مصنف : حکیم وسیم احمد اعظمی
صفحات :160
قیمت:104روپے
ناشر:اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن
تبصرہ: محمد عدنان، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
خوش نویسان طب ایک جائزہ، حکیم وسیم احمد اعظمی صاحب کی تالیف ہے، حکیم صاحب ایک قابل قدر شخصیت اور ماہر طبیب بھی ہیں، ان کا تعلق صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڑھ سے ہے، دار العلوم دیوبند کے قدیم فاضل، تکمیل الطب کالج لکھنؤ سے (بی یو ایم ایس) اور کانپور یونیورسٹی سے اردو زبان و ادب میں ایم اے بھی ہیں، سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن (سی سی آر یو ایم)، وزارت آیوش، حکومت ہند نئی دہلی میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہونے کے علاوہ اور بھی متعدد عہدوں پر فائز ہیں، مختلف رسالوں کے مدیر، معاون مدیر ہونے کے ساتھ اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں بھی مقالات لکھتے رہتے ہیں اور تقریباً 9 انعامات و اعزازات سے نوازے جاچکے ہیں اور طب کے مختلف موضوعات پر 22 کتابوں کے مصنف بھی ہیں ـ
حکیم صاحب کی یہ کتاب طب کے ان خوش نویس کاتبوں کے سلسلے میں ہے جنھوں نے طب کی کسی کتاب کی اپنے ہاتھ سے کتابت کی ہےـ فن کتابت کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے، پہلے زمانے میں آج کی طرح کمپیوٹر کا استعمال نہیں ہوتا تھا لہذا کتابیں ہاتھوں سے ہی لکھی جاتی تھیں ، اسلام میں بھی اس فن کو بہت اہمیت دی گئی ؛ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کم وبیش چالیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید لکھنے کے لیےمقرر فرمایا تھا اور اس کی تحریر میں خوبصورتی اور کشش پیدا پیدا کرنے کے لیے کتابت کا فن وجود میں آیا اور کتابت کے لیے مختلف خطوط ایجاد کیے گئے جن میں خط کوفی، نسخ،رقعہ، نستعلیق، فارسی اور ثلث وغیرہ بہت مشہور ہیں، اس فن کو پروان چڑھانے میں عالم عرب کے بعد ترکی، مصر، ایران، ہندوستان اور پاکستان کے خوش نویسوں کا بڑا ہاتھ ہے، ان ملکوں نے بڑے بڑے خطاط پیدا کیے ہیں ـ
مصنف موصوف نے اس کتاب میں صرف فن طب کے خطاطوں کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس کو بیان کرنے میں الف بائی ترتیب اختیار کی ہےاور خطاطوں کا تذکرہ بھی بڑے انوکھے انداز میں پیش کیا ہے؛ چنانچہ پہلے خطاط کا نام جلی حروف میں لکھا ہے،پھر مصنف کا نام، اگر ان کی تاریخ وفات معلوم ہے تو اسے بھی ذکر کیا ہے، اس کے بعد کتاب کا نام قلم بند کرنے کے بعدکتابت کس خط میں کی گئی،اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے،بطور مثال چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:
(1)”عثمان بن محمود :انھوں نے ابن سینا، الشیخ الرئیس ابو علی الحسین بن عبداللہ (وفات :428 ہجری /1037 عیسوی) کی تالیف القانون فی الطب کی کتابت خط نسخ میں 946 ہجری میں کی ہے، شہید علی میں اس کا اندراج 2078 کے تحت ہےـ”
(2)”الحکیم مہدی :انہوں نے ابوالفتاح بن اسماعیل الحسینی اللکھنوی کی کتاب الفتاحی کی کتابت خط نسخ میں 1094 ہجری 1683 عیسوی میں کی ہے. رام پور رضا لائبریری میں اس کا اندراج ایکسیشن نمبر 1318 ڈی کے تحت ہےـ”
(3)”حافظ احمد :انھوں نے ادریس بن حسام الدین علی البدلیسی (وفات :930ہجری /1524 عیسوی) کی تالیف رسالةالاباء عن مواقع اوباء کی کتابت خط نسخ میں 1187ہجری کی ہے، عاشر آفندی میں اس کا اندراج 2/275 کے تحت ہےـ”
ان نمونوں سے کتاب کے اسلوب کا پتا چل جاتا ہےـ خطاط اور مصنف کا نام لکھنے میں اس بات کی بھی رعایت کی گئی ہے کہ جہاں ان کا پورا نسب ملا اسے قلم بند کردیا گیا جیسے:”احمد ابی السعادات بن عمر بن ابراہیم بن محمد بن عبد العزیز بن محمد العبادی”، مصنف کا نام جیسے :ابوسعید بن ابی السرور بن العفیف الاسرائیلی العسقلانی المتطبب الساوی "اور کہیں کہیں صرف نام سے ہی کام چلایا گیا ہے جیسے :” احمد "،” احمد بک”،” حافظ قلندر "وغیرہ، اسی طرح مصنف کی تاریخ وفات ہجری اور عیسوی دونوں اعتبار سے قلم بند کی گئی ہےـ
کتاب میں تقریباً 700 خطاطوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس کی مراجعت میں ہندوستان اور ترکی کے کتب خانوں کا احاطہ کیا کیا گیا ہے؛ مگر دو مراجع بہت اہم ہیں (1) 1984 میں طبی مخطوطات پر سیمینار میں پڑھے گئے مقالات، جسے ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری اور انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈ میڈیکل ریسرچ ہمدرد نگر، نئی دہلی کے اشتراک سے کروایا تھا، دوسرا اہم مرجع ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلی کی کتاب "فہرس المخطوطات الطبیة الاسلامیة باللغات العربیة و الترکیة و الفارسیة فی مکتبات ترکیة” ہے
یہ کتاب اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں تقریباً سات سو خطاطوں کا تذکرہ ہے ؛ مگر اس اعتبار سے نامکمل بھی ہے کہ اس میں ان خطاطوں کے سوانحی حالات شامل نہیں ہیں اور اس کی وجہ بقول مصنف ان کے احوال و کوائف کی عدم دستیابی ہےـ
کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے، ٹائٹل خوب صورت ہےاورطباعت بھی معیاری ہے۔امیدہے کہ اہلِ فن خصوصاً طب پر ریسرچ کرنے والے طبقے میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)