رابطہ: 8860931450
14/12/19سے شمال مشرقی ریاستوں میں CAB کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ 9/12/19کو پارلیمنٹ سے اس کے پاس ہونے کے بعد پورا ملک CAAکے خلاف سڑکوں پر اتر آیا، ملک کی مایہ ناز 25 یونیورسٹیز CAAکے خلاف میدان عمل میں آگئیں اوراب اس احتجاج پرایک ماہ کاعرصہ بیت گیا، خواتین بچے، بوڑھے، جوان خون جمادینے والی سردی میں بھی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ، 26 شہید ہوگئے، سیکڑوں زخمی ہیں، ہزاروں گرفتار ہیں، پولیس کی بربریت الگ۔اس سب کے باوجود یکم جنوری 2020کو مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ Minister of State for Home Affairsجے کشن ریڈی وارانسی میں پوری ڈھٹائی اور رعونت کے ساتھ کہتے ہیں کہ CAAکو ہماری حکومت واپس نہیں لے گی، شہریت (ترمیمی) قانون میں جو بھی ترامیم کی گئی ہیں، ان سے کسی بھی طرح سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ (راشٹریہ سہارا، 2؍جنوری 2020، صفحہ 1) ایسی سنگ دل حکومت کے خلاف آخر دم تک لڑنا چاہیے:
اس شہر سنگ دل کو جلادینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمیں پر
اک حشر اس زمیں پہ اُٹھا دینا چاہیے
ہم احتجاج کریں ، پُرامن مظاہرے کریں ، ہم دائرۂ ”امن و قانون“ میں رہتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس سے ملک کا آئین مضبوط ہو ، یہ ملک کسی ایک کمیونٹی ، مذہب، ذات ، فرقے کا نہیں ہے، یہاں پر نہ کوئی اکثریت ہے اور نہ کوئی اقلیت، یعنی ایسی کوئی کمیونٹی، ذات یا فرقہ نہیں ہے جو تن تنہا 60فیصد ہو، ہم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہر غیرمسلم ، چڈھی پہننے والے رنڈوے یعنی آر ایس ایس نہیں ہے،ہر ہندو بھی ہندو نہیں ، اعلیٰ ذات کے ہندو بھی گوتروں میں منقسم ہیں، چٹرجی، بنرجی، تیواری ، مکھرجی، چکرورتی، جھا، پانڈے، پراشر، دترے، مشرا، شرما وغیرہ۔ اور پسماندہ طبقات کو 6745حصوں میں تقسیم کردیاگیاہے۔ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی اور مسلم رہے الگ۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اور ذات کی بنیاد پر قانون سازی بالآخر برہمن ازم کی فرعونیت و بالادستی کو وجود میں لائے گی، جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تمام انسان ہماری خدمت کے لیےپیدا کیے گئے ہیں، اس لیے جس کے پاس جو کچھ بھی وسائل ہیں یا جو بھی طریقۂ احتجاج استعمال کرسکتا ہو، ضرور کرے۔ بھوک ہڑتال کرے، خاموش احتجاج کرے، جیل بھرے، کینڈل مارچ نکالے ، دھرنا دے، جلسے جلوس منعقد کرے، ہر دس آدمی کا ایک گروپ، 2 میمورنڈم ضرور دے ایک سپریم کورٹ کے ”چیف جسٹس“ کے نام اور دوسرا ”صدر جمہوریہ“ کے نام ، خیال رہے کہ میمورنڈم کے بغیر احتجاج کی کوٸی اہمیت نہیں ،بینکوں سے جمع شدہ رقم نکال کر معاشی دبائو Economic Pressureڈالیں، عربی قلم کاروں کو چاہیے کہ اپنے قلم کی روانی سے عالم عرب کو بیدار کریں، انگریزی قلم کاروں کو چاہیے کہ مغربی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو جھنجھوڑ یں، غرض جو انسان جو کچھ بھی کرسکتا ہو، کرے۔ علانیہ پلاننگ کریں، خفیہ پلاننگ کریں، ملاقاتیں کریں، آگے آنے والوں کو حوصلہ دیں، پیچھے ہٹنے والوں کی ڈھارس بندھائیں، بالخصوں امت مسلمہ اپنی پوری طاقت جھونک دے۔ ہم بھارت کو دوسرا فلسطین ، دوسرا برما، دوسرا سنکیانگ نہیں بننے دیں گے، چاہے جو قربانی دینی پڑے:
بڑھ کر طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل تو گیا
مسلمانو! یہ وقت ہے اُٹھ کھڑے ہونے کا، کچھ کر گزرنے کا، تاریخ رقم کرنے کا، قربانیاں دینے کا، ڈٹ جانے کا، اَڑجانے کا، مسلم قیادت پر لازم ہے کہ اتحاد کا ثبوت دے، میٹنگوں اور ملاقاتوں سے آگے بڑھ کر سیکولر ہندو دیگر مذاہب و فرقوں کی تنظیموں کو ساتھ لے کر صاف اور واضح اعلان کرے اور آخر دم تک امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کو بچانے کی قسم کھائے:
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیاہے کہ کہیں احتجاج کمزور نہ پڑجائے، وہ لکھتے ہیں :
’’یاد رکھنا چاہیے کہ ملک بھر میں احتجاج میں شامل نوجوان مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ ایسا طبقہ ہے جس کے ہاتھ میں کسی بھی سطح پر اقتدار نہیں ہے، اس لیے اندازہ ہے کہ جلد ہی ان کا جوش و خروش سرد ہوجائے گا اور وہ اپنی ملازمت اور کیرئر کو لے کر فکرمند ہوجائیں گے۔ ان پرُجوش نوجوانوں کے والدین بھی جلد ہی ان پر دبائو ڈالنا شروع کردیں گے کہ وہ نیتاگری ترک کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔ دراصل کچھ نوجوان جو اس احتجاج میں شریک ہیں ، انہوں نے مجھے بتایاکہ ان کے والدین ان سے کافی ناراض ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ جلد ہی احتجاج کا جوش و خروش ختم ہوجائے گا، دوسری طرف یہ بھی محسوس کیا جارہاہے کہ بی جےپی حکومت کے لیڈران ایسا فیصلہ لے سکتے ہیں کہ قوت قہاری کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیاجائے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اترپردیش میں ہوچکاہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ’جب پڑی مار شمشیراں کی تو مہاراج میں نہیں ہوں ‘ اس لیے جب پولیس کا بے رحم ڈنڈا چلے گا تو نوجوان کے دل و دماغ کا انقلابی بخار ختم ہوجائے گا، اس کا مجھے خدشہ ہے۔‘‘
اس قسم کے ”خدشات“ کو سامنےرکھتے ہوئے تمام ”غیربی جے پی“ بھارتیوں کو مورچہ سنبھالنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، ڈٹے ہوئے حضرات کو بھرپور تعاون و حوصلہ بھی دیں اور ان کے متبادل کےطورپر بھی تیار رہیں۔