وزیر احمد مصباحی (بانکا)
جامعہ اشرفیہ مبارک پور
رابطہ نمبر:6394421415
واقعی یہ کتنا بھیانک منظر ہے نا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا میں کورونا جیسی خطرناک وبا سے نپٹنے اور انسانیت کو بچانے کی باتیں ہو رہی ہیں،اس کے متعلق طرح طرح کی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں اور مختلف ڈاکٹروں کے ذریعے گونا گوں فرامین نشر کیے جارہے ہیں،مگرمیڈیائی بیان کے مطابق ہمارے اپنے ملک میں کورونا نے بڑی چالاکی سے اسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لیا ہے۔کیا حالات و واقعات سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ اس کورونا نے چین سے سفر ہی اسی لیے کیا تھاکہ وہ ہندوستان میں جاکر اسلام کے دامن میں پناہ لے لے؟
نفرتوں کے ملکی میڈیائی سوداگر جس طرح دو تین روز سے نظام الدین کے تبلیغی مرکز کے حوالے سے خبر چلا رہے ہیں اس سے اندازہ لگتا ہے کہ کورونا نے اب اپنا بوریا بستر مکمل طور سے یہیں ڈال دیا ہے۔دراصل بکاؤ میڈیا کے یہاں شاہین باغ کے بعد کوئی ایسا ایشو بچا ہی نہیں تھا جس کے سہارے وہ ہندو مسلم کا کھیل کھیل سکتے۔ تقریباً ایک ہفتے سے سناٹا سا چھایا ہوا تھا کہ اسی دوران اسے اس بات کی خبر مل گئی کہ کورونا کا مرکز "نظام الدین کا تبلیغی مرکز” ہے۔کچھ دلالوں نے تو کورونا وائرس کے بجائے "نظام الدین وائرس کا خوف”کے عنوان سےہیڈلائن تک چلا دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اس بھیانک وقت میں بھی ہمارا ملک ہندو مسلم منافرت کی چپیٹ میں ہے۔نیوز چینلوں پر طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اینکرز بھید بھاؤ کی روٹی سینکنے میں ایک قدم بھی پیچھے ہٹتے ہوئے نظر نہیں آرہے، بلکہ برابر اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس لاک ڈاؤن کے درمیان کورونا کا خوف کیے بغیر ہی یوپی کا وزیراعلیٰ اپنے گروہ کے ساتھ ایودھیا مندر کا شیلانیاس کرنے پہنچ جاتا ہے،مگر اس پر کوئی بھی میڈیا ڈیبیٹ کی محفل نہیں سجاتا اور نہ ہی یوگی جی کی اس حرکت کو حکومت کے خلاف گردانتا ہے۔مدھیہ پردیش اراکین اسمبلی میں اُلٹ پھیر کرکے حکومت تشکیل کی خاطر محفل سجائی جاتی ہے اور خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے مگریہ نفرتوں کے سوداگر بالکل خاموش بت بنے بیٹھے رہتے ہیں۔جموں کے وشنو دیوی مندر میں چار سو لوگ اور نوئیڈا کی کسی کمپنی میں پھنسے ہوئے 31 ملازمین کورونا کے پوزیٹیو مریض پائے جاتے ہیں،مگر یہ ان کے خلاف زہر اگلنے کے بجائے بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔ہاں! اگر ان لوگوں کا غصہ کسی پر اترتا ہے تو وہ نظام الدین کا تبلیغی مرکز ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسے "کورونا مرکز” بنانے میں بالکل کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دراصل نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں ہر وقت لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے۔یہ صرف کورونا کا معاملہ نہیں ہے کہ اس وقت تبلیغی جماعت کے افراد وہاں موجود تھے۔بلکہ یہ معاملہ بہت پہلے سے چلا آ رہا تھا۔اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ لوگ پھنس گئے۔اس کی خبر دہلی حکومت کے ساتھ ساتھ پولیس انتظامیہ تک کو بھی تھی کہ لوگ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔مگر حکومتی اہلکار نے ان پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے میں کوئی مدد نہیں کی۔اس مرکز کے سربراہ نے کچھ بسوں کا انتظام بھی کیا تھا مگر حکومت کی طرف سے اجازت ملنے سے قبل ہی یہ طوفان کھڑا ہوگیا اور اسلام و مسلمانوں کو بد نام کرنے میں ان میڈیا والوں نے زبردست کردار ادا کیا۔اب کیا تھا۔حکومت نے بھی اس کی پیٹھ تھپتپائی اور اس کے سربراہ پر ایف آئی آر درج کرنے کا فرمان جاری کردیا۔اب تو یہ بکاؤ میڈیا برابر اس بات کو بھی بڑی شدومد کے ساتھ چلارہاہے کہ یہ لوگ نظام الدین مرکز میں چھپے ہوئے تھے جب کہ مندروں میں لوگ پھنسے ہوئے تھے۔
ان ساری چیزوں کے درمیان یہ پہلو بھی کتنا خطرناک ہے نا کہ اس وقت جب کہ دشمن ہمارے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے تک نہیں دیتا،قوم مسلم ایک دوسرے کو کوسنے اور برا بھلا کہنے ہی میں مصروف ہے۔آپ اس وقت سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں ایسے ہزاروں افراد ہیں جو جماعت میں نکلنے والے ان تبلیغیوں کو برا بھلا کہ رہے ہیں۔وہ اس بات پر واہ واہ کر رہے ہیں کہ "یہ ہماری جماعت کے تو نہیں ہیں۔ ٹھیک کیا جو میڈیا والوں نے ان کے خلاف مہم چھیڑ دی اور ان کا گھناؤنا چہرہ سماج کے سامنے لادیا”ہائے افسوس!!! کیا یہ وقت اسی طرح کے الفاظ بکنے کا ہے ، جب کہ مسلم دشمن عناصر ڈاڑھی و ٹوپی کے نام پر ہمیں اور اسلام کو بد نام کرنے کی مکمل تیاری کر چکے ہیں؟۔نہیں،ہرگز نہیں۔بلکہ یہ وقت دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان بے چاروں کی حمایت میں آگے آنے کا ہے۔یہ بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ آج اگر آپ اس طرح تبلیغی جماعت پر لگائے گئے بیجا الزام کو دھونے اور میڈیا کے گھناؤنےچہرے کو بے نقاب کرنے میں کوشش کریں گے تو درحقیقت آپ کا یہ کام خود اپنی حفاظت وصیانت کے لیے ہوگا۔ ورنہ کل کو جا کر ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگ اس طرح کی زیادتیوں کے شکار ہوجائیں،انھیں اسلام اور مسلمانوں کے لیے بدنامی کا سبب بتایا جانے لگے تو آپ کی مدد کے لیے اور آپ کی حمایت میں کوئی بھی آواز بلند نہ کرےاور آپ بیچ میدان میں کفِ افسوس ملتے رہ جائیں۔
یقیناً اس وقت جو نظام الدین مرکز میں پھنسے ہوئے لوگوں پر طنز و مزاح کے جملے کس رہے ہیں وہ خود اپنی نادانی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔یاد رکھیں! دشمن یہ دیکھ کر وار نہیں کرتا کہ یہ تبلیغی جماعت کے لوگ ہیں اس لیے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیجیے اور یہ لوگ اہل سنت والجماعت، دیوبندی وہابی یا جماعت اہل حدیث کے افراد ہیں اس لیے انھیں چھوڑ دیا جائے۔
محترم قارئین!یہ وقت ہے دشمن کی چالوں کو سمجھنے کا، دفاع کرنے کا اور بنام مسلمان متحد ہونے کا۔ آپ کو اندراگاندھی کے دور حکومت میں انجام دیا گیا مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن عباسی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کارنامہ ضرور یاد رہنا چاہیے کہ اس وقت بھی جب ایمرجنسی (١٩٧٥ تا ١٩٧٧)کے آغاز میں جماعت اسلامی ہند پر پابندی عائد ہوئی تو مجاہد ملت نے اس کے برخلاف شدید احتجاج فرمایا تھا۔مولانا وارث جمال صاحب لکھتے ہیں:
’’’ ایمرجنسی (۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۷ء) کے آغاز میں ،جماعتِ اسلامی ہند پر، پابندی لگی۔تو، مجاہد مِلَّت، ممبئی تشریف لائے اور ’’آل انڈیاتبلیغِ سیرت‘‘ کی جانب سے شدید احتجاج کیا۔ ہانڈی والی مسجد (ممبئی ) میں، مجھے (وارث جمال قادری ) بلایا اور الگ لے جا کر، کہنے لگے:
مولوی صاحب ! سنا ہے کہ تم، لکھنا جانتے ہو ۔توایسا کرو کہ:
ایک خط، آل انڈیا تبلیغِ سیرت کی طرف سے ،وزیر اعظم ،مسز ،اندرا گاندھی کے نام
اِس مفہوم کا، اپنے طور پر لکھ کر، ابھی ابھی ،میرے پاس لاؤ۔
میں نے ،ادب کے ساتھ ،عرض کیا کہ ،حضور !
یہ ’’جماعت اسلامی ‘‘ تو ، ’’وہابیوں‘‘ کی جماعت ہے۔
اس کے لئے آپ کو ،اور ہمیں، پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
بھگتنے دیجیے، انھیں کو۔ اچھا ہوا، جو، حکومت نے پابندی لگا دی، کچھ تو، زور کم ہوگا ان کا۔
اورآپ ہیں کہ، پوری جماعت کے ساتھ، اس کے لیے، احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔
مجاہدِ مِلَّت مسکرا کر، فرمانے لگے:
مولوی صاحب ! ابھی ،بچے ہو۔ وقت، تمہیں سمجھا دے گا۔
ہمارا ،یہ احتجاج ،در حقیقت ’’جماعت اسلامی ‘‘ کے لیے نہیں۔
بلکہ ’’خاک سارانِ حق‘‘ اور ’’آل انڈیا تبلیغِ سیرت‘‘ کے لیے ہے۔
اِسی مرحلے میں، حکومت کو، نہیں روکا گیا تو ،اس کے بعد :
’’خاک سارانِ حق‘‘ کی باری آئے گی۔ پھر’’تبلیغِ سیرت‘‘ کے گلے میں، پَھندا ڈالا جائے گا۔
مولوی صاحب !’’خاک سارانِ حق‘‘ حکومت کی نظر میں، بہت زیادہ کھٹکنے لگی ہے۔
اور،بڑے بڑے جُغادری لیڈروں کی زبان پر، اس کانام آنے لگا ہے۔
ابھی، فیروز آباد فساد(اترپردیش) میں، جو، پی اے سی سے کنٹرول،نہیں ہو رہا تھا، بلکہ، وہ جانب دارانہ رول ادا کر رہی تھی، اُسے ’’خاک سارانِ حق‘‘ نے کنٹرول کیا اور پی اے سی کو، جانب داری برتنے سے، بزورِ طاقت ،روک دیا ۔جس سے مسلمانوں کو ،بڑا تحفظ ملا ۔
وزیر اعظم ، مسز اندرا گاندھی نے اس پر ’’خاک سارانِ حق‘‘ کا شکریہ ادا کرنے ، شاباشی دینے کے بجائے، آل انڈیا ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے فیروزآباد فساد کا، ذِمَّہ دار ’’خاک سارانِ حق‘‘ کو ٹھہرایا، جس پر، ہمارے کان ،اُسی وقت ،کھڑے ہوگئے تھے۔
لِہذا، ایسی صورت میں ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کے لیے حکومتِ ہند کے خلاف احتجاج، اور ضروری ہو جاتا ہے۔
ورنہ، ایک ایک کرکے ،سبھی جماعتوں پر، حکومتِ ہند ،پَھندا کستی چلی جائے گی۔” (ص ۴۰۔ ماہنامہ، کنزالایمان۔ دہلی ۔شمارہ محرم و صفر ۱۴۲۵ھ ۔مطابق، مارچ ۲۰۰۴ء)
یقیناً ایسے وقت میں ان لوگوں کو مجاہد ملت کی اس سیاسی بصیرت و قیادت سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے اور ان پھنسے ہوئے مسافروں کو کوسنے کے بجائے بکاؤ میڈیا کے گھناؤنا چہرے کو سماج کے سامنے لانا چاہئے۔جی ہاں! ایسے پرخطر وقت میں حکومت سے بھی گزارش ہے کہ براہ کرم حکومت اس معاملے میں عدل و انصاف سے کام لے، مرکز کوبدنام کرنے کی بجائے ان میڈیا والوں پر لگام لگائے جو ڈیبیٹ کی محفل سجا کر ہندو مسلم کا شرمناک کھیل کھیلتے ہیں۔ساتھ ہی اپنی ناکامی چھپانے کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی پناہ میں آنے کے بجائے کورونا سے لڑے اور نظام الدین مرکز میں پھنسے ہوئے لوگوں کی ہر ممکن مدد کرے۔ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب وطن عزیز ہندو مسلم کی بھیانک آگ میں مزید جھلس کر اپنی خوبصورتی کھو بیٹھے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات کی بنیاد پر قندیل کاان سے اتفاق ضروری نہیں)