عوامی تعلّقات کے پیشِ نظر بنے تھے۔ انھیں ایک و با کے بہانے ختم کرکے حقیقت میں حکومتِ بعض صنعت کاروں اور جاگیرداروں کو فائدہ پہنچا نا چاہتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس سہولت سے ریزوبینک نے ہمارے بڑے صنعت کاروں کی اربوں کی رقم معاف کر دی۔ آگے بھی اقتصادی سہولیات کے نام پر یہ سب ہوگا۔
وزیرِ اعظمِ ہند ایک مرصع جذباتی زبان کے کاروباری ہیں۔ اب قافیہ بندی پر بھی اُتر آئے ہیں۔ وہ کسی چیز کو بھی نعرہ بنا سکتے ہیں۔ ہر ضروری بات پر خاموشی اور ہر غیر ضروری بات پر طلاقتِ لسانی۔ اب انھیں پورے ملک کی ملکیت کا مزہ مل رہا ہے۔ اس لیے وہ جمہوری مزاج اور اداروں کے کَل پُرزوں پر چوٹ کریں گے اور اپنے لوگوں کے سہارے ملیا میٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اقتدار کی بڑھی ہوئی طاقت کی عادت اب آسانی سے نہیں جائے گی۔ کورونا کا دور اس لیے بھی بڑھے گا کیوں کہ اس میں اقتدار ِ کُلّی صرف نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے۔ خون کا ذائقہ آسانی سے چھوٹے گا نہیں۔ حزبِ اختلاف والی ریاستوں کے دن اور مشکل سے کٹیں گے اور انھیں کبھی بھی اور کسی بہانے اُکھاڑنے کی کوشش ہوگی۔ جمہوری قدروں میں ایمان رکھنے والے افراد کو وبا سے لڑنے کے نام پر حکومتِ ہند کے مطلق العنان انداز اور غیر جمہوری طریقہ کار کو بہ غور سمجھ کر اپنے ملک کو بچانے کے لیے تیّار رہنا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی: کرونا بحران اور لاک ڈاؤن کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریاست کے وزرائے اعلی کے ساتھ بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم مودی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کھولنے کو لے کر ایک پالیسی تیار کرنی ہوگی۔ ریاست اپنی پالیسی تیار کریں کہ کس طرح ریڈ،گرین اور اورنج زون کو کھولنا ہے۔ ملاقات کے دوران نو ریاستوں کے وزرائے اعلی نے اپنے خیالات وزیر اعظم کے سامنے رکھے۔ ان میں سے چار وزرائے اعلی نے لاک ڈاؤن کو بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔ بتا دیں کہ کرونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ یہ لاک ڈاؤن3 مئی تک جاری رہے گا۔ذرائع نے بتایا کہ پی ایم مودی نے وزرائے اعلی کے ساتھ ملاقات میں اشارہ دیا ہے کہ 3 مئی کے بعد فیصلہ کریں گے، جو ریاست زیادہ متاثر ہیں، وہاں لاک ڈاؤن جاری رہے گا جن ریاستوں میں حالات ٹھیک ہیں وہاں رعایت دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ معیشت کے محاذ پر فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اقتصادیات اچھی حالت میں ہے۔میگھالیہ کے وزیر اعلی ککانارڈ سنگما نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے میٹنگ کی۔ ہم نے 3 مئی کے بعد بھی لاک ڈاؤن جاری رکھنے کی رائے دی ہے۔ تاہم میگھالیہ کے ان اضلاع کو جہاں کرونا وائرس کے کیس نہیں ہیں یا گرین زون میں کچھ سرگرمیوں کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ہندوستان میں کرونا تیزی سے پیر پھیلا رہا ہے۔ ملک میں کووڈ -19سے مرنے والوں کی تعداد 872 تک پہنچ گئی۔ وزارت صحت کی جانب سے پیر کو جاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کرونا وائرس سے اب تک 872 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ متاثرہ معاملوں کی تعداد بڑھ کر 27892 ہو گئی ہے۔ وہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا وائرس کے 1396 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 48 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ تاہم تھوڑی راحت والی بات یہ ہے کہ اس بیماری سے اب تک 6185 مریض ٹھیک ہوچکے ہیں۔ 24 گھنٹے میں 381 لوگ ٹھیک ہوئے ہیں۔
نئی دہلی:ملک میں کوروناوائرس کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ابھی یہ تعدادملک میں 26000سے اوپرپہنچ گئی ہے۔مرکزاورریاستی حکومتیں بحران کو روکنے کے لیے مل کر تیزی سے کام کرنے کادعویٰ کررہی ہیں۔کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی نے کوروناوائرس سے لڑنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک بار پھر جانچ بڑھانے کا مشورہ دیتے ہوئے اس کام کے راستے میں آ رہی رکاوٹوں پرقابوپانے کی اپیل کی ہے۔کانگریس ممبر پارلیمنٹ راہل گاندھی نے اتوارکواپنی ٹویٹس میں لکھاہے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پرٹیسٹنگ کوروناوائرس سے لڑنے میں اہم ہے۔بھارت میں ایک دقت میں ٹیسٹ کی رفتار موجودہ وقت میں 40000 فی یوم سے بڑھاکر ایک لاکھ فی دن کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ٹیسٹ کٹ پہلے سے اسٹاک میں ہیں۔وزیر اعظم کو اس دقت کو دور کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی:ملک میں کورونا وائرس کیس پرتبادلہ خیال کرنے کے لیے، وزیر اعظم نریندر مودی 27 اپریل کوریاست کے وزرائے اعلیٰ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تبادلہ خیال کریں گے۔ ملک میں لاک ڈاؤن کے بعد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یہ ان کی تیسری بات چیت ہوگی۔ہرمیٹنگ میں ریاستیں پیکج مانگ رہی ہیں،یہاں تک کہ بعض ریاستوں کوجی ایس ٹی کے بقائے تک نہیں دیے گئے ہیں۔غیربی جے پی ریاستوں کاالزام ہے کہ میٹنگ کرکے صرف تقریرہورہی ہے۔ہمارے مطالبات نہیں مانے جارہے ہیں۔جب بجٹ نہیں ہوگاتوہم کس طرح لڑائی لڑیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ، ملک میں لاک ڈاؤن کو14 اپریل تک نافذ کیا گیا تھا جو بعد میں 3 مئی تک بڑھا دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے ریاستوں کے وزیراعلیٰ کی یہ ویڈیوکانفرنس پیرکی صبح دس بجے شروع ہوگی۔دیکھناہے کہ ریاستوں کے بجٹ پرکوئی حتمی بات ہوتی ہے یانہیں،یاصرف مشاورت تک بات رہ جاتی ہے۔
نئی دہلی:مرکزی حکومت نے طبی عملے کے خلاف تشددسے متعلق ایک آرڈیننس لایا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق، طبی عملے پرحملہ کرنے والوں کو 6 ماہ سے 7 سال تک کی سزا دینے کافیصلہ کیاگیاہے۔ آرڈیننس جاری ہونے کے بعد وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا۔ وبا ترمیمی آرڈیننس 2020 فرنٹ لائن کے ساتھ کھڑا ہے اور کوویڈ 19 سے لڑنے والے عملے کوبچانے کے لیے کھوئے ہوئے عزم کوظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمارے تمام پیشہ ور افراد کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔سیکیورٹی کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔
نئی دہلی:کوروناوائرس کوپھیلنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتیں لاک ڈاؤن کا طریقہ اپنا رہی ہیں۔بھارت میں بھی 40 دن کالاک ڈاؤن ہے، جس کا آج 29 واں دن ہے۔گزشتہ تقریباََایک ماہ سے ملک کی 135 کروڑکی آبادی گھرمیں قیدہے۔لیکن، لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف عام لوگ ہی نہیں، جو کہیں آ جانہیں پا رہے. بلکہ، وزیر اعظم مودی بھی کہیں آجانہیں پا رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کو بیرون ملک سے واپس آئے آج 5 ماہ، 6 دن ہوچکے ہیں۔مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد 6 سال میں یہ دوسری بار ہے، جب وہ اتنے وقت تک ملک میں ہی ہیں۔اس سے پہلے مودی نے 2016-17 میں 6 ماہ تک کوئی بیرون ملک سفر نہیں کیاتھا۔اس وقت مودی 12 نومبر 2016 کوجاپان سے واپس آئے تھے اور اس کے بعد 11 مئی 2017 کو سری لنکا کے دورے پرگئے تھے۔ تاہم، اس وقت ملک میں انتخابات بھی تھے۔ مارچ 2017 میں اتر پردیش سمیت 5 ریاستوں میں انتخابات ہوئے تھے۔مودی کو وزیر اعظم بنے تقریباََ 5 سال 11 ماہ ہوچکے ہیں۔مودی نے 26 مئی 2014 کو پہلی بار اور 30 مئی 2019 کو دوسری بار وزیر اعظم کے عہدے کاحلف لیاہے۔ وزیر اعظم کے دفتر کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق، مودی نے 2014 سے لے کر اب تک 59 بار بیرون ملک کے دورے کیے ہیں۔ اس دوران انہوں نے 106 ملک (ان میں 2 یا اس سے زیادہ دورے بھی) کاسفرکیاہے۔ مودی جب سے وزیر اعظم بنے ہیں،اس کے بعد سے ہر سال 10 سے زیادہ غیر ملکی دورے کرتے ہیں۔دسمبر 2018 میں راجیہ سبھا میں دیے جواب میں اس وقت کے وزیر وزیر مملکت جنرل وی کے سنگھ نے وزیر اعظم کے وزیر دورے پر ہونے والے خرچ کابیورادیاتھا۔ اس کے مطابق، 2018-19 تک مودی کے بیرون ملک سفر پر 2.54.221کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس کے بعد مودی نے 14 دورے اور کیے، جس میں 70.90 کروڑروپے اورخرچ ہوئے تھے۔ تاہم، اس خرچ میں وزیر اعظم کے طیارے کے انتظامات اور ہاٹ لائن کاخرچ شامل نہیں تھا۔
نئی دہلی:ملک میں جاری کورونابحران (COVID-19) اور لاک ڈاؤن کے درمیان ، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہاہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور بھائی چارے کی ضرورت ہے۔گرچہ میڈیانے جس طرح سماج میں زہربویاہے ،وہ سماج سے لے کراستپال تک میں نظرآنے لگاہے۔ پی ایم مودی نے کہا کہ کورونامذہب کو نہیں دیکھتاہے ۔ اپنی پوسٹ میں ،انہوں نے کہاہے کہ مشکل اوقات میں ہم سب کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے مزیدلکھاہے کہ کورونا وائرس نے پیشہ ورانہ زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کردیاہے۔ ہماراگھرہمارادفتربن گیا ہے۔ انٹرنیٹ ہمارانیامیٹنگ روم ہے۔ کچھ وقت کے لیے دفترکے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کرنا تاریخ بن گیا ہے۔
ایڈیٹر:ہماری آواز، گولابازار، گورکھ پور
امریکی صدر ٹرمپ جی اور ہندوستانی وزیر اعظم مودی جی کا یارانہ کوئی نیا نہیں، کافی پرانا ہے۔ وہ وقت آج بھی ہم اہلیان ہند کو بڑے اچھے سے یاد ہے جب امریکہ میں انتخاب عام ہونے والا تھا اور ٹرمپ جی کی حمایت میں وزیر اعظم مودی جی جنھیں میں بہت پیار سے صاحب جی لکھا کرتا ہوں وہ امریکہ تک پہونچ گئے اور ان کے ہمنواؤں نے ٹرمپ جی کی انتخابی کامیابی کے لیے ہندوستان میں بھی پوجا پاٹ تک کرڈالا تھا، سوشل میڈیا کی سرخیاں تو یہ بات تک بن گئی تھی کہ ٹرمپ جی وہ انتخاب جیتتے ہی نہیں مگر صاحب کے مشوروں سے ہی انہوں انتخاب عام میں کامیابی حاصل کر اقتدار کی کرسی پائی۔ شاید یہ یارانہ اسی وقت شروع ہوا تھا۔ اور ابھی حالیہ دنوں میں جب پوری دنیا کورونا نامی قدرت کے قہر سے جوجھ رہی تھی صورت حال یہ بن چکے تھے کہ اکثر ممالک نے اپنی سرحدوں کو سیل کرنا شروع کردیا تھا بعینہ اسی وقت امریکی صدر ٹرمپ جی دورۂ ہند پر تھے اور صاحب نے اپنے اس یار کی آؤ بھگت میں پانچ،دس کروڑ نہیں بلکہ تقریبا ایک سو بیس کروڑ تک خرچ کر ڈالے۔ اور اس کے معا بعد جب ملک میں مہاماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تب ہمارے صاحب کو عوام سے ہی چندہ تک مانگنا پڑا۔ اپنے ملک کی مہمان نوازی شاید پہلے اتنی مشہور نہ رہی ہو جتنی صاحب نے اپنے اس طرز عمل سے کر دکھایا۔ اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ دہلی سے لے کر آگرہ تک صاحب نے جن مقامات کی زیارت ٹرمپ جی کو کرائی وہ وہی مقامات تھے جنھیں ہر موقع پر دہشت گرد کہے جانے والی قوم "مسلم” کے سابقہ حکمرانوں نے بنوایا تھا۔ خیر اس سے کوئی بحث بھی نہیں کیوں کہ پوری دنیا جانتی ہے انھیں مقامات کی زیارت سے ملنے والی خطیر رقم حکومتوں کی گاڑیوں کا ایک پہیہ چلاتی ہے۔ مگر تعجب اس وقت ہوا جب امریکی صدر کے اس دورۂ ہند میں کئی ایک غیر ملکی صحافیوں اور سفیروں نے شرکت کی بالخصوص چینی، جبکہ پوری دنیا جان چکی تھی کہ کورونا وائرس جیسی مہلک وبا کی پیدائش چین ہی میں ہوئی ہے۔ اور جس طرح ہندوستانی میڈیا نے مرکز کے معاملہ کو لے کر چھوا چھوت کی حد پار کردی تھی اس کے تناظر میں یہ کہنا بلکہ ہی ناروا نہیں ہوگا کہ شاید انھیں غیر ملکیوں کی اس شمولت سے ہی اپنے عزیز ترین ملک ہندوستان میں کورونا نے قدم رکھا۔ خیر ملک کے وزیر اعظم اور ان کے ہمنواؤں نے ٹرمپ جی کی یاری میں آخر کیا کمی کردی کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جب دنیا یہ کہہ رہی تھی کہ
کیا کیا نہ کیا یار نے دل دار کے لیے
تبھی اس دل دار نے ایسا زخم دیا کہ پوچھئے مت؛ اس مصیبت کی گھڑی میں ہی اس نے زبردست دھوکا دیا اور اپنے یار کو دھمکی تک دے ڈالی کہ اگر انھوں نے ملیریا کی دوا امریکہ نہیں بھیجا تو یار کو دل دار کے حسین نہیں کڑوے عتابوں کا شکار ہونا پڑے گا۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ چوکی دار کے نام سے مشہور چھپپن انچ کے سینے والے ہمارے ملک کے وزیر اعظم جناب مودی جی نے اس دھمکی کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ اب اس دھمکی کو لے کر صاحب کے کیا تاثرات ہیں یہ تو من کی بات ہے۔ پردے میں ہے، اور شاید آگے بھی ایک معمہ بن کر رہ جائے مگر اہلیان ہند کی دلی صدا یہی ہے۔ کیا یہی میری محبت کا صلہ ہے؟؟؟؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)