نئی دہلی: عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی پرسنگین الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ 2 فروری کو بی جے پی دہلی میں بڑا ہنگامہ کرنے کی تیاری میں ہے جس سے حالات خراب ہوں اور انتخابات ٹل جائیں۔عام آدمی پارٹی ہیڈ کوارٹر میں سنجے سنگھ نے پریس کانفرنس کے دوران کہاہے کہ 2فروری کو بی جے پی دہلی میں بڑاہنگامہ کرنے کی تیاری میں ہے۔ اس کے پہلے الیکشن کمیشن (EC) کو محتاط ہو جاناچاہیے کیونکہ وزیر داخلہ تو خود ہی تشددپھیلانے میں شامل ہیں، تو ان سے تو آپ توقع کر نہیں سکتے، تو اگر الیکشن کمیشن جانبداری کے ساتھ دہلی میں انتخابات کرانا چاہتا ہے تو اس کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔سنجے سنگھ نے دعویٰ کیاہے کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں اوروہ الیکشن کمیشن میں بھی اس بات کی شکایت کریں گے۔سنجے سنگھ نے کہاہے کہ وہاٹس ایپ پر ایسے بہت ساری ویڈیوز اورمیسجز چلائے جا رہے ہیں اور 2 تاریخ کو شاہین باغ اور جامعہ کے علاقے میں پہنچ کر ایک بڑا ہنگامہ بھارتیہ جنتا پارٹی کراناچاہتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی میں شکست کے خوف سے بوکھلائی ہوئی ہے اور اسی وجہ سے وہ دہلی کا الیکشن ٹالناچاہتی ہے۔
Jamia
نئی دہلی:دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں دن دہاڑے ایک غنڈے نے گولی چلا دی جس سے شاداب نام کے طالب علم کے ہاتھ میں گولی لگ گئی۔ یہ واقعہ کیمرے پر قید ہو گیا اورسوشل میڈیا پر اس واقعہ کو لے کر لوگ جم کر غصہ میں ہیں۔اس واقعہ پربہت شخصیات کے جوابات بھی سامنے آ رہے ہیں۔مشہور ڈائریکٹر انوراگ کشیپ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت پربڑا حملہ بولتے ہوئے کہا تھا کہ مودی حکومت دہشت گردپیداکر رہی ہے۔وہیں انوراگ کے بعد اداکارہ سورا بھاسکر نے بھی اس معاملے میں اپنا بیان دیاہے۔سورا بھاسکر نے اس حملے کے بارے میں کہا کہ سال 2014 میں جس حکومت کو ملک نے منتخب کیا تھا، اس کے بعد ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے تھے۔سورا نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھاہے کہ اس بارے میں کچھ بھی حیران کرنے والا نہیں ہے۔سال 2014 میں ہم نے جنہیں منتخب کیا ہے ان کا منطقی راستہ یہی ہے۔سنگھ کااپناکوئی بھی نظریہ اٹھا کر پڑھ لیجیے۔ انہیں ووٹ دینے کے بعد ہمیں ایسی ہی پوزیشن میں ہی آناتھا۔سورا کے علاوہ اس معاملے میں اداکار محمد ذیشان ایوب نے بھی اس معاملے میں ٹویٹ کیاہے۔محمدذیشان ایوب نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھاہے کہ جن لوگوں کویہ سب حیران کر دینے والا لگ رہا ہے، ان سے میں صرف یہی کہوں گا کہآپ کی نیند میں تھے۔
سبھی جانتے ہیں کہ دہلی الیکشن قریب ہے اور چناوی پرچار کا بازار گرم ہے۔ یہ بھی سبھی کو علم ہے کہ ایک بار پھر کیجریوال کی جیت تقریباً طے ہے چونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں انھوں نے جو کام کیے ہیں، اس بنیاد پر وہ الیکشن میں اترے ہیں جس کی تائید دہلی کی عوام کررہی ہے۔ بی جے پی کے پاس چو نکہ اپنی رپورٹ کارڈ دکھانے جیسا کچھ نہیں ہے، بلکہ اس وقت پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر اترا ہوا ہے، اس لیے امیت شاہ اور بی جے پی نے اپنا پرانا آزمودہ کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا یعنی انھوں نےوہی ہندو مسلمان، پاکستان، دیش بھکتی وغیرہ کا راگ الاپنا شروع کردیا جو بھکتوں پر تو اب بھی اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن عام جنتا اس سے بیزار ہوچکی ہے۔ لہٰذا جب یہ پتّہ بھی کام نہ آیا تو امیت شاہ نے اپنے پرچار کی سمت”شاہین باغ” کی طرح مقرر کردی تاکہ بھکتوں کو تھوڑا تازہ دم کیا جا سکے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب ہوتے گئے، امیت شاہ اور ان کے نیتاؤں کا شاہین باغ پر حملہ بڑھتا چلا گیا چونکہ اس وقت پورے ہندوستان میں جاری احتجاج کا یہ مرکزی استعارہ بن چکا ہے۔ پہلے تو امیت شاہ کے آئی ٹی سیل نے شاہین باغ میں بیٹھی عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہا، پھر ان کے ایک نیتا نے کہا کہ پاکستان جانے کا راستہ شاہین باغ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، پھر بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے کہا کہ یہ الیکشن بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کی طرح ہے، پھر خود امیت شاہ نے ووٹروں سے کہا کہ ایک طرف بھارت ماتا ہے تو دوسری طرف شاہین باغ ہے۔ گویا شاہین باغ یا دہلی بھارت کا حصہ نہیں اور جو سرکارکی مخالفت کرے وہ پاکستانی ہے۔ امیت شاہ کی زبان میں اتنی تیزی آگئی کہ انھوں نے اپنے عہدے کی عظمت کو ایک طرف لات مار کر ووٹروں سے یہ اپیل تک کردی کہ اس چناؤ میں ‘کمل ‘ (بی جے پی کا چناوی نشان) کے بٹن کو اتنے زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ یہاں سے جامعہ کی فائرنگ کی کرونولوجی کو سمجھیے۔
27 جنوری کو بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے سر عام اپنے ووٹروں سے نعرہ لگوایا، "دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو”۔ اس وقت اس اسٹیج پر کئی بی جے پی کے وزیر موجود تھے جن میں مرکزی وزیر گری راج کشور بھی شامل تھے۔ سب خاموش رہے۔ پریس میں ہنگامہ مچا لیکن امیت شاہ، نریندر مودی اور پوری بی جے پی خاموش رہی۔ الیکشن کمیشن نے شکایت پر نوٹس لیا اور انوراگ ٹھاکر پر 96 گھنٹے کے لیے ان کے چناوی پرچار پر روک لگا دی۔ (اس کے بعد وہ اس طرح کے نعرے لگانے کے لیے آزاد ہوں گے۔) لیکن نہ تو دہلی پولیس نے انوراگ ٹھاکر کے خلاف کوئی کاروائی کی جب کہ Hate Speech پر آئی پی سی میں دفعات موجود ہیں اور نہ بی جے پی نے اپنے مرکزی وزیر کے خلاف کچھ بولا۔ ظاہر ہے خاموشی نیم حمایت ہی ہوتی ہے اور کبھی کبھی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بنتی ہے۔
لہٰذا اس حوصلہ افزائی نے اپنا کام کردکھایا۔ صرف دو روز پہلے ایک شخص پستول لے کر شاہین باغ میں گھس جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرپاتا، مقامی لوگوں نے اسے دھر دبوچا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس واقعہ کے دو روز بعد جامعہ ملیہ پر جاری ایک پروٹیسٹ پر رام بھکت گوپال نامی شخص پستول سے حملہ آور ہوجاتا ہے، پولیس کھڑی دیکھتی رہتی ہے جب تک وہ اپنا ‘کام ‘ ختم نہیں کرلیتا۔ ویڈیو بہت صاف ہے وہ احتجاجیوں پر گولی داغ کر ہندوستان زندہ باد اور دہلی پولیس زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہوا دھیرے دھیرے پیچھے کھسکتا ہے ، اور اس کی سمت پولیس ہی کی طرف ہے جہاں وہ چپ چاپ کھڑی ہے۔ جب گوپال اور پولیس کے درمیان فاصلہ کم ہوجاتا ہے تو ایک افسر دو چار قدم بڑھ کر اس کی گردن میں اپنی بانہیں اس طرح حمائل کردیتا ہے جس طرح عموماً ایک عاشق اپنی معشوقہ کو بغلگیر کرتا ہے۔ میں نے ایسی دلبرانہ گرفتاری اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ خیر پھر اس دہشت گرد کو پولیس کی وین میں بٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔ جو طالب علم زخمی ہوا تھا، اسے اسپتال لے جانے کے لیے پولیس بیری کیڈ تک نہیں کھولتی، حتیٰ کہ اسے اپنے زخمی بازؤں کے ساتھ دوسر ے طلبا کی مدد سے بیری کیڈ پر چڑھ کر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔ اس حملے کے لیے جو تاریخ چنی گئی، کیا وہ محض اتفاق ہے یا وہ ناتھو رام گوڈسے کی تقلید میں کیا گیا۔ 30 جنوری کو ہی اس نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی اور اسی تاریخ کو جامعہ میں گوڈسے کے ایک بھکت نے گولی چلا کر گوڈسے کو شردھانجلی دی۔ گاندھی نے گولی کھا کر زمین پر گرتے ہوئے ‘ہے رام’ کہا تھا جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا پر ‘جے شرمی رام’ کا نعرہ لگا کر رام بھکت گوپال نے گولی چلانے کا پنیہ کام کیا۔
یہ منظر نامہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جے این یو اور خود جامعہ ملیہ میں یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ امیت شاہ ٹوئٹ پر وہی رٹا رٹایا فقرہ دہراتے ہیں کہ انھوں نے دہلی پولیس کو حکم دے دیا ہے کہ اس متشددانہ کاروائی سے سختی سے نمٹا جائے اور مجرم کو بخشا نہ جائے۔شاید ان کی مراد یہ ہو کہ بالکل اسی طرح جس طرح جے این یو کے نقاب پوشوں کو آج تک بخشا نہیں گیا یا پھر اس سانحہ کے ‘پریرک’ انوراگ ٹھاکر کو بخشا نہیں گیا۔ واضح رہے کہ امیت شاہ اس دہلی پولیس کو حکم دے رہے ہیں جو اس وقت کچھ ہی فاصلے پر کھڑی ہاتھ باندھے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس پر ہنسا جائے یا تھوکا جائے، میں فیصلہ نہیں کرپا رہا ہوں؟ اس لیے اب پولیس کاروائی کے نام پر جو کرے گی، وہ بھی عیاں ہے، چلیے اس کی بھی کرونولوجی سمجھ لیتے ہیں:
(1) رام بھکت گوپال کو ذہنی مریض ڈکلیئر کردیا جائے گا۔
(2) بی جے پی پلہ جھاڑ لے گی کہ اس حادثے کا تعلق انوراگ ٹھاکر سے نہیں ہے۔
(3) پولیس کہے گی کہ اس پر جو الزام لگایا جارہا ہے وہ غلط ہے، حادثے کے وقت ہم کافی دور تھے۔
(4) پولیس گوپال کے ساتھ جامعہ کے زخمی طالب علم کے خلاف بھی مقدمہ ٹھوک دے گی کہ وہ گولی کے راستے میں آگیا تھا۔
(5) گودی میڈیا جامعہ ملیہ کے طلبا کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ میں شامل کرلے گی اوراس پر حملہ بول دے گی۔
(6) کچھ دنوں بعد یہ کیس بھی جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ کی طرح ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا اور ایک نئی جگہ نئی کاروائی ہوگی۔
مجھے شک ہے کہ جامعہ میں ہونے والا یہ سانحہ دو روز پہلے شاہین باغ میں ہونے والا تھا جو ان کی بدقسمتی سے فلاپ ہوگیا ، لہٰذا اسی کے قریب جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اس ادھورے کام کو انجام دیا گیا۔ خیر، دہلی کا الیکشن جیسے جیسے قریب تر ہوتا جائے گا، اس طرح کے حملوں میں تیزی آتی جائے گی۔ بہرحال انھیں دہلی کا الیکشن جیتنا ہے چونکہ بات صرف دہلی کی نہیں بلکہ ان کی مونچھ کا مسئلہ ہے۔ یہ جھاڑکھنڈ جیسی شکست نہیں ہوگی بلکہ دہلی میں ہارنے کا مطلب ہے پورے ملک میں شاہین باغوں سے ہارنا ہے جس سے ان کے بھکتوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ لہٰذا اس وقت بی جے پی اور امیت شاہ کیجریوال سے نہیں، شاہین باغوں کی عورتوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس لیے میری شاہین باغ کی عورتوں اور بطور خاص ان کے والنٹیئرز سے گزارش ہے کہ وہ شاہین باغ میں ان عورتوں کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ سخت کردیں، کچھ ایسا بندوبست کیجیے کہ اس میں باہر سے شامل ہونے والے ہر شخص پر آپ چوبیس گھنٹے نظر رکھ سکیں، خواہ وہ کوئی عورت ہو یا داڑھی ٹوپی والا کوئی بندہ ہی کیوں نہ ہو۔ ممکن ہو تو کچھ CCTV لگا کر اس کے مانیٹر پر کچھ لوگوں کو معمور کردیں۔ اسی طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو بھی مزید محتاط اور چوکنے رہنے کی ضرورت ہے۔
خیر، اب آئیے اس پرانے منظر نامے پر ایک نئے رنگ کے کچھ چھینٹے دیکھتے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس منظر نامے میں گیڈر جامعہ ملیہ کی طرف بھاگا اور اس نے خود کشی کرلی۔ کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔
اس سانحے کے بعد میں نے فوراً رام بھکت گوپال کے فیس بک پروفائل کو چیک کیا۔ظاہر ہے وہاں اس کے کارنامے پر بھکتوں کا مجمع لگا ہوا تھا، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ جو بات مجھے غیر متوقع لگی، وہ یہ تھی کہ بی جے پی اور CAA کے سپورٹربھی ایک اچھی خاصی تعداد میں اسے لعنت ملامت کررہے تھے۔ وہ صاف اور واضح انداز میں اس کی پروفائل میں کہہ رہے تھے کہ وہ بے شک شاہین باغ کے خلاف ہیں، سی اے اے کے سپورٹر بھی ہیں لیکن تم نے ہم سب کا سر جھکا دیا اور ہمارے کام کو بگاڑ دیا۔ ٹوئٹر میں بھی مجھے یہی نظارہ نظر آرہا تھا۔ گوبر بھکتوں کو چھوڑیے، وہ کبھی نہیں سدھریں گے لیکن جامعہ فائرنگ نے کئی بھکتوں اور ساتھ ہی بے جے پی ووٹروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا بھی ہے، ارنب گوسوامی کے ‘ریپبلک ‘ کو کنال کامرا پر چھوڑیے، اب تو ارنب گوسوامی جہاز پر چڑھنے سے پہلے مسافروں کی لسٹ بھی چیک کرے گا کہ اس میں کنال کامرا تو شامل نہیں ہے۔ ‘انڈیا ٹوڈے’ چینل کے راہل کنول نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں امیت شاہ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وہ تصویر لگائی جو اس پوسٹ میں شامل ہے۔ یہی وہی راہل کنول ہیں جنھوں نے اپنے چینل میں جے این یو پر نقاب پوشوں کے حملے کی نقاب کشائی کی تھی اور بھکتوں سے پیٹ بھر کے گالیاں سنی تھی۔ میں زیادہ خوش فہمی میں نہیں ہوں، لیکن اتنا تو ہے کہ جامعہ فائرنگ بی جے پی کو دہلی جیتنے کا موقع تو کیا اس کا راستہ مزید مسدود کردے گی چونکہ اس کا وار الٹا پڑ گیا۔ امیت شاہ اور بی جے پی آج اسی گڑھے میں نظر آ رہے ہیں جو انھوں نے شاہین باغ کی عورتوں، احتجاجیوں اور کیجریوال کے خلاف کھولا تھا۔ اب تو بس ان کے پاس اس ذلت آمیز شکست سے بچنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ وہ کسی طرح اس الیکشن کو ملتوی کرادیں تاکہ بچی کھچی عزت محفوظ رہ جائے اور ممکن ہے کہ وہ عنقریب یہ ‘جگاڑ’ لگا بھی دیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
2016 میں جاٹ تحریک نے زور پکڑا،اس نقصان کا اندازہ ان اخباروں اور صحافیوں کو نہیں ہے جو شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شاہین باغ والوں کے پاس ملک بچانے ، آئین و دستور کی حفاظت اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی نہیں،2016 میں ملک کا ایک بڑا حصہ ریزرویشن کی ‘آگ’ میں جل رہا تھا ۔ جاٹ ریزرویشن کے مطالبہ کے دوران پیش آنے والے شدید تشدد اور لوٹ مار کے واقعات تشویشناک تھے۔ کچھ اس تحریک کی حمایت میں تھے، کچھ مخالفت میں اور مودی امت شاہ کی حکومت تماشہ دیکھنے اور جاٹوں کو خوش رکھنے میں مصروف ۔ اس تحریک کے مضر اثرات پر ایک نظر ڈالیں۔
5 سے 7 ریلوے اسٹیشن تباہ! میڈیا رپورٹس کے مطابق تشدد کے واقعات میں 5-7 اسٹیشنوں کو نمایاں نقصان پہنچا،جس میں تقریبا 200 کروڑ کا نقصان ہوا،اندازہ لگائیے ، دوسوکروڑ کا نقصان!
800 کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئیں، اس سے ریلوے کو ہونے والے محصولات کے نقصان کا تصور کرسکتے ہیں۔
بہت سے بس اسٹینڈ اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کردیا گیاـ
بہت ساری سڑکیں کھوددی گئیں، یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا۔ ریاست کا پورے ملک سے رابطہ ٹوٹ گیا،نودن تک یہ تحریک چلی،زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیا ہو جاتاـ
1000 سے زائد گاڑیاں اور 500 سے زیادہ دکانیں نذر آتش کی گئیں ـ (آج تک ، کیشو کمار کی رپورٹ دیکھئے، 22فروری 2016)انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے، ٹرانسپورٹ اور مالی خدمات سمیت 18 ہزار کروڑ روپے نقصان ہوا۔صنعتی اور زرعی کاروباری سرگرمیوں ، بجلی ، اور کھانے پینے کی اشیاکو پہنچنے والے نقصان سے 12 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا۔ نیز سڑک ، ریستوراں ، بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو نقصان پہنچنے سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا،اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے مجموعی طور پر 34 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، یعنی ملک پر 34000کروڑ کا بوجھ پڑا،
2014میں مودی کی حکومت بنی، اور 2016میں جاٹوں کی تحریک نے ملک کا نقشہ بدل دیا،جبکہ یہ تحریک ان کی ذاتی تحریک اور ریزرویشن کو لے کر تھی اور شاہین باغ تحریک پورے ملک کے لئے ہے، اس تحریک میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل ہیں ـ
تین طلاق کی پول تو اسی وقت کھل گئی تھی جب مودی حکومت نے مسلم عورتوں سے ہمدردی دکھاتے ہوئے انتہا پسندی کی حد کر دی تھی ـ آئین ، ملک ، دلت اور مسلم مخالف حکومت کو وہی مہرہ چلنا پسند تھا ، جو تاناشاہی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرے، شاہین باغ کے پر امن احتجاج سے پریشان امت شاہ نے دلی انتخاب کو لے کر جو بیان دیا، اس کی شدت اور انتقام میں ہر حد سے گزر جانے والے لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے،یہ بیان ہے کہ بٹن اتنے غصّے میں دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہچے – انتخاب کا بٹن غصّے میں کون دباتا ہے؟ کیا شاہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹ دینے غصّے میں جاؤ اور شاہین باغ کی عورتوں کو کرنٹ لگا دو؟ کرنٹ لگنے سے جان بھی جاتی ہے،اگر غور کیا جائے تو یہ بیان شاہین باغ کی مخالفت میں بھی ہے اور عورتوں کی مخالفت میں بھی، ان میں ان عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں، تین طلاق کا بل پاس کرتے ہوئے ان عورتوں کے لئے زبان بدل گئی تھی، اب ان مسلم عورتوں کے ساتھ ہر قوم کی عورتیں اور بیٹیاں بھی احتجاج کا حصّہ بن چکی ہیں،کرنٹ کہاں کہاں دوڑے گا ؟ اب تو پورا ہندوستان شاہین باغ ہےـ
کپل مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھے ، مودی کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے تھے، اب بی جے پی میں ہیں تو دلی انتخاب کو ہندوستان اور پاکستان کی جنگ سمجھ رہے ہیں، اس نادر خیال کے پیچھے بھی شاہین باغ ہے،ابھی حال میں منیش سسودیا نے آجتک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اقرار کیا کہ شاہین باغ کے ساتھ بھی ہیں، جے این یو کے ساتھ بھی ـ اتر پردیش احتجاج میں بھی ہر قوم کے لوگ شامل ہیں لیکن یوگی کی گندی زبان پر صرف مسلمانوں کے نام ہیں، کوڑے صرف مسلمانوں پر برس رہے ہیں،
کیا احتجاج شروع ہونے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا آندولن شروع ہوگا اور یہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا آندولن مسلم عورتوں کی قیادت میں شروع ہوگا ؟ اور جب یہ ملک گیر تحریک شروع ہوئی،اس وقت بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملک کا ہر چوراہا ، ہر گلی شاہین باغ میں تبدیل ہو جائے گی، فسطائی طاقتوں کو روند ڈالنے والی آواز اس قدر بلند ہوگی کہ آسمان میں شگاف پڑ جائے گا، بابری مسجد شہادت سے تین طلاق اور ہجومی تشدد سے ہلاکت کی نئی نئی کہانیوں تک مسلمان خاموش رہا لیکن جب آئین ، جمہوریت اور ملک کے تحفظ کا خیال آیا تو گھروں میں رہنے والی عورتوں نے بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مورچہ سنبھال لیا، ٹھٹھرتی سردی میں ماؤں کے ساتھ ننھے بچے بھی ، بزرگ عورتیں بھی ساری ساری رات احتجاج میں مصروف رہیں، نہ انہیں گولیوں کا ڈر ستا رہا تھا، نہ انہیں ہلاکت کی پرواتھی ، مائیں ، بہنیں بیٹیاں اور ہمارے نوجوان سب نے سر سے کفن باندھ لیا، کیا حکومت کے بیانات یہ واضح نہیں کرتے کہ حکومت احتجاج سے خوف زدہ ہے؟ ممکن ہے حکومت احتجاج کو کچلنے میں کامیاب ہوجائے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ جمہور پسند ہر شہری نے اپنے سینے پر شاہین باغ کا نام لکھ لیا ہے، اب اس نام کو مٹانا آسان نہیں ـ
کہاصرف اپنے من کی بات کرتے رہیں گے، احتجاج پربیٹھی خواتین کے من کی بات کب سنیں گے؟
نئی دہلی: دیرشام شاہین باغ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بھیم آرمی چیف چندرشیکھرآزادنے وزیراعظم مودی پرجم کرحملہ بولاـ انھوں نے کہاکہ اگرمودی اپنے من کی بات کرسکتے ہیں توانھیں شاہین باغ کی عورتوں کے من کی بات بھی سننی چاہیےـ انھوں نے کہاکہ وہ عوام سے خیانت نہیں کریں گے اور سی اے اے واین آرسی کے خلاف ہماری تحریک جاری رہے گی ـ انھوں نے کہاکہ ہماری تحریک کی کامیابی کے لیے پورے ملک میں ایسے ایک لاکھ شاہین باغ کی ضرورت ہےـآزادنے شاہین باغ احتجاج کوکمزورکرنے کی بی جے پی کی کوششوں پربھی نشانہ سادھاـ انھوں نے کہاکہ مجھے کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ وزیراعظم اوردستورہندااحترام کروں، مگروزیراعظم کوبھی توعوام کی آوازسننی چاہیےـ واضح رہے کہ چنددن قبل جیل سے رہاہونے کے بعدآج پہلی بارچندرشیکھرآزادشاہین باغ مظاہرین کے بیچ پہنچے تھے، جہاں ان کاپرجوش استقبال کیاگیاـ
شہریت کے ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کے خلاف سب سے پہلے شمال مشرقی ریاست آسام کے طلبہ نے آواز اٹھائی اور اس کی باز گشت دارالحکومت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سنائی دی اور پھر جامعہ کے طلبہ کے خلاف پولیس ایکشن نے احتجاجی مظاہرے کو ملک بھر میں پھیلا دیا ،دہلی پولیس کی بربریت اس قدر وحشیانہ تھی کہ اس واقعہ نے جامعہ کے طلبہ کی تحریک کو ساری دنیا تک پہنچادیا۔ مطالعے میں مصروف بے قصور اور نہتے طلبا و طالبات کے ساتھ لائبریری میں گھس کر پولیس نےجو گھناونی اور شرمناک حرکت کی وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھاکہ انصاف پسند دنیاکے ذی شعور دانشور اور سیکولرزم کے پرستاراسے نظر انداز کردیتے۔لہذا اس پولیسیا بربریت اور ریاستی انارکزم کیخلاف مذہب ، ذات پات ، رنگ و نسل اور زبان و ثقافت کی سبھی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آج تک ملک کے سیکولر دستور کو بچانے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔بہرحال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں دہلی پولیس نے انسانیت کو کس طرح رسواکیا اوراشک آور گولے داغنے کے بعد وہاں کی ساری لائٹ آف کرکے طالبات کی ساتھ جو زیادتی کی ہے اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیںہے ،وہ ساری خونچکاںداستان دنیاکے سامنے آ چکی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں انصاف کیلئے فریاد لے کر مظلوم طلبا 16دسمبر سے18دسمبر تک گہار لگاتے رہے ، مگر ابھی تک انہیں کہیں سے بھی حوصلہ مند اور اطمینان بخش مدد نہیں مل سکی ہے، نہ تو ابھی تک جامعہ کی وی سی کی ایف آئی آر اور اس گھناونی واردات کی جوڈیشیل انکوائری کے مطالبے کو کہیں سے منظوری ملنے کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ اس سے دہلی پولیس اور قومی دارالحکومت کا لاء اینڈ آرڈر یا بیورو کریسی جو صد فیصد مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرتاہے اس کی کاکردگی بھی شک کے گھیرے میں آ گئی ہے۔اس کے باوجود سلام کیجئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا و طالبات کے عزم وحوصلہ کو جو موسم کی تلخی ،حالات کی ستم ظریفی اور وسائل کی بے مائیگی کے باوجود گزشتہ پندرہ سولہ روز سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ انہیں نہ کسی صلے کی پرواہ ہے ، نہ جاہ و منصب کے سفلی لالچ نے سڑک پر اتارا ہے ، وہ اپنے آرام و راحت کو تج کر ملک کے آئین کو بچانے اور اس کی سیکولر شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے جان ہتھیلی پر لے کر ہر قسم کی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے مستقل احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
طلبائے جامعہ کا یہ احتجاج اس لئے بھی نتیجہ خیز ثابت ہورہاہے کہ گزشتہ14دسمبر2019کے بعد لندن امریکہ سمیت دنیا بھرکی لگ بھگ چار سو سے زائد معروف اور معیاری جامعات اور دانش گاہوں کے طلبہ بھی حکومت ہند ، دہلی پولیس اور یوگی کی بربریت کیخلاف سرپا احتجاج ہوگئے۔مذکورہ بالا تمام یونیورسٹیز کی طلباء تنظیموں نے حکومت ہند کو مذمتی مکتوب لکھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ ملک کے آئین کی دھجیاں بکھیر کر زعفرانی گورنمنٹ نے ساری دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہ اور اس کے جمہوری اقدار کو داغدار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ہارورڈ، ییل، کولمبیا، آکسفورڈ اور ٹفٹس سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے اسکالرز کے جاری کردہ بیان میں’’جامعہ اور اے ایم یو میں طلبا کے خلاف ہونے والے وحشیانہ پولیس تشدد کو آئین ہند اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے‘‘۔لندن میں آکسفورڈ اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ریاستہائے متحدہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی وکالت کرنے والی تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) نے بھی شہریوں کے متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرین پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔لہذا حکومت ہند کو اس خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ طاقت کے زور پر یا آر ایس ایس کے تلوار بازوں کی بدولت ملک کے آئین کو روندنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا بھرکی یونیورسٹیز کے طلبا کے مظاہروں نے اس مسئلہ کو ایک عالمی مسئلہ بنادیا ہے اور اب یہ احتجاج منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد ہی خاموش ہوپائے گی۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کی ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار پر زور دیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے اور متنازع شہریت قانون کو ختم کیا جائے جو عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ،کیونکہ ان میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ قانون کے خلاف 12 دسمبر سے جاری احتجاجی تحریک میں سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے اب تک 8 سالہ بچے سمیت لگ بھگ 80 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اس کالا قانون کےخلاف آواز اٹھانے والوں کو گرفتارکیا گیا ہے، جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور خصوصاً ہزاروں کی تعداد میں عوام کی گرفتاریوں کی خبریں برابر آ رہی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام اموات ان ریاستوں میں ہوئی ہیںجہاں بی جے پی کی حکومت ہے جن میں سے 30افراد اترپردیش، 5 آسام اور 2 کرناٹک میں ہوئیں۔مظاہرے کے دوران پولیس کی گولی سے جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد مسلمان ہیں۔اس کو قطعی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ عالمی برادری ان ظالمانہ کارروائیوں اور پولیس کی بربریت کا نوٹس نہیں لے گی۔
خیال رہے کہ لندن کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں جن کی دنیا بھر میں شہرت ہے جیسے ہارورڈ اور آکسفورڈ کے طلباء نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ میں واقع مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس کریک ڈاون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس موقع پر آکسفورڈ کے طلباء ، اسکالرس اور سابق طلباء نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی بربریت کی وہ مذمت کرتے ہیں ۔ احتجاج کرنا طلباکا حق ہے اور اگر یونیورسٹی کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے تو ان پر پولیس کی طاقت کا استعمال کرنا قطعی ناجائز ہے ۔ اس طرح ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء نے بھی حکومت ہند کے خلاف ایک کھلا مکتوب تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ اور مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر پولیس کی جانب سے کئے گئے ظلم نے انہیں تشویش اور صدمہ میں مبتلا کردیا ہے ۔ خصوصی طور پر طالبات پر جو لاٹھی چارج کیا گیا ہے وہ انتہائی بدبختانہ ہے ۔ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کیا جارہا ہے ۔ کل لندن میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہندوستانی سفارت خانے کے روبرو مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔ تازہ صورت حال یہ ہے سیکولرزم کو تہ وبالا کردینے والے اور آئین ہند کی اہمیت پر شب خون مارنے والے اس قانون کیخلاف ہندوستان کی 60یونیورسٹیز ،جن میں کم ازکم چالیس سے زائد سینٹرل یونیورسیٹیاں بھی شامل ہیں ،ان کے طلبا ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں مظاہرے کررہے ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں پہلی بار ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ کسی بھی ریاست میں ایسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے نہیں ہیں ،جہاں سی اے اے کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابھی بھی مظاہرے جاری ہیں اور وہاں روزانہ دن ایک بجے سے شام چھ بجے تک طلبہ کے ساتھ مقامی افراد بھی مظاہرے کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر اور سابق طلبہ ایکٹیوسٹ منیشا سیٹھی اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، لوگ ایسے اداروں سے بھی سی اے اے کے خلاف باہر نکلے جہاں سے پہلے کبھی نہیں نکلتے تھے۔ جامعہ میں تو طلبہ یونین ہیں ہی نہیں اور نہ ہی طلبہ قیادت کو فروغ دیا گیا ہے، تاہم نوجوان از خود باہر نکلے ہیں اور اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس میں خواتین کی شرکت حوصلہ افزا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ ملک میں ہر چیز کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔
خلیجی ممالک میں قیام کے دوران جمعہ کے روز خطبے سن کر دل و دماغ روشن ہو جاتے تھے اس لئے کہ ” دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے”۔ پھر ٩/١١ ٹریجڈی اور پورے عالم اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں اس قدر تیز ہوئیں کہ بڑے بڑے اثر ورسوخ والے حکمران بھی دہشت گردی کے اس بے بنیاد الزام اور چند افراد کی مجرمانہ حرکتوں کو عمومیت دینے کا دفاع کرنے کے بجائے اپنی حیثیت اور اپنے ملک کی حفاظت کی فکر کی تدابیر کرنے لگے۔
ان کے مغربی آقاؤں کا دباؤ اس قدر بڑھا کہ حساس مقامات پر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کی نگرانی ہونے لگی،بینکوں پر نظر رکھی جانے لگی کہ کہیں ان کے توسط سے دہشت گردوں کو فائنانس تو نہیں کیا جاتا۔ اسی نگرانی کی زد میں مساجد بھی آ گئیں اورخطیب حضرات کو حکومت کی جانب سے خطبے لکھ کر دیے جانے لگے تاکہ زبان ان کی ہو مگر مواد اور نظریہ حکومت کاـ اب تقریباً ١٨ سالوں کے بعد امریکی ایجنسیوں کے سابق ذمہ داروں نے اعتراف کیاہے کہ اس پوری مدت میں اسلام اور مسلمانوں کےدہشت گردی میں ملوث پائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کہ ساری کوششوں کا حاصل فقط ضیاع وقت اور ضیاع مال تھا۔
جب چند متعصب عناصر عام لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی صفائی اور تسلسل کے ساتھ جھوٹ پھیلاتے ہیں اور ہم خیال یا زر خرید ذرائع ابلاغ کے توسط سے بے بنیاد اور من گھڑت جھوٹ کے لئے مصداقیت حاصل کرتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ ان ہی باتوں کو سچ اور مبنی بر حقیقت ماننے لگتے ہیں۔ اس کا اثر اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ خوف کے ماحول میں کنارہ کشی اختیار کیے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ انسان کی تعریف ” سماجی حیوان social animal ہے، لوگوں سے ملنا جلنا لین دین کرنا خوشی اور غم میں شریک ہونا اس کی فطرت ہے،وہ دوسروں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی بنیاد پر اپنی اس جبلت کی مدافعت کب تک کرتا رہے گا، چنانچہ چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد وہ اپنے آپ کو مصنوعی خوف کے حصار سے باہر نکالتا ہے اور جانچنے کے ارادے سے پھر سے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان مسلمانوں کو اپنی ہی طرح پاتا ہے، پھر وہ اپنی اس نئی دریافت،تازہ کھوج اپنے متعلقین کے ساتھ شیئر کرتا ہے اور اس طرح وہ اس انسانیت دشمن گروہ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اس ملک عزیز میں بھی اس طرح کے عناصر سرگرم ہیں، جو برادران وطن کو اس خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان اس ملک پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک کو افغانستان عراق سوڈان،سیریا اور یمن بنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے اس ملک میں ہندو مذہب اور تہذیب کی حفاظت کے لئے ان قوانین کی تائید کریں،بی جے پی کی حمایت کریں وقتی فائدے پانی بجلی سڑک اسکول اور بنیادی ترقیاتی کاموں سے زیادہ اہم اس دیش کو بچانا ہے۔اس لئے بے روزگاری اور اقتصادی بحران پر حکومت سے سوال نہ کریں۔ جن بے بنیاد مفروضوں پر وہ عام برادران وطن ہندوؤں کو ڈرا رہے ہیں، وہ وقتی طور پر ذہنوں کو اپیل کر رہے ہیں، مگر ان میں سے ہی بہت سے ایسے ہیں جو خوف دلانے والے ان دلائل کو عقلی اور نقلی طور پر خارج کر رہےہیں۔ اس خوف کو پھیلانے میں وقت اور پیسے لگ رہے ہیں،اس کا وقتی طور پر اثرانداز ہونا بھی منطقی ہے؛لیکن میل جول interaction اور socialization ہی فرقہ وارانہ منافرت کے اس زہر کے لئے مجرب تریاق ہے۔ موجودہ احتجاج نے اس کا موقع بھی دیا ہےاور اس کی ضرورت،اہمیت اور افادیت کا احساس بھی دلا یاہے؛ اس لئے ہم سب اپنے اپنے حلقۂ احباب میں اس کوشش کو لے کر آگے بڑھیں۔
تحسین پوناوالا، ناصر حسین قریشی، پی وی سریندرناتھ اور مولانا یاسین اختر مصباح کا طلباسے اظہار یکجہتی
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم کی رپورٹ) مولانا محمد علی جوہر روڈ پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں بے چینیوں کا راج اور اضطراب کا بسیر اہے ۔ رات کے سناٹے کے بعد سورج کی روشنی کے ساتھ ہی قومی نغمے کانوں میں گونجنے شروع ہو جاتے ہیں اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی جن من گن اور سارے جہاں سے اچھا کی نوید سنائی دینے لگتی ہے ۔حب الوطنی میں ڈوبے گیت اور نغموں سے سر شار جامعہ کے طلبااور اوکھلا کے باسی جب اس آواز کو سنتے ہیں تو ان کے قدم خود ہی اس جانب کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر شروع ہوجاتا ہےایک نیاجہان تعمیر کرنے کا عمل ، ایک نیا خواب بُننے اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ ، کسی کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے ، کسی کے ہاتھ میں پلے کارڈ تو کوئی اپنے ٹوٹے بستوں کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ بابِ مولانا آزاد جو احتجاج کی نشانی بن چکا ہے پہنچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر شیر خوار بچوں کے ساتھ اسی اور نوے سال کے بزرگ بھی دکھائی دیتے ہیں ، پیروں سے معذور افراد اور وہ بھی جو بول نہیں سکتے لیکن زبان حال اور قال سےگواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دستور کو بچانے نکلے ہیں اور آزاد ہندوستان کے یہ وہ سپاہی ہیں جو کل کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس سے باہر سڑک کنارے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ )، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آرسی ( نیشنل رجسٹرآف سٹیزن ) کے خلاف تقریبا چالیس دن سے جاری احتجاج میں ہر دن ایک نیا انداز اور نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے ،جس میں طلبا اور آس پاس کے رہائشی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تو آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے ۔ دیواریں اور سڑکیں مزاحمت کا نشان بن گئی ہیں جہاں تخلیقیت سے پُر نعرے اور کارٹون حکومت کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں ۔مقررین خطاب کرتے ہیں تو پڑھے لکھے افراد اس قبیح بل کے دور رس اثرات اور نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج میں ، گذشتہ اکیس دن سے ستیہ گرہ پر بیٹھے بھوک اور پیاس سے نڈھال طلبا بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر نا امیدی یا مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ عزم و ہمت کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر مشتمل رضاکار بلا تھکے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں صفائی سے لیکر سیکیورٹی اور ٹریفک تک کی ذمہ داریاں طلباہی نبھاتے ہیں ۔ اسٹریٹ پر لائبریری بھی سجی نظر آتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا ڈھیر نظر آتا ہے جہاں پڑھنے والے طلبا مطالعہ میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ سے چھیڑی گئی اس تحریک کو آج ۴۰ روز مکمل ہوگئے. آج کے احتجاج میں کئی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور اس سیاہ قانون کی مخالفت جاری رکھنے کےلیے طلبا کے عزم وحوصلے کی داد دی اور طالبات کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے حتی المقدور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دوردراز اور قرب وجوار سے آئی سماجی وسیاسی شخصیات میں خاص طور پر سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا، آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی، میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد، اسلامک اسکالریاسین اخترمصباحی ، اکھل بھارتیہ وکیل سنگھ کے سکریٹری پی وی سریندرناتھ قابل ذکر ہیں۔سماجی کارکن وسیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں کانفاذ ہی حقیقت ہے۔ سرکار گاندھی جی کو مہرہ بنا کر استعمال کر رہی ہے اور گاندھی جی کے پرانے بیانات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت میں ہو مگر ان کی غیر آئینی پالیسیوں اور قوانین کو عوام تسلیم نہیں کریں گے ، جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے کی ہے۔ ان کایقین ہے کہ عدالت عظمی اس سیاہ قانون کو ضرورغیر آئینی قرار دے گی۔آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کو یہاں مظاہرین سے مل کر چرچا کرنی چاہیے اور یقین دلانا چاہیے کی این پی آر اور این آر سی نافذنہیں ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ وزیراعظم کی بات پریقین بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا ایک بہت بڑا گروہ بھرم اور دراڑ پھیلانے میں لگا ہے مگر ہم محبت پھیلائیں گے اورجیتیں گے ۔میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد نےمظاہرین کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہم حکومت کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم ذاتی واداور یوگی والے بھگوا رویہ کے مخالف ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم بھگت سنگھ کے رویے کو سلام کرتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر اعجاز علی جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے مگر ان لوگوں نے پہلے بھی جھوٹے وعدے کیے ہیں، نوٹ بندی کے وقت وزیراعظم نے 50دن مانگے تھے کہ کالا دھن واپس لے آئیں گے لوگوں نے ان پریقین کیا مگر صرف دھوکہ ملا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ضابطہ بنالیا ہے کہ پارٹی میں ہونے کے لیے غنڈہ ہونا ضروری ہے، اور جوجتنا بڑا غنڈہ اتنا بڑا عہدہ۔ ان کے علاوہ دیگر مقررین میں پیس پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر محمد ایوب، سماجی کارکن ابھنو سنہا اورجامعہ کے طلبہ لیڈر عاقب رضوان، مبشر بدر وغیرہ نے بھی اپنی بات رکھی ۔ آج جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے ‘راشٹرویاپی سنیکت پردرشن کے اعلان ’ کے تیسرے دن دیش بھر کے مختلف مقامات پر ‘ایک روزہ بھوک ہڑتال’ کا بھی انعقاد عمل میں آیا ۔ ‘کال فار ریززٹینس’ عنوان کا یہ اعلان ایک ہفتہ تک ملک کے مختلف مقامات پرمختلف کاموں کے ذریعہ سے ہوگا۔جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا تب تک وہ مظاہرہ جاری رکھیں گےـ
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
ہندوستان کو 22 جنوری کا انتظار ہے. سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں.حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہےـ
اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22 جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا.ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں :
(1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گایا:
(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گاـ یا:
(3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گاـ یا:
(4) اس مسئلے کی شنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گاـ
مجھے آخرالذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے، پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکرچٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ادھر بہار سرکار نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15 مئی تا 28 جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا.نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا.لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے.کیا این پی آر خطرناک نہیں؟کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں.جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں. این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے. این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا. مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے.این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں.سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی. لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا.سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو،برہمن واد اور منوواد کا ہے.ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے. یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے.لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ ہم دیکھیں گے‘‘جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے ،چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے ، کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے مہاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے مملو ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاوا منفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور آزادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ہے، جو سورۂ رحمان کی آیت کا ایک ٹکڑاہے۔ یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مژدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرآن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے ۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔
اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبُت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ۔ بُت سے مراد بھی ہندو مذہب کےدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بُت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے کہا ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
نسیم کے اس شعر میں ’’ بُت‘‘ سے مراد کوئی مورتی نہیں ہے اور نہ ہی ’’کفر ‘‘کا اشارہ کسی غیر مسلم کی طرف ہے، بلکہ بت سے مراد معشوق ہے اور کفر سے مراد اس کی ضد اور ’نہیں نہیں‘ ہے۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن ’’ بس نام رہے گا اللہ کا‘‘ اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ ’اللہ‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (آستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح ’حرم ‘اور ’کعبہ ‘ بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو’’ انصاف کا مندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘‘
ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘
یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرآن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی ۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ’’وعدے کے دن ‘‘سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور’’ لوح ازل ‘‘سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائےآفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانےکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘
ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔
اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے ’انا الحق‘ کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے ۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اُس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف ’انقلاب زندہ باد ‘ جیسا نعرہ بن گیا ۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرۂ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں ’انا الحق‘ کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر’ اناالحق‘ فرعون کے نعرے ’انا ربکم الا علیٰ‘ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ’ اناالحق‘ میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔
اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا ۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔
تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔
جامعہ تحریک کے ۳۹؍ ویں دن بڑی تعداد میں طلبہ کا شاہین باغ تک مشعل جلوس،معزز شخصیات کا خطاب
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ)
کیا دن اور کیا رات ایسا لگتا ہے کہ اوکھلا والوں کےلیے دونوں برابر ہیں۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا ۳۹واں اور شاہین باغ کا ۳۷؍واں دن تھا۔ آج بھی مظاہرین کی کافی بھیڑ تھی، لوگوں کا جوش وخروش دیدنی تھا، آج دیر شام تک طلبہ کی مختلف ٹولیاں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، بٹلہ ہاؤس ہوتے ہوئے شاہین باغ کے احتجاج میں مشعل لیے ہوئے شامل ہوئیں۔وہیں دن بھر مختلف قسم کے پروگرام جاری رہے، دیگر دنوں کے مقابلے آج بھیڑ کم تھی اس لیے کہ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد ترکمان گیٹ، منڈی ہاؤس سے جنترمنتر، خوریجی، جعفرآباد، برجی پوری، اندرلوک میٹرو اسٹیشن وغیرہ کے احتجاج میں شرکت کےلیے گئے ہوئے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حسب معمول طلبہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آج ان کے بھوک ہڑتال کا بیسواں دن تھا۔ اسٹریٹ لائبریری سجی ہوئی تھی۔آج بھی بڑی تعداد میں طلبہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام پوسٹ کارڈ پر خطوط لکھے اور انہیں ارسال کیا۔ طلبہ و عوام نے سی اے اے کے خلاف زبردست نعرے بازی کی، مختلف پلے کارڈ اور سڑکوں پر پینٹگ کرکے سی اے اے کی قباحت اور این پی آر و این آر سی سے ملک کو ہونے والے نقصانات کو واضح کیا۔ شعرو شاعری کی محفل بھی سجی تھی جہاں علاقائی شعرا اپنا کلام پیش کررہے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات مختلف انداز میں سی اے اے اور این آر سی کے مہلک اثرات سے عوام کو متعارف کرارہے تھے۔ اور لوگوں کو بیداری مہم چلانے کےلیے بڑے پیمانے پر ابھار رہے تھے۔ جامعہ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر جامعہ نجیب جنگ نے کہاکہ حکومت کو شہریت ترمیمی قانون پر غور کرناچاہئے، انہیں یا تو مسلمانوں کو شامل کرناچاہئےیاسبھی مذاہب کو نکال دیناچاہئے اور صرف مظلومیت کی بنیاد پر شہریت دینی چاہئے۔ وزیر اعظم کو سبھی مظاہرین سے مل کر بات کرنی چاہئے پورا معاملہ پرامن طریقے سے حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہاکہ بچوں کو یہ یہ تحریک جاری ہی رکھنی ہوگی؟ کیوں کہ مستقبل کا ہندوستان ان ہی بچوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کب تک ہم لوگ اس طرح احتجاج کرتے رہیں گے، حل صرف بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ معیشت کی بری حالت ہے دکانیں بند ہیں، بسیں متاثر ہیں ملک کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ شاہین باغ کا احتجاج بھی پرامن طریقے سے جاری رہا۔ لوگوں میں اول دن والا جوش وجذبہ برقرار ہے، سکھ کمیونٹی کی جانب سے لنگر اور کھانے کا اہتمام کیاگیا ہے۔ اس سے قبل اتوار کی شام سینکڑوں افراد بشمول خواتین اور بچوں سمیت جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شاہین باغ تک سی اے اے کے خلاف ایک زبردست مارچ کیا۔طلبہ اور مقامی افراد مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کے لباس پہنے ہوئے تھے ، جبکہ تین افراد نے شہید بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھدیو کی شباہت اختیار کی تھی ، ان میں سے ایک جیل کے لباس میں تھے اور زنجیروں میں قید تھے۔ اطلاع کے مطابق اتوار ہونے کی وجہ سے شاہین باغ احتجاج میں خواتین سے اظہار یگانگت کےلیے دہلی سمیت دیگر ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں عوام وہاں پہنچے اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے بازی کی۔ اتوار کو صرف گھروں میں قید رہیں پردہ نشین خواتین ہی نہیں تھیں، راجدھانی کے پوش جنوبی علاقے کی امیر گھرانے کی عورتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ جنوبی دہلی کی خواتین ان خواتین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں جنھیں کل تک غیر مرد کی موجودگی میں اپنے ہی گھر میں سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب یہ خواتین چوراہے پر کھڑی ہو کر مردوں کو راستہ بتا رہی ہیں، آئین کے معنی سمجھا رہی ہیں، مرکزی حکومت کی نیت کو بے پردہ کر رہی ہیں۔ چہرے پر ترنگے کی چھاپ اور پیشانی پر اشوک چکر باندھے یہ خواتین ان سبھی کو راستہ دکھا رہی ہیں جو اب تک خاموش تھے۔ ان خواتین نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب اقتدار کے رحم و کرم پر جینے والی نہیں بلکہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ہاتھ میں آئین لیے اپنا حق چھیننے کے لیے پرعزم ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں جمہوریت کے ’تیرتھ استھل‘ کا قیام ہو چکا ہے اور اس کا نام ہے شاہین باغ۔ یہ سچ ہے کہ اس تیرتھ میں نہ کوئی بھگوان ہے، نہ کوئی دیوتا۔ یہ کسی عبادت گاہ یا پوجا کی جگہ سے زیادہ پاک ہے۔ سماج کا ہر طبقہ اس تیرتھ کی تعمیر میں برابر کا شریک ہے۔ پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر مظاہرے ہورہے ہیں اور خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ شاہین باغ کی خواتین سے سبق لے رہی خواتین یہی نعرہ لبوں پر لیے ہوئے ہیں کہ ’میں انقلاب میں شاہین باغ ہونا چاہتی ہوں‘۔ رنجشوں کے اس وقت میں۔۔۔نفرتوں کی لاٹھیاں کھاکر۔۔۔اس ملک کو توڑنے کی کوششوں کے اوپر۔۔۔۔بس اتنی ہی تو خواہش ہے جاناں۔۔۔میں انقلاب میں شاہین باغ ہوناچاہتی ہوں!
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
الحاج ڈاکٹر عبدالرؤف
ڈائرکٹر دانشگاہ اسلامیہ ہائی اسکول
ہاٹن روڈ، آسنسول
ہندوستان کے مایہ ناز سپوت مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا تھا کہ
”عورت اگر کسی بات کا عزم کرلے تو اس کے عزائم کو ہمالیہ جیسی چٹان، اٹھتا ہوا طوفان اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی پامال نہیں کر سکتا۔“
دنیا ئے انسانیت کی تاریخ میں ایسی متعدد خواتین ہستیاں گذر چکی ہیں۔ جو اپنے عزائم کی تکمیل میں تاریخ ساز کا ر نامہ انجام دیا ہے۔ ہمارے ملک میں مہارانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، بی اماں، بیگم رقیہ وغیر ہم جیسی خواتین نے قومی عزائم لئے انگریزوں سے معر کہ لیا، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اب ایسا ہی منظر شاہین باغ دہلی میں درپیش ہے۔
گذشتہ 16 / دسمبر 2019 ء سے شاہین باغ کی خواتین این آر سی (NRC) سی، اے، اے (CAA) اور این پی آر (NPR) کے خلاف اس کپکپاتی سردی کے زمانے میں دھرنے پر بیٹھی ہیں اور اس تحریر کے قلمبند ہونے تک تقریباً ایک ماہ سے زائدکا عرصہ گذرگیا لیکن ان خواتین کے عزائم میں کسی طرح کی کمی نہیں ٗ حوصلے بلندہیں اور اس ملک کے دستور اساس کو بچانے کیلئے وہ پرامن احتجاج کر رہی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف دن کے ایام میں یہ خواتین دھرنے پر ہیں بلکہ دہلی کی سرد راتوں میں بھی وہ اپنی زندگی کو ہتھیلی پر لے کر تکلیف اُٹھارہی ہیں اس میں پندرہ دن سے لے کر چھ ماہ کی شیر خوار بچوں کے ساتھ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ گھریلو خواتین، دفتروں میں سروس ٗ اعلیٰ عہدیداران ٗ کالج ویونیورسیٹیوں کی طالبہ بھی شامل ہیں۔ یہ دھرنامحض ضمیر کی آواز نے انہیں مجبور کیا ہے۔ ان کا کوئی قائد نہیں کوئی لیڈرشپ نہیں۔
مزید برآں اس دھرنے میں قومی یکجہتی کا یہ زبر دست نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا ہے۔ جسے شوشل میڈیا نے وائرل کیاہے۔ 12 / جنوری 2020 ء شاہین باغ اسکوائر کے خواتین کی اس دھرنے میں صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کی خواتین بھی شریک ہیں۔ جس میں عبادات و ریاضت کا عجیب منظر دکھا یا گیا ہے۔ اس کھلے میدان میں لاکھوں مرد و خواتین موجود ہیں اللہ کے دربار میں سر بہ سجود ہیں جبکہ ہندوہون کر رہے ہیں۔ سکھ گرنتھ صاحب کے پاٹھ پڑھ رہے ہیں اور کرسچن اپنی عبادات میں مصروف ہیں۔یہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی پہچان یکجا ہیں۔ ملک کے جس دستور نے پوری قوم کو ایک ہی لڑی میں پر ودیا تھا۔ آج اس کا سماں ہے۔
ذرا تاریخ کے صفحے کو پلٹ کر دیکھیں اس کی پہچان یہاں موجود ہیں۔ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کچھ سے لے کر کامروپ تک پھیلاہوا ہمارا ملک ایک ارب پچیس کروڑ انسانی آبادی پرمشتمل ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں نظریات رہن سہن کے ہزاروں طریقے زندگی گذارنے کے ہزاروں فلسفے، عبادات و ریاضات کے مختلف طریقے کوئی مندر ٗ مسجد ٗ گرودوارہ ٗ چرچ جاتا ہے کوئی پانچ گز کی دھوتی تو کوئی پانچ گز کی پگڑی باندھتا ہے۔ کسی کو خشکی پسند تو کسی کو تری پسند ہے کوئی چاول کا رسیاکوئی روٹی کا دلدادہ غرضیکہ مختلف رنگارنگ تہذیب وتمدن کے اس گہوارہ کو دستور کی ایک ہی لڑی میں پرودیا گیا تھا۔
آج اسی دستور کی حفاظت کے لئے ہماری مائیں ٗ بہنیں بیٹیاں میدان میں ہیں حیرت ہے جب ساری دنیا یکم جنوری 2020 ء کی رات 12 بجے نئے سال آنے کا جشن منارہی تھی۔ قوم کی بیٹیاں اپنے معبود حقیقی کے سامنے ملک کی سلامتی ٗ آئین کی حفاظت کی پراتھنا ئیں کر رہی تھیں۔ دعائیں مانگ رہی تھیں۔
اس کالے قانون کے خلاف خواتین کی اس جراتمندانہ اقدام پورے جنوبی ہندو شمالی ہند میں پھیل گئے ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ سے لیکر کولکاتا تک پوری ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین سڑکوں پر آگئی ہیں۔
جنوبی ہند میں تامل ناڈو، مہاراسٹر ٗ کرنا ٹک ٗ آندھراپردیش ٗ تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بلا تفریق مذہب وملت خواتین صدائے احتجاج بلند کررہی ہیں دھرنے دے رہی ہیں۔
آج پورے ملک میں اس کالے قانون کے خلاف خواتین اُٹھ کھڑی ہیں جو ملک کی نصف آبادی کہلاتی ہیں۔ انہوں نے کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لیا ہے خواتین قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے۔ انہیں کی آغوش میں نسلیں بنتی ہیں بڑھتی ہیں۔ اسے صنف نازک بھی کہا جاتا ہے دنیا کا کوئی بھی دھرم اس صنف پر ظلم وبربریت روا نہیں رکھتا۔ غور و فکر کی بات اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی راتوں میں ان صنف نازک کو کس نے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ ملک سے محبت ٗاس کے
دستور سے محبت اس ملک کی مٹی سے محبت جہاں صدیوں صدیوں سے انسان امن وبھائی چارگی سے رہتے آئے ہیں۔ ان کے دلوں نے اسی بات پر مجبور کیا کہ اس کا لے قانون نے ہمارے دلوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذانفرت کی اس دیوار کو ڈھانے کے لئے وہ سب کچھ قربان کرکے دھرنے پر بیٹھی ہیں …………!پوری قوم خواتین کے عزائم کو سلام پیش کرتی ہے۔
اس کالے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات نے پر امن احتجاج کیا تھالیکن حکومت کی مشنری نے اسے پرتشدد بنادیا جس کی آواز پورے ملک میں سنی گئی اور ملک کی سبھی یونیورسیٹیوں کے طلبہ جامعہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
اس احتجاج میں کتنی ہی زندگیاں قربان ہوگئیں کتنی ہی خواتین کا سہاگ اُجڑ گیا۔ کتنی ہی ماؤں کا سہارا اولاد چھین لیا جو اس حکومت کی تاریخ کا سیاہ باب کہلائے گا پہلے حکومت کا جواز تھا کہ پر تشدر احتجاج کے جواب میں حکومت کو تشدد اختیار کرنا پڑا۔
لیکن ہماری معصوم خواتین تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ سے عدم تشددکی راہ اپنا کر پر امن احتجاج کر رہی ہیں لیکن وائے افسوس کہ اب تک وزیر داخلہ کے بیان میں نرمی نہیں آئی وہ اب بھی اعلان کر رہے ہیں کہ ہم اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کسی بھی جمہوری ملک کے لئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ 33 فیصد ووٹوں سے جولوگ اقتدار پر آئے ہیں انہیں 67 فیصد آبادی کی آواز کو دبا یا نہیں جاسکتا ہے۔ کم سے کم انسانیت کے ناطے …………! ماناکہ آپ ایک آئیڈیولوجی کے تحت حکومت کے تخت وایوان پر براجمان ہیں لیکن انسانی ہمدردی ٗ خواتین ٗ شیر خوار بچے یہ سبھی تو ہمارے ہی ملک کی دھرتی میں جنم لئے ہوئے ہیں۔
اگر اللہ نے آپ کو چھ انچ کے گوشت پوست کا ٹکڑا دل دیا ہے۔ اس میں سوز و گداز، نر میت، رحمدلی کا جذبہ بھی پیدا کیجئے صرف آئیڈیولوجی سے حکومتیں نہیں چلتی ہیں تاریخ شاہد ہے۔
انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ ایک الگ شئے ہے اگر شاہین باغ کی خواتین سے وزیر اعظم خود جاکر انہیں چند کلمات سے نوازدیں کہ حکومت ان کی باتوں پر بالضرورغور کرے گی تو عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی دور ہوگی ملک میں امن وسکون قائم ہوگااور زندگی اپنی سابقہ ڈگرپر رواں دواں ہوجائے گی۔