ہندستان آنے سے پہلے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں ہندستان اور نریندر مودی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”ہندستان کا سلوک امریکہ کے ساتھ اچھا نہیں ہے لیکن مجھے مودی بیحد پسند ہیں“۔ آج (24فروری) گجرات کے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ دونوں کی تقریریں ہوئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں تعریفوں کا پل باندھا۔ پوری تقریر سننے کے بعد ہر کوئی یہی کہے گا کہ ”من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“ (تم میری تعریف کرو اور میں تمہاری تعریف کروں)۔ تقریر کے دوران ٹرمپ نے مودی کو بتایا کہ مودی نے ہندستان کو ہر لحاظ سے اوپر اٹھایا ہے اور ہندستان اور امریکہ کے تعلقات کو مضبوط و مستحکم کیا۔ مودی کو چائے والا کہتے ہوئے ٹرمپ نے کہاکہ ایک چائے والے یا چائے بیچنے والے (Tea Seller) کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ایک ارب تیس کروڑ انسانوں کی ترقی اور فلاح کیلئے کارہائے نمایاں انجام دیا۔ ہندستان کے بارے میں کہاکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور یہودی سب مل جل کر شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ یہاں مختلف مذاہب اور مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں لیکن اتحاد کا زبردست مظاہرہ ہندستان میں دیکھنے میں آتا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ نریندر مودی کے پانچ سال، آٹھ نومہینے کے دور کا نتیجہ کچھ ایسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ باہر کے لوگوں کو ملک میں بسانے اور اندر کے لوگوں کو باہر کرنے کیلئے سیاہ قانون مودی حکومت نے بنایا ہے۔ ہندستان کے دستور میں امتیاز اور تفریق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے جو مذہب، عقیدے، ذات پات یا کسی اور بنیاد پر کسی سے امتیاز برتاجاسکتا ہو۔ خود مودی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہاکہ ہندستان میں Unity in diversity (کثرت میں وحدت، تنوع میں اتحاد) ہے۔ حالانکہ اس اتحادکو جارحانہ قومیت کے ذریعے مودی اور ان کا پریوار پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہندستان بھر میں اس وقت مرد اور خواتین مودی حکومت کے بنائے ہوئے قانون CAA کے خلاف مزاحمت اور مخالفت کر رہے ہیں۔ دونوں مقررین نے ہندستان اور امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بتایا لیکن جہاں تک ہندستان کا حال ہے 2014ء میں اقتدار میں آتے ہی مودی جی نے ’کانگریس مکت بھارت‘ اور ’اپوزیشن مکت بھارت‘ نعرے لگائے۔ جمہوریت کا تصور اپوزیشن کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر کوئی حکومت اپوزیشن کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کو باقی رہنے دینا نہیں چاہتی۔ برسراقتدار پارٹی اس وقت ہندستان میں یہی کچھ کر رہی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب حکمراں جماعت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔کئی ریاستیں حکمراں جماعت کے اقتدار سے نکل چکی ہیں اور کئی ریاستیں نکلنے والی ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ٹرمپ کے دورے کے مقاصد میں سے ایک مقصدتو یہ بتایا تھا کہ ٹرمپ ہندستان میں مذہبی آزادی اور ’سی اے اے‘ این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ پر بھی گفتگو کریں گے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی گفتگو کریں گے لیکن ٹرمپ نے ان موضوعات کا ذکر کرنے سے پرہیز کیا اور مودی کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ ہندستان میں دس سال کے اندر معیشت نہایت مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہے اور دس سال میں یہاں سے غریبی ختم ہوجائے گی۔ شاید ٹرمپ بھول گئے کہ مودی کی حکومت کو دس سال نہیں ہوئے ہیں صرف پانچ سال چندمہینے ہوئے ہیں۔ وہ کہنا چاہتے تھے کہ مودی نے ہندستان کی معیشت کو اوپر اٹھایا ہے اور ہندستان میں دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں جبکہ ہندستان میں اس سے پہلے اس قدر معاشی بحران نہیں تھا۔ بے روزگاری کا حال یہ ہے کہ 45سال میں سب سے زیادہ ہندستان میں بے روزگاری ہے۔ مودی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ کسان پریشانی ہوکر خودکشی کر رہے ہیں۔ اسے اگر معیشت کا استحکام بتایا جارہا ہو تو کس قدر یہ بات حقیقت سے دور ہے ہر کوئی سمجھ سکتاہے۔ ٹرمپ اور مودی دونوں کومعلوم ہے کہ ہندستان کی معیشت کا حال برا ہے پھر بھی مودی کی حیثیت کو بہتر بتانے کیلئے ٹرمپ کسی وجہ سے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں، کیونکہ ٹرمپ کے پیش نظر امریکہ ہندستان کی دوستی یا مودی کی دوستی سے کہیں زیادہ امریکہ کے صدارتی انتخاب ہے۔ اس دورے کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ یہ ٹرمپ کا انتخابی دورہ ہے۔ مودی نے ہوسٹن میں ’ہاؤڈی موڈی‘ پروگرام میں انتخابی نعرہ لگایا تھا کہ ’دوسری بار ٹرمپ سرکار‘۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے سے پہلے احمد آباد کی جھگی جھونپڑیوں کو دیوار کھڑی کرکے چھپانے کی کوشش کی گئی۔ غریبی ہٹانے کے بجائے غریبی چھپانے کی کوشش شرمناک ہی کہی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پرجوش استقبال کو دیکھ کر مودی کی شان میں قصیدے پڑھے اور مودی نے بھی اپنے دوست ٹرمپ کی قصیدہ خوانی میں کوئی کمی نہیں کی۔ ٹرمپ نے ہندستان کے فرقہ پرستوں اور خاص طور پر سنگھ پریوار اور مودی کو خوش کرنے کیلئے اسلامی دہشت گردی کی بات کی۔ کہاکہ وہ اسلامی دہشت گردی کو دنیا سے نیست و نابودکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے اڈوں کو مسمار کرنے میں ان کی کوششیں بہت حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ ہندستان پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان سے بھی اپنی دوستی کا ذکر ضروری کیا لیکن ہندستان اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کے ذکر سے پرہیز کیا۔ ہندستان اورامریکہ کے تجارتی تعلقات، دفاعی رشتے کی مضبوطی اور استحکام کا بھی ذکر تقریر کے درمیان ٹرمپ باربار کرتے رہے۔ جس طرح ان کا والہانہ استقبال ہوا اس سے ہندستان کی امیری جھلکتی ہے لیکن امریکہ کا صدر ہو یا وہاں کا کوئی پڑھا لکھا ہوا جو معاشیات پر نظر رکھتا ہے وہ ہندستان کی غربت، افلاس، جہالت اوربیماری کے حال سے اچھی طرف واقف ہوتا ہے۔ اس سے دیواروں سے خواہ کتنی اونچی اور لمبی ہو چھپایا نہیں جاسکتا۔
کل(25فروری) ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کا خاندان تاج محل دیکھنے آگرہ پہنچے گا۔ تاج محل کی خوبصورتی اور حسن دیکھ کر یقینا وہ اور ان کا خاندان خوش ہوگا اور خوش ہونا بھی چاہئے کیونکہ تاج محل دنیا کے سات عجائب میں سے ہے لیکن جب تاج محل کی تعمیر ہوئی ہو گی تو ایک غریب انسان یا غریب کسان جو اس تاج محل کو دیکھ کرساحر کی زبان میں یہی کہہ رہا ہوگا ؎ ’اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر…… ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘۔
ٹھیک اسی طرح ٹرمپ کے دورہئ ہند کے موقع پر جس طرح ان کی گزرگاہوں کو سجایا گیا ہے اور موٹیرا اسٹیڈیم میں جس طرح ٹرمپ کا والہانہ استقبال کیا گیا اور اس پر کروڑوں کا جو شاہانہ خرچ کیا گیا ہے آج کا غریب کسان اور غریب ہندستانی یہی کہے گا کہ ’اک حکمراں نے وزارت کا سہارا لے کر…… ہم غریبوں کی غربت کا اڑایا ہے مذاق‘۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)