نئی دہلی:اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ دنوں دہلی تشدد کے دوران وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پر اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہنے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیاہے کہ اس کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج کو لے کر عدالتی جانچ کرائی جانی چاہیے۔یہ مطالبہ کرنے میں بی جے پی کی حلیف جدیوبھی شامل رہی،وہیں بیجوجنتادل نے سی اے اے میں مسلمانوں کوشامل کرنے کابھی مطالبہ کیاہے۔اپوزیشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ سی اے اے معاملے پرحکومت مظاہرین سے بات کرے۔دہلی تشددکے موضوع پر بدھ کو ایوان میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے ترنمول کانگریس کے سوگت رائے نے وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفے کی مانگ اٹھائی۔انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے کچھ دوسرے لیڈروں نے اشتعال انگیز بیان دیے جس سے کشیدگی بڑھی اورتشدد ہوا۔رائے نے وزیر داخلہ اور دہلی پولیس پرسرگرمی سے کام نہیں کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ دہلی تشدد کی عدالتی جانچ کرائی جائے اور یہ تحقیقات سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج سے کرائی جائے۔ڈی ایم کے نے کہاہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں سے حکومت کوبات چیت کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دہلی تشدد کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔شیوسینا کے راوت نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بھارت دورے کے وقت یہ فسادات ہوئے اورانتظامیہ روک نہیں پایا۔انہوں نے سوال کیاہے کہ کیاسیکورٹی ایجنسیاں ناکام رہی ہیں؟ بیجو جنتا دل کے مشرانے کہاہے کہ سی اے اے میں مسلم کمیونٹی کو بھی شامل کیا جائے اورحکومت اقلیتوں میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کرے تاکہ غلط فہمیاں دورہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ عدم تشدد لفظ کو آئین کے دیباچے میں شامل کیا جائے۔بی ایس پی کے رتیش پانڈے نے بھی وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ تشدد میں پولیس کے کردار کو لے کر جوویڈیوسامنے آئے ہیں وہ شرمناک ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج کی طرف سے دہلی تشدد کی جانچ کرائی جائے۔سماج وادی پارٹی کے شفیق الرحمن برق نے بھی دہلی تشدد کے معاملے کی عدالتی تحقیقات کامطالبہ کیا۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے بھی عدالتی جانچ کی مانگ اٹھائی اور کہاہے کہ دہلی پولیس نے اپنے کام کوپورا نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو راجدھرم پر عمل کرناچاہیے۔بی جے پی کی اتحادی جے ڈی یو کے راجیو رنجن سنگھ نے کہا کہ اس کی جانچ ہونی چاہیے کہ تشدد کے پیچھے کون لوگ ہیں۔اگر اس کی جانچ صحیح سے ہو گئی تو بہت سفید پوش لوگوں کے نام سامنے آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتیں سی اے اے کے نام پر اقلیتوں میں خوف پیدا کرنے اور انہیں اکسانے کی کوشش کر رہی ہیں۔سنگھ نے کہا کہ کچھ لوگ سی اے اے کواین آرسی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے کہاہے کہ این آرسی کی ابھی کوئی تجویزنہیں ہے۔لیکن وزیرداخلہ کرونالوجی سمجھاچکے ہیں کہ سی اے اے اوراین آرسی اوراین پی آرکاکیامطلب ہے؟بی جے پی کے سنجے جیسوال نے الزام لگایا کہ کانگریس اقتدار میں باہر رہنے کی وجہ سے ایک بار پھر تشدد بھڑکا رہی ہے کیونکہ وہ بانٹواورراج کرو میں یقین کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ شاہین باغ میں مظاہروں کو لے کر صرف مذاکرات کارمقرر کر رہا ہے جبکہ وہ پہلے کے اپنے بہت سے احکامات میں وہ کہہ چکاہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب سڑک بلاک کرنانہیں ہے۔
Khajori
مسعود جاوید
ملی تنظیموں کے کاموں میں ازدواجیت duplication کیوں ہے ؟
دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں ١٩ مساجد کی نہ صرف بے حرمتی کی گئی بلکہ ان مسجدوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ سے عمارتوں کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ان کی مرمت کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ضروری بھی تھا اور ملت اسلامیہ کی غیرت و حمیت کا تقاضہ بھی۔ اس کے لئے جو تنظیمیں اور افراد سامنے آئے ہیں وہ بلاشبہ قابل ستائش ہیں ۔
مگرایک طرف دہلی وقف بورڈ نے دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں ٥ متاثرہ مساجد کی مرمت کا کام شروع کرانے کا اعلان کیا ہے وہیں دوسری طرف جمعیت نے بھی بینر لگا کر بعض مساجد کی مرمت کا کام شروع کیا ہے۔ اسی طرح ریلیف کے کاموں میں مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں مختلف تنظیموں اور افراد کی طرف سے چندے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یہ کار خیر ہے اللہ انہیں جزاۓ خیر سے نوازے ۔ مگرکیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ مختلف تنظیمیں اور ورک گروپس اپنی اپنی سرگرمیوں کے حدود اربعہ اور job description طے کریں اور اسی مخصوص کام میں سرگرم رہیں ؟
حالیہ فساد کی نوعیت بتاتی ہے کہ یہ روایتی فرقہ وارانہ فسادات سے مختلف منظم حملے تھے جس میں نشانے بر نہ صرف جان بلکہ عبادتگاہیں اور معاشی ذرائع بھی تھے۔ایسی تباہ کاریوں کی باز آبادکاری کے لئے مختلف جہتوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے :
١- زخمیوں کا فوری مناسب اور مکمل علاج
٢- جن زخمیوں کے کاندھوں پر گھر کے اخراجات کی ذمہ داریاں تھیں ان کی مکمل شفایابی تک ان کنبوں کی کفالت-
٣- حکومت سے معاوضہ/ امداد حاصل کرنے کے لئے ان کی کاغذی کارروائی میں معاونت-
٤- گرفتار ہونے والوں کو قانونی امداد بہم پہنچانا-
٥- جو متاثرین اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں یا دیگر محفوظ مقامات پر پناہ لۓ ہوئے ہیں ان کی اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے کاؤنسلنگ اور ان کے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھائی چارگی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی میٹنگ کا انعقاد-
٦- جن کی دکان ریہڑی ٹھیلے بیٹری رکشے فساد کے دوران تباہ کر دیے گۓ ان کو رقم دے کر دوبارہ شروع کرانا-
٧- فساد زدہ علاقوں کے بچوں کے اسکولوں میں جاکر مسلم اور غیر مسلم بچوں کے درمیان دوستی کرانے اور جو کچھ ہوا اسے بھول کر نارمل زندگی بسر کرنے کی تلقین کرانا اور سنجیدہ اساتذہ سے از سر نو بہتر ماحول بنانے کی درخواست کرنا۔
اگر اس طرح محدود متعین ذمے داریوں کے ساتھ کام کیا جائے تو انشاءاللہ بہت موثر اور اچھا نتیجہ برآمد ہوگا اور مستقبل کے لئے ایک پیٹرن اور مجرب میکانزم کے طور پر لیا جائے گا۔
ہر شخص اور ہر جماعت و جمعیت متاثرین کے لئے اشیاے خوردونوش اور کپڑے مہیا کرانے میں کیوں مصروف ہے؟ رضاکارانہ کام کرنے والے ایک میٹینگ کر کے اپنے اپنے expertise اختصاصات کے مطابق کام بانٹ کیوں نہیں لیتے ؟
میری طرح شاید آپ کو بھی یہ سوال پریشان کرتا ہوگا کہ ہر جماعت، جمعیت ، اور این جی اوز سیلاب سے متاثرین لوگوں کے لئے ریلیف کے کام میں اتنی دلچسپی کیوں لیتی ہے؟ آفات ناگہانی کے وقت امداد پہنچانے کی سعی بلا شک قابل ستائش ہے لیکن اسی وقت ساری تنظیمیں کیوں متحرک ہوتی ہیں؟ کیا باقی کے دنوں میں ملت کے مسائل کم درجہ کے ہوتے ہیں؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن
حوصلے نہیں چھین سکتے ۔شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین ، اُس وقت بھی ڈٹی ہوئی تھیں جب شہر دہلی جل رہا تھا ۔ اور آج جب حالات کچھ کچھ قابو میں آرہے ہیں تب بھی ڈٹی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ایک ویڈیو، جووائرل ہورہا ہے ، چند ’شرپسندوں‘ کی شاہین باغ پر حملے کی ’ منصوبہ بندی‘ کو ظاہر کررہا ہے ۔ یرقانی شرپسندوں اور فسادیوں نے ساری دہلی پر خوف ودہشت کی فضا طاری کررکھی ہے لیکن سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے صرف دہلی ہی میں نہیں ملک بھر میں جاری ہیں ۔ اِن احتجاجی مظاہروں کا جاری رہناحوصلوں کی برقراری کا بھی ثبوت ہے اور اس کا بھی کہ جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن آئین مخالف سیاہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بند نہیں کرواسکتے ہو ۔۔۔
دہلی میں تشدد کا مقصد سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں بالخصوص شاہین باغ کے مظاہرے کو روکنا ہی تو تھا۔۔۔ دو مہینے سے زائد عرصے سے جاری ان مظاہروں کے دوران نہ کبھی کوئی تشدد ہوا اور نہ ہی مظاہرین کی جانب سے کبھی کوئی شرپسندی کی گئی ، یہ مظاہرے اپنے آغاز ہی سے ’پرامن ‘ تھے اور ہیں ۔۔۔ لیکن صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر بی جے پی کے ایک قائد کپل مشرا نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی ٹھانی۔ پولس کے حفاظتی گھیرے میں’موج پور‘ میں کھڑے ہوکر دھمکی دی کہ اگر تین دن کے اندر سی اے اے کے خلاف مظاہرے کرنے والے نہ ہٹے تو دیکھ لیں گے ۔ دھمکی بے حد صاف تھی ۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جو کسی زمانے میں عام آدمی پارٹی میں ہوا کرتے تھے حالانکہ ان کا خاندانی پس منظر آر ایس ایس کا ہے ۔ پارٹی سے نکالے گئے اور جہاں کا ’خمیر‘ تھا اسی پارٹی یعنی بی جے پی میں شامل ہوئے ۔ چونکہ ’ ضمیر‘ کے نام پر ان کے پاس ’بے ضمیری‘ کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے یہ ’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسا زہریلا نعرہ لگاتے اور یرقانی ٹولے کو اشتعال انگیزی کے لئے اکساتے رہے ۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں دو بھگوا دھاریوں کے ذریعے گولی باری کی وارداتیں ہوئی تھیں تب ہی اگر بی جے پی کی مرکزی سرکار چاہتی تو کچھ دنوں بعد جلنے والی دہلی کو جلنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن یہ اسےمنظور نہیں تھا۔ جس روز چھٹ پٹ تشدد کی وارداتیں شروع ہوئی تھیں اس روز بھی اگر وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی پولس چاہتی تو ’شرپسندوں‘ کو جن میں کپل مشرا پیش پیش ہیں حراست میں لے کر دہلی کو جلنے سے بچاسکتی تھی ، لیکن انہیں تو شاید دہلی کو جلتا دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔ شاید یہ چاہتے تھے کہ نیرو نے جس طرح روم کو جلتے ہوئے دیکھا اور بانسری بجائی تھی، یہ دہلی کو جلتے دیکھیں ۔ یہ بانسری تو خیر نہیں بجارہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کی ’ مہمان نوازی‘ میں لگے تھے ، اور یہ ’ مہمان نوازی‘ بھی ایک اعلیٰ ترین قسم کی تفریح ہی تھی۔ لہٰذا ’ شر پسند‘ جو یقیناً دہلی کے ساتھ بیرون دہلی سے آئے تھے جی بھر کر دہلی کو لوٹتے رہے ۔ وہ دہلی جو ماضی میں بار بار لٹی ہے اور اب لگ رہا تھا کہ اس کے لٹنے کے دن ختم ہوئے ، پھر سے لٹ گئی۔ ویسے تو دہلی ۱۹۸۴ء میں بھی لٹی تھی، اس وقت کانگریس کا راج تھا ۔ اس وقت سکھ فرقہ نشانے پر تھا۔ اس معاملے میں کانگریس کے کئی سیاست دانوں کو سزا بھی ملی ہے ۔ منموہن سنگھ جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے سکھوں کے قتل عام کا ’ کفارہ‘ ادا کرنے کی ہمت بھی کی تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کے دور میں دہلی لٹی ہے ، جلی ہے اور نشانے پر مسلمانوں کے ساتھ عام دہلی والے بھی رہے ہیں ، ہندو بھی۔ اور یقین مانیئے کسی بھی شرپسند کو سزا نہیں ملے گی ۔ کم از کم وہ جو شرپسندی کے لئے لوگوں کو اکسارہے تھے ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما سب محفوظ رہیں گے ۔ امیت شاہ جی نے بھی لوگوں کو مشتعل کرنے میں کوئی کم اہم کردار ادا نہیں کیا ۔ شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے والے بیان کو ’شریفانہ‘ بیان تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اور نہ ہی وزیراعظم نریندر مودی کے ’ سینوگ‘ اور ’ پریوگ‘ والا بیان ایک جمہوری سیکولر ملک کے وزیراعظم کے شایانِ شان کہلاسکتا ہے ۔ پر ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ گجرات فسادات میں بھی ملوث ہونے کا ان پر الزام ہے پر کیا ان کا کچھ بگڑا ؟ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس مرلی دھر نے ان شرپسند بھاجپائی لیڈروں کو لگام لگانے کی کوشش کی تھی، ان کا راتوں رات تبادلہ کردیاگیا ۔ باقی عدلیہ بغیر ریڑھ کی ہڈی والی ہے ۔ یہ دہلی کو جلتا تو دیکھ سکتی ہے پراسے جلانے والوں کو لگام نہیں لگاسکتی۔
دہلی اسمبلی کے الیکشن سے ہی سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرے بالخصوص شاہین باغ اور وہاں کی خواتین بی جے پی کے نشانے پر تھیں ، آج بھی ہیں ۔ انہیں دیش کے غدار قرار دیا گیا ، انہیں گولی مارنے کی بات کی گئی۔ اور پھر ساری دہلی پر سی اے اے کی حمایت کرنے والوں نے آگ اور خون کی برسات کردی ۔ یہ فسادات گجرات 2002ء کی یاد دلاتے ہیں ، کیونکہ گجرات فسادات ہی کی طرح یہاں بھی لوگ زندہ جلائے گئے ۔ اکبری بیگم کی عمر ۸۵ سال کی تھی، وہ اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ دہلی کے کھجوری خاص سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور گمری ایکس ٹنیشن میں رہتی تھیں ۔ ایک مسلح ہجوم وہاں پہنچا ، یہ دوکانوں مکانوں کو جلارہا تھا ، اس نے اکبری بیگم کے چار منزلہ مکان کو بھی آگ کے حوالے کردیا ۔ اکبری مکان کے تیسرے منزلے پر تھیں، وہ آگ سے بچ نہیں سکیں ۔ اکبری کے بیٹے ۴۸ سالہ سلمانی کا کہنا ہے کہ ماں گئی ، مکان اور دوکان کچھ نہیں بچ سکا ۔ شاہد کی داستان لے لیں ، ابھی چار مہینے قبل اس ۲۸ سالہ نوجوان کی شادی ۲۰ سالہ شازیہ سے ہوئی تھی ۔ شاہد کو مشتعل ہجوم نے ماردیا ۔ اور شازیہ دوماہ کی حاملہ ہے ! راہل سولنکی نوجوان تھا ، اسے پولس کی گولی چاٹ گئی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کی موت کا ذمے دار کپل مشرا ہے ۔ درد اور الم بھری بے شمار کہانیاں ہیں ، مہتاب کی ، فاروقیہ مسجد کو جلانے کی ، اشوک نگر کی مسجد پر ہنومان کا جھنڈا لہرانے کی ، مصطفےٰ آباد کے ایک نوجوان محمد عمران کے پولس کی گولی سے اعضاء مخصوص کے چیتھڑے بن کر اڑنے ، لوگوں کے اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ نفرت پر محبت حاوی رہی ہے ۔ دونوں فرقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو پناہ دینے ، مندر کی حفاظت کرنے اور اپنی جانوں کو دوسروں کے لئے خطرے میں ڈالنے کی ۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقی ہندوستان جس کو ختم کرنے کے لئے یہ سب ہورہا ہے ۔ یہ سب یعنی نفرت کا پرچار ، زہریلی تقریریں ، غداروں اور گولی ماروں کے نعرے، کرنٹ پہنچانے کی باتیں اور سی اے اے جیسے غلیظ قانون کے ذریعے فرقہ وارانہ سطح پر فرقوں کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج قائم کرنے کی کوششیں۔
دہلی کو جلانا منصوبہ بند تھا۔ یہ سازش کس کی تھی ،اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے کہ جلتی دہلی کو ، عوام کو اور دہلی والوں کو جب مدد کی ضرورت تھی ، جب آگ بجھانے کے لئے انہیں پانی چاہیئے تھا تب مدد دینے اور پانی پہنچانے والے ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھے ۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا ذکر کرنا اب فضول ہے ۔ ان میں ’ سیاسی جرأت‘ کا فقدان ہے لہٰذا وہ چاہے جس قدر ترقی دہلی کو دلادیں جب بھی دہلی کو آگ اور خون سے بچانے کی ضرورت ہوگی وہ بہت دور کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔۔۔ ان پر چھپا ہوا ’ سنگھی‘ ہونے کا الزام
لگ رہا ہے ، میں اس الزام کو نہیں مانتا لیکن میں یہ بھی نہیں مانتا کہ پولس محکمہ آپ کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے آپ بے بس تھے ۔ آپ مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کرسکتے تھے ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آپ کو جوابدہ ہیں ان کی لگامیں کس سکتے تھے ، اپنے ممبرانِ اسمبلی اور کونسلروں اور لیڈروں کی پوری فوج سڑکوں پر اتارسکتے تھے اور خود ان کے ساتھ اترکر امن وامان کے لئے مارچ کرسکتے یا دھرنا دے سکتے تھے ۔آپ خاموش رہے ، یہ خاموشی بہت کچھ بولتی ہے ۔ کانگریس کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ دہلی اسمبلی میں اس کا ایک بھی رکن نہیں ہے ۔ لیکن رکن نہ ہونے کا مطلب ’ بے بسی‘ تو نہیں ہے ۔۔۔ پنڈت نہرو کانگریس ہی کے تو تھے۔۔۔ ایک واقعہ ابھی حال ہی میں پڑھا ہے ۔ ۱۹۴۷ء کے تقسیم فسادات کے دوران جب پنڈت جی اپنی کار سے کٹاٹ پلیس کے پاس سے گذر رہے تھے تو انہوں نے دو فرقوں میں تشدد ہوتے دیکھا، وہ کار سے اترے ، اپنے حفاظتی گھیرے کو توڑا اور نہتے دوڑتے ہوئے دنگائیوں تک پہنچے اور دنگا روک دیا ۔ کانگریسی پنڈت جی کی میراث کی بات تو کرتے ہیں پر ان میں میراث سنبھالنے کی استعداد نہیں ہے ۔ یہ بزدل ہیں ۔ پولس پوری طرح متعصب اور جانبدار رہی ۔۔ ۔مسلم قیاد ت کا ذکر کیا کریں ، کہ یہ قیادت تو ذکر کے قابلِ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ۔سچ بے حد تلخ ہے ، بی جے پی اور مودی وشاہ کی سرکار نے تو دہلی تشدد کو نہیں روکا ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسوں کو لگام نہیں دی ، پولس کو بے لگام کیا ، نفرت بھڑکائی پر اس کام میں ان کی مدد کیجریوال اینڈ کمپنی نے بھی کی ، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اور مسلم لیڈروں نے بھی ، وہ مسلم لیڈر جو ابتدا ہی سے شاہین باغ احتجاجی مظاہرے اور وہاں خواتین کے دھرنے کے مخالف رہے ہیں۔۔۔ گویا یہ کہ دہلی کا یہ قتل عام سب کی ’ محنتوں کا ثمرہ ہے ‘۔۔۔ مگر کچھ ہوجائے سی اے اے مخالف احتجاج جاری رہے گا ، جاری رہنا بھی چاہیئے ، امیت شاہ لاکھ یہ کہتےرہیں کہ یہ مسلم مخالف قانون نہیں ہے ، نہ ہو مسلم مخالف ، یہ آئین مخالف قانون توہے ۔اور اس کا ہونا سارے ملک کے لئے خطرناک ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی : دہلی تشدد پر کانگریس نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت، وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پرنشانہ لگایاہے۔ کانگریس کے ترجمان آنند شرما نے ایک پریس کانفرنس میں دہلی تشدد پر مرکز اور دہلی حکومت کو جم کر گھیراہے۔ آنند شرما نے کہاہے کہ ملک اور قومی راجدھانی دہلی میں حالیہ دنوں میں جوواقعات ہوئے ہیں، ان سے کچھ اہم سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ مخالفت کرناشہریوں کابنیادی حق ہے۔ احتجاجی مظاہروں پر انتظامیہ کا رویہ تشویش ناک ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ہر قانونی دفعات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے ہی سہی لیکن کہاہے کہ دفعہ 144 لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ مخالفت کرنے پر دفعہ 124 اے کے تحت کیس کیا جا رہاہے۔ غداری کاالزام لگایاجارہاہے۔دہلی تشدد کا ذکر کرتے ہوئے آنند شرمانے کہاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد اور تشدد کے بعد لوگوں کی ہوئی موت پر کانگریس کی تجویزمیں ہم نے کہا کہ جان بوجھ کر کارروائی نہیں کی گئی۔ تشددرک سکتاتھا۔اسی پولیس نے تشدد روکا ہے ایک دن میں، جس نے 4 دن تک دہلی کو جلانے دیا۔ اب جو کارروائی ہورہی ہے، وہ بھی یک طرفہ ہو رہی ہے۔ جولوگ دھرنے پر مخالفت میں بیٹھے تھے، ان پر سنگین دفعات کے تحت مقدمے تیارکیے جا رہے ہیں۔ عدالتوں سے ابھی کوئی راحت نہیں ملی ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں، وکیل ہیں، بھارت کے شہری ہیں اورحقوق کی بات کرتے ہیں، ان پر سنگین دفعات لگانا غلط ہے۔ جولوگ مخالفت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں اٹھیں گے، ان پر دفعہ 307 کے تحت کیس درج کرنا غلط ہے۔ اتنی سنگین دفعات کے تحت کیس کا بننا غلط پیغام دیتا ہے۔ اس پر حکومت سے کوئی امید نہیں کرتے ہیں کہ وہ انصاف کرے گی۔ہمیں نہ وزارت داخلہ سے، مرکزی حکومت سے نہ ہی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے، نہ ہی دہلی کے وزیراعلیٰ سے توقع ہے جو ان موضوعات پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔پر یہ توقع اور امید ہماری عدالتوں سے ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گی۔ آئین کی صحیح معنوں میں حفاظت بھارت کی سپریم کورٹ کا مذہب اور فرض ہے۔ اگر شہریوں کے حق پراثرپہنچتا ہے اور انصاف ملنے میں تاخیر ہوئی تو صحیح معنوں میں وہ آئین کو چوٹ پہنچاتی ہے۔آنند شرما نے کہا کہ ہم یہ سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قانونی مقدموں کودیکھے کہ لوگوں پر ایسے مقدمے لگائے گئے ہیں، جن میں ضمانتیں نہیں ملتیں۔کچھ لوگوں کو ضمانت دی نہیں جا رہی ہے۔ ان کی جانچ کرائی جائے۔ اس سے حکومت کی نیت سامنے آئی ہے، حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر انتشار اور تصادم نہ ہو۔ حکومت چاہتی ہے ماحول بگڑے۔ حکومت یہ کام حکومت، انتظامیہ اور پولیس کے غلط استعمال سے کر رہی ہے۔
ابھیشیک شریواستو
ترجمہ: اشعر نجمی
منگل کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی واپسی کی فلائٹ پکڑی،ایک غیر معمولی شخصیت دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئی۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال دیر رات پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، پھر وہاں اگلے دن فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چلے گئے۔ بدھ کے روز، ان کا دورہ ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوا، جب انھیں مقامی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا ،”جو ہوا سو ہوا ، انشااللہ،امن ہوگا …”
وزارت داخلہ نے 1978 میں جاری کردہ ایک اہم نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ دہلی کے ایس ڈی ایم اور مجسٹریٹ کے اختیارات دہلی کے کمشنر آف پولیس کے ماتحت ہیں۔ اسی اطلاع کا استعمال کرتے ہوئے ، 5 اگست 2016 کو دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر ایس ڈی ایم کے ذریعہ عائد کردہ دفعہ 144 کو دہلی پولیس کے ڈی سی پی نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔دہلی کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں دہلی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے درمیان حقوق کی ترجیحات کے تنازعہ کا فیصلہ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی پولیس کمشنر کے حقوق میں دراندازی کی ہے۔ اس کے ایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ڈوبھال نے وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا اور یہ مقتدر اعلیٰ کی منظوری سے کیا گیا۔
اگر یہ بات ڈوبھال کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ امن کے قیام کے لیے ڈوبھال نے جس طرح سے مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور ٹیلی ویژن پر جس طرح سے اس کو نشر کیا گیا ، یہ اپنے آپ میں نہ صرف ایگزیکٹیو بلکہ مقننہ کے دائرہ اختیار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ شورش زدہ علاقے میں مقننہ سے بطور قاصد قومی سلامتی صلاح کار کوبھیجا جانا سب کی نظر میں آگیا۔ اگر ہم اس کا موازنہ بالکل اسی نوعیت کے ایک منظر سے کرتے ہیں جو آج سے چھ ماہ قبل سری نگر کی سڑکوں پر ہوا تھا ، تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہلی کی سیاست کی کوکھ میں کیا پوشیدہ ہے۔
ڈوبھال کو سڑک پر آئے دو دن نہیں ہوئے تھے کہ تین ہفتہ قبل تیسری بار دہلی کے وزیر اعلی بننے والے اروند کیجریوال نے دھماکہ کردیا۔ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت ایک ہی جھٹکے میں دے دی گئی۔
کیجریوال، جنھوں نے شیلا دکشت کے خلاف سیاست کا آغاز کیا تھا، آج وہ سیاست کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں جہاں وہ خود شیلا دکشت بن گئے ہیں۔ اسے دو واقعات سےسمجھیں۔ 2013 میں اروند کیجریوال کا سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اس بحث میں واپس آگیا ہے جس میں وہ شیلا دکشت کو عصمت دری کے واقعات پر قابو نہ پانے پر لعنت بھیج رہے ہیں اورالزام عائد کرتے ہیں کہ شیلا دکشت دوسروں کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دہلی میں تین روزہ فسادات کے پہلے دو دن میں، اگر کیجریوال اور ان کے حمایتی، ایم ایل اے اور وزیروں کے ٹوئٹ دیکھیں تو وہ سب فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں کوئی زمینی کام کرنے کے بجائے بالکل شیلا دکشت کے انداز میں "پولیس اپنے ہاتھ میں نہیں” ہونے کا رونا رو کر دنگوں سے اپنا پلہ جھاڑ رہے تھے۔
دوسرا واقعہ سال 2012 کا ہے۔ اسی سال ایک کارٹونسٹ، اسیم ترویدی کے خلاف ممبئی میں "دیش دروہ” کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اروند کیجریوال نے ممبئی سے دہلی تک متعدد دھرنا مظاہروں کے ذریعے اسیم کے خلاف غداری کے درج شدہ الزامات کی مخالفت کی اور اپنی ابتدائی سیاست کو دھار بخشی۔ آج اسی اروند کیجریوال نے کنہیا کمار اور دیگر طلباکے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے گرین سگنل دے کر اپنی سیاست کا ایک کامیاب دائرہ مکمل کیا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ کیجریوال کا "شیلانیاس ” ہو گیا ہے۔
شاہ اور مودی کے جال میں:
جس دن اجیت ڈوبھال کو ٹی وی پر ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ، امریش مشرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھی۔واضح رہے کہ امریش مشرا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بنارس سے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑے تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے آر ایس ایس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کے دو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں ، وہ ایک "سازشی تھیورسٹ” کا تمغہ حاصل ہے، لیکن اس بار انھوں نے یہ سوال اٹھا کر نبض پر انگلی رکھ دی کہ ایک منتخبہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر کیوں مکالمہ کررہے ہیں؟
اگر دہلی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی حکومت خود منتخب کرتی ہے تو پھر یہاں کی منتخبہ حکومت نے اپنے علاقے میں این ایس اے کو اپنی جگہ کیسے دے دی؟ اول تو ہر بات پر یہ دلیل دینا کہ "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے” دہلی سرکار کی قوت ارادی کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے، دوسرے معاملے کا دہلی پولیس یعنی وزارت داخلہ کے بھی پار چلے جانا آخر کس رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ آدھی ریاست کا رونا روتے ہوئے کیا اروند کیجریوال خود بھی "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep state) کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیجریوال کی آدھی ادھوری طاقت میں اور کتنے دن باقی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر پوری کرونولوجی دیکھیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اتوار کی شام، سموار اور منگل کو فسادات ہوئے تھے۔ دہلی میں پچاسوں گواہ ہیں جو بتائیں گے کہ انھووں نے کتنے ایم ایل اے اور وزراکو فون لگایا۔ ایک وکیل نے نومنتخب ایم ایل اے آتشی مارلینا سے فون پر التجا کی تودوسری جانب سے آواز آئی ،”یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔”راقم الحروف نے بدھ کے روز دو بار وزیر گوپال رائے کو فون کیا، نہ ہی فون اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کال بیک ہوا ۔دو دن بعد آخر کار چارو ناچار کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گئے، جہاں شہید سپاہی رتن لال کے دروازے پر مقامی لوگوں نے انھیں اور منیش سسودیا کو پیچھے دھکیل دیا۔” کیجریوال واپس جاؤ”کے نعرے لگ گئے، وہ لوٹ آئے۔
اگلی صبح انھوں نے دہلی اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز میلینیا ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کیا اور پھر فسادات پر آئے۔ ان کے اس جملے کو غور سے پڑھیں:
"میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ان فسادات سے کس کا نقصان ہوا۔ ان فسادات سے سب کو نقصان پہنچا۔ ان فسادات میں کون مرا، بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ویربھان کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ محمد مبارک کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ پرویش کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ ذاکر کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل سولنکی کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ شاہد کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ محمد فرقان کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل ٹھاکر کی موت ہوگئی،وہ ہندو تھا۔ ”
عام طور پر جہاں دو فرقوں کے مابین جھگڑے میں،مقتول اور حملہ آور دونوں کی شناخت بتانا صحافت میں ممنوع ہوتاہے، وہیں ایک منتخب رہنما اور وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقتولین کا مذہب بتا رہے تھے اور ایک ہندو کو ایک مسلمان کے ساتھ گنتی کرکے توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے دن پریس کانفرنس میں اپنی تقریر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کیجریوال نے لکھا،”ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔”
یہ کس کی زبان ہے؟ یہی بات منموہن سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے عہدے کے دوران لیفٹ وِنگ انتہا پسندی یعنی کمیونسٹ انتہا پسندی سے نبرد آزما ریاستوں کے ڈی جی پی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ اب یہی بات ہم گزشتہ چھ سالوں سے نریندر مودی کے منہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی ملک کی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کرنا چاہتا ہے تو پھر مقتولین کے مذہب کو گن کر لاشوں کے انبار کو متوازن کرنا ، اپنے دائرہ اختیار کو این ایس اے کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور چار سال سے اٹکے ہوئے دیش دروہ کے ایک فیصلے کو فساد کی گرمی کے درمیان پاس کر دینا کون سی سیاست ہے؟
بدھ کے روز اسمبلی جانے سے پہلے، کیجریوال کو اپنے دروازے پر طلبا اور نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعہ اور جے این یو کے طلبا نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کیجریوال اور دہلی حکومت کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور واٹر کینن اور لاٹھیوں سے انھیں کھدیڑا گیا۔ کیجریوال، جنھوں نے کبھی دفعہ 144 کو توڑ کر اور ایک دہلی کے قلب میں ریل بھون کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، جنھوں نے کبھی 26 جنوری جیسے حساس وقت کی بھی پرواہ نہیں کی، گزشتہ وہ ہفتے بالکل مختلف اوتار میں نظر آئے۔
کتنا دور کتنے پاس:
کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے کی منظوری کے بعد، جمعہ کی شام سے ہی ان کے پرستاروں میں کیجریوال کے بارے میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ وہی رائے دہندگان ہیں جنھوں نے 11 فروری کو انتخابی نتائج کے دن کیجریوال کی کامیابی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین باغ سے سیاسی فاصلہ بنا کر عام آدمی پارٹی نے حکمت عملی سے کام لیا جو درست تھا۔ جب کیجریوال نے سموار اور منگل کو فسادات سے دوری بنائی تو ان کے حمایتیوں کی منطق وہی پرانی تھی ، "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے۔”
دہلی پولیس ساتھ نہ ہونے کی منطق میں جو بھی پھنسے ، انھوں نے اس حقیقت سے منھ موڑ لیا کہ ایسا کہہ کر کیجریوال نے 48 گھنٹوں کے لیے میدان فسادیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ ڈوبھال نے یہیں بازی مار لی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کیجریوال کے پاس دہلی پولیس ہوتی بھی تو کیا الگ ہوجاتا ؟ (یاد کیجیے الیکشن پرچار کے دوران اروند کیجریوال ایک سے زائد بار اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر دہلی پولیس ان کے پاس ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔مترجم)
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران دہلی پولیس کے پاس 13200فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ 23 فروری کو 700 پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی کال، 24 فروری کو 3400 کالز، 25 فروری کو 7500 کال اور 26 فروری کو 1500 کالز۔
اکالی دَل کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نریش گجرال کا ایک خط وائرل ہوا ہے ، جسے انھوں نے جمعرات کو دہلی پولیس کمشنر کو لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے لوگوں کے کہنے کے باوجود مصیبت میں پھنسے لوگوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ شرومنی اکالی دَل برسوں سے پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اگر اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کال پر دہلی پولیس عمل نہیں کرتی ہے تو پھر کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کو کس بات پر خوش فہمی ہے؟
در حقیقت ، لااینڈ آرڈر یعنی پولیس کا اپنے پاس نہ ہونا، دہلی حکومت کے لیے ایک آسان بہانہ تھا اور ہے، جس کے سہارے اس نے اہم امور سے خود کو دور رکھا۔ شاہین باغ میں شہریت مخالف ترمیم قانون تحریک سے متعلق کیجریوال کا بیان یاد رکھیں، جس میں انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو للکارا تھا کہ پولیس ان کی ماتحت ہے تو وہی راستہ کیوں نہیں خالی کرالیتے؟ اب ایک بار پھر انھوں نے اپنے کونسلر طاہر حسین کو پارٹی سے نکال کر اور ہر مجرم کو یکساں طور پر سزا دینے کا مطالبہ کرکے اپنا پلہ جھاڑ لینے والی سیاست کی ہے، جب کہ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انھوں نے کپل مشرا کے معاملے پر اب تک اپنی زبان نہیں کھولی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کپل مشرا بھی ان ہی کی پارٹی کے نیتا رہے ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کیجریوال کپل مشرا پر خاموش ہیں، وہی کپل مشرا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے والے جسٹس مرلی دھرکا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے!
پانچ سال پہلے کا سبق:
آخرکیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ لا اینڈ آرڈر کی آڑ میں متنازعہ معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی کیجریوال کی سیاست دراصل وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے، بلکہ مرکزی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید قریب ہونے کی ایک مشق ہے؟ "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep State) یکطرفہ نہیں بنتی، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہیں۔ اگر ہم کیجریوال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ان کی تیسری انتخابی کامیابی میں "ڈیپ اسٹیٹ” کی شمولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور زیادہ پیچھے جائیں گے توہمیں وہی سوال اٹھانا پڑے گا جو نومبر 2014 میں اٹھایا گیا تھا لیکن جسے ہوا میں اڑا دیا گیا: "Modi for PM, Kejriwal for CM” کا نعرہ کس نے دیا تھا؟
اگر آپ اپنی یادداشت پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پر پراسرار طور پر ایک نعرہ شائع ہوا تھا جو کہتا تھا: "Delhi Speaks: Modi for PM, Arvind for CM”! جب اس پر ہنگامہ ہوا تو پارٹی نے اسے فوراً ہی ہٹا دیا تھا، لیکن فروری 2015 میں دہلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ نعرہ عام آدمی پارٹی کے غیر آفیشیل انتخابی اعلان کی طرح ہوگیا۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا گیا کہ مودی کا وزیر اعظم بننا اور دہلی میں کیجریوال کی فتح دونوں ایک دوسرے پر منحصر مظاہر ہیں اور ضروری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آج سے چند سال قبل اس طرح کی باتوں کو سازشی تھیوری سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جاتا تھا۔ کانگریسی لیڈر آنند شرما نے توکھل کر اس تھیوری کو میڈیا میں ڈال دیا تھا لیکن اس وقت سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ڈوبھال این ایس اے تھے ، نہ مودی وزیر اعظم تھے اور نہ ہی اروند کیجری وال دہلی کےوزیر اعلیٰ۔
آج یہ تینوں اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ اگر دہلی جلتی ہے تو مودی احمد آباد میں ہوتے ہیں ، ڈوبھال سڑک پر ہیں اور اروند کیجریوال اپنے گھر میں۔ کیا کچھ اور یاد کرنے کرانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز / رام چندر گوہا
بھارتیہ جنتا پارٹی میں دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اور دہلی کے فساد میں سرکار کی ناکامی سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پولس کمشنر کے پر کترے گئے۔ دوسرے شخص کو اسپیشل پولس کمشنر کے عہدے پر بٹھایا گیا، پھر دہلی کا پورا چارج قومی دفاع کے صلاح کار اجیت ڈوبھال کو دے دیا گیا۔ یہ دونوں کام وزیر اعظم نے ہی کیا ہوگا۔ اس میں وزیر داخلہ کا کتنا دخل ہے کہنا مشکل ہے۔ ممتاز صحافی آسو توش کا کہنا ہے کہ امیت شاہ سے کویا تو حاشیہ پر لاکھڑا کر دیا گیا یا دہلی کے نظم و نسق کو پٹری پر لانے کی ایسی کوشش کی گئی ہے۔
آج (29فروری) مشہورکے تاریخ داں رام چندر گوہا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا ہے۔ "The home minister must be replaced, but that is unlikely to happen.” (وزیر داخلہ کو بدلنا ضروری ہے مگر ایسا شاید ہی ہو- نظریاتی تعلق مانع ہوگا)۔
مسٹر رام چندر لکھتے ہیں کہ ”جیسے ہی نریندر مودی 2019ء کے انتخاب میں کامیاب ہوئے میں نے اپنے ایک کاروباری دوست سے جو اپنی تجارت کو ٹیکنیکل جدت کاری سے ترقی دی اور جو غیر متعصب ہے اور سیاست دانوں سے احتراز کرتا ہے، بات چیت کی جس کا میں معترف ہوں، حلف وفاداری سے پہلے میرے کاروباری دوست کو بڑی بے چینی تھی کہ کابینہ میں کن لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ دوسری بار کے الیکشن میں بھی کامیابی کا سہرا امیت شاہ کے سر باندھا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر کے بجائے حکومت میں کوئی بڑا عہدہ سنبھالیں گے، مگر کون سا عہدہ ان کو دیا جائے گا اس پر قیاس آرائی زوروں پر تھی۔ عام طور پر یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ انھیں وزیر خزانہ کا عہدہ سونپا جائے گا۔ اس سے میرے کاروباری دوست کو بیحد اضطراب اور بے چینی تھی کیونکہ امیت شاہ کے اندر جارحیت اور لا ابالی پن ہے۔ وہ کب کیا کریں گے کہنا اور سمجھنا مشکل ہے۔ ملک کی معاشی حالت بدتر ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ایسے وقت میں امیت شاہ جیسے شخص کو وزیر خزانہ بنانے کی بات سے میرے دوست اور دیگر کاروباری لوگ بیحد پریشان تھے۔
آخر کار امیت شاہ کو وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ اس سے کاروباری دنیا کے لوگوں کو راحت ملی۔ ناتجربہ کاری کے باوجود نرملا سیتا رمن کے بارے میں ان لوگوں نے سوچا کہ وہ کم خراب ثابت ہوں گی“۔
تاریخ داں رقمطراز ہیں کہ ”مجھے امیت شاہ کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پہلے سے ہی ہیں۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت ہے۔ الیکشن لڑانے کی بھی قابلیت ہے مگر الیکشن میں کامیابی اور ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کے حق کی ادائیگی اور ذمہ داری بالکل دوسری چیز ہے۔ ایک ایسا متعصب شخص جو اقلیت کا کھلا دشمن ہو اس پر لوگ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟میرے اندر یہ احساس تھا۔ امیت شاہ ایک اچھے یا خراب وزیر خزانہ ہوسکتے تھے، یہ ایک قیاس آرائی تھی مگر اس وقت وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا وزیر داخلہ ہونا تباہ کن ثابت ہوچکا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو ہٹانا اور شہریت کیلئے سیاہ قانون سازی سے ہندستان کی سوسائٹی کو دو حصوں میں بانٹ دینا تباہی کو دعوت دینا ہے۔
یہ کہنا کہ دفعہ 370 کے ہٹانے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی یہ ایک خواب و خیال کی بات تھی۔ جو لوگ بھاجپا کی تاریخ اور پالیسی سے واقف ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر جیسا مسلم اکثریتی علاقہ ان کی نظر میں کھٹکتا تھا جسے وہ کمزور و کمتر کرنا چاہتے ہیں۔ ’سی اے اے‘ کو انھوں نے ہندو/مسلم کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے بنایا ہے۔ باہر کے تین ملکوں سے مذہبی ایذا رسانیوں سے عاجز غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات ایک بہانہ ہے۔ اصل میں مسلمان ان کا نشانہ ہے کہ ان کو کیسے ستایا اور پریشان کیا جائے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے بار بار ’این آر سی‘ کے نفاذ کی باتیں ہوئیں اور بعد میں سی اے اے کے نفاذ کے متعلق تکرار سے باتیں دہرائی گئیں جن سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس شدت کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلمانوں نے کالے قانون کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔ خاص طور پر مسلم خواتین مردِمیدان بنیں اور ملک بھر میں یہ تحریک زوروں سے چل پڑی اور مقبول عام ہوگئی۔ اس تحریک میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی قابل لحاظ حدتک شریک ہونے لگے ہیں۔ یہ تحریک اتنے زوروں پر ہوگی اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اتنی زبردست ہوجائے گی مودی اور شاہ کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ میں مگن تھے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے بیرون ملک ہندستان اور سرکار کی زبردست بدنامی ہورہی ہے۔ سی اے اے سے بھی بیرونی ممالک ناخوش ہیں اور مذمت و مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ ملک بھر میں اس احتجاج کی مقبولیت ہورہی ہے اور دھرنا تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وزیر اعظم کی ضد ہے کہ وہ ایک انچ بھی ’سی اے اے‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر وہ فرماتے رہتے ہیں کہ ان کا ’این آر سی‘ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے برعکس ان کے وزیر داخلہ کا رخ کچھ اور ہے۔ وہ سی اے اے پر بضد ہیں اور این آر سی سے بھی سی اے اے کا تعلق ہے اس پر اپنی رایوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
دسمبر 2019ء کے آخری ہفتہ میں یہ بالکل عیاں ہوگیا تھا کہ CAA (شہریت ترمیمی قانون) hot potato (شکل اور پیچیدہ) ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہوتا گیا“۔
مسٹر رام چندر گوہا آگے لکھتے ہیں کہ ”میں نے ایک دانشور سے جو سرکاری افسر رہ چکا ہے جو ہندستان کی تاریخ جدید پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ایک لمبی گفتگو کی جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی شخصیت اور دونوں کے تعلق پر ایک اچھا خاکہ پیش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے تعلقات کچھ ایسے ہیں جیسے ماضی میں جواہر لعل نہرو اور کرشنا مینن کے تھے۔ دونوں میں ایک نظریاتی تعلق تھا اور ذاتی لگاؤ بھی تھا۔ دونوں سماج وادی جمہوریت پسند (Democratic Socialist) تھے۔ دونوں فطری طور پر امریکہ کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کرشنا مینن نہرو کی نازک حالات میں ایک ادبی ایجنٹ کی حیثیت سے کتاب وغیرہ فراہم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ 1930ء میں ان کی کتابوں کی اشاعت کیلئے یورپ کا دورہ بھی کیا تھا۔
آزادی کے بعد کرشنا مینن نے امریکہ میں سفیر ہند کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد بیرون ملک خاص طورسے اقوام متحدہ میں ہندستان کے مفادات کی نمائندگی کی۔ بعد میں جواہر لعل نہرو نے انھیں اپنی کابینہ کے اہم عہدہ پر فائز کیا۔ 1959ء میں فوج کے سربراہ کے ایس تھیمیا سے کھلے عام لڑ پڑے۔ اسی سال چین نے ہماری سرحدوں پر حملے کردیئے۔ اس وقت یہ بالکل عیاں تھا کہ کرشنا مینن کی دوسری چیزوں کے علاوہ ان کی تلون مزاجی اور جارحیت مغرب سے ہتھیاروں کی سپلائی مشکل میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے جواہر لعل نہرو کیلئے کرشنا مینن قرضہ جات (Liabality) بن گئے تھے۔ انھیں 1959ء میں ہٹا دینا چاہئے تھا مگر نہرو ان کی ہر غلطی اور خامی کو نظر انداز کرتے رہے۔ 1962ء تک کام سے لگائے رہے لیکن چین کے ہاتھوں ہندستان کی شرمناک شکست کی وجہ سے کرشنا مینن کو از خود گدی چھوڑنی پڑی۔
ہمارے اور سول سرونٹ دانشور کے مکالمہ کے دوران اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا امیت شاہ نریندر مودی کیلئے اس وقت وہی ثابت نہیں ہورہے ہیں،جو جواہر لعل نہرو کے آخری دور میں کرشنا مینن ان کیلئے ثابت ہوئے تھے۔ میں نے کہاکہ ان دونوں کے تعلقات ان دونوں کے مقابلے میں گہرے ہیں لیکن کچھ دنوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ایسا لگا کہ وزیر اعظم اپنے وزیر داخلہ کو بدل دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ نہرو اور مینن کی طرح دونوں ذاتی طور پر گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ایک ہی نظریہ اور مسلک سے منسلک ہیں۔
مکالمہ کے دو مہینے بعد امیت شاہ نے زبردست طریقے سے دہلی الیکشن میں پولرائزیشن کیا۔ پولس کی رپورٹ کے مطابق جب بی جے پی کے سیاستدانوں نے نفرت انگیز اور زہر آلود تقریریں کیں تو وہ خاموش رہے جس کی وجہ سے دہلی جلنا شروع ہوگئی، جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان کے دورے پر تھے۔
امیت شاہ کو وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ایک سال سے کم ہواہے لیکن اس مدت میں ہمارے سماج کا تانا بانا، ان کی گفتار و کردار کی وجہ سے انتہائی بگڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ آواز مسلسل اٹھ رہی ہے کہ ایک نئے وزیر داخلہ کا تقرر کیا جائے۔ وزیر اعظم کو یہ گونج ضرور سنائی دے رہی ہوگی۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس پر لوگوں کو شک و شبہ ہے کہ اس وقت جو انصاف اور قومی مفاد کا تقاضہ ہے کیا وہ پورا کرسکیں گے؟“
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی فساد کی بابت ایک دوست نے پوچھا : اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب دیا : وہی جو ہم کرتے ہیں تو وہ تعجب سے بولے: لیکن ہم لوگ تو بڑے سکون سےاقامت دین کا کام کررہے تھے کہ درمیان میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ اب ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ان سے دریافت کیا کہ ہم لوگ اقامت دین کا کام کیوں کرتے ہیں ؟ وہ بولے : تاکہ دنیا کا نظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلے اور ہر سو عدل و انصاف قائم ہوجائے ۔ سوال کیا : اگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے تو کیا فرقہ وارانہ فساد ہوں گے؟ یا ان کو جاری و ساری رہنے کی چھوٹ ملے گی؟ تووہ بولے : یہ کیسے ممکن ہے؟ پھرپوچھا : تو کیا آپ فساد کی آگ بجھاتے رہنا چاہتے ہیں ، لیکن اس کو لگنے سے روکنا نہیں چاہتے؟ انہوں نے کہا : جی ، اسی لیے ہم اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں اور یہی ہمارے لیے رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے ، مگر کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان نامساعد حالات میں بھی ہم انہیں روایتی سرگرمیوں میں مصروف رہیں؟ جب پوچھا کہ یہ کس نے کہا تو وہ خاموش ہوگئے۔
زندہ تحریکات اپنے حالات سے بے نیاز نہیں ہوتیں ۔اس دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے تقاضے ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے ۔ وقت کے ساتھ مختلف سرگرمیوں کی اہمیت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔ فسادات کے دوران اس کو رکوانے کے لیے انتظامیہ پر سیاسی اور سماجی دباو ڈالنا۔ فساد کا شکار ہونے والوں کی باز آباد کاری کا اہتمام کرنا۔ پست ہمت ہونے والے لوگوں کا حوصلہ بلند کرنا ۔ زخمیوں کا علاج کروانا، یتیم اور بیوہ ہونے والوں سہارہ بن جانا اور فساد برپا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلانے کی جدوجہد کرنا وہ اضافی کام ہیں جو ان حالات کا تقاضہ ہوتے ہیں ۔معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ یا انہیں قربان کرکے اس عارضی ذمہ داری کو اداکرنا لازمی ہوتا ہے لیکن یہ ساری سرگرمیاں بھی اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں جس کے لیے تحریک اسلامی برپا ہوئی ہے۔ یہ کوئی الگ سے کیا جانے والا کام نہیں ہے اور ان کی اہمیت یا اجروثواب کسی صورت کم نہیں ہے۔
فساد کے زمانے میں جب کے مکان و روجان کے جلنے اور لوگوں کے مرنے کی خبریں اور ویڈیوز کی سوشیل میڈیا میں بھرمار ہو جاتی ہے توعوام کے اندر ہیجان و اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ایسےمیں انسان کے اندر ٹھہراؤ نہیں رہتا ، عقل ماند پڑ جاتی ہے اور راہِ حق پر گامزن رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں فرمانِ ِ ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبرو نماز سے مدد لو، ‘‘۔آزمائش کے دوران مستقل مزاجی کے ساتھ مقصد حیات پر ڈٹے رہنا امشکل ہوتا ہے ۔ایسے میں صبر کے ساتھ نماز کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ بندۂ مومن جس طرح خوشی و غمی ہر حال میں نماز پڑھتا ہے، اسی طرح تنگی و آسانی کے مراحل میں اپنے مقصد حقیقی پر قائم رتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کی جدوجہد میں منہمک رہے۔ مشکل ترین حالات میں چونکہ ہم اگر نماز نہیں چھوڑ سکتے تو دین حق سے کیسے دست بردار ہوسکتے ہیں ؟صبر و نماز میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان کواپنے رب سے قریب ترکرکے اللہ کی مددو نصرت کا حقدار بناتے ہیں ۔ اس لیے آگے یہ بشارت دی گئی ہے کہ ’’ اللہ صبر کرنے الوں کے ساتھ ہے‘‘۔
انسان جب یہ بھول جاتاہے کہ قضاء و قدر کے فیصلے آزمائشوں کے توسط سے نافذ ہوتے ہیں تو تذبذب کا شکار ہونےلگتا ہے حالانکہ ارشادِ قرآنی ہے’’ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ محض یہ کہنے سے ، چھوڑ ئیے جائيں گے کہ ہم ایمان لے آئے ؟ اور ا ن کی آزمائش نہیں کی جائيگی ـ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ہم نے اُنہیں آزمایا تھا ( اور انہیں بھی آزمائيں گے ) سو اللہ ضرور معلوم کر لے گا جو ( اپنے ایمان میں ) سچے ہیں اور انہیں بھی ( جان لے گا ) جو کہ جھوٹے ہیں ـ (العنکبوت : 1 3). یہی بات ایک اور جگہ اس طرح فرمائی گئی ’’(اے اہل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائیگی‘‘۔ جہانِ فانی میں سنت الہی کی اس معرفت کے بعد مشکل ترین حالات میں صبر و استقلال کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنا سہل ہوجاتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)