نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے منگل کے روز کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملات کے اضافے پرحکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت کے خاتمہ ،نمستے ٹرمپ اور بہت سے دوسرے اقدامات کی وجہ سے ، آج ملک کوروناکے خلاف جنگ میں خودکفیل بن گیا ہے۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ کورونا مدت میں حکومت کی حصولیابیاں: فروری میں نمستے ٹرمپ ، مارچ میں مدھیہ پردیش میں حکومت ، اپریل میں موم بتی ، مئی میں حکومت کی 6 ویں سالگرہ ، جون میں بہار میں ورچوئل ریلی اور جولائی میں راجستھان حکومت گرانے کی کوشش۔کانگریس کے لیے لیڈرنے طنزیہ اندازمیں کہاہے کہ اسی وجہ سے ملک کورونا کی لڑائی میں خودکفیل ہے۔
Managing Editor Qindeel
جے پور:سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ راجستھان (آر بی ایس ای)نے 12ویں آرٹس امتحانات کارزلٹ آج21 جولائی کوجاری کردیاہے ۔ اس بار 90.70فی صدطلبہ پاس ہوئے ہیں۔راجستھان بورڈ آرٹس اسٹریم کے نتائج میں لڑکیوں نے بازی ماری ہے۔ لڑکوں کی بنسبت لڑکیاں تقریباََ5 5 فیصد زیادہ ہیں۔ راجستھان بورڈ کلاس 12 آرٹس کے نتائج میں 93.10 فیصد لڑکیاں کامیاب ہوگئیں۔ لڑکوں کی شرح 88.45 ہے۔نتیجہ کے اعلان کے ساتھ ہی راجستھان بورڈسے 12 ویں آرٹس کاامتحان دینے والے تقریباََ5 لاکھ طلباء کاانتظاربھی ختم ہوگیاہے۔بورڈکی آفیشل ویب سائٹ،rajresults.nic.in پر طلباء اپنارول نمبر درج کرکے نتیجہ چیک کرسکتے ہیں۔نتائج کا اعلان اس سال تاخیرسے ہواہے جس کی وجہ کوروناکی وباہے۔ آر بی ایس ای میرٹ لسٹ جاری نہیں کرے گا۔بتادیں کہ راجستھان بورڈ12 ویں کے سائنس اسٹریم کا نتیجہ پہلے ہی جاری کیاجاچکا ہے۔ سرکاری ویب سائٹوں پرآپ نتائج کو چیک کرسکتے ہیں۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے گذشتہ چند سالوں میں چین سے درآمدات میں اضافے کو لے کر منگل کو بی جے پی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ میک ان انڈیاکی بات ہو رہی ہے ، لیکن چین سے خریداری جاری ہے ۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ حقائق جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ میک ان انڈیا ہے اور فرام چین۔کانگریس کے لیڈرمنموہن سنگھ حکومت کے دوران ہندوستان کی کل درآمدات میں چین کی کمی اور نریندر مودی حکومت میں چین کے حصہ میں مبینہ طور پر اضافے سے منسلک ایک گراف بھی شیئرکیاگیاہے۔ قابل ذکر ہے کہ ان دنوں لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر ہندوستان اور چین کے مابین تعطل ہے۔ 15۔16 جون کی درمیانی رات ، دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین پْرتشدد جھڑپوں میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ چینی فریق کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس پر ، وزیراعظم سے سوالات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ، آپ کو سچ کہنا ہے ، ملک کو بتانا ہوگا ، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ زمین چلی گئی ہے اور اصل میں زمین چلی گئی ہے تو چین کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے مزیدکہاہے کہ،ہمیں ان کے ساتھ مل کر لڑنا ہے ، انہیں اٹھا کر واپس پھینکنا ہے ، پھر ہمیں سچ بتانا ہوگا۔ بلا خوف وخطر ، آپ کہتے ہیں کہ ہاں ، چین نے زمین لے لی ہے اور ہم کارروائی کرنے جارہے ہیں ، پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور آخری سوال۔ہمارے شہدا کو اسلحہ کے بغیر کس نے بھیجا ، اور کیوں؟
بہار میں سیلاب کی آمد کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔ ہر سال سیلاب سے تباہی بہار کا مقدر بن چکی ہے ۔ خاص کر شمالی اور جنوبی بہار صدیوں سے سیلاب کا گڑھ رہا ہے ۔ بہار کے سیلابی ضلعوں میں ارریہ ، پورنیہ ، کشن گنج، کھگڑیا ، سوپول ، سہرسہ ، سمستی پور ، دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی خاص کر قابل ذکر ہیں ۔ ان تمام سیلابی ضلعوں میں ہر سال سیلاب سے بھیانک تباہیاں ہوتی ہیں ۔ جانی و مالی نقصانات کے علاوہ لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور کھیتی باڑی کے علاوہ فصلیں الگ تباہ ہوتی ہیں ۔ برسات میں ہر سال طوفانی بارش روڈ اور باندھ کو توڑ پھوڑ دیتی ہے جس سے آمدو رفت میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور اد کے نتیجے میں سرکاری خزانوں کا ہر سال خاصا نقصان ہوتا ہے جو قابل افسوس ہے ۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ہر سال سیلابی آفت سے ہونے والے نقصانات کو عوام حسرت اور مایوسی کے ساتھ دیکھتے آرہے ہیں اور حکومت بھی لاچاری اور بے بسی کامظاہرہ کرتی رہی ہے ۔ ایک زمانے سے بہار میں سیلاب کا مسئلہ ہنوز برقرار ہے مگر حکومت اس سے نمٹنے اور سیلاب کی روک تھام میں افسوس ناک حد تک نا کام ثابت ہوئی ہے ۔ حکومت کی خاموشی اور ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت یا تو اس معاملے میں بے بس ہے یا مسئلۂ سیلاب سے نپٹنے کے لئے حکومت بہار کے پاس ٹھوس اور مناسب منصوبوں کا فقدان ہے ۔ جب بہار کی راجدھانی شہر پٹنہ جو سرکاری نگہداشتوں کا گڑھ ہے وہ بھی سیلاب کی مصیبتوں سے بچ نہ سکا تو دیگر اضلاع کے دیہاتوں کا کیا عالم ہوگا؟ بہار کے بیشتر بڑے شہروں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ان شہروں میں پانی کی نکاسی کا معقول انتظام نہیں کے برابر ہے ۔ خاص کر وہ تمام شہر جو ندیوں کے کنارے آباد ہیں وہاں بارش کے ساتھ ساتھ ندی کا پانی شہروں میں داخل ہو جانے سے مزید تباہیاں مچتی ہیں جن میں بہار کا شہر پٹنہ قابل ذکر ہے ۔ دربھنگہ ، مدھوبنی اور سیتا مڑھی جیسے شہروں میں پانی کی نکاسی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہونے سے وہاں بھاری برسات کے دوران پانی کا جمنا عام بات ہے ۔ واضح ہو کہ نیپال خطر ناک حد تک ہر سال پانی چھوڑتا آیا ہے جس سے دربھنگہ اور سیتا مڑھی کے دیہی علاقے زیر آب آ جانے کی وجہ سے ندیاں ابل پڑتی ہیں اور پانی کی زیادتی باندھ کے ٹوٹنے اور علاقے میں پھیلنے کا سبب بنتی ہے ۔ یہ عمل ہر سال نیپال دہراتا آرہا ہے مگر بہار کی حکومت آج تک اس مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنے میں نا اہل ثابت ہوئی ہے ۔ ابھی جبکہ برسات صرف شروع ہوئی ہے تھوڑی دیر کی بارش سے گاؤں کے کھیتوں میں پانی گویا سمندر کا احساس دلا رہا ہے جبکہ ابھی پوری برسات اور جولائی یا اگست میں سیلاب کا آنا باقی ہے ۔ زمانۂ قدیم سے پانی کی نکاسی کے لئے مقامی طور پر تشکیل دیا ہوا نظام فرسودہ ہونے کی وجہ سے سیلاب کے خطرے مزید بڑھ گئے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیلاب کے خطرے سے بہار کے عوام کو بچانے کے لئے حکومت کو مضبوط اور ٹھوس قدم اٹھائے ۔
(تیسری قسط)
مجھے قول یا عمل سے رد کر دینے والوں کے لئے تو صرف ذلت اور پستی ہے۔ پھر کس نے تمھیں میرے بغیر دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کی گارنٹی دے دی ؟
تم جو مجھے پلٹ کر دیکھتے تک نہیں، میرے ہوتے ہوئے بھکاریوں کے در کے بھکاری بن گئے، گمراہوں کو اپنا رہبر مان بیٹھے، رہز نوں کو اپنا محافظ سمجھ گئے، بے عقلوں کو اپنا لیڈر اور رہنما مان لیا، بے ضمیر وں اور خدا کے غداروں کو اپنا ملجا و ماوی سمجھ بیٹھے، کیا ہو گیا ہے تمہاری عقل کو ؟
کہاں ہیں وہ سینے جو میری یاد سے منور تھے ؟ وہ دل جو میری وعیدوں پر خوف سے لرز اٹھتے تھے ؟ وہ زبانیں جو میری تلاوت سے حلا وت حاصل کرتی تھیں ؟ وہ آنکھیں جو مجھے پڑھ کر آنسوؤں سے بھر جایا کرتی تھیں ؟ وہ ضمیر جو میری ملامتوں سے پانی پانی ہو جایا کرتے تھے ؟ وہ روحیں جو میری قرات سے وجد میں آ جایا کرتی تھیں ؟ وہ سر اطاعت جو میری ہر ھدایت پر بے ساختہ جھک جاتے تھے ؟ اور وہ دیوانے جو مجھے لیکر راہ عزیمت پر نکل پڑتے تھے ؟
کچھ لوگ، آٹے میں نمک کے برابر لوگ تمھیں سمجھانا چاہتے ہیں، تمھیں حکم رسول یاد دلاتے ہیں کہ آؤ گمرہی اور فتنوں کے اس دور میں پلٹو اللہ اور اسکے رسول کی طرف، پھر فیصلہ کرو کہ گمراہ عقائد کی اس یلغار میں میزان حق کیا ہے تو تم ہنستے ہو، جھگڑتے ہو، تہمتیں دھرتے ہو، بحثیں کرتے ہو اور مجھ پر، نبی صادق پر، آخرت کی پوچھ تاچھ پر، جنّت کے عیش پر اور جہنم کی ہولناکیوں پر ایمان رکھنے کا دعوی کرنے کے باوجود میری طرف اور اپنے نبی کے طریقے کی طرف عملا لوٹنے سے کترا جاتے ہو !
آخر تم اتنے مغرور اور گھمنڈی کیوں ہو ؟ اس قدر بے پرواہ کیوں ہو؟ اتنے بے حس اور مطمئن کیوں ہو ؟ آخر کس چیز نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ آخرت کی بازپرس سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ؟ روز مرتے ہو، کتنے رشتےداروں اور دوست و احباب کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی تنہائیوں میں دفن کر چکے ہو، جانتے ہو کہ موت برحق ہے، اس کا تجربہ کرتے رہتے ہو، جانتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ تمہارا کوئی بھی پل موت کا پل ہو سکتا ہے، کوئی بھی صبح تمہاری آخری صبح ہو سکتی ہے، کسی شام بھی تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، کسی بھی پہر سانسوں کے قافلے اپنا سفر روک سکتے ہیں، کسی بھی پل فرشتۂ اجل تمھیں آ کر گرفتار کر سکتا ہے، پھر بھی تم اتنے بے حس ہو! ایسی پریشان کن اور غیر متوقع دنیا میں اتنے مگن ہو؟ حیرت ہے ، کس مٹی سے بنے ہو تم ؟
اکثر تمہاری راتیں دہشت کے سائے میں گزرتی ہیں، صبح تمہاری آنکھ خوف و ہراس کی فضا میں کھلتی ہے، شام ہوتے ہی اضطراب تمہیں گھیر لیتا ہے، سوتے ہو تو پریشان کن خواب تمہاری آنکھوں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، دہشت گردی کے الزاموں میں مارے جاتے ہو، فسادات کی آگ میں جلائے جاتے ہو، جنگوں کی بمباری میں اڑائے جاتے ہو، خبریہ چینلوں پر تماشا بنا کر دکھائے جاتے ہو، اخباروں میں گالیوں کی صورت چھاپے جاتے ہو، پھر بھی میری طرف نہیں پلٹتے، کیسے بے حس اور بد عقل ہو تم ؟
کس کس انداز میں تمھیں سمجھایا ہے کہ میں اللہ کی مضبوط رسی ہوں، دلدلوں میں پھنسنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھ سے چمٹ جاؤ۔ کیسے کیسے تمہیں بلایا ہے کہ میں بحر ظلمات میں اللہ کے نور کی کشتی ہوں، ڈوبنے سے بچنا چاہتے ہو تو مجھے تھام لو! کیا اب بھی نہ پلٹو گے جبکہ تمہارے اوپر مسجدوں کے دروازے بند ہو گئے ہیں؟ اب بھی نہ آؤگے میری طرف جبکہ تم اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہو؟ اب بھی مجھے بڑھ کر نہیں تھاموگے جبکہ تمہارے بے دین چرواہوں نے تمھیں ایک خطرناک نفسیاتی خوف میں مبتلا کر دیا ہے؟
سیاست پر معیشت پر اور معاشرت پر خدا کے نافرمانوں اور سرکشوں کا قبضہ ہے، تمہارے ہاتھوں میں کشکول گدائی ہے، بھیک کا پیالہ ہے۔ انکے چہروں پر کبر و نخوت کا جلال ہے، تمہاری آنکھوں میں حسرتیں ہیں، ملال ہے۔ انکی زبانوں پر تمہارے لئے گالیاں ہیں، رسوائیاں ہیں، طعنے ہیں اور قہر ہے، تمہارے ہونٹوں پر خاموشی کی مہر ہے۔ انکی گردنیں تنی ہوئی ہیں، تمہارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ انکے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے، سرداری ہے، خسروی ہے، جہاں بانی ہے، تمہارے پیروں میں آبلے ہیں، زنجیریں ہیں، زخم ہیں، پھپھولے ہیں، تمہارے فکر و نظر پہ ظالم کی پہریداری ہے۔ خدا کی قسم ! اس نے تمھیں آزاد ہی نہیں بلکہ لیڈر، رہنما، قائد اور حکمراں بنا کر بھیجا تھا۔۔۔۔آہ! تم مجھے چھوڑ کر کیا سے کیا ہو گئے !!
(جاری )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
عام طور پر آقا جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے غلام کی غلامی اتنی ہی بڑی اور عظیم ہوا کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے حکمراں عام طور پر امریکہ کی غلامی پرفخر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا حال اور بھی براتھا۔ اس کی وجہ یہ تھی وہاں جمہوریت سے کہیں زیادہ آمریت جلوہ گر تھی۔ ہر آمر امریکہ کی غلامی پر نازاں رہتا تھا۔ ایوب خاں نے اپنے زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی یالکھوائی تھی، جس کا عنوان تھا ”آقا نہیں دوست“۔ کتاب کے سرورق پر علامہ اقبال کا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے ؎
اے طائرلاہوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
کتاب کا مقصد اچھا تھا مگر اس کتاب سے پاکستان کی غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں غلامی عروج پر ہوگئی تھی۔ سابق صدرامریکہ جارج واکر بش کے ایک فون آنے سے پرویز مشرف ڈھیر ہوجایا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی مدد سے پاکستان کا اچھا خاصا استحصال امریکہ نے کیا۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امریکی حملے سے افغانستان میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ اب وہاں جمہوریت کی ایک حد تک جلوہ نمائی ہے۔ عمران خان امریکہ کی غلامی کو ملک وقوم کیلئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہئے کہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی غلامی عروج پر ہے۔ مودی ہندستان میں اپنی محبوبیت اور مقبولیت کیلئے امریکہ کا کئی دورہ کرچکے ہیں۔ ان کے آخری دورے پر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کیلئے ‘Howdy, Modi!’ (ہاؤڈی مودی) کا پروگرام منعقد کیا تھا جس پر کروڑوں کا صرفہ آیا اور شاہی خرچ غریب ہندستان نے برداشت کیا۔ آئندہ 24 فروری کو دو روزہ دورے پر صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں۔ آقا کی آمد سے پہلے مودی چشم براہ ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی شہنشاہ آرہا ہے اور ملک کی رعایا ان کے استقبال میں کہہ رہی ہے کہ ؎
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
احمد آباد (گجرات) کے غریبوں کی غریبی چھپانے کیلئے اونچی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کئی جگہوں سے غریبوں کی جھی جونپڑی کو زور زبردستی ہٹایا جارہا ہے تاکہ بادشاہ سلامت کی نظر مودی کی ریاست یا ملک پر نہ پڑے اور بادشاہ سلامت ناراض نہ ہوجائیں۔ صدر ٹرمپ تاج محل دیکھنے آگرہ بھی جائیں گے۔ آگرہ میں بھی راستوں کی مرمت بھی زوروں پر ہورہی ہے اور دیواروں کی لیپاپوتی بھی ہورہی ہے۔ یوگی کو تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخ سے نفرت ہے لیکن سینے پر پتھر رکھ کر تاج محل کے آس پاس کے علاقے کی صفائی ستھرائی اور تزئین وآرائش کا کام زوروں پر ہے۔ یوگی ہوں یامودی ایک ایسے کلچر اور ایک ایسی ذہنیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ میں غلامی رچی بسی ہے بلکہ غلامی وراثت میں ملی ہے۔ برطانیہ دنیا کا سامراج تھا تو ان کے پرکھے برطانیہ کے وفادار تھے اور برطانیہ کی غلامی پر ناز کرتے تھے۔ مودی کو یقین تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے ان کی پگڑی اونچی ہوجائے گی لیکن گزشتہ روز (19فروری) ایک ایسی تقریر کی کہ مودی کی آرزوؤں اور امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں امریکہ سے اچھا برتاؤ نہیں کیا ہے لیکن میں مودی کو بیحد پسند کرتا ہوں۔ انھوں نے مزید کہاکہ تجارتی یا دفاعی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے یا الیکشن کے بعد ہندستان سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ”نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ہوائی اڈے سے احمد آباد تک 70لاکھ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے رہیں گے“۔ اس تقریر سے ہوسکتا ہے کہ اگر مودی اپنے آپ کوہندستان سے بڑا سمجھتے ہوں تو دل میں خوشی محسوس کر رہے ہوں کہ آقا نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔حالانکہ آقا کے دورہئ ہند کا سارا مقصد اپنے صدارتی انتخاب کیلئے ہے۔ امریکہ میں بسنے والے ہندستانی یا گجراتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کرنے کیلئے ووٹ دیں۔ ’ہاؤڈی موڈی‘ کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے ایک کارکن کی طرح اپنے آقا کے حق میں نعرہ بلند کیا تھا کہ ”دوسری بار ٹرمپ سرکار“۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ہندستان میں اسی نعرے کو دہراتے ہیں یا کوئی نیا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکن ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی دوسرا امیدوار ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہوں۔ مودی جی کو اس نکتہ پر غورکرنے کا وقت شاید نہیں ملا اور نہ ہی کسی نے ان کو یہ سجھاؤ دیا کہ ایک دوسرے ملک میں کسی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کو نعرہئ انتخاب بلند کرنا انتہائی غلط ہے اور ملک کے مفاد میں صحیح نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی کو اوپر اٹھا دیا لیکن ہندستان کو نیچے گرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ملک کاکوئی بھی سربراہ ہو اور جب وہاں جمہوریت ہوتی ہے تو سربراہ مستقل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ملک سے بیزاری اور سربراہ سے پیار محبت کی نمائش ڈونالڈ ٹرمپ اور مودی جی ہی کرسکتے ہیں۔دونوں کی ذہنیت تقریباً یکساں ہے۔ دونوں انسان دشمنی اور عوام دشمنی پر یقین رکھتے ہیں۔نریندر مودی کا اگر آر ایس ایس سے تعلق ہے تو ٹرمپ کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ ٹرمپ کی رگِ جاں پنجہئ یہود میں ہے اور مودی کی رگِ جاں آر ایس ایس کے پنجے میں ہے۔ مودی جب بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے ملے ہیں تو ان کا Body Language (جسم کی زبان) بچکانہ ہی نظر آیا۔ ان کی مرعوبیت بھی عیاں تھی۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان آرہے ہیں مودی جی اپنے ملک میں رہیں گے، یقینا ان کی کوشش ہوگی کہ اپنے مہمان کے سامنے جھکے رہیں اور اس کے شایانِ شان اس کا استقبال کریں۔ یہاں بھی وہ شاید ہی اپنے معیار کو بلند رکھ سکیں اور پرواز میں کوتاہی نہ کریں۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ غربت اور افلاس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔بے روزگاری اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے مگر مودی جی کی شاہ خرچی اپنے آپ کو بڑا بنانے کیلئے پہلے ہی کی طرح ہے کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں رائے، مشورہ اور آزادیِ اختلاف و انحراف، حقوق اور حریت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے دونوں سربراہوں کو انسانیت اور جمہوریت کی ان قدروں سے دوردور کا واسطہ نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا مواخذہ کچھ ایسا ہورہا تھا کہ وہ شاید ہی امریکہ کی صدارت کی کرسی پر فائز رہ سکیں لیکن وہ بال بال بچے۔ مودی جی کے خلاف پورے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی اور سیاہ قانون کی وجہ سے مخالفت اورمزاحمت ہورہی ہے۔ غور کیاجائے تو ان دونوں سربراہوں کی اپنے ملک میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں ہے۔ دونوں اپنی مقبولیت کیلئے کوشاں ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچا اورسمجھا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے لیکن ہندستان کے وزیر اعظم کی شاہ خرچی غریب ملک کے پیسے سے اور غریبوں کی غربت اور افلاس کو اونچی دیواروں سے چھپانے کی کوشش سے مودی کی نیک نامی پر بٹا لگ رہا ہے ؎’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
تحریر:ڈاکٹرمازن مطبقانی
ترجمہ:نایاب حسن
اس مضمون میں علمِ استشراق کے بالمقابل علمِ استغراب پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی،علم استغراب کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے،جس میں مغرب(امریکہ و یورپ) کا اعتقادی، قانونی، تاریخی،جغرافیائی،اقتصادی،سیاسی و ثقافتی تمام پہلووں سے مطالعہ کیاجائے۔اب تک یہ شعبہ مستقل علم کی حیثیت اختیار نہیں کر سکاہے؛لیکن اسلامی و عربی ممالک میں جونئی علمی علمی بیداری پیدا ہورہی ہے،اس کی روشنی میں امکان ہے کہ علمی تحقیق کے ادارے اور عالمِ اسلامی کی اعلیٰ تعلیم کی وزارتیں اس سمت میں ہمت کریں گی،قدم بڑھایاجائے گا اور ایسے علمی شعبے قائم کیے جائیں گے،جہاں مغرب کاعقیدہ و فکر و تاریخ اور اقتصاد و سیاست تمام شعبوں میں علمی و اختصاصی مطالعہ کیا جائے گا۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کرسکتے ہیں،ہم ایسی دنیا کے بارے میں کیسے پڑھ سکتے ہیں جوہم سے میلوں ؛بلکہ صدیوں آگے پہنچ چکی ہے؟تو معاملہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ اگر ہم دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور کی طرف رجوع کرتے ہیں ،تو دیکھتے ہیں کہ قرنِ اول کے مسلمان جب اسلامی دعوت لے کر دنیا کی طرف نکلے،تو وہ دوسری قوموں کے عقائد ،رسم و رواج اور روایات سے واقف تھے،وہ جہاں دعوت و تبلیغ کے لیے جارہے تھے،اس سرزمین کی سیاست،معیشت و جغرافیہ سے انھیں آگاہی ہوتی تھی۔آپ پوچھ سکتے ہیں کہ انھیں ان باتوں کا علم کیسے حاصل ہوتا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ قریش تاجر لوگ تھے،سردی و گرمی کے موسموں میں دنیاکے مختلف ممالک کا تجارتی سفر کیاکرتے تھے،مگر ان کے یہ اسفار محض تجارتی اور خرید و فروخت کے نقطۂ نظر سے نہیں ہوتے تھے؛وہ ان اسفار کے دوران ان ملکوں کے نظامِ حکومت اور سماجی ،سیاسی و اقتصادی احوال سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے۔مختلف قوموں سے اختلاط کی وجہ سے ان کے عقائد سے بھی انھیں واقفیت ہوگئی تھی،پھر قرآن کریم نے بھی انھیں یہود و نصاریٰ وغیرہ کے عقائد کے بارے میںتفصیل سے بتایا۔ اسی وجہ سے قرنِ اول کے مسلمانوں کو دیگر اقوام سے متعارف ہونے اور ان کے ساتھ تعامل اور دوسری قوموں کے پاس موجود مفیدوسائلِ تمدن سے استفادے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی؛چنانچہ انھوں نے دیوان،ڈاک،بعض اہم صنعتوں مثلاً کاغذسازی وغیرہ کا علم حاصل کرکے انھیں اتنی ترقی دی کہ ان صنعتوں پر مسلمانوںکی چھاپ لگ گئی۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مطالعۂ مغرب کے کچھ نقوش ہمیں اسامہ بن منقذکی کتاب’’الاعتبار‘‘میں ملتے ہیں ،جس میں انھوں نے صلیبیوں کی زندگی کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیاہے،ان کے طبائع و اخلاق اور خصوصیات و عیوب بیان کیے ہیں ۔ایک دلچسپ بات انھوں نے اُس معاشرے میں عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یہ بیان کی ہے کہ ان مردوں میں غیرت کا فقدان ہے؛چنانچہ ایک مردکواس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاکہ اس کی بیوی کسی غیر مرد سے ملے،اس سے بات چیت کرے،حتی کہ اس سے تنہائی میں ملے؛بلکہ وہ شخص خوداپنی بیوی کی کسی اجنبی سے ملنے پر حوصلہ افزائی کرتاہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے بارے میں جانیں۔اس سلسلے کی ابتدا غالباً رفعت رفاعہ طہطاوی اور خیر الدین تونسی وغیرہ نے یورپ کے حوالے سے کی تھی،انھوں نے مغرب کی جن چیزوں کے مطالعے پر زوردیاتھا،وہ وہاں کا سیاسی نظام تھا،جو انتخاب و سیاسی آزادی پر قائم ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مغرب کی اجتماعی زندگی اور عورت و مرد کے باہمی تعلقات پر بھی توجہ دی تھی۔تونسی و طہطاوی کی کتابیںایسے وقت میں منظر عام پر آئیں،جب عالمِ اسلامی پس گردی کی تباہیوں سے دوچار تھا،ایسے میں ان کا مغربی نمونۂ حیات سے متاثر و متحیر ہونا لازمی تھا،گرچہ انھوں نے اپنے زعم میں مغرب کی خوبیوں کواسلامی خوبیوں اور خصائص سے ہم آہنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔
اس صدی کے نصف میں دوبارہ مطالعۂ مغرب کی آواز مستشرقین کے ایک عالمی سمینار میں اٹھائی گئی۔رودی بارت نے اپنی اہم تصنیف’’الدراسات العربیۃ والاسلامیۃ في الجامعۃ الالمانیۃ‘‘(ص:15)میں اس طرف توجہ دلائی کہ عالم اسلامی کو اُسی طرح مطالعۂ مغرب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،جیسے مغرب عالمِ اسلامی کا مطالعہ کرتا ہے۔ڈاکٹر سید محمد شاہدنے اپنے ایک علمی لیکچر میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی، جوانھوں نے کنگ سعود یونیورسٹی میں 1414ھ میں دیاتھا،اس کی تلخیص رسالہ’’مرآۃ الجامعۃ‘‘میں شائع ہوئی تھی،پھر ڈاکٹر حسن حنفی کی کتاب’’مقدمۃ في علم الاستغراب‘‘کے نام سے سامنے آئی۔میں مطالعۂ مغرب کے اہداف کے سلسلے میں اس کتاب سے ایک اقتباس پیش کرناچاہتاہوں:
’’اپنے اورغیرکے درمیان تعلق کے تاریخی نقص کو دور کرنا،دوسرے کو دارِس کی بجاے مدروس بناکراس کے احساس ِ عظمت کو دور کرنا،اپنے احساسِ کمتری کومدروس کی بجاے دارس بناکر دور کرنا،چاہے مغرب کی زبان کو پڑھنے کا معاملہ ہویا وہاں کی ثقافت،علوم،مذاہب اور نظریات و افکارکوجاننے اور پڑھنے کا‘‘۔
مطالعۂ مغرب کی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس نے ایک ایسی تہذیب و تمدن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے،جو آج سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے اور طہ حسین و لطفی سید کی کتابوںکی وجہ سے مغرب کی طرح مسلمانوں کی ازسرِ نو ترقی کے سلسلے میں تردداورتشکک پھیلایاگیا اور یہ تلقین کی گئی کہ وہ اپنی خصوصیات و شناخت سے دست بردار ہوجائیں ،اپنے آپ کو مغرب کے حوالے کردیں اور مغربی طرزِ زندگی کو اس کی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں سمیت اختیار کرلیں۔حالاں کہ بعد میں طہ حسین نے اپنے س قسم کے افکار سے رجوع کرلیاتھا؛چنانچہ ان کی کتاب’’مستقبل الثقافۃ في مصر‘‘دوبارہ شائع نہیں ہوئی۔ اسی طرح اس کتاب کے بارے میں ان سے جب ایک بار سوال کیاگیا،تو انھوں نے جواب دیا کہ:وہ پرانی کتاب ہے۔
سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم مغرب کا مطالعہ کیسے کریں؟اگر ہم حقیقی معنوں میں مغرب سے واقفیت حاصل کرنااور مغربی تہذیب کی مثبت حصول یابیوں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ،تواس سلسلے میں ایک مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔اس کے لیے مختلف عربی و اسلامی یونیورسٹیز میں مطالعاتِ مغرب کی خاکہ سازی کے لیے دسیوں انجمنیں اور کمیٹیاں بنانی ہوں گی۔مگر یہ کام کرنے سے قبل ہمیں مطالعۂ مغرب کے بہترین طریقوں کے بارے میں غوروفکر کرنا ہوگا۔مجھے یاد آتاہے کہ امریکہ نے اپنے یہاں انیسویں صدی کے آغاز میں مطالعۂ مشرق(استشراق)کا سلسلہ شروع کیاتھا،مگر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد غیر اختیاری طورپر مشرقِ وسطیٰ یا عربی و اسلامی ملکوں میں اس کی حیثیت برطانیہ جیسی ہوگئی،جس کے بعد امریکی حکومت نے عربی،ترکی،فارسی،اردو اور مختلف ملکوں اور خطوں کے خصوصی مطالعے کے سینٹرزمیں سرمایہ کاری کی تجویز پاس کی۔
عربی زبان کی تدریس وتحقیق کے پروگرام شروع کرنے کے بعد امریکی یونیورسٹیز نے خصوصاً برطانوی اورعموماً یورپی یونیورسٹیز کے اساتذہ سے مدد لی کہ وہ امریکی یونیورسٹیز میں پڑھائیں،اسی طرح مشرقِ بعید کے مطالعات کے شعبوں میں پڑھانے کے لیے اس علاقے کے لوگ بلائے گئے،جیساکہ پرنسٹن یونیورسٹی نے فلپ کے ہتی کو مشرقی مطالعات کا شعبہ قائم کرنے کے لیے بلایاتھا۔پھرمشرقِ وسطی کے مطالعات کے شعبوں اور دوسرے علمی اداروں کے مابین دیگر سماجی و انسانی مطالعات کی طرح علمی و تحقیقی تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔اس وقت بیس سے زائد امریکی یونیورسٹیز کے عربی و اسلامی شعبے وفاقی حکومت سے امداد پارہے ہیں ؛تاکہ وہ امریکی حکومت کی ضروریات کی تکمیل کے منصوبے پر مضبوطی سے کا م کرتے رہیں۔
عالمِ اسلام میں یورپی زبانوں کی تدریس و تعلیم کم نہیں ہے،مگر ہمیں ضرورت ایسے لوگوں کی ہے،جو ان زبانوں میں مہارت حاصل کرکے اعلیٰ مقام تک پہنچیں،پھر مغربی یونیورسٹیز میں پڑھیں اور مغرب کے موضوعات و مسائل پر ریسرچ کریں،صرف ایسے موضوعات پر نہیں ،جو اسلامی دنیاسے تعلق رکھتے ہیں۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جومغربی ادب کو اس طرح سمجھتے ہوں،جیسے مثال کے طورپر پروفیسر ایڈرورڈ سعید سمجھتے تھے،انھوں نے مغربی ادب کے دیدہ ورانہ مطالعے کے ذریعے مغربی عقلیت کے اَعماق میں اترکراسے سمجھاتھا۔اسی طرح ہمیں ایسے انسان کی بھی ضرورت ہے جو مغربی علم ِسماجیات کا گہراعلم رکھتاہو؛ تاکہ وہ مغربی معاشرے کواس طرح جان سکے گویاوہ اسی کا ایک فردہے۔یہ مسئلہ مشکل بھی نہیں ہے؛کیوںکہ آج مغربی دنیامیں یورپی و امریکی نسل کے بہت سے مسلمان رہتے ہیں،جوان کے معاشرے کوحقیقی طورپرسمجھ سکتے اور جس قسم کی معلومات بھی حاصل کرناچاہیں ،آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں،انھیںکوئی مشکل نہیں پیش آئے گی۔
دھیان دینے کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارامطالعۂ مغرب ان ملکوں سے مستفاد ہونا چاہیے،جو اس سلسلے میں سبقت رکھتے ہیں،ایسے متعدد یورپی ممالک موجودہیں، جہاں امریکی اسٹڈیزکے ادارے کھولے گئے ہیں؛چنانچہ لندن یونیورسٹی کے اکانومک و پولٹیکل کالج میں امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم ہے،اسی طرح مونٹریال یونیورسٹی میں امریکی اسٹڈیز کا شعبہ ہے،جرمنی میں بھی ہے،پاکستان نے بھی امریکی اسٹڈیز کا ادارہ قائم کیاہے۔
البتہ ہمارا مطالعۂ مغرب، مغرب کے مطالعۂ مشرق سے مختلف ہونا چاہیے؛کیوںکہ مغرب نے تو مشرق کا مطالعہ اس لیے شروع کیاتھا کہ اس کا حکم وہدایت عیسائی مذہبی اداروں او رپاپائیت کی طرف سے تھااور مقصدیہ تھا کہ مسلمانوں کی قوت اور عیسائیوں کے زیرنگیں ممالک میںاسلام کی اشاعت کا راز معلوم کیاجائے۔وہ صرف مسلمان اور اسلام سے شناسائی نہیں حاصل کرنا چاہتے تھے؛بلکہ ان کے دواور مقاصد تھے:ایک یہ کہ عیسائیوں کو اسلام سے متنفر کیاجائے اور دوسرا یہ کہ اسلامی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مذہبی مبلغین تیار کیے جائیں۔
اس آغاز کے بعد یورپی استعمار کا ظہور ہوا اور اس نے بھی اس کی ہم نوائی؛ بلکہ اس سے آگے نکلنا ضروری سمجھا؛تاکہ اسے وہ استحکام حاصل ہوجواس کا مقصد تھا؛چنانچہ اہل مغرب کے پاس ایسے کئی عالم اسلامی کے ماہرین ہوئے ،جنھوں نے استعمار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں حصہ لیا۔پھرایک زمانے کے بعد استعماری لہریں محدود اور ختم ہوتی چلی گئیں،مگر مغرب کی یہ خواہش برقراررہی کہ وہ عالمِ اسلامی میں داخل ہو، تاکہ مغربی ملکوں کا خام مواد وہاں آسانی سے داخل کیاجاسکے،پھراسے تیارشدہ سامان کی شکل میں اسلامی دنیامیں رائج کیاجاسکے؛چنانچہ ان ملکوںکیسماجی طرززندگی میں بدلاؤآنااور مخصوص قسم کے طرزِاخلاق کواختیار کرنااوراسے مضبوطی سے تھامنا یقینی تھا،پھر ہمارے ممالک ان کے وسائل و اسباب ومصنوعات کی کھلی مارکیٹ بن گئے۔(الاماشاء اللہ)
پس ہم اگر مغرب کا،مغربی اداروں کا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں توپہلے ہمیں مادی قوت کے ان اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ہوگا،جو ان کے پاس ہیں،خود قرآن کریم میں اس کی ہدایت دی گئی ہے کہ’’ان سے مقابلے کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو،تاکہ تم اس کے ذریعے ان لوگوں پر اپنا رعب جمائے رکھوجوکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں‘‘۔(الانفال:60)توجس طرح امریکی مثلاً اس کوشش میں ہیں کہ وہ جاپانی مینجمنٹ اور اس کی تخلیقی اور تیز رفتارترقی کی قوت کارازمعلوم کرسکیں،اسی طرح ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ان کی قوت کے اسباب کا پتالگائیں۔جس طرح انھوں نے اپنی زندگی میں مینجمنٹ،صنعت،معیشت،تعلیم وثقافت کے شعبوں کے نظام کے اطلاق ونفاذکا میکانزم تیارکیاہے،ایسےہی ہمیں کرناہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جب مغرب کا مطالعہ کریں گے، تو ہمارا کوئی استعماری مقصد نہیں ہوگا،ویسے بھی مسلمانوں کا مزاج کبھی استعمارینہیں رہا۔مجھے سلطنت عثمانیہ کے دفاع میں لکھی گئی محمد جلال کشک کی یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ وہ نہ تو استعماری حکومت تھی اورنہ اسے ایسا کہاجاسکتاہے، انھوں نے اپنے اس دعویٰ کی متعدددلیلیں بھی پیش کی ہیں۔مغرب کے مطالعے سے ہمارا مقصد محض اپنے مفادات کا تحفظ کرناہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس تصور کوسمجھناہے، جسے مغرب نے ایجادکیااور دنیاکی بہت سی حکومتوں سے زیادہ طاقت ورہوگیا۔
تیسری بات جو خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ ہے کہ یہی امت، امتِ دعوت و شہادت ہے، حضور اکرمﷺکے پہلے کے انبیاعلیہم السلام اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے،پھر تمام مسلمانوں کو یہ ذمے داری دی گئی (قل ہذہ سبیلي أدعوإلی اللّٰہ علی بصیرۃ أناومن اتبعن)اورحدیث میں ہے کہ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو شاداب رکھے، جس نے میری بات سنی،پھر اسے ذہن میں بٹھالیا،پھراسے ان لوگوں تک پہنچایا، جنھوں نے نہیں سنی تھی؛کیوںکہ بہت سے وہ لوگ، جنہیں وہ بات پہنچائی جائے گی وہ اس سننے والے سے زیادہ باشعور و بیدار مغزہوںگے‘‘۔حضورﷺکایہ آخری پیغام محض ایک اعتقادی سسٹم کا حصہ نہیں ہے، جس کا تعلق انسان اوراس کے رب سے ہے،جیساکہ عیسائیت میں ہے اور اسے ماننے والوں کا خیال ہے کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایاہے’’جوقیصر کا ہے وہ اس کے لیے چھوڑدواور جو اللہ کا ہے،وہ اس کے لیے خاص رکھو‘‘۔اس کے برخلاف حضورﷺکایہ پیغام سماجی،سیاسی،معاشی،اخلاقی و فکری الغرض زندگی کے ہرپہلو میں نافذہوگااورہمیں جب امتِ شہادت بنایاگیاہے،توان لوگوں کے بارے میں ہم کیسے گواہی دے سکیں گے،جنھیں حقیقی معنوں میں جانتے ہی نہ ہوں؟
مغرب کا مطالعہ دنیا کی نظرمیں مغرب کی شبیہ مسخ کرنے کے لیے بھی نہیں ہونا چاہیے؛کیوںکہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ’’کسی قوم سے دشمنی تمھیں ناانصافی پرنہ ابھارے،تم انصاف کرو،یہی تقوی کے قریب ہے اور اللہ سے ڈرو‘‘۔اسی طرح ہمیں اپنے رشتے داروں اور والدین کے معاملے میں بھی انصاف کا حکم دیاگیاہے۔اس حوالے سے ہمارے لیے حضرت عمروبن العاصؓکایہ قول نمونہ ہونا چاہیے،انھوں نے رومیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا:’’ان کے اندر چار خصلتیں ہیں:آزمایش کے وقت وہ نہایت بردباراورمتحمل ہوتے ہیں،مصیبتوںسے بہت جلد باہرنکل آتے ہیں،جنگ میں پیچھے ہٹنے کے بعد تیزی سے پلٹتے ہیں،مسکینوں اور یتیموں کے خیرخواہ ہیں اور پانچویں اچھی بات یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بادشاہوں کے ظلم سے محفوظ رکھاہے‘‘۔
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)