نئی دہلی:لوک سبھا میں منظور ہوچکے تین کسان بلوں کو لے کر اروند کیجریوال بھی میدان میں آگئے ہیں ۔کجریوال کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں اتر گئے ہیںاور کہا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ بل کسانوں کو بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال کرنے کے لیے چھوڑ دے گا۔ انہوں نے راجیہ سبھا میں تمام اپوزیشن جماعتوں سے متحد ہو اس کی مخالفت کرنے کو کہا۔کجریوال نے اپنے ٹویٹ میں لکھاکہ مرکز کے تینوں بل کسانوں کو بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال کے لئے چھوڑ دیں گے۔ میری تمام غیر بی جے پی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ راجیہ سبھا میں متحد ہوں اور ان بلوں کی مخالفت کریں، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے تمام ممبران پارلیمنٹ موجود ہوں اور واک آؤٹ کا ڈرامہ نہ کریں۔ پورے ملک سے کسان آپ کو دیکھ رہے ہیں۔واضح رہے کہ جمعرات کو لوک سبھا میں کسانوں کے تین بل منظور ہوچکے ہیں، اب انہیں راجیہ سبھا میں پیش کیا جانا ہے۔ جمعرات کو اس بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ پارٹیوںنے ان بلوں کوکسان مخالف قرار دیا ہے۔ جون میں کسان آرڈیننس نافذہونے کے بعد سے پنجاب اور ہریانہ کے کسان اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔مون سون سیشن شروع ہونے کے بعد ان کا احتجاجی مظاہرہ سڑکوں پر ہورہا ہے۔ مرکز کے ان بلوں کے خلاف مظاہرے اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ بی جے پی کی سب سے قدیم حلیف شرومنی اکالی دل کی واحدکابینہ وزیر ہرسمرت کور نے ان آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے اور ان کی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ این ڈی اے میں رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں جلد ہی بعد میں فیصلہ کرے گی۔
Kijriwal
دہلی میں ’گھر گھر راشن اسکیم ‘ منظور،گراہکوں کو اب راشن کی دکان نہیں جانا پڑے گا
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے منگل کو ڈیجیٹل پریس کانفرنس کی۔ اس دوران انہوں نے کہاکہ ملک کی ہر حکومت مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر اپنی ریاست کے غریب عوام میں راشن تقسیم کرتی ہے۔ جب سے ملک میں راشن کی تقسیم کا آغاز ہوا،اس وقت سے غریب عوام کو راشن لینے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی آپ کو بند دکان ملتی ہے اور کبھی ملاوٹ ملتی ہے، کبھی رقم زیادہ لے لیتے ہیں۔ گزشتہ5 سالوں میں ہم نے راشن کے انتظام میں بہت ساری اصلاحات کیں۔انہوں نے مزید کہاکہ آج ہماری کابینہ نے جو فیصلے لئے ہیں وہ کسی انقلابی فیصلے سے کم نہیں ہیں۔ آج ہم نے دہلی میں راشن کی اسٹپ ڈلیوری آف راشن کی اسکیم کو منظوری دے دی ہے۔ اس اسکیم کا نام ’وزیر اعلی گھر گھر راشن اسکیم‘ہوگا۔ اس اسکیم کے تحت اب لوگوں کو راشن دوکان میں نہیں آنا پڑے گا، لیکن راشن عزت کے ساتھ لوگوں کے گھر پہنچایا جائے گا۔ ایف سی آئی کے گودام سے گندم اٹھایا جائے گا اور آٹا پسوایاجائے گا۔ چاول اور چینی وغیرہ بھی پیکنگ کی جائے گی اور لوگوں کو گھر گھر پہنچایا جائے گا۔سی ایم کیجریوال نے کہاکہ لوگوں کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ جو بھی دکان پر جاکر راشن لینا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے اور اگر وہ ہوم ڈلیوری چاہتا ہے تو وہ اس اسکیم کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ہوم ڈلیوری راشن اگلے چھ سے 7 ماہ میں شروع ہوگی۔ ہوم ڈیلیوری میں گندم کے بجائے آٹا دیا جائے گا جس دن دہلی میں راشن کی ہوم ڈیلیوری شروع ہوگی، دہلی میں مرکزی حکومت کی ون نیشن ون راشن کارڈ اسکیم نافذ ہوگی۔
کیجریوال کی اسپتالوں سے اپیل:کورونا سے صحت یاب ہونے والے لوگوں کو پلازما دینے کے لیے کہیں
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے پیر کو اسپتالوں سے اپیل کی ہے کہ کورونا سے ٹھیک ہونے والے مریضوں کو 14 دن کے بعد پلازما کا عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں پلازما بینک کے شروعات ہونے کے بعد گذشتہ 4-5 دنوں میں پلازما کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہاں پلازمادینے والوں کی کمی ہے۔وزیر اعلی نے اسپتالوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے صحت مند مریضوں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیں۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں کورونا کے 15000 بستر ہیں جن میں 5100 مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔ واضح رہے ریاست میں کورونا کا انفیکشن تیزی سے پھیل رہا ہے۔سی ایم نے کہا کہ اب اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ جون تک جہاں 100 میں سے 35 افراد انفیکشن میں مبتلا تھے، اب 100 میں سے صرف 11 افراد ہی متاثرہو رہے ہیں۔سی ایم کیجریوال نے کہاکہ دہلی میں کورونا صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ اب تک یہاں کے 72 ہزار افراد اس انفیکشن کے ٹھیک ہو چکے ہیں۔ اب اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اب صرف 11 مریض 100 میں مل رہے ہیں جون تک 100 مریضوں 35 مریض مل رہے تھے۔کیجریوال نے مزید کہا کہ اس وقت 5100 بستروں میں کورونا مریض ہیں۔ دہلی میں ٹیسٹنگ اور بیڈ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ روزانہ 20 سے 24 ہزار ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ سی ایم کیجریوال نے کہا کہ ہم نے ملک میں پہلا پلازما بینک بنایا ہے۔ جب تک کہ کوئی ویکسین موجود نہیں ہے پلازما تھریپی ضروری ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے پلازما کا عطیہ کرنے کی اپیل کر رہا ہوں۔ پلازما کا عطیہ کرنے کیلئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پلازما بینک تک پہنچنے کے لیے حکومت آپ کے اخراجات برداشت کرے گی۔ زیادہ تر افراد جو ٹھیک ہوچکے ہیں انہیں پلازما دیناچاہئے۔
ورگیزکے جارج
(ایسوسی ایٹ ایڈیٹر روزنامہ دی ہندو)
ترجمہ:نایاب حسن
پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مظلوم ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت دینے کے لیے ہندوستان کی طرف سے پچھلے سال نافذ کردہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) کی تنقید کے سلسلے میں دو مخالف نظریے سامنے آئے ہیں۔ ایک تو اس ملک کے لبرلز کی طرف سے جو اس قانون کو ایک مخصوص طبقے کو خارج کرنے والا یا غیر جامع مانتے ہیں،جبکہ وطن پرستوں کی ایک جماعت اسے کچھ زیادہ ہی وسیع الذیل سمجھتی ہے۔ عام آدمی پارٹی (آپ) کے بانی اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی سی اے اے کی مخالفت اسی دوسرے نظریے کے دائرے میں آتی ہے۔ ہندو ہو یا مسلمان، مظلوم و مقہور ہو یا نہ ہو، پاکستانی ہویا سری لنکن، کسی کو بھی ہندوستان آنے کی اجازت کیوں ہونی چاہیے؟
انھوں نے مارچ میں دہلی اسمبلی میں کہاتھا: ”میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون پاکستانی ہندووں کے حق میں ہے اور ہندوستانی ہندووں کے خلاف ہے“۔ جنوری میں انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:”کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان اپنے جاسوسوں کو ہندو بنا کریہاں نہیں بھیجے گا؟“۔ ان کا کہنا تھا کہ دہلی کے وزیر اعلی کی حیثیت سے ان کی ذمے داری صرف اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہے۔
حال ہی میں ان کے اس فیصلے کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے مسترد کردیا ہے، جس میں COVID-19 کے علاج کے معاملے میں نجی اور ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے اسپتالوں کی خدمات صرف شہر کے اُن باشندوں تک محدود کرنے کی بات کی گئی تھی، جن کے پاس یہاں کی شہریت ثابت کرنے کے مطلوبہ دستاویزات ہوں۔گویا انھوں نے اپنے متعارف موقف کے مطابق یہ فیصلہ کیا تھا،یعنی جس طرح ہندوستان صرف ہندوستانیوں کے لیے ہونا چاہیے اسی طرح دہلی صرف دہلی والوں کے لیے ہونی چاہیے۔
مسٹر کجریوال کی دہلی میں لگاتار تین بار جیت سے غیر نظریاتی سیاست کے ایک نئے ماڈل کی امید پیدا ہوگئی تھی، جو ممکنہ طور پرمتوارث جماعتوں کے تحرکات اور حکمت عملیوں کو بدل سکتی تھی۔ طبقے، ذات پات اور مذہب سے قطع نظر انھیں حاصل ہونے والی عوامی حمایت سے یہ امید جگی تھی۔ مگر یہ نمائندگی اور بااختیار بنانے کی سیاست نہیں تھی، یہ صارف شہریوں کے لئے نظم و انتظام اور کارکردگی کی سیاست تھی۔ ان کے سیاسی تصور کے مطابق مسٹر کجریوال ایک آنلائن بازار کے قابل اعتماد ڈلیوری بوائے بن گئے۔ دہلی میں عوامی خدمات عام آدمی پارٹی (آپ) کے دور حکومت میں بہتر ہوگئیں یا پھر اس وقت تک ایسا لگ رہا تھا، جب تک کہ کورونا کی وبانہیں پھیلی تھی۔
لاسیاسیت کے پسِ پردہ:
عام آدمی پارٹی لا سیاسیت (apoliticism)کا ایک بودا دعویٰ کرتی رہی ہے؛کیوں کہ قوم پرستی اور مہاجر دشمنی بھی ایک سیاست ہے اورشہریوں کو خدمات کی پیش کش بھی ہندو علامتوں کے غلاف میں لپیٹ کر کی گئی۔ہندوعلامتوں کی توسیع آج کی ہندوستانی سیاست میں عالمگیریت کے قریب قریب پہنچ چکی ہے اور مسٹر کیجریوال نے انھیں دہلی اسمبلی الیکشن۲۰۲۰ میں بڑی مہارت سے استعمال کیا۔وہ سی اے اے پر گول مول موقف اور پاکستان مخالف ووٹرز کو لبھاکر نکل جاتے،مگر بی جے پی کے جارحانہ اقدامات نے کیجریوال کا بیلنس بگاڑ دیا۔دہلی شہر کے ان ووٹرز کے سامنے مبہم موقف کے ساتھ سامنے آنا کافی نہیں تھا،جنھوں نے کیجریوال کو لگاتار تین بار کامیاب کروانے کے دورانیے میں ہی مسلسل دوبار ہندوتو کے ایشو پر ووٹ دیا تھا۔اس کے جواب میں کیجریوال نے جموں و کشمیرکے خصوصی سٹیٹس کو سلب کیے جانے کی تائید کی،حالاں کہ وہ خود دہلی کو مکمل ریاست قرار دیے جانے کی مانگ کرتے رہے ہیں۔جب جے این یو کیمپس میں مسلح غنڈے گھس گئے اور طلبہ و طالبات کی پٹائی کی،تو کیجریوال نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔اسی طرح جب فروری میں دہلی میں فساد برپا ہوا اور پچاسوں جانیں ضائع ہوئیں،تواس دوران بھی کیجریوال محض بکواس کرتے رہے۔
عام آدمی پارٹی نے 2020کے اسمبلی الیکشن کے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا کہ اسکولوں میں قوم پرستی کا خصوصی کورس متعارف کروائے گی اور طلبہ کے ذہن و دماغ میں افواج کے تئیں احترام و تقدیس کا جذبہ پیدا کرے گی۔جب کورونا وائرس کی وجہ سے ہندوستان بھر میں لاک ڈاؤن شروع ہوا توکیجریوال نے اعلان کیا کہ اس دوران وہ اور ان کی بیوی بھگودگیتا پڑھیں گے،انھوں نے اور لوگوں سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کی۔
اب تک کا ریکارڈ:
زمینی سطح کے کارکنان،لبرل دانشوران اور بائیں محاذ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ،جنھوں نے کیجریوال کو سپورٹ کیا تھا،وہ بہت جلد ان سے بدل دل ہو گئے،پھر انھیں جلد ہی پارٹی سے صاف کردیا گیا۔حال ہی میں آر ایس ایس پر شائع ہونے والی ایک کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی جنم داتا ”انڈیا اگینسٹ کرپشن“ تحریک کے عوامی اثرات سے سنگھ سربراہ موہن بھاگوت جزبز ہوگئے تھے۔یہ تحریک دیگر بہت سی غیر سیاسی جماعتوں سے لے کر آر ایس ایس تک کی ایک غیر متنازع بھیڑ تھی،جبکہ عام آدمی پارٹی کی نمود مزاج و نہاد میں اکثریت پسند اور عملی اعتبار سے ڈکٹیٹر کے طورپر ہوئی۔مسٹر کیجریوال نے ایک ایسا سیاسی کاکٹیل پیش کیا،جس کا اقتصادی نظریہ تو بائیں بازووالاہے،جبکہ اس کا ثقافتی رنگ و روپ دائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھتا ہے،جو مارکیٹ کے عام چلن کے خلاف ہے۔
اس سال وزیر اعلیٰ کے طورپر حلف برداری کے وقت انھوں نے کہا تھا”کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیجریوال ہر چیز مفت کر رہاہے۔ہر قیمتی چیز مفت ہے،ایک ماں کا پیاربچے کے لیے مفت ہے،اسی طرح ایک باپ اپنے بچے کو تعلیم دینے کے لیے خود بھوکا رہتا ہے اور ایسا وہ مفت میں کرتا ہے۔کیجریوال دہلی کے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور دہلی کے لوگ بھی اس سے پیار کرتے ہیں،یہ پیار بھی مفت ہے“۔
وہ ان لوگوں کو احساسات سے بھی محروم کر سکتے ہیں جو مارکیٹ کے ذریعے اپنے حقوق سے محروم کیے گئے اور جن پر ظلم کیا گیا اور وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔کیجریوال نے خود کو ایک مشکل ریاست کے مضبوط لیڈر کے طورپر پیش کیا۔کچھ دن تک خاموش رہنے کے بعد ان کی حکومت نے جے این یو طلبہ پر بغاوت کے الزام کی تائید کردی۔باشعور اور حساس لوگوں کے ایک طبقے کے مابین پرائیویسی بہت ہی اہم معاملہ ہے،مگر کیجریوال دہلی کے لوگوں کی نگرانی بڑھانے کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں اوراس بنیاد پر ووٹ بھی بٹورتے ہیں۔شہر کے سرکاری اسکول ایک ایسا تکنالوجیکل آلہ تیار کررہے ہیں جس کی مدد سے بچوں کے والدین اپنے وارڈز کوکسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں۔کیجریوال تواضع و بے نفسی کا دکھا وا کرتے اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی بات سنتے ہیں،حالاں کہ فی الحقیقت عوام اور لیڈر کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے،کوئی کابینہ،کوئی میڈیا سوال نہیں پوچھ سکتا۔دہلی سے باہر والوں کو دہلی کے ہسپتالوں سے باہر رکھنے کا فیصلہ مسٹر کیجریوال کے مطابق ایک ڈیجیٹل پولنگ کے بعد کیاگیا تھا،جس میں نوے فیصد لوگوں نے اس کی تائید کی تھی،یعنی عوام خود ہی ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے۔
قابل ذکر ہے کہ دہلی کابینہ میں ایک بھی خاتون نہیں ہے،حالاں کہ عام آدمی پارٹی جنسی ہراسانی کے کئی معاملوں میں سزائے موت کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔دہلی حکومت کے ذریعے رحمِ مادر میں قتل کی جانے والی بچی کے تعلق سے جاری کردہ اشتہار خواتین کو بااختیار بنانے کے تعلق سے مسٹر کیجریوال کے نظریے کو بیان کرتا ہے”میں ایک بچی ہوں،رحمِ مادر سے بول رہی ہوں“۔ایک بچی کی ڈرامائی آواز سے اس کی شروعات ہوتی ہے،جو اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے۔اس کے بعد کیجریوال کی آواز سننے میں آتی ہے”میں ایسی لاکھوں نہ پیدا ہوسکنے والی بچیوں کے حق میں بول رہا ہوں،یہ بچیاں کسی کی ماں،کسی کی بیٹی، کسی کی بہو،کسی کی بیوی بن کر پلیں گی بڑھیں گی اور یہی بچیاں ہماری قوم کی کلپنا چاؤلا،ثانیہ مرزا،پی ٹی اوشا بنیں گی اور قوم کا نام روشن کریں گی“۔اس سے قوم کی ترقی میں خواتین کے کردارکی نوعیت کے تئیں کیجریوال کے نظریے کی بہت حد تک وضاحت ہوجاتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سے دانشوران بشمول تحریکِ نسواں سے وابستہ افراد ان کی اس قسم کی پوزیشن کو پسند نہ کریں،مگر کیجریوال کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔اکثریت کی رائے پر سوال اٹھا نا سیاست میں اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔مثلاًمرکزی سیاسی دھارے سے تعلق رکھنے والی جماعت اور لیڈران میں سے کانگریس کے راہل گاندھی کے علاوہ کسی بھی نیتا نے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی پر سوال نہیں کھڑے کیے ہوں گے، کسی نے ان کی بات پر دھیان بھی نہیں دیا۔کیجریوال کے نائب سسودیا نے سی اے اے کے خلاف مظاہرین کے تئیں ہلکی سی ہمدردی کا اظہار کیا اوراس کے نتیجے میں وہ اپنی سیٹ گنواتے گنواتے بچے، وہ اب بھی حکومت کے شعبۂ تعلیم کے انچارج ہیں،جو بظاہر اچھا کام کررہاہے۔بہت سے لوگوں نے کیجریوال کو وزیر اعظم مودی کا متبادل سمجھا تھا۔ہوسکتا ہے وہ اب بھی اپنے آپ کو ان کا جانشین سمجھتے ہوں اور اگر واقعی ایسا ہوتا ہے، تو وہ ہندوتوکو چیلنج کرنے کے ذریعے نہیں ہوگا اور جہاں تک ان کے گڈ گورننس کے دعوے کی بات ہے،تو اس کی اصل اور پہلی حقیقی آزمایش تو اب ہورہی ہے،جبکہ شہر دہلی اور حکومتِ دہلی لاک ڈاؤن سے باہر نکلی ہے،شہر بھر کا ہیلتھ کیئر سسٹم چرمراتا جارہاہے اورکورونا کے کیسز میں روزبروز کئی گنا اضافے ہورہے ہیں۔
(یہ مضمون 15/جون کو روزنامہ دی ہندو میں شائع ہوا ہے)
نئی دہلی:جیسے جیسے کورونا وائرس کے معاملات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں، دہلی میں لاک ڈاؤن بڑھانے کی قیاس آرائیاں تیز ہورہی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی میں لاک ڈاؤن بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دہلی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد 41000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اور اب تک 1300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اس سے قبل 15 جون سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا دعوی کیا جارہا تھا۔ جس پر اتوار کے روز پی آئی بی کی جانب سے وضاحت دی گئی۔ پی آئی بی نے ٹویٹ میں کہاکہ یہ غلط خبر ہے۔ ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کیا جارہا ہے۔ افواہوں سے دور رہیں۔ پیر کو وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 332424 ہوگئی ہے۔ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 11502 نئے کیس رپورٹ ہوئے اور 325 افراد ہلاک ہوگئے۔ اب تک ملک میں 9520 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، حالانکہ 169798 مریض اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں۔
نئی دہلی:دہلی میں بڑھتے ہوئے کورونا کیس کے حوالے سے الزامات اور جوابی ردعمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔گجرات کی صورت حال پرکوئی چرچانہیں ہورہی ہے اوربی جے پی احمدآبادکی بدحالی پرکوئی سوال نہیں اٹھارہی ہے۔سابق کرکٹر اوربھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کہاہے کہ دہلی کی حالت تشویشناک ہے۔ کیجریوال حکومت کوپوراکھول نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس کے بعد سے شراب کی دکانیں کھل گئیں ۔صورتحال اب تک ٹھیک نہیں ہوسکی۔بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کہاہے کہ آپ (سی ایم اروند کیجریوال) کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک کروڑ لوگوں کو کھانے کا اناج دے رہے ہیں ، اگلے دن 25 لاکھ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ ہم لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں ، لیکن آج تک باورچی خانے کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ صورتحال بہت خراب ہے۔ عام لوگوں کو پریشانی کاسامناہے۔گوتم گمبھیر نے کہا کہ کوئی بھی سیاستدان یا مشہور شخص کومسئلہ نہیں ہوسکتا۔ انہیں اسپتالوں میں بستر ملیں گے ، لیکن عام آدمی کو پریشانی ہوگی۔ انہیں بسترنہیں مل رہے ہیں۔ لوگوں کو ایک بہت بڑی پریشانی ہے۔ کیجریوال حکومت نے دعویٰ کیاہے کہ 30 ہزار بیڈ کا انتظام کیا گیا ہے ، لیکن زمینی حقیقت کچھ اورہے۔
نئی دہلی:ملک کی راجدھانی دہلی میں کوروناوائرس کے مسلسل بڑھتے ہوئے معاملات کے درمیان حکومت کی جانب سے کئے گئے انتظاموں کو لے کر ریاست کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ دہلی میں کورونا کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔ہم ریاست میں مستقل لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے ہیں۔کیجریوال نے کہا کہ کورونا کے معاملے بڑھنے تشویش ہے لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت کوروناوایرس سے چار قدم آگے ہے۔وزیر اعلی کیجریوال نے کہا کہ کوروناوائرس رہے گا اس لیے اس کے ساتھ رہنے کا انتظام کرنا پڑے گا۔دہلی کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے دو چیزوں پر میری فکر ہوگی۔پہلی اگر موت کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھنے لگے اور دوسراکورونا کے مریض زیادہ ہو ں اور بیڈکم ہوں۔ دہلی میں گزشتہ چند دن سے روزانہ 1000 سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ایسے حالات میں وزیر اعلی کیجریوال کی یہ کانفرنس اہم مانی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر انتظامات کم پڑ گیا تو موت سے بھی زیادہ ہوں گی۔گزشتہ ایک ہفتے میں ہم نے بیڈ کاکافی انتظام کر لیا۔17386 میں سے 2100 مریض اسپتال میں ہیں، باقی گھروں میں کووارنٹین سنٹر میں ہیں۔آج تک 6600 بیڈ کا انتظام ہو گیا ہے۔ایک ہفتہ پہلے 4500 بیڈ کا انتظام کیا گیا۔گزشتہ ایک ہفتے میں ہم نے مزید 2100 بیڈوں کا انتظام کر لیا ہے۔9500 بیڈ اگلے ایک ہفتے میں اور تیار ہو جائیں گے۔پرائیویٹ بیڈ 677 سے بڑھا کر 2677 بیڈ کر دیئے ہیں۔5 جون تک پرائیویٹ میں 3677 بیڈ ہو جائیں گے۔ دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ جتنے لوگوں کو کورونا ہو رہا ہے زیادہ تر لوگ بغیر علامات والے تھے اس لیے گھروں میں ہیں زیادہ تر لوگ ٹھیک ہو رہے ہیں۔اگر کسی کے گھر میں کورونا مریض ہو تو وہ کہاں جائے کیونکہ لوگوں کو اس بارے میں معلومات نہیں ہوتی۔ ایک ایپ بنا لیا ہے۔پیر کو اس کو لانچ کریں گے۔یہ بتائے گا کہ کس اسپتال میں کتنے بیڈ ہیں کتنے خالی ہیں یا کتنے وینٹی لیٹر ہیں اور کتنے خالی ہیں۔گزشتہ دنوں کچھ ایسے معاملے آئے جس میں مریض پریشان ہوتا رہا اور اس کو اچھے وینٹی لیٹر نہیں ملا اور دوسری طرف ہم یہ کہتے رہے کہ بیڈ اور وینٹی لیٹر خوب دستیاب ہیں۔سی ایم نے کہا کہ گندی سیاست کی وجہ سے کچھ لوگ گمراہ کرنے والے ویڈیو بناتے ہیں ویڈیو کہیں اور کا ہوتا ہے۔صبح سے ایک ویڈیو چل رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے دیکھئے کتنی لاشیں ہیں۔کسی نے ایک ویڈیو بنا دیا اور کہا کہ دیکھے دہلی حکومت کے اسپتال میں کتنا گندی کھانا پتہ لگا وہ اسپتال دہلی حکومت کا ہے ہی نہیں۔ کیجریوال نے کہا کہ ڈاکٹر اور نرس نے محنت کرکے موت کے اعداد و شمار کو اتنا کم رکھا ہوا ہے اس کے بعد ہم یہ ویڈیو بناتے ہیں کہ دیکھئے لاشیں۔فرضی ویڈیو چل رہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر کوئی صحیح ویڈیوز آئے گا تو میں اس پر کارروائی کروں گا۔کوروناوائرس کا قہر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔وزارت صحت کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ہفتے کی صبح تک ملک میں 173763 مریض سامنے آئے ہیں، جبکہ 4971 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ 24 گھنٹے میں سب سے زیادہ نئے کیس اور سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔24 گھنٹے میں 7964 نئے کیس سامنے آئے ہیں جبکہ 265 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ حالانکہ 82370 مریض اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
ہم اتنے غیر متمدن نہیں ہیں کہ کسی کی نیک خواہشات کو ٹھکرادیں۔ہم تو کھلے دشمن کی ایک مسکراہٹ پر بھی اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں ۔ مگر ہمیں آپ کی "عید کی مبارکباد” قبول نہیں ہے مسٹر کجریوال!
آپ کی عید کی مبارکباد ہمیں اس لئے قبول نہیں ہے کہ:
1- آپ نے بی جے پی کے بدزبان کپل مشرا’ انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کو دہلی کا ماحول خراب کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔
2- انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا مگر آپ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔تسلیم کہ آپ کے پاس پولس نہیں ہے۔لیکن آپ کے پاس ہوم ڈیپارٹمنٹ ہے’ آپ کے پاس لا ڈیپارٹمنٹ ہے۔آپ دہلی سرکار کی طرف سے ان تینوں کے خلاف FIR کراسکتے تھے۔آپ نے کنہیا کمار کے خلاف ” ملک سے غداری” کا مقدمہ چلانے کی اجازت تو دیدی لیکن ان تینوں کے خلاف ایک ورق کی شکایت درج نہیں کرائی۔
3- آپ نے 24 فروری کا مشرقی دہلی کا مسلم کش فساد برپا ہونے دیا ۔ آپ آج تک فساد زدگان سے ملنے یا ان کا حال پوچھنے نہیں گئے ۔
4- آپ نے بی جے پی کی اس تھیوری پر یقین کرکے اپنے ایک مسلم کونسلر کو برطرف کرکے گرفتار کرادیا کہ ایک آئی بی افسر کے قتل میں اس کا ہاتھ تھا۔جبکہ وہ اپنی بے گناہی کے کئی ٹھوس ثبوت پیش کرتا رہا۔
5- آپ نے مقتول آئی بی افسر کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا مگر جو بے گناہ شرپسندوں کی بھینٹ چڑھ گئے ان کی کوئی فکر آپ نے نہیں کی۔
6- 16 مساجد اور چار مزاروں کی بے مثال تباہی وبربادی کی گئی لیکن آپ نے ایک مسجد کا بھی دورہ نہیں کیا۔یہی نہیں آپ کا کوئی وزیر بھی اُدھر کو نہیں پھٹکا۔
7- دہلی سرکار نے لٹے پٹے لوگوں کے لئے کوئی کیمپ نہیں لگایا بلکہ جو کیمپ دہلی وقف بورڈ نے لگایا اسے آپ نے اپنی سرکار کے کھاتے میں ڈال لیا۔
8- لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وقف بورڈ کا چیرمین ایک کروڑ کے آس پاس کا چندہ کرکے فساد زدگان کی مدد میں "حد” سے آگے بڑھ گیا ہے تو آپ نے ٹکنکل گراؤنڈ کا بہانہ لے کر اسے چیرمین شپ سے ہٹادیا۔60 تباہ حال گھرانے ایک ایک لاکھ کی نقد مدد سے محروم رہ گئے ۔
9- دہلی وقف بورڈ کے ائمہ کی پانچ مہینوں کی تنخواہیں کافی لیت ولعل اور بھاگ دوڑ کے بعد جاری کی گئیں لیکن درخواست کے باوجود آپ نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔
10- دہلی وقف بورڈ کے غیر مستقل درجنوں ملازمین کی تنخواہیں آج تک ادا نہیں کی گئی ہیں ۔چیر مین کی ایما پر آپ نے جن غیر وقف مسجدوں کے ائمہ کی تنخواہوں کا الیکشن سے پہلے اعلان کیا تھا وہ تنخواہیں بھی اٹک گئی ہیں۔ آپ کے افسران کھلے طور پر بی جے پی کے اشاروں پر وقف بورڈ کو بدحالی کے غار میں ڈھکیلتے جارہے ہیں ۔
11- کورونا جیسی وبا کو آپ نے تبلیغی جماعت کا سہارا لے کر مسلمانوں کو مطعون کرنے کیلئے استعمال کیا ۔ اس پر چینلوں نے جو دہشت گردی مچائی اس کا زور کم کرنے کیلئے آپ نے کچھ نہیں کیا۔ پورے ملک میں آپ نے مسلمانوں کو نشانہ پر رکھوادیا۔
12- 30 فیصد کورونا پھیلانے کے الزام میں آپ نے جماعت کے جن دوہزار سے زائد افراد کو "پکڑا” تھا انہیں دومہینوں تک سینٹروں میں ستایا جاتا رہا۔ ان میں سے بیشتر کی رپورٹ منفی آنے کے بعد آپ نے نہیں بتایا کہ کتنے فیصد ٹھیک ہوگئے ۔
13- آپ نے نہیں بتایا کہ دہلی میں 70 فیصد کورونا آخر کس نے پھیلایا۔ لیکن 30 فیصد کا ذکر آپ نے خوب اہتمام سے کیا۔
14- دہلی میں آپ کی اس "زہریلی” پالیسی کے سبب مسلم سبزی فروشوں کے ساتھ تعصب برتا گیا’ مارپیٹ کی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے پھل لوٹ لئے گئے مگر آپ نے نہ تو ان پریشان حال مزدوروں کا تحفظ کیا اور نہ ان کے حق میں دو بول بولے۔
15- مشرقی دہلی کے فساد زدگان پر لاک ڈاؤن کے دوران ایک اور قیامت ڈھائی گئی۔ نوجوانوں اور بچوں کو اٹھایا گیا ۔لیکن آپ نے لبوں کو جنبش نہیں دی۔
ایسے میں بتائیے کہ عید کی خوشیاں کون منائے گا؟
ابھی نہیں معلوم کہ آپ کے اور کتنے رنگ دیکھنے کو ملیں، ابھی تو مرکز کی بی جے پی حکومت کی طرح آپ کی حکومت کے پاس بھی کافی وقت ہے۔آپ سے جو امیدیں باندھی تھیں وہ مذکورہ 15 واقعات کے سبب ہوا ہوگئی ہیں ۔ ایسے میں بتائیے کہ ہم آپ کی خالی پھیکی مبارکباد قبول کرکے کیا کریں؟ یہ عید یوں بھی 60 دنوں کے جاں توڑ لاک ڈاؤن کے بعد آئی ہے اور لوگ عیدگاہ میں نماز ادا کرنے سے محروم ہیں تو وہ آپ کی مبارکباد قبول نہ کرکے کسی بڑے انعام سے محروم نہیں ہوجائیں گے۔
ہم نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اتنے بھی غیر متمدن نہیں ہیں۔ سو ہم آپ کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ لٹے پٹے دلوں کی طرف سے جذبات واحساسات سے خالی عید کی مبارکباد ۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیر اعلی اروندکجریوال نے آج خاص بات چیت کی۔انہوں نے کہا کہ دہلی کی حکومت کو جو دو مہینے کے لاک ڈاؤن کا وقت ملا اس میں حکومت نے ساری میڈیکل سہولیات کو درست کر لیا ہے،ہم لوگ اتنے تیار ہیں کہ ایک ساتھ دہلی میں 50 ہزار فعال مریض کو سنبھالا جا سکتا ہے اور ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔اروندکجریوال نے کہا کہ دو ماہ قبل جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو دہلی حکومت کے پاس نہ تو ٹیسٹنگ کٹ تھی، نہ پی پی ای کٹ تھیں اور نہ ہی اس بات کو طے کرنے کا معیار تھا کہ جو پی پی ای کٹ مل رہی ہیں وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔دہلی میں صورت حال اس وقت سنجیدہ تھی جب 1011 کیس مرکز سے متعلق تھے اور 900 سے کچھ زیادہ کیس دوسری جگہوں سے متعلق تھے،اگرچہ دہلی حکومت نے فوری طور پر اس پر ایکشن لیا اور یہ بہت تسلی بخش رہاکہ وسیع نمائش ہونے کے باوجود دہلی میں کورونا وائرس کے کیس اور اموات کے اعداد و شمار بہت زیادہ نہیں ہیں۔اروند کجریوال نے کہا کہ مرکزی حکومت نے جو 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس سے واقعی میں دہلی سررکار کو کچھ براہ راست نہیں ملا ہے۔مرکزی حکومت کو چاہئے تھا ریاستوں کے ہاتھ میں براہ راست پیسہ دیتے جس سے ریاست اپنے یہاں حالات کو کنٹرول میں کر پاتے،حالانکہ یہ صورتحال آج کی نہیں ہے بلکہ 20 سالوں سے ہے اور مرکز اور دہلی کے درمیان پیسے کو لے کر کچھ باتیں سخت ہیں۔دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ اس مشکل وقت میں بھی کچھ اپوزیشن پارٹیاں گندی سیاست کر رہی ہیں اور اس مجھے بے حد دکھ ہے۔ایسے مشکل وقت میں غلط بیان بازی نہیں کرنی چاہئے لیکن کچھ پارٹیاں اب بھی معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہی ہیں۔
اروندکجریوال نے کہا کہ جو مزدور واپس جانا چاہتے ہیں ان کے لئے اس وقت گھر جانا ان کیلئے اہم ہے،حکومتیں انہیں روک نہیں سکتی اور ایسا نہیں ہے کہ جب صنعتی سرگرمیاں شروع ہوں گی تو کارکنوں کی کمی ہو گی،جو لوگ واپس جا رہے ہیں وہ لوٹ کر بھی آئیں گے اور کام بھی انہیں ملے گا لیکن اس وقت وہ لوگ جو گھر جانا چاہتے ہیں ان کے لئے حکومتوں کو مل کر سارے انتظام کرنے چاہئے اور دہلی حکومت نے بھی اسی لیے مرکزی حکومت سے 100 ٹرینوں کا مطالبہ کیا ہے۔
مذہبی اجتماعات پرپابندی برقرار،سب کچھ مستقل بندنہیں رکھ سکتے:اروند کیجریوال
نئی دہلی:دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے لاک ڈاؤن -4 کو لے کر ریاست کے لیے گائیڈلائن کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ دہلی میں میٹرو، اسکول، کالج، یونیورسٹی، سنیماہال، مال، تھیٹر، بار، آڈیٹوریم اور جم بند رہیں گے۔ انہوں نے کہاہے کہ تمام مذہبی ادارے بند رہیں گے،سیلون بھی فی الحال بند رہیں گے،شام کو سات بجے سے صبح سات بجے تک گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی،سوئمنگ پول بھی بندرہیں گے،کسی طرح کی بڑی بھیڑ کو جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، کیجریوال نے کہاہے کہ ٹیکسی کیب، آٹواور بسیں چلیں گی۔بسوں میں 20 سے زیادہ مسافر نہیں ہوں گے۔ضروری سامانوں کی ساری دکانیں روز کھلیں گی،باقی دکانیں جفت طاق فارمولے پرکھلیں گی ،تعمیر کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔ صرف دہلی کے ورکرزکوکام کرنے کی اجازت ہوگی۔شادی کے لیے صرف 50 لوگ اکٹھا ہو سکتے ہیں،ریستوران صرف گھر کی ترسیل کے لیے کھلیں گے۔آٹو اور ای رکشہ چلانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک ہی مسافرسفرکرسکیں گے۔وزیراعلیٰ کیجریوال نے کہاہے کہ جب بھارت میں وائرس آیا تھا تو ہماری تیاری نہیں تھی۔لیکن گزشتہ ڈیڑھ پونے دوماہ کے اندرانتظام کرلیاہے۔اب ہمیں معیشت آہستہ آہستہ کھولنے کی سمت میں توجہ رکھنی ہوگی ۔ کل مرکزی حکومت نے اس بار ے میں کچھ گائیڈلائنس جاری کی ہیں۔اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے دہلی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی دینے کا فیصلہ کیاہے۔انہوں نے کہاہے کہ مجھے یقین ہے کہ وبا پر ہم فتح حاصل کریں گے۔لاک ڈاؤن مستقل نہیں رہ سکتاہے۔وائرس اگلے 1-2 ماہ میں ختم نہیں ہونے والاہے۔ اس کے ساتھ زندگی چلانے کی عادت ڈالنی پڑے گی۔معیشت کو آہستہ آہستہ کھولنے کی طرف بڑھناہوگا۔کیجریوال نے کہاہے کہ دہلی میں اب تک 10054 کیسز سامنے آئے ہیں لیکن لوگ ٹھیک ہوکر لوگ گھر جا رہے ہیں۔ اب تک یہاں 4485 لوگ ٹھیک ہوکر گھرجاچکے ہیں۔45 فیصد لوگ ٹھیک ہو گئے ہیں۔
کہا آپ کی ذمہ داری ہماری ہے، بے سہارا نہیں چھوڑیں گے
نئی دہلی:کورونا بحران کی وجہ پورے ملک بھر میں تارکین وطن مزدور دربدر ہوچکے ہیں۔ملک کے مختلف حصوں سے خوفناک تصاویر سامنے آ رہی ہیں جہاں یہ مزدور پیدل ہی سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرنے پر مجبور ہیں۔دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال نے تارکین وطن محنت کشوں کو بھروسہ دلاسے ہوئے کہا ہے کہ ان کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔دہلی حکومت نے ایک حکم بھی جاری کیا ہے۔اس حکم کے مطابق تمام افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ تارکین وطن محنت کشوں کو کوئی بھی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔سی ایم کجریوال نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھاکہ دہلی میں رہ رہے تارکین وطن محنت کشوں کی ذمہ داری ہماری ہے،اگر وہ دہلی میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کا پورا خیال رکھیں گے اور اگر وہ اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ٹرین کا انتظام کر رہے ہیں،کسی بھی حالت میں انہیں بے سہارا نہیں چھوڑیں گے۔دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے معلومات دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دہلی حکومت کی طرف سے ورکرز اسپیشل ٹرین سے کل شام تک 35000 مسافرین بھیجے جا چکے ہیں۔آج بھی 8 ٹرین قریب 12000 مسافروں کو لے کر جا رہی ہے۔انہوں نے آج بہت سے سینٹرز پر جاکر مزدوروں کا جائزہ بھی لیا،جن کی تصاویر انہوں نے ٹویٹ کی اور لکھا کہ آج ایسے ہی کچھ سینٹرز پر جاکر مسافروں کے طبی جانچ کا جائزہ لیا۔
کیجریوال نے لوگوں سے پوچھا:کیا 17 مئی کے بعد لاک ڈاؤن میں ڈھیل دی جانی چاہیے؟
نئی دہلی:کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن سمیت تمام مسائل کو لے کر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے پریس کانفرنس کیا۔ انہوں نے کہاکہ لاک ڈاؤن 17 مئی تک ہے۔حالانکہ وزیر اعظم جی نے اس پر بحث کی تھی۔وزیر اعظم نے پوچھا کہ کون سا صوبہ کیا چاہتا ہے؟وزیر اعظم نے کہا کہ 15 تاریخ تک اپنی اپنی تجاویز بھیج دیجئے اور ان تجاویز پر پھر مرکزی حکومت فیصلہ لے گی۔میں آج دہلی کے لوگوں سے تجاویز مانگنا چاہتا ہوں۔17 مئی کے بعد کیا ہونا چاہئے؟ کیا لاک ڈاؤن میں رعایت دی جانی چاہئے؟ اگر دی جانی چاہئے تو کتنی اور کس علاقے میں کتنی کتنی دی جانی چاہئے؟دہلی کے وزیر اعلی نے یہ بھی کہاکہ کیا آٹو ٹیکسی چالو ہونے چاہئے؟ کیا اسکول، مارکیٹ اور انڈسٹریل ایریا کھولنے چاہئے؟ ظاہر سی بات ہے کہ سوشل ڈسٹیسنگ پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔سب کے لئے ماسک پہننا لازمی ہوگا۔کل شام 5:00 بجے تک اپنی تجاویز مجھے بھیج دیجئے۔میں عوام کی تجاویز بھی لے رہا ہوں۔ایکسپرٹ سے بات کروں گا۔ڈاکٹر سے بھی بات کروں گا اور جتنے بہتر تجاویز آئیں گی ان کوڈاکٹر اور ایکسپرٹ سے بات کرکے ہم دہلی والوں کی جانب سے ایک تجویز بنا کر مرکز کو بھیج دیں گے۔پرسوں تک ہم اپنی تجویز مرکزی حکومت کو بھیج دیں گے۔سی ایم کیجریوال نے مزید کہاکہ میونسپل کے اسکول میں ایک ٹیچر تھی، ان کی خدمت کرتے کرتے کورونا وائرس سے موت ہوگئی۔ وہ کنٹراکٹ پر تھیں اور ان کی ڈیوٹی لگی تھی کہ غریبوں کے لئے جو دہلی حکومت کھانا تقسیم کررہی ہے اس کو غریبوں کو تقسیم کرے۔4 مئی کو ان کا انتقال ہو گیا۔کھانا تقسیم کرتے وقت ان کو بھی کورونا وائر س ہو گیا۔ ان کے خاندان کو دہلی حکومت ایک کروڑ روپے دے گی۔ہمیں ایسے لوگوں پر فخر ہے۔انہوں نے کہاکہ دہلی میں بہت سارے تعمیراتی کام کرنے والے مزدور ہیں۔گزشتہ ماہ ہم نے 10 نامزد مزدوروں کے اکاؤنٹ میں 5000 ڈالے تھے اس مہینے دوبارہ 5000 ان کے اکاؤنٹس میں ڈال رہے ہیں۔
نئی دہلی:دہلی میں کوروناوائرس کو لے کر وزیر اعلی اروند کیجریوال نے آج پریس کانفرنس کی۔اس دوران انہوں نے دہلی میں کوروناوائرس کے اعداد و شمار پیش کئے۔کیجریوال نے بتایا کہ یہاں 75 فیصد کیس کم علامات والے ہیں۔انہوں نے مزید کہا دہلی میں کوروناوائرس سے ہوئی کل اموات میں سے 82 فیصد 50 سال سے اوپر کے ہیں۔کیجریوال نے کہاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمردراز لوگوں کی زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔دہلی میں تقریبا 7000 مثبت معاملوںمیں سے تقریبا 1500 اسپتال میں ہیں۔زیادہ تر کیس کم علامات والے ہیں۔دہلی میں 91 مریض آئی سی یو میں ہیں جبکہ 27 مریضوں کا علاج وینٹی لیٹر پر چل رہا ہے۔وہیں 2069 مریض اب تک کوروناوائرس سے ٹھیک ہو چکے ہیں۔اس مصیبت کی گھڑی میں ڈاکٹر اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کا علاج کر رہے ہیں۔ایسے میں اگر وہ کوروناوائرس کا شکار ہوں گے تو ان کے بہتر علاج کی بھی ذمہ داری ہماری ہے۔انہوں نے مہاجر مزدور کی گھر واپسی کو لے کر بھی افسوس ظاہر کیا۔انہوں نے کہاکہ میں کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر مزدوروں کی گھر واپسی کی تصاویر دیکھ رہا ہوں۔جومزدور پیدل چل رہے ہیں۔ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔ یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔اروند کیجریوال نے مزدوروں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے آپ کے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔آپ دہلی چھوڑ کر مت جائیے۔لیکن پھر بھی آپ جانا چاہتے ہیں تو ہم نے ٹرینوں کا انتظام کیا ہے۔ہم نے بہار اور مدھیہ پردیش ٹرین بھیجی بھی ہے۔ہم آپ کی ذمہ داری لیتے ہیں لیکن آپ پیدل مت جائیے۔
نئی دہلی:لاک ڈاؤن میں پھنسے تارکین وطن محنت کشوں، سیاحوں، طالب علموں کوگھربھیجنے کے مرکزی وزارت داخلہ کے حکم پردہلی حکومت مزدوروں، سیاحوں اور طالب علموں کو دہلی سے ان کی ریاست بھیجنے اور دوسری ریاستوں میں پھنسے لوگوں کو دہلی لانے کی کارروائی کر رہی ہے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے معلومات دی ہیں۔کیجریوال نے مرکز کے حکم کے بعد ٹویٹ کیاہے کہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے حکم جاری کیاگیاہے جس سلسلے میں ہم دیگر ریاستی حکومتوں سے بات کررہے ہیں۔تمام پلاننگ کرکے آپ کو ایک دودن میں مطلع کریں گے۔ اس وقت تک آپ کے گھرپرہی رہیں اورلاک ڈاؤن پرعمل کریں۔
نئی دہلی:دہلی حکومت گرچہ بلندوبانگ دعوے کرتی رہی ہے،لیکن حالات بالکل الگ ہیں۔دہلی حکومت کے لوک نائک ہسپتال میں متاثرمریض کا ٹھیک علاج نہیں ہونے پرمریض کی بیٹی اور بیوی کا دردچھلک گیا۔ماں بیٹی کے درد کا ویڈیوسوشل میڈیاپرجم کروائرل ہوا۔ اس کے بعدوزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی مداخلت کرنے پر مریض کا ٹھیک سے علاج ہوناشروع ہوگیاہے۔سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ اس طرح اپنی پریشانیاں بتاسکتے ہیں،اگرمحکمہ اوراسپتالوں کایہ حال ہے تواس کے لیے ذمے دارکون ہے؟پیر کی صبح سے فیس بک، ٹوئٹر کے، وہاٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ماں بیٹی کے دردکاویڈیوہوناشروع ہوا۔ ویڈیو میں مریض کی بیٹی اور بیوی دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کے والد اور شوہر کو لوک نائک ہسپتال میں بہتر علاج نہیں مل رہاہے۔ویڈیومیں مریض اروند کی بیٹی پرتیبھا نے کہاہے کہ 16 اپریل کو اس کے والد کی حالت خراب ہو گئی تھی۔طبیعت خراب ہونے کے بعد انہیں نجی ہسپتال میں لے گئے، جہاں جانچ ہوئی، جس میں رپورٹ مثبت آئی۔اس کے بعد مریض کو لوک نائک اسپتال میں داخل کر دیاگیا۔ پرتیبھاکادعویٰ ہے کہ ان کے والد کا ہسپتال میں صحیح علاج نہیں ہو رہاہے۔والد کو 102 بخار ہے اور پیر تک کسی ڈاکٹر نے انہیں نہیں دیکھا۔ وہ شوگرکے مریض ہیں، لیکن ان کے کھانے کو کچھ نہیں دیاجا رہاہے۔اس سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کو ٹیگ کرٹویٹ کیاگیا اور مدد مانگی گئی کہ جلدسے جلدان کے والد کاعلاج ہو۔ٹویٹ کے بعد یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوگیا۔ اس کے فوراََبعد وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ کو بہتر علاج کی ہدایت دی۔ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے بعد مریض کو الگ کمرے میں شفٹ کر دیاگیا، جس کی تصدیق مریض کی بیٹی پرتیبھا نے کی۔مریض کے ٹھیک علاج کی کوشش وزیراعلیٰ کے حکم پر ممبراسمبلی دلیپ پانڈے کی جانب سے کی گئی۔ ماں بیٹی کے ویڈیوکوبی جے پی کے ریاستی صدر اور ایم پی منوج تیواری نے بھی اپنے ٹوئٹرکے اکاؤنٹ کے ذریعے شیئر کیااورحکومت کے انتظام پرسوال کیے ہیں۔
تبلیغی جماعت کونشان زدکرنے کے خلاف عدالت میں درخواست داخل
نئی دہلی:جب سے دہلی میں مرکزکامعاملہ سامنے آیاہے،میڈیامیں توایک کمیونٹی کوٹارگیٹ کیاجارہاہے۔اس کے علاوہ سیکولرسمجھے جانے والے کجریوال خودٹوئیٹ کرکے جب اعدادوشماربتاتے ہیں توایک الگ کالم دے کرمرکزکانام شامل کرتے ہیں۔جس سے میڈیاکوسماج میں تعصب کوہوادینے میں پوری مددمل رہی ہے۔اوراس کے اثرات سماج پرمنفی پڑرہے ہیں۔آئے دن مذہب کی بنیادپرایک کمیونٹی کونشانہ بنایاجارہاہے۔کجریوال حکومت کے اسی اقدام کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی گئی ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ چیف منسٹر اروند کیجریوال اور ان کی انتظامیہ کوویڈ19 کے کچھ معاملات میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ یا’’مرکز‘‘ حوالہ دے کرپولرازیشن کررہی ہے۔ اس طرح کی درجہ بندی کرنے پرروک لگائی جائے کیوں کہ یہ مذہبی طور پرنشانہ بنانے کے مترادف ہے۔اب تک دہلی میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے 1،640 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے 38 افراد کی موت ہوئی ہے۔جمعرات کو ایک وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں ، کیجریوال پر تبلیغی پروگرام کے بعدسے اپنے مختلف ٹویٹس میں جان بوجھ کر انفیکشن کے متعددمعاملات کو مرکز کے نام سے ایک الگ عنوان کے تحت ڈالنے کاالزام ہے۔درخواست گزار ایڈووکیٹ ایم ایم کشیپ نے دعویٰ کیاہے کہ فرقہ وارانہ منافرت کورونا وائرس کے معاملات میں سامنے آرہی ہے اور اس نے ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف نفرت کی فضاپیداکی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ قومی دارالحکومت کو شمال مشرقی حصے میں فسادات کا سامنا کرنا پڑاہے اور جب دہلی میں ماحول پہلے ہی حساس اور تناؤکاشکار ہے ، تو کووڈ 19 کے معاملات کی اس طرح درجہ بندی کرنے سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔وکلائفوزیہ رحمان اور ایم قیام الدین کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں متحدہو۔ انہوں نے کہاہے کہ ایسی صورتحال میں اس فرقہ وارانہ رنگ دینے سے مقصد پر اثر پڑے گا۔ اسے فوری طور پر روکا جائے۔اس درخواست پر 20 اپریل کو سماعت ہونے کا امکان ہے۔
نئی دہلی:دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے تمام ریستوران کو بند کرنے کاحکم دیاہے۔اس کے ساتھ ہی بیس سے زائدافرادکے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ وائرس کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دہلی حکومت تمام مناسب اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ابھی تک 10 مریض پائے گئے ہیں۔ 2ٹھیک ہو گئے جبکہ ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ ہمارے پاس 768 بستروں کی صلاحیت ہے جس میں 57 بھرے ہیں ابھی 711 بیڈ خالی ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہاہے کہ 550 بیڈ کا بندوبست کیاگیاہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ نے کہاہے ڈسچارج کرنے کے بعد لوگوں کے ہاتھ پرا سٹمپ لگائی جا رہی ہے۔لوگ اگرنگرانی کروانے سے بچناچاہتے ہیں تو ان کی گرفتاری بھی کی جا سکتی ہے۔ساتھ ہی کیجریوال نے لوگوں سے گھر سے کم از کم نکلنے کی بھی اپیل کی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ کل صفدر جنگ میں خود کشی کاکیس ہوا۔لوگ ڈریں نہیں۔ بہت سے لوگ ٹھیک بھی ہو رہے ہیں۔شاہین باغ کے لوگوں سے بھی سی ایم نے ایک جگہ پر جمع نہ ہونے کی اپیل کی ہے۔اروند کیجریوال نے کہا کہ دہلی کی ضروری سروسز صرف جاری رہے گی، دفتروں کو لے کر کل فیصلہ لیاجائے گا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ابھی تک 2 شفٹوں میں کام کیا جا رہا تھا۔صبح دس سے بارہ بجے تک اور شام کوساڑھے چار سے ساڑھے چھ بجے تک۔مجموعی طورپر 4 گھنٹے کام کیا جا رہا تھا لیکن اب صبح دس بجے سے لے کر شام کے چھ بجے تک یعنی 8 گھنٹے کام چلے گا۔سب صرف ڈیپو میں یہ کام چلے گا اور یہاں پر جاکر کوئی بھی اپنی گاڑی آٹو وغیرہ کی صفائی کروا سکتے ہیں۔
کروناوائرس: 50 سے زیادہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، شاہین باغ کوبھی کارروائی کی دھمکی
نئی دہلی:دہلی حکومت نے وائرس کی روک تھام کے بہانے شاہین باغ کے مظاہرے پربھی دھمکی دے دی ہے۔دہلی میں 50 سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔سوال ہے کہ شاہین باغ میں پچاس سے زائدلوگوں کے جمع ہونے پرپابندی ہوگی توکیاریلوے اسٹیشن،میٹرو،ریل،بسوں پرجب پچاس سے زائدلوگ چلتے ہیں تواسے بھی روکاجائے گا۔اسٹیشن اورٹرینوں پرایک ایک بوگی میں سودوسوافرادسفرکرتے ہیں،وہاں یہ احتیاطی تدابیرکہاں جاتی ہیں۔ جب وزیراعلیٰ اروند کیجریوال سے سوال پوچھا گیا کہ کیا شاہین باغ کے لوگوں سے بھی آپ ہٹنے کی اپیل کر رہے ہیں تو انہوں نے کہاہے کہ یہ حکم سب کے اوپرلاگوہے پھر چاہے وہ احتجاج کرنے والے ہوں یا کوئی اور۔ جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ 50 سے زیادہ لوگ اگرمظاہرہ کرتے ہیں تو کیا ان کے اوپر کوئی کارروائی بھی ہوگی؟ اس پر اروند کیجریوال نے کہاہے کہ ایکٹ کے اندر ڈی ایم اور ایس ڈی ایم کے پاس پاور ہے توجوبھی ضروری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے وہ لوگ کریں گے۔واضح ہوکہ دہلی فسادپرجب پولیس خاموش تھی توطلبہ جامعہ نے وزیراعلیٰ کے گھرکاگھیراکیاتھالیکن مطالبہ ماننے اوران سے بات کرنے کی بجائے وزیراعلیٰ نے طلبہ کوہی پٹوادیا۔دھرنے اوراحتجاج سے پیداہونے والی پارٹی کواب تک جامعہ اورشاہین باغ جانے کی ہمت نہیں ہوسکی اوردہلی تشددمیں بھی اس کارول انتہائی مشکوک ہے۔جس سے سمجھاجاسکتاہے کہ عام آدمی پارٹی نرم ہندوتواکے راستے پرچل رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے اپنے گھرپر عوام ڈائیلاگ پروگرام بھی بند کر دیاہے۔ پیر سے جمعہ صبح 9 سے 11 بجے تک یہ جنتادربار چلتاہے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد اروند کیجریوال اس پروگرام کے تحت عوام کے مسائل کا اپنے گھر پر حل کرتے ہیں۔آپ کو بتا دیں کہ وائرس کے بڑھتے معاملے کابہانہ بناکربی جے پی لیڈر نند کشور گرگ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے شاہین باغ احتجاج کوختم کرنے کے حکم دینے کامطالبہ کیاہے۔پھرسوال یہ ہے کہ بسوں،میٹروریل،اسٹیشن پربھی کافی بھیڑہوتی ہے توکیاانھیں بھی بندکردیناچاہیے۔
اروند کجریوال کی شخصیت اور کردار سے عوام کی اور خاص طور پر دہلی کے عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن دہلی فسادات کے موقع پر کجریوال اوران کے نمائندوں نے جس طرح کا کردار ادا کیا اس سے عوام میں بڑی مایوسی اوربد دلی پیدا ہوگئی۔ الیکشن سے پہلے کجریوال کی تقریروں اور ان کے بیانات کچھ اس طرح تھے کہ ہر اہل علم و دانش یہ سمجھتا رہا کہ ممکن ہے الیکشن کی وجہ سے ان کا رویہ محتاط اور مصلحت آمیز ہو۔ الیکشن کے بعد انتخابی مصلحت مصلحت نہیں رہے گی۔ مصلحتوں سے پرے ہٹ کر حقیقت پسندی سے کام لیں گے۔ لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد ہی سے جس طرح بجرنگ بلی کے مندر میں جانا، ہنومان چالیسا پڑھناان کے نرم ہندوتو کی جھلک نظر آئی۔ دہلی فسادات کے موقع پر تین روز تک وہ خاموش رہے۔ ان کی پارٹی کے نمائندے بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ بعد میں مہاتما گاندھی کی سمادھی پر اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ ستیہ گرہ کیلئے پہنچے۔ ایسے موقع پر ستیہ گرہ بے معنی سی چیز ہے کیونکہ گاندھی جی فسادات کے دوران جائے وقوع پر چلے جاتے تھے۔ جواہر لعل نہرو بھی 1947ء کے دہلی کے فسادات میں بلوائیوں کو روکنے کیلئے بھیڑ میں چلے گئے تھے۔ جان جوکھم میں نہ ڈال کر ستیہ گرہ کرنا یا دعا کرنا ایک رسم کی ادائیگی ہے یا نمائش اور دکھاوا ہے۔ اس سے فسادیوں پر نہ کوئی اثر ہوتا ہے، نہ فسادزدگان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر کجریوال اپنے لوگوں کو جو ان کے دہلی میں ایم ایل اے اور کونسلر ہیں میدان میں اتار دیتے تو پولس نے جو حرکتیں کی ہیں شاید اس میں بہت کمی آتی اور بلوائیوں کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
دہلی میں 70 ایم ایل اے ہیں، 7 لوک سبھا کے ممبر اور 3راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔ سب کے سب ہندستان کی سلامتی اور استحکام کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حلف اٹھانے والے لوگوں میں ایک فرقہ کو دوسرے فرقے، ایک مذہب کے ماننے والوں سے دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں نفرت، شک و شبہ اور اشتعال انگیزی کے جذبات بھڑکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ حلف وفاداری سے روگردانی نہیں ہے؟ گزشتہ چند ہفتے میں دہلی نفرت اور فساد کی آگ میں جلتا رہا۔ تناؤ اور کشیدگی قائم رہی۔ تشدد اور انتہا پسندی کا دور دورہ رہا۔ خوف و ہراس کا ماحول چھایا رہا۔ فسادزدگان میں سے بہتوں کو مجبوراً خوف و ہراس کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقے سے فساد کی ابتدا ہوئی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ 70 ایم ایل اے اور کئی کونسلرزمیں سے کسی نے بھی میدان میں اترنے کی ہمت نہیں دکھائی ۔ فسادکے وقت سب کے سب چپی سادھے رہے اور دہلی میں فسادی اور بلوائی دندناتے پھرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر پیغامات آتے رہے مگر عوامی نمائندے منظر سے بالکل غائب رہے۔ کسی بھی پارٹی کے نمائندے زمین پر نظر نہیں آئے۔ گھروں میں بیٹھے رہے اور ٹیلی ویژن دیکھتے رہے کہ بلوائی ایک خاص فرقے کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جو لوگ دہلی میں رہتے ہیں یا جنھوں نے 1984ء کا فساد دیکھا ہے وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ 1984ء کے فسادات کو دہرایا جارہا ہے۔ تشدد کے واقعات رونما ہورہے تھے ، لوگ زخموں سے نڈھال تھے۔ آتشزدنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ قتل و غارت گری ہورہی تھی۔ چاروں طرف ہاہاکار مچا ہوا تھا۔ ایم ایل اے، ایم پی سب کو استحقاق، اختیارات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ سب کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ گھر ملتا ہے۔ مختلف سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ سب سہولتیں اس لئے حاصل ہوتی ہیں کہ یہ پبلک کے نمائندے ہوتے ہیں، پبلک کی خدمت کریں گے۔ لیکن اگر یہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، عوامی خدمت نہیں کرتے تو یہ عوام کے ساتھ بے وفائی اور غداری نہیں تو کیا ہے؟ اس لئے کہ ووٹرز مصائب و مشکلات کے وقت اپنے نمائندوں کی طرف دیکھتا ہے اور نمائندوں کا وعدہ رہتا ہے کہ ہر تکلیف اور مصیبت میں وہ کام آئے گا۔ یہ لوگ صرف نمائندے ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ انتظامیہ میں ان کے اثر و رسوخ ہوتے ہیں، ان کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ پولس کو بہت سے معاملات میں روک سکتے ہیں اور بعض کام کرنے سے مجبور کرسکتے ہیں جو عام آدمی نہیں کرسکتا ہے۔ کجریوال یا ان کے نمائندوں کا یہ کہنا کہ پولس مرکز کی نگرانی میں کام کرتی ہے یہ ایک بہانہ ہے اور اس بہانے سے کام سے روگردانی اورمنہ موڑنے کے مترادف ہے۔ پولس نمائندوں کی بات ایک دم نہیں سنے گی، پولس پر کجریوال کا کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا یہ کہنا درست نہیں ہے۔ کجریوال اپنے مطلب اور مقصد کیلئے پولس سے لڑ جاتے ہیں، انشن کرتے ہیں، بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن فساد کو روکنے کیلئے نہ ان میں کوئی جذبہ پیدا ہوا اورنہ ہی ان کے نمائندوں میں کوئی احساس اورجذبہ دکھائی دیا۔
سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ اپنے ایک کونسلر کی بھی وہ مدافعت نہ کرسکے۔میڈیا کے غلط پرچار نے کونسلر طاہر حسین کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ وہ اپنی صفائی دیتے رہے کہ انکیت شرما کا قتل 25فروری کو ہوا اور 24 کو ہی ان کو پولس کی مدد سے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لینا پڑا۔ ان کی بلڈنگ کی چھت پر جو بہت سے ناپسندیدہ سامان پائے گئے اس کے بارے میں انھوںنے بتایا کہ پولس نے پورے طور پر چھان بین کی اور پولس کو انھوںنے گھر کی چابھی تک حوالے کردی۔ عام آدمی پارٹی ایک دو دن تک اپنے ترجمان کے ذریعے طاہر حسین کی مدافعت کرتی رہی لیکن تیسرے دن نہ صرف مدافعت کرنا چھوڑ دیا بلکہ ان کو پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا۔ جب اپنی پارٹی کے آدمی کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا یہ سلوک ہوگا تو عام آدمی کے ساتھ پارٹی کا کیا سلوک ہوسکتا ہے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ کجریوال نے پولس محکمہ کے دو مقتول کے ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا لیکن جو لوگ فساد میں مارے گئے اور پولس کی گولیوں سے بھی بے قصور لوگ مارے گئے ان کے ورثاء کیلئے انھوں نے کچھ بھی اعلان نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثریت کو خوش کرنے کا جذبہ ان کے دل میں کچھ زیادہ ہے۔ ابھی بھی وہ الیکشن مہم کے دوران نظر آتے ہیں یا وہ دوسری ریاستوں کے انتخابات میں اپنے نرم ہندوتو پالیسی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
معلوم ہواہے کہ دہلی کی ملی تنظیموں کے ذمہ داران وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سے مل کر اپنے خیالات واحساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن کجریوال ملاقات کا وقت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اقلیت سے ہمدردی کرنا نہیں چاہتے اورنہ اقلیت کی بات سننا چاہتے ہیں۔ کجریوال بی جے پی کے ممبران اور لیڈران کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریروں پر بھی ابھی تک اپنے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ کپل شرما جو کبھی عام آدمی پارٹی کی حکومت میں وزیر تھے جو دہلی فساد کے ایک طرح سے ماسٹر مائنڈ ہیں ان کے بارے میں بھی کجریوال نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ انوراگ ٹھاکر جو مرکزی حکومت کے وزیر ہیں جنھوں نے ’غداروں کو گولی مارنے‘ کی بات کہی تھی ان کے متعلق بھی کجریوال خاموش ہیں۔ پرویش ورما جنھوںنے انتہائی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات دیئے ان کے بارے میں بھی کجریوال کی حکومت چپی سادھے رہی۔ الیکشن سے پہلے مصلحت ہوسکتی ہے لیکن الیکشن کے بعد کیا مصلحت ہوگی کہ جن لوگوں نے دہلی کے فساد کو ہوا دی ہو ان کو دہلی کی حکومت سزا دلانے یا ان کے خلاف ایف آئی آر کرانے کا مطالبہ تک کرنے سے بھی قاصرہے۔
گزشتہ روز دہلی حکومت نے ایک اچھا کام ضرور کیا ہے کہ ’این پی آر‘ کے خلاف اسمبلی میں قرار داد پاس کی۔ کجریوال نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اسمبلی میں 61 ممبران ایسے ہیں جن کے پاس پیدائشی سرٹیفیکٹ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کے پاس کیسے پیدائشی سند ہوسکتی ہے۔ کجریوال کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت سازی کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ سے ان کی بڑے اچھے اور خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات س ان کے اندر کسی وجہ سے تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ اس تبدیلی کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔ تبدیلی یکایک کیوں آئی یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید کوئی ایسی کمزوری کجریوال کی ہو جس سے ان کی دُکھتی رگ دبتی ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی ہو بعد میں ظاہر ہوگا۔ پہلے نتیش کمار کے بارے میں بڑی امیدیں اپوزیشن کی طرف سے تھیں لیکن نتیش کمار نے مہا گٹھ بندھن کے ساتھ بے وفائی کرکے بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن کرکے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح اروند کجریوال سے بھی عوام اور اپوزیشن کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن الیکشن کے نتائج اور حکومت سازی کے بعد کجریوال کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بھی مایوس ہے اور اپوزیشن پارٹیوں میں بھی وہ امید باقی نہیں رہی جو کجریوال کے بارے میں تھی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ابھیشیک شریواستو
ترجمہ: اشعر نجمی
منگل کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی واپسی کی فلائٹ پکڑی،ایک غیر معمولی شخصیت دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئی۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال دیر رات پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، پھر وہاں اگلے دن فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چلے گئے۔ بدھ کے روز، ان کا دورہ ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوا، جب انھیں مقامی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا ،”جو ہوا سو ہوا ، انشااللہ،امن ہوگا …”
وزارت داخلہ نے 1978 میں جاری کردہ ایک اہم نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ دہلی کے ایس ڈی ایم اور مجسٹریٹ کے اختیارات دہلی کے کمشنر آف پولیس کے ماتحت ہیں۔ اسی اطلاع کا استعمال کرتے ہوئے ، 5 اگست 2016 کو دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر ایس ڈی ایم کے ذریعہ عائد کردہ دفعہ 144 کو دہلی پولیس کے ڈی سی پی نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔دہلی کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں دہلی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے درمیان حقوق کی ترجیحات کے تنازعہ کا فیصلہ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی پولیس کمشنر کے حقوق میں دراندازی کی ہے۔ اس کے ایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ڈوبھال نے وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا اور یہ مقتدر اعلیٰ کی منظوری سے کیا گیا۔
اگر یہ بات ڈوبھال کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ امن کے قیام کے لیے ڈوبھال نے جس طرح سے مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور ٹیلی ویژن پر جس طرح سے اس کو نشر کیا گیا ، یہ اپنے آپ میں نہ صرف ایگزیکٹیو بلکہ مقننہ کے دائرہ اختیار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ شورش زدہ علاقے میں مقننہ سے بطور قاصد قومی سلامتی صلاح کار کوبھیجا جانا سب کی نظر میں آگیا۔ اگر ہم اس کا موازنہ بالکل اسی نوعیت کے ایک منظر سے کرتے ہیں جو آج سے چھ ماہ قبل سری نگر کی سڑکوں پر ہوا تھا ، تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہلی کی سیاست کی کوکھ میں کیا پوشیدہ ہے۔
ڈوبھال کو سڑک پر آئے دو دن نہیں ہوئے تھے کہ تین ہفتہ قبل تیسری بار دہلی کے وزیر اعلی بننے والے اروند کیجریوال نے دھماکہ کردیا۔ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت ایک ہی جھٹکے میں دے دی گئی۔
کیجریوال، جنھوں نے شیلا دکشت کے خلاف سیاست کا آغاز کیا تھا، آج وہ سیاست کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں جہاں وہ خود شیلا دکشت بن گئے ہیں۔ اسے دو واقعات سےسمجھیں۔ 2013 میں اروند کیجریوال کا سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اس بحث میں واپس آگیا ہے جس میں وہ شیلا دکشت کو عصمت دری کے واقعات پر قابو نہ پانے پر لعنت بھیج رہے ہیں اورالزام عائد کرتے ہیں کہ شیلا دکشت دوسروں کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دہلی میں تین روزہ فسادات کے پہلے دو دن میں، اگر کیجریوال اور ان کے حمایتی، ایم ایل اے اور وزیروں کے ٹوئٹ دیکھیں تو وہ سب فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں کوئی زمینی کام کرنے کے بجائے بالکل شیلا دکشت کے انداز میں "پولیس اپنے ہاتھ میں نہیں” ہونے کا رونا رو کر دنگوں سے اپنا پلہ جھاڑ رہے تھے۔
دوسرا واقعہ سال 2012 کا ہے۔ اسی سال ایک کارٹونسٹ، اسیم ترویدی کے خلاف ممبئی میں "دیش دروہ” کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اروند کیجریوال نے ممبئی سے دہلی تک متعدد دھرنا مظاہروں کے ذریعے اسیم کے خلاف غداری کے درج شدہ الزامات کی مخالفت کی اور اپنی ابتدائی سیاست کو دھار بخشی۔ آج اسی اروند کیجریوال نے کنہیا کمار اور دیگر طلباکے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے گرین سگنل دے کر اپنی سیاست کا ایک کامیاب دائرہ مکمل کیا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ کیجریوال کا "شیلانیاس ” ہو گیا ہے۔
شاہ اور مودی کے جال میں:
جس دن اجیت ڈوبھال کو ٹی وی پر ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ، امریش مشرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھی۔واضح رہے کہ امریش مشرا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بنارس سے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑے تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے آر ایس ایس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کے دو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں ، وہ ایک "سازشی تھیورسٹ” کا تمغہ حاصل ہے، لیکن اس بار انھوں نے یہ سوال اٹھا کر نبض پر انگلی رکھ دی کہ ایک منتخبہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر کیوں مکالمہ کررہے ہیں؟
اگر دہلی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی حکومت خود منتخب کرتی ہے تو پھر یہاں کی منتخبہ حکومت نے اپنے علاقے میں این ایس اے کو اپنی جگہ کیسے دے دی؟ اول تو ہر بات پر یہ دلیل دینا کہ "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے” دہلی سرکار کی قوت ارادی کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے، دوسرے معاملے کا دہلی پولیس یعنی وزارت داخلہ کے بھی پار چلے جانا آخر کس رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ آدھی ریاست کا رونا روتے ہوئے کیا اروند کیجریوال خود بھی "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep state) کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیجریوال کی آدھی ادھوری طاقت میں اور کتنے دن باقی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر پوری کرونولوجی دیکھیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اتوار کی شام، سموار اور منگل کو فسادات ہوئے تھے۔ دہلی میں پچاسوں گواہ ہیں جو بتائیں گے کہ انھووں نے کتنے ایم ایل اے اور وزراکو فون لگایا۔ ایک وکیل نے نومنتخب ایم ایل اے آتشی مارلینا سے فون پر التجا کی تودوسری جانب سے آواز آئی ،”یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔”راقم الحروف نے بدھ کے روز دو بار وزیر گوپال رائے کو فون کیا، نہ ہی فون اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کال بیک ہوا ۔دو دن بعد آخر کار چارو ناچار کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گئے، جہاں شہید سپاہی رتن لال کے دروازے پر مقامی لوگوں نے انھیں اور منیش سسودیا کو پیچھے دھکیل دیا۔” کیجریوال واپس جاؤ”کے نعرے لگ گئے، وہ لوٹ آئے۔
اگلی صبح انھوں نے دہلی اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز میلینیا ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کیا اور پھر فسادات پر آئے۔ ان کے اس جملے کو غور سے پڑھیں:
"میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ان فسادات سے کس کا نقصان ہوا۔ ان فسادات سے سب کو نقصان پہنچا۔ ان فسادات میں کون مرا، بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ویربھان کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ محمد مبارک کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ پرویش کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ ذاکر کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل سولنکی کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ شاہد کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ محمد فرقان کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل ٹھاکر کی موت ہوگئی،وہ ہندو تھا۔ ”
عام طور پر جہاں دو فرقوں کے مابین جھگڑے میں،مقتول اور حملہ آور دونوں کی شناخت بتانا صحافت میں ممنوع ہوتاہے، وہیں ایک منتخب رہنما اور وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقتولین کا مذہب بتا رہے تھے اور ایک ہندو کو ایک مسلمان کے ساتھ گنتی کرکے توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے دن پریس کانفرنس میں اپنی تقریر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کیجریوال نے لکھا،”ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔”
یہ کس کی زبان ہے؟ یہی بات منموہن سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے عہدے کے دوران لیفٹ وِنگ انتہا پسندی یعنی کمیونسٹ انتہا پسندی سے نبرد آزما ریاستوں کے ڈی جی پی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ اب یہی بات ہم گزشتہ چھ سالوں سے نریندر مودی کے منہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی ملک کی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کرنا چاہتا ہے تو پھر مقتولین کے مذہب کو گن کر لاشوں کے انبار کو متوازن کرنا ، اپنے دائرہ اختیار کو این ایس اے کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور چار سال سے اٹکے ہوئے دیش دروہ کے ایک فیصلے کو فساد کی گرمی کے درمیان پاس کر دینا کون سی سیاست ہے؟
بدھ کے روز اسمبلی جانے سے پہلے، کیجریوال کو اپنے دروازے پر طلبا اور نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعہ اور جے این یو کے طلبا نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کیجریوال اور دہلی حکومت کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور واٹر کینن اور لاٹھیوں سے انھیں کھدیڑا گیا۔ کیجریوال، جنھوں نے کبھی دفعہ 144 کو توڑ کر اور ایک دہلی کے قلب میں ریل بھون کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، جنھوں نے کبھی 26 جنوری جیسے حساس وقت کی بھی پرواہ نہیں کی، گزشتہ وہ ہفتے بالکل مختلف اوتار میں نظر آئے۔
کتنا دور کتنے پاس:
کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے کی منظوری کے بعد، جمعہ کی شام سے ہی ان کے پرستاروں میں کیجریوال کے بارے میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ وہی رائے دہندگان ہیں جنھوں نے 11 فروری کو انتخابی نتائج کے دن کیجریوال کی کامیابی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین باغ سے سیاسی فاصلہ بنا کر عام آدمی پارٹی نے حکمت عملی سے کام لیا جو درست تھا۔ جب کیجریوال نے سموار اور منگل کو فسادات سے دوری بنائی تو ان کے حمایتیوں کی منطق وہی پرانی تھی ، "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے۔”
دہلی پولیس ساتھ نہ ہونے کی منطق میں جو بھی پھنسے ، انھوں نے اس حقیقت سے منھ موڑ لیا کہ ایسا کہہ کر کیجریوال نے 48 گھنٹوں کے لیے میدان فسادیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ ڈوبھال نے یہیں بازی مار لی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کیجریوال کے پاس دہلی پولیس ہوتی بھی تو کیا الگ ہوجاتا ؟ (یاد کیجیے الیکشن پرچار کے دوران اروند کیجریوال ایک سے زائد بار اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر دہلی پولیس ان کے پاس ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔مترجم)
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران دہلی پولیس کے پاس 13200فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ 23 فروری کو 700 پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی کال، 24 فروری کو 3400 کالز، 25 فروری کو 7500 کال اور 26 فروری کو 1500 کالز۔
اکالی دَل کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نریش گجرال کا ایک خط وائرل ہوا ہے ، جسے انھوں نے جمعرات کو دہلی پولیس کمشنر کو لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے لوگوں کے کہنے کے باوجود مصیبت میں پھنسے لوگوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ شرومنی اکالی دَل برسوں سے پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اگر اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کال پر دہلی پولیس عمل نہیں کرتی ہے تو پھر کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کو کس بات پر خوش فہمی ہے؟
در حقیقت ، لااینڈ آرڈر یعنی پولیس کا اپنے پاس نہ ہونا، دہلی حکومت کے لیے ایک آسان بہانہ تھا اور ہے، جس کے سہارے اس نے اہم امور سے خود کو دور رکھا۔ شاہین باغ میں شہریت مخالف ترمیم قانون تحریک سے متعلق کیجریوال کا بیان یاد رکھیں، جس میں انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو للکارا تھا کہ پولیس ان کی ماتحت ہے تو وہی راستہ کیوں نہیں خالی کرالیتے؟ اب ایک بار پھر انھوں نے اپنے کونسلر طاہر حسین کو پارٹی سے نکال کر اور ہر مجرم کو یکساں طور پر سزا دینے کا مطالبہ کرکے اپنا پلہ جھاڑ لینے والی سیاست کی ہے، جب کہ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انھوں نے کپل مشرا کے معاملے پر اب تک اپنی زبان نہیں کھولی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کپل مشرا بھی ان ہی کی پارٹی کے نیتا رہے ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کیجریوال کپل مشرا پر خاموش ہیں، وہی کپل مشرا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے والے جسٹس مرلی دھرکا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے!
پانچ سال پہلے کا سبق:
آخرکیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ لا اینڈ آرڈر کی آڑ میں متنازعہ معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی کیجریوال کی سیاست دراصل وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے، بلکہ مرکزی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید قریب ہونے کی ایک مشق ہے؟ "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep State) یکطرفہ نہیں بنتی، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہیں۔ اگر ہم کیجریوال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ان کی تیسری انتخابی کامیابی میں "ڈیپ اسٹیٹ” کی شمولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور زیادہ پیچھے جائیں گے توہمیں وہی سوال اٹھانا پڑے گا جو نومبر 2014 میں اٹھایا گیا تھا لیکن جسے ہوا میں اڑا دیا گیا: "Modi for PM, Kejriwal for CM” کا نعرہ کس نے دیا تھا؟
اگر آپ اپنی یادداشت پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پر پراسرار طور پر ایک نعرہ شائع ہوا تھا جو کہتا تھا: "Delhi Speaks: Modi for PM, Arvind for CM”! جب اس پر ہنگامہ ہوا تو پارٹی نے اسے فوراً ہی ہٹا دیا تھا، لیکن فروری 2015 میں دہلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ نعرہ عام آدمی پارٹی کے غیر آفیشیل انتخابی اعلان کی طرح ہوگیا۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا گیا کہ مودی کا وزیر اعظم بننا اور دہلی میں کیجریوال کی فتح دونوں ایک دوسرے پر منحصر مظاہر ہیں اور ضروری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آج سے چند سال قبل اس طرح کی باتوں کو سازشی تھیوری سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جاتا تھا۔ کانگریسی لیڈر آنند شرما نے توکھل کر اس تھیوری کو میڈیا میں ڈال دیا تھا لیکن اس وقت سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ڈوبھال این ایس اے تھے ، نہ مودی وزیر اعظم تھے اور نہ ہی اروند کیجری وال دہلی کےوزیر اعلیٰ۔
آج یہ تینوں اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ اگر دہلی جلتی ہے تو مودی احمد آباد میں ہوتے ہیں ، ڈوبھال سڑک پر ہیں اور اروند کیجریوال اپنے گھر میں۔ کیا کچھ اور یاد کرنے کرانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوگیا،نفرت اور اشتعال انگیزی کی شکست ہوئی،عوام نے یک طرفہ بی جے پی کے خلاف ووٹنگ کی،ماحول بھی ایسا بنادیاگیاتھاکہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ کانگریس یا کسی متبادل کی طرف دیکھنا بھی بی جے پی کو فائدہ پہونچاسکتاتھا،بی جے پی کے خلاف مسلمانوں نے جم کر پوری طرح متحد ہوکر ووٹنگ کی،اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا
سچ ہے کہ اگر بی جے پی نے نفرت کا ماحول نہ بنایاہوتا،شاہین باغ پر حملے نہ ہوتے تو مسلم ووٹوں کی تقسیم سے کجریوال کو سیٹیں ضرور کم ہوتیں،گرچہ وہ سرکار بنالیتے،خود اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ناراضگی کے باوجود مجبوری میں انھیں ہی ووٹ دیناپڑاکیوں کہ کانگریس نے بھی مضبوط مقابل یھاں نھیں دیاتھا اسی کا فائدہ عام آدمی پارٹی اور امانت اللہ کو ہوا،اس وقت عام آدمی پارٹی کی مخالفت کی فضا نھیں تھی
نتائج پر فطری طور پر مسلم کمیونیٹی کو خوشی ملنی تھی،ملی،رک کر سوچیے،عام آدمی پارٹی کو بھی احساس ہوگا کہ کام کی بنیاد پر ووٹ تو ملتے ہی لیکن یکمشت مسلم ووٹ نے ہی اتنی زبردست جیت دلائی ہے،اسے کیوں نہ احساس دلایاجائے کہ پچھلے سیشن میں جس طرح مسلم کاز کو نظراندازکیاگیا،اب کجریوال سرکار ان پر توجہ دے لیکن چلی ہےیہ رسم کہ گرم ہندوتوا کا مقابلہ نرم ہندوتواسے کیاجانے لگاہے،چاہے کانگریس ہو،عام آدمی پارٹی ہویا بی ایس پی،ایس پی ہوں،فرقہ پرستی کو فرقہ پرستی سے کاٹنے کی بجائے سیکولرزم کے حقیقی اصولوں سے شکست کیوں نھیں دی جاسکتی،اچھا تو تھا کہ ان سب سے قطع نظر صرف وکاس کے مدعے رکھے جاتے جس طرح عام آدمی پارٹی نے انتخابی مہم شروع کی تھی،بعد میں ہنومان چالیسا،ہنومان بھکتی،مندر پر آگئی،حکومت سازی کے بعد بھی اطمینان ہوجاناچاہیے تھا لیکن ہر منگل کو چالیسا پاٹھ کا شوشہ چھوڑا گیا
الیکشن کے دوران سی اے اے اور شاہین باغ پر کجریوال کی خاموشی کو مجبوری سمجھ کر معاف کیاجاتارہا،لیکن اب کون سی مجبوری ہے کہ یہ وکاس پرش ان متنازعہ امور پر ایک لفظ بولنے کوتیار نھیں،سکھ واقعے میں دوڑ کر ملاقات کرنے والے وزیراعلی کو جامعہ آنے کی ہمت نہیں ہوسکی،دہلی کے وزیر اعلی کو دہلی میں درجن بھر مقامات پربیٹھیں خواتین کے درد کی فکر نھیں؟ سسودیا بس یہ کہہ کررہ گئے کہ ہم شاہین باغ کے ساتھ ہیں لیکن ان کاکوئی ٹاپ لیڈر جھانکنے تک آیا؟احتجاج اور دھرنوں کی مولود اور عادی پارٹی اب تک ان قوانین کے خلاف سڑک سے کیوں بھاگی ہوئی ہے؟
سیدھا سیدھا کجریوال جواب دیں کہ سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کومسترد کرتے ہیں یا نھیں؟مسلم ممبران اسمبلی،اسمبلی سےسی اے اے کے خلاف تجویز منظور کرائیں اور فوری طور پراین پی آر لاگو نہ کرنے کا اعلان کرائیں کیوں کہ یکم اپریل سے این پی آر کا کام شروع ہوناہے،چار ریاستوں مدھیہ پردیش،کیرل،مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ نے این پی آر سے بھی منع کیاہے،امید ہے کہ پنجاب،جھارکھنڈ،راجستھان،تلنگانہ حکومتیں بھی این پی آر روکیں گی،بہار،دہلی،مہاراشٹر،آندھراپردیش کی سرکاریں بھی روک دیں تو بہت حد تک سنگھی عزائم پر روک لگے گی،اس لیے ان ریاستوں پر پورا زور دیناچاہیے جو سیکولرزم کا ڈھونگ رچتی ہیں
کجریوال سرکار بتائے کہ اردو اکیڈمی کی نشستوں پر بحالی کیوں نھیں ہورہی ہے؟پچھلے سیشن میں اردو ٹیچروں پر دھوکہ دیتے رہے،یہ جھانسہ کب تک دیں گے؟بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جانچ کے لیے آپ سے کہابھی نھیں جائے گا کیوں کہ یہ ہمت آپ میں نھیں ہے،اور نہ آپ کے لوکل بہادر ایم ایل اے میں ہے،جو اپنے علاقے کا بجلی بحران دور نھیں کرسکے،جنھوں نے سڑکیں اور گلیاں کھود کر مہینوں سے چھوڑ رکھی ہیں،بنیادی مسائل حل نھیں کرپارہے ہیں،بڑی بات تو رہنے دیجیے،ہم امت شاہ سے ملاقات پر سوال نھیں اٹھارہے ہیں ہوسکتاہے کہ ترقیاتی امور پر گفتگو ہوئی ہو،ذاتی اور نفرت آمیزحملے کے باوجود ریاست کی فلاح کے لیے ملنا اچھی بات ہےکسے یاد نھیں ہے کہ کجریوال کی پارٹی نے 370پر ایوان میں بی جے پی کو ووٹ دیاتھا،آخر اس کے سیکولر لیڈران کیوں کنارے ہوگئے،یوگیندریادو،آشوتوش اورپرشانت بھوشن سے پٹری نھیں جمی اور جو خالص سنگھی تھے،اپنی اصل کی طرف چلے گئے،وی کے سنگھ اور کرن بیدی کی مثال موجود ہے نزدیک سے نظر رکھنی ہوگی کہ انا آندولن کے باقی لوگ وکاس کا مکھوٹا لگاکر کہیں سنگھی ایجنڈے کو پورا تو نھیں کررہے ہیں
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے نے نعرہ لاگایا’دیش کے غداروں کو۔۔گولی مارو سالوں کو‘لیکن جب لوگوں نے اپنے ووٹ کی گولی ماری تو معلوم ہوا وہ گولی بی جے پی کولگی۔ اوزیر داخلہ امت شاہ نے دلی کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن اس زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ لوگوں نے بٹن ایسا دبایا کہ کرنٹ خودامت شاہ کو لگا اور بی جے پی پر عام آدمی پارٹی کی جھاڑو پھر گئی۔ بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے ان انتخابات کو انڈیا پاکستان کا مقابلہ قرار دیتے ہوئے دراصل یہ کہا تھا کہ بی جے پی انڈیا ہے اور اس کے مخالفین پاکستان، لیکن لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ نہ صرف کپل مشرا کو دھول چٹائی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ صرف بی جے پی ہی انڈیا نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی انڈیا ہیں شاہین باغ بھی انڈیا ہے اور وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ بھی انڈیا ہیں۔ بی جے پی نے دہلی انتخابات کی شروعات وہاں کی غیر قانونی کالونیوں کو قانونی بنانے کے اعلان سے کیا تھا لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے بی جے پی اپنی اوقات کی طرف گرتی گئی۔ وہ وکاس کو چھوڑ کر ہندو مسلم منافرت، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہندوؤں کے دشمن یا دیش کے غدار یا پاکستان کے حامی قرار دے کر دلی کے لوگوں کو ہندو مسلمان میں تقسیم کر نے کی اپنی روایتی گندی سیاست کی طرف آگئی۔ آخر میں مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سب سے نچلے درجہ پر آتے ہوئے دلی کو’اسلامک اسٹیٹ‘بننے سے بچانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں،لوگوں نے ان کے منھ پر زوردار طمانچہ جڑتے ہوئے بتادیا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں ان کے مخالفین کو ووٹ دینے سے دلی اسلامک اسٹیٹ تو نہیں بنے گی لیکن وہ انہیں ووٹ دے کر اسلامک اسٹیٹ طرز کی ’ہندو اسٹیٹ‘ بھی نہیں چاہتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں نے بی جے پی کے ساتھ اس کی آئیڈیا لوجی کو بھی ٹھکرادیا؟ کیا اس انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ ہندوتوا بھی ہار گیا؟کیا نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی؟کیا کیجریوال کی جیت ہندوتوا مخالف آئیڈیا لوجی کی جیت ہے؟کیا یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کا مینڈیٹ ہے؟ ہمیں نہیں لگتا، ہمارا خیال ہے کہ باوجود اس کے کہ بی جے پی نے یہ الیکشن سی اے اے کے اشو پر لڑا اور ہاری پھر بھی یہ سی اے اے کے خلاف عوام کا مینڈیٹ نہیں، بی جے پی کی آئیڈیالوجی کی ہار نہیں،ہندوتوا کا استرداد نہیں۔ اروند کیجریوال بی جے پی کے خلاف کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے وہ اپنے کام کو لے کر بی جے پی سے لڑے ان کی جیت ہندوتوا کے مقابلہ کام کی جیت ہے۔ بی جے پی نے ان کے گرد سی اے اے، شاہین باغ، دیش بھکتی اور ہندوتوا کا جال بنا تھا لیکن اروند کیجریوال بڑی چالاکی سے اس جال میں پھنسنے بچے رہے۔ اگر وہ بی جے پی کی کسی بات کا جواب دیتے،ہندوتوا کی مخالفت نہ بھی کرتے سیکولرازم کا دم ہی بھرلیتے، سی اے اے کے خلاف یا شاہین باغ کی حمایت میں ایک لفظ بھی بول دیتے تو بی جے پی کے جال میں بری طرح جکڑجاتے اور ان کا اپنا روایتی یا ترقی پسند ووٹ کھسک جاتا،لوگ انہیں مسلمانوں کے حمایتی سمجھ کر مسترد کردیتے۔ چلئے یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے بڑی چالاکی سے بی جے پی کی سیاسی بساط الٹ دی، وہ کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن فرق اس سے پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ’کام کی سیاست‘ کو ہندوتوا کا تڑکا دیا۔ گو کہ یہ ہندوتوا بی جے پی کا سخت گیر ہندوتوا مسلم مخالف یا منافرت آمیز ہندوتوا نہیں، وہ نرم ہندوتوا بھی نہیں جو کانگریس اپناتی رہی لیکن ہندوتواہی کی ایک ہلکی قسم ضرور ہے جسے ’سرد ہندوتوا‘ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس ہندوتوا کے اظہار کے لئے پچھلے سال ہی دلی کے اسکولوں میں دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھوانے کا اعلان کیا تھا۔ شاہین باغ کے معاملے میں انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ با اختیار ہونے کے باوجود شاہین باغ روڈ اس لئے خالی نہیں کروار ہے ہیں کہ الیکشن میں اس کا استعمال کیا جا سکے، یعنی انہوں نے امت شاہ کے سر ٹھیکرہ پھوڑا کہ انہوں نے پولس کے ذریعہ روڈ خالی کروانا چاہئے، یہی نہیں انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ’اگر دلی پولس ہمارے ماتحت ہوتی توہم نے دو گھنٹے میں وہ علاقہ خالی کروا دیا ہوتا‘ چہ معنی؟ یعنی بزور قوت خالی کروادیا ہوتا؟انہوں نے سی اے اے اور شاہین باغ پر کوئی اسٹینڈ نہیں لیا لیکن کچھ ایسے اشارے ضرور کئے کہ سمجھنے والے سمجھتے رہیں کہ ان کا اسٹینڈ کیا ہے؟ یعنی بین السطور یہ کہا کہ جس طرح بی جے پی کانگریس کو مسلمانوں کی منھ بھرائی کرنے والی پارٹی کہتی ہے وہ کانگریس کی طرح مسلمانوں کی منھ بھرائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ’ہندومخالف‘ ہونے کے بی جے پی کے الزام کے جواب میں جہاں انہوں نے ہندوؤں کی تیرتھ یاتراؤں کے لئے کئے گئے کام کا تذکرہ کیا وہیں اپنے آپ کو ہندو بھی ثابت کیا یہ کہہ کر کہ وہ ہنومان جی کے کٹر بھکت ہیں، روز ہنومان مندر جاتے ہیں اور انہیں ہنومان چالیسا یاد بھی ہے۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے بھی کہا ہے کہ اس کے والد بچپن ہی سے انہیں بھگوت گیتا پڑھاتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے کسی کو کسی کے مذہبی ہونے سے کوئی پرابلم نہیں ہو سکتا ہے، اسی طرح سیاسی لیڈران کے مذہبی ہونے سے بھی کسی کو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہئے، لیکن سیاسی لیڈروں کے ذریعہ اپنے مذہبی ہونے کا عوامی اعلان دراصل اپنے آپ کو کچھ خاص لوگوں سے جوڑنا اور کچھ خاص لوگوں سے الگ کرنا ہے۔ کیجریوال جی نے اپنے آپ کو ہنومان بھکت کہہ کر صرف یہی نہیں کہا کہ وہ ہندو ہیں، ہندوؤں میں سے ہی ہیں بلکہ یہ کہا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ہیں اور یہی دراصل ہندوتوا کی ابتدا ہے اروند کیجریوال نے اپنی ’کام کی سیاست‘ میں جس کا رنگ بھرا ہے۔ویسے اب بی جے پی نے پورے ملک میں ایسی مضبوط زہریلی فضا تیار کردی ہے کہ ہندوتوا کی مخالفت کر کے بی جے پی کو شکست دینا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔کام کی بنیاد پر جس نئی سیاست کی شروعات کیجریوال نے کی ہے اس میں ان کے’سرد ہندوتوا‘ کی آمیزش کے باوجود ان کی ستائش کی جانی چاہئے کہ ان کی اس چالاک سیاست کی وجہ سے بی جے پی اپنے ووٹ فیصداور چند سیٹوں میں اضافے کے باوجود وہ شاہین باغ سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہمارے ہی احتجاج کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کرسکی۔ بی جے پی کے سخت ہندتوا کے مقابلہ کیجریوال کانرم ہند توا قابل قبول ہو سکتا ہے یہاں تک کہ وہ کانگریس کی طرح اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ کریں۔ لیکن اس نئی سیاست پر غور کیا جانا چاہئے اور اسی کے مطابق اپنی سیاسی پالسی بھی طے کرنی چاہئے۔
[email protected]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا میں یوں طوفان برپا ہوگیا ، جیسے یہ عام انتخابات (لوک سبھا) کے نتائج ہوں۔ مہاراشٹر اور جھاڑ کھنڈ کے فیصلوں کے بعد بھی اتنا جوش خروش نظر نہیں آیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک بھر میں CAA، NPR اور NRC کے خلاف تحریکوں اور اس کے ردعمل میں مرکزی حکومت کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف صوبوں بطور خاص اتر پردیش میں جس طرح احتجاج کرنے والوں پر یوگی سرکار کا قہر برسا، اس نے ہندوستان کی عوام کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا۔اگر یہ کہا جائے کہ دہلی ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کا مرکز رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں دہلی پولیس کی بربریت ، پھر جے این یو کے طلبا پر نقاب پوشوں کا حملہ ، شاہین باغ کے مظاہرے کا قیام، گوپال شرما اور کپل گجر کے ذریعہ جامعہ اور شاہین باغ پر گولی باری جیسے کئی واقعات پے درپے ہوئے تو دوسری طرف اسی دہلی میں مرکزی سرکار کے وزرا اور بی جے پی نے مظاہرین کا حوصلہ پست کرنے اور انھیں بدنام کرنے کے لیے کئی چرکے لگائے، بطور خاص شاہین باغ کو ٹارگیٹ بنا لیا گیا۔ اس اختلاف میں بی جے پی نے اپنے ترکش کے تمام تیر آزمالیے، تمام اخلاقی حدود توڑ دیے ، حتیٰ کہ عوامی نمائندوں نے اپنے عہدوں کے وقار تک کو اپنے ہی پاؤں تلے روند دیا۔ کبھی وزیر داخلہ نے شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کی، کبھی اس کے مرکزی وزرا نے "گولی مارو” کے نعرے لگا کر اپنے بھکتوں کو فرقہ وارانہ دنگوں کے لیے اُکسایا، کبھی شاہین باغ کو منی پاکستان کہا گیا اور کبھی انھیں ریپسٹ اور لٹیرا کہا گیا۔ اس پورے پس منظر میں مرکزی سرکار، خود وزیر اعظم اور دہلی پولیس کی خاموشی اور بے حسی نے نفرت کے ان شعلوں کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا۔ نتیجتاً شاہین باغ ظلم و جبر کے خلاف پورے ملک میں ایک استعارہ بنتا چلا گیا اور اس طرح پورے ملک کی عوام دہلی سے جذباتی طور پر جڑتی چلی گئی۔ یہ وابستگی روز بہ روز اتنی بڑھتی چلی گئی کہ ایک وقت آیا جب دہلی سے ہزاروں کیلو میٹر دور بیٹھا شخص بھی خود کو شاہین باغ کی عورتوں اور جامعہ ملیہ کے طلبا کے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کرنے لگا۔ دہلی کی ہر چیخ میں اس کی آواز شامل ہوتی چلی گئی ، حتیٰ کہ ملک کے مختلف شہروں سےلوگ بھی یہاں پہنچنے لگے جن میں پنجاب کے سکھ مردوں اور عورتوں پر مشتمل سینکڑوں لوگ بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کو دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی لیڈروں کے اوسان خطا ہوگئے ، انھوں نے بوکھلاہٹ میں دہلی الیکشن کو "ہندوستان بنام پاکستان” قرار دے دیا ، امیت شاہ نے شاہین باغ کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ نریندر مودی نے بھی شاہین باغ کو دہلی الیکشن کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اپنے وزارت عظمیٰ کے وقار کو خاک میں ملادیا۔ اس پس منظر میں اب دہلی کا الیکشن صرف دہلی کا نہیں رہا، پورے ہندوستان کا بن گیا۔ اب یہ کوئی صوبائی الیکشن نہیں رہا بلکہ دو بیانیوں (Narratives) کے درمیان کی جنگ ہوگئی جس کا فیصلہ 11 فروری کو ہونا تھا کہ اس ملک کو کس طرف جانا ہے اور کیسے جانا ہے؟ چنانچہ تماشہ ہوا اور خوب جم کر ہوا، پورا ملک سانس روکے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جس میں بی جے پی نے فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام اہم لیڈروں کو جھونک دیا ، یعنی خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ اپنے 200 سے زائد پارلیمنٹ ممبر، مختلف صوبوں کے 11وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ اور متعدد مرکزی وزرا کی فوج کو اپنے قریبی حریف اروند کیجری وال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں کھڑی کردی۔ بی جے پی نے ایسا زبردست محاذ نہ مہاراشٹر میں کھڑا کیا تھا، نہ جھاڑ کھنڈ میں؛ اس کی وجہ صاف ہے کہ دہلی کا اسمبلی الیکشن صرف کسی ایک صوبے کو جیتنے سے زیادہ تھا، یہ الیکشن بی جے پی کے نظریاتی وجود کی بقا سے منسلک ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس الیکشن کے نتائج سامنے آئے اور اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو صرف دہلی میں ہی اس کا جشن نہیں منایا گیا بلکہ ہندوستان کی عوام نے اطمینان کی لمبی سانس چھوڑی اور اس کا چہرہ گلنار ہوگیا۔
نتائج آنے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا میں اس پر گفتگو کا دور شروع ہوا، مختلف نقطہ نظر سے ان نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ان میں سے کچھ تجزیے مختلف و متضاد دلائل پر مبنی ہیں لیکن زیادہ تر بحثیں جذباتی اور ہنگامی ہیں ۔ اگر ان تمام بحثوں اور دعوؤں کو نچوڑا جائے تو اس سے تین بڑے سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں:
(1) کیا دہلی کے الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کے بیانیے کو ختم کردیا ہے یا اس پر لگام لگا دیا ہے؟
(2) کیا عام آدمی پارٹی کی جیت میں شاہین باغ کے مظاہرے کی شراکت صفر تھی؟
(3) کیا ان نتائج نے اروند کیجریوال کو ہندوستانی سیاست میں ایک متبادل کے طور پر مستحکم کیا ہے؟
فی الحال ہم انھی تین سوالوں کو اس تجزیے کی بنیاد بناتے ہیں ، بقیہ ضمنی نکات پر پھر کبھی ہم گفتگو کرلیں گے۔
پہلے سوال کے جواب میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ دہلی الیکشن کے نتائج نے نہ تو بی جے پی کے بیانیے کو ختم کیا اور نہ اس پر لگام لگائی ہے اور نہ بی جے پی دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات پر اپنا لائن آف ایکشن بدلنے والی ہے اور نہ وہ بیانیہ جس پر اس کا وجود قائم ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو خود دہلی کے نتائج ہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو بلاشبہ 62 سیٹیں ضرور ملی ہیں لیکن 2015 کے مقابلے میں 5 سیٹیں کم ہیں اور ووٹ میں ایک فیصد کی کمی بھی آئی ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کو 2015 کے مقابلے اس الیکشن میں 5 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے اور اس کے 5 فیصد ووٹوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے دہلی کی ان سیٹوں پر ہی زیادہ تر کامیابی حاصل کی ہے جہاں اترپردیش ، بہار اور جھاڑ کھنڈ کے لوگوں کی اکثریت ہے، گویا بی جے پی کی ان سیٹوں پر جیت بتا رہی ہے کہ وہ بے شک دہلی الیکشن میں ہار ضرور گئی ہے لیکن ملک گیر سطح پر اس کا بیانیہ کمزور نہیں پڑا بلکہ اسے قدرے مضبوطی بھی ملی ہے۔مذہبی بنیادوں پر بی جے پی کی سیاست نے اس الیکشن میں اروند کیجریوال کو بھی متاثر کیا اور انھیں بھی اپنی دفاع میں "جے شری رام ” کے سامنے "بجرنگ بلی” کو کھڑا کرنا پڑا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایسا کیا لیکن بہرحال انھیں بیک فٹ ہو کر اپنا بچاؤ اسی قسم کی سیاست سے کرنا پڑا جو صرف بی جے پی کے لیے مخصوص ہے۔ گویا نہ چاہتے ہوئے بھی اروند کیجریوال کو بی جے پی کے بیانہ میں شراکت کرنی پڑی اور انھیں خود کو ہندو ثابت کرنے کے لیے "ہنومان چالیسا” تک پڑھنا پڑا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بی جے پی نے اروندکیجریوال کا وہی حشر کیا جو کافی پہلے اس نے انھی خطوط پر چل کر کانگریس کا کیا تھا ۔
یاد کیجیے ان دنوں کو،جب بی جے پی نے کانگریس پر حملہ بولا کہ وہ ہندو مخالف پارٹی ہے اوروہ صرف مسلمانوں کے ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے تو کانگریس کے لیڈر کس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے اکثریتی ووٹ کی زمین کھینچی جارہی ہے ۔چنانچہ کانگریس کو اپنی امیج کو درست کرنے کے لیے کانگریس کو صفائی دینی پڑی تھی کہ یہ افواہ ہے، وہ مسلم پارٹی نہیں ہے اور اس کے بعد اس نے آنے والے دنوں میں مسلمانوں اور ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا۔ کانگریس کے ان اقدام سے اس نظریے کو تقویت ملی کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں یا کسی دوسری اقلیت کے حقوق کے لیے لڑنا کسی سیاسی پارٹی کا لڑنا شرمندگی اور بدنامی کا باعث ہے۔ چنانچہ کانگریس اپنی امیج بدلنے کی کوشش کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کا یقین کھوتی چلی گئی جو اب تک وہ بحال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بی جے پی نے بالکل اسی طرح کا وار دہلی کے الیکشن میں اروند کیجریوال کے ساتھ کیا، انھیں پاکستانی دلال کہا، آتنک وادی کہا، شاہین باغ میں بریانی پہنچانے والا ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا سرپرستی کرنے والا کہا وغیرہ وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال بھی بیک فٹ پر ہوئے اور انھوں نے یہاں تک بیان دے دیا کہ اگر دہلی پولیس ان کی ماتحتی میں ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔ شاہین باغ کی عورتوں کے دل ٹوٹے لیکن یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ممکن ہے کہ ان کی یہ چناوی حکمت عملی ہو۔ لیکن جب نتائج سامنے آگئے تو میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے قد آور لیڈر سنجے سنگھ کا دل ٹٹولتے ہوئے پوچھا کہ اب نتائج سامنے آچکے ہیں تو پھر کیا اروندکیجریوال شاہین باغ جائیں گے؟ اس کے جواب میں سنجے سنگھ صرف آئیں بائیں شائیں کرکے رہ گئے۔ واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے 7 صوبوں کی اسمبلیوں کی طرز پر دہلی کی اسمبلی میں CAA، NPRاور NRCکے خلاف قرار داد پاس کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجریوال نے دہلی میں جامعہ، جے این یو اور شاہین باغ پر ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی، سرکار اور دہلی پولیس کو ٹوئیٹ کرکے پھٹکار بھی لگائی لیکن زمینی سطح پر اسے محض رسمی کاروائی ہی سمجھا جائے گا ۔ اس کے برخلاف پرینکا گاندھی کا ردعمل ذرا مختلف نظر آیا ، وہ نہ صرف جامعہ کے طلبا سے ملیں، انھوں نے دھرنا دیا ، صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم دیا، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی تشکیل کی اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر زخمیوں اور مقتولین کے پریواروں سے ملاقات بھی کی اور انھیں فوری راحت بھی پہنچائی۔
اروند کیجریوال ، عام آدمی پارٹی کے دوسرے لیڈر اور اسی رو میں بہہ جانے والے ان کے حمایتی بھی چناؤ کے درمیان یہی تاثر دینے لگے کہ شاہین باغ کا اس الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے لیےکوئی ایشو ہے۔ اسے بھی عام آدمی پارٹی کی چناوی حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا ، جب کہ اس کے برخلاف بی جے پی نے دہلی الیکشن شاہین باغ کے ہی ایشو پر لڑا۔ نتائج آنے کے بعد سنجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا داؤ الٹا پڑا اور لوگوں نے شاہین باغ کو خواہ مخواہ ایشو بنانے پر عام آدمی پارٹی کوو وٹ دے دیا۔ گویا ناک گھما کر پکڑی جارہی ہے۔ اگر شاہین باغ ایشو ہی نہیں تھا تو داؤ کیسے الٹا پڑا؟ شاہین باغ پر بی جے پی کے جارحانہ اسٹینڈ کی مخالفت میں عوام کا غصہ بھی تو شامل تھا جو دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے ووٹوں کی شکل میں کیش ہوا۔ جن گالیوں کے زہر کا گھونٹ شاہین باغ کی عورتوں نے صبر سے پی لیا تھا، جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو پاکستانی،غدار، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کہہ کر پولیس نے ان پر جم کر تشدد کیا، جس طرح کھلے عام گوپال شرما اور کپل گجر کی گولیوں کے جواب میں ہاتھوں میں ترنگا لہراتا رہا اور زبان پر انقلاب زندہ بعد کے نعرے ہی گونجتے رہے، کیا واقعی اس کا دہلی کے ووٹروں پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اوکھلا میں، جہاں جامعہ اور شاہین باغ کے علاقے واقع ہیں، وہاں 80 فیصد ووٹنگ ہوتی ہے جو دہلی کے تمام علاقوں میں ہونے والی فیصد سے کافی زیادہ ہے، حتیٰ کہ خود اروند کیجریوال کے علاقے میں ووٹ کی فیصد بھی اوکھلا کی فیصد سے کم تھی اور دوسری طرف دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش ششودیا تو بیچارے ہارتے ہارتے بچے، اور بہت کم ووٹوں سے انھیں کامیابی ملی۔ خود اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے امیدوار امانت اللہ خان نے اوکھلا علاقے میں ایک کافی بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کھل کر اعتراف کیا کہ یہ شاہین باغ کی جیت ہے، لیکن آخر یہ ہمت اور یہ اعتراف عام آدمی پارٹی کے بڑے نیتاؤں میں کیوں نہیں نظر آ رہی ہے، وہ شاہین باغ کو Discredit کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی میں کام کیا اور بنیادی طور پر اپنی رپورٹ کارڈ کے بل پر ہی انھیں کامیابی ملی ہے لیکن انھیں اتنی شاندار کامیابی ہرگز نہ ملتی ، اگر اس میں شاہین باغ ، جامعہ اور جے این یو کے اثرات کی شراکت نہ ہوتی۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کو الیکشن سے پہلے ، اس کے پرچار کے دوران اور الیکشن کے بعد کناٹ پیلس کے ہنومان مندر جا کر اور نیشنل میڈیا میں ہنومان چالیسا سنانے سے عار نہیں ہے تو شاہین باغ جانے میں کیسی قباحت ؟ کیا شاہین باغ کسی مسجد کا نام ہے، کیا شاہین باغ میں کوئی مذہبی اجتماع چل رہا ہے؟ کیا اروند کیجریوال نہیں جانتے کہ پنجاب کے سینکڑوں سکھوں اور وہاں ہَون کرانے والے ہزاروں ہندوؤں، کشمیری پنڈتوں، چرچ کے نمائندوں کی موجودگی نے شاہین باغ کو ہندوستان کی یک جہتی کا ایسا استعارہ نہیں بنادیا جو ایک طرح سے اب پورے ہندوستانی عوام کے لیے "تیرتھ استھان” کا روپ دھارتا چلا جا رہا ہے۔ پرینکا گاندھی جامعہ کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال کا دورہ کرسکتی ہیں، اتر پردیش جا کر زخمیوں سے ملاقات کرسکتی ہیں، مقتولین کے پسماندگان کی دلجوئی کرسکتی ہیں لیکن آپ دہلی کے وزیر اعلیٰ بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے بھی جامعہ اور جے این یو کے زخمی طلبا کی عیادت کرنے دہلی کے اسپتال تک پہنچنے کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اروند کیجریوال کی پوری سیاست صرف ووٹ کی سیاست کے گرد گھومتی ہے جو ظاہر ہے موقع پرستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے؟ اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست سے ہندوستان کو متعارف کرایا ہے ، خود کیجریوال نے اس سیاست کو نام دیا ہے: "کام کی سیاست۔” اسی بنیاد پر اب کچھ مبصرین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ دہلی کے الیکشن کے نتائج نے اروند کیجریوال کا چہرہ مرکزی سیاست میں متبادل کے طور پر پیش کردیا ہے، یعنی وہ نریندر مودی کا ایک مضبوط متبادل ہوسکتے ہیں۔ چلیے اس پر بھی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔
فیس بک میں موجود ایک تجزیہ کار پنکج مشرا کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ اروند کیجریوال "ٹی 20 "کے کھلاڑی ہیں، ٹیسٹ میچ کے نہیں، لہٰذا وہ ہمیں بہت مطمئن نہیں کرتے۔ بلاشبہ کیجریوال نے دہلی الیکشن میں ایک زبردست جیت حاصل کی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی اس جیت سے narrative بدلنے والا نہیں ہے، چونکہ خود اروند کیجریوال نے محتاط طریقے سے اکثریت کی ہی سیاست کی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں "اسٹریٹ اسمارٹ” قسم کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لہٰذا بی جے پی انھیں بار بار اپنی طرف کھینچتی رہی اور وہ ہاتھ چھڑا کر پھر اسی پالے میں دوسری طرف کبڈی کبڈی کرنے لگے۔ بی جے پی کو اپنے "مرکزی بیانیے” پر کیجریوال کی خاموش سیاست عزیز ہے، مثلاً جس طرح وہ تین طلاق پر خاموش رہے یا گول مول اسٹینڈ لیا ، یا CAA کے معاملے میں کیا، یا پھر 370 کے وقت کیا۔ ریزرویشن جیسے ایشوز پر بھی کیجریوال کی خاموشی بی جے پی کو پسند ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ہندو اور مسلم ووٹ تو بی جے کی مخالفت کے نام پر انھیں مل ہی جائیں گے جہاں وہ براہ راست مقابلے میں ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی غنیمت ہے جو اس کے کلیدی narrative پر براہ راست اثر انداز نہیں ہونے والی۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں کم از کم ایک آواز کم ہوجاتی ہے۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ خود عام آدمی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ "اسٹریٹ اسمارٹ پارٹی” ہوگی۔ اس نے پروفیشنل اور تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے "اسٹریٹ اسمارٹٗ "لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ ایسے لوگ اقداری سیاست کی بجائے مقداری سیاست کرتے ہیں یعنی منافع پر مبنی سیاست کے خوگر ہوتے ہیں۔ لہٰذا پارٹی نے سب سے پہلے اقدار پر مبنی سیاست اور کسی حد تک نظریاتی سیاست پر یقین کرنے والے لوگوں کو کنارے کیا کیوں کہ وہ فوری منافع حاصل کرنے والی مقبولیت و شہرت پسند سیاست (Populist Politics) پر بغیر غور و فکر کیے مہر لگانے کے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔
کیجریوال کے کام کے طریقوں سے اتنا واضح ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آمر (Authoritarian) ہیں۔ انھیں سُر ملانے والے لوگ ہی پسند ہیں، لہٰذا انھوں نے جلدہی ٹھیک ٹھاک لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔
یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست میں نیا ہونے کے ناطے، کیجریوال کو اگلی دس نسلوں کو سیاست کے ذریعے آباد کرنے کا کاروبار کرنا ابھی نہیں آتا۔ یہ خوبی دھیرے دھیرے ہی پروان چڑھتی ہے۔ ان میں بھی دھیرے دھیرے آ جائے گی۔ چونکہ انھوں نے ایمانداری کو اپنا USP بنایا ہے، لہٰذا وہ اور بھی زیادہ آہستہ آہستہ آئے گی۔ لیکن بہرحال اروندو کیجریوال نے جس طرح کی سیاست کا دامن پکڑا ہے، دیر سویر انھیں اسی سمت لے جائے گی، وہ کوئی نیا راستہ بنانے نہیں جا رہے ہیں۔
چونکہ یہ اسٹریٹ اسمارٹ لوگ ہیں ، لہٰذا انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس ملک کی عوام کو اتنی بار دھوکا دیا گیا ہے، اتنا دبایا گیا ہے کہ وہ یہ تک بھول چکی ہے کہ جمہوریت میں عوامی حقوق کیا ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا کہ سب چور ہیں، سب ڈاکو ہیں، کوئی کچھ نہیں کرتا، سب اپنی جھولی بھرنے آئے ہیں، اور یہ کہ سیاست کا مطلب صرف عوام کو بیوقوف بنانا اور اپنا الّوسیدھا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی بے یقینی کے ماحول میں اگر عوام کے ان مغالطوں کو سسٹم کے بنیادی ڈھانچے کو چھوئے بغیر اور بڑے کارپوریٹس سے ٹکرائے بنا تھوڑا بہت بھی دور کردیا جائے تو ظاہر ہے وہ ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا چراغ جلانے کے مترادف ہوگا جو عوام کے لیے کسی مرکری ٹیوب لائٹ سے زیادہ روشن ہوگا۔
دہلی ایک متمول ریاست ہے جہاں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لہٰذا کیجریوال کو ایسے کاموں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سرکاری اسکول، جو کبھی تعلیم کی ریڑھ کی ہڈی تھے،اسے بہتر کیا گیا،بجلی اور پانی جیسے بنیادی ضرورتوں میں بہتری لائی گئی، پرائمری ہیلتھ سنٹر کے منہدم ڈھانچے کو محلہ کلینک بنادیا گیا۔ وائی فائی، کیمرے وغیرہ اسی طرح کے مقبولیت پسند کام ہیں جن کی تشہیر کی جاسکتی تھی۔
آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کیجریوال کس طرح کی متبادل سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا ملک کیسا ہے، وہ ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں؟ ابھی وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ایگزیکٹیویا زیادہ سے زیادہ نوکر شاہی (Bureaucracy) نوعیت کا کام ہے، وہ اپنی حدود میں اچھی انتظامیہ دے رہے ہیں، لیکن سیاست بنیادی طور پر قانون سازی اور نظری بصارت کا نام ہے جو ان میں نظر نہیں آتی ہے۔
اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی پر اس تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انھیں نااہل قرار دے دیا جائے یا دہلی میں ان کی شاندار جیت کو کمتر کرکے آنکا جائے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی انتخابی سیاست ہمیں "کم برے” (Better Evil) کا انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتخابات؛ مختلف سیاسی پارٹیوں کے تقابلی مطالعے کے ایک موقعہ سوا کچھ نہیں ہیں۔ تقابلی طور پر دیکھیں تو فی الحال ایک طرف تفرقہ بازی کی سیاست ہے اور دوسری طرف ایک ایسی پارٹی ہے جو چھوٹے چھوٹے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی بنیاد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انحطاط اور کرپٹ سیاست کے دور میں، جب دکھی عوام مایوسی اور سیاست کے ایک طویل عرصے سے گزر رہی ہو، تو ایسی چھوٹی چھوٹی سیاسی فلاحی جماعتیں بھی ایک بڑی راحت ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ایسی فلاحی سیاسی جماعتیں جو کام کریں گی، اس سے زیادہ اس کام کی تشہیر کریں گی، لیکن ان کی ضرورت عوام کو اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ سیاست میں کم از کم عوامی مفاد اور ان کی بہتر زندگی کو ایک ایشو کی حیثیت سے مضبوطی مل جائے گی۔ اگرعوامی مسائل سیاسی ایشو بنیں گے تو لوگوں کی امنگوں میں اضافہ ہوگا اورلیڈروں کو بھی اس پر قائم رہنا پڑے گا۔ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم از کم اروند کیجریوال کی سیاست زہر کاشت کرنے والی نہیں ہے،معاشرتی ڈھانچے میں ہم آہنگی کوختم کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چالاک لوگ ہیں لیکن مکار نہیں ہیں۔ فی الحال یہی بہت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
میں نے لکھا تھا کہ دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج ثابت کر دیں گے کہ ہندوستان کی عوام کی اکثریت مذہب ذات برادری کی بنیاد پر تفریق اور نفرت میں یقین نہیں رکھتی۔
آج ٧٠ میں سے ٦٣ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کی جیت اس کا زندہ ثبوت ہے۔
١- در اصل شاہین باغ میں سڑک جام سے متاثر ہونے والوں کی تعداد چند ہزار میں ہے لاکھوں میں نہیں۔
٢- یہ بھی بہت حد تک صحیح ہے کہ عموماً "سیکولر” ووٹ ہی غیر بی جے پی پارٹیوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود دہلی میں ٢٠١٤ میں 70 میں سے 67 اور اس بار بھی 63 سیٹوں پر کامیابی ایک واضح اعلان ہے کہ دہلی کے ووٹرز باشعور ہیں انہیں ” پاکستان، شاہین باغ، بریانی، گولی مارو، وغیرہ کی حقیقت کی سمجھ ہے۔ جہاں تک بی جے پی کی 3 سے 7 سیٹ کی بات ہے تو جس قدر محنت ملک کے ” طاقتور ترین” لوگوں نے گھر گھر جاکر کی ہے اس کے نتیجے میں بعض لوگوں کا "ان” کی باتوں میں آجانا فطری ہے۔
٣ – ٢٠٠ یونٹ تک بالکل فری بجلی اور فری محلہ کلینک کے علاوہ پانی سڑک اور سیوریج سے مستفید ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ سیاسی طور پر بی جے پی سے وابستہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کا اپنی مقامی ضرورتوں کو ترجیح دینا فطری تقاضا ہے۔
٤- کیجریوال نے مثبت تشہیر اپنایا انہوں نے مودی یا کسی اپوزیشن لیڈر پر ذاتی حملے نہیں کیۓ۔
٥ – کیجریوال نے اپنے قول وفعل کو” ہندو مسلم ” سے الگ رکھا۔ نہ وہ شاہین باغ اور جامعہ کے اسٹیج پر اۓ اور نہ ہی فرقہ واریت کے کسی موضوع پر اپنی تشہیری مہم میں بات کی۔
٦- عام آدمی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں کی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔
٧- دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کے ان نعروں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی کہ :
– شاہین باغ کے لوگ ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی بہن بیٹیوں کی عزت لوٹ لیں گے اور اس کے بعد ان کا قتل کر دیں گے۔ اس وقت مودی اور امت ساہ ان کی حفاظت کے لئے سامنے نہیں آئیں گے اگر ابھی ہندوؤں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔
– شاہین باغ میں دہشت گردی اور انسانی بم بنانے کی تربیت دی جا رہی ہے ۔ اسے روکنے کے لئے بی جے پی کی جیت ضروری ہے
– شاہین باغ ملک سے الگ ہونے کے دہانے پر ہے۔
– شاہین باغ کا احتجاج اپوزیشن پارٹیوں کے اشارے پر ہو رہا ہے۔
شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر جن کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج ہو رہا ہے اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
دراصل دہلی کے ووٹرز کو پچھلے پانچ سالوں میں عام آدمی پارٹی کی نصف حکومت اور بی جے پی کی نصف حکومت (میونسپل کارپوریشن، پولیس لاء اینڈ آرڈر اور لیفٹینٹ گورنر) کی کارکردگی اور عدم کارکردگی کا موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ اور ووٹرز نے پایا کہ ایک ویلفیئر اسٹیٹ رفاہی ریاست کی ذمے داریوں کو عام آدمی پارٹی حکومت نے بہت حد تک نبھایا۔
دہلی کے ووٹرز نے بی جے پی کی دروغ گوئی پر مبنی تشہیر کی حقیقت کو سمجھا۔ جب بی جے پی کے کسی لیڈر نے کہا کہ گھروں میں جو پانی سپلائی ہو رہا ہے وہ پانی کم کیچڑ زیادہ ہے۔ جبکہ ایسا قطعاً نہیں ہے تو ظاہر ہے لوگوں نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ بجلی بل زیرو یا بہت کم کے خلاف بی جے پی نے الزام لگایا کہ بل ہر ماہ دو سے پانچ ہزار روپے کے آتے ہیں ظاہر ہے ہزاروں لوگ مفت اور سستی بجلی سے مستفید ہوتے ہیں وہ بی جے پی کی باتوں پر کیوں یقین کریں گے۔ اسی طرح اسکول ہسپتال اور سڑکوں کے بارے میں بی جے پی تمام تر کوششوں کے باوجود ووٹرز کو گمراہ نہیں پائی۔
دہلی ریاست میں بی جے پی نے اپنی نصف حکومت کی کسی کارکردگی کا ذکر کسی تشہیری مہم میں نہیں کیا اس لئے کہ کوئی قابل ذکر کام کیا ہی نہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے اسمبلی انتخابات کے لیے تشہیر کے آخری دن کہا کہ بی جے پی میں کوئی بھی وزیر اعلی بننے کے قابل نہیں ہے۔دہلی کی 70 سیٹوں پر 8 فروری کو پولنگ ہوگی اور 11 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔کجریوال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعلی کے عہدے کا دعویدار کون ہوگا۔انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوگا اگر وہ سمبت پاترا یا انوراگ ٹھاکر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسمبلی انتخابات کا پولرائزیشن کرنے کی کوشش بھی کی اور نتیجے بتائیں گے کہ وہ کامیاب ہوئے یا نہیں۔کجریوال نے کہاکہ آپ کے ووٹر وہ ہیں جو اچھی تعلیم، علاج کی سہولت، جدید سڑکوں، 24 گھنٹے بجلی چاہتے ہیں۔ شاہین باغ میں ترمیم شدہ شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف جاری مظاہرے پر آپ کے کنوینر نے الزام لگایا کہ دہلی اسمبلی انتخابات کی وجہ سے بی جے پی نے سڑکیں صاف نہیں کرائی ہیں۔کجریوال نے پوچھاکہ وزیر داخلہ امت شاہ کو راستے صاف کروانے سے کون روک رہا ہے؟ سڑک جام رکھنے میں امت شاہ کا کیا مفاد چھپا ہے؟ وہ دہلی کے لوگوں کو پریشان اورمظاہرے پر گندی سیاست کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ بی جے پی پر حملہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھگوا پارٹی کے لیڈر دہلی کی غیر منظورشدہ کالونیوں کو مکمل طور بھول گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔کجریوال نے کہاکہ آپ کے اقتدار میں واپس آنے پر دہلی حکومت’مفت منصوبے‘ جاری رکھے گی، ضرورت پڑی تو ایسی اور منصوبے لائیں گے۔
دہلی ہندستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ لوک سبھا کی سات سیٹیں اور اسمبلی کی 70سیٹوں کیلئے الیکشن ہوتا ہے۔ اس وقت ریاستی الیکشن درپیش ہے۔ اروند کجریوال بہت دنوں تک ریاست کے مکمل درجہ کیلئے مرکز سے لڑائی کر رہے تھے لیکن جب وہ ہر طرح سے اس لڑائی میں ہار گئے ان کو قانونی سہارا بھی نہیں ملا تو انھوں نے اپنی ساری توجہ دہلی کو ایک فلاحی اور بہتر ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ جو بڑے اورسنگین مسائل دہلی کے رہنے والوں کیلئے پریشان کن تھے ان کو بہت حد تک حل کیا۔ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم پر خاص طور پر زور دیا۔ محلہ کلینک کھولا۔ خواتین کو سرکاری بسوں میں مفت سفر کرنے کی سہولت فراہم کی۔ وہاں کے چھوٹے بڑے، امیر و غریب عام آدمی پارٹی سے متاثر ہوئے۔
آئندہ8فروری کو دہلی میں الیکشن ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس روز سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یہاں الیکشن نہیں ہے بلکہ جنگ ہے۔ بی جے پی اور اس کے سردار اور سرغنہ سب مل کر پوری دہلی کو ہنگامہ خیز اور فساد انگیز ماحول میں تبدیل کرچکے ہیں۔ شاہین باغ میں جہاں خواتین پر امن اور جمہوری طریقے سے کالے قانون کے خلاف بیٹھی ہیں، بی جے پی الیکشن جیتنے کیلئے شاہین باغ اور مسلمانوں کو ہر طرح سے نشانہ بنا رہی ہے۔ پوری دہلی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں دہلی کے الیکشن کا غلط اثر مرتب ہورہا ہے۔ بی جے پی کے لوگ جو وزیر اور ایم پی ہیں ایسی زہریلی زبان کا استعمال کر رہے ہیں کہ جس سے پورے ملک کا ماحول خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ گن اور گولی مارو کلچر کے ساتھ فتنہ پردازی اور فساد انگیزی بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب گجرات میں تھے تو ایسا ہی ہندو، مسلمان کی بنیاد پر الیکشن لڑتے تھے۔ گجرات سے باہر آئے تو پورے ملک کو گجرات بنا دیا۔ دہلی اس وقت جنگجویانہ منظر پیش کر رہی ہے۔ پہلے مودی-شاہ کے لڑکے کپل مشرا، پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر نے اپنی زہریلی زبانوں کا استعمال کیا۔ جب ٹھاکر اور ورما پر کچھ دنوں کیلئے الیکشن کمشنر کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تو یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا گیا جنھوں نے ماحول کو اور پراگندہ کردیا۔ وزیر اعظم مودی اپنی پست ذہنیت کے ساتھ پہلے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیتے تھے اور اس وقت بھی ان کی پست ذہنیت ان کے ساتھ سائے کی طرح لگی ہوئی ہے۔ ہریانہ میں اکتوبر کے مہینے میں جو ریاستی الیکشن ہوا اس میں انھوں نے اپوزیشن کو بتایا کہ ان کی کیمسٹری پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔ 2017ء میں گجرات اسمبلی کے انتخابی مہم کے دوران انھوں نے الزام لگایا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پاکستان کی مدد سے بی جے پی کو گجرات میں ہرانا چاہتے ہیں۔
اس وقت موصوف شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کا احتجاج یا دھرنا کوئی اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ ہے جو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پورے ہندستان میں جو کالے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں احتجاجیوں اور مظاہرین کو مودی، شاہ اور ان کے چہیتے اور حاشیہ بردار سب کو پاکستان نواز، غدارِ وطن، جہادی اور اربن نکسل سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان الزامات اور بہتان تراشیوں کے دوران گولی اور پستول کے استعمال کے باوجود بی جے پی کے لیڈروں اور کارندوں کی نیند حرام ہے۔ 250 افراد سے زائد جس میں بی جے پی کے گیارہ وزرائے اعلیٰ، کابینہ کے سارے وزراء اور پارٹی کے سارے اہم ایم پی شامل ہیں مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایگزٹ پول کی جو پیش گوئی ہے اس کے مطابق عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور بی جے پی کو ایگزٹ پول کے مطابق 10-12 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ ایگزٹ پول کی رپورٹ سے بی جے پی کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ پہلے بی جے پی نے اپنے لوگوں کے ذریعے پستول اور فائرنگ کا سہارا لیا۔ اب کپل گورجر جس نے شاہین باغ میں فائرنگ کی تھی اسے عام آدمی پارٹی سے بی جے پی جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شاید بی جے پی کو گن کلچر انتخاب کیلئے راس نہیں آیا، جس کی وجہ سے ایک نئی سیاسی چال چلنے پر مجبور ہوئی ہے تاکہ اس کی جو رسوائی اور بدنامی ہوئی ہے اس میں کمی واقع ہو اور عام آدمی پارٹی بھی بدنام ہو۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے اندر گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ (Nervousness) پیدا ہوگئی ہے۔
گزشتہ روز ایک تحریری سوال کے جواب میں بی جے پی کے وزیر نے بتایا کہ NRC کے لاگو ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگر بی جے پی دہلی میں بری طرح ہارتی ہے تو اس کا زیادہ امکان ہے کہ CAA کے بارے میں بھی اس کا جواب دیر یا سویر این آرسی جیسا ہی ہوگا۔ NPR کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ سرکاری عملہ کاغذات یا دستاویز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ان اعلانات یا جوابات سے احتجاج اور مظاہرے کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے آگے بڑھ کر بی جے پی کو ہٹانے اور دیس بچانے کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب اس حکومت سے کوئی اچھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس حکومت کی موجودگی میں ملک کا ماحول دن بدن خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔ روزگار اور معاشی حالت بھی بدسے بدتر ہوتی جائے گی۔ جس سے عوام کو بیحد پریشانی لاحق ہوجائے گی۔ جمہوریت اور دستور کو بھی خطرہ درپیش ہوگا۔ اس لئے اس حکومت کو ہٹانے اور ملک کو بچانے کی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے۔ جن لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ آزادی سے بڑی لڑائی اس وقت لڑنے کی ضرورت ہے انھوں نے صحیح سوچا ہے۔ اس سوچ اور اس کیلئے جو عمل ہے اس کا دل و جان سے ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور کبھی کوئی پارٹی جیت کر حکومت بناتی ہے اور کبھی کوئی۔ جمہوری نظام حکومت اور متعدد پارٹی نظام سیاست کی یہی تو صفت اور خوبصورتی ہے۔تاہم اس کی ایک کریہہ شکل بھی ہے اور وہ ہے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہر اخلاقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر by hook or crook اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد۔پچھلے کئی سالوں سے بالخصوص ١٩٩٠— ١٩٩٢ سے مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کر کے ووٹرز کو لام بند کرنا انتخابی مہم کا جزءِ اساسی main ingredient بن گیا ہے۔ گرچہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی شروعات بی جے پی نے کی مگر اس سے پہلے اور اس دوران ذات برادری کے نام پر لام بند کرنے کا کام دوسری پارٹیاں بھی کرتی رہی ہیں۔
١٩٩٠ سے قبل انتخابی مہم میں پارٹیاں اپنی ماضی کی حصول یابیوں اور مستقبل کے وعدوں پر ووٹ مانگتی تھیں۔ تجزیہ نگار ان پارٹیوں کے کارناموں اور عوام دوست اور عوام مخالف پالیسیوں کو نمایاں کر کے رائے عامہ بناتے تھے۔ لیکن اس کے بعد خصوصاً ٢٠١٤ کے انتخابات کے وقت سے بی جے پی نے واضح فرقہ وارانہ بیانیہ اور کھلے عام اور اشارے کنائے میں مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
ہندوستان میں ۲۹ ریاستیں اور ٩ مرکز کے تحت ” نیم ریاستیں” یونین ٹیریٹوری ہیں۔دہلی ایک نیم ریاست ہے پارلیمنٹ میں آبادی کے تناسب کے مطابق اس کے صرف سات ممبران ہیں۔ نومبر ٢٠١٢ میں عام آدمی پارٹی وجود میں آئی – ٢٠١٤ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے ٧٠ میں سے ٦٧ نشستیں جیت کر حکومت بنائی اور بہت حد تک تعلیم وصحت اسکول، محلہ کلینکس بجلی پانی سڑکیں سیوریج کے میدان میں نمایاں کام کیا اور اسی لئے ڈنکے کی چوٹ پر اروند کیجریوال اپنی حکومت کے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔دہلی میں حکومت تو بی جے پی کی نہیں تھی لیکن مرکز میں بی جے پی کی حکومت یعنی ریاست دہلی کی نصف حکومت اور بی جے پی کی سربراہی میں میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی قطعاً ایسی نہیں رہی کہ اس کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکے۔ اس لئے اس پارٹی کے پاس مذہبی فرقہ واریت کا جو آسان اور مجرب نسخہ ہے اسے ہی اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
الیکشن تو ہوتے رہتے ہیں۔ چھ سال قبل تک دہلی حکومت کی سربراہی کانگریس کی شیلا دکشت نے کی تھی اور بلا شبہ دہلی میں ان کے دور اقتدار میں تعمیراتی، ترقیاتی اور ماحولیاتی کاموں کی ایک لمبی فہرست اور زندہ مثالیں ہیں مگر انا ہزارے کی کرپشن مخالف تحریک نے ایک طرف نہ صرف مرکز سے بلکہ دہلی ریاست سے بھی کانگریس کو برطرف کیا اور دوسری طرف اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کو جنم دیا۔
اب ایک بار پھر دہلی کی عوام کا سخت امتحان ہے اس لئے نہیں کہ حسب معمول وہ ووٹ دے گی اور کسی ایک پارٹی کی یا گٹھ بندھن حکومت بنے گی بلکہ اس لئے کہ اس وقت دہلی الیکشن کے نتیجے کا پیمانہ عام نہیں خاص ہونے والا ہے۔ اور وہ خاص بیرومیٹر یا تھرمامیٹر بصورت مجموعی ملک کے مزاج کے بارے میں بتاۓ گا کہ آیا ہندوستان اور ہندوستانیوں کی اکثریت اس ملک کے دستور بحیثیت مجموعی اور بالخصوص سیکولرازم میں پختہ یقین رکھتے ہیں یا مذہبی فرقہ واریت کی، علانیہ یا پس پردہ، تائید کرتے ہیں۔ دہلی دارالحکومت ہے یہاں ملک کی تقریباً تمام ریاستوں کے لوگ رہتے ہیں اور ظاہر ہے ان میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔ بین الاقوامی طور پر دنیا کی تقریباً ہر نیوز ایجنسی اور چینلز موجود ہیں اور دنیا کے ہر ملک کے سفارتخانے موجود ہیں ۔ اس وجہ سے دہلی اور اس کے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔بی جے پی اپنا کوئی کارنامہ کا ذکر کرنے کے بجائے شاہین باغ اور پاکستان کے نام پر اور مخصوص فرقے کو نشانہ بنا کر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ فیصلہ دہلی کے ووٹرز کو کرنا ہے کہ ان کے لئے سی اے اے این آر سی اور این پی آر اہم ہیں یا دہلی کی تعمیر و ترقی ؟
اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے لئے سی اے اے این آر سی اور این پی آر کا نافذ ہونا کیوں باعث تسکین ہے؟ اگر نہیں تو اس نۓ ایکٹ میں مذہب کی بنیاد پر جو تفریق ہے اس کی حمایت کیوں ؟ دہلی والے اس نۓ ایکٹ اور اس سے مربوط این آر سی اور این پی آر ، ابھی یا بعد میں، سے جو لوگ متاثر ہونے والے ہیں ان کے ساتھ ہمدردی اور سالیڈریٹی کا عندیہ اپنے ووٹ سے دیں گے۔ دہلی، جو اپنے آپ میں ایک مینی ہندوستان ہے، کے پڑھے لکھے سیاسی طور پر باشعور ووٹرز ہندوستان کے مقدس دستور، سیکولرازم، فرقہ وارانہ رواداری peaceful coexistence میں یقین رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب ١١ فروری کو ملے گا۔
تاہم بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات میں جیت شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی اور این پی آر کے حق بجانب ہونے کی سند کے طور پر پیش کرے گی ۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ کوئی پارٹی ” پارٹی ذرا ہٹ کے” بننے کی کوشش نہیں کرے گی۔ کوئی پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی اہل نہیں ہوگی۔ پورے ملک میں سیاست ایک ہی ڈگر یعنی مذہب ذات برادری اور علاقائیت پر ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)