نئی دہلی:جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اقامتی کوچنگ اکیڈمی (آر سی اے) کے 30 امیدواروں نے یو پی ایس سی کا امتحان پاس کیا ہے۔ یو پی ایس سی نے کل امتحانات کے نتائج جاری کردیئے ہیں۔ جس میں 829 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسری طرف ہریانہ کے پردیپ سنگھ نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔اقامتی کوچنگ اکیڈمی (آر سی اے) کی طالبہ روچی بوندل نے 39 واں رینک حاصل کرکے بہترین اسکورکیاہے۔ منتخب ہونے والے 30 امیدواروں میں سے 6 لڑکیاں ہیں۔واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اقامتی کوچنگ اکیڈمی(آر سی اے) یو پی ایس سی سول سروسز امتحانات کے امیدواروں کو مفت کوچنگ مہیا کرتی ہے۔یہ سہولت خاص طور پر اقلیتی ، شیڈول ذات اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کومہیاکی گئی ہے۔خواتین امیدوار بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی اہل ہیں۔جامعہ کی وائس چانسلرپروفیسرنجمہ اخترنے کہاہے کہ آر سی اے طلباء سالانہ سال سول سروس امتحانات میں مستقل طورپربہترکارکردگی کامظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ بڑے فخراوراطمینان کی بات ہے۔ ہمیں آنے والے سالوں میں بہتر نتائج کی توقع ہے۔
Jmi
سی اے اے مخالف احتجاج:جامعہ تشدد سے منسلک تمام درخواستوں پرپولیس سے جواب طلب
نئی دہلی:دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز دہلی پولیس کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں گذشتہ سال دسمبر میں ترمیم شدہ شہریت ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد سے متعلق مختلف درخواستیں داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جواب داخل نے کا عدالت کا یہ حکم کچھ درخواست گزاروں کے ذریعہ یہ مطلع کئے جانے کے بعدآیاہے کہ دہلی پولیس نے چند درخواستوں میں ہی اپنا جواب داخل کیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جالان کی بنچ نے کہاکہ مدعا علیہان (دہلی پولیس) نے کچھ معاملات میں ایک مستحکم جواب داخل کیا ہے۔ ہم مدعا علیہان کو دو دن میں تمام معاملات میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ جوابی حلف نامہ اگر کوئی ہو تو چار دن میں دائر کیا جائے گا۔دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ رجت نایر نے بتایا کہ انہوں نے تمام درخواستوں میں ایک متفقہ جواب داخل کیا ہے۔ اس پربنچ نے کہا کہ ایجنسی کو تمام معاملات میں جواب داخل کرنا ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہاکہ کوئی آسان راستہ نہ اپنائیں۔کچھ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈووکیٹ کولن گونزالیوس نے کہا کہ پولیس نے ان تینوں درخواستوں میں جواب داخل نہیں کیا ہے جس میں مبینہ پولیس کی زیادتی اورپٹائی کرنے سے طلبہ کو شدید چوٹیں آئیں۔ معاوضے کی درخواست اور مجرم افسران کے خلاف کاروائی کی مانگ کی گئی ہے ۔پولیس نے جامعہ تشدد کیس سے متعلق نو درخواستوں میں سے 6 میں مستحکم جوابات داخل کردئے ہیں۔دریں اثنا درخواست گزاروں نے معاملے میں طے شدہ امور کی ایک فہرست درج کی۔انہوں نے کہا کہ انہیں فہرست کل دیر رات ملی ہے اور انہیںان معاملات کا تجزیہ اور ان کا جواب دینے کیلئے وقت دئے جانے کی درخواست کی گئی ہے ۔
نئی دہلی:کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے داخلہ فارم بھرنے کی تاریخ میں توسیع کردی ہے۔فارم بھرنے کی آخری تاریخ 31 جولائی 2020 ہے۔ یہ تاریخ صرف گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کورسزکے لیے ہے۔ ایم فل اورپی ایچ ڈی کورسزکے لیے آن لائن درخواست دینے کی آخری تاریخ 20 اگست 2020 ہے۔قبل ازیں جامعہ نے درخواست کی تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے 04 مئی 2020 کر دی۔ اگر کورونا وائرس نہیں ہوتاتودرخواست دینے کی آخری تاریخ 15 اپریل تھی ، لیکن اس سے پہلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تاریخ بڑھادی گئی ۔جامعہ میں یو جی ، پی جی ، پی جی ڈپلومہ ، ایڈوانسڈڈپلومہ ، ڈپلومہ ، ایم فل / پی ایچ ڈی کورسز میں داخلے دستیاب ہوں گے۔جامعہ میں داخلہ لینے کے jmi.ac.in ، آپ کو سرکاری ویب سائٹ jmi.ac.in اور jmicoe.in ہوگا۔
گلزار دہلوی دہلی کی مشترکہ تہذیب کے بہترین نمائندے تھے: پروفیسر شہزاد انجم
شعبۂ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام گلزار دھلوی کے سانحۂ ارتحال پر آن لائن تعزیتی جلسے کا انعقاد
نئی دہلی: صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی پروفیسر شہزاد انجم نے گلزار دہلوی کی رحلت پر شعبے کی جانب سے منعقدہ گوگل میٹ آن لائن تعزیتی جلسے کے صدارتی کلمات میں گہرے رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہلوی تہذیب کی آخری نشانی تھے.انھوں نے مرتے دم تک اردو زبان و ادب ،کلاسیکی روایات، دہلوی کلچر، گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار اور حب الوطنی کی آبیاری کی ـ
پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد آدمی تھے. ان کی وضع، زبان و اسلوب، لب ولہجہ، طرزِ زندگی، تشبیہات و استعارات سب انھیں کے ساتھ مخصوص تھا. انھوں نے اردو کاز کے لیے مسلسل جدوجہد کی. وہ خالص اردو کلچر کے سب سے ممتاز علم بردار اور صاحب طرز خطیب تھےـ
پروفیسر احمد محفوظ نے انھیں ہند ایرانی طرزِ حیات کا عملی نمائندہ قرار دیتےہوئے کہا کہ ان کی طبیعت میں کلاسیکی جمالیات رچی بسی تھی. ان کی شاعری سے قطع نظر ان کی شخصیت بھی بے مثال تھی.ایک پنڈت کی زبان سےبات بات پر قرآن وحدیث کے حوالے سن کر لوگ حیران ہوجاتے تھےـ
پروفیسر کوثر مظہری نے گلزار دہلوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرقہ پرستی، مذہبی تعصب اور گروہی منافرت کے سخت مخالف تھے.ان کی رحلت سے ایک تہذیب اور اسلوبِ زیست کا خاتمہ ہوگیاـ
پروفیسر عبدالرشید نے گلزار دہلوی کو دبستانِ دلی کا آخری آدمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عہد میں ان کے منہ سے نکلے الفاظ اور محاوروں کو سند کا درجہ حاصل تھاـ
ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے ان کی زندہ دلی، بذلہ سنجی اور محفلی خوش طبعیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ایک عہد کی موت سے تعبیر کیاـ
تعزیتی جلسے میں شعبے کی جانب سے قرار داد پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ گلزار دہلوی کی شخصیت نفیس و نستعلیق اور اعلیٰ کلاسیکی تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھلی تھی ـ
اس موقع پر ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد سمیع اور ڈاکٹر محمد آدم نے گلزار دہلوی کے اخلاق، رویے، آداب گفتگو اور ان کی بیش بہا اردو خدمات کو یاد کیاـ
آن لائن نشست میں شعبے کے اساتذہ میں پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے بھی شرکت کی ـ
آصف اقبال کی گرفتاری:ایسی کارروائیاں تحریک کو اور بھی مضبوط کریں گی-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
تاریخ نے اپنے صفحات میں محفوظ کیا ہے کہ آج سے 3 ہزار برس قبل مصر میں ایک بادشاہ گزرا تھا ، جسے ‘فرعون’ کہا جاتا تھاـ یہ اس کا نام نہیں ، بلکہ لقب تھاـ اس کا ظلم و ستم اس قدر عام تھا کہ اس کا یہ لقب جبر وتشدّد اور ظلم و ستم کا استعارہ بن گیاـ اس نے اسرائیلی قوم کے لوگوں کو غلام بنا لیا تھاـ انھیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا تھاـ ان سے بیگار کے کام لیے جاتے تھے اور ہر طرح کا ظلم روا رکھا جاتا تھاـ کسی نجومی نے اسے بتادیا کہ تمھاری مملکت میں بسنے والے ان اسرائیلیوں میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تمھاری حکومت کے زوال اور تمھاری سلطنت کے خاتمے کا سبب بنے گاـ بس اس نے حکم جاری کردیا کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائےـ فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری رہاـ اسے اپنے ظالمانہ رویّے پر نظر ثانی اور اس کی اصلاح کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ، بلکہ اس نے مزید ظلم کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی ـ لیکن اس کی تمام تدبیریں ناکام ہوگئیں ـ جب اس کے ظلم و ستم کا پیمانہ لب ریز ہوگیا تو اسے بحر قلزم میں غرق کردیا گیاـ اس کا لاؤ لشکر اس کے کچھ کام نہ آیاـ آج قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ اس کی حنوط شدہ لاش نشانِ عبرت بنی ہوئی ہےـ
ہمارے ملکِ عزیز کے حکم راں آج کل اسی فرعونی روش پر گام زن ہیں ـ وہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو محض مسلمان ہونے کی سزا دینے کے لیے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دینا چاہتے ہیں _ طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور وہ برابر ایسے قوانین وضع کر رہے ہیں جن کی زد مسلمانوں پر پڑے اور ان کی بے وقعتی میں اضافہ ہوـ ان میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون (CAA) ہے، جسے چند ماہ قبل منظور کیا گیا ہے _ اسی وقت سے اس کے خلاف ملک گیر سطح پر زبردست احتجاج چل رہا تھا ، جس میں ملک کے دیگر مذاہب کو ماننے والے انصاف پسند شہری بھی مسلمانوں کی حمایت کررہے تھےـ اس ظالمانہ قانون کی مخالفت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے طلبہ نے سرگرم حصہ لیا تو ملک کی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے ان کے احتجاج کو کچلنے کے لیے جامعہ کیمپس میں گھس کر لائبریری میں طلبہ کی بُری طرح پٹائی کی _ پولیس کی پُر تشدّد کارروائی کا پختہ ثبوت وہ ویڈیوز ہیں جو سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہیں اور جنہیں جامعہ انتظامیہ کی طرف سے عدالت میں پیش کیا گیا ہے _ لیکن حکومت ظلم و تشدّد برپا کرنے والی پولیس پر کارروائی کرنے کے بجائے الٹا طلبہ ہی کو ہراساں کر رہی ہے _ اِن دنوں جب کووِڈ_19 جیسی مہلک وبا پر قابو پانے کے لئے پورا ملک لاک ڈاؤن سے گزر رہا ہے ، دہلی پولیس سی اے اے مخالف احتجاجی تحریک میں سرگرم جامعہ کے اسٹوڈنٹ لیڈرس کو ایک ایک کرکے گرفتار کر رہی ہے اور بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاکر انہیں داخلِ زنداں کر رہی ہے _ میران حیدر اور صفورہ گرزر کے بعد اب اس کا تازہ نشانہ آصف اقبال تنہا بنے ہیں ـ آصف اقبال جامعہ میں بی ، اے (فارسی آنرس) کے طالب علم ہیں اور ملک کی اسلام پسند طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کے فعّال رکن ہیں ـ دہلی پولیس نے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کرکے کہ وہ جامعہ میں 15 دسمبر 2019 کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران ہونے والے تشدّد میں شریک تھے ، انہیں ساکیت کورٹ میں میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا ، جہاں سے انہیں 31 مئی 2020 تک کے لیے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہےـ
سی اے اے کے ظالمانہ قانون کے خلاف گزشتہ مہینوں میں پورے ملک میں بیداری آئی ہے _ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بیداری کا سہرا عصری جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان طلبہ و طالبات کے سر جاتا ہے ، جنھوں نے پوری سنجیدگی ، متانت اور بیدار مغزی کے ساتھ اس تحریک کی قیادت کی ہے اور ملک کے تمام طبقات سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ـ کووِڈ_19کی وجہ سے انہوں نے فی الحال اپنی سرگرمیاں معطّل کردی ہیں ، لیکن بہت جلد وہ پھر حسبِ سابق پوری قوت کے ساتھ اپنی احتجاجی تحریک کو ازسرِ نو برپا کریں گےـ اگر ملک کی موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ چند اسٹوڈنٹ لیڈرس کو گرفتار کرکے طلبہ برادری کو خوف زدہ کردے گی اور وہ آئندہ اپنی سرگرمیوں سے باز آجائیں گے تو اس کی خام خیالی ہےـ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے طلبہ نہ پہلے ڈرے ہیں اور نہ آئندہ ڈریں گے ، بلکہ یہ کارروائیاں سی اے اے مخالف تحریک کو اور بھی مضبوط کریں گی ـزنداں و سلاسل کے خوف سے نوجوانوں کا خون نہ پہلے کبھی سرد پڑا ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جانی چاہیے _ حکومت کی دانش مندی اسی میں ہے کہ وہ اپنے ظالمانہ قوانین کو واپس لے ، ملک کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دے اور حق و انصاف کا مطالبہ کرنے والوں کی آواز کو دبانے کے لیے اس نے جن بے قصوروں کو گرفتار کیا ہے ، جلد از جلد انہیں رہا کرےـ ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ـ تین ہزار برس پہلے والے فرعون کے مظالم اسے لے ڈوبے تھےـ اسی طرح ہر فرعون کا انجام ذلت و نامرادی ، زوال اور اقتدار سے محرومی رہا ہےـ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے اور اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوئی ہےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:جامعہ کوآرڈینٹر کمیٹی (جے سی سی) نے پیر کو الزام لگایا کہ نظر ثانی شہریت قانون کے خلاف مظاہرے کے دوران جامعہ علاقے میں ہوئے تشدد کے الزام میں آصف اقبال تنہا کی گرفتاری کے بعد دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں کے پیچھے پڑی ہے۔ جے سی سی میں یونیورسٹی کے طالب علم اور سابق طالب علم شامل ہیں۔نظر ثانی شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف 15 دسمبر کو جامعہ احاطے میں مظاہرے کے دوران مبینہ پولیس بربریت کے خلاف یہ تنظیم بنائی گئی تھی۔اس نے دعوی کیا کہ تنہا کو اس کی رہائش سے اتوار کو گرفتار کر لیا گیا۔جے سی سی نے کہاکہ جھارکھنڈ رہائشی اور فارسی زبان میں گریجویشن کے آخری سال کے طالب علم تنہا جے سی سی کافعال لیڈراور ہندوستان میں سی اے اے مخالف مظاہروں کا اہم چہرہ رہا ہے۔ اس نے کہاکہ پولیس نے پہلے اس سے پوچھ گچھ کے لئے بلایا، لیکن بعد میں اسے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور پھر تہاڑ جیل میں عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ماضی میں متعلقہ معاملے میں جے سی سی سے منسلک میران حیدر، سفورا جرگر اور شفاء الرحمن کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔جے سی سی نے کہاکہ شمال مشرقی دہلی میں تشدد کی تحقیقات اور اصل قصورواروں کی گرفتاری کی جگہ دہلی پولیس بے شرمی سے جامعہ کے طالب علم رہنماؤں کے پیچھے پڑی ہے۔شمال مشرقی دہلی تشدد کے تمام سازش کنندگان جہاں کھلے گھوم رہے ہیں، وہیں ہمارے لیڈروں کو جیل بھیجا جا رہا ہے اور سخت قانون لگائے جا رہے ہیں۔ اس نے سی اے اے مخالف مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار کئے گئے تمام کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔گزشتہ سال 15 دسمبر کو مظاہرین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس نیو فرینڈس کالونی میں عوامی بسوں اور پولیس کی دو گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی اور وہ پولیس اہلکاروں سے بھڑ گئے تھے۔حکام نے اس وقت تشدد میں طالب علموں، پولیس اہلکاروں اور فائربریگیڈ کے اہلکاروں سمیت کم از کم 40 افراد کے زخمی ہونے کی بات کہی تھی۔
ایسے ماحول میں جب مذہبی نفرت کا بول بالا ہو، وہاں لاشوں کا مذہب طے کرکے امن نہیں قائم کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس یہی ہو رہا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی لاشوں کو گننے اور انھیں دوسرے سے زیادہ مظلوم قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو اور تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے اس بات کو دھیان میں رکھا جارہا ہے کہ کسے مظلوم دکھانا اور کسے ظالم؟ کس کی جارحیت پر پردہ ڈال دینا ہے اور کس کے حملے کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایک خاص قوم کے سر پر منڈھنا ہے؟ حملہ آور کا نام شاہ رخ ہے یا انوراگ مشرا؟ سوشل میڈیا ہی نہیں، بیشتر اردو ہندی اخبار بھی یہی کررہے ہیں، ظاہر ہے انھیں اپنے قارئین کے مذہب اور اس مذہبی نفسیات کا خوب اچھی طرح علم ہے، اس لیے وہ بھی نیوز چینلوں کی طرز پر اپنا اپنا خیمہ منتخب کرچکے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے درمیان سنسنی، مایوسی، دل گرفتگی، بیچارگی، بے بسی اور ساتھ ساتھ غصہ بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس سے یہ اخبار خوب اچھی طرح واقف ہیں لیکن انھیں بھی اپنا رزق حلال کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خبریں پیش نہ کی جائیں لیکن سنسنی خیز خبریں کیسے پیش کی جائیں، سرخیاں کیسے لگائی جائیں، کالم کیسے طے کیے جائیں، تجزیے کس طرح کے ہوں، اس آرٹ سے بیشتر پروفیشنل اردواور ہندی صحافی بے خبر ہیں۔ معاف کیجیے گا، سوائے ایک خاص قوم یا فرقے کے جذبات سے یہ اخبارات اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح ہمارے قومی لیڈر۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندی اور اردو صحافت میں جری اور انصاف پسند صحافیوں کی کمی ہے، لیکن اس ٹرینڈ کے لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے موقف یا تحفظات کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتے۔ میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔”ممبئی اردو نیوز” کے ایڈیٹر شکیل رشید کے قلم سے جب جب ایسی تحریریں نکلیں جو ہماری قومی لیڈرشپ کا محاسبہ کرتی نظر آتی ہیں یا مذہبی قیادت کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کے مداح بھی ان کے خلوص کو طعنہ مارتے نظر آئے، گویا ایک اردو اخبار کو صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے نہ کہ حقائق کی گرفت کرنی چاہیے، یا ایک اردو اخبار کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جواز جوئی کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرکے ان کی صفوں کو درست کرنا چاہیے۔
کیا وجہ ہے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے ہندوؤں کی فہرست اردو اخباروں میں نظر نہیں آتی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مارنے والوں کی قوم کے نام پر بٹہ لگتا ہے جسے بچانے کا کام اردو اخباروں کا ہے؟ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ فساد اور بربریت کا مذہب بھی اب طے ہوچکا ہے، جب کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دہشت گردی اور فسادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس جملے کا استعمال حسب ضرورت اور حسب مصلحت جگہ جگہ بدلا بھی جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ہی زیادہ نقصان ہوا یا مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن پھر یہاں سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ کیا ایک جان کی قیمت نہیں ہے؟ کیا اب ترازو کے دونوں پلڑوں پر لاشوں کو رکھ کر تول کر فیصلہ کیا جائے کہ کس قوم کی لاشوں کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا اب تعداد کے اعتبار سے مظلوم اور ظالم طے کیے جائیں گے؟ اگر 85 سال کی بوڑھی اکبری کو زندہ جلانے کی خبرسنسنی خیز ہے تو کیا 19 سالہ وویک چودھری جس کے بائیں طرف ڈرلنگ مشین گھسیڑ دی گئی، وہ کم خوفناک ہے؟ اگر 22 سالہ اشفاق کی گردن میں دو بار وار اور اسے پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ہمارے دلوں کو مٹھیوں میں جکڑنے کے لیے کافی ہے تو کیا دوسری طرف 25 سالہ نتن کمار اور اس کے ضعیف والد پر جنونی بھیڑ کا حملہ ہمارے دل و دماغ دونوں کو نہیں جھنجھوڑتا؟ اگر ایک طرف اسحاق خان (24)، محمد مدثر (30)، محمد مبارک حسین (28)، شان محمد (35)، مہتاب (22)، شاہد (25)، محمد فرقان (30)، دلبر محسن علی (24)، اور معروف علی (30) وغیرہ جیسے مرنے والوں کے نام ہیں تو دوسری طرف دیپک کمار (34)، ویر بھان (50)، پرویش (48)، راہل سولنکی (26)، راہل ٹھاکر (23)، رتن لال (42)، انکت شرما (26)، ونود کمار (50) اور امن (17) جیسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو کیا آپ ان لاشوں کو گنیں گے کہ اس میں کتنے مسلم ہیں اور کتنے ہندو؟ اور پھر الیکشن میں جس طرح ووٹنگ کی تعداد پر جیت اور ہار طے کی جاتی ہے، کیا اسی طرح ظالم اور مظلوم طے کیے جائیں گے؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سامنے جو لاشیں پڑی ہیں وہ مذہبی شدت پسندی اور جارح قوم پرستی کا شکار انسانیت کی لاشیں ہیں اور آپ کو باور کرارہی ہیں کہ نہ ہندو خطرے میں ہے اور نہ مسلمان، اگر کچھ خطرے میں ہے تو صرف انسانیت خطرے میں ہے، جسے بچانا ہمارا کام ہے۔ سرکار، پولیس، سیاسی پارٹی اور نیتا جب بے کار ہوجائیں تو انسانیت حرکت میں آتی ہے اور وہ اپنا کام اپنی صفوں اور اپنے گھر سے شروع کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر تعصب کا اور قوم پرستی کا چشمہ نہیں ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو صرف کپل مشرا نظر آتا ہے لیکن وہ ہندو افسر نظر نہیں آتا جس نے اس کے خلاف رپورٹ کی تھی جس کے پاداش میں اسے سسپنڈ کردیا گیا؟ آپ کو گوتم گمبھیر بھی نظر نہیں آتا جسے اب ٹوئٹر میں غدار کہا جارہا ہے؟ آپ کو وہ ہندو بھی نظر نہیں آتا جو 9 مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے خود فسادیوں کی نذر ہوگیا۔ آپ دہلی بھر کے گردواروں پر نظر کیوں نہیں ڈالتے جن کے دروازے مسلمانوں اور دیگر فسادزدگان کے لیے کھول دیے گئے۔ آپ کو وہ دلت بھی نہیں دکھتے جو حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مسلم محلوں کے سامنے بیری کیڈ لگا کر سینہ سپر ہوگئے۔یہ کہانی یک طرفہ نہیں ہے، ہمیں دوسری طرف ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو مظلوموں کی شناخت ان کے مذہب سے نہیں کرتے۔ کئی مسلمانوں نے ہندو خاندانوں کی جان بچائی، انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعد میں انھیں ان کے لوگوں کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ ایک ویڈیو تو ایسا بھی میری نظروں سے گزرا جس میں مسلمانوں نے ایک فسادی کی بھی حفاظت کی، اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ذرا سوچیے یہ کیسے ہندو اور مسلمان تھے جنھوں نے نفرتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ محبت کا جزیرہ بنایا تھا۔یہ لوگ لاشوں کو گننے والوں میں سے نہیں تھے، یہ انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھے اور انھی کے دم سے یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب سماج کی ہم آہنگی اور اس کے اعتبار پر چوٹ لگائی جارہی ہو اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کے تانے بانے کو بکھیرا جا رہا ہو تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟ کیا ہم بھی اس جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال کر اس کی تپش بڑھاتے رہیں گے یا ہم ٹوٹے بکھرے اور خوفزدہ سماج میں حوصلے اور خود اعتمادی کی شمع روشن کریں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شیونرائن راج پروہت
(زیر نظر تحریر دراصل انڈین ایکسپریس کے صحافی شونرائن راج پروہت کی اس انگریزی رپورٹ کا اردو ترجمہ ہے جس میں انہوں نے دہلی کے جمناپارمیں فساد زدہ علاقوں میں پیش آنے والی اپنی سرگزشت بیان کی ہے۔انڈین ایکسپریس نے آج کی اشاعت میں اس فساد کے مختلف پہلوؤں پراپنے نصف درجن رپورٹروں کی شاندار اور تفصیلی رپورٹیں بھی شائع کی ہیں۔ہم پر واجب ہے کہ انگریزی صحافیوں اور خاص طورپرانڈین ایکسپریس کے صحافیوں کی ستائش میں دو بول ضرور بولیں۔ ایم ودود ساجد)
”یہ کوئی دن کے ایک بجے کا عمل تھا۔میں کراول نگر کی ایک بیکری کے سامنے بیکری کے مالک کا موبائل نمبر نوٹ کرنے کے لئے رکا۔اس بیکری کے سارے بنے ہوئے مال اور فرنیچر کو آگ کے حوالہ کرکے بیچ سڑک پر ڈال دیا گیا تھا۔40سال کی عمر کا ایک شخص میرے پاس آیا اور پوچھا: کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو؟۔میں نے خود کو ایک صحافی کے طورپر متعارف کرایا۔اس نے مجھ سے میری نوٹ بک چھین کر اس پر نظر دوڑائی۔اسے کچھ موبائل نمبروں اور صورتحال پر میرے کچھ نوٹس کے علاوہ کوئی مشکوک چیز نہیں ملی۔اس نے مجھے دھمکی دی کہ تم یہاں سے رپورٹنگ نہیں کرسکتے۔اس نے میری نوٹ بک کو بھی اسی آگ کے حوالہ کردیاجس میں بیکری کا سامان جل رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے مجھے کوئی پچاس لوگوں نے گھیرلیا۔ان کا شک بڑھتا گیا کہ میں نے اپنے موبائل میں تشدد کی تصاویر کھینچی ہیں۔انہیں میرے موبائل میں ایسا کوئی ویڈیویا فوٹو نہیں ملا۔لیکن انہیں اس پر تشفی نہیں ہوئی اورانہوں نے میرے موبائل میں موجود ہر ویڈیو اور ہر فوٹو کو ڈلیٹ کردیا۔
انہوں نے مجھ سے پھر پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟کیا تم جے این یو سے ہو؟انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ۔جو کچھ مجھے مزید پیش آنے والا تھا یہ اس کی طرف اشارہ تھا۔میری موٹر سائکل ایک گلی میں کوئی دوسو میٹر دور کھڑی تھی۔میں موٹر سائکل کی طرف جانے لگا۔جیسے ہی میں اس گلی میں مڑا مجھے ایک اور ہجوم نے گھیر لیا۔اس کے ہاتھ میں لاٹھی‘ڈنڈا اور لوہے کی چھڑیں تھیں۔انہوں نے بھی مجھ پر تشدد کی فوٹوز کھینچنے کا الزام دوہرایا۔ایک نقاب پوش نوجوان نے مجھ سے فون دینے کو کہا۔میں فون دینے کو تیار نہیں تھا۔میں نے کہا کہ تمام فوٹوز اور ویڈیوز ڈلیٹ کردی گئی ہیں۔وہ زور سے چیخا: فون دے۔وہ پھر میری پشت پر آگیا۔اس نے میرے کولہے پر لوہے کی چھڑ سے دوبار ضرب لگائی۔ میں کچھ دیر کے لئے بے جان سا ہوگیا۔مجھ پربھدی گالیوں کی بوچھار ہونے لگی۔ اب کچھ سمجھدار قسم کی آوازیں آنے لگیں: تمہیں اپنی جان زیادہ پیاری ہے یا فون؟میں نے اس نوجوان کو اپنا فون دیدیا۔انہوں نے نعرے لگائے اور وہ نوجوان میرا فون لے کر بھیڑ میں گم ہوگیا۔
مجھے لگا کہ میں چھوٹ گیا ہوں۔لیکن یہ وقتی تھا۔جلد ہی پیچھا کرکے مجھے ایک دوسری بھیڑ نے گھیرلیا۔ایک پچاس سالہ شخص نے میری آنکھوں پر لگا چشمہ اتارکر نیچے پھینکا اور پھر اس کے اوپر چڑھ گیا۔پھر اس نے ’ہندوؤں کے غلبہ والے علاقے سے رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں‘مجھے دو تھپڑ مارے۔انہوں نے میرا پریس کارڈ چیک کیا:۔۔۔۔ شونرائن راج پروہت‘ ہونہہ‘ ہندو ہو؟بچ گئے!۔۔۔۔لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہوئے۔۔انہوں نے مجھ سے ’اصلی ہندو‘ہونے کا مزید ثبوت مانگا:۔۔۔ بولو جے شری رام۔۔میں خاموش رہا۔—انہوں نے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ اگر جان بچانا چاہتا ہے تو فوراً بھاگ جا۔ان میں سے ایک نے کہا: ایک اور بھیڑ آرہی ہے آپ کے لئے۔۔۔میں اپنی موٹر سائکل کی طرف بھاگا۔میں نے بائک کی چابی کے لئے اپنا تھیلا(Bag) چھان مارا۔ایک ایک منٹ قیمتی تھا۔بھیڑ میں سے ایک اور بولا: جلدی کرو وہ لوگ چھوڑیں گے نہیں۔۔۔میں بائک اسٹارٹ کرکے اندھوں کی طرح بھاگا۔مجھے یاد نہیں کہ میں کس گلی میں جارہا ہوں۔بس اپنی جان بچانی تھی‘سومیں انجان گلی میں گھس گیا۔۔۔۔۔“
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
دہلی کے خوں ریز فساد کے تعلق سے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں آج پہلی سرخی ہے: "The Real Beast” (اصلی درندے)۔ دوسری ذیلی سرخی ہے: ”بدمعاشوں کی دہلی کے علاقے میں مٹر گشتی، 4کی ہلاکت، پولس کی ملی بھگت“۔ اسی خبر میں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے بیسیوں بلوائی ایک نہتے نوجوان احتجاجی کو گھیر کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی چھڑ سے وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے مار رہے ہیں۔ مظلوم بے سدھ زمین پر پڑا تھا اور اس کا کپڑا خون آلود ہے۔ اسی روز صبح کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ سے دہلی ہوائی اڈہ پر پہنچے۔ عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کے ’سابر متی آشرم‘ دیکھنے گئے۔ پھر ٹرمپ اور مودی نے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ نے دھواں دھار تقریر کی۔ دونوں کی زبان پر ہندستان کی مذہبی آزادی، کثرت میں وحدت جیسی باتیں رواں تھیں۔ جب ٹرمپ تقریر کر رہے تھے تو دہلی فساد کی آگ سے جل رہا تھا۔ دہلی کے متعدد علاقے اور خاص طور پر شمال مشرقی حصے کے مسلم فرقے پر ہتھیار بند غنڈے پولس کے ساتھ حملے کر رہے تھے۔ دکانیں، مارکیٹ اور مسجدوں کو جلا رہے تھے۔ اس فساد کی تیاری اتوار کے دن ہی ہوگئی تھی۔ دہلی کے شمالی اور مشرقی حصے جعفر آباد میں بی جے پی کا بدنام زمانہ لیڈر کپل مشرا نے جلوس نکالا جہاں عورتیں، بچے CAA کے خلاف پُرامن دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کپل مشرا نے پولس کو اَلٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین روز میں دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کو ہٹایا نہیں گیا تو وہ خود طاقت کے زورپر ہٹادیں گے۔ الٹی میٹم میں تین روز کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کے بعد ہی وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ٹرمپ احمد آباد میں تھے اور جعفر آباد میں کپل مشرا کے غنڈے پولس کے ساتھ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور مقامی لوگوں پر اینٹ پتھر سے حملے کر رہے تھے۔ ایک کلپ وائرل کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کے دن شام کے وقت پتھر، اینٹ کے ٹکڑے لاریوں پر لادے جارہے ہیں۔ پولس کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیان دیا ہے کہ ابھی اس ویڈیو کی تصدیق ہورہی ہے۔
سوموار کے دن دہلی کے جعفر آباد سے فساد شروع ہوا، جہاں مسلمانوں کی بہت معمولی آبادی ہے اور موج پور میں بھی فساد برپا ہوا جہاں پڑوس میں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ مقامی باشندوں نے ایک اخبار کے نامہ نگار کو بتایا کہ پولس کی موجودگی میں دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے۔ پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی رہی۔ روئٹرس نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جو لوگ شہریت ترمیمی قانو کی حمایت کر رہے تھے پولس ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ بھیڑ پولس کی موجودگی میں مسلمان کے اسٹور کو تباہ و برباد کر رہی تھی اور ایک گاڑی میں آگ لگا رہی تھی۔ پولس نے آواز دے کر شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کو پتھر پھینکنے کیلئے اکسایا۔ کئی نوجوان لڑکے موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر آگ لگا رہے تھے۔ روئٹرس کا کہنا ہے کہ ان میں ایک امیت نام کے شخص نے کہا کہ ہم لوگ CAA کے حامی ہیں۔ اگر یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور جگہ تلاش کرلیں۔ روئٹرس نے بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے فسادی نوجوان زدوکوب کر رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ بلوائی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’سی اے اے‘ کے مخالفین کی مذمت کر رہے تھے۔ سوموار کے دن ’سی اے اے‘ کے حامیوں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا تھا۔ بہت سے گھروں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے تھے۔ اس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ’سی اے اے‘ کے حامیوں کا گھر ہے۔
جعفر آباد کے ایک اسکول کے معلم امین سبحان نے ’ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”نوجوانوں کا گروپ ہندو بھائیوں کے گھروں پر زعفرانی جھنڈے کیوں لگا رہے تھے؟ یہ فساد منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے متنازعہ لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی“۔ مشتعل بلوائیوں نے اتوار کے دن دھرنے اور احتجاج پر پرامن طریقے سے بیٹھے مرد اور خواتین کو راستے سے زبردستی اٹھا رہے تھے۔ ان سب کو مرکزی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ سلیم پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کملیش کمار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم لوگ دہشت گردی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی سزا دے رہی ہے۔ کملیش کے ایک دوست فیضل نے جن کی ایک لاؤنڈری کی دکان ہے کہاکہ پولس اگر حرکت میں آگئی ہوتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا اور جو لوگ فساد میں مارے گئے ہیں وہ بچ جاتے۔ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ فیضل نے پوچھا۔ سماجی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ”ہریانہ کے ایک علاقہ لونی سے بجرنگ دل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس فسادمیں حصہ لیا اور بلوائیوں سے مل کر دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ پولس تماشائی بنی رہی اور ان علاقوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں پولس بلوائیوں کی مدد بھی کرتی رہی“۔ رادھے شیام نے کہا۔ جعفر آباد کے قریب کا علاقہ نور الٰہی کے مسلمانوں کے بارے میں اکرام علی نے کہاکہ ”اب ڈر اور خوف سے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں“۔
دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے شر انگیز اور فساد انگیز بیان بازی کرتے رہے۔ کپل مشرا نے جو اس فساد کے خاص مجرم ہیں انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ شاہین باغ کی طرف سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی نہ تو الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اورنہ پولس کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔ کپل مشرا اپنی جیت درج کرانے کیلئے مہم کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے مگر فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کا نام آیا ہے کہ اتوار کے دن ہی پولس کے بغلگیر ہوکر سی اے اے کے مخالفین کو الٹی میٹم دے رہے تھے کہ دھرنے پر جو خواتین اورمرد بیٹھے ہوئے ہیں ان سے تین دنوں کے اندر جگہ خالی کرادی جائے ورنہ وہ خود خالی کرادیں گے۔ پولس ان کی باتوں کو ہنس ہنس کر ٹال رہی تھی۔ پولس کے اندر خفیہ کارندے ہوتے ہیں جن کو ان حالات میں خاص طور پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لیکن جب پولس خود فسادیوں سے ملی ہو تو پھر فسادیوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ فساد کے دوران پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کو اینٹ پتھر پھینکنے کیلئے اکساتی رہی۔ جب خود پولس بلوائی بن جائے یا بلوائیوں کا ساتھ دے تو فسادی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
دہلی کی پولس جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوئی ہے زعفرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سانحہ ہو۔ شاہین باغ کے قریب کا معاملہ ہو، ہر جگہ پولس کی جانبداری اور طرفداری دیکھنے میں آتی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ جامعہ ملیہ کے طالبعلموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ دہلی ہائی کورٹ تاریخ پر تاریخ دینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی کے حالیہ فساد کے سلسلے میں آج ہی (25فروری) سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔ مہلوکین کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سپریم کورٹ کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا یا حق و انصاف مظلومین کو ملے گا۔اس بار پہلے سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ چار افراد مارے بھی گئے ہیں۔ ڈر اور خوف سے اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں۔ پولس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ایسی صورت میں پولس سے حق و انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عدالت کو فساد کی تحقیق کا بلا تاخیر آرڈر دینا چاہئے تاکہ اصلی فسادیوں اور درندوں کے خلاف جلد کارروائی ہو اور دہلی پولس کے سیاہ کارناموں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ بھی فاش ہو۔ امید ہے کہ اس بار عدالت انصاف مانگنے والوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، عورت کے اندر طاقت نہیں ہے، عورت کے اندر کار آمد صلاحیت نہیں ہے اس لیے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بیشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس میں عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے. کیونکہ ایک عورت کے اندر بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر صبر کے میدان میں دیکھا جائے تو اس میں بھی عورت یعنی حوا کی بیٹیاں کامیاب نظر آتی ہیں صرف کمانے والی عورت کامیاب نہیں ہوتی بلکہ گھر بسانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت کرنے والی اور شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے بچوں کی پرورش کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے اور جہاں مرد کی آواز کو دبانے اور طاقت کے بل پر کچلنے کا ماحول پیدا ہوجائے تو وہاں ڈھال بن کر کھڑی ہوجانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے. فرعون ایک ظالم تھا لیکن اس کی بیوی آسیہ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت ہاجرہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکی اداؤں کو حج کے ارکان میں شامل کر دیا، حضرت خدیجہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ بیوہ ہوتے ہوئے چالیس سال کی عمر میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، حضرت فاطمہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ جنتی خاتون کی سردار ہوں گی جب انکی سواری پل صراط سے گذرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ سارے کے سارے لوگ اپنی نگاہیں نیچی کرلو فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے حضرت بی بی رحمت ایک کامیاب عورت ہیں جب حضرت ایوب علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہونے لگی یعنی امتحان ہونے لگا تو سخت مصیبت کے عالم میں جب سبھی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور بستی سے بھی نکال دیا تب بھی بی بی رحمت نے ساتھ نہیں چھوڑا.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید الکونین کی بیٹی ہو کر چکیاں چلاتے چلات ہاتھوں میں چھالے پڑجایا کرتے تھے پھر بھی دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں.
حضرت حنظلہ کی شادی ہوئی ہے ابھی پہلی رات ہے بیوی کے ساتھ شب زفاف منارہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ہوتا ہے حنظلہ اٹھتے اور جہاد میں شریک ہونے کیلئے نکلنے لگتے ہیں بیوی غسل کرنے کے لئے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ نہیں رکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور پھر بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر جنگ میں میں شہید ہوجا ؤں تو تمہیں دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے تم دوسری شادی کرلینا بیوی بھی بول تی ہے کہ ائے میرے سرتاج جاؤ رسول اللہ کی جانب سے جہاد کا اعلان ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ مگر ایک وعدہ کرو کہ جنگ میں شہید ہوگئے تو کل میدان محشر میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کریگا تو مجھے بھول نہ جانا بلکہ مجھے بھی ساتھ جنت میں لیجانے کے لیے اللہ رب العالمین سے سفارش ضرور کرنا جنگ میں حضرت حنظلہ کی شہادت ہوئی روایات میں یہی ملتا ہے کہ بیوی نے دوسری شادی نہیں کی.
تعلیم و تربیت کے میدان میں دیکھا جائے تو صحابی ربیع الفروخ کی بیوی حاملہ ہیں اور ربیع الفروخ جہاد کے لیے جارہے ہیں اور چالیس ہزار اشرفیاں بیوی کو دیکر میدان جنگ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں اور واپس آنے میں ستائیس سال لگ جاتے ہیں یعنی ستائیس سال کے بعد جب واپس آتے ہیں تو ڈائریکٹ گھر نہیں آتے بلکہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی کو پیغام بھیجتے ہیں کہ میں گھر آرپار ہوں شریعت کا یہی اصول بھی ہے کہ جب تم زیادہ دنوں کے بعد گھر واپس آؤ تو پہلے گھر خبر کردو، بیوی ہو تو اس تک پیغام پہنچا دو تاکہ وہ تمہارے استقبال کی تیاری کرلے چنانچہ جب ربیع الفروخ نے گھر آنے کا پیغام بھیجا تو بیوی نے کہا کہ آپ مسجد میں ٹھہریں عشا کے بعد گھر آنے کی اجازت ہے ربیع الفروخ مسجد میں ٹھہرتے ہیں ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز ادا کرتے ہیں ایک نوجوان امامت کرتا ہے شاندار قرأت سن کر اور بعد نماز خطاب سن کر ربیع الفروخ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کر دعائیں کرتے ہوئے زبان سے یہ کلمات ادا کیا اے اللہ کاش میرے پاس بھی کوئی بیٹا ہوتا تو میں بھی اسے ایسا ہی عالم دین بناتا بعد نماز عشاء بیوی نے پیغام بھیجا اے ربیع الفروخ اب آپ گھر تشریف لاسکتے ہیں پیغام ملنے کے بعد وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے دروازے پر پہنچ کر دستک دیتے ہیں تو وہی امامت کرنے والا نوجوان آکر دروازہ کھول تا ہے ربیع الفروخ سوچتے ہیں کہ میں کہیں کسی اور کے دروازے پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن پھر دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گھر تو میرا ہی ہے نوجوان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ گھر میرا ہے ان کی بات سن کر نوجوان کہتا ہے کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ گھر میرا ہے میں نے آج تک آپ کو اس گھر میں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے ساری باتیں سن کر بیوی دروازے پر آتی ہے سلام کرتی ہے استقبال کرتی ہے اور گھر میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے نوجوان سے کہتی ہے کہ بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں جب تم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے میرے پیٹ میں تھے تبھی تمہارے والد جہاد کے لیے چلے گئے تھے اور آج ستائیس سال بعد واپس آئے ہیں اس کے بعد ربیع الفروخ سے بیوی بولتی ہے کہ آپ نے جاتے وقت چالیس ہزار اشرفیاں جو دی تھیں میں نے اس سے تمہارے اس بیٹے کی پرورش کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا بتائیے کیا آپ مجھ سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا ائے میری بیوی تم ایک کامیاب عورت ہو حوصلہ مند عورت ہو تم نے میری شریک حیات ہونے کا حق ادا کردیا تم نے امانت میں کوئی خیانت نہیں کی میں تم سے بیحد خوش ہوں.
ایک اور عورت جن کا نام اسما ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر دیا تو اسما بنت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں تو حضرت اسما نے حجاج کے دربار میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا حجاج بن یوسف نے قتل کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر لٹکا دیا تو حضرت اسما وہاں پہنچ کر مسکراتی بھی ہیں اور روتی بھی ہیں حجاج بن یوسف یہ ماجرا دیکھ کر ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ماں ہونے کی بنیاد پر بیٹے کے قتل پر غم ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قتل ہونے کے بعد بھی میرے بیٹے کا سر اونچائی پر ہے اور قاتل زمین پر میرے بیٹے کے پیروں کے برابر کھڑا ہے یہ سن کر حجاج بن یوسف غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولتا ہے اے عورت اپنے بیٹے کا انجام دیکھ تو حضرت اسما نے جواب دیا کہ دیکھ رہی ہوں تونے میرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی لیکن میرے بیٹے نے راہ حق میں شہادت پاکر تیری آخرت تباہ کردی یہ تھا حضرت اسما کا دو ٹوک جواب کہ ظالم کے سامنے بھی حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا.
بلند ترین مقام رکھنے والی عورتوں میں ایک نام حضرت مریم کا بھی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں وہ حضرت مریم جنہوں نے ملک الموت سے بھی گفتگو کی ہے جب انکی روح قبض کرنے کی غرض سے عزرائیل آئے تو حضرت مریم نے کہا کہ کس لئے آئے ہو انہوں نے جواب دیا کہ روح قبض کرنے کے لئے تو مریم نے کہا کہ میں روزے سے ہوں اور میرا بیٹا جنگل میں پھل لینے کے لیے گیا ہے اسے واپس آلینے دو تو عزرائیل نے کہا کہ تمہارا بیٹا جنگل سے آئے یا نہیں آئے مجھے اس سے مطلب نہیں ہے وقت مقررہ سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا اور ایسا ہی ہوا کہ جب وقت پورا ہوا تو عزرائیل نے روح قبض کرلی حضرت عیسٰی علیہ السلام جنگل سے پھل لیکر واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے.
عورت یقیناً گھروں کی زینت ہے عورت بذات خود ایک زیور ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی خوبیوں پر نگاہ ڈالا جائے خوبصورتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ نیک سیرت ہونا کامیابی کی ضمانت ہے عورت کے اندر صبر کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جب اس کا چھوٹا بچہ سخت سردی کے موسم میں بھی بستر پر پیشاب کردیتا ہے تو اس وقت وہ عورت اتنا حصہ لپیٹ کر بچے کو اس پر سلاتی ہے اور خود بغیر بستر کے سوجاتی ہے یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے، یہ مضبوط حوصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کے ماحول میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد کو رمضان المبارک کا فرض روزہ گراں گذر تاہے لیکن عورت ہے جو رمضان کے روزے بحسن خوبی رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایام میں نفلی روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے.
ایک عورت کا حوصلہ اور صبر دیکھنا ہو تو کربلا کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یکے بعد دیگرے لوگ شہادت کا جام پیتے جارہے ہیں اور حضرت زینب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی جارہی ہیں بلکہ لاشوں کو ترتیب سے خیمے کے اندر رکھتی جارہی ہیں اور وہ وقت بھی آیا کہ اب بھائی کا نمبر آگیا یعنی حضرت زین العابدین بیمار ہیں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود میدان کارزار میں جارہے ہیں اور حضرت زینب نے میدان جنگ میں اپنے بھائی حسین کو روانہ کرکے صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ ائے حوا کی بیٹیوں جب اسلام پر آنچ آئے تو اپنے بھائیوں کو شہادت کی راہ میں دولہا بنا کر روانہ کر دینا اسی سرزمین کربلا سے حضرت شہربانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ اے حوا کی بیٹیوں جب کوئی اسلام کا سہاگ اجاڑنا چاہے تو تم اپنا سہاگ اجاڑ کر مذہب اسلام کا سہاگ اجڑنے سے بچالینا.
اور آج ہندوستان میں بھی عورتوں کا حوصلہ دیکھا جاسکتا ہے جمہوریت ھندوستان کی آن، بان اور شان ہے، دستور ہند ملک کا زیور ہے، امن و رواداری ہندوستان کا سرمایہ ہے اور اس سرمائے کو لوٹنے کی کوشش کی جانے لگی، آئین تحت آئینی منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر آئینی قدم اٹھایا جانے لگا، این آر سی، سی اے اے جیسا قانون بنایا گیا تو شاہین باغ، گھنٹہ گھر سمیت بیشمار مقامات پر عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہین باغ میں خواتین جمہوریت بچانے کی آواز بلند کر رہی ہیں اور متنازعہ شہریت قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اس دوران انکے اوپر الزامات بھی لگائے گئے، سردی کے موسم میں بچوں کی موتیں بھی ہوئیں، انہیں توڑنے کی اور منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن وہ ملک اور ملک کے آئین کو اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لئے شیشہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں اور آج ملک کے کسی بھی حصے میں شہریت قانون سے متعلق احتجاج ہوتا ہے تو اس میں شاہین باغ کا ذکر ضرور ہوتا ہے آئے حوا کی بیٹیاں تمہارے حوصلوں کو سلام !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگاہم خاموش بیٹھنے والے نہیں، ممبئی میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں مولانا سید ارشدمدنی کا اعلان
نئی دہلی:مذہب کی بنیادپر تفریق کرنے والے قانون سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکی موجودہ شکل کو ہم مستردکرتے ہیں، ہمیں ایسا کوئی قانو ن منظور نہیں جو آئین کی بنیادکو زدپہنچاتا اورشہریوں کے حقوق کو صلب کرتاہو، ہندومسلم اتحاد جمعیۃعلماء ہند کی بنیاد ہے اور آج انسانوں کے اس ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں بھی ہندومسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہورہا ہے، جمعیۃعلماء ہند اسی اتحادکے سہارے ان قوانین کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلائے گی ہم اب رکنے والے نہیں جب تک حکومت ان تینوں کو واپس نہیں لیتی ہماری تحریک جاری رہے گی ہم جھکنے والے نہیں، جس طرح ملک کے ہندواور مسلمانوں نے متحدہوکر انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا تھا ہم اس حکومت کو بھی جھکنے پر مجبورکردیں گے یہ الفاظ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی اس تقریر کا ابتدائیہ ہیں جو انہوں نے مجلس منتظمہ کے اجلاس کے اختتام پر ممبئی کے تاریخی آزادمیدان میں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، تقریر کیاتھی ایسامحسوس ہورہا تھا کہ سامعین کے دلوں کی آواز تھی اورلوگ ہمہ تن گوش تھے، انہوں نے اس پس منظرمیں آسام کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کے ہندواور مسلمان اس امتحان سے گزرچکے ہیں جمعیۃعلماء ہند پچھلے پچاس برس سے اس مسئلہ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی طورپر شریک رہی ہے،نشانہ وہاں کے 70۔80لاکھ مسلمانوں کو ریاست سے دربدرکردینے کا تھا چنانچہ شہریت کے حصول کے عمل میں ان کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے، جمعیۃعلماء ہند نے اس کو لیکر مسلسل قانونی جدوجہد کی یہاں تک کہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جب 48لاکھ خواتین کے سروں پر شہریت کھونے کی تلوار لٹکی تویہ جمعیۃعلماء ہندہی تھی جو سپریم کورٹ گئی اور اس فیصلہ کے خلاف کامیابی حاصل کی، پنچایت سرٹیفیکٹ کو قانونی دستاویز تسلیم کرلیا گیا ان 48لاکھ میں تقریبا 20لاکھ ہندوخواتین تھیں، جمعیۃعلماء ہند نے یہ کام اس لئے کیا کیونکہ وہ ہندواور مسلمان میں کوئی تفریق نہیں کرتی اپنے قیام سے لیکر اب تک وہ ہندومسلم اتحادکے راستہ پر چل رہی ہے، مولانامدنی نے آگے کہا کہ اس جماعت کو قائم کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے اس کے منشورمیں ہندومسلم اتحادکو ہی اولیت دی تھی تب سے یہ جماعت ہندومسلم اتحاد کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ بھی وہ اسی راہ پر چلتی رہے گی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سی اے اے کے ذریعہ کسی کو شہریت دیتی ہے تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں لیکن مذہب کی بنیادپر آپ اس ملک میں صدیو ں سے آبادلوگوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں منظورنہیں، جمعیۃعلماء ہند ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے اسمبلی میں تجویز پاس کرکے کہا ہے کہ وہ این پی آرکولاگونہیں کریں گی اس میں وہ کامیاب ہوں گی یانہیں یہ سوال بعد کاہے، اہم بات یہ ہے کہ عوام نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مستردکردیا ہے، پہلے جھارکھنڈاوراب دہلی میں اسے دھول چاٹنی پڑی ہے، یہ تنہامسلمانوں کا کارنامہ نہیں ہے اگر ہندومسلم اتحادنہ ہوتاتو اس طرح کا نتیجہ کبھی نہیں آسکتاتھا ہم اسے اس لئے خوش آئند سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی انہوں نے جو کچھ مسلم مخالف فیصلے کئے تھے اسے الیکشن میں ہر طرح سے کیش کرنے کی کوشش بھی کی دہلی میں تو ملک کے وزیر داخلہ نے سڑکوں سڑکوں گلیوں گلیوں گھوم کر ووٹ کی بھیک بھی مانگی، لیکن انہیں نہ تو ہندووں نے ووٹ کی بھیک دی اور نہ مسلمانوں نے، مولانا مدنی نے کہا کہ اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ ہندومسلم اتحاد ہی ہندوستان کی اصل طاقت ہے، اللہ نے چاہاتو بہار اور بنگال میں بھی ان کا یہی حشرہونے والا ہے اس کے لئے ہندومسلم اتحاد بہت ضروری ہے آپ تنہااس لڑائی کو جیت نہیں سکتے اس اتحادکو مضبوط کرنے کے لئے ہم پورے ملک میں کام کریں گے کیونکہ ہمارایہ یقین ہے کہ اگر ہندومسلم اتحادرہے گا تو یہ ملک چلے گا اور اگر یہ ٹوٹا تو ملک ٹوٹ جائے گا، انہوں نے حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جس طرح 1951 سے 2010 تک مردم شماری ہوتی رہی ہے اگر اسی طرز پر مردم شماری کراؤ گے توہم تمہارے ساتھ ہیں مگر موجودہ شکل میں این پی آرکو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے ہماراووٹ حکومت بناتاہے اور یہی ووٹ حکومت گرابھی سکتاہے، حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ تمہیں ہماری طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، یہ طاقت ہندومسلم اتحادکی طاقت ہے، سی اے اے،این پی آراور این آرسی کے خلاف پورے ملک میں ہورہے تاریخی احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مظاہرہ کررہی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پردہ دار مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں پر سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے کئی مہینوں سے سراپا احتجاج ہیں ہم ان کے جذبے اور حوصلہ کو سلام کرتے ہیں، وزیراعظم نریندرمودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی دیکھ لویہ وہی خواتین ہیں جنہیں کل آپ اپنی بہن کہتے تھے اورجن کو انصاف دینے کے نام پر آپ نے ہماری شریعت میں مداخلت کی،طلاق کا قانون لائے اور تب آپ نے کہا تھا کہ ہم نے صدیوں سے ظلم کا شکارمسلم بہنوں کو انصاف دیا ہے آج وہی بہنیں آپ کے ذریعہ لائے گئے سیاہ قانون کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں اور آپ ان کی آوازتک سننے کو تیارنہیں ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ مسلم خواتین کے ہمدردنہیں بلکہ مسلم دشمنی میں آپ نے طلاق کو قابل سزا جرم بنایا ہے انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ ہرگز نہ دیں بلکہ اسے ہندومسلم ملاجلااحتجاج بنائیں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے احتجاج کو مسلم احتجاج کا رنگ دیں گے تواس کامطلب ہوگا کہ آپ بی جے پی کے نظریہ کو تقویت دے رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آگ کو آگ سے نہیں پانی سے بجھایا جاتاہے اس لئے منافرت کی اس آگ کو محبت کی بارش سے بجھانے کی ضرورت ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی اے اے، این پی آراور این آرسی کی صورت میں جو مصیبت ملک پر مسلط کی گئی ہے یہ تنہامسلمانوں کیلئے مصیبت نہیں بلکہ یہ سب کی لڑائی ہے کیونکہ اس سے دلت اور دوسرے کمزورطبقات بھی متاثرہوں گے انہوں نے آخرمیں ایک بارپھرحکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا اوراعلان کیا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوتاوہ خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے کہا کہ ہم اسی طرح کے جلسے پورے ملک میں کریں گے ہندوّں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لاکر تحریک چلائیں گے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبورکردیں گے۔
دوسرے دن بھی مذاکرات کار شاہین باغ پہنچے
نئ دہلی:دہلی کے شاہین باغ میں راستہ کھلوانے کے لیے آج پھر ثالث سادھنا رام چندرن اور سنجے ہیگڑے پہنچے۔ انہوں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ آپ نے بلایا تو ہم واپس آئے ۔کل ہمیں حوصلہ ملا۔ہم سب ہندوستان کے شہری ہیں۔ہم سمجھ کرچلے جائیں گے۔آپ کوسمجھنا ہوگا کہ سی اے اے کامسئلہ سپریم کورٹ کے سامنے آئے گا۔انہوں نے بند سڑک کے معاملے پر بات چیت شروع کی۔ سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ کسی کو تکلیف ہورہی ہے توسب مل جل کر راستہ نکالیں۔کچھ ہی دیر بعد سادھانا رام چندرن نے میڈیا کی موجودگی پراعتراض کیا۔ اس کے بعدمیڈیاکے نمائندے دھرناکی جگہ سے باہرچلے گئے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے شاہین باغ کے بند راستے کو کھلوانے کے لیے مظاہرین سے بات چیت کے لیے ثالثوں کی تقرری کی ہے۔جب کہ نوئیڈاکی طرف سے دوکلومیٹردورسے ہی متبادل راستوں کوپولیس نے ہی بندکررکھاہے۔مذاکرات کارسنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے بدھ کو بھی شاہین باغ میں دھرنا دے رہے لوگوں سے بات چیت کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔دونوں ثالث جمعرات کو بھی دھرناکی جگہ پرپہنچے اور لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ سادھنا رام چندرن نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے وہ مسئلہ ہے، ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مظاہرہ کرنے کاحق سب کوہے۔ ہمیں سڑک بند ہونے کے معاملے پر بات کرنے کے لیے بھیجاگیاہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاہین باغ برقرار رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ شاہین باغ میں ہی رہیں اور لوگوں کو پریشانی نہ ہو، تو آپ کو منظورہے؟ اس پر وہاں موجود لوگوں نے کہا، نہیں، سڑک نہیں چھوڑیں گے۔اس کے بعد سادھنا رام چندرن نے کہا کہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں، ایک دوسرے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔ہمارا ایمان ہے کوشش کرنا۔پوری کوشش کے بعد اگر یہ مسئلہ نہیں سلجھا تو یہ کیس واپس سپریم کورٹ جائے گا، پھر حکومت جو کرنا چاہے گی کرے گی۔ہر مسئلے کا حل ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حل نکلے اورشاہین باغ کو برقرار رکھ کر نکلے، تو صحیح رہے گا۔سنجے ہیگڑے نے کہاہے کہ سپریم کورٹ یہ دیکھ رہا ہے کہ شاہین باغ ایک مثال ہوناچاہیے۔ یہ ہوکہ کسی کو تکلیف ہوئی تو سب نے مل جل کر راستہ نکالا۔ہم سن رہے تھے کہ دوماہ سے بیٹھے ہیں، کہ آپ کیامصیبت ہے۔ہم ایک دوسرے کی مددکرنے کے لیے ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مظاہرے کا حق برقرار رہے۔شاہین باغ برقرار رہے پر کسی کو پریشانی نہ ہو۔اس کے بعد مظاہرین نے اختلاف کیا۔سنجے ہیگڑے نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے ہٹیں گے کو کوئی سننے والا نہیں آئے گا؟ یہی تو کہہ رہے ہیں نہ آپ۔ہم کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ہم آپ کی آوازاٹھائیں گے۔ہم آپ کے درمیان آکر آپ کی بات سنیں گے، ہم پر یقین رکھیں۔اس کے بعدسادھنارام چندرن نے کہاکہ مذاکرات کارنہیں چاہتے کہ وہاں میڈیا موجود رہے۔ اس کے بعد میڈیا اہلکار دھرناکی جگہ سے باہرچلے آئے۔ذرائع کے مطابق بعد میں سنجے ہیگڑے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے بہت آسان تھا کہ پولیس کو بول کر ہٹوا دے، لیکن کورٹ نے ایسانہیں کیاہے۔کورٹ بھی آپ کی بات سمجھتا ہے۔ شاہین باغ میں اور کہیں بھی لوگوں کو تکلیف ہو تو مظاہرہ ہونا چاہیے لیکن کورٹ کہتا ہے کہ کل نوئیڈا والے ڈی این ڈی جام کرکے بیٹھ جائیں تو ایسے ملک نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ بھی سمجھتا ہے کہ چھوٹے سے کورٹ روم میں سب کونہیں سناجاسکتا، اس لیے ہمیں بھیجاگیا۔انہوں نے کہاہے کہ آپ کے ہاتھ میں تاریخ ہے، آپ کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔جہاں عورتوں کا غلبہ ہوتا ہے وہی ملک آگے بڑھتاہے۔ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، یہ میں مانتا ہوں۔آپ کے ہاتھوں میں طاقت ہے، سب کے لیے سوچیے۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ بتائیے کہ آگے معاملہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشددسے منسلک ویڈیوز کو لے کر پولیس اور طالب علموں میں جاری کشیدگی کے درمیان دہلی پولیس کی ایس آئی ٹی کی ٹیم جامعہ پہنچ گئی ہے۔ایس آئی ٹی سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیو اور اے سی پی (نائب پولیس کمشنر) سندیپ لامبا اوردیگر کئی افسران موقع پر موجود ہیں۔کرائم برانچ کی ٹیم کے ساتھ 2 ویڈیوگرافی کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ظاہر ہے دہلی پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔ دہلی پولیس کے خصوصی کمشنرپی رنجن نے پیر کو بتایا کہ جامعہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد میں بہت سی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کر دی گئی ہے۔ہم واقعات کو جوڑ کر تلاش کر رہے ہیں۔جامعہ لائبریری میں جو بھیڑ نظر آرہی ہے اس میں طالب علم کے ساتھ بیرونی لوگ بھی شامل ہیں، جانچ جاری ہے۔سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو پر جامعہ ملیہ اسلامیہ انتظامیہ نے اتوار کو صاف کیا کہ 15 دسمبر کی رات کے واقعہ کا سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ویڈیو جامعہ انتظامیہ کی جانب سے جاری نہیں کیا گیاہے۔ اس پورے معاملے سے جامعہ انتظامیہ نے خود کو الگ کر لیا ہے۔
کنہیا کمار کا طنز، ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا
بہارشریف:جے این یوطالب علم یونین کے سابق صدر اور سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار نے مودی اور شاہ پر جم کر طنزکسے ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ جس طرح ہر پیلی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح ہر گجراتی گاندھی نہیں ہو سکتا۔کنہیا نے مرکزی حکومت پر لوگوں کوبانٹنے کا الزام لگایا ہے۔کنہیا کمارنے کہاہے کہ ہم مودی شاہ کے منصوبے کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔بھارت میں جمہوریت ہے لیکن مودی شاہ ظالم کی طرح ملک کو چلانا چاہ رہے ہیں۔مرکزی حکومت سی اے اے لاکرملک کو توڑنے کا کام کر رہی ہے۔آج کمانے والے غریب اور لوٹنے والے امیرہورہے ہیں۔ یہ لڑائی کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ اتوار کو کنہیا اپنے جن گن من یاترا کے تحت نالندہ پہنچے اور سوگرا کالج میدان میں اجتماع سے خطاب کیا۔کنہیا نے کہا کہ نالندہ کی زمین بابوکنور سنگھ، جے پی، کرپوری، سوامی کی سرزمین رہی ہے۔تمام لوگوں نے ملک کے مفاد میں جنگ لڑی ہے۔ہم ملک کی آزادی کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے اور یہاں عوام بہت سخت ہوتی ہے۔کنہیاکمار نے 27 فروری کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہونے والی ریلی کے لیے لوگوں کومدعوکیاہے۔
ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _
مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _
جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _
اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _
میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عورتوں کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ نازک ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں کے مقابلے میں بزدل ہوتی ہیں، بطور خاص گھریلو عورتیں جو چھپکلیوں اورجھینگروں تک کو دیکھ کر چیخ مار دیتی ہوں، ان کی ساری ہیکڑی ختم کرنے کے لیے ریوالور، گولی، ہوائی فائرنگ وغیرہ جیسی چیزوں کو کافی سمجھنا فطری ہے۔ شوہر کا ایک زناٹے دار تھپڑ جس مخلوق کو ساری زندگی پا بہ زنجیر رکھ سکتا ہے، بھلا اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اسے چیلنج دے سکے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باد مخالف میں وہ پورے ہمت و استقلال کے ساتھ ان لوگوں کو چنوتی دینے کے لیے پورے 50 دنوں تک اپنی جگہ پر جمی رہے؟سرد راتوں اور گرم طعنوں کے تھپیڑوں کے باوجود اسی طرح ان لوگوں کے سامنے کھڑی رہے جو دُرگا اور کالی کو نمن کرنے کے باوجود "ناری شکتی” کے انکاری ہوں۔ رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی اور جھانسی کی رانی کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے باوجود جو لوگ آج بھی اکیسویں صدی میں عورتوں کو صرف "گھریلو نوکرانی” یا "استعمال کرنے کی چیز” سمجھتے ہیں، ان کے لیے تو بہرحال یہ شاہین باغ کی عورتیں ان کی مردانہ ایگو کے لیے تازیانے سے کم نہیں، اسی لیے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت عورتوں کو گھر بار سنبھالنے کا مشورہ دیتے ہیں تو کبھی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں نے اپنی عورتوں کو چوراہے پر بٹھا دیا ہے اور خود رضائی میں دبکے پڑے ہیں، پھر کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ ان عورتوں سے ڈر کر انھیں "بکاؤ” کہہ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ عورتیں پتہ نہیں، کس چیز سے بنی ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا اورپورے پچاس دنوں سے راون کی پوری فوج کو للکار رہی ہیں اور بیچارہ راون اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ "ویدک کال” کی نہیں، بلکہ اکیسویں صدی کی عورتیں ہیں۔ان عورتوں کا نہ تو "سیتا ہرن” کیا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ "اگنی پریکشا” دینے کے لیے تیار ہے، بلکہ وہ خود مجسم اگنی کا روپ دھار چکی ہے جو سرکار کو اندر ہی اندر بھسم کررہی ہے۔ لہٰذا کبھی گوپال شرما نامی شخص کو چھپکلی سے ڈرنے والی مخلوق کو ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے جو بھٹکتے بھٹکتے شاہین باغ کے بغل میں ہی واقع جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہنچ کرصرف ایک گولی داغنے کا ناٹک کرتا ہے اور بزدلوں کی طرح پیچھے کھسکتا ہوا خود کو تقریباً پولیس کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے پیچھے ہی اسے گود لینے کو تیار کھڑی تھی، پھر کپل گجر نامی ایک شخص شاہین باغ کے باہر نمودار ہوتا ہے اور جان بوجھ کر دو یا تین راؤنڈ ہوائی فائر کرنے کے بعد پستول جھاڑیوں میں پھینک کر بالکل گوپال شرما کی طرح پولیس کی طرف جست لگا تا ہے اوران کی شفقت بھری بانہوں میں یہ کہہ کر سما جاتا ہے کہ "یہ ہندوؤں کا دیش ہے اور یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔”جامعہ ملیہ میں گولی چلانے والے گوپال شرما کو نابالغ قرار دے کر پولیس اس کیس کو پہلے ہی مرحلے پر کمزور کردیتی ہے،ممکن ہے ایک دو روز بعد کپل گجر کو ذہنی طور پر پاگل قرار دے کر اس کا کیس بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں پہلے بھی کافی کہہ چکا ہوں اور اس کی پوری کرونولوجی بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن جس طرح 48 گھنٹوں کے اندر جامعہ اور شاہین باغ میں سانحے ہوئے، ان دونوں میں ایک مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں حملہ آوروں کا مقصد شاید کسی کوگولی مارنا نہیں بلکہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں کاروائیاں شاہین باغ کی عورتوں کو محض ڈرانے کے لیے تھیں تاکہ ان میں افراتفری پھیلے، وہ اپنی جان اور آبرو بچانے کے لیے گھر لوٹ جائیں یا ان میں سے بیشتر کے شوہر اور ان کے گھر والے ان عورتوں پر گھر لوٹنے کا دباؤ ڈالیں، اس طرح سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب اس دن ہوا جب پارلیامنٹ میں مودی سرکار بجٹ پیش کرتے ہوئے "بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ” کے منصوبے کے گذشتہ ایک سال کے فائدے گنوا رہی تھی۔ مجال ہے جو ذرا بھی زبان کانپی ہو، مجال ہے گذشتہ سال میں عورتوں اور طالبات پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار کا خیال بھی سرکار کے ذہن میں آیا ہو اور مجال ہے کہ ہندوستان بھر میں لاکھوں شاہین باغوں میں بیٹھی عورتوں کے درد اور ان پر پولیس کے مظالم اور بدزبانیوں کو یاد کرکے پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ہی جھلملائے ہوں۔ چونکہ سرکار کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا مرد اب تک عورتوں کو ان کی برسوں پرانی امیج کے تناظر میں دیکھ رہا ہے اور مطمئن ہے کہ بھلا چھپکلی اورجھینگروں سے ڈرنے والی عورتوں کی اتنی مجال کہاں کہ وہ ان سے سوال کر سکیں، ان سے حساب کتاب مانگ سکیں۔ یہی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی اور لے ڈوبے گی، چونکہ موجودہ صورت حال بالکل شفاف اور واضح ہے۔جب کسی ملک کا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ اس کی پوری پلٹن اپنی سیاست کا مرکزی نقطہ شاہین باغ میں بیٹھی کچھ عورتوں پر مرکوز کردیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب سرکار ان سے ڈرنے لگی ہے لیکن چونکہ صدیوں پرانا مردانہ غرور عورتوں سے شکست مان کر اپنی وراثت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو وہ کبھی کرنٹ لگانے کی بات کرتا ہے، کبھی گوپال شرما کو بھیجتا ہے تو کبھی کپل گجر کو اور کبھی "ہندو سینا” کے ذریعہ 2 فروری کو شاہین باغ اکھاڑنے کا اعلان کراکے انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس انھیں پتہ ہی نہیں کہ شاہین باغ میں بیٹھی عورتیں مذہبی صحائف اور تاریخ کے صفحات سے نکل کردرگا، کالی، رضیہ سلطان، جھانسی کی رانی،لکشمی بائی جیسے کردار کے روپ میں مجسم ہوچکی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
سی ا ے اے کیخلاف مظاہرے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپے کی مالی امداد
نئی دہلی: اترپردیش میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہو نے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جمعےۃ علماء ہند کے ایک موقر وفد نے ان کی مالی مدد کی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے وفد نے رام پور، سنبھل، مظفرنگر، میرٹھ او ربجنور میں مغموم اہل خانہ کے گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک کو مبلغ ایک ایک لاکھ روپے کا چیک بطور تعاون پیش کیا۔واضح ہو کہ ۲/جنوری ۰۲۰۲ء کو جمعےۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو مالی تعاون اور قانونی پیروی کا فیصلہ کیا تھا، نیز سی اے اے کے خلا ف سپریم کورٹ میں مقدمہ سمیت کئی محاذوں پر جد وجہد کے خاکے کو منظوری دی تھی۔جمعےۃ علماء ہند کے متذکرہ وفد میں شریک مولانا حکیم الدین قا سمی ناظم جمعےۃ علماء ہند نے بتایا کہ اب تک ہمارے وفد نے مظفر نگر میں کھالہ پار کے رہنے والے نور محمد، بجنور میں محمد سلیمان، محمد انس (نہٹور) سنبھل میں محمدشہروز، محمد بلال،میرٹھ میں محمد آصف بن حکیم محمد سعید،محمد محسن،محمد ظہیر،عبدالعلیم،محمد آصف بن عیدو اور رام پور میں محمد فیض کے گھرو الوں سے ملاقات کی ہے اور ان کو مالی مدد دی ہے۔انھوں نے بتایا کہ جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی صاحب کی ایما پر مقدمات کی پیروی کے لیے ہر ضلع میں وکلاء کا پینل بنا یا گیا ہے۔جمعےۃ مغربی اتر پردیش کے سکریٹری قاری ذاکر حسین نے کارگزاری پیش کی کہ ضلع مظفر نگر میں 13 وکلاء پر مشتمل ایک پینل قائم کیا گیا جو جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لئے مستقل کوشاں ہے۔ الحمدللہ اس کے نتیجے میں اکثر افراد کی ضمانت ہو چکی ہے 44 افراد کو ریکوریrecovery))نوٹس دیا گیاتھا جن میں سے 24 افراد کی طرف سے جمعیۃ علماء کے وکلاء نے جواب داخل کرایا ہے۔اس کے علاوہ کثیرتعداد میں لوگوں کو مچلکہ کا پابند کیا گیا تھا جسے علی افسران سے مل کر ختم کرایا گیا۔مذکورہ بالا اضلاع کے دورے پر جمعےۃ علماء ہندکے وفد میں مرکز سے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعےۃ علماء ہند، مولانا مفتی محمدعفان منصورپوری،مولانا کلیم اللہ قاسمی ہنسوراور مولانا حفیظ الرحمن قاسمی،مولانا محمد جمال قاسمی شریک رہے، جب کہ ان اضلاع کے سفر کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں ریاستی و ضلعی ذمہ داران بھی وفد کا حصہ رہے۔
نئی دہلی:جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کو 5 دن کی پولیس ریمانڈ میں بھیج دیاگیاہے اورپوچھ تاچھ شروع کردی گی ہے۔اس سے پہلے دہلی پولیس کی کرائم برانچ شرجیل امام کو لے کر ساکیت کورٹ پہنچی اور جج کے سامنے پیش کیا گیا۔لیکن انتہائی اشتعال انگیزنعرہ لگانے والے انوراگ ٹھاکراب تک آزادہیں اوران پرکوئی مضبوط کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر راجیش دیو کے مطابق شرجیل امام کی 5 دن کی ریمانڈ طلب کی گئی تھی۔بہارکے جہان آباد سے گرفتارشرجیل امام کو بدھ کو پٹنہ سے دہلی لایاگیا۔ گرفتاری کے بعدجہان آباد کورٹ سے منگل کو دہلی پولیس نے شرجیل کو ٹرانزٹ ریمانڈ پرلیاتھا۔ڈپٹی کمشنر راجیش دیونے کہاہے کہ شرجیل سے پوچھ گچھ کے لیے باقی ریاستوں کی پولیس ٹیمیں بھی دہلی آ سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شرجیل امام کو ریمانڈ پر لینے کی ضرورت اس لیے بھی ہے، کیونکہ اس سے لمبی پوچھ تاچھ کی جانی ہے۔ساتھ ہی اس کی مبینہ متنازعہ اورمبینہ اشتعال انگیز تقریر کی ویڈیو کی درستگی کی تصدیق بھی اس سے کرنی ہے۔افسرنے کہاہے کہ پتہ بھی لگانا ہے کہ شرجیل امام کے پیچھے اور کون کون لوگ ہیں۔
انقلابِ فرانس کے دوران ملکہئ فرانس میری انٹونیٹ (Marie Antoinette) کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو اس نے کہاکہ اگر روٹی نہیں مل رہی ہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ہمارے ملک ہندستان میں اس قدر ابھی ہلچل تو نہیں ہوئی ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کا تحکمانہ انداز اور گھمنڈ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس جمہوری ملک میں جہاں دستور کے لحاظ سے سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ سب کے حقوق بھی برابر ہیں۔ جمہوری حکومت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ”جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جو عوام کی ہوتی ہے، عوام کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کیلئے ہوتی ہے“۔ (Government of the People, by the People, for the People) مگر سنگھ پریوار والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کی ہے، ان کیلئے ہے، ان کے ذریعے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مزاج آہستہ آہستہ شاہانہ اور تکبرانہ ہوتا جارہا ہے۔
عوام کے ووٹوں سے حکومت وجود میں آتی ہے اور عوام کی اکثریت کا ووٹ اکثر شامل نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کو صرف 31% ووٹ ملے تھے۔ اور حالیہ جنرل الیکشن میں 34، 35 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگر اس حقیقت کو سنگھ پریوار والے سمجھیں تو ایک بڑی اکثریت ان کی حمایت میں نہیں ہے تو ان کا دل و دماغ صحیح ہوجائے۔ لیکن جمہوریت میں جہاں بہت کچھ خوبیاں ہیں کمیاں بھی کم نہیں ہیں۔ جمہوریت کے ذریعے آنے والے جو لوگ غیر جمہوری مزاج رکھتے ہیں وہ آمر ہوجاتے ہیں اور ان کی حکومت آمرانہ ہوجاتی ہے۔ سنگھ پریوار والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب کوئی آمر کی حکومت ہوتی ہے تو درباریوں اور خوشامدیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ بد دماغ حکمراں کو خوشامدی اور درباری کچھ زیادہ ہی خراب کر دیتے ہیں۔ نریندر مودی، امیت شاہ یا موہن بھاگوت جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کررہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے۔ ان بڑوں کے ساتھ جو ان کے چیلے اور حاشیہ بردار ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”جب کوئی ظالم حکمراں کسی کے باغ کا ایک پھل توڑتا ہے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو تہس نہس کردیتے ہیں“۔ یہ چیز اتر پردیش میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی ہے جہاں یوگی کا راج ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ کے وزراء اکثر و بیشتر احمقانہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ پیاز کی قیمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یوگی حکومت کے ایک جونیئر وزیر صحت اتُل گرگ نے کہا ہے کہ ”اگر پیاز کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں یا کم دستیاب ہیں تو لوگوں کو پیاز کا استعمال کم کر دینا چاہئے“۔ انھوں نے مزید کہاکہ ”میں سمجھتا ہوں کہ 50 سے 100 گرام پیاز لوگوں کے ٹیسٹ کیلئے کافی ہے“۔ موصوف گاڑی کی کھڑکی سے ہنس ہنس کر رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر چل دیئے۔ اسپتال کے ڈاکٹر اور اسٹاف ان کی باتوں پر ہنستے رہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ ان کا متکبرانہ انداز ہے۔ سماج وادی پارٹی کے مصباح الدین احمد نے کہا ہے کہ حکومت عام آدمیوں کے پلیٹ پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ پیاز کی قیمت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ذخیر اندوز زیادہ تر بی جے پی کے حامی ہیں اور بی جے پی کی حکومت کی انھیں سرپرستی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے وزیر صاحب لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ لوگوں کو پیاز کم کھانا چاہئے۔ در اصل مودی اور شاہ کے یہ سپاہی اپنے بڑوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور عوام کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں کہ ان کو کیا کھانا چاہئے، کتنا کھانا چاہئے، عورتوں کو کیا پہننا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو کس طرح شادی کرنا چاہئے۔ لوگوں کو کہاں جانا چاہئے اور کہاں نہیں جانا چاہئے۔ لوگوں کو کیا پڑھنا چاہئے اور کیا دیکھنا چاہئے۔ لوگوں کو کیا لکھنا چاہئے اور کیسی پینٹنگ کرنی چاہئے۔ کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے۔ ملک اور قوم سے کیسے محبت کرنا چاہئے اور کیسے نہیں کرنا چاہئے؟ ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں کے خون میں یہ چیز پیوست ہوگئی ہے۔ مسٹر گرگ انہی لوگوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وزیر موصوف نامہ نگار کو پیاز کی کمیوں کی اصل وجہ بتاکر معقول جواب دے سکتے تھے لیکن اس سے ان کے حاکمانہ انداز کی تشنگی باقی رہ جاتی۔ بی جے پی کے لوگ خاص طور پر لوگوں کے کھانے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اس طرح ظالمانہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوشت اور گائے کے نام پر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ غیر سبزی غذاؤں (Non Vigetarian Food) کی اکثر و بیشتر یہ لوگ مذمت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دو پہر کے کھانے سے اسکولی بچوں کو انڈے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کھانے پینے میں بھی زعفرانی آئیڈولوجی اور نظریے کو ٹھونسنے یا تھوپنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن یہ وزیر صحت ہیں تو ان کو ڈاکٹروں سے پوچھ کر یا بغیر پوچھے یہ بتانا چاہئے کہ گوشت خوری کے بغیر ایک آدمی کے جسم میں کتنا پروٹینس ہونا چاہئے اور کتنی پیاز استعمال کرنا چاہئے اور کتنی نہیں کرنا چاہئے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ؎ ”زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا“۔ ان زعفرانی لیڈروں کو اپنے زبان و بیان پر لگام دینے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس خراب ماحول میں اگر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک کی کثافت اور آلودگی بڑھتی جائے گی۔ پھر واپسی کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا، جسے No point of return کہتے ہیں۔
……………………………………………………
حال ہی میں مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی، دہلی بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے جو بیانات آئے ہیں وہ ہر گز کسی شریف آدمی کے بیانات نہیں ہوسکتے۔ دلیپ گھوش نے ’سی اے اے‘ کی مخالفت کرنے والوں کو جس طرح کے غلط اور گندے اور گھٹیا قسم کے القاب سے مخاطب کیا ہے اس پر تفصیل سے خاکسار کا ایک مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کالے قانون کے مخالفین کو بدکردار، بدگفتار شخص نے کہا کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ماں باپ پتہ نہیں ہے اس لئے ان کے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے۔ کپل مشرا جو کل تک ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے اپنے تازہ بیانات سے ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ آدمی نہیں ہیں کچھ اور ہیں۔ اس لئے کہ وہ عام آدمی پارٹی میں نہیں بی جے پی میں ہیں اور بی جے پی میں جب کوئی آتا ہے تو اس کے زبان و بیان پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور نہ کوئی لگام لگا سکتا ہے، وہ بے لگام ہوجاتا ہے۔ انھوں نے دہلی کے اسمبلی انتخاب کو پاکستان اور ہندستان کا مقابلہ کہا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین کو پاکستانی کہا اور جو لوگ ہندستان کو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں یعنی بی جے پی والے ان کو ہندستانی بتایا۔ ان کی ہندستانیت یہی ہے کہ غلط بیانی، جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ شاہین باغ سے پاکستان داخل ہوا ہے۔ شاہین باغ کے خواتین کے احتجاج کو بھی ایک طرح سے غیر ملکی احتجاج بتاکر اپنے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمشنر کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے۔ امید ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہوگی۔
ادتیہ ناتھ یوگی کی بدزبانی: ادتیہ ناتھ اپنے بیان کیلئے مشہور ہیں۔ لگتا ہے کہ الٹا سیدھا بیان دے کر وہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین کے احتجاج کے حوالے سے یوگی نے کہاکہ مسلمان مرد گھروں میں رضائی (لحاف) اوڑھ کر سورہے ہیں اور اپنی عورتوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتارے ہوئے ہیں۔ یوگی یا جوگی سنیاسی ہوتے ہیں اور دنیا داری چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ ایسا یوگی ہے جن کو ڈھونگی کہنا شاید غلط نہ ہوگا۔ ایک ایسا شخص جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر گھر سے برسوں دور رہا ہو جس سے دل میں نہ اپنی ماں کی قدر ہو نہ باپ کی عزت ہو اور نہ بھائی بہن کی محبت ہو آخر وہ عورتوں کی کیسے قدر کرسکتا ہے؟ ایسے لوگ اسی طرح کی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مودی-شاہ نے اپنے ہی جیسے ایک شخص کو اتر پردیش جیسی ریاست کیلئے وزیر اعلیٰ مقرر کیا ہے۔ رہتا ہے وہ لکھنؤ میں لیکن لکھنؤ کی تہذیب و شائستگی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بی جے پی کے لوگ یوگی کی بدزبانی سے خوش ہوئے ہوں کیونکہ ان کے یہاں جو جس قدر بدزبان اور فرقہ پرست ہوگا اسی قدر پارٹی میں اس کی عزت افزائی ہوگی اور اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ سونپا جائے گا۔ پہلے بھی یوگی کے بیانات انتہائی گھٹیا قسم کے ہوتے تھے اسی کا انھیں صلہ یا انعام ملا ہے۔ حالانکہ وہ ایم ایل اے چن کر اسمبلی میں نہیں پہنچے تھے۔ ان کو دہلی سے بلایا گیا۔ 300 ایم ایل اے میں کوئی بھی اتنا بدزبان اور بدکردار نہیں تھا اس لئے اتر پردیش میں یوگی کی تاج پوشی کی گئی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
کوئی بھی عوامی تحریک یک سُری یا مکمل نظم و ضبط کی پابند نہیں ہوتی اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے؛ وہ انسان جس کا چہرہ ایک نہیں، رنگ ایک نہیں، پس منظر ایک نہیں، معاشی حالات ایک نہیں، تعلیمی و فکری سطح ایک نہیں، جذبات ایک سے نہیں، قوت برداشت مساوی نہیں، نفسیات ایک نہیں اور نہ ہی ان کا ردعمل یکساں ہوتا ہے تو پھر آپ اس سے یہ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ مقصد ایک ہونے کے باوجود اس کا طریقہ کار بھی یکساں ہو؟ مثلاً تحریک آزادی کو ہی لے لیں، یہاں بھی ‘نرم دَل’ اور ‘گرم دَل’ موجود تھے۔ آزادی کی داستان میں صرف گاندھی، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے مدبر کردار ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو جیسے سرفروش بھی شامل ہیں جو انگریز سرکار کے نزدیک باغی،غنڈے اور تخریب کار تھے لیکن ہمارے لیے وہ گاندھی اور نہرو کی طرح ہیرو ہیں۔اسی طرح کیا آپ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 1974 میں اندراگاندھی کی سرکار کے خلاف طلبا تحریک بھی پوری طرح منظم اور یک سُری تھی؟ کوئی عوامی تحریک ہو بھی نہیں سکتی۔ منزل ایک ہوتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ مختلف ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ ہم ان راستوں کے راہی نہ بننا چاہیں لیکن آپ ان کی نیک نیتی اور جذبے کو غلط قرار نہیں دے سکتے چونکہ ہر عوامی تحریک کئی سطحوں پر کام کرتی ہے، صرف اوپری پرت کو ‘سمپورن کرانتی’ مان لینا تاریخ اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔جلیاں والا باغ ہو یا شاہین باغ؛ اس پر بھی مختلف ردعمل سامنے آیا اور آئے گا۔ ممکن ہے کہ میری اور آپ کی قوت برداشت مضبوط ہو، ممکن ہے ہم موجودہ سرکار کی بے حسی کو برداشت کرجائیں، ممکن ہے کہ ہم سرکار کی آئی ٹی سیل کی طرف سے ان عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہنے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ جائیں، ممکن ہے ہم جامعہ ملیہ میں لڑکیوں اور بے گناہ طلبا پر برسنے والی لاٹھی کے خلاف ترنگا ہاتھ میں لے کر سڑک پر اترنے کو کافی سمجھیں، ممکن ہے ہم جے این یو میں نقاب ڈالے غنڈوں کی داداگیری پر، پولیس اور سرکار کی یک طرفہ کاروائی پر سرکار کے خلاف نعرے لگانے کو ہی درست راستہ قرار دیں، ممکن ہے ہم یوگی سرکار کے وزیر کو جلسہ عام میں یہ بولتے سنیں کہ قبرستان میں دفن مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا بلاتکار کرنا چاہیے، پھر بھی ہم دستور ہند کا ابتدائیہ پڑھ کر پُرامن احتجاج کرنا اپنی حکمت عملی کا اہم جزو سمجھیں، ممکن ہے کہ 26 جوان لاشوں کو دفن کرنے کے باوجود ہم اپنے سینوں کو ظالم کے آگے پیش کرنے کا جذبہ سلامت رکھیں، ممکن ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے جسموں پر پولیس کی لاٹھی سے پڑے نیلے داغوں کو چوم کر اپنے راستے پر آگے بڑھ جائیں، ممکن ہے کہ 24 گھنٹے گودی میڈیا کا انڈیلا ہوا زہر پی پی کر ہم نیل کنٹھ کہلانے کا اعزاز حاصل کرلیں؛لیکن ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اس اگنی پریکشا سے صحیح سلامت گزر جائے، ضروری نہیں کہ سب کی قوت برداشت ہم جیسی ہو، ضروری نہیں کہ سب کے جسم میں دوڑنے والا خون یکساں رفتار سے دوڑتا ہو، ضروری نہیں کہ سب کے پاؤں میں باٹا کا 9 نمبر کا جوتا ہی آتا ہو، ضروری نہیں کہ سب آپ کی امامت میں آپ ہی کی طرف رفع یدین کریں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بھیڑ میں سب گاندھی وادی نہ ہوں، ان میں سے کچھ بھگت سنگھ اور سکھ دیو بھی ہوسکتے ہیں جن کا مقصد ایک ہونے کے باوجود طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے طریقہ کار سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کی نیک نیتی پر آپ سوالیہ نشان نہیں جڑ سکتے اور نہ ہی آپ کو ایسے سرفروشوں کو جسٹیفائی کرکے اپنے خانہ میں فٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے چونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے ہیرو صرف گاندھی اور نہرو ہیں، چند شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ جیسے جیالوں کی آپ کو ضرورت نہیں۔
ایک ادبی جلسہ میں ساحرلدھیانوی کی شاعری کا تذکرہ کرتے ہوئے جاوید اختر نے کام کی بات کہی۔کہا ’کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔ کام کرنے والے کچھ لوگ چھوٹے ضرورہوسکتے ہیں۔ بڑآدمی چھوٹے کام کو ہاتھ لگالیتا ہے تو وہ بڑا ہوجاتا ہے۔‘ان کی اس بات کی اتنی وضاحت کردوں کہ آدمی کام سے ہی بڑاہوتا ہے۔ نام اورمنصب سے نہیں۔اس کی ایک تازہ مثال شہریت قانون کے خلاف جاری تحریک ہے۔ ڈھونڈو تو کوئی بڑانام نہیں نظرآتا،کام دیکھو تو اتنا بڑا جس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اصل میں بڑے تووہی ہیں جواس کام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تل تل مل کر پہاڑ بن گیا۔ اورپہاڑ تھے وہ بونے نظرآنے لگے۔
سنئے سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں سے جابراورظالم حکمراں کا خوف نکال دیا جائے اورخودسرحکمراں اپنی صفائی دیتا پھرے۔ اس اندولن میں نہ کوئی گاندھی ہے، نہ جے پی اور ہزارے۔ یہ بڑاکام ہماری باشعور گھریلو خواتین ،تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں اورلڑدکوں نے کردکھایا۔اس کی دھمک سے دانشورطبقے کی توجہ اس طرف گئی۔ نوٹ کیجئے کہ تحریک میں شریک خواتین اوران کی مدد میں مستعدافراد میں سے کسی کونام ونمود کی چاہ نہیں۔ ان سب کو ہ ملک کے مستقبل کو بربادی سے بچانے کی مبارک فکر متحرک کئے ہوئے ہے۔ان کیلئے مبارکباد کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اس کا صلہ انشاء اللہ اس دنیا میں بھی جلد ملے گا اورآخرت میں بھی اپنی نیک نیتی کا اجر سے کوئی محروم نہیں رہے گا۔
اندرون ملک پچھلے چار، چھ سال سے پروپگنڈاکیا جارہا تھا کہ مسلم خاتون بہت مظلوم ہیں۔ مردکے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی فریب کے ساتھ تین طلاق قانون لایا گیا،لیکن بقول عارفہ شیروانی،جامعہ کی دو لڑکیوں نے اوراس کے بعد ملک کی بھر کی سڑکوں پرخواتین کے ہجوم نے اس جھوٹ کو تارتارکردیا۔ یہ خواتین اتنی بڑی تعداد میں اورلگاتارسوا ماہ سے اس مہم میں شامل نہیں رہ سکتی تھیں اگر گھروں میں ان کی نہ چلتی ہوتی،ان کوخاندان بھرکی دعائیں نہیں ملی ہوتیں یاان کو مردوں کے جبرکا سامنا ہوتا۔ یہ منظردستک دے رہاہے کہ اگلا دورخواتین کا دور ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جو یہ کالم نویس گزشتہ کئی سال سے نوجوان طلبااورطالبات کے جلسوں میں کہتا رہا ہے۔ لڑکیاں تعلیم میں بھی آگے ہیں اور احساس ذمہ داری سے کام کرنے میں بھی، توپھرزمانے کی نکیل ان کے ہاتھوں میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟اللہ ان کے حوصلوں کوسلامت رکھے۔
مجھے یاد ہے جب محترمہ اندراگاندھی نے گیانی ذیل سنگھ کو منصب صدارت کا امیدواربنایا توکسی انگریزی اخبار نے ایک اداریہ میں لکھا تھاکہ ’کبھی آدمی کرسی کو بڑا بنا دیتا ہے اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کرسی آدمی کو بڑابنادیتی ہے۔‘گویا منصب کی ذمہ داری آداب حکمرانی سکھا دیتی ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کبھی اس کا الٹا بھی ہوتا ہے۔بی جے پی نے سیاست میں جس کلچر کو فروغ دیا ہے اس نے زبان کی شائستگی کومٹادیا ہے اورسیاست دانوں کی زبانوں سے’بھائیوں ’اور ’موالیوں‘ جیسے جملے زیادہ سنائی دیتے ہیں۔ زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب کوئی وزیر غیرمحتاط زبان استعمال کرتا ہے، اور پارٹی وحکومتی ذمہ دار اس کا نوٹس نہیں لیتے۔خاص طورسے حیرت محترم وزیرداخلہ امت شاہ کی بولی پرہوتی ہے۔انکا تعلق بنیا برادری سے ہے جو ہرلفظ تول تول کر بولتی ہے اورمیٹھا بولتی ہے۔ اول فول نہیں بکتی۔ ان کے دادا ایک ریاست کے نگرسیٹھ(ناظم مالیات) تھے۔ والدصنعت کارتھے۔ خودبھی ان پڑھ نہیں، بایوکیمسٹری میں بی ایس سی کیا ہے۔ لیکن گزشتہ 21جنوری کو انہوں نے لکھنؤ میں جو کچھ کہا وہ ان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
شاید پارٹی صدارت سے سبکدوشی کے صدمہ نے ان کوبوکھلادیا ہے کہ ان کا لہجہ اوربھی درشت ہوگیا ۔ پوری قوم کو ان کی یہ دھمکی، ”میں لکھنؤ کی سرزمین سے ڈنکے کی چوٹ کہنے آیا ہوں کہ جسے مخالفت کرنی ہے وہ کرتا رہے، سی اے اے قانون واپس نہیں ہوگا۔“ کچھ اورکہتی ہے۔شاید ان کا مقصد اپنے کورچشم ہمدردوں کی منھ بھرائی کرنا تھا، تاکہ وزیراعظم کے منصب کیلئے ان کمر مضبوط ہوسکے۔ اس پر ہم بس اتنا ہی کہیں گے۔ ہائے رے آرزو۔مودی جی چاہتے توپارٹی صدرکے منصب پران کی توسیع کچھ مشکل نہیں تھی۔ جس کو دیش کے دستور کی پرواہ نہیں، اس کیلئے پارٹی کا دستورکیا چیز ہے!اب توپی ایم کا ایک لائن کانوٹ ان کو گھرواپس بھیج سکتا ہے۔
ان کی یہ بولی اوریہ اندازخطاب ایک عظیم جمہوری ملک کے وزیرداخلہ کے منصب کی شان کے خلاف ہے ۔دیش کے موجودہ ماحول میں دھمکیاں دینا،سیاسی تدبر اور دانائی کی ضد ہے۔ جمہوریت بات چیت سے اورایک دوسرے کیلئے گنجائش سے چلتی ہے، دھونس اوردھمکی سے نہیں۔ آپ کو تین ممالک کے ہندوبھائیوں کی توفکرہے، لیکن اپنے ملک کے باشندوں سے آپ کا یہ مغرور انداز جمہوریت کی بھی توہین ہے اور ان تین چوتھائی ہندستانیوں کی بھی جو اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پراترآئے ہیں۔ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورذمہ دار سابق وموجودہ منصب داربھی ہیں، نوجوان طالب علم بھی ہیں اور ہر طبقہ ومذہب کے عوام بھی۔ آپ ان کی آواز کو مسترد کرکے کس کی توہین کر رہے ہیں؟ سب سے زیادہ یہ عورت ذات کی توہین ہے، جو اس مہم کی طاقت بنی ہوئی ہیں۔ ایسی شدید سردی میں اپنے آرام اورچین کی قربانی دےکرکوئی کسی کے بہکانے سے باہر نہیں آتا۔لیکن ان کے جذبہ اورقربانی کی قدرآپ کو کیا ہوسکتی ہے جب نظریہ ملک پر ایسا نظام مسلط کرنے کا ہو جس میں دیویوں کی مورتیوں اورتصویروں کی پوجا تو ہو، مگردیوی جیسی خواتین کو ہرروز اگنی پریکشا سے گزاراجائے۔ عصمت دری کے گناہگاروں کو اونچے منصبوں پر بٹھادیا جائے،جو بناطلاق جوان بیوی کے جیون کو سوگواربنادے اور80 سال کی ماں کولائن میں لگوادے اس کو اپنا آئیڈیل بنا لیاجائے توعورت ذات کی قدر کیسے ہوگی؟
افسوس کہ رہی سہی کسرآپ کے مندرآندولن نے پوری کردی۔ ہم اپنے بچپن سے ’جے سیارام‘ کی گونج سنتے تھے ۔ سیتا جی کا نام پہلے اوررام جی کا بعدمیں۔ اس اندولن نے جو نیا نعرہ دیا ہے اس میں سیتاجی کا نام ہی اڑادیا گیا اور’جے سیارام‘ کے بجائے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ حالانکہ سیتا جی کے بنا نہ رامائن مکمل ہے اورنہ رام چندرجی اورلکشمن جی کا مثالی کردار پورا ہوتاہے۔ برانہ مانئے، آپ کی پارٹی کے لیڈر اور نام نہاد سنتوں سے اچھاتو راون کا ہی تھا، جس کے قبضے میں سیتا جی اتنے دن تک رہیں اوران کو چھوا تک نہیں۔ آپ کے پسندیدہ اور چنے ہوئے لیڈراپنی پڑوس کی بچیوں کے ساتھ اورسنت لوگ اپنے آشرم کی بچیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟بتانے کی ضرورت نہیں۔
خواتین کی بااختیاری کے معاملہ میں بھی بھاجپا کا ریکارڈدوغلے پن کاہے۔جب تک یوپی اے سرکار رہی ایک تہائی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا اوراب سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے شاہ کا یہ لکھنؤ والا بیان آگ پر تیل کا کام کریگا۔ ان کی اس دھمکی سے شاید ہی کوئی ڈرا ہو۔بلکہ جوش اوربڑھے گا۔ا ن لیڈروں کو اندازہ نہیں کہ عورت جب کچھ ٹھان لیتی ہے توہماری ہربیٹی اوربہن رضیہ سلطانہ اورلکشمی بائی بن جاتی ہے۔
امت شاہ جی! نہایت ادب کے ساتھ اپنی اس دھمکی کا جواب بھی سن لیجئے۔ جمہوری نظام میں جو سرکار عوام کی بولی کو نہیں سمجھتی اس کو عوام کوڑے دان میں ڈالدیا کرتی ہے۔ اگرزبان نہیں سنبھلی، جھوٹ، فریب اوردھمکیوں کو سلسلہ بند نہیں ہوا،تو ساڑھے چارسال گزرتے دیر نہیں لگتی۔
مجھے یہ یاد دلانے میں تکلف نہیں کہ دیگرمذاہب کی طرح ہندو دھرم بھی بڑبولے پن اور گھمنڈکی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ہندودھرم جابجا ’ادنڈتا‘ کے خلاف خبردارکرتا ہے۔لیکن ہندتووا کا نعرہ لگانے والوں کی بولی ٹھولی اورسرگرمیوں سے جو ماحول بن رہاہے اس نے اس دیش کی آدھیاتمکتا (روحانیت) کو سخت نقصان پہنچ رہاہے۔دھن،دولت، دھونس، دھمکی اوردکھاوا دھرم کی آتما کے قاتل ہیں۔ کسی پڑوسی کی آڑ زیادہ دن کام نہیں آیا کرتی۔
خورشیداکبر
ایک تیرا نظام چل رہا ہے
ساری دنیا میں کام چل رہا ہے
ایک تو شاہ چل رہا ہے یہاں
ایک اس کا غلام چل رہا ہے
ایک سے شہر صاف ہو گئے ہیں
جانے کیا اہتمام چل رہا ہے
اک محبت تھی ختم ہو گئی ہے
اور اک انتقام چل رہا ہے
ایک تلوار تھی سو کھو گئی ہے
صرف خالی نیام چل رہا ہے
ایک دنیا ٹھہر گئی ہے مگر
ایک وہ تیزگام چل رہا ہے
ایک بیٹا : بلند ہے اتنا
باپ انگلی کو تھام چل رہا ھے
ایک سکہ اندھیر گردی کا
رات دن صبح و شام چل رہا ہے
اک چھری سے حلال ہر گردن
سب کا جینا حرام چل رہا ہے
ایک خورشید روز اگتا ہے
روز قصہ تمام چل رہا ہے
مِلان کندرا ایک جگہ لکھتا ہے’a man’s struggle against power is the struggle of memory against forgetting‘ یعنی ’اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدو جہد فراموشی کے خلاف یاد داشت کی جدوجہد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر آپ طاغوتی مقتدرہ کے جبروتی نظام کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے یاد رکھیں، فراموش مت کریں، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ارض موعود کو یاد رکھا تھا اور دانتوں سے زمین پکڑے اِنچ بہ اِنچ چلتے ہوئے ’منزل مرام‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، آپ بھی جنونی اقتدار کی ہذیانی نرگسیت میں بدمست مودیوں، شاہوں، یوگیوں اور مردودوں، کو مت بھولئے گا، ایسے ہی جیسے یہودیوں نے ہٹلر کے’مرگ انبوہ‘ کو اقوام عالم کی آشوب گاہ ثابت کرتے ہوئے دنیا کو مظلومیت کا نیا بیانیہ عطا کیا۔ اب دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی رعایا یا اقلیت پر خواہ آگ کی ہی بارش کیوں نہ کرے اس کے بیان کی شدت ’ہولوکاسٹ‘ پر جاکر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر آپ کی پوری کمیونٹی کے سر پر آسمان آتش فگن ہے، نیچے ’ جُبِّ الْحَزَن‘ہے، آگے موت کا دوزخ اور پیچھے ذلتوں کا برزخ ہے تو کوئی بات نہیں کہ یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اب مابعد جدید و متمدن دنیا آپ کی مدد کے لئے آگے نہیں آنے والی ہے، ایسے ہی جیسے فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، روہنگیا اور اویغور میں شرمندگانِ خاک بوند بوند لہو پی رہے ہیں، اقوام مغرب کشتوں کے پشتے دیکھ رہی ہیں اور سر مژگاں تک نم نہیں ہورہی ہے ۔وجہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کشتگان ستم ، یہ صاحبانِ خار و خس، یہ سگانِ تیرہ شب، یہ شہیدانِ آمد سحر کوئی اور نہیں ہم ہیں، یعنی کہ مسلمان ہیں، افتگادگان خاک ہیں۔ ہم ’ہولوکاسٹ‘ نہیں ہیں اور ہوں گے بھی نہیں۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دل سے نکال دیں کہ کشمیر جیسی ایک چھوٹی سی ریاست کو 9 لاکھ جواں شیر فوجوں کی بکتر بند گاڑیاں تاخت و تاراج کرنے میں ناکام رہیں، آہنی بوٹوں کی جگر فگار چاپ دشتِ دہشت میں جوان ہونے والوں کو بھی اپنا مطیع و فرمانبردار نہیں بنا سکی، اور جب کوئی صورت بن نہیں پائی تو بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈال دیا تو پھر یہ ایک کروڑ کشمیریوں کا نہیں پچیس سے تیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر روز آپ پانچ ہزار مسلمانوں کو جان سے ماریں گے تو کل پچاس ہزار دن لگیں گے اور جہاں تک حراستی مراکز کی بات ہے تو یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا کہ مسلمان ایک طرح سے حراستی مراکز میں ہی رہتا ہے اور پھر کتنے حراستی مراکز قائم کریں گے اور کیا وہ محفوظ بھی رہ پائیں گے، کیا ایک دن خوف کی طاقت ان تمام آہنی دیواروں کو مسمار نہیں کرے گی؟
ہمارا وزیراعظم ’اربن نکسل‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے یوں گویا ’رورل نکسل‘ کا ’آتنک‘ ختم ہوگیا ہو۔ تاریخ سے نابلد ناہنجاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ’اربن‘ لفظ ہی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ نکسلزم دیہات کو فتح کرتا ہوا شہر و قصبات میں داخل ہوچکا ہے۔ ہندوتو کی بھانگ پینے والے دونوں کور بھکتوں کو اگر ’گھر گھر مودی‘ کے علاوہ کچھ اور دکھائی دے تو انہیں معلوم ہوکہ ’رورل نکسل‘ نکسلی علاقوں میں نہ صرف اپنے بنیادی تصورات کے ساتھ زندہ ہے بلکہ آج بھی حکومت کے لئے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ وہ چارو مجمدار کے وقت تھا۔ نکسلزم اب صرف آدیواسیوں اور قبائلیوں کے حقوق کی لڑائی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک نظریے میں تبدیل ہوچکا ہے، ایک ایسا نظریہ جو اب اربن نکسل کی شکل میں ’بھگوائیوں‘ کے لاشعور میں کابوس کی صورت جاگزیں ہوگیا ہے۔ شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں چینیوں سے مشابہ چپٹی ناک والوں نے تو آزادی کے وقت سے ہی ہندوستان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دو سال قبل ڈوکلاہام کا واقعہ آپ کیسے بھول سکتے ہیں، چین اندر گھستا چلا آرہا ہے اور ہمارا وزیراعظم خیالی پروجیکٹوں کے فیتے کاٹ رہا ہے؟ ہندوستان جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ایک بڑا و اعلیٰ ظرف ملک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات پڑوسیوں کے ساتھ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ مغرب میں پاکستان، مشرق میں بنگلہ دیش، شمال میں چین اور جنوب میں سری لنکا کے ساتھ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ٹھنی رہی ہے۔ ایک بڑا ملک جب اپنی تہذیبی اقدار کا احترام کرنے کے بجائے پڑوسیوں کے ساتھ ’بگ بردر‘ کا سلوک اپنانے کی کوشش کرے اور علت ہائے نافرجام کہ ایک سطح پر اندرونی شورش کا شکار بھی ہو تو اسے کمزور ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ’بھگوائیوں‘ اور ان کے دونوں مائی باپ کو یہ بات آج نہیں تو کل سمجھ میں آجائے گی کہ وہ امریکہ نہیں، ہندوستان میں رہتے ہیں اور اقتدار کا نشہ مثال قطرہ شبنم بہت جلد اتر جاتا ہے، برطانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، عہد جدید کے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں دنیا اسے ’کتے کا دُم‘ سمجھتی ہے جس کے پاس بین الاقوامی مسائل میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لئے صارفین کی کھیپ تیار کرکے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سپرپاور بن گئے ہیں تو اس سوچ پر صرف رحم ہی کیا جاسکتا ہے۔
سماجی،سیاسی اور معاشی بحران کے اس دور میں این آر سی اور سی اے اے کے نام پر ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف’ بھگوائیوں‘ کا اعلان جہاد نشے میں مست ہونے کی حماقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ابھی تو یہ تحریک ابتدائی مرحلے میں ہے، اس آغاز کو اختتام نہ سمجھا جائے، یہ ممکن ہے کہ اگلے کچھ وقتوں میں تحریک سمٹ کر صرف مسلم شاہینوں تک محدود ہوجائے، دلت، پسماندہ و دیگر روشن خیال سیکولر طبقہ تاخیر کی سیاست’delay tactics‘ سے عاجز ہوکر واپس اپنے اپنے گوشہ عافیت کے اسیر ہو جائیں لیکن جیسا کہ کہاوت ہے ’phoenix rises from the ashes‘ یعنی ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ہر ققنس اپنی تین سو چونچوں میں ابابیلوں والی کنکریاں لے کر اپنی اسی راکھ سے جنمے گا۔ امت شاہ کی توند، مودی کی کوٹ، یوگی کی لنگوٹ سب ٹھاٹ پڑے رہ جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ہم خوف میں ہیں لیکن ابھی ہم نے اپنے خوف کی طاقت کو استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ کافکا نے کہا ہے۔ ’ “My ‘fear’ is my substance, and probably the best part of me‘۔ یہ ہمارا خوف ہے جو ہماری غیرت و انانیت کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے، یہ بقا کا خوف ہے جو ہمیں مسترد اور رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ ہمارا خوف ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ خوف کی طاقت یہ ہے کہ سانپ کے حملہ کرنے سے قبل ہی اس کا سر کچل دو جو اس وقت بھگوائی حکومت کررہی ہے۔ابھی اس طاقت کو ہم نے استعمال نہیں کیا ہے۔اس مصاف میں اگر جان سے جانا ہی شرط ٹھہرا تو پھر وہ بھی ہوگا۔ بے فکر رہیں، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے نہیں لیکن ہاں قانون کا نوالہ بھی بننے والے نہیں ہیں۔
شہریت کے ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کے خلاف سب سے پہلے شمال مشرقی ریاست آسام کے طلبہ نے آواز اٹھائی اور اس کی باز گشت دارالحکومت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سنائی دی اور پھر جامعہ کے طلبہ کے خلاف پولیس ایکشن نے احتجاجی مظاہرے کو ملک بھر میں پھیلا دیا ،دہلی پولیس کی بربریت اس قدر وحشیانہ تھی کہ اس واقعہ نے جامعہ کے طلبہ کی تحریک کو ساری دنیا تک پہنچادیا۔ مطالعے میں مصروف بے قصور اور نہتے طلبا و طالبات کے ساتھ لائبریری میں گھس کر پولیس نےجو گھناونی اور شرمناک حرکت کی وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھاکہ انصاف پسند دنیاکے ذی شعور دانشور اور سیکولرزم کے پرستاراسے نظر انداز کردیتے۔لہذا اس پولیسیا بربریت اور ریاستی انارکزم کیخلاف مذہب ، ذات پات ، رنگ و نسل اور زبان و ثقافت کی سبھی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آج تک ملک کے سیکولر دستور کو بچانے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔بہرحال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں دہلی پولیس نے انسانیت کو کس طرح رسواکیا اوراشک آور گولے داغنے کے بعد وہاں کی ساری لائٹ آف کرکے طالبات کی ساتھ جو زیادتی کی ہے اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیںہے ،وہ ساری خونچکاںداستان دنیاکے سامنے آ چکی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں انصاف کیلئے فریاد لے کر مظلوم طلبا 16دسمبر سے18دسمبر تک گہار لگاتے رہے ، مگر ابھی تک انہیں کہیں سے بھی حوصلہ مند اور اطمینان بخش مدد نہیں مل سکی ہے، نہ تو ابھی تک جامعہ کی وی سی کی ایف آئی آر اور اس گھناونی واردات کی جوڈیشیل انکوائری کے مطالبے کو کہیں سے منظوری ملنے کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ اس سے دہلی پولیس اور قومی دارالحکومت کا لاء اینڈ آرڈر یا بیورو کریسی جو صد فیصد مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرتاہے اس کی کاکردگی بھی شک کے گھیرے میں آ گئی ہے۔اس کے باوجود سلام کیجئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا و طالبات کے عزم وحوصلہ کو جو موسم کی تلخی ،حالات کی ستم ظریفی اور وسائل کی بے مائیگی کے باوجود گزشتہ پندرہ سولہ روز سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ انہیں نہ کسی صلے کی پرواہ ہے ، نہ جاہ و منصب کے سفلی لالچ نے سڑک پر اتارا ہے ، وہ اپنے آرام و راحت کو تج کر ملک کے آئین کو بچانے اور اس کی سیکولر شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے جان ہتھیلی پر لے کر ہر قسم کی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے مستقل احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
طلبائے جامعہ کا یہ احتجاج اس لئے بھی نتیجہ خیز ثابت ہورہاہے کہ گزشتہ14دسمبر2019کے بعد لندن امریکہ سمیت دنیا بھرکی لگ بھگ چار سو سے زائد معروف اور معیاری جامعات اور دانش گاہوں کے طلبہ بھی حکومت ہند ، دہلی پولیس اور یوگی کی بربریت کیخلاف سرپا احتجاج ہوگئے۔مذکورہ بالا تمام یونیورسٹیز کی طلباء تنظیموں نے حکومت ہند کو مذمتی مکتوب لکھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ ملک کے آئین کی دھجیاں بکھیر کر زعفرانی گورنمنٹ نے ساری دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہ اور اس کے جمہوری اقدار کو داغدار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ہارورڈ، ییل، کولمبیا، آکسفورڈ اور ٹفٹس سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے اسکالرز کے جاری کردہ بیان میں’’جامعہ اور اے ایم یو میں طلبا کے خلاف ہونے والے وحشیانہ پولیس تشدد کو آئین ہند اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے‘‘۔لندن میں آکسفورڈ اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ریاستہائے متحدہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی وکالت کرنے والی تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) نے بھی شہریوں کے متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرین پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔لہذا حکومت ہند کو اس خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ طاقت کے زور پر یا آر ایس ایس کے تلوار بازوں کی بدولت ملک کے آئین کو روندنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا بھرکی یونیورسٹیز کے طلبا کے مظاہروں نے اس مسئلہ کو ایک عالمی مسئلہ بنادیا ہے اور اب یہ احتجاج منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد ہی خاموش ہوپائے گی۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کی ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار پر زور دیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے اور متنازع شہریت قانون کو ختم کیا جائے جو عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ،کیونکہ ان میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ قانون کے خلاف 12 دسمبر سے جاری احتجاجی تحریک میں سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے اب تک 8 سالہ بچے سمیت لگ بھگ 80 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اس کالا قانون کےخلاف آواز اٹھانے والوں کو گرفتارکیا گیا ہے، جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور خصوصاً ہزاروں کی تعداد میں عوام کی گرفتاریوں کی خبریں برابر آ رہی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام اموات ان ریاستوں میں ہوئی ہیںجہاں بی جے پی کی حکومت ہے جن میں سے 30افراد اترپردیش، 5 آسام اور 2 کرناٹک میں ہوئیں۔مظاہرے کے دوران پولیس کی گولی سے جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد مسلمان ہیں۔اس کو قطعی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ عالمی برادری ان ظالمانہ کارروائیوں اور پولیس کی بربریت کا نوٹس نہیں لے گی۔
خیال رہے کہ لندن کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں جن کی دنیا بھر میں شہرت ہے جیسے ہارورڈ اور آکسفورڈ کے طلباء نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ میں واقع مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس کریک ڈاون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس موقع پر آکسفورڈ کے طلباء ، اسکالرس اور سابق طلباء نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی بربریت کی وہ مذمت کرتے ہیں ۔ احتجاج کرنا طلباکا حق ہے اور اگر یونیورسٹی کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے تو ان پر پولیس کی طاقت کا استعمال کرنا قطعی ناجائز ہے ۔ اس طرح ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء نے بھی حکومت ہند کے خلاف ایک کھلا مکتوب تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ اور مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر پولیس کی جانب سے کئے گئے ظلم نے انہیں تشویش اور صدمہ میں مبتلا کردیا ہے ۔ خصوصی طور پر طالبات پر جو لاٹھی چارج کیا گیا ہے وہ انتہائی بدبختانہ ہے ۔ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کیا جارہا ہے ۔ کل لندن میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہندوستانی سفارت خانے کے روبرو مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔ تازہ صورت حال یہ ہے سیکولرزم کو تہ وبالا کردینے والے اور آئین ہند کی اہمیت پر شب خون مارنے والے اس قانون کیخلاف ہندوستان کی 60یونیورسٹیز ،جن میں کم ازکم چالیس سے زائد سینٹرل یونیورسیٹیاں بھی شامل ہیں ،ان کے طلبا ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں مظاہرے کررہے ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں پہلی بار ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ کسی بھی ریاست میں ایسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے نہیں ہیں ،جہاں سی اے اے کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابھی بھی مظاہرے جاری ہیں اور وہاں روزانہ دن ایک بجے سے شام چھ بجے تک طلبہ کے ساتھ مقامی افراد بھی مظاہرے کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر اور سابق طلبہ ایکٹیوسٹ منیشا سیٹھی اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، لوگ ایسے اداروں سے بھی سی اے اے کے خلاف باہر نکلے جہاں سے پہلے کبھی نہیں نکلتے تھے۔ جامعہ میں تو طلبہ یونین ہیں ہی نہیں اور نہ ہی طلبہ قیادت کو فروغ دیا گیا ہے، تاہم نوجوان از خود باہر نکلے ہیں اور اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس میں خواتین کی شرکت حوصلہ افزا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ ملک میں ہر چیز کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔
تحسین پوناوالا، ناصر حسین قریشی، پی وی سریندرناتھ اور مولانا یاسین اختر مصباح کا طلباسے اظہار یکجہتی
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم کی رپورٹ) مولانا محمد علی جوہر روڈ پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں بے چینیوں کا راج اور اضطراب کا بسیر اہے ۔ رات کے سناٹے کے بعد سورج کی روشنی کے ساتھ ہی قومی نغمے کانوں میں گونجنے شروع ہو جاتے ہیں اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی جن من گن اور سارے جہاں سے اچھا کی نوید سنائی دینے لگتی ہے ۔حب الوطنی میں ڈوبے گیت اور نغموں سے سر شار جامعہ کے طلبااور اوکھلا کے باسی جب اس آواز کو سنتے ہیں تو ان کے قدم خود ہی اس جانب کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر شروع ہوجاتا ہےایک نیاجہان تعمیر کرنے کا عمل ، ایک نیا خواب بُننے اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ ، کسی کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے ، کسی کے ہاتھ میں پلے کارڈ تو کوئی اپنے ٹوٹے بستوں کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ بابِ مولانا آزاد جو احتجاج کی نشانی بن چکا ہے پہنچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر شیر خوار بچوں کے ساتھ اسی اور نوے سال کے بزرگ بھی دکھائی دیتے ہیں ، پیروں سے معذور افراد اور وہ بھی جو بول نہیں سکتے لیکن زبان حال اور قال سےگواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دستور کو بچانے نکلے ہیں اور آزاد ہندوستان کے یہ وہ سپاہی ہیں جو کل کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس سے باہر سڑک کنارے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ )، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آرسی ( نیشنل رجسٹرآف سٹیزن ) کے خلاف تقریبا چالیس دن سے جاری احتجاج میں ہر دن ایک نیا انداز اور نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے ،جس میں طلبا اور آس پاس کے رہائشی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تو آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے ۔ دیواریں اور سڑکیں مزاحمت کا نشان بن گئی ہیں جہاں تخلیقیت سے پُر نعرے اور کارٹون حکومت کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں ۔مقررین خطاب کرتے ہیں تو پڑھے لکھے افراد اس قبیح بل کے دور رس اثرات اور نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج میں ، گذشتہ اکیس دن سے ستیہ گرہ پر بیٹھے بھوک اور پیاس سے نڈھال طلبا بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر نا امیدی یا مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ عزم و ہمت کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر مشتمل رضاکار بلا تھکے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں صفائی سے لیکر سیکیورٹی اور ٹریفک تک کی ذمہ داریاں طلباہی نبھاتے ہیں ۔ اسٹریٹ پر لائبریری بھی سجی نظر آتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا ڈھیر نظر آتا ہے جہاں پڑھنے والے طلبا مطالعہ میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ سے چھیڑی گئی اس تحریک کو آج ۴۰ روز مکمل ہوگئے. آج کے احتجاج میں کئی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور اس سیاہ قانون کی مخالفت جاری رکھنے کےلیے طلبا کے عزم وحوصلے کی داد دی اور طالبات کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے حتی المقدور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دوردراز اور قرب وجوار سے آئی سماجی وسیاسی شخصیات میں خاص طور پر سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا، آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی، میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد، اسلامک اسکالریاسین اخترمصباحی ، اکھل بھارتیہ وکیل سنگھ کے سکریٹری پی وی سریندرناتھ قابل ذکر ہیں۔سماجی کارکن وسیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں کانفاذ ہی حقیقت ہے۔ سرکار گاندھی جی کو مہرہ بنا کر استعمال کر رہی ہے اور گاندھی جی کے پرانے بیانات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت میں ہو مگر ان کی غیر آئینی پالیسیوں اور قوانین کو عوام تسلیم نہیں کریں گے ، جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے کی ہے۔ ان کایقین ہے کہ عدالت عظمی اس سیاہ قانون کو ضرورغیر آئینی قرار دے گی۔آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کو یہاں مظاہرین سے مل کر چرچا کرنی چاہیے اور یقین دلانا چاہیے کی این پی آر اور این آر سی نافذنہیں ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ وزیراعظم کی بات پریقین بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا ایک بہت بڑا گروہ بھرم اور دراڑ پھیلانے میں لگا ہے مگر ہم محبت پھیلائیں گے اورجیتیں گے ۔میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد نےمظاہرین کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہم حکومت کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم ذاتی واداور یوگی والے بھگوا رویہ کے مخالف ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم بھگت سنگھ کے رویے کو سلام کرتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر اعجاز علی جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے مگر ان لوگوں نے پہلے بھی جھوٹے وعدے کیے ہیں، نوٹ بندی کے وقت وزیراعظم نے 50دن مانگے تھے کہ کالا دھن واپس لے آئیں گے لوگوں نے ان پریقین کیا مگر صرف دھوکہ ملا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ضابطہ بنالیا ہے کہ پارٹی میں ہونے کے لیے غنڈہ ہونا ضروری ہے، اور جوجتنا بڑا غنڈہ اتنا بڑا عہدہ۔ ان کے علاوہ دیگر مقررین میں پیس پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر محمد ایوب، سماجی کارکن ابھنو سنہا اورجامعہ کے طلبہ لیڈر عاقب رضوان، مبشر بدر وغیرہ نے بھی اپنی بات رکھی ۔ آج جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے ‘راشٹرویاپی سنیکت پردرشن کے اعلان ’ کے تیسرے دن دیش بھر کے مختلف مقامات پر ‘ایک روزہ بھوک ہڑتال’ کا بھی انعقاد عمل میں آیا ۔ ‘کال فار ریززٹینس’ عنوان کا یہ اعلان ایک ہفتہ تک ملک کے مختلف مقامات پرمختلف کاموں کے ذریعہ سے ہوگا۔جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا تب تک وہ مظاہرہ جاری رکھیں گےـ
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
ہندوستان کو 22 جنوری کا انتظار ہے. سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں.حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہےـ
اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22 جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا.ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں :
(1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گایا:
(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گاـ یا:
(3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گاـ یا:
(4) اس مسئلے کی شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گاـ
مجھے آخرالذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے، پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکرچٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ادھر بہار سرکار نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15 مئی تا 28 جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا.نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا.لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے.کیا این پی آر خطرناک نہیں؟کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں. این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے. این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا. مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے.این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں.سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی. لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا.سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو،برہمن واد اور منوواد کا ہے.ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے. یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے.لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟
موبائل نمبر: 8860931450
اسلامیات کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ بعض سنگین حالات میں عورتوں کو گھر چھوڑکر مورچہ سنبھالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی بغیر شوہر کی اجازت کے۔ 12-12-19کو CAAبنادیاگیا، یہ قانون اولاً تو آئین کی روح کے خلاف ہے، دوسرے قانونی ماہرین اس کو آئین کی دفعہ 14اور 21کے خلاف قرار دے رہے ہیں، تیسرے یہ قانون ہندتوا آئیڈیالوجی کی طرف ملک میں پہلا عملی اور قانونی قدم ہے، چوتھے مستقبل میں ہونے والی NRCکے نتیجے میں عدم دستاویز کے باوجود بھی تمام غیرمسلم CAAکی وجہ سے بدستور بھارتی شہری قرار پائیں گے لیکن مسلمان معمولی خامیوں کی وجہ سے غیرملکی قرار دیدیے جائیں گے۔ اس لیے یہ قانون اپنی وسعت و پھیلاؤ میں امت مسلمہ کے لیے سنگین نتائج رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ آسام کے ڈٹینشن کیمپ کی بدترین تصویر نے اس قانون کی بربریت کو اپنی انتہا پر پہنچادیا۔ خیال رہے کہ وہاں پر ایسا بھی ہواکہ بہن کوکہیں اور بیوی کو کہیں بندوق کی نوک پر ڈٹینشن کیمپ میں داخل کردیاگیا، اس لیے اس قانون کے خلاف جو ہماری محترم مسلم خواتین احتجاج کررہی ہیں، بالخصوص شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ بالکل عین تقاضائے وقت ، تقاضائے فطرت اور تقاضائے شریعت ہے۔
دنیا کے تمام ماہرین قوانین حق خود حفاظتی کے اصول کو مانتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے بھی اس عالمی اصول کی قدر کی ہے اور اسی کے مطابق ”جہاد و قتال“ کی تفصیلی ہدایات جاری کی ہیں۔ CAAکے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئی ہماری بہنیں اور ان کے اعزہ واقارب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں خواتین عین میدانِ جنگ میں لڑی ہیں، اس سلسلے میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت خولہؓ کے واقعات بطور استدلال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو کہ حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں، جنگ اُحد اور جنگ خندق میں مردانہ وار دشمنوں پر ہتھیارچلاٸے، حضرت خولہؓ نے 30دیگر مسلم خواتین کے ساتھ خیمے کی لکڑیوں سے حملے کیے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں 30کروڑ مسلمان ہیں، جن میں 15کروڑ مسلم خواتین ہیں، دہلی اور دیگر شہروں میں بھی ہماری بہنوں کو اسلامی قدروں کے ساتھ باہر نکلنا چاہیے اور مکمل طورپر پُرامن رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ اہل خانہ کو چاہیے کہ ان کو سیفٹی فراہم کریں۔ شاہین باغ کی بہادر خواتین سے حوصلہ پاکر دیوبند کی عیدگاہ میں ہماری مائیں، بہنیں نکل کھڑی ہوئیں۔ مشرقی دہلی کے خوریجی علاقے میں چند علماء اور نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور 13 جنوری 2020سے یہاں پر بھی ہماری مائیں ، بہنیں دھرنے پر بیٹھ چکی ہیں اور پوری طاقت سے آئین ہند کی حفاظت کا عہد کررہی ہیں۔ No NPR, No NRC, No CAA کا نعرہ لگارہی ہیں۔ سبزی باغ پٹنہ ، روشن باغ الٰہ آباد میں بھی خواتین مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ غرض پورے ملک میں مسلم و غیرمسلم حضرات کےگھروں کی ’’عزتیں ‘‘ آئین ہند کی حفاظت کے لیےبے گھر ہورہی ہیں۔ معلوم نہیں فراعِنۂ وقت پر کب ’’بجلی کڑکڑکڑکے گی ‘‘ ؟؟؟
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ NRC, CAAوغيرہ جس قدر خطرناک آٸین ہند کیلٸے ہیں اسی قدر بھارتی مسلمانوں کیلٸے ہیں ، اب تک کی کوئی بھی ’’حکومتی وضاحت ‘‘مندرجہ ذیل سوالات کو حل نہیں کرتی:1 CAAکے ذریعےغیرمسلم پناہ گزینوں Refugeeکو CAAبچالے گیا، مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ ڈٹینشن کیمپ؟ وطن واپسی؟ یا دریابُرد ؟؟
2 ملکی سطح پر ہونے والے NRCکا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو تو دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی CAAمحفوظ مستقبل Safe Future کی گارنٹی دے گا، جب کہ مسلمان دستاویز نہ ہونے یا ان میں خامیاں ہونےکی وجہ سے بدترین مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ خیال رہے کہ صرف 28فیصد بھارتیوں کے پاس سند پیدائش Birth Certificateہے، جب کہ 99فیصد بھارتیوں کے دستاویز نامکمل ہیں یان میں غلطیاں ہیں۔
3 ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیا مطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو CAAبچالے گیا اور ان کو شہریت دے دی جائے گی، صاف مطلب ہے کہ یہی ڈٹینشن کیمپ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔ خیال رہے کہ آسام میں 6ڈٹینشن کیمپ قائم ہوچکے ہیں،بنگلور میں تیار ہوچکا، مہاراشٹر میں زیرتعمیر ہے، دیگر صوبوں میں مرکزی حکومت نے تیار کرنے کے لیےبولا ہے۔ اسدالدین اویسی کے بقول مودی حکومت نے ڈٹینشن کیمپ کے لیے بجٹ بھی مختص کردیا ہے۔
اس لیے ہم بھارتی مسلمانوں کو حکومت کے کسی بھی بہکاوے میں نہیں آنا ، ہم کو جان لینا چاہیے کہ موجودہ مودی حکومت100سال پہلے دیکھے ہوئے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت (303نشست 2019) کا بھوت بار بار بی جے پی کے کان میں پھونکتاہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ (Now and never)۔ یہ حکومت مہینے دو مہنے کی چیخ و پکار اور گنتی کے چند دھرنوں سے رعب نہیں کھانے والی، اس بھوت (مودی حکومت) کو 15فیصد کی بوتل میں بند کرنا 85فیصد بھارتیوں پر ضروری ہے، اس لیے تحریک میں تیزی لائی جائے، نظم و ضبط لایاجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جو مسلمان خواہ وہ علماء ہوں یا غیرعلماء NRC, CAAاور NPRکی حمایت کررہے ہیں یا خاموش ہیں، وہ ملک و ملت کے غدار ہیں، وہ ابورغال ہیں، وہ سراج الدولہ کے غدار میر جعفر ہیں، وہ ٹیپوسلطان کے غدار میر صادق ہیں۔ اور جو خاموش ہیں ان کو ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بلیک میل کردیاگیا ہے اور مودی حکومت نے اِن ساکت علماء و قائدین Silent leadersکو وارننگ دے دی ہے کہ اگر تم کچھ بولے تو تم کو ننگا کردیا جائے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جارہی ہیں کہ مودی اور امت شاہ نے عظیم داعی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بھی مختلف قسم کے لالچ دے کر حکومت کے موقف کی حمایت کرنے کو کہا، لیکن اس وفادار بندۂ خدا نے انکار کردیا اور بھارتی مسلمانوں سےمکمل وفاداری نبھاتے ہوئے اس ا”دروازہ بند مکاری“ کو فاش بھی کردیا۔
خیال رہے کہ آر ایس ایس کی نمک خوارتنظيم ’’مسلم راشٹریہ منچ ‘‘ بھی متحرک ہوچکی ہے اور 16جنوری 2020کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں علماء کا ایک اجلاس طلب کیاہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے مطابق ملک بھر سے 200سے زائد علماء و مذہبی راہنمائوں کو مدعو کیاگیا ہے۔ بھارتی مسلمان اپنے شعور کو بیدار رکھیں، حکومت کے حمایتی کسی بھی حضرت، کسی بھی قائد، کسی بھی لیڈر کے بہکاوے میں آکر ہرگز ہرگز اپنی تحریک کو واپس نہ لیں، صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہیے :ـCAAواپس لو، NPRواپس لو، NRCواپس لو! اپنی خواتین کو باہر نکالو، نوجوانوں کو باہر نکالو ، بچوں کو باہر نکالو، پوری طاقت سے تحریک اُٹھائو کہ ہر شہر اور قصبہ ’’واپس لو، واپس لو ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے، امن کے ساتھ محبت کے ساتھ۔
مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
اقتدار کے نشہ میں چور مرکزی حکومت نے آر ایس ایس) (RSS سے ملنے والی فکری رہنمائی کے نتیجہ میں سی اے اے (CAA) جیسا متنازع اور ناقابل عمل قانون بنا کر ایک بڑی غلطی کر رہی ہے، جس کا اسے احساس نہیں ہے، اس ملک کے لیے طلبا کا سی اے اے(CAA)کے خلاف اولین اقدام کے طورپرپرچم احتجاج بلند کرنا ایک مثبت اور خوش آئند عمل ہے،وہ اس ملک کے مستقبل اور کل کے قائد ہیں،پورے ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر آنے والا ہے، وہ حال کے آئینہ میں مستقبل کے تمام حالا ت کو بخوبی دیکھ رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس سیاہ اور کالے قانون کی ناپاک دھمک کو سب سے زیادہ انہوں نے ہی محسوس کیا۔کئی ہفتے ہوگئے، مگر ان کے طرز احتجاج میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا،بلکہ دن بدن مزید اس میں استحکام ہی پیدا ہو رہا ہے۔ جس پا مردی اور عزیمت وحوصلے کے ساتھ ان غیور و جرأت مند طلبہ وطالبات نے حکومت کی بر بریت کا ڈٹ کر مردانہ وار مقابلہ کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں آزاد بھارت کا تاریخ ساز کارنامہ شمار کیا جائے گا۔ جس احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اور جے این یو سے ہوا تھا، اس نے صرف ملک کی یونیورسیٹیوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ آواز بیرون ملک کی عظیم یونیورسیٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی گونج رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ ان کی شان میں عظمت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، اوران کے حوصلوں کو سلام پیش کر رہے ہیں۔
CAA اور NRCکے خلاف اٹھنے والی تحریک کی ابتدا ملک کے انہی طلبہ وطالبات سے ہوئی ہے، ہم ان کے اس جرأت مندانہ قدم کو ملک کے دستور کی حفاظت کے حوالے سے”صور اسرافیل“ سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں اور اس ملک کے سیکولر عوام بھی در اصل طلبہ پر پولس انتظامیہ کی جانب سے ہونے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد ہی میدان میں آئے؛چناں چہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ نے اپنی قربانیوں او رشجاعت وبہادری سے عوام کو بیدار کرنے کا ایک عظیم فریضہ انجام دیا ہے، جو ”نعرے“ وہ اپنے کیمپس اور جامعات کے سامنے لگا رہے تھے، اب وہ امریکہ،کناڈا اور یوکے کی سڑکوں پر سننے کو مل رہے ہیں، آپ نے سیاسی پارٹیوں کے دھرنے اورمظاہرے خوب دیکھے ہوں گے، مگر ان کا مقابلہ طلبہ کے ان مظاہروں سے کسی طرح نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ کہ طلبہ کے سینوں میں فقط ذوق جنوں،سرشاری کی کیفیت اور زندہ جذبات ہی نہیں بلکہ ان کے دل ملک کے تئیں بے لوث محبت،وارفتگی،جاں نثاری،فدائیت اور بے پناہ خلوص سے معمور ہیں،جن کا اظہار وہ ماہ دسمبر اور جنوری کی ریکارڈتوڑ ٹھنڈک میں بھی کرتے نظر آرہے ہیں،بر سر اقتدار جماعت کے لیے اس میں ایک بڑا سوال بھی ہے اورنصیحت آموز سبق بھی۔
طلبہ اس قدر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟وہ تھکتے کیوں نہیں؟وہ ڈرتے کیوں نہیں؟ وہ رکتے کیوں نہیں؟انہیں کیا ہوگیا ہے؟وہ ان نعروں سے باز کیوں نہیں آتے؟ہم نے تو ان کے قدموں میں ہزار زنجیر یں ڈالنے کی کوششیں کیں، انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اپنی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا، مگر وہ پا بہ جو لاں دار ورسن کی طرف بڑھے جارہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ طلبہ پڑھتے ہیں وہ ہندوستان کا ایک خوبصورت نمونہ ہے اگر کسی کو ہندوستان کی اصلی تصویر دیکھنی ہو تو وہ ا ن یونیورسیٹیوں کے کیمپس میں چلا جائے،وہاں گنگا جمنی تہذیب،صا ف ستھر ی اور سچی انسانیت،درمندی،بھائی چارگی اور کینہ ونفرتوں سے دورباہمی اخوت ومحبت پر مشتمل بھارت کا جمہوری دستورانسانی شکلوں میں چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں نوع بنوع ذات،برادری،اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے صاف وشفاف ذہن کے طلبہ ایک کالج،ایک کلاس روم میں،ایک ساتھ ایک پروفیسر سے پڑھتے ہیں، اور ایک ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،وہاں کتنی خوبصورت جمہوریت ہوگی،ابوالکلام اور گاندھی جی کے دیش کی کیسی دل فریب تصویر ہوگی، اور ملی جلی تہذیب کا کتنا حسین سنگم ہوگا، اس کا اندازہ طلبہ ہی کر سکتے ہیں،ہمارے طلبہ دراصل اپنے ملک کی اسی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مستقل یہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ نفرت کے سوداگروں اور مذہبی شدت پسندوں کو ملک کی تعلیم گاہوں کی یہ جمہوری تہذیب بھی راس نہیں آئی اور یہ ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔
یہی وجہ ہے ABVPکے ذریعہ ملک کی فاسسٹ،نازی اور فرقہ پرست طاقتوں نے یونیورسیٹی کی پاکیز ہ فضا کو مسموم اور زہر آلود کردیا ہے۔طلبہ اس حقیقت کوسمجھ رہے ہیں،اس لئے ملک کی اکثر یونیورسیٹیزمیں طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیابی نہیں ملی، یہ اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے والوں کے لیے درس عبرت ہے۔مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں نے ہر محاذ پر اپنی ذہنیت کے خاص لوگوں کو رکھنا چاہا ہے اس کے پیش نظرانہوں نے شروع سے ہی اپنا کیڈر تیار کرنے کے لیے کالج اور یونیورسیٹیوں کا بھی سہارا لیا،اوراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (ABVP)کے نام سے طلبہ کی ملکی سطح پر ایک جماعت تشکیل دی جو مرکزی حکومت کے زیر سایہ تعلیم گاہوں اور جامعات میں غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا کام کر رہی ہے،گذشتہ اتوار ۵/جنوری ۰۲۰۲ء جے این یو کے طلبہ پر دہشت گردانہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے۔”ہندو رکشا دل“ نے اس کی ذمہ داری لے کر بہت کچھ چھپایا ہے تو بہت کچھ ظاہر بھی کیا ہے،اس سے پہلے بھی روہت ویمولا اور نجیب کے دردناک واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا۔ملک کی عدالت سے درخواست ہے کہ ان وارادات کے مدنظر ان تنظیموں پرپابندی عائد کی جائے۔طلبہ ملک کی شان اور آبرو ہیں اور بھارت کے مستقبل بھی، ان کی آواز کو پولس کی سفاکانہ اوروحشیانہ رویوں کے ذریعہ دبانا اور ان کوABVP کے دہشت گرد غنڈوں کے حملوں سے لہو لہان کرانا بزدلانہ عمل ہے۔ عدالت کو اس پر سخت نوٹس لینی چاہئے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ملک دشمن عناصر کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ہمیں اس کی عظمت کو پامال کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، یہ ایک عظیم لڑائی ہے، جو پر امن طریقے پر آئین اورجمہوریت کی روشنی میں لڑی جارہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کرناہمارا قانونی اوردستوری حق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار ان کے مطالبات کو پورا کریں،غلط فیصلوں سے رجوع کریں،اور احتجاج سے ملک کی روز مرہ زندگی کو متأثر ہونے سے قبل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں،اور عوام کو مذہبی بنیادوں پر دوخانوں میں تقسیم کر کے ملک کی یک جہتی اورسا لمیت کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں۔واضح رہے کہ حکمراں جماعت ملک کے آئین کی قسم کھا کر عوامی خدمت کے فریضہ کی ادائیگی کا اقرار کرتی ہے، لہذا حکومت کوہر لمحہ اپنے اس قول وقرار کا پابند رہنا چاہئے اور اپنے اس حلف کو ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہئے۔
شاعروں ادیبوں اور فن کاروں سے ہر غلط آدمی اس لیے گھبراتا ہے کیوں کہ سچ کا سامنا مشکل ہے۔
صفدر امام قادری
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ظلم کا چکّر اور تباہی کتنے دن، کتنے دن۔ ایسے دستور کو مَیں نہیں مانتا ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ وقت اور تاریخ کی نبض پر اُنگلی رکھ کر پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ اور لکیریں نہیں، جمیعتِ انسانی کی آہوں میں شعرا اور ادبا نے بارودبھر کر ظالم اور جابر پر وار کیا ہے۔ ’گیتا‘ میں ہی جب کہہ دیا گیا کہ ’شبد برھم ہے‘۔ اس لیے لفظ نہیں مرتے ۔ شاعر ادیب گزر جاتے ہیں مگر فضائوں میں ان کے لفظ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم بن کر تقاضاے وقت کے تحت ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
حبیب جالب کب کے گزر گئے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوانوں نے جب ہندستانی حکومت کے جبریہ قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو انھیں حبیب جالب کی کئی نظمیں یا د آنے لگیں اور ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔‘ جیسے مصرعے کچھ ایسے موزوں ثابت ہوئے جیسے اُسی دن کے لیے اور اسی تحریک کے لیے یہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر اُتار دیے گئے ہوں۔ حبیب جالب کی آواز سے لے کر درجنوں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور فن کاروں نے اِسے گانا شروع کر دیا۔ اب ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں بنگال سے لے کر کیرل تک یہ نظم گائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کے ایک احتجاجی ظاہرے میں کان پور کے آئی ۔ آئی ۔ ٹی کے طلبا کو فیض کی نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ یاد آ گئی۔ حبیب جالب نے فیض کے نقشِ قدم پر چل کر انقلابی شاعری شروع کی تھی۔ یہاںتو خود بہ نفسِ نفیس فیض نظر آتے ہیں۔ وہ فیض جو انگریزوں سے آزاد ی کو ’داغ داغ اُجالا‘ اور’شب گزیدہ سحر‘ کہہ چکا تھا، اب جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ایک خواب دیکھتا ہے۔ اب سے چالیس برس پہلے جلا وطنی کے دور میں امریکا میں رہتے ہوئے جنوری کی ایک ٹھٹھری صبح میں فیض نے یہ نظم کہی تھی۔ پانچ برس بعد وہ امید اور خوشی کے خواب دیکھتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ فیض، حبیب جالب اور احمد فراز سب کو برِّ صغیر کی آزادی ، خوش حالی، امن و امان اور جمہوری اقدار کی بحالی کے خواب دیکھنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے جیل اور جلا وطنی کا مجرم قرار دیا۔
عجب اتّفاق ہے کہ مذکورہ تینوں شعرا دنیا کے اس خطّے سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے مگر تینوں شعرا جب پیدا ہوئے تو ان کے وطن کا نام ہندستان تھا۔ اڑچن اس بات پر بھی ہے کہ انقلاب کی بات کرنے والے اور اپنی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے بول بولنے والے یہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بھی اُسی پاکستان میں دفن ہوئے ۔ اب ہندستان میں ایک ایسی نسل پل بڑھ کر حکومت کر رہی ہے جسے یہ تمام لکھنے والے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی بات کرنا اور سچ بولنا اس حکومت کو بغاوت کی بات لگتی ہے۔ جب یہ بات پاکستانی شاعر اور نثر نگار کی زبان سے ہو تو حکومتوں کا یا ان کی ہم خیال جماعتوں کا تلملا جانا فطری ہے۔ اسی لیے جانچ کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے نتائج میں آخر آخر یہ بات سامنے آئے گی کہ چوں کہ ان مظاہرین نے ہندستان کے دشمن ملک پاکستان کے شعرا کا کلام پڑھا، ا س لیے ان پر بغاوت کا مقدّمہ چلناچاہیے۔ میرٹھ کے ایس۔ پی۔ نے ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی گالی دیتے ہوئے جو ہدایت پیش کی ، اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان آپ نے کیوں دیا تو انھوںنے ان مظاہرین کے نعروں میں پاکستان کے الفاظ تلاش کیے۔ اس لیے جہاں جہاں ایسی نظمیں پڑھی جائیں گی، موجودہ عہد کے حکمراں اور ان کے انتظام کار ہمیں پاکستانی قرار دے کر ہم پر مقدّمہ چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
وہ دن گئے جب ہندستان کا وزیرِ اعظم برِّ صغیر ہی نہیں تیسری دنیا کی قیادت کی بات کرتا تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کی شناخت عالمی سطح کی سیاست اور ہندستان کی ناوابستگی سے جانی جاتی تھی۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص ساری کمیونسٹ حکومتوں کے لیے ہندستان ایک محبوب جگہ تھی۔ عالمی سیاست اور حکومت سازی کا یہ سبق، جنگِ آزادی کی یہ تحریک اور خاص طور سے ہندستان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے ہندستان کے عوام اور خواص کے لیے ماٹن لوٗ تھر کنگ بھی اپنے تھے اور نیلس منڈیلا تو صد فی صد ہندستانی ہی معلوم ہوتے تھے۔ انقلاب کے مغنّیوں کے طور پر ہمیں ناظم حکمت اور پابلو رنرودا اور مایا کونسکی ، سب کے سب اپنے معلوم ہوتے تھے۔ پِکاسو اور مونے ویسے ہی لگتے تھے جیسے رضا اور حسین۔ ششدر شرما اور پاش، زلفیہ بِن جا مِن مولایس___سب ایک ہی مزاج کے فرد تھے اور ایک ہی کارواں کے مسافر۔ سب ہمیں ظلم سے بچا نے اورانصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہواہوتا تو ہندستانی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے اندھی سرنگ میں بند ہوتے اور سب ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجدوں میں دم گھٹنے سے مر چکے ہوتے مگرایسا نہیں ہوا۔تیلگووالا اردوکو پسندکرتا ہے اورہندی کا شاعر فارسی کا دیوانہ ہے۔ رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے لے کر فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید اور پروین شاکر تک آزادیِ اظہار پر مرمٹنے والی خواتین کے راگ اور بول پر کئی نسلوں نے اپنی زندگی بدلی۔
آج کے وزیرِ اعظم تو سیاست دانوں میںسب سے بڑے سیلانی ہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن ایک نئے ملک کی سیر کرکے لوٹتے ہیں مگر بین الاقوامی پالسی کا یہ حال ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان و نیپال سے بھی ہم وار رشتے قایم نہیں رکھ سکتے ۔ عالمی سیاست اور مریکا روٗس پر اُن کے کہے کا کیا اثر ہوگا، وہ سری لنکا اور برما سے بھی توازن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط نہیں کر سکتے۔ وہ ایسے نقطۂ نظر کے پروردہ ہیں جسے اپنے ملک کو بھی ایک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنانے میں دل چسپی نہیں ۔ عافیت اور شانتی، امن و امان اور محبت و خیر سگالی کے الفاظ اور جذبات ان کی سیاست کے موافق نہیں، اس لیے وہ کوئی بڑا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
آج کی حکومت کو بڑے بول بولنے اور اپنی بات سنانے میں زیادہ دل چسپی ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کو جمہوریت میں اس لیے وقار حاصل ہوا کیوں کہ یہاں مختلف نقطۂ ہاے نظر کے افراد تبادلۂ خیال کرکے کوئی روشن اور زیادہ معقول راستہ تلاش کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو اپنے نقطۂ نظر پر اتنا بھروسا ہے کہ وہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کے سارے سیاست دان بھی یک رائے ہو جائیں تب بھی وہ ایک اِنچ اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہندستان کی سرحد کا معاملہ نہیں ہے، قانون بنانے اور ملک کے باشندوں پر قانون کے نفاذ کا سوال ہے۔ جس کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور آئینی نہ جانے کتنے پہلو ہیں مگر بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی اور کسی ترمیم کی گنجایش نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بغیر کسی گفتگو کے قانون شب خونی انداز میں منظور کر لیے جاتے ہیں۔
حبیب جالب اور فیض سے خوف آخر کیوں کر آیا؟ بھگت سنگھ سے انگریز حکومت کیوں ڈرتی تھی۔ اشفاق اللہ اور کھدی رام بوس کی عمر ہی کیا تھی مگر اُن کے سچ بولنے سے سب کو خوف آتا تھا۔ آج کی حکومت ہر سچے آدمی سے ڈرتی ہے۔ ہر حقیقت پسند سے بھاگتی ہے۔ ہر سچے مسئلے کو دوٗر سے ہی سلام کرتی ہے۔ کاہے کو غریبی اور بے کاری سے رشتہ رہے۔ بے روزگاروں کو ہی ختم کر دینے کا منصوبہ ہے۔ دلِت اور اقلیت آبادی کو وہاں پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں عزّتِ نفس کے ساتھ جینے سے بہتر مر جانا معلوم ہوتاہے۔
اب نوجوانوں کی باری ہے۔ پہلے یونی ورسٹیاں دنیا میں نئے خواب دیکھنے کے لیے گھر آنگن ہوتی تھیں۔ ہماری تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے چہکتے ہوئے نغمہ ریز پرندے تھے۔ زندگی اُڑتی گاتی اور مسکراتی ہوئی ایک نئی دنیا پیدا کرتی تھی مگر یہاں پانچ ٹرلین معیشت پانے میں ہمارے نوجوان جیلوں کی سلاخوں میںبند ہو جائیں یا بحرِ ہند میں غرقاب ہو جائیں، کسی کو کیا پڑی ہے۔ سڑکوں پر گلیوں میں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ کتب خانوں میںطلبا کو لاٹھیاں اور گولیاں لگ رہی ہیں۔ ٹھٹھری ہوئی راتوں میں سڑکوں پر معصوم عورتیں اپنی بے زبان اولادوں کے ساتھ نئی زندگی کا خواب لے کر اُتر رہی ہیں۔ فیض اور جالب ہی نہیں ان کے ہزاروں مردہ اور زندہ ساتھی ہم رکاب ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد مردہ فیض ظالموں کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تو جو زندگیاں سڑکوں پر ہیں ان کی طاقت کا ابھی ظالموں کو اندازہ نہیں ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم کے مصرعے یا دآتے ہیں:
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ میرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ میں شعبۂ اردوکے صدر ہیں
Email: [email protected]