نئی دہلی: دہلی کے جامعہ کے علاقے میں فائرنگ کے دو دن بعد شاہین باغ میں پولیس بیریکیڈ کے قریب فائرنگ ہوئی ہے۔ ملزم نے جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے فائرنگ کی۔ پولیس بیریکیڈ کے قریب فائرنگ کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔قابل ذکرہے کہ شاہین باغ میں تقریبا ڈیڑھ ماہ سے شہریت کے نئے قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ ملزم کا نام کپل گجر بتایا جارہا ہے اور وہ مشرقی دہلی کے دلوپورہ گاؤں کا رہائشی ہے۔ شاہین باغ پولیس اسٹیشن لے جاکر کپل گجر سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ دہلی پولیس کے ڈی سی پی چنمے بسوال نے بتایا کہ یہ شخص ہوا ئی فائرنگ کر رہا تھا ، جسے فوراگرفتار کرلیا گیاہے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ پولیس کے قریب کھڑے شخص نے دو یا تین بار فائرنگ کی۔ اس نے بتایا’ ‘ہم نے اچانک گولی کی آواز سنی، اس وقت ، وہ ‘جئے شری رام کے نعرے بھی لگارہاتھا۔ اس کے پاس سیمی آٹومیٹک بندوق تھی اور اس نے دو راؤنڈ فائر کیے۔ پولیس اس کے پیچھے کھڑی تھی‘۔ اس نے مزید بتایا کہ جب اس کی بندوق جام ہوگئی تو وہ بھاگنے لگا۔ اس نے دوبارہ فائرنگ کی کوشش کی اور بندوق جھاڑیوں میں پھینک دی۔ اس کے بعد ہم نے اسے کچھ پولیس اہلکاروں کی مدد سے پکڑ لیا۔ جب اسے پولیس پکڑکرلے جارہی تھی تووہ سرعام یہ کہہ رہاتھاکہ ہمارے دیس میں صرف ہندووں کی چلے گی، اورکسی کی نہیں چلے گی ـ واضح رہے کہ اس سے قبل جمعرات کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر ایک شخص نے گولی چلائی تھی ، جس سے سے شاداب نامی طالب علم زخمی ہوگیاتھا۔
Jnu
موجودہ سرکار اور حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارندے ساورکر اور گوڈسے کے پجاری اور عقیدت مند ہیں؛ لیکن عوام سے داد لینے کیلئے یہی لوگ ڈاکٹر امبیڈکر اورمہاتما گاندھی سے بھی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں؛ حالانکہ گاندھی اگر مقتول ہیں تو گوڈسے اور ساورکر ان کے قاتل ہیں۔ امبیڈکر ذات پات کے خلاف ہیں او ر انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور دستور ساز ہیں۔ ساورکر یا ان کے ماننے والے امبیڈکر کے اصولوں اور ان کے تیار کردہ دستور ہند کے مخالف ہیں،ذات پات کے حامی اور پرچارک ہیں۔ مودی-شاہ یا ان کے پیروکار گاندھی اور امبیڈکر کا نام محض اس لئے لیتے ہیں کہ عوام کو جھانسے میں ڈال سکیں، گمراہ کرسکیں لیکن اب ان کے چہرے سے نقاب اٹھ رہا ہے،خواہ کتنا ہی نقاب پوشی اور پردہ پوشی کامظاہرہ کریں۔ گزشتہ جمعہ کوصدر جمہوریہ رام ناتھ کویند نے حکومت کی تحریر کردہ تقریر کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پڑھ کر شرکا کو سنایا، جس میں لکھا ہوا تھاکہ ”آج کے ماحول میں گاندھی جی کے خوابوں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کی مودی حکومت کوشش کر رہی ہے، انھوں نے کہاکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے تقسیم ہندکے سنگین ماحول میں کہا تھا کہ ہندو اور سکھ جو پاکستان میں نہیں رہ سکتے،اگر وہ ہندستان آنے کی خواہش ظاہر کریں،تو حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ان کے بسانے اور ان کی راحت رسانی کا انتظام کرے“۔ اس پر حکمراں جماعت کے ایم پی بشمول شاہ اور مودی میزوں کو تھپتھپانے لگے،جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ صدر جمہوریہ نے جو کچھ پڑھا وہ در اصل گاندھی جی کی تقریر کا پورا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس حصے سے گاندھی جی کی تقریر یا باتوں کا مقصد یا مدعا پورا ہوتا ہے۔
10جولائی 1947ء کو گاندھی جی نے اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”اگر سندھ یا دوسرے علاقوں سے چھوڑ کر لوگ ہندستان آئیں، تو ان کو ہم باہر نہیں کرسکتے، اگر ہم ایسا کریں گے، تو ہم اپنے آپ کو کیسے ہندستانی کہہ سکتے ہیں اور ہم کس منہ سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ نیتا جی نے کس لئے لڑائی لڑی تھی۔ ہم سب ہندستانی ہیں، خواہ دہلی میں رہتے ہوں یا گجرات میں، وہ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان لوگوں کا خیر مقدم کریں گے کہ ہندستان ان کا ملک ہے جیسے پاکستان، اگر نیشنلسٹ مسلمان پاکستان چھوڑ کر ہندستان آئیں گے،تو ہم ان کا بھی سواگت کریں گے، ہم سب ہندستان میں برابر کے شہری ہیں“۔ گاندھی جی نے 25جولائی 1947ء کو اپنی ایک پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”یہاں مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستان اب ہندوؤں کا ملک ہے تو غلط ہے، ہندستان ان تمام لوگوں کا ہے، جو ہندستان میں رہتے ہیں“۔ مہاتما گاندھی نے 9ستمبر 1947ء کو کمیونسٹ لیڈر پی سی جوشی سے کہا تھا کہ ”یہ ہمارے لئے باعث ندامت ہے کہ ہندستان میں مسلمان افسردہ خاطر ہیں“۔ 25اگست 1947ء کو ایک دوسری پرارتھنا سبھا میں کہا تھا کہ ”تمام اقلیتیں ہندستان میں اسی درجے کی شہری ہیں، جس درجے کے شہری اکثریت کے لوگ ہیں“۔گاندھی جی نے 26ستمبر 1947ء کو ایک پریئر میٹنگ میں کہا تھا کہ ”اگر ہم تمام مسلمانوں کو وطن دشمن سمجھیں گے،تو پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کو وطن دشمن سمجھا جائے گا، ہم لوگوں کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے، ہندو اور سکھ اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو ہندستان آسکتے ہیں۔ ان کیلئے ہماری حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ ان کو ہم روزگار سے لگائیں اور ان کی راحت رسانی میں مدد کریں، لیکن اگر وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور ہمارے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کیلئے نہیں کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے اور میں اسے ہر گز پسند نہیں کروں گا“۔
گاندھی جی کی تقریروں اور کارگزاریوں پر مشتمل جو مجموعہ ہے، اس میں مذکورہ باتیں درج ہیں۔ حکومت نے گمراہ کرنے کیلئے گاندھی جی کی نامکمل باتیں پیش کی ہیں۔ اگر گاندھی جی کی مکمل باتیں پیش کرتے، تو اس سے ان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا،جس سے وہ ہندستانیوں کو گمراہ کرسکتے تھے، لیکن ان کی بیوقوفی اور نادانی کی حد ہے کہ ایک چیز جو اظہر من الشمس ہے،آخر اسے وہ کیسے چھپا سکتے ہیں؟ گاندھی جی کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ گاندھی جی کا قصہ تمام اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ مودی،شاہ اور موہن بھاگوت کے خوابوں کے ہندستان کے خلاف تھے۔ گاندھی جی ہندستان میں ہندو مسلمانوں کا اتحاد چاہتے تھے، ان کے پرکھوں نے گاندھی جی کو نہ صرف مسلمانوں کا حامی قرار دیا؛ بلکہ ان کو محمد گاندھی کہہ کر پکارتے تھے، گاندھی جی کو پاکستان کا حامی قرار دیتے تھے، آج تک ان کی کتابوں میں درج ہے کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار گاندھی ہیں، آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جہاں مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے،وہیں گاندھی دشمنی کا پاٹھ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس وقت حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے نوے فیصد لوگ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں، گاندھی دشمنی ان کی رگ رگ میں پیوستہ ہے۔
اس وقت جو سارے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں،جن سے حب الوطنی کا اعلان اور اظہار ہورہا ہے، ہندو اور مسلمانوں کے اتحاد کا بھی مظاہرہ ہورہا ہے، اس سے ان کی دیش بھکتی یا وطن پرستی کی اجارہ داری نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ختم ہورہی ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرے یا لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے یا ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ان کی دشمنی اس لئے بڑھتی جارہی ہے کہ جو ان کی وطن پرستی کا ناٹک تھا اس کا پردہ چاک ہوتا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا شاہین باغ سے ان کی دشمنی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہندو مسلم انتشار میں رکاوٹ ہورہی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دہلی میں الیکشن کا موسم ہے۔ حسب عادت اور حسب معمول بی جے پی ہر الیکشن کو پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ یا جامعہ ملیہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے؛اس لئے بھی حکومت پریشان ہے، مودی، شاہ اور ان کے لوگ شاہین باغ کو منی پاکستان کہہ رہے ہیں۔ طرح طرح کے الزامات تراش رہے ہیں۔ کبھی سدھیر اور چورسیا (گودی میڈیا کے لوگ) کو بھیج کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں اور کبھی نوجوانوں کے ہاتھ میں پستول دے کر بھیج رہے ہیں؛ تاکہ مظاہرین کے حوصلے پست ہوں، مگر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی سے لے کر کپل مشرا تک دنگے اور فساد پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ سال 15دسمبر کو نریندر مودی نے کہا تھا کہ مظاہرین کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے اور ان کے دست راست امیت شاہ نے دہلی میں کہاکہ 8 فروری کو اس طرح ووٹ مشین کا بٹن دبایا جائے کہ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کو کرنٹ لگے۔ 27جنوری کو انوراگ ٹھاکر نے نعرے بازی کی تھی کہ ”دیش غداروں کو“ تو بھیڑ کا جواب تھا”گولی مارو سالوں کو“۔ 28جنوری کو پرویش سنگھ ورما نے شاہین باغ کے بارے میں کہاکہ ”یہ لوگ لاکھوں کی شکل میں جمع ہوں گے اور ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہنوں، عورتوں کا بلاتکار کریں گے“۔ یہ سب بیانات یا نعرے بازیاں کیا باپو نے سکھائی ہیں؟ یہ سب باتیں تو صاف صاف ساورکر اور گوڈسے کے زبان اور بیان سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لئے صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ ’سی اے اے‘ سے گاندھی جی کی عزت افزائی ہورہی ہے یا ان کے خوابوں کی تعبیر کی جارہی ہے، گاندھی جی کے ساتھ کھلا ہوا مذاق ہے اور اسی طرح کا سفید جھوٹ ہے، جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ’این آر سی‘ کا کبھی ذکر ہی نہیں ہوا تھا۔ پورے ہندستان میں کہیں حراست کیمپ بھی نہیں ہے۔ صدر جمہوریہ کو بھی حکومت نے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا۔ ان کے جھوٹ کی قلعی اسی وقت کھل گئی، جب اپوزیشن کے لیڈروں نے اعتراض جتایا کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے اور ملک کے آدھے سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں، ایک ایک جگہ کئی مہینے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کہا جارہا ہے کہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے، جبکہ دنیا بھر میں اس کالے قانون کی وجہ سے ملک کی رسوائی ہورہی ہے۔ مودی سرکار یا ان کی پارٹی جتنا بھی چاہے کہ گاندھی اور امبیڈکر سے اپنے آپ کو جوڑے؛ لیکن مشرق اور مغرب کو جوڑنا، کالے اور سفید کو ایک کہنا، حق اورباطل کو ایک بتانا ہنسی، کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ زندہ گوڈسے جو اب گوپال کے روپ میں نظر آیا اس کے فیس بک وال میں لکھا ہوا ہے کہ شاہین باغ کا کھیل ختم۔ شاہین باغ کا کھیل تو ختم نہیں ہوا لیکن اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ ایک دن آئے گا مودی سرکار کی گاندھی بھکتی کا دن بھی ختم ہوجائے گا۔ ایک روز ایسا بھی آئے گا کہ کرنٹ شاہین باغ کی باعزت اور قابل احترام خواتین کو تو نہیں لگے گا لیکن شاہ اوران کے صاحب پر بجلی گرسکتی ہے،کرنٹ لگ سکتا ہے؛کیونکہ جو لوگ انسانیت اور انصاف کے دشمن ہوتے ہیں،وہ زیادہ دنوں تک لوگوں کو نہ گمراہ کرسکتے ہیں اور نہ دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مرکزی وزیر نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ مودی حکومت مظاہرین سے بات چیت کے لیے تیارہے
نئی دہلی: مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے آج مظاہرین کے ساتھ سی اے اے کے ایشوپر بات چیت کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ طے شدہ فریم ورک کے مطابق شاہین باغ کے مظاہرین سے بات کریں گے۔ اس دوران CAA پران کے شکوک و شبہات کو بھی دور کیا جائے گا۔واضح رہے کہ شاہین باغ میں گزشتہ 15 دسمبر سے ہی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج جاری ہے۔اس سے قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں انتخابی جلسے کے دوران شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج پر ایک اشتعال انگیزبیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بابرپور میں ای وی ایم کے بٹن کو اتنے غصے سے دباؤکہ اس کا کرنٹ شاہین باغ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے کہا تھاکہ اگر اقتدار میں آئے تو ہم سرکاری اراضی پر تعمیر مساجد کو مسمار کردیں گے اور ایک گھنٹے میں شاہین باغ کو بھی صاف کردیا جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ دہلی میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہونے والے مظاہرے دہلی میں 20 مقامات تکپہنچ چکے ہیں۔ گیٹ 7 جامعہ یونیورسٹی ، شاہین باغ روڈ نمبر 13جنوب مشرقی ضلعے میں لالہ لاجپت رائے مارگ نظام الدین ، جنوبی ضلع کے ڈانڈی پارک ،حوض رانی، مالویہ نگر ، وسطی ضلع میں ترکمان گیٹ ، نارتھ ضلع میں اندرلوک میٹرو اسٹیشن کے قریب ، ڈیری والا پارک آزاد مارکیٹ جنگل والی مسجد ، شاہی عیدگاہ کے مشرقی دروازہ پراحتجاجات مسلسل چل رہے ہیں۔
سی ا ے اے کیخلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد
نئی دہلی: اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعےۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲/جنوری ۰۲۰۲ء کو جمعےۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی۔جمعےۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعےۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد، بجنور میں محمد سلیمان، محمد انس (نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعےۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery))نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعےۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں ریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ دہلی الیکشن قریب ہے اور چناوی پرچار کا بازار گرم ہے۔ یہ بھی سبھی کو علم ہے کہ ایک بار پھر کیجریوال کی جیت تقریباً طے ہے چونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں انھوں نے جو کام کیے ہیں، اس بنیاد پر وہ الیکشن میں اترے ہیں جس کی تائید دہلی کی عوام کررہی ہے۔ بی جے پی کے پاس چو نکہ اپنی رپورٹ کارڈ دکھانے جیسا کچھ نہیں ہے، بلکہ اس وقت پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر اترا ہوا ہے، اس لیے امیت شاہ اور بی جے پی نے اپنا پرانا آزمودہ کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا یعنی انھوں نےوہی ہندو مسلمان، پاکستان، دیش بھکتی وغیرہ کا راگ الاپنا شروع کردیا جو بھکتوں پر تو اب بھی اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن عام جنتا اس سے بیزار ہوچکی ہے۔ لہٰذا جب یہ پتّہ بھی کام نہ آیا تو امیت شاہ نے اپنے پرچار کی سمت”شاہین باغ” کی طرح مقرر کردی تاکہ بھکتوں کو تھوڑا تازہ دم کیا جا سکے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب ہوتے گئے، امیت شاہ اور ان کے نیتاؤں کا شاہین باغ پر حملہ بڑھتا چلا گیا چونکہ اس وقت پورے ہندوستان میں جاری احتجاج کا یہ مرکزی استعارہ بن چکا ہے۔ پہلے تو امیت شاہ کے آئی ٹی سیل نے شاہین باغ میں بیٹھی عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہا، پھر ان کے ایک نیتا نے کہا کہ پاکستان جانے کا راستہ شاہین باغ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، پھر بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے کہا کہ یہ الیکشن بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کی طرح ہے، پھر خود امیت شاہ نے ووٹروں سے کہا کہ ایک طرف بھارت ماتا ہے تو دوسری طرف شاہین باغ ہے۔ گویا شاہین باغ یا دہلی بھارت کا حصہ نہیں اور جو سرکارکی مخالفت کرے وہ پاکستانی ہے۔ امیت شاہ کی زبان میں اتنی تیزی آگئی کہ انھوں نے اپنے عہدے کی عظمت کو ایک طرف لات مار کر ووٹروں سے یہ اپیل تک کردی کہ اس چناؤ میں ‘کمل ‘ (بی جے پی کا چناوی نشان) کے بٹن کو اتنے زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ یہاں سے جامعہ کی فائرنگ کی کرونولوجی کو سمجھیے۔
27 جنوری کو بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے سر عام اپنے ووٹروں سے نعرہ لگوایا، "دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو”۔ اس وقت اس اسٹیج پر کئی بی جے پی کے وزیر موجود تھے جن میں مرکزی وزیر گری راج کشور بھی شامل تھے۔ سب خاموش رہے۔ پریس میں ہنگامہ مچا لیکن امیت شاہ، نریندر مودی اور پوری بی جے پی خاموش رہی۔ الیکشن کمیشن نے شکایت پر نوٹس لیا اور انوراگ ٹھاکر پر 96 گھنٹے کے لیے ان کے چناوی پرچار پر روک لگا دی۔ (اس کے بعد وہ اس طرح کے نعرے لگانے کے لیے آزاد ہوں گے۔) لیکن نہ تو دہلی پولیس نے انوراگ ٹھاکر کے خلاف کوئی کاروائی کی جب کہ Hate Speech پر آئی پی سی میں دفعات موجود ہیں اور نہ بی جے پی نے اپنے مرکزی وزیر کے خلاف کچھ بولا۔ ظاہر ہے خاموشی نیم حمایت ہی ہوتی ہے اور کبھی کبھی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بنتی ہے۔
لہٰذا اس حوصلہ افزائی نے اپنا کام کردکھایا۔ صرف دو روز پہلے ایک شخص پستول لے کر شاہین باغ میں گھس جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرپاتا، مقامی لوگوں نے اسے دھر دبوچا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس واقعہ کے دو روز بعد جامعہ ملیہ پر جاری ایک پروٹیسٹ پر رام بھکت گوپال نامی شخص پستول سے حملہ آور ہوجاتا ہے، پولیس کھڑی دیکھتی رہتی ہے جب تک وہ اپنا ‘کام ‘ ختم نہیں کرلیتا۔ ویڈیو بہت صاف ہے وہ احتجاجیوں پر گولی داغ کر ہندوستان زندہ باد اور دہلی پولیس زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہوا دھیرے دھیرے پیچھے کھسکتا ہے ، اور اس کی سمت پولیس ہی کی طرف ہے جہاں وہ چپ چاپ کھڑی ہے۔ جب گوپال اور پولیس کے درمیان فاصلہ کم ہوجاتا ہے تو ایک افسر دو چار قدم بڑھ کر اس کی گردن میں اپنی بانہیں اس طرح حمائل کردیتا ہے جس طرح عموماً ایک عاشق اپنی معشوقہ کو بغلگیر کرتا ہے۔ میں نے ایسی دلبرانہ گرفتاری اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ خیر پھر اس دہشت گرد کو پولیس کی وین میں بٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔ جو طالب علم زخمی ہوا تھا، اسے اسپتال لے جانے کے لیے پولیس بیری کیڈ تک نہیں کھولتی، حتیٰ کہ اسے اپنے زخمی بازؤں کے ساتھ دوسر ے طلبا کی مدد سے بیری کیڈ پر چڑھ کر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔ اس حملے کے لیے جو تاریخ چنی گئی، کیا وہ محض اتفاق ہے یا وہ ناتھو رام گوڈسے کی تقلید میں کیا گیا۔ 30 جنوری کو ہی اس نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی اور اسی تاریخ کو جامعہ میں گوڈسے کے ایک بھکت نے گولی چلا کر گوڈسے کو شردھانجلی دی۔ گاندھی نے گولی کھا کر زمین پر گرتے ہوئے ‘ہے رام’ کہا تھا جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا پر ‘جے شرمی رام’ کا نعرہ لگا کر رام بھکت گوپال نے گولی چلانے کا پنیہ کام کیا۔
یہ منظر نامہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جے این یو اور خود جامعہ ملیہ میں یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ امیت شاہ ٹوئٹ پر وہی رٹا رٹایا فقرہ دہراتے ہیں کہ انھوں نے دہلی پولیس کو حکم دے دیا ہے کہ اس متشددانہ کاروائی سے سختی سے نمٹا جائے اور مجرم کو بخشا نہ جائے۔شاید ان کی مراد یہ ہو کہ بالکل اسی طرح جس طرح جے این یو کے نقاب پوشوں کو آج تک بخشا نہیں گیا یا پھر اس سانحہ کے ‘پریرک’ انوراگ ٹھاکر کو بخشا نہیں گیا۔ واضح رہے کہ امیت شاہ اس دہلی پولیس کو حکم دے رہے ہیں جو اس وقت کچھ ہی فاصلے پر کھڑی ہاتھ باندھے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس پر ہنسا جائے یا تھوکا جائے، میں فیصلہ نہیں کرپا رہا ہوں؟ اس لیے اب پولیس کاروائی کے نام پر جو کرے گی، وہ بھی عیاں ہے، چلیے اس کی بھی کرونولوجی سمجھ لیتے ہیں:
(1) رام بھکت گوپال کو ذہنی مریض ڈکلیئر کردیا جائے گا۔
(2) بی جے پی پلہ جھاڑ لے گی کہ اس حادثے کا تعلق انوراگ ٹھاکر سے نہیں ہے۔
(3) پولیس کہے گی کہ اس پر جو الزام لگایا جارہا ہے وہ غلط ہے، حادثے کے وقت ہم کافی دور تھے۔
(4) پولیس گوپال کے ساتھ جامعہ کے زخمی طالب علم کے خلاف بھی مقدمہ ٹھوک دے گی کہ وہ گولی کے راستے میں آگیا تھا۔
(5) گودی میڈیا جامعہ ملیہ کے طلبا کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ میں شامل کرلے گی اوراس پر حملہ بول دے گی۔
(6) کچھ دنوں بعد یہ کیس بھی جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ کی طرح ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا اور ایک نئی جگہ نئی کاروائی ہوگی۔
مجھے شک ہے کہ جامعہ میں ہونے والا یہ سانحہ دو روز پہلے شاہین باغ میں ہونے والا تھا جو ان کی بدقسمتی سے فلاپ ہوگیا ، لہٰذا اسی کے قریب جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اس ادھورے کام کو انجام دیا گیا۔ خیر، دہلی کا الیکشن جیسے جیسے قریب تر ہوتا جائے گا، اس طرح کے حملوں میں تیزی آتی جائے گی۔ بہرحال انھیں دہلی کا الیکشن جیتنا ہے چونکہ بات صرف دہلی کی نہیں بلکہ ان کی مونچھ کا مسئلہ ہے۔ یہ جھاڑکھنڈ جیسی شکست نہیں ہوگی بلکہ دہلی میں ہارنے کا مطلب ہے پورے ملک میں شاہین باغوں سے ہارنا ہے جس سے ان کے بھکتوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ لہٰذا اس وقت بی جے پی اور امیت شاہ کیجریوال سے نہیں، شاہین باغوں کی عورتوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس لیے میری شاہین باغ کی عورتوں اور بطور خاص ان کے والنٹیئرز سے گزارش ہے کہ وہ شاہین باغ میں ان عورتوں کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ سخت کردیں، کچھ ایسا بندوبست کیجیے کہ اس میں باہر سے شامل ہونے والے ہر شخص پر آپ چوبیس گھنٹے نظر رکھ سکیں، خواہ وہ کوئی عورت ہو یا داڑھی ٹوپی والا کوئی بندہ ہی کیوں نہ ہو۔ ممکن ہو تو کچھ CCTV لگا کر اس کے مانیٹر پر کچھ لوگوں کو معمور کردیں۔ اسی طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو بھی مزید محتاط اور چوکنے رہنے کی ضرورت ہے۔
خیر، اب آئیے اس پرانے منظر نامے پر ایک نئے رنگ کے کچھ چھینٹے دیکھتے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس منظر نامے میں گیڈر جامعہ ملیہ کی طرف بھاگا اور اس نے خود کشی کرلی۔ کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔
اس سانحے کے بعد میں نے فوراً رام بھکت گوپال کے فیس بک پروفائل کو چیک کیا۔ظاہر ہے وہاں اس کے کارنامے پر بھکتوں کا مجمع لگا ہوا تھا، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ جو بات مجھے غیر متوقع لگی، وہ یہ تھی کہ بی جے پی اور CAA کے سپورٹربھی ایک اچھی خاصی تعداد میں اسے لعنت ملامت کررہے تھے۔ وہ صاف اور واضح انداز میں اس کی پروفائل میں کہہ رہے تھے کہ وہ بے شک شاہین باغ کے خلاف ہیں، سی اے اے کے سپورٹر بھی ہیں لیکن تم نے ہم سب کا سر جھکا دیا اور ہمارے کام کو بگاڑ دیا۔ ٹوئٹر میں بھی مجھے یہی نظارہ نظر آرہا تھا۔ گوبر بھکتوں کو چھوڑیے، وہ کبھی نہیں سدھریں گے لیکن جامعہ فائرنگ نے کئی بھکتوں اور ساتھ ہی بے جے پی ووٹروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا بھی ہے، ارنب گوسوامی کے ‘ریپبلک ‘ کو کنال کامرا پر چھوڑیے، اب تو ارنب گوسوامی جہاز پر چڑھنے سے پہلے مسافروں کی لسٹ بھی چیک کرے گا کہ اس میں کنال کامرا تو شامل نہیں ہے۔ ‘انڈیا ٹوڈے’ چینل کے راہل کنول نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں امیت شاہ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وہ تصویر لگائی جو اس پوسٹ میں شامل ہے۔ یہی وہی راہل کنول ہیں جنھوں نے اپنے چینل میں جے این یو پر نقاب پوشوں کے حملے کی نقاب کشائی کی تھی اور بھکتوں سے پیٹ بھر کے گالیاں سنی تھی۔ میں زیادہ خوش فہمی میں نہیں ہوں، لیکن اتنا تو ہے کہ جامعہ فائرنگ بی جے پی کو دہلی جیتنے کا موقع تو کیا اس کا راستہ مزید مسدود کردے گی چونکہ اس کا وار الٹا پڑ گیا۔ امیت شاہ اور بی جے پی آج اسی گڑھے میں نظر آ رہے ہیں جو انھوں نے شاہین باغ کی عورتوں، احتجاجیوں اور کیجریوال کے خلاف کھولا تھا۔ اب تو بس ان کے پاس اس ذلت آمیز شکست سے بچنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ وہ کسی طرح اس الیکشن کو ملتوی کرادیں تاکہ بچی کھچی عزت محفوظ رہ جائے اور ممکن ہے کہ وہ عنقریب یہ ‘جگاڑ’ لگا بھی دیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کو 5 دن کی پولیس ریمانڈ میں بھیج دیاگیاہے اورپوچھ تاچھ شروع کردی گی ہے۔اس سے پہلے دہلی پولیس کی کرائم برانچ شرجیل امام کو لے کر ساکیت کورٹ پہنچی اور جج کے سامنے پیش کیا گیا۔لیکن انتہائی اشتعال انگیزنعرہ لگانے والے انوراگ ٹھاکراب تک آزادہیں اوران پرکوئی مضبوط کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر راجیش دیو کے مطابق شرجیل امام کی 5 دن کی ریمانڈ طلب کی گئی تھی۔بہارکے جہان آباد سے گرفتارشرجیل امام کو بدھ کو پٹنہ سے دہلی لایاگیا۔ گرفتاری کے بعدجہان آباد کورٹ سے منگل کو دہلی پولیس نے شرجیل کو ٹرانزٹ ریمانڈ پرلیاتھا۔ڈپٹی کمشنر راجیش دیونے کہاہے کہ شرجیل سے پوچھ گچھ کے لیے باقی ریاستوں کی پولیس ٹیمیں بھی دہلی آ سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شرجیل امام کو ریمانڈ پر لینے کی ضرورت اس لیے بھی ہے، کیونکہ اس سے لمبی پوچھ تاچھ کی جانی ہے۔ساتھ ہی اس کی مبینہ متنازعہ اورمبینہ اشتعال انگیز تقریر کی ویڈیو کی درستگی کی تصدیق بھی اس سے کرنی ہے۔افسرنے کہاہے کہ پتہ بھی لگانا ہے کہ شرجیل امام کے پیچھے اور کون کون لوگ ہیں۔
2016 میں جاٹ تحریک نے زور پکڑا،اس نقصان کا اندازہ ان اخباروں اور صحافیوں کو نہیں ہے جو شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شاہین باغ والوں کے پاس ملک بچانے ، آئین و دستور کی حفاظت اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی نہیں،2016 میں ملک کا ایک بڑا حصہ ریزرویشن کی ‘آگ’ میں جل رہا تھا ۔ جاٹ ریزرویشن کے مطالبہ کے دوران پیش آنے والے شدید تشدد اور لوٹ مار کے واقعات تشویشناک تھے۔ کچھ اس تحریک کی حمایت میں تھے، کچھ مخالفت میں اور مودی امت شاہ کی حکومت تماشہ دیکھنے اور جاٹوں کو خوش رکھنے میں مصروف ۔ اس تحریک کے مضر اثرات پر ایک نظر ڈالیں۔
5 سے 7 ریلوے اسٹیشن تباہ! میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے واقعات میں 5-7 اسٹیشنوں کو نمایاں نقصان پہنچا،جس میں تقریبا 200 کروڑ کا نقصان ہوا،اندازہ لگائیے ، دوسوکروڑ کا نقصان!
800 کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئیں، اس سے ریلوے کو ہونے والے محصولات کے نقصان کا تصور کرسکتے ہیں۔
بہت سے بس اسٹینڈ اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کردیا گیاـ
بہت ساری سڑکیں کھوددی گئیں، یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا۔ ریاست کا پورے ملک سے رابطہ ٹوٹ گیا،نودن تک یہ تحریک چلی،زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیا ہو جاتاـ
1000 سے زائد گاڑیاں اور 500 سے زیادہ دکانیں نذر آتش کی گئیں ـ (آج تک ، کیشو کمار کی رپورٹ دیکھئے، 22فروری 2016)انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے، ٹرانسپورٹ اور مالی خدمات سمیت 18 ہزار کروڑ روپے نقصان ہوا۔صنعتی اور زرعی کاروباری سرگرمیوں ، بجلی ، اور کھانے پینے کی اشیاکو پہنچنے والے نقصان سے 12 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا۔ نیز سڑک ، ریستوراں ، بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو نقصان پہنچنے سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے مجموعی طور پر 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، یعنی ملک پر 34000کروڑ کا بوجھ پڑا،
2014میں مودی کی حکومت بنی، اور 2016میں جاٹوں کی تحریک نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک ان کی ذاتی تحریک اور ریزرویشن کو لے کر تھی اور شاہین باغ تحریک پورے ملک کے لئے ہے، اس تحریک میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل ہیں ـ
تین طلاق کی پول تو اسی وقت کھل گئی تھی جب مودی حکومت نے مسلم عورتوں سے ہمدردی دکھاتے ہوئے انتہا پسندی کی حد کر دی تھی ـ آئین ، ملک ، دلت اور مسلم مخالف حکومت کو وہی مہرہ چلنا پسند تھا ، جو تاناشاہی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرے، شاہین باغ کے پر امن احتجاج سے پریشان امت شاہ نے دلی انتخاب کو لے کر جو بیان دیا، اس کی شدت اور انتقام میں ہر حد سے گزر جانے والے لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے،یہ بیان ہے کہ بٹن اتنے غصّے میں دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہچے – انتخاب کا بٹن غصّے میں کون دباتا ہے؟ کیا شاہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹ دینے غصّے میں جاؤ اور شاہین باغ کی عورتوں کو کرنٹ لگا دو؟ کرنٹ لگنے سے جان بھی جاتی ہے،اگر غور کیا جائے تو یہ بیان شاہین باغ کی مخالفت میں بھی ہے اور عورتوں کی مخالفت میں بھی، ان میں ان عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں، تین طلاق کا بل پاس کرتے ہوئے ان عورتوں کے لئے زبان بدل گئی تھی، اب ان مسلم عورتوں کے ساتھ ہر قوم کی عورتیں اور بیٹیاں بھی احتجاج کا حصّہ بن چکی ہیں،کرنٹ کہاں کہاں دوڑے گا ؟ اب تو پورا ہندوستان شاہین باغ ہےـ
کپل مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھے ، مودی کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے تھے، اب بی جے پی میں ہیں تو دلی انتخاب کو ہندوستان اور پاکستان کی جنگ سمجھ رہے ہیں، اس نادر خیال کے پیچھے بھی شاہین باغ ہے،ابھی حال میں منیش سسودیا نے آجتک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اقرار کیا کہ شاہین باغ کے ساتھ بھی ہیں، جے این یو کے ساتھ بھی ـ اتر پردیش احتجاج میں بھی ہر قوم کے لوگ شامل ہیں لیکن یوگی کی گندی زبان پر صرف مسلمانوں کے نام ہیں، کوڑے صرف مسلمانوں پر برس رہے ہیں،
کیا احتجاج شروع ہونے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا آندولن شروع ہوگا اور یہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا آندولن مسلم عورتوں کی قیادت میں شروع ہوگا ؟ اور جب یہ ملک گیر تحریک شروع ہوئی،اس وقت بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملک کا ہر چوراہا ، ہر گلی شاہین باغ میں تبدیل ہو جائے گی، فسطائی طاقتوں کو روند ڈالنے والی آواز اس قدر بلند ہوگی کہ آسمان میں شگاف پڑ جائے گا، بابری مسجد شہادت سے تین طلاق اور ہجومی تشدد سے ہلاکت کی نئی نئی کہانیوں تک مسلمان خاموش رہا لیکن جب آئین ، جمہوریت اور ملک کے تحفظ کا خیال آیا تو گھروں میں رہنے والی عورتوں نے بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مورچہ سنبھال لیا، ٹھٹھرتی سردی میں ماؤں کے ساتھ ننھے بچے بھی ، بزرگ عورتیں بھی ساری ساری رات احتجاج میں مصروف رہیں، نہ انہیں گولیوں کا ڈر ستا رہا تھا، نہ انہیں ہلاکت کی پرواتھی ، مائیں ، بہنیں بیٹیاں اور ہمارے نوجوان سب نے سر سے کفن باندھ لیا، کیا حکومت کے بیانات یہ واضح نہیں کرتے کہ حکومت احتجاج سے خوف زدہ ہے؟ ممکن ہے حکومت احتجاج کو کچلنے میں کامیاب ہوجائے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ جمہور پسند ہر شہری نے اپنے سینے پر شاہین باغ کا نام لکھ لیا ہے، اب اس نام کو مٹانا آسان نہیں ـ
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
کوئی بھی عوامی تحریک یک سُری یا مکمل نظم و ضبط کی پابند نہیں ہوتی اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے؛ وہ انسان جس کا چہرہ ایک نہیں، رنگ ایک نہیں، پس منظر ایک نہیں، معاشی حالات ایک نہیں، تعلیمی و فکری سطح ایک نہیں، جذبات ایک سے نہیں، قوت برداشت مساوی نہیں، نفسیات ایک نہیں اور نہ ہی ان کا ردعمل یکساں ہوتا ہے تو پھر آپ اس سے یہ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ مقصد ایک ہونے کے باوجود اس کا طریقہ کار بھی یکساں ہو؟ مثلاً تحریک آزادی کو ہی لے لیں، یہاں بھی ‘نرم دَل’ اور ‘گرم دَل’ موجود تھے۔ آزادی کی داستان میں صرف گاندھی، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے مدبر کردار ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو جیسے سرفروش بھی شامل ہیں جو انگریز سرکار کے نزدیک باغی،غنڈے اور تخریب کار تھے لیکن ہمارے لیے وہ گاندھی اور نہرو کی طرح ہیرو ہیں۔اسی طرح کیا آپ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 1974 میں اندراگاندھی کی سرکار کے خلاف طلبا تحریک بھی پوری طرح منظم اور یک سُری تھی؟ کوئی عوامی تحریک ہو بھی نہیں سکتی۔ منزل ایک ہوتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ مختلف ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ ہم ان راستوں کے راہی نہ بننا چاہیں لیکن آپ ان کی نیک نیتی اور جذبے کو غلط قرار نہیں دے سکتے چونکہ ہر عوامی تحریک کئی سطحوں پر کام کرتی ہے، صرف اوپری پرت کو ‘سمپورن کرانتی’ مان لینا تاریخ اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔جلیاں والا باغ ہو یا شاہین باغ؛ اس پر بھی مختلف ردعمل سامنے آیا اور آئے گا۔ ممکن ہے کہ میری اور آپ کی قوت برداشت مضبوط ہو، ممکن ہے ہم موجودہ سرکار کی بے حسی کو برداشت کرجائیں، ممکن ہے کہ ہم سرکار کی آئی ٹی سیل کی طرف سے ان عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہنے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ جائیں، ممکن ہے ہم جامعہ ملیہ میں لڑکیوں اور بے گناہ طلبا پر برسنے والی لاٹھی کے خلاف ترنگا ہاتھ میں لے کر سڑک پر اترنے کو کافی سمجھیں، ممکن ہے ہم جے این یو میں نقاب ڈالے غنڈوں کی داداگیری پر، پولیس اور سرکار کی یک طرفہ کاروائی پر سرکار کے خلاف نعرے لگانے کو ہی درست راستہ قرار دیں، ممکن ہے ہم یوگی سرکار کے وزیر کو جلسہ عام میں یہ بولتے سنیں کہ قبرستان میں دفن مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا بلاتکار کرنا چاہیے، پھر بھی ہم دستور ہند کا ابتدائیہ پڑھ کر پُرامن احتجاج کرنا اپنی حکمت عملی کا اہم جزو سمجھیں، ممکن ہے کہ 26 جوان لاشوں کو دفن کرنے کے باوجود ہم اپنے سینوں کو ظالم کے آگے پیش کرنے کا جذبہ سلامت رکھیں، ممکن ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے جسموں پر پولیس کی لاٹھی سے پڑے نیلے داغوں کو چوم کر اپنے راستے پر آگے بڑھ جائیں، ممکن ہے کہ 24 گھنٹے گودی میڈیا کا انڈیلا ہوا زہر پی پی کر ہم نیل کنٹھ کہلانے کا اعزاز حاصل کرلیں؛لیکن ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اس اگنی پریکشا سے صحیح سلامت گزر جائے، ضروری نہیں کہ سب کی قوت برداشت ہم جیسی ہو، ضروری نہیں کہ سب کے جسم میں دوڑنے والا خون یکساں رفتار سے دوڑتا ہو، ضروری نہیں کہ سب کے پاؤں میں باٹا کا 9 نمبر کا جوتا ہی آتا ہو، ضروری نہیں کہ سب آپ کی امامت میں آپ ہی کی طرف رفع یدین کریں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بھیڑ میں سب گاندھی وادی نہ ہوں، ان میں سے کچھ بھگت سنگھ اور سکھ دیو بھی ہوسکتے ہیں جن کا مقصد ایک ہونے کے باوجود طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے طریقہ کار سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کی نیک نیتی پر آپ سوالیہ نشان نہیں جڑ سکتے اور نہ ہی آپ کو ایسے سرفروشوں کو جسٹیفائی کرکے اپنے خانہ میں فٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے چونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے ہیرو صرف گاندھی اور نہرو ہیں، چند شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ جیسے جیالوں کی آپ کو ضرورت نہیں۔
ایک ادبی جلسہ میں ساحرلدھیانوی کی شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے جاوید اختر نے کام کی بات کہی۔کہا ’کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ کام کرنے والے کچھ لوگ چھوٹے ضرورہوسکتے ہیں۔ بڑآدمی چھوٹے کام کو ہاتھ لگالیتا ہے تو وہ بڑا ہوجاتا ہے۔‘ان کی اس بات کی اتنی وضاحت کردوں کہ آدمی کام سے ہی بڑاہوتا ہے۔ نام اورمنصب سے نہیں۔اس کی ایک تازہ مثال شہریت قانون کے خلاف جاری تحریک ہے۔ ڈھونڈو تو کوئی بڑانام نہیں نظرآتا،کام دیکھو تو اتنا بڑا جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصل میں بڑے تووہی ہیں جواس کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تل تل مل کر پہاڑ بن گیا۔ اورپہاڑ تھے وہ بونے نظرآنے لگے۔
سنئے سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں سے جابراورظالم حکمراں کا خوف نکال دیا جائے اورخودسرحکمراں اپنی صفائی دیتا پھرے۔ اس اندولن میں نہ کوئی گاندھی ہے، نہ جے پی اور ہزارے۔ یہ بڑاکام ہماری باشعور گھریلو خواتین ،تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اورلڑدکوں نے کردکھایا۔اس کی دھمک سے دانشورطبقے کی توجہ اس طرف گئی۔ نوٹ کیجئے کہ تحریک میں شریک خواتین اوران کی مدد میں مستعدافراد میں سے کسی کونام ونمود کی چاہ نہیں۔ ان سب کو ہ ملک کے مستقبل کو بربادی سے بچانے کی مبارک فکر متحرک کئے ہوئے ہے۔ان کیلئے مبارکباد کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس کا صلہ انشاء اللہ اس دنیا میں بھی جلد ملے گا اورآخرت میں بھی اپنی نیک نیتی کا اجر سے کوئی محروم نہیں رہے گا۔
اندرون ملک پچھلے چار، چھ سال سے پروپگنڈاکیا جارہا تھا کہ مسلم خاتون بہت مظلوم ہیں۔ مردکے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی فریب کے ساتھ تین طلاق قانون لایا گیا،لیکن بقول عارفہ شیروانی،جامعہ کی دو لڑکیوں نے اوراس کے بعد ملک کی بھر کی سڑکوں پرخواتین کے ہجوم نے اس جھوٹ کو تارتارکردیا۔ یہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں اورلگاتارسوا ماہ سے اس مہم میں شامل نہیں رہ سکتی تھیں اگر گھروں میں ان کی نہ چلتی ہوتی،ان کوخاندان بھرکی دعائیں نہیں ملی ہوتیں یاان کو مردوں کے جبرکا سامنا ہوتا۔ یہ منظردستک دے رہاہے کہ اگلا دورخواتین کا دور ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو یہ کالم نویس گزشتہ کئی سال سے نوجوان طلبااورطالبات کے جلسوں میں کہتا رہا ہے۔ لڑکیاں تعلیم میں بھی آگے ہیں اور احساس ذمہ داری سے کام کرنے میں بھی، توپھرزمانے کی نکیل ان کے ہاتھوں میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟اللہ ان کے حوصلوں کوسلامت رکھے۔
مجھے یاد ہے جب محترمہ اندراگاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو منصب صدارت کا امیدواربنایا توکسی انگریزی اخبار نے ایک اداریہ میں لکھا تھاکہ ’کبھی آدمی کرسی کو بڑا بنا دیتا ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کرسی آدمی کو بڑابنادیتی ہے۔‘گویا منصب کی ذمہ داری آداب حکمرانی سکھا دیتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کبھی اس کا الٹا بھی ہوتا ہے۔بی جے پی نے سیاست میں جس کلچر کو فروغ دیا ہے اس نے زبان کی شائستگی کومٹادیا ہے اورسیاست دانوں کی زبانوں سے’بھائیوں ’اور ’موالیوں‘ جیسے جملے زیادہ سنائی دیتے ہیں۔ زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب کوئی وزیر غیرمحتاط زبان استعمال کرتا ہے، اور پارٹی وحکومتی ذمہ دار اس کا نوٹس نہیں لیتے۔خاص طورسے حیرت محترم وزیرداخلہ امت شاہ کی بولی پرہوتی ہے۔انکا تعلق بنیا برادری سے ہے جو ہرلفظ تول تول کر بولتی ہے اورمیٹھا بولتی ہے۔ اول فول نہیں بکتی۔ ان کے دادا ایک ریاست کے نگرسیٹھ(ناظم مالیات) تھے۔ والدصنعت کارتھے۔ خودبھی ان پڑھ نہیں، بایوکیمسٹری میں بی ایس سی کیا ہے۔ لیکن گزشتہ 21جنوری کو انہوں نے لکھنؤ میں جو کچھ کہا وہ ان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
شاید پارٹی صدارت سے سبکدوشی کے صدمہ نے ان کوبوکھلادیا ہے کہ ان کا لہجہ اوربھی درشت ہوگیا ۔ پوری قوم کو ان کی یہ دھمکی، ”میں لکھنؤ کی سرزمین سے ڈنکے کی چوٹ کہنے آیا ہوں کہ جسے مخالفت کرنی ہے وہ کرتا رہے، سی اے اے قانون واپس نہیں ہوگا۔“ کچھ اورکہتی ہے۔شاید ان کا مقصد اپنے کورچشم ہمدردوں کی منھ بھرائی کرنا تھا، تاکہ وزیراعظم کے منصب کیلئے ان کمر مضبوط ہوسکے۔ اس پر ہم بس اتنا ہی کہیں گے۔ ہائے رے آرزو۔مودی جی چاہتے توپارٹی صدرکے منصب پران کی توسیع کچھ مشکل نہیں تھی۔ جس کو دیش کے دستور کی پرواہ نہیں، اس کیلئے پارٹی کا دستورکیا چیز ہے!اب توپی ایم کا ایک لائن کانوٹ ان کو گھرواپس بھیج سکتا ہے۔
ان کی یہ بولی اوریہ اندازخطاب ایک عظیم جمہوری ملک کے وزیرداخلہ کے منصب کی شان کے خلاف ہے ۔دیش کے موجودہ ماحول میں دھمکیاں دینا،سیاسی تدبر اور دانائی کی ضد ہے۔ جمہوریت بات چیت سے اورایک دوسرے کیلئے گنجائش سے چلتی ہے، دھونس اوردھمکی سے نہیں۔ آپ کو تین ممالک کے ہندوبھائیوں کی توفکرہے، لیکن اپنے ملک کے باشندوں سے آپ کا یہ مغرور انداز جمہوریت کی بھی توہین ہے اور ان تین چوتھائی ہندستانیوں کی بھی جو اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پراترآئے ہیں۔ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورذمہ دار سابق وموجودہ منصب داربھی ہیں، نوجوان طالب علم بھی ہیں اور ہر طبقہ ومذہب کے عوام بھی۔ آپ ان کی آواز کو مسترد کرکے کس کی توہین کر رہے ہیں؟ سب سے زیادہ یہ عورت ذات کی توہین ہے، جو اس مہم کی طاقت بنی ہوئی ہیں۔ ایسی شدید سردی میں اپنے آرام اورچین کی قربانی دےکرکوئی کسی کے بہکانے سے باہر نہیں آتا۔لیکن ان کے جذبہ اورقربانی کی قدرآپ کو کیا ہوسکتی ہے جب نظریہ ملک پر ایسا نظام مسلط کرنے کا ہو جس میں دیویوں کی مورتیوں اورتصویروں کی پوجا تو ہو، مگردیوی جیسی خواتین کو ہرروز اگنی پریکشا سے گزاراجائے۔ عصمت دری کے گناہگاروں کو اونچے منصبوں پر بٹھادیا جائے،جو بناطلاق جوان بیوی کے جیون کو سوگواربنادے اور80 سال کی ماں کولائن میں لگوادے اس کو اپنا آئیڈیل بنا لیاجائے توعورت ذات کی قدر کیسے ہوگی؟
افسوس کہ رہی سہی کسرآپ کے مندرآندولن نے پوری کردی۔ ہم اپنے بچپن سے ’جے سیارام‘ کی گونج سنتے تھے ۔ سیتا جی کا نام پہلے اوررام جی کا بعدمیں۔ اس اندولن نے جو نیا نعرہ دیا ہے اس میں سیتاجی کا نام ہی اڑادیا گیا اور’جے سیارام‘ کے بجائے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ حالانکہ سیتا جی کے بنا نہ رامائن مکمل ہے اورنہ رام چندرجی اورلکشمن جی کا مثالی کردار پورا ہوتاہے۔ برانہ مانئے، آپ کی پارٹی کے لیڈر اور نام نہاد سنتوں سے اچھاتو راون کا ہی تھا، جس کے قبضے میں سیتا جی اتنے دن تک رہیں اوران کو چھوا تک نہیں۔ آپ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے لیڈراپنی پڑوس کی بچیوں کے ساتھ اورسنت لوگ اپنے آشرم کی بچیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟بتانے کی ضرورت نہیں۔
خواتین کی بااختیاری کے معاملہ میں بھی بھاجپا کا ریکارڈدوغلے پن کاہے۔جب تک یوپی اے سرکار رہی ایک تہائی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا اوراب سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے شاہ کا یہ لکھنؤ والا بیان آگ پر تیل کا کام کریگا۔ ان کی اس دھمکی سے شاید ہی کوئی ڈرا ہو۔بلکہ جوش اوربڑھے گا۔ا ن لیڈروں کو اندازہ نہیں کہ عورت جب کچھ ٹھان لیتی ہے توہماری ہربیٹی اوربہن رضیہ سلطانہ اورلکشمی بائی بن جاتی ہے۔
امت شاہ جی! نہایت ادب کے ساتھ اپنی اس دھمکی کا جواب بھی سن لیجئے۔ جمہوری نظام میں جو سرکار عوام کی بولی کو نہیں سمجھتی اس کو عوام کوڑے دان میں ڈالدیا کرتی ہے۔ اگرزبان نہیں سنبھلی، جھوٹ، فریب اوردھمکیوں کو سلسلہ بند نہیں ہوا،تو ساڑھے چارسال گزرتے دیر نہیں لگتی۔
مجھے یہ یاد دلانے میں تکلف نہیں کہ دیگرمذاہب کی طرح ہندو دھرم بھی بڑبولے پن اور گھمنڈکی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ہندودھرم جابجا ’ادنڈتا‘ کے خلاف خبردارکرتا ہے۔لیکن ہندتووا کا نعرہ لگانے والوں کی بولی ٹھولی اورسرگرمیوں سے جو ماحول بن رہاہے اس نے اس دیش کی آدھیاتمکتا (روحانیت) کو سخت نقصان پہنچ رہاہے۔دھن،دولت، دھونس، دھمکی اوردکھاوا دھرم کی آتما کے قاتل ہیں۔ کسی پڑوسی کی آڑ زیادہ دن کام نہیں آیا کرتی۔
جے این یوانتظامیہ کو نئے تعلیمی سال کے لیے پرانی فیس کے ساتھ رجسٹریشن کرنے کی ہدایت
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے آج جواہرلال نہرویونیورسٹی کی ہاسٹل فیس میں بڑھوتری کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئےطلبہ کوبڑی راحت دی ہےـ کورٹ نے جے این یوانتظامیہ کوحکم دیاہے کہ پرانی فیس کے مطابق نئے تعلیمی سال کے لیے رجسٹریشن کیاجائے ـ کورٹ نے یہ بھی کہاکہ طلبہ سے کوئی لیٹ فیس بھی نہ لی جائے ـ طلبہ کی جانب سے پیش ہونے والے سینئروکیل کپل سبل نے کورٹ سے کہاکہ فیس میں اضافہ غیرقانونی ہے، انھوں نے کورٹ سے یہ بھی کہاکہ ہائی لیول کمیٹی کوفیس مینوئل میں ردوبدل کااختیارنہیں تھاـ جن طلبہ نے اضافہ شدہ فیس جمع کردی ہے ان کے تعلق سے سبل نے کہاکہ جے این یوانتظامیہ کے دباؤمیں اورڈرکی وجہ سے بعض طلبہ نے ایساکیاہے، انتظامیہ کوان کےپیسے لوٹاناچاہیےـ قابل ذکرہے کہ جے این یوانتظامیہ نے ہاسٹل فیس میں زبردست اضافہ کیاتھا، سنگل روم کرایہ بیس روپے سے بڑھاکرچھ سو روپے کردیاگیاتھا، جبکہ ڈبل روم رینٹ دس روپے سے بڑھاکرتین سوروپے کردیاگیاتھا ـ اس اضافے کے بعدجے این یوکے طلبہ نے انتظامیہ کے خلاف تحریک چھیڑ دی، جس کے بعدانتظامیہ نے سنگل روم رینٹ چھ سوسے گھٹاکرتین سواورڈبل روم رینٹ تین سوسے گھٹاکرڈیڑھ سوروپے کیاـ انتظامیہ کی فیس بڑھوتری کے خلاف جے این یو اسٹوڈینٹ یونین نےکورٹ کارخ کیاتھا، یونین کی طرف سے کپل سبل نے کیس کی پیروی کی ـ وزارت فروغ انسانی وسائل کی طرف سے سالیسٹرجنرل پنکی آنندنے کیس کی پیروی کی ـ کیس کی اگلی سماعت 28 فروری کوہوگی ـ
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
کہاصرف اپنے من کی بات کرتے رہیں گے، احتجاج پربیٹھی خواتین کے من کی بات کب سنیں گے؟
نئی دہلی: دیرشام شاہین باغ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بھیم آرمی چیف چندرشیکھرآزادنے وزیراعظم مودی پرجم کرحملہ بولاـ انھوں نے کہاکہ اگرمودی اپنے من کی بات کرسکتے ہیں توانھیں شاہین باغ کی عورتوں کے من کی بات بھی سننی چاہیےـ انھوں نے کہاکہ وہ عوام سے خیانت نہیں کریں گے اور سی اے اے واین آرسی کے خلاف ہماری تحریک جاری رہے گی ـ انھوں نے کہاکہ ہماری تحریک کی کامیابی کے لیے پورے ملک میں ایسے ایک لاکھ شاہین باغ کی ضرورت ہےـآزادنے شاہین باغ احتجاج کوکمزورکرنے کی بی جے پی کی کوششوں پربھی نشانہ سادھاـ انھوں نے کہاکہ مجھے کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ وزیراعظم اوردستورہندااحترام کروں، مگروزیراعظم کوبھی توعوام کی آوازسننی چاہیےـ واضح رہے کہ چنددن قبل جیل سے رہاہونے کے بعدآج پہلی بارچندرشیکھرآزادشاہین باغ مظاہرین کے بیچ پہنچے تھے، جہاں ان کاپرجوش استقبال کیاگیاـ
خلیجی ممالک میں قیام کے دوران جمعہ کے روز خطبے سن کر دل و دماغ روشن ہو جاتے تھے اس لئے کہ ” دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے”۔ پھر ٩/١١ ٹریجڈی اور پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں اس قدر تیز ہوئیں کہ بڑے بڑے اثر ورسوخ والے حکمران بھی دہشت گردی کے اس بے بنیاد الزام اور چند افراد کی مجرمانہ حرکتوں کو عمومیت دینے کا دفاع کرنے کے بجائے اپنی حیثیت اور اپنے ملک کی حفاظت کی فکر کی تدابیر کرنے لگے۔
ان کے مغربی آقاؤں کا دباؤ اس قدر بڑھا کہ حساس مقامات پر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کی نگرانی ہونے لگی،بینکوں پر نظر رکھی جانے لگی کہ کہیں ان کے توسط سے دہشت گردوں کو فائنانس تو نہیں کیا جاتا۔ اسی نگرانی کی زد میں مساجد بھی آ گئیں اورخطیب حضرات کو حکومت کی جانب سے خطبے لکھ کر دیے جانے لگے تاکہ زبان ان کی ہو مگر مواد اور نظریہ حکومت کاـ اب تقریباً ١٨ سالوں کے بعد امریکی ایجنسیوں کے سابق ذمہ داروں نے اعتراف کیاہے کہ اس پوری مدت میں اسلام اور مسلمانوں کےدہشت گردی میں ملوث پائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کہ ساری کوششوں کا حاصل فقط ضیاع وقت اور ضیاع مال تھا۔
جب چند متعصب عناصر عام لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی صفائی اور تسلسل کے ساتھ جھوٹ پھیلاتے ہیں اور ہم خیال یا زر خرید ذرائع ابلاغ کے توسط سے بے بنیاد اور من گھڑت جھوٹ کے لئے مصداقیت حاصل کرتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ ان ہی باتوں کو سچ اور مبنی بر حقیقت ماننے لگتے ہیں۔ اس کا اثر اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خوف کے ماحول میں کنارہ کشی اختیار کیے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ انسان کی تعریف ” سماجی حیوان social animal ہے، لوگوں سے ملنا جلنا لین دین کرنا خوشی اور غم میں شریک ہونا اس کی فطرت ہے،وہ دوسروں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی بنیاد پر اپنی اس جبلت کی مدافعت کب تک کرتا رہے گا، چنانچہ چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد وہ اپنے آپ کو مصنوعی خوف کے حصار سے باہر نکالتا ہے اور جانچنے کے ارادے سے پھر سے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان مسلمانوں کو اپنی ہی طرح پاتا ہے، پھر وہ اپنی اس نئی دریافت،تازہ کھوج اپنے متعلقین کے ساتھ شیئر کرتا ہے اور اس طرح وہ اس انسانیت دشمن گروہ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اس ملک عزیز میں بھی اس طرح کے عناصر سرگرم ہیں، جو برادران وطن کو اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان اس ملک پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک کو افغانستان عراق سوڈان،سیریا اور یمن بنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اس ملک میں ہندو مذہب اور تہذیب کی حفاظت کے لئے ان قوانین کی تائید کریں،بی جے پی کی حمایت کریں وقتی فائدے پانی بجلی سڑک اسکول اور بنیادی ترقیاتی کاموں سے زیادہ اہم اس دیش کو بچانا ہے۔اس لئے بے روزگاری اور اقتصادی بحران پر حکومت سے سوال نہ کریں۔ جن بے بنیاد مفروضوں پر وہ عام برادران وطن ہندوؤں کو ڈرا رہے ہیں، وہ وقتی طور پر ذہنوں کو اپیل کر رہے ہیں، مگر ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں جو خوف دلانے والے ان دلائل کو عقلی اور نقلی طور پر خارج کر رہےہیں۔ اس خوف کو پھیلانے میں وقت اور پیسے لگ رہے ہیں،اس کا وقتی طور پر اثرانداز ہونا بھی منطقی ہے؛لیکن میل جول interaction اور socialization ہی فرقہ وارانہ منافرت کے اس زہر کے لئے مجرب تریاق ہے۔ موجودہ احتجاج نے اس کا موقع بھی دیا ہےاور اس کی ضرورت،اہمیت اور افادیت کا احساس بھی دلا یاہے؛ اس لئے ہم سب اپنے اپنے حلقۂ احباب میں اس کوشش کو لے کر آگے بڑھیں۔
ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے راستہ کھولنے پر رضامندی،گورنرنے مظاہرین کے مطالبات مرکزی حکومت کوپہنچانے کی یقین دہانی کروائی
نئی دہلی: شاہین باغ مظاہرہ کے سلسلے میں آنے والی متعدد خبروں کے بیچ آج شاہین باغ مظاہرین کے نمایندہ وفد نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم کیے جائیں تومظاہرے کی وجہ سے راستہ بند ہونے کے معاملے کے حل کے لیے کوئی بھی مناسب پیش رفت کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے ایل جی سے کہاکہ ایمبولینس اور اسکول بسوں کے لیے ہم راستہ کھولنے کوتیارہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون پیش کریں گے۔ایل جی نے مظاہرین کے وفد کی باتیں سنیں اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کے مطالبات وزارتِ داخلہ کے سامنے پیش کریں گے۔قابل ذکرہے کہ 20جنوری کو دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین سے اپیل کی تھی کہ چوں کہ اسکولوں میں امتحانات قریب ہیں اور اس مظاہرے کی وجہ سے کئی ہفتوں سے بچوں کو پریشانی ہورہی ہے اس لیے مظاہرین اسکول کی بسوں کے گزرنے کے لیے راستہ کھول دیں۔دہلی پولیس نے شاہین باغ مظاہرین اور ایل جی کی ملاقات کو خوش آیند قراردیاہے اورامید جتائی ہے کہ مسئلے کا بہتر حل نکلے گا۔
طاہرضیا
غایت کو پہنچ جاتی ہے جب تیرگئِ شب
اور ہوتی ہے ہر سمت سے تاریکی کی یلغار
اک نور کی پو پھوٹتی ہے حکمِ خدا سے
اور شرق سے ہوتی ہے نئی صبح نمودار
تاریخ نے تاریخ کی پھر یاد دلائی
ماضی میں کبھی کوئی یہاں شاہِ شہاں تھا
چھن جائے گا یہ تاج، پلٹ جائے گا یہ تخت
اس بات کا کیا اس کو کبھی وہم و گماں تھا؟
اے وقت کے فرعون! ڈراتا ہے ہمیں تو
زنداں سے، سلاسل سے زدِ تیغ و سناں سے
تاریخ اٹھا کر تو ذرا دیکھ ہماری!
پیچھے نہ ہٹے ہیں کبھی ہم حق کے بیاں سے
جب جس کی ضرورت پڑی تاریخ لکھا لی
پیروں سے، جوانوں سے کبھی نازِ زناں سے
ہر دور میں حالات کا رخ ہم نے ہے پھیرا
ٹکرائے ہیں ہم وقت کے ہر کوہِ گراں سے
سیراب چمن کو کِیا ہے حسب ضرورت
گہ اشکِ رواں سے گہے خونِ جگَراں سے
ہم طالبِ آزادیِ گفتار ازل سے
کیا ہم کو سروکار بھلا سود و زیاں سے
گونجے گی صدا پھر سے اب آزادی کی ہر سمت
منبر سے، کلیسا سے کبھی کوئے بتاں سے
ہم امن کے داعی ہیں، محبت کے طلبگار
پیغام یہی دیتے ہیں ہم شہر اماں سے
"خاکم بدہن” اب وہ گھڑی پھر نہ کبھی آئے
تاریخ دوبارہ کبھی تاریخ کو دہرائے
گلشن میں مرے اہلِ ستم پھر کوئی در آئے
پھر شاخ کوئی ٹوٹے کوئی پھول نہ مرجھائے
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
ہندوستان کو 22 جنوری کا انتظار ہے. سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں.حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہےـ
اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22 جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا.ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں :
(1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گایا:
(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گاـ یا:
(3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گاـ یا:
(4) اس مسئلے کی شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گاـ
مجھے آخرالذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے، پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکرچٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ادھر بہار سرکار نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15 مئی تا 28 جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا.نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا.لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے.کیا این پی آر خطرناک نہیں؟کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں. این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے. این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا. مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے.این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں.سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی. لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا.سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو،برہمن واد اور منوواد کا ہے.ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے. یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے.لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ ہم دیکھیں گے‘‘جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے ،چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے ، کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے مہاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے مملو ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاوا منفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور آزادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ہے، جو سورۂ رحمان کی آیت کا ایک ٹکڑاہے۔ یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مژدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرآن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے ۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔
اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبُت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ۔ بُت سے مراد بھی ہندو مذہب کےدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بُت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے کہا ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
نسیم کے اس شعر میں ’’ بُت‘‘ سے مراد کوئی مورتی نہیں ہے اور نہ ہی ’’کفر ‘‘کا اشارہ کسی غیر مسلم کی طرف ہے، بلکہ بت سے مراد معشوق ہے اور کفر سے مراد اس کی ضد اور ’نہیں نہیں‘ ہے۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن ’’ بس نام رہے گا اللہ کا‘‘ اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ ’اللہ‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (آستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح ’حرم ‘اور ’کعبہ ‘ بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو’’ انصاف کا مندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘‘
ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘
یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرآن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی ۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ’’وعدے کے دن ‘‘سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور’’ لوح ازل ‘‘سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائےآفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانےکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘
ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔
اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے ’انا الحق‘ کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے ۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اُس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف ’انقلاب زندہ باد ‘ جیسا نعرہ بن گیا ۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرۂ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں ’انا الحق‘ کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر’ اناالحق‘ فرعون کے نعرے ’انا ربکم الا علیٰ‘ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ’ اناالحق‘ میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔
اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا ۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔
تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔
موبائل نمبر: 8860931450
اسلامیات کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ بعض سنگین حالات میں عورتوں کو گھر چھوڑکر مورچہ سنبھالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی بغیر شوہر کی اجازت کے۔ 12-12-19کو CAAبنادیاگیا، یہ قانون اولاً تو آئین کی روح کے خلاف ہے، دوسرے قانونی ماہرین اس کو آئین کی دفعہ 14اور 21کے خلاف قرار دے رہے ہیں، تیسرے یہ قانون ہندتوا آئیڈیالوجی کی طرف ملک میں پہلا عملی اور قانونی قدم ہے، چوتھے مستقبل میں ہونے والی NRCکے نتیجے میں عدم دستاویز کے باوجود بھی تمام غیرمسلم CAAکی وجہ سے بدستور بھارتی شہری قرار پائیں گے لیکن مسلمان معمولی خامیوں کی وجہ سے غیرملکی قرار دیدیے جائیں گے۔ اس لیے یہ قانون اپنی وسعت و پھیلاؤ میں امت مسلمہ کے لیے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ آسام کے ڈٹینشن کیمپ کی بدترین تصویر نے اس قانون کی بربریت کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ خیال رہے کہ وہاں پر ایسا بھی ہواکہ بہن کوکہیں اور بیوی کو کہیں بندوق کی نوک پر ڈٹینشن کیمپ میں داخل کردیاگیا، اس لیے اس قانون کے خلاف جو ہماری محترم مسلم خواتین احتجاج کررہی ہیں، بالخصوص شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ بالکل عین تقاضائے وقت ، تقاضائے فطرت اور تقاضائے شریعت ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قوانین حق خود حفاظتی کے اصول کو مانتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی اس عالمی اصول کی قدر کی ہے اور اسی کے مطابق ”جہاد و قتال“ کی تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ CAAکے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئی ہماری بہنیں اور ان کے اعزہ واقارب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین عین میدانِ جنگ میں لڑی ہیں، اس سلسلے میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت خولہؓ کے واقعات بطور استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو کہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں، جنگ اُحد اور جنگ خندق میں مردانہ وار دشمنوں پر ہتھیارچلاٸے، حضرت خولہؓ نے 30دیگر مسلم خواتین کے ساتھ خیمے کی لکڑیوں سے حملے کیے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں 30کروڑ مسلمان ہیں، جن میں 15کروڑ مسلم خواتین ہیں، دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہماری بہنوں کو اسلامی قدروں کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے اور مکمل طورپر پُرامن رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کو سیفٹی فراہم کریں۔ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے حوصلہ پاکر دیوبند کی عیدگاہ میں ہماری مائیں، بہنیں نکل کھڑی ہوئیں۔ مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے میں چند علماء اور نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور 13 جنوری 2020سے یہاں پر بھی ہماری مائیں ، بہنیں دھرنے پر بیٹھ چکی ہیں اور پوری طاقت سے آئین ہند کی حفاظت کا عہد کررہی ہیں۔ No NPR, No NRC, No CAA کا نعرہ لگارہی ہیں۔ سبزی باغ پٹنہ ، روشن باغ الٰہ آباد میں بھی خواتین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ غرض پورے ملک میں مسلم و غیرمسلم حضرات کےگھروں کی ’’عزتیں ‘‘ آئین ہند کی حفاظت کے لیےبے گھر ہورہی ہیں۔ معلوم نہیں فراعِنۂ وقت پر کب ’’بجلی کڑکڑکڑکے گی ‘‘ ؟؟؟
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ NRC, CAAوغيرہ جس قدر خطرناک آٸین ہند کیلٸے ہیں اسی قدر بھارتی مسلمانوں کیلٸے ہیں ، اب تک کی کوئی بھی ’’حکومتی وضاحت ‘‘مندرجہ ذیل سوالات کو حل نہیں کرتی:1 CAAکے ذریعےغیرمسلم پناہ گزینوں Refugeeکو CAAبچالے گیا، مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ ڈٹینشن کیمپ؟ وطن واپسی؟ یا دریابُرد ؟؟
2 ملکی سطح پر ہونے والے NRCکا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو تو دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی CAAمحفوظ مستقبل Safe Future کی گارنٹی دے گا، جب کہ مسلمان دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونےکی وجہ سے بدترین مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ خیال رہے کہ صرف 28فیصد بھارتیوں کے پاس سند پیدائش Birth Certificateہے، جب کہ 99فیصد بھارتیوں کے دستاویز نامکمل ہیں یان میں غلطیاں ہیں۔
3 ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیا مطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو CAAبچالے گیا اور ان کو شہریت دے دی جائے گی، صاف مطلب ہے کہ یہی ڈٹینشن کیمپ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔ خیال رہے کہ آسام میں 6ڈٹینشن کیمپ قائم ہوچکے ہیں،بنگلور میں تیار ہوچکا، مہاراشٹر میں زیرتعمیر ہے، دیگر صوبوں میں مرکزی حکومت نے تیار کرنے کے لیےبولا ہے۔ اسدالدین اویسی کے بقول مودی حکومت نے ڈٹینشن کیمپ کے لیے بجٹ بھی مختص کردیا ہے۔
اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو حکومت کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنا ، ہم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ مودی حکومت100سال پہلے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت (303نشست 2019) کا بھوت بار بار بی جے پی کے کان میں پھونکتاہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ (Now and never)۔ یہ حکومت مہینے دو مہنے کی چیخ و پکار اور گنتی کے چند دھرنوں سے رعب نہیں کھانے والی، اس بھوت (مودی حکومت) کو 15فیصد کی بوتل میں بند کرنا 85فیصد بھارتیوں پر ضروری ہے، اس لیے تحریک میں تیزی لائی جائے، نظم و ضبط لایاجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا غیرعلماء NRC, CAAاور NPRکی حمایت کررہے ہیں یا خاموش ہیں، وہ ملک و ملت کے غدار ہیں، وہ ابورغال ہیں، وہ سراج الدولہ کے غدار میر جعفر ہیں، وہ ٹیپوسلطان کے غدار میر صادق ہیں۔ اور جو خاموش ہیں ان کو ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلیک میل کردیاگیا ہے اور مودی حکومت نے اِن ساکت علماء و قائدین Silent leadersکو وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم کچھ بولے تو تم کو ننگا کردیا جائے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے عظیم داعی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی مختلف قسم کے لالچ دے کر حکومت کے موقف کی حمایت کرنے کو کہا، لیکن اس وفادار بندۂ خدا نے انکار کردیا اور بھارتی مسلمانوں سےمکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اس ا”دروازہ بند مکاری“ کو فاش بھی کردیا۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی نمک خوارتنظيم ’’مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ بھی متحرک ہوچکی ہے اور 16جنوری 2020کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں علماء کا ایک اجلاس طلب کیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے مطابق ملک بھر سے 200سے زائد علماء و مذہبی راہنمائوں کو مدعو کیاگیا ہے۔ بھارتی مسلمان اپنے شعور کو بیدار رکھیں، حکومت کے حمایتی کسی بھی حضرت، کسی بھی قائد، کسی بھی لیڈر کے بہکاوے میں آکر ہرگز ہرگز اپنی تحریک کو واپس نہ لیں، صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے :ـCAAواپس لو، NPRواپس لو، NRCواپس لو! اپنی خواتین کو باہر نکالو، نوجوانوں کو باہر نکالو ، بچوں کو باہر نکالو، پوری طاقت سے تحریک اُٹھائو کہ ہر شہر اور قصبہ ’’واپس لو، واپس لو ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے، امن کے ساتھ محبت کے ساتھ۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
تحریر: تولین سنگھ
ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
وہ ایک بہت ہی سرد اور ٹھٹھرتی ہوئی اور سیاہ اندھیری رات تھی۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو بڑی مضبوطی سے اپنے جسم سے چمٹالیا تھا تاکہ انہیں سردی کی شدت سے کچھ راحت دی جا سکے۔ لیکن کوئی بھی احتجاجی مظاہرے سے اس وقت تک ایک پل کے لئے بھی نہیں ہٹا جب تک دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قومی ترانہ گانے کے ساتھ جلسہ کا اختتام نہیں ہوا۔
سوشل میڈیا آرمی بے بس: یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے احتجاج کی علامت کے طورپر قومی ترانہ گایا ہو۔ اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ ملک کے آئین اور ترنگے جھنڈے کو احتجاج کی علامتوں کے طورپر اپنایا گیا ہو۔ لیکن جو بات وزیراعظم نریندرمودی اور ان کے قریب ترین ساتھی امت شاہ کو معلوم ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب کی بار احتجاجیوں نے قومیت یا نیشنلزم کا اظہارکرنے والی علامتیں ان کے ہاتھ سے اُچک لی ہیں، اور انہوں نے ان علامتوں کو اپنے احتجاج کے مظہر کے طور پر تھام لیا ہے۔ احتجاجیوں کے اس اقدام کی وجہ سے بی جے پی کی سوشل میڈیا آرمی بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے۔اور اب ان لوگوں کے لئے احتجاج کررہے مسلمانوں، کمیونسٹوں (لیفٹسٹس)،آزاد خیال(لبرلس)اور حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت میں کھڑے ہونے والوں پر ’ملک دشمن‘ جیسا ٹھپّہ لگانا آسان نہیں رہا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرین کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔
ایک اداکارہ کے مقابلے میں وزیر:اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مودی کے وزیروں میں مایوسی جھلکنے لگی ہے، جسے وہ اپنی ہذیانی تقریروں اور نفرت انگیز بیانو ں میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرف سے احتجاج کے ریلے کوروکنے اور روندنے کی ناکام کوششوں کے بعد وہ خود اور ان کے بغلی ساتھی یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو صف اول سے ذرا پیچھے ہٹالیا ہے اور کچھ دیگر عوامی مقبولیت حاصل کرنے لائق چہروں کو آگے بڑھادیا ہے۔جیسے کہ سمرتی ایرانی نے دیپیکا پڈوکون(فلم ایکٹریس) کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ(جے این یو نقاب پوش حملے میں زخمی طلبہ) کھڑی ہوگئیں، جو ’ملک کو توڑنا‘ چاہتے ہیں اور جو’جب کبھی کوئی سی آر پی ایف کا جوان مارا جاتا ہے تو خوشیاں مناتے ہیں۔‘
یہ تھوڑی شرم کی بات ہے کہ ایک مرکزی حکومت کی وزیر کو بالی ووڈ کی ایک اداکارہ کے ساتھ مقابلے پرآمنے سامنے آناپڑا ہے۔ لیکن یہی چیز ان کی گھبراہٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ حالیہ دنوں پرکاش جاوڈیکر اور نتین گڈکری جیسی ذرا نرم اور معتدل آوازیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ شاید بی جے پی کو امید تھی کہ ان لوگوں کی وجہ سے وزیر اعظم کی بگڑی ہوئی شبیہ کو سدھارا جاسکے گا۔ مگر اب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
منھ بند کرنا آسان نہیں: وزیر اعظم نے خود اپنی طرف سے ہندوستانی مسلمانوں کوایک سے زیادہ مرتبہ یقین دلایا ہے، ان کو اپنی شہریت کھوجانے کے خوف میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور کسی بھی حالت میں مستقبل قریب میں این آر سی جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن جب ایک قوم نے چھ برسوں تک گائے کے محافظوں اور ہجومی قاتل گروہوں (لنچنگ گروپس) کی جانب سے اپنے خلاف برپا کیے گئے خوفناک تشدد کو خاموشی سے گزاراہے، اب ان کے منھ بند کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کو اب اپنی آواز مل گئی ہے۔
’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘: کسی بھی ریاستی حکومت نے مسلم احتجاجیوں کو خاموش کرنے کے لئے اس قدر تشدد کا سہارا نہیں لیا ہے، جتنا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے لیا،پولیس فورس کوتقریباً 30لوگوں کوقتل کرنے کی کھلی چھوٹ دینے کے باوجود بھی وہ ناکام رہ گئے۔مظاہرین اب صرف مسلمان نہیں رہ گئے ہیں۔ ان کی صفوں میں اب وہ لوگ بھی جڑ گئے ہیں جنہیں بی جے پی کے شور مچانے والے بریگیڈس ’لیبٹارڈس‘ اور ’سِکّولرسٹس‘(libtards/sickularists) جیسے طنزیہ خطابات سے نوازا کرتے تھے۔ وہ لوگ اس احتجاج میں اس خوف کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے ہیں کہ جب شہریت کا معائنہ کرنے والے آئیں گے تو انہیں ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔ بلکہ ان کے شامل ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مودی حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ بہت غلط ہے۔ اتنا غلط کہ اگر کسی کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کے نام سے پکارا جاسکتا ہے تو یہی(برسراقتدار) لوگ ہیں۔
اختیارات کا غلط استعمال: میں یہ بات پوری طرح غور وفکر کے بعد کہہ رہی ہوں، کیونکہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے کئی دہائیوں تک پاکستان میں کام کیا ہے۔ اور بہت سارے بڑے بڑے فوجی افسران سے میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان سب نے مجھے یہی بات بتائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر مشتمل کثیر آبادی کا ساتھ بدل گیا تو پھر یہ ملک دوبارہ تقسیم ہوسکتا ہے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ جے این یو کے طلبہ کی نعرے بازی کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ یہ اس لئے ہوگا کیونکہ ہمارے سب سے سینئر منتخب لیڈروں نے اپنے بے پناہ اختیارات کا بے جا استعمال کیا۔
احتجاج کیوں جاری ہے:مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ نے کشمیر کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لئے انٹرنیٹ بندکردینا اور دفعہ 144 جیسے نوآبادیاتی قانون نافذکرکے غیر معینہ مدت کے لئے پابندیاں لگانا’اختیارات کے غلط استعمال‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ بات یہی ہے اور جب سے دوسری مرتبہ مودی وزیر اعظم بن گئے ہیں، سیاسی طاقت کا غلط استعمال بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہمارے شہر کے محلّوں اور تعلیمی اداروں کے کیمپسس کے اندر پورے ملک میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے کے لئے اگر احتجاجی مظاہرے جاری رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں نے محسوس کرلیا ہے کہ انفرادی طور پر وہ حکومت کی طاقت کے آگے کس طرح بے بس ہوگئے ہیں۔
وزیرا عظم کی شبیہ کو نقصان: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال اس حد تک کیا ہے کہ مظاہرے کے مقام پر جن لوگوں کے موجود ہونے کی شناخت ڈیجیٹل ذرائع سے ہوئی ہے ان کی جائدادیں ضبط کرنا شروع کیا ہے۔ وہ جو چاہے کردینے کے جنون میں اس طرح مست ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مصنفوں، شاعروں، اداکاروں اور عام گھریلو خواتین تک کو جیلوں میں ٹھونس دیا ہے۔ اس عمل سے انہوں نے جس شخصیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، وہ ہیں وزیر اعظم مودی۔
وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا: مودی جب پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑے اور جدید دور کے لیڈر کے طور پر اپنی پہچان بنالی تھی۔ مگر اب وہ شبیہ ناقابل مرمت حد تک بگڑ چکی ہے۔لیکن وزیراعظم کے لئے سب سے زیادہ اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر ان کی شخصیت اور شبیہ کا کیا حال ہے۔ انہیں ’قومیت پرستوں‘ کے جنونی حجرے سے باہر نکلناہوگا، اور احتجاج کرنے والوں سے آگے بڑھ کربات چیت کرنی ہوگی۔انہیں اس پر توجہ دینی ہوگی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے آئین کو اپنے احتجاج کا لائحۂ عمل اور ہندوستانی جھنڈے کو اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ دی انڈین ایکسپریس)
مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
اقتدار کے نشہ میں چور مرکزی حکومت نے آر ایس ایس) (RSS سے ملنے والی فکری رہنمائی کے نتیجہ میں سی اے اے (CAA) جیسا متنازع اور ناقابل عمل قانون بنا کر ایک بڑی غلطی کر رہی ہے، جس کا اسے احساس نہیں ہے، اس ملک کے لیے طلبا کا سی اے اے(CAA)کے خلاف اولین اقدام کے طورپرپرچم احتجاج بلند کرنا ایک مثبت اور خوش آئند عمل ہے،وہ اس ملک کے مستقبل اور کل کے قائد ہیں،پورے ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر آنے والا ہے، وہ حال کے آئینہ میں مستقبل کے تمام حالا ت کو بخوبی دیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس سیاہ اور کالے قانون کی ناپاک دھمک کو سب سے زیادہ انہوں نے ہی محسوس کیا۔کئی ہفتے ہوگئے، مگر ان کے طرز احتجاج میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا،بلکہ دن بدن مزید اس میں استحکام ہی پیدا ہو رہا ہے۔ جس پا مردی اور عزیمت وحوصلے کے ساتھ ان غیور و جرأت مند طلبہ وطالبات نے حکومت کی بر بریت کا ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں آزاد بھارت کا تاریخ ساز کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ جس احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اور جے این یو سے ہوا تھا، اس نے صرف ملک کی یونیورسیٹیوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ آواز بیرون ملک کی عظیم یونیورسیٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی گونج رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی شان میں عظمت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، اوران کے حوصلوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔
CAA اور NRCکے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ابتدا ملک کے انہی طلبہ وطالبات سے ہوئی ہے، ہم ان کے اس جرأت مندانہ قدم کو ملک کے دستور کی حفاظت کے حوالے سے”صور اسرافیل“ سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں اور اس ملک کے سیکولر عوام بھی در اصل طلبہ پر پولس انتظامیہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد ہی میدان میں آئے؛چناں چہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ نے اپنی قربانیوں او رشجاعت وبہادری سے عوام کو بیدار کرنے کا ایک عظیم فریضہ انجام دیا ہے، جو ”نعرے“ وہ اپنے کیمپس اور جامعات کے سامنے لگا رہے تھے، اب وہ امریکہ،کناڈا اور یوکے کی سڑکوں پر سننے کو مل رہے ہیں، آپ نے سیاسی پارٹیوں کے دھرنے اورمظاہرے خوب دیکھے ہوں گے، مگر ان کا مقابلہ طلبہ کے ان مظاہروں سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ کہ طلبہ کے سینوں میں فقط ذوق جنوں،سرشاری کی کیفیت اور زندہ جذبات ہی نہیں بلکہ ان کے دل ملک کے تئیں بے لوث محبت،وارفتگی،جاں نثاری،فدائیت اور بے پناہ خلوص سے معمور ہیں،جن کا اظہار وہ ماہ دسمبر اور جنوری کی ریکارڈتوڑ ٹھنڈک میں بھی کرتے نظر آرہے ہیں،بر سر اقتدار جماعت کے لیے اس میں ایک بڑا سوال بھی ہے اورنصیحت آموز سبق بھی۔
طلبہ اس قدر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟وہ تھکتے کیوں نہیں؟وہ ڈرتے کیوں نہیں؟ وہ رکتے کیوں نہیں؟انہیں کیا ہوگیا ہے؟وہ ان نعروں سے باز کیوں نہیں آتے؟ہم نے تو ان کے قدموں میں ہزار زنجیر یں ڈالنے کی کوششیں کیں، انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اپنی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا، مگر وہ پا بہ جو لاں دار ورسن کی طرف بڑھے جارہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ ہندوستان کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اگر کسی کو ہندوستان کی اصلی تصویر دیکھنی ہو تو وہ ا ن یونیورسیٹیوں کے کیمپس میں چلا جائے،وہاں گنگا جمنی تہذیب،صا ف ستھر ی اور سچی انسانیت،درمندی،بھائی چارگی اور کینہ ونفرتوں سے دورباہمی اخوت ومحبت پر مشتمل بھارت کا جمہوری دستورانسانی شکلوں میں چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں نوع بنوع ذات،برادری،اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف وشفاف ذہن کے طلبہ ایک کالج،ایک کلاس روم میں،ایک ساتھ ایک پروفیسر سے پڑھتے ہیں، اور ایک ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،وہاں کتنی خوبصورت جمہوریت ہوگی،ابوالکلام اور گاندھی جی کے دیش کی کیسی دل فریب تصویر ہوگی، اور ملی جلی تہذیب کا کتنا حسین سنگم ہوگا، اس کا اندازہ طلبہ ہی کر سکتے ہیں،ہمارے طلبہ دراصل اپنے ملک کی اسی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مستقل یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نفرت کے سوداگروں اور مذہبی شدت پسندوں کو ملک کی تعلیم گاہوں کی یہ جمہوری تہذیب بھی راس نہیں آئی اور یہ ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔
یہی وجہ ہے ABVPکے ذریعہ ملک کی فاسسٹ،نازی اور فرقہ پرست طاقتوں نے یونیورسیٹی کی پاکیز ہ فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیا ہے۔طلبہ اس حقیقت کوسمجھ رہے ہیں،اس لئے ملک کی اکثر یونیورسیٹیزمیں طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیابی نہیں ملی، یہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ہر محاذ پر اپنی ذہنیت کے خاص لوگوں کو رکھنا چاہا ہے اس کے پیش نظرانہوں نے شروع سے ہی اپنا کیڈر تیار کرنے کے لیے کالج اور یونیورسیٹیوں کا بھی سہارا لیا،اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)کے نام سے طلبہ کی ملکی سطح پر ایک جماعت تشکیل دی جو مرکزی حکومت کے زیر سایہ تعلیم گاہوں اور جامعات میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا کام کر رہی ہے،گذشتہ اتوار ۵/جنوری ۰۲۰۲ء جے این یو کے طلبہ پر دہشت گردانہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔”ہندو رکشا دل“ نے اس کی ذمہ داری لے کر بہت کچھ چھپایا ہے تو بہت کچھ ظاہر بھی کیا ہے،اس سے پہلے بھی روہت ویمولا اور نجیب کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ملک کی عدالت سے درخواست ہے کہ ان وارادات کے مدنظر ان تنظیموں پرپابندی عائد کی جائے۔طلبہ ملک کی شان اور آبرو ہیں اور بھارت کے مستقبل بھی، ان کی آواز کو پولس کی سفاکانہ اوروحشیانہ رویوں کے ذریعہ دبانا اور ان کوABVP کے دہشت گرد غنڈوں کے حملوں سے لہو لہان کرانا بزدلانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس پر سخت نوٹس لینی چاہئے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ملک دشمن عناصر کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہمیں اس کی عظمت کو پامال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، یہ ایک عظیم لڑائی ہے، جو پر امن طریقے پر آئین اورجمہوریت کی روشنی میں لڑی جارہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناہمارا قانونی اوردستوری حق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار ان کے مطالبات کو پورا کریں،غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اور احتجاج سے ملک کی روز مرہ زندگی کو متأثر ہونے سے قبل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں،اور عوام کو مذہبی بنیادوں پر دوخانوں میں تقسیم کر کے ملک کی یک جہتی اورسا لمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں۔واضح رہے کہ حکمراں جماعت ملک کے آئین کی قسم کھا کر عوامی خدمت کے فریضہ کی ادائیگی کا اقرار کرتی ہے، لہذا حکومت کوہر لمحہ اپنے اس قول وقرار کا پابند رہنا چاہئے اور اپنے اس حلف کو ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہئے۔
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ
شاعروں ادیبوں اور فن کاروں سے ہر غلط آدمی اس لیے گھبراتا ہے کیوں کہ سچ کا سامنا مشکل ہے۔
صفدر امام قادری
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ظلم کا چکّر اور تباہی کتنے دن، کتنے دن۔ ایسے دستور کو مَیں نہیں مانتا ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ وقت اور تاریخ کی نبض پر اُنگلی رکھ کر پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ اور لکیریں نہیں، جمیعتِ انسانی کی آہوں میں شعرا اور ادبا نے بارودبھر کر ظالم اور جابر پر وار کیا ہے۔ ’گیتا‘ میں ہی جب کہہ دیا گیا کہ ’شبد برھم ہے‘۔ اس لیے لفظ نہیں مرتے ۔ شاعر ادیب گزر جاتے ہیں مگر فضائوں میں ان کے لفظ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم بن کر تقاضاے وقت کے تحت ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
حبیب جالب کب کے گزر گئے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوانوں نے جب ہندستانی حکومت کے جبریہ قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو انھیں حبیب جالب کی کئی نظمیں یا د آنے لگیں اور ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔‘ جیسے مصرعے کچھ ایسے موزوں ثابت ہوئے جیسے اُسی دن کے لیے اور اسی تحریک کے لیے یہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر اُتار دیے گئے ہوں۔ حبیب جالب کی آواز سے لے کر درجنوں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور فن کاروں نے اِسے گانا شروع کر دیا۔ اب ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں بنگال سے لے کر کیرل تک یہ نظم گائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کے ایک احتجاجی ظاہرے میں کان پور کے آئی ۔ آئی ۔ ٹی کے طلبا کو فیض کی نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ یاد آ گئی۔ حبیب جالب نے فیض کے نقشِ قدم پر چل کر انقلابی شاعری شروع کی تھی۔ یہاںتو خود بہ نفسِ نفیس فیض نظر آتے ہیں۔ وہ فیض جو انگریزوں سے آزاد ی کو ’داغ داغ اُجالا‘ اور’شب گزیدہ سحر‘ کہہ چکا تھا، اب جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ایک خواب دیکھتا ہے۔ اب سے چالیس برس پہلے جلا وطنی کے دور میں امریکا میں رہتے ہوئے جنوری کی ایک ٹھٹھری صبح میں فیض نے یہ نظم کہی تھی۔ پانچ برس بعد وہ امید اور خوشی کے خواب دیکھتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ فیض، حبیب جالب اور احمد فراز سب کو برِّ صغیر کی آزادی ، خوش حالی، امن و امان اور جمہوری اقدار کی بحالی کے خواب دیکھنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے جیل اور جلا وطنی کا مجرم قرار دیا۔
عجب اتّفاق ہے کہ مذکورہ تینوں شعرا دنیا کے اس خطّے سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے مگر تینوں شعرا جب پیدا ہوئے تو ان کے وطن کا نام ہندستان تھا۔ اڑچن اس بات پر بھی ہے کہ انقلاب کی بات کرنے والے اور اپنی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے بول بولنے والے یہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بھی اُسی پاکستان میں دفن ہوئے ۔ اب ہندستان میں ایک ایسی نسل پل بڑھ کر حکومت کر رہی ہے جسے یہ تمام لکھنے والے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی بات کرنا اور سچ بولنا اس حکومت کو بغاوت کی بات لگتی ہے۔ جب یہ بات پاکستانی شاعر اور نثر نگار کی زبان سے ہو تو حکومتوں کا یا ان کی ہم خیال جماعتوں کا تلملا جانا فطری ہے۔ اسی لیے جانچ کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے نتائج میں آخر آخر یہ بات سامنے آئے گی کہ چوں کہ ان مظاہرین نے ہندستان کے دشمن ملک پاکستان کے شعرا کا کلام پڑھا، ا س لیے ان پر بغاوت کا مقدّمہ چلناچاہیے۔ میرٹھ کے ایس۔ پی۔ نے ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی گالی دیتے ہوئے جو ہدایت پیش کی ، اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان آپ نے کیوں دیا تو انھوںنے ان مظاہرین کے نعروں میں پاکستان کے الفاظ تلاش کیے۔ اس لیے جہاں جہاں ایسی نظمیں پڑھی جائیں گی، موجودہ عہد کے حکمراں اور ان کے انتظام کار ہمیں پاکستانی قرار دے کر ہم پر مقدّمہ چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
وہ دن گئے جب ہندستان کا وزیرِ اعظم برِّ صغیر ہی نہیں تیسری دنیا کی قیادت کی بات کرتا تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کی شناخت عالمی سطح کی سیاست اور ہندستان کی ناوابستگی سے جانی جاتی تھی۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص ساری کمیونسٹ حکومتوں کے لیے ہندستان ایک محبوب جگہ تھی۔ عالمی سیاست اور حکومت سازی کا یہ سبق، جنگِ آزادی کی یہ تحریک اور خاص طور سے ہندستان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے ہندستان کے عوام اور خواص کے لیے ماٹن لوٗ تھر کنگ بھی اپنے تھے اور نیلس منڈیلا تو صد فی صد ہندستانی ہی معلوم ہوتے تھے۔ انقلاب کے مغنّیوں کے طور پر ہمیں ناظم حکمت اور پابلو رنرودا اور مایا کونسکی ، سب کے سب اپنے معلوم ہوتے تھے۔ پِکاسو اور مونے ویسے ہی لگتے تھے جیسے رضا اور حسین۔ ششدر شرما اور پاش، زلفیہ بِن جا مِن مولایس___سب ایک ہی مزاج کے فرد تھے اور ایک ہی کارواں کے مسافر۔ سب ہمیں ظلم سے بچا نے اورانصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہواہوتا تو ہندستانی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے اندھی سرنگ میں بند ہوتے اور سب ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجدوں میں دم گھٹنے سے مر چکے ہوتے مگرایسا نہیں ہوا۔تیلگووالا اردوکو پسندکرتا ہے اورہندی کا شاعر فارسی کا دیوانہ ہے۔ رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے لے کر فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید اور پروین شاکر تک آزادیِ اظہار پر مرمٹنے والی خواتین کے راگ اور بول پر کئی نسلوں نے اپنی زندگی بدلی۔
آج کے وزیرِ اعظم تو سیاست دانوں میںسب سے بڑے سیلانی ہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن ایک نئے ملک کی سیر کرکے لوٹتے ہیں مگر بین الاقوامی پالسی کا یہ حال ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان و نیپال سے بھی ہم وار رشتے قایم نہیں رکھ سکتے ۔ عالمی سیاست اور مریکا روٗس پر اُن کے کہے کا کیا اثر ہوگا، وہ سری لنکا اور برما سے بھی توازن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط نہیں کر سکتے۔ وہ ایسے نقطۂ نظر کے پروردہ ہیں جسے اپنے ملک کو بھی ایک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنانے میں دل چسپی نہیں ۔ عافیت اور شانتی، امن و امان اور محبت و خیر سگالی کے الفاظ اور جذبات ان کی سیاست کے موافق نہیں، اس لیے وہ کوئی بڑا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
آج کی حکومت کو بڑے بول بولنے اور اپنی بات سنانے میں زیادہ دل چسپی ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کو جمہوریت میں اس لیے وقار حاصل ہوا کیوں کہ یہاں مختلف نقطۂ ہاے نظر کے افراد تبادلۂ خیال کرکے کوئی روشن اور زیادہ معقول راستہ تلاش کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو اپنے نقطۂ نظر پر اتنا بھروسا ہے کہ وہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کے سارے سیاست دان بھی یک رائے ہو جائیں تب بھی وہ ایک اِنچ اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہندستان کی سرحد کا معاملہ نہیں ہے، قانون بنانے اور ملک کے باشندوں پر قانون کے نفاذ کا سوال ہے۔ جس کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور آئینی نہ جانے کتنے پہلو ہیں مگر بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی اور کسی ترمیم کی گنجایش نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بغیر کسی گفتگو کے قانون شب خونی انداز میں منظور کر لیے جاتے ہیں۔
حبیب جالب اور فیض سے خوف آخر کیوں کر آیا؟ بھگت سنگھ سے انگریز حکومت کیوں ڈرتی تھی۔ اشفاق اللہ اور کھدی رام بوس کی عمر ہی کیا تھی مگر اُن کے سچ بولنے سے سب کو خوف آتا تھا۔ آج کی حکومت ہر سچے آدمی سے ڈرتی ہے۔ ہر حقیقت پسند سے بھاگتی ہے۔ ہر سچے مسئلے کو دوٗر سے ہی سلام کرتی ہے۔ کاہے کو غریبی اور بے کاری سے رشتہ رہے۔ بے روزگاروں کو ہی ختم کر دینے کا منصوبہ ہے۔ دلِت اور اقلیت آبادی کو وہاں پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں عزّتِ نفس کے ساتھ جینے سے بہتر مر جانا معلوم ہوتاہے۔
اب نوجوانوں کی باری ہے۔ پہلے یونی ورسٹیاں دنیا میں نئے خواب دیکھنے کے لیے گھر آنگن ہوتی تھیں۔ ہماری تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے چہکتے ہوئے نغمہ ریز پرندے تھے۔ زندگی اُڑتی گاتی اور مسکراتی ہوئی ایک نئی دنیا پیدا کرتی تھی مگر یہاں پانچ ٹرلین معیشت پانے میں ہمارے نوجوان جیلوں کی سلاخوں میںبند ہو جائیں یا بحرِ ہند میں غرقاب ہو جائیں، کسی کو کیا پڑی ہے۔ سڑکوں پر گلیوں میں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ کتب خانوں میںطلبا کو لاٹھیاں اور گولیاں لگ رہی ہیں۔ ٹھٹھری ہوئی راتوں میں سڑکوں پر معصوم عورتیں اپنی بے زبان اولادوں کے ساتھ نئی زندگی کا خواب لے کر اُتر رہی ہیں۔ فیض اور جالب ہی نہیں ان کے ہزاروں مردہ اور زندہ ساتھی ہم رکاب ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد مردہ فیض ظالموں کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تو جو زندگیاں سڑکوں پر ہیں ان کی طاقت کا ابھی ظالموں کو اندازہ نہیں ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم کے مصرعے یا دآتے ہیں:
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ میرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ میں شعبۂ اردوکے صدر ہیں
Email: [email protected]
بڑی تعداد میں طلبہ اور پروفیسر زخمی، طلبہ تنظیم کی زخمی صدر آشی گھوش نے اے بی وی پی کو ذمہ دار قرار دیا، پولس پر خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی ایماء پر جے این یو حملے کے خلاف دہلی پولس ہیڈکوارٹر کا گھیراؤ ، بڑی تعداد میں طلبہ جمع ، حالات سنگین، کیجری وال اور گورنر نے حملے کی مذمت کی، دہلی حکومت نے زخمی طلبہ کی نگہداشت کے لیے ۱۰ سے زائد ایمبولینس روانہ کیے
نئی دہلی-۵/جنوری(محمدعلم اللہ کی رپورٹ) آج اطلاعات کے مطابق ایک گروپ نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں گھس کر حملہ بول دیا جس میں بڑی تعداد میں طلبہ و اساتذہ زخمی ہوگئےـ تفصیلات کے مطابق بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے غنڈوں نے یہ حملہ کیا وہ سبرامتی ڈھابا کے پاس لاٹھی ڈنڈے اور دیگر ہتھیار سے لیس ہوکر بڑی تعداد میں پہونچے تھے اور انہوں نے اضافہ شدہ فیس کے خلاف احتجاج کررہے طلبہ پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں جے این یو طلبہ یونین کی صدر آشی گھوش شدید طور پر زخمی ہوگئیں انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پر نقاب پوش غنڈوں نے حملہ کیا اور اس طرح سے پیٹا کہ میں لہولہان ہوگئی_ پروفیسر سچترا سین کو زخمی حالت میں ایمس میں داخل کیا گیا ہے، جے این یو ٹیچرایسوسی ایشن نے یہ تصدیق کی ہے کہ اے بی وی پی کے نقاب پوش غنڈے کیمپس میں لاٹھیوں، لوہے کے چھڑوں اور ہتھوڑوں سے لیس تھے- ایک طالب علم کے مطابق پولس کو بار بار فون کیا گیا مگر وہ کسی کو بچانے نہیں آئی- پروفیسر اتل سود نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ بڑی تعداد میں غنڈے ساڑھے چھ بجے شام کیمپس میں گھسے تھے اور وہ بہت بڑے بڑے پتھر پھینک رہے تھے، اتنے بڑے پتھر کے سر کے ٹکڑے ہوجائیں، اس حملہ میں میری کار بھی بری طرح سے تباہ ہوگئی ہے. طلبہ یونین کے نائب صدر ساکیت مون نے کہا کہ نقاب پوش غنڈے ہاسٹل کے ہر کمرے میں گھس رہے تھے اور جو بھی سامنے نظر آرہا تھا اس پر حملے کررہے تھے، سیکوریٹی گارڈ اور پولس تماشائی بنی ہوئی تھی-ایک عینی شاہد طالب علم محمد ظفر (بدلا ہوا نام) نے بتایا کہ تقریبا سات بجے رات کے قریب دو سو سے زیادہ اے بی وی پی کے غنڈےسروشتی پورم گیٹ کے راستے جے این یو کیمپس میں داخل ہوئے کیونکہ پولس نے مرکزی شمالی دروازے کو بند کیا ہوا تھا-ایک اور دیگر طالب علم نے بتایا کہ حملہ منصوبہ بند تھا، نقاب پوش غنڈے پورے کیمپس میں دندناتے، توڑ پھوڑ مچاتے پھرے اور جو بھی طالب علم سامنے نظر آتا اس سے جے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہتے اور نہ لگانے پر اس پر ٹوٹ پڑتے- جے این یو کے طلبہ کا الزام ہے کہ پولس غنڈوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی – ایم اے عربک سال آخر کے طالب علم محمد زعیم (بدلا ہوا نام) نے نامہ نگار سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، صبح سے ہی طلبہ کے اوپر کئی بار حملہ ہوچکا تھا، شام کو سابرمتی ہاسٹل کے پاس صورت حال سنگین ہوگئی، جب اے بی وی پی کے نقاب پوش غنڈوں نے نہتے طلبہ پر حملہ کردیا اور لاٹھی ڈنڈے اور راڈ ہتھوڑوں سے ان پر ٹوٹ پڑے، جس میں بڑی تعداد میں طلبہ و اساتذہ زخمی ہوگئے، یہ پورا واقعہ پولس کی سرپرستی میں ہوا، ہم طلباء ابھی خوفزدہ اور سہمے ہوئے ہیں اس لیے مزید گفتگو کرنے سے قاصر ہیں- دریں اثنا جے این یو کی انتظامیہ نے طلبہ سے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولس کو حالات پر قابو پانے کیلیے بلا لیاگیا ہے، وہیں جے این یو سے گریجویشن کررہے ایک طالب علم نے نمائندے کو بتایا کہ رات سوا نو بجے پولس نے پورے کیمپس کو باہر سے اپنے حصار میں لے لیا ہے اور اندر تقریبا دو سو کے قریب سول ڈریس میں اے بی وی پی کے غنڈے اور پولس کے افراد توڑ پھوڑ اور طلبہ کو مار پیٹ رہے ہیں- طلبہ یونین کے آفیشیل ہینڈل سے ٹوئٹ کیا گیا ہے کہ وہ پروفیسر حضرات جو ہمیں بچانے کی کوشش کررہے تھے ان پر اے بی وی پی کے نامعلوم غنڈوں نے حملہ کیا جو نقاب پہنے ہوئے تھے، اس ٹوئٹ میں یہ اپیل کی گئی ہے کہ ہیومن چین بناکر ہماری حفاظت کی جائے- ادھر جامعہ کے طلباء نے اس حادثہ کے بعد پولس ہیڈ کوارٹر کے گھیراو کی اپیل کی تھی جس پر طلبہ نے بڑی تعداد میں وہاں پہنچ کر اس کا گھیراو کیا اور دہلی پولس ہائے ہائے کے نعرے لگائےـ طلبۂ جامعہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کی انکوائری کرے اور خاطیوں کو فوری سزادے دے. تحریر لکھے جانے تک جے این یو کے حالات انتہائی سنگین ہیں- دہلی حکومت نےزخمی طلبہ کو ایمس کے ٹراما سینٹر پہنچانے کیلئے دس سے زائد ایمبولینس بھیجی ہیں اور دہلی کے وزیر اعلی کیجری وال نے اس سارے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے- وہیں دہلی کے لیفٹینٹ گور انل بیجل نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ طلباء اور اساتذہ کے خلاف جے این یو میں ہونے والا تشدد انتہائی قابل مذمت ہے۔ دہلی پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جے این یو انتظامیہ سےمل کر امن و امان برقرار رکھے اور تشدد کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرےـ
https://youtu.be/eRIAezYKUf8
رابطہ: 8860931450
14/12/19سے شمال مشرقی ریاستوں میں CAB کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ 9/12/19کو پارلیمنٹ سے اس کے پاس ہونے کے بعد پورا ملک CAAکے خلاف سڑکوں پر اتر آیا، ملک کی مایہ ناز 25 یونیورسٹیز CAAکے خلاف میدان عمل میں آگئیں اوراب اس احتجاج پرایک ماہ کاعرصہ بیت گیا، خواتین بچے، بوڑھے، جوان خون جمادینے والی سردی میں بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ، 26 شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہیں، ہزاروں گرفتار ہیں، پولیس کی بربریت الگ۔اس سب کے باوجود یکم جنوری 2020کو مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ Minister of State for Home Affairsجے کشن ریڈی وارانسی میں پوری ڈھٹائی اور رعونت کے ساتھ کہتے ہیں کہ CAAکو ہماری حکومت واپس نہیں لے گی، شہریت (ترمیمی) قانون میں جو بھی ترامیم کی گئی ہیں، ان سے کسی بھی طرح سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ (راشٹریہ سہارا، 2؍جنوری 2020، صفحہ 1) ایسی سنگ دل حکومت کے خلاف آخر دم تک لڑنا چاہیے:
اس شہر سنگ دل کو جلادینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمیں پر
اک حشر اس زمیں پہ اُٹھا دینا چاہیے
ہم احتجاج کریں ، پُرامن مظاہرے کریں ، ہم دائرۂ ”امن و قانون“ میں رہتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس سے ملک کا آئین مضبوط ہو ، یہ ملک کسی ایک کمیونٹی ، مذہب، ذات ، فرقے کا نہیں ہے، یہاں پر نہ کوئی اکثریت ہے اور نہ کوئی اقلیت، یعنی ایسی کوئی کمیونٹی، ذات یا فرقہ نہیں ہے جو تن تنہا 60فیصد ہو، ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہر غیرمسلم ، چڈھی پہننے والے رنڈوے یعنی آر ایس ایس نہیں ہے،ہر ہندو بھی ہندو نہیں ، اعلیٰ ذات کے ہندو بھی گوتروں میں منقسم ہیں، چٹرجی، بنرجی، تیواری ، مکھرجی، چکرورتی، جھا، پانڈے، پراشر، دترے، مشرا، شرما وغیرہ۔ اور پسماندہ طبقات کو 6745حصوں میں تقسیم کردیاگیاہے۔ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی اور مسلم رہے الگ۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اور ذات کی بنیاد پر قانون سازی بالآخر برہمن ازم کی فرعونیت و بالادستی کو وجود میں لائے گی، جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تمام انسان ہماری خدمت کے لیےپیدا کیے گئے ہیں، اس لیے جس کے پاس جو کچھ بھی وسائل ہیں یا جو بھی طریقۂ احتجاج استعمال کرسکتا ہو، ضرور کرے۔ بھوک ہڑتال کرے، خاموش احتجاج کرے، جیل بھرے، کینڈل مارچ نکالے ، دھرنا دے، جلسے جلوس منعقد کرے، ہر دس آدمی کا ایک گروپ، 2 میمورنڈم ضرور دے ایک سپریم کورٹ کے ”چیف جسٹس“ کے نام اور دوسرا ”صدر جمہوریہ“ کے نام ، خیال رہے کہ میمورنڈم کے بغیر احتجاج کی کوٸی اہمیت نہیں ،بینکوں سے جمع شدہ رقم نکال کر معاشی دبائو Economic Pressureڈالیں، عربی قلم کاروں کو چاہیے کہ اپنے قلم کی روانی سے عالم عرب کو بیدار کریں، انگریزی قلم کاروں کو چاہیے کہ مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو جھنجھوڑ یں، غرض جو انسان جو کچھ بھی کرسکتا ہو، کرے۔ علانیہ پلاننگ کریں، خفیہ پلاننگ کریں، ملاقاتیں کریں، آگے آنے والوں کو حوصلہ دیں، پیچھے ہٹنے والوں کی ڈھارس بندھائیں، بالخصوں امت مسلمہ اپنی پوری طاقت جھونک دے۔ ہم بھارت کو دوسرا فلسطین ، دوسرا برما، دوسرا سنکیانگ نہیں بننے دیں گے، چاہے جو قربانی دینی پڑے:
بڑھ کر طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل تو گیا
مسلمانو! یہ وقت ہے اُٹھ کھڑے ہونے کا، کچھ کر گزرنے کا، تاریخ رقم کرنے کا، قربانیاں دینے کا، ڈٹ جانے کا، اَڑجانے کا، مسلم قیادت پر لازم ہے کہ اتحاد کا ثبوت دے، میٹنگوں اور ملاقاتوں سے آگے بڑھ کر سیکولر ہندو دیگر مذاہب و فرقوں کی تنظیموں کو ساتھ لے کر صاف اور واضح اعلان کرے اور آخر دم تک امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کو بچانے کی قسم کھائے:
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیاہے کہ کہیں احتجاج کمزور نہ پڑجائے، وہ لکھتے ہیں :
’’یاد رکھنا چاہیے کہ ملک بھر میں احتجاج میں شامل نوجوان مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ ایسا طبقہ ہے جس کے ہاتھ میں کسی بھی سطح پر اقتدار نہیں ہے، اس لیے اندازہ ہے کہ جلد ہی ان کا جوش و خروش سرد ہوجائے گا اور وہ اپنی ملازمت اور کیرئر کو لے کر فکرمند ہوجائیں گے۔ ان پرُجوش نوجوانوں کے والدین بھی جلد ہی ان پر دبائو ڈالنا شروع کردیں گے کہ وہ نیتاگری ترک کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔ دراصل کچھ نوجوان جو اس احتجاج میں شریک ہیں ، انہوں نے مجھے بتایاکہ ان کے والدین ان سے کافی ناراض ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ جلد ہی احتجاج کا جوش و خروش ختم ہوجائے گا، دوسری طرف یہ بھی محسوس کیا جارہاہے کہ بی جےپی حکومت کے لیڈران ایسا فیصلہ لے سکتے ہیں کہ قوت قہاری کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیاجائے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ہوچکاہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ’جب پڑی مار شمشیراں کی تو مہاراج میں نہیں ہوں ‘ اس لیے جب پولیس کا بے رحم ڈنڈا چلے گا تو نوجوان کے دل و دماغ کا انقلابی بخار ختم ہوجائے گا، اس کا مجھے خدشہ ہے۔‘‘
اس قسم کے ”خدشات“ کو سامنےرکھتے ہوئے تمام ”غیربی جے پی“ بھارتیوں کو مورچہ سنبھالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، ڈٹے ہوئے حضرات کو بھرپور تعاون و حوصلہ بھی دیں اور ان کے متبادل کےطورپر بھی تیار رہیں۔
شاعروں ، ادیبوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی نہ تو کوئی ذاتی سرحد ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی اپنا خاص’ مذہب‘ اورنہ کوئی واجبی شعار؛بلکہ یوں کہہ لیں کہ اکثر تو اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ’بے دین‘، ’مذہب بیزار ‘اور ملحد ہی واقع ہوئے ہیں ۔ان لوگوں کو ایک رنگ و قوم اورمذہب میں قید کرکے رکھنا ’بے معنی‘اوران کے نظریے کے ساتھ زیادتی ہے۔ان کی طبیعت جس چیز کی طرف مائل ہوگئی ، وہ اسی رنگ میں رنگ گئے۔کبھی انہیں حرم میں دیکھا گیا ، تو کبھی انہوں نے ’مے خانہ ‘ کو ہی اپنا ’حرم‘ بنالیا، حرم و کلیسا کی کشاکش میں اس قدر مغلوب ہوئے کہ ان کے لیے نعوذباللہ حرم کی’ حقانیت‘ پر کلیسا کی ’مکاری‘ بازی لے گئی۔وہ تو اس قدر مغلوب الحال واقع ہوئے کہ محبوب کی شکل کو ہی خدا مان لیا اور اپنا سر بصد عجز و نیاز خم کردیا۔محبوب کبھی بتوں میں عیاں نظرآتا ہے تو کبھی یہی محبوب فضاؤں میں رقصاں نظر آتا ہے ۔ در اصل شعرا کی برادری اپنی خود وضع یا ’خداداد‘ دنیا میں مگن رہتی ہے ، ان کے نظر میں دنیا تمام حدود و قیود سے مبرا اور تمام موجودہ رسوم و رواج سے عاری ہے ۔ہر رنگ میں شعراکو ان کا اپنا مطلوب و محبوب نظرآجاتا ہے:
جدھر دیکھتا ہوں ، جہاں دیکھتا ہوں
تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں
غالبؔ بیچارہ آخر عمر تک کلیسا کی دیوار سے چپکا رہا ،حرم انہیں آواز دیتا رہا،مگر ا س آواز کو التفات کے قابل نہ سمجھا ، گرچہ بعد از مرگ خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کی نگری میں آخری جگہ ملی ۔ بیچارے میر ؔ تو قشقہ کھینچ کر ایسے دیر نشیں ہوئے کہ ترک اسلام بھی کرلیا،گرچہ وہ ساری عمرمسلم ’عطار کے لونڈے ‘ سے اپنے مرض کی دوالیتے رہے ۔ بالآخر انہیں بھی اسلامی طور طریقہ سے پیوندِ خاک کیا گیا ۔ ان دونام کے علاوہ کئی اسما ایسے ہیں جنہوں نے مکمل طور پر مذہبی شعائر سے خوب خوب استعارہ کیا۔اور اس پر دینی حلقہ کی طرف سے میرے علم کے مطابق ’نکیر ‘ بھی نہیں کی گئی ۔ علاوہ ازیں شعرا کی جماعت نے مذہبی شعائر سے استعارہ کے ساتھ تضحیک و تذلیل کا کوئی دقیقہ فروگزاشت بھی نہ کیا، اس سے اردو ادب بھرا پڑا ہے ، جس سے خواجہ حالی ؔ سخت نالاں بھی ہوئے ۔ جب یہ دیوانے اردو کےشعرااپنے محبوب کے ’آبِ زنخداں‘ کو کوثر و تسلیم سے فائق و افضل تصور کرسکتے ہیں ،تو پھر ان جیسے لوگوں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔تاہم یہ بات سچ اور تلخ ہے کہ جتنی تضحیک اردو مع فارسی کے شعرا نے اسلامی شعائر کی، کی ہے ، اتنی شاید ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں کی ہوگی ،لیکن اس کے بعد بھی ہم ان شعرا کے کلام کو پڑھتے ہیں ، اور اسے اپنا ادبی ورثہ بھی قرار دیتے ہیں ، یہ ہماری وسعت ظرفی کی ایک مثال ہے ۔
گزشتہ دنوں معروف ترقی پسند شاعر؛بلکہ ترقی پسندتحریک کے سربراہوں میں سےایک فیض احمد فیضؔ کی نظم ’ ہم دیکھیں گے ‘ پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ تنازع نہیں تھا؛بلکہ تنازع پیدا کرنے والوں کی ابلہی ، حماقت ، جہالت ، کور مغزی ،شدت پسندی اور زعفرانیت تھی کہ وہ صرف ایک مصرع پر بھڑک گئے ،فیاللعجب، جب کہ ہم نے تو برسوں سے ترقی پسندوں کی ’لفظی شرانگیزی‘ قلم کی شدت پسندی اور اسلام کے مقدس شعائرکی ’تضحیک و تذلیل ‘ برداشت کی ہے ، ان کا ظرف اتنا بے مایہ ٹھہرا کہ وہ ’بت ‘ ، ’اللہ ‘، ’کعبہ ‘ ، وغیرہم اسلامی شعائر سے استعارہ کے طنز کو سمجھ نہ سکے ۔تنازع پیدا کرنے والوں کو کم از کم فیض احمد فیضؔ کی شاعری کا پس منظر ،ان کی ذاتی زندگی، شخصیت نیز خصوصی طورپر اس نظم کاپس منظرتلاش کرنا چاہیے کہ یہ نظم کس پس منظر میں کہی گئی ہے ۔ اردو ادبی دنیا اس سے واقف ہے کہ فیضؔ احمد فیضؔ کی یہ نظم جنرل ضیاء الحق کی ملوکیت و قلمرو کیخلاف لکھی گئی تھی ۔ ضیاء الحق چونکہ اسلام پسند واقع ہوئے تھے ، اس لیے اسلامی شعائر سے استعارہ کے ذریعے جنرل ضیاء الحق پر طنز کیا گیاہے اور طنز و تنقید کا ہر ایک کو حق ہے ،البتہ جذبات کا خیال رکھنا لازم ہے۔یہ المیہ ہے کہ ہم برسوں سے اردوشعرا کی ذہنی عیاشی ،قلمی دھینگا مشتی ،فکری ابلہی اور ترقی پسندی کے نام پر اسلامی شعائر کی تضحیک و تذلیل اور اس سے بڑھ کر ’انکار و منع‘ کو برداشت کرتے آرہے ہیں ؛لیکن وہ ایک استعارہ کی زبان نہ سمجھ سکے؟اس فہم پر تُف ہے ۔ یہ ان کی کم ظرفی ہے کہ اپنے ہی ہم مشرب و ہم مسلک فیض احمد فیضؔ سے بھڑک گئے اوربت پرستی کے زعم کے باوجود ’بت ‘ ، ’ارضِ خدا‘ اور ’ کعبہ ‘ کی تفہیم سے کلی گریز کا عندیہ دے دیا ۔ خیال رہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ تو اردو کی ابجد کا علم ہے اورنہ ہی شاعری سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں ، نہ استعارہ کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ کبھی ان فنون سے ان عقل کے ماروں کو واسطہ پڑا ہے ۔بس ہنگامہ آرائی اور ماحول کو نفرت کے زہر سے مسموم کئے رکھنا ہے ۔ واقعی وہ اپنے عمل میں حق بجانب ہیں، توکم ازکم ایک باربنظر انصاف برج نرائن چکبست، آنند ملاؔ ،اور فیضؔ کے ہم عصر سمجھے جانے والے رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کی شاعری اور ان کی شاعری میں استعمال کئے ہوئے استعاروں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ؛لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ان کی شاعری لغات و شروحات کے بعد بھی سمجھنے سے قاصررہیں گے؛کیوں کہ خدا نے ان کی فکری نجاست وذہنی پراگندگی کے باعث اس کی مبارک و مستحسن تفہیم سے محروم کر رکھا ہے ۔درحقیقت وہ قرآنی آیت ’صم بکم عمی فہم لا یعقلون‘ کی عملی و صوری تفسیر ہیں ، تو پھر کیوں کر انہیں اس کی بصارت و بصیرت میسر ہو؟وہ تمام عقل و فکر اور فہم و فراست سے کلیۃً عاری ہیں ۔
فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی شاعر تھے ، ان کا نظریہ بہت حدتک سات سمندر پار روسی اشتراکیت کا آمیزہ تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا خمیر اس مٹی سے بنا تھا ، جس مٹی سے شاعرمشرق علامہ اقبالؔ کاخمیر تیا رہوا تھا ، دونوں بزرگوار پاکستان کے ’سیالکوٹ ‘ سے تعلق رکھتے تھے ۔ دونوں کی پیدائش متحدہ ہندوستان میں ہوئی تھی ،وہ سچے ہندوستانی تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جناح اور نہرو کی نظریاتی جنگ کے باعث فیضؔ پاکستان کے ہوکر رہ گئے۔ فیضؔ کی شاعری کل بھی زندہ تھی ، آج بھی زندہ ہے ۔ اسی زندگی نے فیضؔ کی نظم کو وہ ’ہتھوڑا‘بنادیا ہے جس سے بھگوائی سکون سے محروم ہیں ۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ ان کے طنزکو وہ حقیقت سمجھنے لگے ، ان کے استعارہ کو ’تلوار‘ سمجھنے لگے اور ’ارضِ خدا‘ سے وہ اس’ حقیقت ‘کا ادراک کر بیٹھے کہ جس کی پیشین گوئی سرورکائنات ﷺ نےفرمائی ہے۔جیسا کہ فیضؔ کی شاعری سے منشرح ہوتا ہے ۔ ابوداؤد شریف اور نسائی شریف میں وہ حدیث مبارک درج ہے، وہاں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔درحقیقت یہ تنازع سرے سے ہی بے بنیاد ہے ؛کیوں کہ فیض احمد فیضؔ ایک اشتراکی نظریہ کے شاعر تھےاورانہوں نے کبھی بحیثیت مسلمان اس امر کو قبول و تسلیم کیاہی نہیں ، جس کی وضاحت ہمارے ملک کے بھگوا دھاری شدت پسند اور انتہاپسندکرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ فیضؔ کے مبینہ ’ بت ، کعبہ ، حرم،ارضِ خدا اور ’نعرۂ اناالحق ‘ سے خوف کھا گئے، فیضؔ نے تو ہمیشہ جس خلق خدا کی بات کی ہے، خوداس خلقِ خدا کی حقوق کے لئے لڑائی آرایس ایس کرچکی ہے،حکومتِ وقت کے کارندوں کے ہاتھوں پٹ چکی ہے، جس کی شہادت ممبئی کی سرزمین دیتی ہے ۔فیض ؔ کے نزدیک حرم جو تھا ، وہ حرم تو آج ان کے گھروں میں موجود ہے ۔تو پھر یہ ہنگامہ کیا بپا ہے ؟ دراصل جو بزدل ہے ، وہ فیضؔ کے الفاظ کی کاٹ اور انقلابی خو سے خوف کھا گیا ہے ، وہ اس بات سے ڈر گیا ہے کہ مبادا کہیں اس کے سیاہ کارناموں کیخلاف جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ، اس طوفان میں اس کے تخت و تاج بھی خس و خاشاک کی طرح اڑ نہ جائیں ۔ ان کا خوف اور ان کی سراسیمگی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ:
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
جامعہ کے طلبہ نےاحتجاج کے ۲۳؍ ویں دن حراستی کیمپ بناکر حکومت کی عصبیت کو بیان کیا
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ میں جاری احتجاج کا آج ۲۳؍واں دن تھا۔طلبا کے بھوک ہڑتال کا چوتھا دن ۔ حسب معمول آج کے احتجاج میں بھی بڑی تعداد میں جامعہ کے طلبہ سمیت اطراف واکناف کے شہریوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر جہاں لوگوں نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف نعرے لگا کر اپنے غم وغصے کا اظہار کیا وہیں کئی نامور ہستیوں نے مظاہرین کو خطاب کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں ایس ایف آئی دہلی کے صدر سمیت کٹاریہ ، معروف سماجی کارکن رادھیکا گنیش، زی نیوز سے استعفیٰ دینے والے ناصر اعظمی،فلمی دنیا کے مشہور ویلن ناصر علی، بی اے پی ایس اے کے ممبر قریش احمد، الہ آباد یونیورسٹی ٹیچرایسوسی ایشن کے سابق صدر رام کشور شاستری، ایڈوکیٹ انس تنویر صدیقی، دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے سابق صدر ادت نارائن مشرا اور جامعہ اسلامیہ اسٹونڈنٹس اکٹویسٹ کمیل فاطمہ شامل ہیں ۔آج بھی حسب معمول طلبہ نے الگ الگ انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا۔جامعہ گیٹ نمبر ۱۰ پر طلبۂ جامعہ نے پنجرہ نما حراستی کیمپ بناکر ڈٹینشن سینٹر کی عقوبت اور حکومت کی عصبیت کو دکھانے کی کوشش کی ۔اس موقع پر طلبہ نے بتایاکہ یہ بھی مخالفت کے لیے ہی بنایاگیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، اور نا ہی ہم ڈٹینشن سینٹر جائیں گے، یہیں پیدا ہوئے ہیں یہیں دفن ہوجائیں گے۔ دوسری جانب جامعہ سے منسلک فٹ پاتھ لائبریری ، مختلف النوع آرٹ اور کرافٹ بناکر بھی طلبہ نے اپنا احتجاج درج کرایا۔ آج کے اس احتجاج میں تقریباً سبھی مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان میں امن اور بھائی چارے کے قیام ہی میں ملک کی سالمیت وبقا ہے۔ مقررین نے کہاکہ ہندوستان ایک کثیر جہتی اور کثیر ثقافتی اور مذہبی ملک ہے جس پر کسی ایک کلچر اور ثقافت کو زبردستی نہیں تھوپا جاسکتا۔ موجودہ حکومت جس انداز میں ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کررہی ہےہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کا یہ احتجاج ایک انمول اور انوکھا احتجاج ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نوجوان واقعی کسی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں اور وہ بذات خود اپنی اور اپنے آس پاس کے ماحول کی حفاظت کرناجانتے ہیں۔ ادھر شاہین باغ کا احتجاج بھی پورے جوش وخروش ،عزم وولولے کے ساتھ جاری رہا، بزرگ خواتین سے لے کر چھوٹی چھوٹی بچیاں ہم لے کر رہیں گے آزادی ، ہم لڑ کر لیں گے آزادی، ہم بھی دیکھیں گے ، انقلاب زندہ باد جیسے نعرے لگا رہی تھیں اور اپنا احتجاج پوری شدت سے جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا، انھوں نے کہا کہ حکومت جب تک یہ قانون واپس نہیں لے لیتی ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔
جھارکھنڈ میں نومبر – دسمبر 2019 میں ہوئے حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں ،اور اقلیتوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں ـ تین دہائیوں کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی انچاس سے پچیس پر سمٹ گئی ہے ، تین دہائیوں سے بی جے پی اس علاقے کی سب سے بڑی پارٹی رہی ہے ، اس علاقے کی کل اکیاسی نشستوں میں سے اٹھارہ (18) تا سینتیس (37) سیٹیں اسے اسمبلی انتخابات میں ملتی رہی ہیں،اورنومبر دو ہزار میں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت وہ بتیس سیٹوں کے ساتھ جھارکھنڈ کی سب سے بڑی پارٹی تھی ،(فروری دوہزار میں ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں کل تین سو چوبیس ارکان والی اسمبلی میں بی جے پی کو کل سڑسٹھ (67) سیٹیں ملی تھیں ،اور ان میں بتیس جھارکھنڈ میں آگئی تھیں ،)اور اس نے جنتادل یو اور سمتا پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی ـ
اس علاقے کی دوسری سب سے بڑی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہے اور اس کو بارہ تا انیس سیٹیں ملتی رہی ہیں ، جھارکھنڈ بننے کے وقت اس پارٹی کے پاس صرف بارہ سیٹیں تھیں ـ
تیسرے نمبر کی پارٹی کانگریس ہے اور اس کو اس علاقے میں چھ تا چودہ سیٹیں ملتی رہی ہیں، جھارکھنڈ کے قیام کے وقت کانگریس کے پاس جھارکھنڈ میں کل گیارہ سیٹیں تھیں ـ
چوتھے نمبر کی پارٹی راشٹریہ جنتادل ہے، فروری دو ہزار کے بہار اسمبلی الیکشن میں آر جے ڈی کو کل ایکسو چوبیس سیٹیں ملی تھیں جھارکھنڈ کے قیام کے وقت اس کے پاس جھارکھنڈ میں کل نو سیٹیں تھیں ، دوہزار پانچ(2005) میں سات ،اور دوہزار نو(2009) میں پانچ سیٹیں ملی تھیں ،دوہزار چودہ میں آر جے ڈی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی ـ
کانگریس اور آر جےڈی نے دوہزار پانچ تا دوہزار تیرہ چار بار جے ایم ایم کو وزارت علیا کی کرسی تک پہنچایا، مگر ان تینوں کے ممبران اسمبلی مل کر بھی اکتالیس ممبران اسمبلی نہیں ہوتے تھے ،اور دیگر چھوٹی پارٹیاں ہمیشہ جے ایم ایم کو دھوکہ دے دیتی تھی ـ
جے ایم ایم کے شیبوسورین نے تین بار وزارت علیا کا حلف اٹھایا ،وہ پہلی بار دس دن ،دوسری بار چار ماہ تیئیس دن اور تیسری بار پانچ ماہ دودن وزیر اعلی کے منصب پر براجمان رہےـ
جھارکھنڈ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہ ہونے کا فائدہ ایک آزاد ممبر مدھو کوڈے نے بھی اٹھایا اور وہ بھی جے ایم ایم،کانگریس،اور آر جے ڈی ، اور دیگر پارٹیوں کی مدد سے 14/ ستمبر 2006 تا 23/ اگست 2008 ایک سال گیارہ ماہ آٹھ دن جھارکھنڈ کےوزیر اعلی رہےـ
جنوری دوہزار نو تا دوہزار تیرہ تین بار وہاں صدر راج بھی نافذ ہوا، وہاں صدر راج کی کل مدت بیس ماہ ایک دن ہےـ
جون دوہزار تیرہ میں جے ایم ایم ،کانگریس ،اور آر جے ڈی نے مل کر حکومت بنائی اور شیبوسورین کے منجھلے بیٹے ہیمینت سورین کو وزیر اعلی بنایا ،جے ایم ایم کے پاس اٹھارہ،کانگریس کے پاس چودہ اور آر جے ڈی کے پاس پانچ سیٹیں تھیں،یہ کل ملا کر سینتیس سیٹیں ہوئیں ، اکثریت کا اکتالیس کا آنکڑا پورا کرنے کے لیے چار پانچ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے ممبران کی حمایت حاصل کی گئی تھی ، یہ حکومت دسمبر دوہزار تک چلتی رہی ـ
جو حکمت عملی جے ایم ایم ، کانگریس اور آرجے ڈی نے دوہزار انیس کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہے وہ دوہزار پانچ ،دوہزار نو اور دوہزار چودہ کے اسمبلی الیکشن میں اپنائی ہوتی تو جھارکھنڈ میں بی جے پی اتنی مضبوط نہیں ہوتی ،اور اسے مزید دس سال جھارکھنڈ میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تقریبا دوسال وہاں صدر راج نافذرہتاـ
دوہزار پانچ میں جے ایم ایم اور کانگریس نے متحد ہوکر اسمبلی الیکشن لڑا اور ان کو کل چھبیس سیٹیں حاصل ہوئیں ،سترہ جے ایم ایم کو اور نو(9) کانگریس کو، دوہزار نو(2009) میں کانگریس نے جھارکھنڈ وکاس مورچہ سے اتحاد کیااور کل پچیس سیٹیں حاصل کیں ،چودہ کانگریس نے اور گیارہ جھار کھنڈ وکاس مورچہ نےـ
اس الیکشن میں جے ایم ایم کو اٹھارہ اور آر جے ڈی کو پانچ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ـ
جے ایم ایم ،کانگریس اور ارجے ڈی نے بعض آزاد اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر دوہزار تیرہ میں حکومت بنائی ،مگر چودہ سال میں دو بار کے اسمبلی الیکشن کے تجربات کے باوجود الائنس بناکر الیکشن نہیں لڑا ،اور دوہزار چودہ میں بی جے پی اور زیادہ مضبوط ہوگئی ،اس کو جھارکھنڈ کی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملیں، اسےکل سینتیس(37) سیٹیں ملیں, اسے دوہزار میں بتیس (32)، دوہزار پانچ میں تیس (30) ، اور دوہزار نو میں اٹھارہ، سیٹیں ملی تھیں ـ
دوہزار نو کے مقابلے بی جے پی کو دوہزار چودہ میں انیس سیٹیں زیادہ ملیں ،بی جے پی دوہزار چودہ کا الیکشن ،جے ڈی یو، ا اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر لڑا تھا ،جے ڈی یو کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی ،مگر آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو پانچ سیٹیں ملی تھیں ، اور بی جے پی نے آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ،ان دونوں پارٹیوں کے ارکان کی کل تعداد بیالیس تھی ، چند ماہ کے بعد دو ہزار پندرہ میں جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے کل آٹھ(8) ممبران اسمبلی میں سے چھ (6)کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کرلیا ، اور دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو توڑ توڑ کر بی جے پی نے دوہزار انیس تک اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد انچاس کرلی ،اب اس نے اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا ،جس کے نتیجے میں جے ڈی یو ،ایل جے پی اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین نے الگ الگ انتخاب لڑا، جھارکھنڈ میں جے ڈی یو اور ایل جے پی کی تو زیادہ مقبولیت نہیں ہے ، مگر بی جے پی کو آل انڈیا جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین کو نظر انداز کر نا مہنگا پڑا ،اور دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو نقصان ہوا ،ال جھار کھنڈ اسٹوڈنٹ یونین پانچ(5) سے دو (2)پر اور بی جے پی انچاس(49) سے پچیس(25) پر سمٹ گئی ـ
واضح رہنمائی:
دوہزار انیس کےجھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کے لیے بہت واضح رہنمائی ہےـ دوہزار چودہ کے جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب میں جے ایم ایم کو تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں،اس نےکل انیس سیٹیں حاصل کیں ، دوہزار نو کے مقابلے میں ایک سیٹ زیادہ تھی ، کانگریس کو صرف چھ سیٹیں حاصل ہوئیں تھیں اسے دوہزار نو میں چودہ سیٹیں ملی تھیں ،آرجے ڈی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ،اس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ،وہ دوہزار سے دوہزار چودہ تک نو(9) سے زیرو پر آگئی ـ
جھارکھنڈ بننے کے بعد ہوئے تین اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان تینوں پارٹیوں کو اکٹھا ہونے پر اور کانگریس اور آر جے ڈی کو جے ایم ایم کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کر دیاـ
اگر یہ تینوں پارٹیاں اپنی روش پر اڑی رہتیں تو بی جے پی کی جیت یقینی تھی ، اس الیکشن میں بھی بی جے پی کو تینتیس فیصد سے زائد 33.37 ووٹ ملے ہیں ،اور یہ ووٹ اسے انہتر(79) سیٹوں پر ملے ہیں ،جب کہ جے ایم ایم اتحاد کو کل اکیاسی (81) سیٹوں پر پینتیس فیصد سے زائد 35.35 ووٹ ملے ہیں ـ
جمشید پور ایسٹ سے وزیر اعلی رگھوبر داس اپنے ساتھی اور وزیر سرجو رائے سے ہارے ہیں، سرجو رائے گزشتہ پانچ سال سینیر کیبینیٹ وزیر رہے ہیں ،اس الیکشن میں انہیں بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اپنی پرانی سیٹ چھوڑکر وزیر اعلی کے خلاف ہی کھڑے ہوگئےاور وزیر اعلی کو پندرہ ہزار آٹھ سو تینتیس ووٹوں سے ہراکر دکھادیا انہوں نے کل تہتر ہزار نو سو پینتالیس ووٹ حاصل کیےـ
دوہزار انیس کے جھار کھنڈ اسمبلی الیکشن کے نتائج سیکولر پارٹیوں کو چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وقت کے راون کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا ہوگاـ دہلی ،بہار اور دیگر صوبوں میں بھی جھارکھنڈی نمونے پر عمل ہوـ
رواں سال دوہزار بیس(2020) کے فروری میں دہلی اسمبلی اور نومبر ،دسمبر میں بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ـ دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو متحد ہوکر الیکشن لڑنا چاہیے ، جس طرح جھارکھنڈ میں کانگریس نے جے ایم ایم کو اکیاسی (81) میں سے تینتالیس (43) سیٹیں دیں اور خود اکتیس (31) سیٹیں لیں ، اسی طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی کو زیادہ سیٹیں دےاور عام آدمی پارٹی کو کانگریس کی اہمیت سمجھنی ہوگی ، عام آدمی پارٹی کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی خود اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہےاور کانگریس کو بھی اور مجموعی طور پر ہندوستان کے سیکولر زم اور گنگا جمنی تہذیب کوـ
انیس سو سڑسٹھ سے دہلی میں فسطائی طاقتوں کا بول بالا ہے ،انیس سڑسٹھ سے دوہزار انیس تک جن سنگھ اور بی جے پی ماں بیٹی کے کل اڑتالیس ممبران اور 1977میں کامیاب ہوئے جنتاپارٹی کے چھ اور بھارتیہ لوک دل کے ایک ممبر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ پچپن ہوجاتے ہیں ـ انیس سو سڑسٹھ تا دوہزار انیس کانگریس کے کل ممبران کی تعدادصرف بیالیس ہے،
دوہزار چودہ اور دوہزار انیس میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس سات میں سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی ہے ، عام آدمی پارٹی بھی دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی ہےـ
دوہزارچودہ اور دوہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے توعام آدمی پارٹی اور کانگریس کو فروری دوہزار بیس (2020) کا اسمبلی انتخاب متحد ہوکر لڑنا ہوگاـ
عام آدمی پارٹی کو دوہزار تیرہ کے اسمبلی انتخابات میں 29.30٪ ،دوہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات میں 32.90٪، دوہزارپندرہ کے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ 54.30٪ اور دوہزارانیس کے لوک سبھا انتخابات میں صرف اٹھارہ فیصد ووٹ ملے ہیں ، چارسال میں ہی چھتیس فیصد سے زائد ووٹ کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے،اگر اس خطرناکی کو عام آدمی پارٹی نے محسوس نہیں کیا تو یہ اس کے لیے بہت خطرناک ہوگاـ دوہزار تیرہ تا دوہزار انیس کے درمیان ہوئے چارانتخاب (دو اسمبلی کے،اور دو پارلیمان کے) ووٹ فیصد کو دیکھتے ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو کل چھیالیس سیٹوں پر اور کانگریس کو کل چوبیس سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے چاہئیں، اگر دونوں میں اتحاد نہ ہوسکا تو بی جے پی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ـ