حیدرآباد:مولانا ابوالکلام آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم ملک میں تعلیم کی مستحکم بنیاد رکھی۔ انہوں نے 14 برس تک لازمی اور مفت تعلیم، لڑکیوں کی تعلیم، پروفیشنل ، تکنیکی تعلیم، ریسرچ پر توجہ دی۔ انہوں نے یو جی سی، آئی آئی ٹی، ساہتیہ اکیڈیمی، سنگیت کلا اکیڈیمی اور دیگر اہم ادارے قائم کیے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں انہیں موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر چاند کرن سلوجا، ڈائرکٹر سنسکرت پروموشن فائونڈیشن، نئی دہلی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ اساتذہ کے سلسلے میں منعقدہ ویبنار میں پہلا خصوصی لکچر دیتے ہوئے کیا۔ ’’نئی تعلیمی پالیسی -20 کی روشنی میں اساتذہ کا بدلتا رول‘‘ کے عنوان سے شعبۂ تعلیم و تربیت نے ویبنار کا انعقاد کیاتھا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ پروفیسر صدیقی محمدمحمود، رجسٹرار انچارج نے خیر مقدم اور موضوع کا تعارف کروایا۔ پروفیسر سلوجا نے بتایا کہ مولانا آزاد نے کہا تھا کہ تعلیم کا مقصد تنگ نظری کو دور کرنا ہے۔ بطور خاص مولانا نے فنون پر توجہ دی۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فنون شناس اور کھلے ذہن کے ساتھ تعلیم انسان کو دماغی، سماجی اور نظریاتی ترقی فراہم کرتی ہے۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے صدارتی خطاب کے دوران کہا کہ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر تعلیم پر توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان تعلیمی میدان میں بہت زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔ اردو یونیورسٹی اس تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی اپنی کوشش میں لگی ہوئی ۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 بطور خاص طلبہ کو مرکزیت دی گئی ہے۔ اس لیے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کو بہتر سے بہتر تعلیم فراہم کریں۔ آج کا تعلیمی نظام مولانا آزاد کے نظریات پر مشتمل ہے۔ مولانا آزاد کے افکار جیسے مادری زبان میں تعلیم، لازمی تعلیم، لڑکیوں کی تعلیم وغیرہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں استفادہ کیا گیا ہے۔ اس لیے ہم بلا مبالغہ مولانا آزاد محض ماہر تعلیم نہیں تھے بلکہ مفکرِ تعلیم تھے۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے لیے کئی ماہرین کی آراء سے استفادہ کرتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ اساتذہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مادری زبان میں تعلیم ہوتو بچہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے، اس کو انگریزی میں بھی مہارت دلانے کی کوشش کرے۔ ڈاکٹر عبدالکریم عبدالمجید سالار، اقراء ایجوکیشن سوسائٹی، جلگائوں، مہاراشٹرا نے دوسرے خصوصی لکچر میں کہا کہ قدیم زمانے میں جو طاقتور ہوتا وہی سردار ہوا کرتا تھا۔ بعد میں دولت حکومت کے لیے ضروری رہی لیکن آج وہی حکومت کرتا ہے جس کے پاس علم اور ٹکنالوجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس کی استاد کی ضرورت سے ملا۔ انسان کو ابتداء سے ہر چیز سکھانی پڑتی ہے اور اسے استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو پہلے اس کی ماں پھر اس کے دار رشتہ اور پھر ٹیچر پورا کرتے ہیں۔ انہوں نے استاد کو طلبہ کو تیار کرنے والی ’’ڈائی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس میں نقص ہوتو پھر اس راست اثر تعلیم پر پڑتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا قول نقل کیا جس میں انہوں نے کہا تھا اچھا ٹیچر وہ نہیں جو بہت اچھا پڑھاتا ہو بلکہ وہ ہے جو بچے کو پڑھنے کے قابل بنائے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمودنے خیرمقدمی خطاب میں کہا کہ اساتذہ کو قوم ساز کہا جاتا ہے۔ دیگر پروفیشنلس بھی قوم کی تعمیر میں تعاون کرتے ہیں لیکن اساتذہ کو ہی قوم ساز کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ محض تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ طلبہ کو بہتر انسان بنانے کے لیے تربیت بھی کرتے ہیں۔ جو بہتر انسان ہوگا وہ بہتر پروفیشنل بھی ہوگا۔ انہوں نے کویڈ 19 وباء کے دوران ڈاکٹروں اور دیگر پیشہ ور افراد کا ذکر کیا جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگاکر اس برے وقت میں قوم کی خدمت کی۔
یومِ اساتذہ کے سلسلے میں یونیورسٹی کے سابق اساتذہ پروفیسر ایس اے وہاب، پروفیسر آمنہ کشور، پروفیسر خالد سعید، پروفیسر سید شاہ محمد مظہر الدین فاروقی ، پروفیسر فاطمہ بیگم اور پروفیسر گھنٹہ رمیش کو یادگاری تحفے اور تہنیتی مکتوب بھیجے گئے جسے جناب محمد مصطفی علی سروری، اسوسیئٹ پروفیسر، شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت کی سرپرستی میں یونیورسٹی الومنائی اسوسی ایشن کے صدر جناب اعجاز علی قریشی، جناب ایوب خان، جنرل سکریٹری اور دیگر نے ان تک پہنچائے اور ان کے ویڈیو پیامات ویبنار کے دوران انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کے تعاون سے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر وقار النساء، اسوسیئٹ پروفیسر نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر اختر پروین، اسسٹنٹ پروفیسر نے پروفیسر سلوجا کا اور محترمہ رابعہ اسمٰعیل نے ڈاکٹر عبدالکریم کا تعارف پیش کیا۔ شہباز احمد کی تلاوت کلام پاک سے ویبنار کا آغاز ہوا ۔ ڈاکٹر اشونی اسوسیئٹ پروفیسر و کنوینر ویبنار نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد مشاہد، صدر شعبۂ تعلیم و تربیت نے انتظامات کی نگرانی کی۔ ڈاکٹر محمد کامل، ڈائرکٹر انچارج مرکز برائے آئی ٹی ویبنار کے انعقاد میں حصہ لیا۔
manuu
میرٹ کی اساس کے کورسز میں داخلے کی آخری تاریخ 30؍ ستمبر
حیدرآباد:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی داخلوں کے انٹرنس ٹسٹ کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج کی اطلاع کے بموجب کویڈ 19 وباء کے پیش نظر انٹرنس ٹسٹ جو 19 اور 20؍ ستمبر کو مقرر تھے ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ نئے آن لائن شیڈیول کی متعاقب اطلاع دی جائے گی جو یونیورسٹی ویب سائٹ manuu.edu.in پر بھی دستیاب ہوگی۔ واضح رہے کہ میرٹ کی اساس پر داخلے جاری ہیں۔ اس میں آن لائن فارم داخل کرنے کی توسیع شدہ آخری تاریخ 30؍ ستمبر ہے۔ یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام ( اردو، انگریزی، ہندی، عربی،مطالعات ترجمہ ،فارسی ؛ مطالعات نسواں، نظم و نسق عامہ، سیاسیات،سوشل ورک، اسلامک اسٹڈیز، تاریخ، معاشیات، سماجیات؛ صحافت و ترسیل عامہ؛ ایم کام اور ایم ایس سی،ریاضی) ؛ انڈر گریجویٹ پروگرامس میں بی اے، بی اے(آنرس) – جے ایم سی، بی کام، بی ایس سی (ریاضی،طبیعات،کیمیا۔ایم پی سی)، بی ایس سی(ریاضی،طبیعات،کمپیوٹر سائنس،ایم پی سی ایس) اور بی ایس سی (حیاتی علوم – زیڈ بی سی)؛ بیچلر آف ووکیشنل کورسس کے تحت میڈیکل امیجنگ ٹکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور میڈیکل لیبارٹری ٹکنالوجی (ایم ایل ٹی)؛ مدارس کے فارغ طلبہ کے لیے برائے داخلہ انڈر گریجویٹ (بی کام/ بی ایس سی) اور پالی ٹیکنک پروگرامس کے لیے برج (رابطہ) کورسز میں داخلے دیئے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں لیٹرل انٹری کے تحت بی ٹیک اور پالی ٹیکنیک میں اہل طلبہ کو راست داخلے اور پی جی ڈپلوما ان ریٹیل مینجمنٹ اور جزوقتی ڈپلوما پروگراموں میں اردو ، ہندی، عربی، فارسی اور اسلامک اسٹڈیز،تحسین غزل و اردو میں سرٹیفکیٹ کورس بھی دستیاب ہیں۔
خان لطیف خان کو اردو یونیورسٹی کا خراج،اردو صحافت رجحان ساز مدیر سے محروم:پروفیسر رحمت اللہ و پروفیسر محمود صدیقی
حیدرآباد:مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے وائس چانسلرانچارج پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے خان لطیف محمدخان‘ ایڈیٹرانچیف روزنامہ منصف‘ حیدرآ باد کے سانحہ ارتحال پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تعزیتی پیام میں موصوف کی اردو صحافت کے لیے گراں قدر خدمات کو خراج پیش کرتے ہوئے انہیں رجحان ساز مدیر قرار دیا اور کہا کہ روزنامہ منصف کے احیا کے ذریعے مرحوم نے اردو صحافت کو نئی سمت عطا کی۔ جناب خان لطیف خان نے اردو اخبارات کو ملٹی کلر اشاعت سے آراستہ کیا اور مختلف موضوعات پر ہفتہ واری سپلیمنٹ کا آغاز کیا۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود‘ رجسٹرار انچارج نے اپنے تعزیتی بیان میں اردو یونیورسٹی سے مرحوم کے تعلق خاطر کا تذکرہ کیا۔ 2006 میں یونیورسٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر وہ بحیثیت مہمانِ خصوصی شریک ہوئے اور لیکچر دیا۔ مرحوم نے پیشہ ور اردو صحافیوں کی تیاری کی حوصلہ افزائی کے لیے اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ وصحافت کے ٹاپرس کو خان لطیف خان گولڈ میڈل دینے کا آغاز کیا تھا ۔ جناب خان لطیف خان نے بالخصوص اردو یونیورسٹی کے ابتدائی ایام میں جس انداز میں یونیورسٹی کی خبروں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرتے ہوئے غیر معمولی تعاون کا مظاہرہ کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ تعاون کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پروفیسر رحمت اللہ اور پروفیسر محمود صدیقی نے مرحوم کی مغفرت اور لواحقین کو صبر جمیل کی دعا کرتے ہوئے غمزدہ ارکانِ خاندان و منصف ارکان سے دلی تعزیت ظاہر کی۔
حیدرآباد:مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی نے انٹرنس کے ذریعہ داخلے کے مختلف کورسز میں آن لائن درخواست داخل کرنے کی آخری تاریخ میں 10 جولائی تک مزید توسیع کی ہے۔ اس سے قبل آخری تاریخ 20جون تک بڑھا دی گئی تھی۔امیدواروں کو11 تا 15 جولائی درخواستوں میں ایڈیٹنگ کی سہولت رہے گی۔ پروفیسر ایم وناجا، ڈائرکٹر نظامت داخلہ کے بموجب درخواست گذاروں اور اولیائے طلبہ کی نمائندگی اور موجودہ حالات کے پیش نظر داخلہ کی تاریخ میں مزید توسیع کی گئی ہے۔ انٹرنس ٹسٹ اور کونسلنگ کی تواریخ بھی تبدیل کردی گئیں ہیں۔ نئی تواریخ کا متعاقب اعلان کیا جائے گا۔ انٹرنس کے ذریعہ داخلہ دئے جانے والے کورسز میں پی ایچ ڈی اردو، انگریزی، ہندی، عربی ،فارسی، مطالعات ترجمہ ؛ مطالعات نسواں، نظم و نسق عامہ،سیاسیات، سوشل ورک، اسلامک اسٹڈیز، تاریخ، معاشیات،سماجیات؛ تعلیم؛ صحافت و ترسیل عامہ؛ مینجمنٹ، کامرس؛ ریاضی، طبیعات، کیمیا، نباتیات، حیوانیات؛ کمپیوٹر سائنس، ایس ای آئی پی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر انٹرنس کی اساس کے کورسز میں پوسٹ گریجویٹ پروگرامس میں ایم بی اے؛ ایم سی اے ، ایم ٹیک (کمپیوٹرسائنس) اور ایم ایڈ؛ انڈر گریجویٹ پروگرامس ( بی ایڈ اور بی ٹیک (کمپیوٹر سائنس) )اور پیشہ ورانہ ڈپلوما ایلمنٹری ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) و نیز پالی ٹیکنک کورسس سیول انجینئرنگ ، کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ ، الیکٹرانکس اینڈ کمیونی کیشن انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹکنالوجی، میکانیکل،الیکٹریکل و الیکٹرانکس انجینئرنگ شامل ہیں۔ تمام کورسس کا ذریعہ تعلیم اور امتحان صرف اردوہے۔یونیورسٹی کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ کالجس آف ٹیچر ایجوکیشن بھوپال(مدھیہ پردیش)، دربھنگہ(بہار) میں بی ایڈ، ایم ایڈ اور پی ایچ ڈی ان ایجوکیشن؛ کالجس آف ٹیچر ایجوکیشن آسنسول(مغربی بنگال)، اورنگ آباد (مہاراشٹرا)، سنبھل (اترپردیش)، نوح (ہریانہ) اور بیدر (کرناٹک) میں بی ایڈ دستیاب ہے۔ پالی ٹیکنیک کورسز میں سیول انجینئرنگ؛ کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ، الیکٹرانکس اینڈ کمیونی کیشن انجینئرنگ کے ڈپلوما دربھنگہ۔بہار اور بنگلورو۔ کرناٹک میں دستیاب ہیں۔ جبکہ سیول انجینئرنگ،میکانیکل انجینئرنگ، الیکٹریکل اور الیکٹرانکس انجینئرنگ، کڑپہ۔آندھراپردیش اور کٹک۔اڈیشہ میں دستیاب رہیں گے۔ تمام درخواست گزاروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کم از کم دسویں /بارہویں میں اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرچکے ہوں یابحیثیت زبان یا مضمون، اردو کامیاب ہوں یا مصرحہ مدرسوں سے فارغ ہوں جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہو۔ تمام پروگراموں کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ درخواستیں یونیورسٹی ویب سائٹ manuu.edu.in پر صرف آن لائن ہی قبول کی جائیں گی۔ تفصیلات یا کسی وضاحت کے لیے نظامت داخلہ کو [email protected] پر ای میل کریں۔ایس سی /ایس ٹی/اوبی سی/معذور/ ای ڈبلیو ایس امیدواروں کے مختلف پروگراموں میں داخلے کیلئے تحفظات حکومت ہند کے ضوابط کے مطابق رہیں گے۔ یونیورسٹی میں ہاسٹل کی محدود گنجائش فراہم ہے۔
حیدرآباد:طنزو مزاح سے مشکل اور باریک کوئی صنف سخن نہیں ہے۔ زندگی کو صحیح طریقے سے برتنے اور زبان کو صحیح طریقے سے برتنے کا ہنر سب سے پہلے طنزومزاح میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں طنزومزاح کی آبرو مجتبیٰ حسین تھے۔ مجتبیٰ حسین کا جانا اردو ادب کے لیے جتنا بڑا نقصان ہے ، خود میرے لیے بھی اتنا ہی بڑا نقصان ہے۔ ان خیالات کا اظہار عصر حاضر کے سر بر آوردہ ادیب، دانشور اور نقاد جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے بزم ادب، شعبہ اردو، مانو کی جانب سے کل مجتبیٰ حسین کی یاد میں منعقدہ ویبنار کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجتبیٰ سے میری دوستی پچاس برس سے زیادہ پرانی تھی اور ان پچاس برسوں میں شاید ہی کبھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہو جب ہمارے درمیان کسی غلط فہمی کا امکان ہوا ہو۔ وہ دوست دار بہت تھے۔ وہ سب کا خیال رکھتے تھے۔ وہ عجیب شخص تھا، پرانے زمانے کی تہذیب والا، لوگوں کاخیال کرنے والا، حفظِ مراتب رکھنے والا۔ میں اب تک ان کے جانے کے صدمے سے عہدہ بر آ نہیں ہوپایا ہوں۔ ان کی نثر نہایت شگفتہ ہوتی تھی اورطرزِ بیان نہایت سلجھا ہواتھا۔ وہ بے خوف ہوکر اپنی بات کہتے تھے لیکن دل آزاری سے بچتے تھے۔
ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور ادیب پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ مجتبیٰ حسین ہندوستان کے سب سے مقبول مزاح نگار تھے۔ ان میں غیر معمولی صلاحیت تھی۔ ان کی طبیعت میں شگفتگی تھی جو ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک اچھا دوست کھو دیا۔
ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ افسانہ نگار اور نقاد پروفیسر بیگ احساس نے مجتبیٰ حسین سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آخری عمر میں وہ بیماری اور تنہائی سے دل شکستہ ہو گئے تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ شہر میں آپ کے علاوہ کوئی بچا نہیں جس سے میں بات کر سکوں۔ بیگ احساس صاحب نے ان کی شخصی خوبیوں اور ادبی کمالات پر بھی گفتگو کی۔
اس ویبنار کی صدارت صدر شعبہ اردو اور ڈین اسکول آف لینگویجز پروفیسر نسیم الدین فریس نے کی۔ انھوں نے مجتبیٰ حسین کو ایک منفرد ادیب، مخلص انسان اور حیدرآبادی تہذیب کا مثالی نمائندہ قرار دیا۔
اس موقع پر شعبے کے اساتذہ پروفیسر فاروق بخشی ، ڈاکٹر شمش الہدیٰ دریابادی ، ڈاکٹر مسرّت جہاں ، ڈاکٹر ابو شہیم خاں، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ، اور سیٹلائٹ کیمپس لکھنو کے استاد ڈاکٹرعمیر منظر نے بھی مجتبیٰ حسین کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
شعبے کے طلبہ و طالبات زیبا بختیار، شمائلہ شاہین، محمّد ریاض اور شیخ اسماءامروز نے مجتبیٰ حسین کی خدمات پرمضامین پیش کیے۔
اس ویبنار کا انعقاد شعبے کے استاد ڈاکٹر فیروز عالم کی نگرانی میں ہوا۔ اس کی نظامت بزم ادب کے معاون کنوینر محمّد شبلی آزاد نے کی اور بزم ادب کی کنوینر شیخ اسماءامروز نے شکریہ ادا کیا۔ شعبے کے تمام ریسرچ اسکالرس اور طلبہ نے بھی شرکت کی۔
پروفیسرایوب خان کی سبکدوشی،پروفیسر فاطمہ بیگم مانو کی نئی انچارج وائس چانسلر
حیدرآباد:پروفیسر ایوب خان نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کارگذار شیخ الجامعہ کے عہدہ سے آج سبکدوشی اختیار کرلی۔پرفیسرفاطمہ بیگم(شعبہ تعلیم و تربیت) نے ان کی جگہ یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر کی حیثیت سے عہدہ کا جائزہ حاصل کرلیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار انچارج کی اطلاع کے بموجب پروفیسر ایوب خان نے نجی وجوہات کی بنا پر سبکدوشی اختیار کی ہے اوروہ واپس شعبۂ ریاضی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے رجوع ہوں گے۔ اپنے اعزاز میں آج کانفرنس ہال میں منعقدہ ایک مختصر وداعی تقریب کو مخاطب کرتے ہوئے پروفیسر ایوب خان نے مانو میں گذارے ہوئے ایام کو یاد گار قرار دیتے ہوئے غیر معمولی تعاون پر اساتذہ، طلبہ اور غیر تدریسی عہدیداروں و عملے کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر ایوب خان نے 27؍مارچ 2019 کو بحیثیت پرووائس چانسلر، اردو یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کی تھی۔وہ 28 ؍فروری 2020 کو ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی سبکدوشی کے بعد سے انچارج وائس چانسلرکی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔پروفیسر رحمت اللہ نے وداعی تقریب میں پروفیسر ایوب خان کی شال پوشی کی اور یادگاری تحفہ پیش کیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس ، پروفیسر علیم اشرف جائسی، پروفیسر نوشاد عالم، پروفیسر احتشام احمد خان، پروفیسر محمد ظفر الدین، پروفیسر ایم وناجا، پروفیسر عبدالواحد، پروفیسر افروز عالم، ڈاکٹر اختر پرویز، ڈاکٹر محمد کامل اور جناب ہاشم علی ساجد نے مخاطب کرتے ہوئے مختصر وقفہ میں نمایاں خدمات پر پروفیسر ایوب خان کی ستائش کی اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ ممتاز ماہر تعلیم و ریاضی داں پروفیسر ایوب خان نے دہلی یونیورسٹی میں بھی طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں تھی۔ انہوںنے دہلی یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ کتاب ’’کیلکولس اینڈ جیومٹری فار فزیکل اینڈ اپلائیڈ فزیکل سائنسس ‘‘ کے وہ شریک مصنف بھی ہیں۔اس دوران مانو ایمپلائز ویلفیر اسوسی ایشن کے ایک وفد نے صدر جناب شیخ محی الدین کی قیادت میں پروفیسر ایوب خان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں تہنیت پیش کی۔ اس موقع پر محمد امتیاز، ایم اے نواز، محمد سلیم، رزاق شریف، محمد فخر عالم، قیوم بابا اور دیگر موجود تھے۔
حیدرآباد:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے تعلیمی سال 2020-21 کے لیے مرکزی کیمپس حیدرآباد اور دیگر سٹیلائٹ کیمپسوں لکھنو وسری نگر کے علاوہ مختلف ریاستوں میں موجود کالجس آف ٹیچر ایجوکیشن (سی ٹی ایز) اور پالی ٹیکنیکس کے لیے ریگولر کورسس میں آن لائن داخلے جاری ہیں۔ انٹرنس کی اساس پر داخلے کے کورسز درخواست داخل کرنے کی آخری تاریخ میں 20؍ جون تک توسیع کی گئی ہے جبکہ میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کی آخری تاریخ 10؍ اگست ہے۔ پروفیسر ایم وناجا، ڈائرکٹر نظامت داخلہ کے بموجب درخواست گذاروں اور اولیائے طلبہ کی نمائندگی پر یہ توسیع کی گئی ہے۔ انٹرنس ٹسٹ شیڈیول کے مطابق 4 اور 5؍ جولائی کو ہی منعقد ہوں گے۔ اردو میڈیم میں اعلی تعلیم فراہم کرنے والی ملک کی یہ واحد جامعہ ہے۔ یونیورسٹی میں گذشتہ سال ہیڈ کوارٹر میں بیچلر آف ووکیشنل کورسس کے تحت میڈیکل امیجنگ ٹکنالوجی اور میڈیکل لیبارٹری ٹکنالوجی کے دو نئے کورسس متعارف کئے گئے تھے جن میں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر دیا جارہا ہے۔ انٹرنس کے ذریعہ داخلہ دئے جانے والے کورسز میں پی ایچ ڈی اردو، انگریزی، ہندی، عربی ،فارسی، مطالعات ترجمہ ؛ مطالعات نسواں، نظم و نسق عامہ،سیاسیات، سوشل ورک، اسلامک اسٹڈیز، تاریخ، معاشیات،سماجیات؛ تعلیم؛ صحافت و ترسیل عامہ؛ مینجمنٹ، کامرس؛ ریاضی، طبیعات، کیمیا، نباتیات، حیوانیات؛ کمپیوٹر سائنس، ایس ای آئی پی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر انٹرنس کی اساس کے کورسز میں پوسٹ گریجویٹ پروگرامس میں ایم بی اے؛ ایم سی اے ، ایم ٹیک (کمپیوٹرسائنس) اور ایم ایڈ؛ انڈر گریجویٹ پروگرامس ( بی ایڈ اور بی ٹیک (کمپیوٹر سائنس) )اور پیشہ ورانہ ڈپلوما ایلمنٹری ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) و نیز پالی ٹیکنک کورسس سیول انجینئرنگ ، کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ ، الیکٹرانکس اینڈ کمیونی کیشن انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹکنالوجی، میکانیکل،الیکٹریکل و الیکٹرانکس انجینئرنگ شامل ہیں۔ تمام کورسس کا ذریعہ تعلیم اور امتحان صرف اردوہے۔پروفیسر ایم وناجا کے مطابق پوسٹ گریجویٹ پروگرام ( اردو، انگریزی، ہندی، عربی،مطالعات ترجمہ ،فارسی ؛ مطالعات نسواں، نظم و نسق عامہ، سیاسیات،سوشل ورک، اسلامک اسٹڈیز، تاریخ، معاشیات، سماجیات؛ صحافت و ترسیل عامہ؛ ایم کام اور ایم ایس سی،ریاضی) ؛ انڈر گریجویٹ پروگرامس میں بی اے، بی اے(آنرس) – جے ایم سی، بی کام، بی ایس سی (ریاضی،طبیعات،کیمیا۔ایم پی سی)، بی ایس سی(ریاضی،طبیعات،کمپیوٹر سائنس،ایم پی سی ایس) اور بی ایس سی (حیاتی علوم – زیڈ بی سی)؛ بیچلر آف ووکیشنل کورسس کے تحت میڈیکل امیجنگ ٹکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور میڈیکل لیبارٹری ٹکنالوجی (ایم ایل ٹی)؛ مدارس کے فارغ طلبہ کے لیے برائے داخلہ انڈر گریجویٹ (بی کام/ بی ایس سی) اور پالی ٹیکنک پروگرامس کے لیے برج (رابطہ) کورسز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں لیٹرل انٹری کے تحت بی ٹیک اور پالی ٹیکنیک میں اہل طلبہ کو راست داخلے دئے جائیں گے۔ پی جی ڈپلوما ان ریٹیل مینجمنٹ اور جزوقتی ڈپلوما پروگراموں میں اردو ، ہندی، عربی، فارسی اور اسلامک اسٹڈیز،تحسین غزل و اردو میں سرٹیفکیٹ کورس بھی دستیاب ہیں۔ لکھنؤ کیمپس میں اردو، فارسی، انگریزی اور عربی کے بی اے،ایم اے اور پی ایچ ڈی پروگرام دستیاب ہیں۔ سری نگر کیمپس میں معاشیات، اسلامک اسٹڈیز، اردو اور انگریزی کا ایم اے اور اردو، انگریزی اور اسلامک اسٹڈیز کا پی ایچ ڈی پروگرام ؛ کالجس آف ٹیچر ایجوکیشن بھوپال(مدھیہ پردیش)، دربھنگہ(بہار) میں بی ایڈ، ایم ایڈ اور پی ایچ ڈی ان ایجوکیشن؛ کالجس آف ٹیچر ایجوکیشن آسنسول(مغربی بنگال)، اورنگ آباد (مہاراشٹرا)، سنبھل (اترپردیش)، نوح (ہریانہ) اور بیدر (کرناٹک) میں بی ایڈ دستیاب ہے۔ پالی ٹیکنیک کورسز میں سیول انجینئرنگ؛ کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ، الیکٹرانکس اینڈ کمیونی کیشن انجینئرنگ کے ڈپلوما دربھنگہ۔بہار اور بنگلورو۔ کرناٹک میں دستیاب ہیں۔ جبکہ سیول انجینئرنگ،میکانیکل انجینئرنگ، الیکٹریکل اور الیکٹرانکس انجینئرنگ، کڑپہ۔آندھراپردیش اور کٹک۔اڈیشہ میں دستیاب رہیں گے۔ تمام درخواست گزاروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کم از کم دسویں /بارہویں میں اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرچکے ہوں یابحیثیت زبان یا مضمون، اردو کامیاب ہوں یا مصرحہ مدرسوں سے فارغ ہوں جن کا ذریعہ تعلیم اردو ہو۔ تمام پروگراموں کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ تمام پروگراموں میں داخلے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کیمپس میں بھی دستیاب ہیں. درخواستیں یونیورسٹی ویب سائٹ manuu.edu.in پر صرف آن لائن ہی قبول کی جائیں گی۔ تفصیلات یا کسی وضاحت کے لیے نظامت داخلہ کو [email protected] پر ای میل کریں۔ایس سی /ایس ٹی/اوبی سی/معذور/ ای ڈبلیو ایس امیدواروں کے مختلف پروگراموں میں داخلے کیلئے تحفظات حکومت ہند کے ضوابط کے مطابق رہیں گے۔ یونیورسٹی میں ہاسٹل کی محدود گنجائش فراہم ہے۔
حکومت کے عمدہ انتظامات اور تلنگانہ پولیس کے تعاون پر پروفیسر ایوب خان اور پروفیسر رحمت اللہ کا اظہار تشکر
حیدرآباد: (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے 25 مارچ 2020 سے لاک کے دوران ذرائع حمل و نقل کی عدم دستیابی کے باعث پھنسے ہوئے طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے آبائی مقامات کو کامیابی کیساتھ روانہ کردیا ہے۔
پروفیسر ایوب خان، وائس چانسلر انچارج نے بتایا کہ بوائز اینڈ گرلز ہاسٹل میں مقیم 100 سے زائد طلبہ اور 200 نان بورڈرس جو آس پاس کے علاقوں میں مقیم تھے کو حکومت کے ہدایت نامہ کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی ریاستوں / علاقوں / اضلاع کو حکومت کی جانب سے چلائی جارہی خصوصی ٹرینوں کے ذریعے روانہ کردیا گیاہے۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، رجسٹرار انچارج کے بموجب یونیورسٹی نے کالجوں / آف کیمپسز کے پرنسپلز / انچارج کو ”کوآرڈینیٹنگ / لائژننگ آفیسر“ مقرر کیا ہے تاکہ آف کیمپس / کالجوں میں پھنسے ہوئے طلبہ متعلقہ ریاستوں کے نوڈل افسران کی مدد سے ان کے آبائی مقامات کو روانہ ہوسکیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ طلبہ دیگر کیمپسز میں ہنوز موجود ہیں جنہیں بہت جلد ان کے آبائی مقامات کو بھیج دیا جائے گا۔ مانو کے کوآرڈینیٹنگ / لائژننگ افسران پہلے ہی اس سلسلے میں کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں اور آف کیمپس / کالجوں کے پھنسے ہوئے طلبہ کو بھیجنے کا کام جلد سے جلد مکمل کرلیا جائے گا۔
لاک ڈاؤن کی ابتداءسے ہی یونیورسٹی، تلنگانہ کے پولیس عہدیداروں کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ ڈین اسٹوڈنٹ ویلفیئر پروفیسر علیم اشرف جائسی نے کہا کہ یونیورسٹی کے طلبہ کو شرامک ایکسپریس کے ٹکٹ کے حصول کے لیے لمبی قطاروں سے محفوظ رکھنے کے لیے رائے درگم پولیس اسٹیشن کی مدد سے کیمپس ہی میں ای پاس کی سہولت فراہم کی گئی۔
پروفیسر احتشام احمد خان ، پرووسٹ ، بوائز ہاسٹلز ، نے بتایا کہ واپسی کے خواہشمند تمام طلبہ جو حیدرآباد میں مختلف کورسز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کو اودھم پور (جموں و کشمیر)، اترپردیش ، بہار ، مغربی بنگال ، آسام اور کیرالہ کو خصوصی ٹرینوں کے ذریعہ روانہ کردیا گیا ہے۔ طلبہ کو متعلقہ ریلوے اسٹیشنوں تک پہنچانے کے لیے یونیورسٹی کی بسیں چلائی گئیں۔
پروفیسر علیم اشرف جائسی نے بتایا کہ تمام طلبہ کو یونیورسٹی ہیلتھ سنٹر میں ہیلتھ اسکریننگ کے بعد سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے طلبا کو ہیلتھ فٹنس سرٹیفکیٹ ، ماسک اور سینیٹائزر بھی دیئے گئے جو یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے فراہم کیا تھا۔
مانو طلبہ یونین کے صدر عمر فاروق نے کہا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی حکام سے پھنسے ہوئے طلبہ کی واپسی کے لیے نمائندگی کی تھی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے حتی المقدور بہتر انتظامات کیے۔
بہار کے شہر کٹیہار پہنچنے والے بی اے کے طالب علم نورِ مجسم نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ حیدرآباد سے ان کے آبائی مقام تک پہنچانے کے لیے حکومت تلنگانہ کی مساعی مثالی اور قابل ستائش ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام طلبہ کو ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے بلامعاوضہ ٹکٹ، کھانے کے پیکٹ ، ایک دودھ کی بوتل ، سینیٹائزر اور پانی کی بوتلیں مہیا کی گئیں۔یونیورسٹی حکام طلبہ سے مسلسل رابطہ میں ہیں تاکہ ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار نے پھنسے ہوئے طلبہ کو واپس بھیجنے میں حکومت تلنگانہ ، مرکزی حکومت اور خاص طور پر تلنگانہ کے پولیس عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا ہے اور یونیورسٹی کے عہدیداروں اور عملے کی انتھک کاوشوں کو بھی ستائش کی ہے۔
حیدرآباد: فلمیں محض تفریح کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ ان سے سماجی مسائل کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سنیما نے معلوماتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایوب خان، وائس چانسلر انچارج نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، انسٹرکشنل میڈیا سنٹر (آئی ایم سی) کے سنیما کلب سنیماتھیک مانو اور ڈاکٹوریٹ آف فلم فیسٹولس (ڈی ایف ایف)، وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند کے زیر اہتمام ”انڈین پنوراما فلم فیسٹول“ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر قومی ایوارڈ فلم ”حامد“ کے ڈائرکٹر جناب اعجاز خان اور پروڈیوسر محترمہ فوزیہ خان بھی موجود تھیں۔
جناب اعجاز خان نے کہا کہ انہیں اردو یونیورسٹی کیمپس کو دیکھ کافی مسرت ہوئی۔ یہاں آمد ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
انہوں نے حاضرین کو فلم دیکھ کر ان سے سوالات کرنے کی درخواست کی۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار نے کہا کہ ان کی فلم ڈائرکٹر اعجاز خان سے کچھ دیر فلم کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ پتہ چلا کہ صرف ایک فقرہ کو لے کر انہوں نے کہانی تیار کی پھر اس پر فلم بھی بنا ڈالی اور قومی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس سے اعجاز خان کی قابلیت عیاں ہوتی ہیں۔ انہوں نے میڈیا سنٹر اراکین اور ڈائرکٹر جناب رضوان احمد کی فلم فیسٹول کے انعقاد کے لیے ستائش کی۔
جناب رضوان احمد نے خیر مقدمی تقریر میں کہا کہ ثقافتی اور دانشورانہ سطح پر اظہارِ خیال کے لیے دیگر فنون کے مقابلے سنیما ایک بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے ہدایت کاری اور کہانی کو فلم کی جان قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا سنٹر، مانو کے فلم کلب سنیماتھیک مانو کی جانب سے منعقد کردہ فلم فیسٹولس کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ فلم فیسٹول میں پیش کردہ فلمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ محض تفریح کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ اس پر سماجی اور سیاسی موضوعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ جناب امتیاز عالم، ریسرچ آفیسر نے کارروائی چلائی۔ جناب عمر اعظمی نے جناب اعجاز خان کا نہایت خوبصورت تعارف پیش کیا اور بتایا کہ انہوں نے 400 اشتہاری فلمیں تیار کی ہیں۔ جناب عامر بدر، پروڈیوسر نے شکریہ ادا کیا۔ بعد میں فلم ”حامد“ کی نمائش کی گئی۔ جس میں ایک 7 سالہ بچے کی دل کو چھولینے والی کہانی ہے جو اپنے مرحوم والد سے ’اللہ کے نمبر‘ 786 پر فون کرتا ہے۔ یہ کہانی کشمیر کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ جہاں نامساعد حالات میں بکھری زندگیوں کو امید دلائی گئی ہے۔
حیدرآباد:پروفیسر ایوب خان، پرو وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی ہدایت کے مطابق کارگزار وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے سبکدوش وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز سے 28/ فروری 2020ء کی دوپہر میں جائزہ حاصل کرلیا۔ انہیں مانو ایکٹ (1997) کے قواعد 2(7) کے تحت یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پروفیسر ایوب خان کا اردو یونیورسٹی میں بحیثیت پرو وائس چانسلر 27/ مارچ 2019ء کو تقرر عمل میں آیا تھا۔ اس سے قبل وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں شعبہئ ریاضی سے وابستہ تھے۔ اس سے قبل انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں بھی طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر ایوب خان نے دہلی یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے تحت 15 اسکالرس نے تاحال ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے۔ ان کے 126 تحقیقی مقالے قومی اوربین الاقوامی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں اور کئی اہم قومی و بین الاقوامی سمینار و کانفرنس میں انہوں نے کلیدی خطبے دیئے اور سیشنز کی صدارت کی ہے۔ وہ کئی نامور پیشہ ورانہ سوسائٹیوں کے رکن ہیں۔ ماضی میں وہ ذاکر حسین کالج، دہلی یونیورسٹی میں چیف پراکٹر کے عہدہ پر بھی فائز رہے ہیں۔
نئی دہلی:دہلی میں ہوئے تشددکی تحقیقات کے لیے خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔ دہلی پولیس کے ایڈیشنل سی پی کرائم بی سنگھ کی قیادت میں یہ ایس آئی ٹی کام کرے گی۔ کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی دوٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مل کر نارتھ ایسٹ دہلی میں تشدد کی تحقیقات کریں گی۔دہلی میں ہوئے تشددمیں اب تک مرنے والوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔تشددکے معاملات میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اورکیسزدرج کیے جارہے ہیں۔تقریباََایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔ایس آئی ٹی (خصوصی تفتیشی ٹیم) کی جانچ ٹیموں کے سربراہ دوڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ایک ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور دوسری ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیوہوں گے۔ دونوں ٹیموں میں چار چار اے سی پی ہوں گے۔یعنی کل آٹھ اے سی پی شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں میں تین تین انسپکٹر، چار چار سب انسپکٹر اور پولیس اہلکار شامل رہیں گے۔دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا نے بتایاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اور کیسز درج کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔رندھاوا نے بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات کنٹرول میں ہیں اورحالات بالکل عام ہیں۔ پہلے کے مقابلے پی سی آر کال بہت کم آ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے ساتھ مل کر امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ہر زاویہ سے تشدد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔کئی جگہ چھاپے ماری چل رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تشددکی مکمل تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی سے ہوگی۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگاہم خاموش بیٹھنے والے نہیں، ممبئی میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں مولانا سید ارشدمدنی کا اعلان
نئی دہلی:مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانو ن منظور نہیں جو آئین کی بنیادکو زدپہنچاتا اورشہریوں کے حقوق کو صلب کرتاہو، ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی اس تقریر کا ابتدائیہ ہیں جو انہوں نے مجلس منتظمہ کے اجلاس کے اختتام پر ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، تقریر کیاتھی ایسامحسوس ہورہا تھا کہ سامعین کے دلوں کی آواز تھی اورلوگ ہمہ تن گوش تھے، انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا چنانچہ شہریت کے حصول کے عمل میں ان کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے، جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں، جمعیۃعلماء ہند نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندواور مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتی اپنے قیام سے لیکر اب تک وہ ہندومسلم اتحادکے راستہ پر چل رہی ہے، مولانامدنی نے آگے کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرنے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا، انہوں نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے، سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں، وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔
ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _
مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _
جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _
اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _
میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ظالمانہ قوانین کے خلاف پورے ملک میں جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں خاص طور پر طلبہ ، طالبات ، نوجوانوں ، دوشیزاؤں اور خواتین کی شمولیت بہت خوش آئند ہے _ جنوبی دہلی کے علاقے ‘شاہین باغ’ کو اس معاملے میں عالمی طور پر شہرت حاصل ہوئی ہے ، جہاں دو ماہ سے خواتین ڈٹی ہوئی ہیں اور دن رات مسلسل احتجاجی مظاہرہ کرکے ان ظالمانہ قوانین کے خلاف اپنی ناراضی اور بے اطمینانی ظاہر کررہی ہیں _ ان کی نقل میں پورے ملک میں تقریباً دو سو ‘شاہین باغ’ آباد ہوگئے ہیں _
یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ملک کے تمام طبقات ان مظاہروں میں شریک ہیں ، خواہ وہ سیکولر ہوں یا کمیونسٹ یا کسی مذہب کو ماننے والے _ چنانچہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ سکھ بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ہم قدم ، ہم دوش اور ہم آواز ہے اور کمیونسٹ لوگ بھی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں _ اس طرح حکم رانوں تک یہ پیغام جا رہا ہے کہ اس قانون کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ پورا ملک شریک ہےـ
ابتدا میں ان مظاہروں میں بعض پُرجوش مسلم نوجوانوں نے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے تو ان سے کہا گیا کہ مظاہروں کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے _ یہ بات کہنے والوں میں میں بھی شامل تھاـ اس لیے کہ میرے نزدیک یہ حکمتِ عملی کے خلاف ہے _ اس وقت یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان قوانین کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کررہے ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ ملک کے تمام شہری شامل ہیں ، اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ان میں ایسے نعروں کو رواج دیا جن سے ملک کے تمام شہریوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا اظہار ہوتا ہوـ
موجودہ حالات میں ملک کے تمام طبقات کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے _ فرقہ وارانہ ہم آہنگی یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوـ اس کے ساتھ وہ باہم شِیر و شَکر ہوکر رہیں _ لیکن بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت ترک کردیں اور برادرانِ وطن کے رنگ میں رنگ جائیں ـ چنانچہ انھوں نے کمال ہوشیاری سے ان مظاہروں میں اس چیز کو رواج دینے کی کوشش کی اور سادہ لوح مسلم نوجوان اور خواتین بغیر سوچے سمجھے اس کا شکار ہوگئےـ
دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ان مظاہروں میں بعض لوگوں نے ‘بھارت ماتا کی جے’ یا اس جیسے دوسرے شرکیہ نعرے لگائے تو مسلمان بھی وہ نعرے لگانے لگے ، ہَوَن اور پرارتھنا کی گئی تو مسلمان بھی ان میں شامل ہوگئے ـ ایک مسلم خاتون نے پیشانی پر بندیا لگالی اور اپنی ہیئت غیر مسلم عورت کی بناکر پریس رپورٹر سے کہنے لگی : پہچانو ، میں کون ہو؟ یہاں تک کہ آج مسلم خواتین سے وہ کام کروالیا گیا جسے کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیاجاسکتاـ 14 فروری کو پوری دنیا میں ‘ویلنٹائن ڈے’ (یومِ عاشقان) کے نام سے منایا جاتا ہے _ اس دن غیر شادی شدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محبت کے جھوٹے عہدوپیمان کرتے ہیں _ یہ اصلاً عالمی سطح پر بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش ہے _ آج کے دن کمال عیّاری کے ساتھ شاہین باغ کی بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں میں ویلنٹائن ڈے کے پوسٹر تھما دیے گئےـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ متعدد نوجوانوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ان مظاہروں میں شرکیہ نعرے لگانے میں مسلمانوں کی شرکت درست ہے؟ میں نے صاف الفاظ میں انہیں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی متعدد خواتین نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا مسلم خواتین کا دیگر مذاہب کے شِعار اپنانا اور غیر اسلامی کلچر کے مظاہر اختیار کرنا درست ہے؟ میں نے انہیں صاف الفاظ میں جواب دیا ہے کہ بالکل درست نہیں ـ
یہی بات میں اپنی دوسری بہنوں اور بیٹیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں ـ عِفّت مآب بہنو اور پیاری بیٹیو ! آپ ظالمانہ قوانین کے خلاف دو ماہ سے ڈٹی ہوئی ہیں ـ واقعہ یہ ہے کہ آپ اس معاملے میں مردوں سے آگے بڑھ گئی ہیں _ آپ کا جذبہ مبارک _ اللہ تعالیٰ آپ کی جدّوجہد کو قبول کرے اور اس کے اجر سے نوازے _ لیکن آپ کو ہوشیار رہنا ہے _ ایسا نہ ہو کہ کچھ عیّار اور مکّار لوگ آپ کی معصومیت اور سادہ لوحی کا فائدہ اٹھا کر آپ کو بہکادیں اور غلط راہ پر ڈال دیں _ ان مظاہروں کو فرقہ واریت سے بچانا اور ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایسے نعرے لگانے لگیں جو آپ کے ایمان و عقیدہ کے خلاف ہوں ، آپ ایسے کام کرنے لگیں جن سے آپ کی مسلم شناخت گُم ہوجائے ، آپ اپنی ایسی ہیئت بنالیں کہ آپ کو دوسرے مذہب کا سمجھا جانے لگے ، آپ اپنے ہاتھوں میں ایسے پوسٹر ، بینر اور پلے کارڈ اٹھالیں جن سے عِفّت اور شرافت پر حرف آنے لگےـ
اگر آپ نے ہوشیاری اور بیدار مغزی نہ دکھائی اور اپنی مسلم شناخت گُم کردی تو یہ بڑے خسارے کا سودا ہوگاـ اللہ تعالٰی آپ کو محفوظ رکھے- آمین
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
اقتدار کے نشہ میں چور مرکزی حکومت نے آر ایس ایس) (RSS سے ملنے والی فکری رہنمائی کے نتیجہ میں سی اے اے (CAA) جیسا متنازع اور ناقابل عمل قانون بنا کر ایک بڑی غلطی کر رہی ہے، جس کا اسے احساس نہیں ہے، اس ملک کے لیے طلبا کا سی اے اے(CAA)کے خلاف اولین اقدام کے طورپرپرچم احتجاج بلند کرنا ایک مثبت اور خوش آئند عمل ہے،وہ اس ملک کے مستقبل اور کل کے قائد ہیں،پورے ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر آنے والا ہے، وہ حال کے آئینہ میں مستقبل کے تمام حالا ت کو بخوبی دیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس سیاہ اور کالے قانون کی ناپاک دھمک کو سب سے زیادہ انہوں نے ہی محسوس کیا۔کئی ہفتے ہوگئے، مگر ان کے طرز احتجاج میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا،بلکہ دن بدن مزید اس میں استحکام ہی پیدا ہو رہا ہے۔ جس پا مردی اور عزیمت وحوصلے کے ساتھ ان غیور و جرأت مند طلبہ وطالبات نے حکومت کی بر بریت کا ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں آزاد بھارت کا تاریخ ساز کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ جس احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اور جے این یو سے ہوا تھا، اس نے صرف ملک کی یونیورسیٹیوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ آواز بیرون ملک کی عظیم یونیورسیٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی گونج رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی شان میں عظمت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، اوران کے حوصلوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔
CAA اور NRCکے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ابتدا ملک کے انہی طلبہ وطالبات سے ہوئی ہے، ہم ان کے اس جرأت مندانہ قدم کو ملک کے دستور کی حفاظت کے حوالے سے”صور اسرافیل“ سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں اور اس ملک کے سیکولر عوام بھی در اصل طلبہ پر پولس انتظامیہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد ہی میدان میں آئے؛چناں چہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ نے اپنی قربانیوں او رشجاعت وبہادری سے عوام کو بیدار کرنے کا ایک عظیم فریضہ انجام دیا ہے، جو ”نعرے“ وہ اپنے کیمپس اور جامعات کے سامنے لگا رہے تھے، اب وہ امریکہ،کناڈا اور یوکے کی سڑکوں پر سننے کو مل رہے ہیں، آپ نے سیاسی پارٹیوں کے دھرنے اورمظاہرے خوب دیکھے ہوں گے، مگر ان کا مقابلہ طلبہ کے ان مظاہروں سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ کہ طلبہ کے سینوں میں فقط ذوق جنوں،سرشاری کی کیفیت اور زندہ جذبات ہی نہیں بلکہ ان کے دل ملک کے تئیں بے لوث محبت،وارفتگی،جاں نثاری،فدائیت اور بے پناہ خلوص سے معمور ہیں،جن کا اظہار وہ ماہ دسمبر اور جنوری کی ریکارڈتوڑ ٹھنڈک میں بھی کرتے نظر آرہے ہیں،بر سر اقتدار جماعت کے لیے اس میں ایک بڑا سوال بھی ہے اورنصیحت آموز سبق بھی۔
طلبہ اس قدر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟وہ تھکتے کیوں نہیں؟وہ ڈرتے کیوں نہیں؟ وہ رکتے کیوں نہیں؟انہیں کیا ہوگیا ہے؟وہ ان نعروں سے باز کیوں نہیں آتے؟ہم نے تو ان کے قدموں میں ہزار زنجیر یں ڈالنے کی کوششیں کیں، انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اپنی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا، مگر وہ پا بہ جو لاں دار ورسن کی طرف بڑھے جارہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ ہندوستان کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اگر کسی کو ہندوستان کی اصلی تصویر دیکھنی ہو تو وہ ا ن یونیورسیٹیوں کے کیمپس میں چلا جائے،وہاں گنگا جمنی تہذیب،صا ف ستھر ی اور سچی انسانیت،درمندی،بھائی چارگی اور کینہ ونفرتوں سے دورباہمی اخوت ومحبت پر مشتمل بھارت کا جمہوری دستورانسانی شکلوں میں چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں نوع بنوع ذات،برادری،اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف وشفاف ذہن کے طلبہ ایک کالج،ایک کلاس روم میں،ایک ساتھ ایک پروفیسر سے پڑھتے ہیں، اور ایک ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،وہاں کتنی خوبصورت جمہوریت ہوگی،ابوالکلام اور گاندھی جی کے دیش کی کیسی دل فریب تصویر ہوگی، اور ملی جلی تہذیب کا کتنا حسین سنگم ہوگا، اس کا اندازہ طلبہ ہی کر سکتے ہیں،ہمارے طلبہ دراصل اپنے ملک کی اسی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مستقل یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نفرت کے سوداگروں اور مذہبی شدت پسندوں کو ملک کی تعلیم گاہوں کی یہ جمہوری تہذیب بھی راس نہیں آئی اور یہ ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔
یہی وجہ ہے ABVPکے ذریعہ ملک کی فاسسٹ،نازی اور فرقہ پرست طاقتوں نے یونیورسیٹی کی پاکیز ہ فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیا ہے۔طلبہ اس حقیقت کوسمجھ رہے ہیں،اس لئے ملک کی اکثر یونیورسیٹیزمیں طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیابی نہیں ملی، یہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ہر محاذ پر اپنی ذہنیت کے خاص لوگوں کو رکھنا چاہا ہے اس کے پیش نظرانہوں نے شروع سے ہی اپنا کیڈر تیار کرنے کے لیے کالج اور یونیورسیٹیوں کا بھی سہارا لیا،اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)کے نام سے طلبہ کی ملکی سطح پر ایک جماعت تشکیل دی جو مرکزی حکومت کے زیر سایہ تعلیم گاہوں اور جامعات میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا کام کر رہی ہے،گذشتہ اتوار ۵/جنوری ۰۲۰۲ء جے این یو کے طلبہ پر دہشت گردانہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔”ہندو رکشا دل“ نے اس کی ذمہ داری لے کر بہت کچھ چھپایا ہے تو بہت کچھ ظاہر بھی کیا ہے،اس سے پہلے بھی روہت ویمولا اور نجیب کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ملک کی عدالت سے درخواست ہے کہ ان وارادات کے مدنظر ان تنظیموں پرپابندی عائد کی جائے۔طلبہ ملک کی شان اور آبرو ہیں اور بھارت کے مستقبل بھی، ان کی آواز کو پولس کی سفاکانہ اوروحشیانہ رویوں کے ذریعہ دبانا اور ان کوABVP کے دہشت گرد غنڈوں کے حملوں سے لہو لہان کرانا بزدلانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس پر سخت نوٹس لینی چاہئے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ملک دشمن عناصر کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہمیں اس کی عظمت کو پامال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، یہ ایک عظیم لڑائی ہے، جو پر امن طریقے پر آئین اورجمہوریت کی روشنی میں لڑی جارہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناہمارا قانونی اوردستوری حق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار ان کے مطالبات کو پورا کریں،غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اور احتجاج سے ملک کی روز مرہ زندگی کو متأثر ہونے سے قبل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں،اور عوام کو مذہبی بنیادوں پر دوخانوں میں تقسیم کر کے ملک کی یک جہتی اورسا لمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں۔واضح رہے کہ حکمراں جماعت ملک کے آئین کی قسم کھا کر عوامی خدمت کے فریضہ کی ادائیگی کا اقرار کرتی ہے، لہذا حکومت کوہر لمحہ اپنے اس قول وقرار کا پابند رہنا چاہئے اور اپنے اس حلف کو ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہئے۔
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ
ہرش مندر کہتے ہیں کہ یوپی میں حالات بہت خطرناک رُخ اختیار کرگئے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یوپی میں آج وہی ہورہا ہے جو کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے ہوتا رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر فورس توڑ پھوڑ مچاتی ہے اور بے گناہوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
2 اور 3 جنوری کے انڈین ایکسپریس کے شماروں میں بھی اس کے کچھ شواہد پیش کئے گئے ہیں۔۔ہرش مندر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں۔۔ وہ یوپی کے نو مختلف اضلاع کے کلکٹر بھی رہے ہیں ۔ لہذا وہ یوپی کے حالات پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے مظفر نگر اور دوسرے متاثرہ مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔۔۔ وہ مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس کے تعصب کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں ۔
ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی کچھ حد تک یوپی کی اصل تصویر دکھا رہا ہے۔اس کے علاوہ ’دی وائر‘ اور انفرادی طورپر ونود دوا‘ابھسار شرمااور رویش کمار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سرکاری مظالم کی قلعی کھول رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعلی نے پر امن مظاہرین سے ’بدلہ‘لینے اور نقصان کا ہرجانہ انہی سے وصول کرنے کی دھمکی دی ہے اسی وقت سے یوپی پولس بے خوف ہوکر نہتے اور بے قصور لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔۔۔ میں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ اب یوپی کے بے قصور لوگوں پر قیامت گزرنے والی ہے اور بہت سے قائدین کا نام لے کر ان سے درخواست کی تھی کہ یوپی کے ان بے کس وبے بس لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکلیں۔
انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی اشاعت میں سنبھل (مغربی یوپی) کے تعلق سے ‘کونین ایم شریف’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولس نے ’فسادیوں‘کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ واقعات کو بیان کیا گیاہے۔باقاعدہ ٹائم لائن کے ساتھ یعنی لمحہ بہ لمحہ اور Minute to minute حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں ایف آئی آر کے مرحلہ پر ہی پولس کو کلین چٹ بھی دیدی گئی ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بہت کمزور اور بے دم سی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک پیرا گراف لکھا گیا ہے۔
سنبھل کے 23سالہ محمد شہروز خان کو 20 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران گولی لگی تھی‘اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دوسرے بڑے ہسپتال کو ریفر کردیا گیا۔اس بڑے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شہروز کا دم نکل گیا۔۔۔ پولس نے اس تعلق سے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نہ تو ملزم کا نام ہے اور نہ کسی گواہ کا کوئی ذکر ہے۔۔۔یہی نہیں آج 14روز گزرجانے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کو اس کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔ایف آئی آر میں دفعہ 302کے تحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔یہ دفعہ قتل سے بحث کرتی ہے۔ایسی کمزور‘بے جان اور لا یعنی ایف آئی آر کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔۔۔عدالت میں اہل خانہ کو یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوجائے گا کہ شہروز کا قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پولس نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ حملوں میں جن17 افراد کو نامزد کیا ہے ان کے خلاف (سچی یا جھوٹی) تمام دستاویزات جمع کی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کی تفصیلات کو باریکی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔پولس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔یہ حال جب ہے کہ جب دونوں ایف آئی آر 24 گھنٹے کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے ایک ہی تھانہ میں لکھی گئیں۔انڈین ایکسپریس کو ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فساد مچانے کے تعلق سے جو ایف آئی آر تیار کی گئی ہے وہ اس مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے کہ پولس کو معقول شک کا فائدہ مل جائے گا جبکہ گولی لگنے سے نوجوانوں کی موت کی ایف آئی آر اتنی بودی لکھی گئی ہے کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ گولی چلانے کا ملزم کون ہے۔
انڈین ایکسپریس کی صحافی ارنیا شنکر نے آج اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مظفر نگرپولس نے چار لوگوں کو 10دنوں تک اپنی گرفت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ان پر پتھر بازی اور پولس پر حملہ کے الزامات عاید کئے گئے تھے۔یہ مظاہرے 20 دسمبر کو ہوئے تھے۔ان رہا شدگان میں ایک 50 سالہ سرکاری کلرک بھی ہے لیکن ابھی اس کے 20 سالہ بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری کلرک کا دعوی ہے کہ 20 دسمبر کی شب 10.30 پر ان کے گھر پر 50 پولس والوں اور قرب وجوار کے رہنے والے کوئی 60 لوگوں نے دھاوا بول دیا اور انہیں بہت زدوکوب کیا گیا۔اس کے بعد پولس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔ انہوں نے ارنیا شنکر کو بتایا کہ پولس نے ان کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک کیا اور جب انہوں نے پانی مانگا تو کہا گیا کہ اپنا پیشاب پی لو۔انہوں نے بتایا کہ اس رات تھانہ پر کوئی 100لوگ پکڑ کر لائے گئے تھے۔انہیں جب اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔
ارنیا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میرٹھ میں رہنے والا ایک خاندان بھی اسی روز یعنی 20 دسمبر کو شام سات بجے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر نکلا۔لیکن مظفر نگر کے میناکشی چوک پر انہیں پولس نے روک لیا۔شہر میں اس خاندان کی بہت سی اسٹیل کی فیکٹریاں ہیں۔اس گاڑی میں ایک 53سالہ مریض بھی تھا۔اس کے پاس تمام میڈیکل کاغذات تھے لیکن پولس والوں نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی اور انہیں گالیاں دیتے ہوئے تھانہ لے گئی۔
یہ رپورٹ مزید بہت سی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ یہ تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ پولیس نے جب نامی گرامی ہندو شہریوں کے ساتھ انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے تو عام مسلمانوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ لکھنؤ میں بزرگ ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں پولیس نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔اسی طرح ایک اور ہندو جوڑے کو بھی گرفتار کرکے بہت سخت دفعات لگادی گئی ہیں ان کی ایک سال کی بچی ایک ہفتہ تک تڑپتی رہی، اب جاکر محض ماں کو ضمانت مل سکی ہے۔
حیرت ہے کہ عدالتوں نے محض پولیس کی داستان پر یقین کیا اور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ اب جن لوگوں کو ثبوت نہ ہونے کے سبب پولیس نے رہا کردیا ہے کیا وہ ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے متاثرہ لوگوں کو ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہر قصبہ’ شہر اور ہر ضلع کے درد مند وکلاء کو گروپ تشکیل دے کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہئے۔ مسلم وکلا کو چاہئے کہ وہ گروپ بناکر مشہور ہندو وکیلوں کے گھروں پر جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس ‘لیگل گروپ’ کی قیادت کریں ۔
دہلی میں محمود پراچہ نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر پولیس کے خلاف شواہد جمع کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چن چن کر ایک ایک خاطی پولیس افسر کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے اور انہیں سزا دلوائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو منظم پیمانہ پر کرنا ضروری ہے۔ یوپی کے متاثرین بھی انہیں اپنی روداد بمع شواہد ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کام میں صاحبِ ثروت افراد متاثرین کا خاموشی سے تعاون کرسکتے ہیں۔محمود پراچہ کے دفتر کا نمبر یہ ہے
: 011-24358560