نئی دہلی :
ورجینیا یونیورسٹی امریکہ کی پروفیسر اور معروف اسکالر مہر افشاں فاروقی نے شعبہاردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ’غالب،منشی نول کشور اور مطبوعہ کتابوں کارواج ‘کے زیر عنوان سہ پہر تین بجے ٹیگور ہال دیار میرتقی میر میں منشی نول کشور یادگاری خطبہ پیش کیا۔انھوں نے اپنے وقیع خطبے میں کہا کہ علمی اور ادبی کلچر کے فروغ میں طباعتی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔چنانچہ غالب کی شہرت ومقبولیت میں ان کی شاعرانہ عظمت اور عبقریت کے علاوہ اس زمانے کے ترقی یافتہ پریس مطبع منشی نول کشور کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔غالب کے تصور میں کتاب کا جو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار، طباعتی نفاست ،تزئین وخوش نمائی اور عمدہ کتابت کے معیارات تھے، ان کو اپنے اس خواب کی تعبیرمطبع منشی نول کشورمیں نظر آئی۔چنانچہ غالب ،منشی نول کشور اور غالب کی مطبوعہ کتابو ں کے مابین جو بامعنی رشتہ قائم ہوتا ہے اور غالب کی تشہیر میں ان عوامل کا جوکردار رہا ہے اس پر ایک مبسوط تحقیق بہت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔صدارتی خطبے میں پروفیسر وہاج الدین علوی نے کہا کہ منشی نول کشور محض ایک کاروباری ناشر ہی نہیں تھے بلکہ وہ مشرقی تہذیب کے روشن دماغ سفیر تھے ۔انھوں نے اپنے عہد کے تمام عظیم اداروں اور شخصیات سے براہ راست وابستگی اختیار کی اور مشرقی زبان وعلوم کی توسیع واشاعت میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ۔صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کے خطبہ کا موضوع اور خطیب دونوں ہی اہم ہیں ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ اور منشی نول کشور میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔گنگاجمنی تہذیب اور علوم کا فروغ دونوں کے بنیادی مقاصد میں شامل ہیں۔خطبہ کے کنوینر پروفیسر احمد محفوظ نے مہمان مقرر پروفیسر مہر افشاں فاروقی کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ اورادب کے نئے گوشوں کی تحقیق کے حوالے سے ان کو علمی دنیا میں ہمیشہ وقارواعتبار حاصل رہا ہے ۔علمی تبحر کے باوجود ان کی منکسرالمزاجی ان کی قدرومنزلت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ منشی نول کشور جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں سید شاہد مہدی نے نہ صرف ایک بھرپور سمینار کاانعقاد کیا بلکہ شعبہ اردو کی جانب سے سالانہ منشی نول کشور یادگاری خطبے کو منظوری دی۔اس پروقار خطبے کاآغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔اس موقع پر ورجینیا یونیورسٹی(امریکہ) کی ریسرچ اسکالرمیگن اور ایلیٹ کے علاوہ پروفیسر شہناز انجم ،پروفیسر باراں فاروقی،ڈاکٹر شکیل اختر،ڈاکٹر واحد نظیر،ڈاکٹر حناآفرین،ڈاکٹر نوشادعالم،اقبال حسین ،پروفیسر شہپررسول، پروفیسر عبدالرشید،پروفیسر خالدجاوید،پروفیسرندیم احمد،ڈاکٹر عمران احمد عندلیب،ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد،ڈاکٹر سید تنویر حسین،ڈاکٹر محمد مقیم،ڈاکٹر ابولکلام عارف،ڈاکٹر عادل حیات ،ڈاکٹر سلطانہ واحدی ،ڈاکٹر محمد آدم،ڈاکٹر جاوید حسن ،ڈاکٹر سمیع احمد،ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی،ڈاکٹر نعمان قیصر ،ڈاکٹر محضر رضا،محمد مظاہر اور ابوالاشبال سمیت بڑی تعداد میںریسرچ اسکالرس اور طلبا وطالبات شریک تھے۔
Jamia Milia islamia
ہندوستان کی سیاحت و ثقافت ہر دور میں عربوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے: پروفیسر عبد الماجد قاضی
نئی دہلی (حسان انور): جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں جامعہ ٹیچرز ایسو سی ایشن اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک و تعاون سے شعبہ عربی کے زیر اہتمام کثیرجہتی بین الاقوامی کانفرنس کی دو نشستیں آج پروفیسر عبد الحلیم ندوی لائبریری میں ’ہندوستا ن اور اس کی ثقافت: اردو عربی اور فارسی زبان کے حوالے سے‘ کے مرکزی موضوع پر منعقد ہوئیں۔ پروفیسر حبیب اللہ خاں اور پروفیسر رضوان الرحمن نے پہلی نشست کی مشترکہ صدارت کی۔ اس نشست میں ’عربی ادب میں جدید ہندوستان ‘ ’حسین ہیکل کی تحریروں میں ہندوستا نی ثقافت کی خصوصیات‘ ’ابن بطوطہ کے سفرنامہ میں ہندوستا نی ثقافت‘ ’شیخ علی طنطاوی کی تصنیفات میں ہندوستا ن اور اس کی ثقافت‘ ’بعض عربی ادب میں ہندوستا نی سماج و ثقافت کی جھلکیاں‘ جیسے موضوعات پر بالترتیب پروفیسر عبد الماجد قاضی ڈاکٹر مجیب اختر ڈاکٹر محمد اکرم ڈاکٹر محفوظ الرحمن اور ڈاکٹر محمد سلیم کی جانب سے مقالے پیش کئے گئے۔ جبکہ پروفیسر محمد ایوب ندوی اور پروفیسر عبد الماجد قاضی نے دوسری نشست کی مشترکہ صدارت کی۔ اس نشست میں ’شوقی کی شاعری میں ہندوستانی شخصیات‘ ’عرب کے قدیم سفرناموں میں ہندوستان کا تذکرہ‘ ’سعداوی کے سفرنامہ میں ہندوستانی خواتین کی عکاسی‘ ’ابراہیم جبرا کی تحریروں میں ہندوستا نی ثقافت کا پرتو‘ ’عبودی کا سفرنامہ ہند‘ جیسے موضوعات پر بالترتیب ڈاکٹر نسیم اختر ڈاکٹر حسنین اختر ڈاکٹر زر نگار ڈاکٹرعظمت اللہ اور ڈاکٹر فوزان احمد نے مقالے پیش کئے ۔ اس کے بعد صدر باوقار پروفیسر عبد الماجد قاضی نے اپنے صدارتی خطبہ میں مقالہ نگاروں کی عرق ریزی کو سراہا ۔ ساتھ ہی اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ عرب سیاحوں نے ہر دور میں اپنے سفرناموں میں ہندوستا ن کی سیاسی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو موضوع بحث بنایا۔تاہم اس کے جواب میں ہندوستا نی مؤرخین کی جانب سے اس سلسلہ میں کچھ خاص فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ دریں اثنا تمام مقالہ نگاروں کوموقر شخصیات کے ہاتھوں سند شرکت برائے مقالہ نویسی سے نوازا گیا۔ پروگرام کے اخیر میں شعبہ عربی کی اسکالر ارم زہراء رضوی نے تمام حاضرین اور منتظمین خاص طور پر جامعہ ٹیچرز ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری پروفیسر ماجد جمیل اور ر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر شیخ عقیل احمد کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ وطالبات کافی تعداد میں موجود رہے۔
٭ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
اس بات کا اندیشہ تو پہلے سے ہی تھا کہ پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف جس طرح احتجاجی جلسوں اور مظاہرے میں اضافے ہو رہے ہیں اس سے حکومت پریشان ہے۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے کہ وہ تمام تر جمہوری آوازوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔لیکن بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یومِ شہادت کے موقع پر جامعہ جیسا واقعہ رونما ہوگا اس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔البتہ اس کا اشارہ تو پہلے ہی مل گیا تھا کہ دہلی کے انتخابی جلسوں میں شاہین باغ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور وہاں کی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہو رہی تھی باوجود اس کے وہاں کی تحریک کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے چلنے والی یہ جمہوری تحریک اپنے صحیح وسالم خطوط پہ چل رہی ہے۔ آئین کی حفاظت اور جمہوریت کی آواز کو زندہ رکھنے کے لئے اس تحریک نے پورے ملک میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ 30/ جنوری کو پورا ملک بابائے قوم کی شہادت کو یاد کر رہا تھا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہا تھا عین اسی وقت جامعہ نگر میں راج گھاٹ کو کوچ کرنے والی تحریک میں شامل ایک معصوم طالب علم کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی جان بچ گئی ہے اور وہ زندگی وموت کے درمیان زیر علاج ہے۔ گولی چلانے والا رام بھکت گوپال دہلی شہر کا نہیں ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق وہ اتر پردیش کے جیور کا ہے اور وہ بارہویں درجہ کا طالب علم ہے۔ ظاہر ہے اس وقت پورے ملک میں جس طرح منافرت کی فضا قائم کی جا رہی ہے اس میں اسی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں کہ گذشتہ تیس برسوں میں شدت پسند تنظیموں نے اپنے ہزاروں تعلیمی اداروں میں اس کی ذہن سازی کی ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ قاتل دن کے اجالے میں ہواؤں میں اپنی ریوالور لہراتا رہا اور دہلی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے فوٹیج میں دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی پولیس کس طرح گولی چلانے والے کو ہاتھ باندھے دیکھ رہی ہے۔ اب تفتیش کے بعد جو بھی نتیجہ آئے لیکن اتنی بات توطے ہے کہ اب پورے ملک میں چلنے والی جمہوری تحریک کو تشدد آمیز بنانے کی شروعات ہوگئی ہے۔ملک کے نامور وکیل پرشانت بھوشن کو بھی انڈیا گیٹ پر گرفتار کیا گیا کہ وہ گاندھی جی کی شہادت کو یاد کرنے کے لئے انڈیا گیٹ پر ”جن گن من“ گانے کے لئے پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء بھی تھے اور وقار شہری بھی۔لیکن دہلی پولیس انہیں گرفتار کر لے گئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف حصے میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف چلنے والی تحریک میں شامل ہونے والے کئی لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیاہے۔یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ کسی کو بھی ملک مخالف نعرہ بازی کرنے یا ملک کی سا لمیت کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس بات کا خیال مظاہرین کو بھی رکھنا ہوگا کہ ہم آئین کی حفاظت کے لئے جمہوری طریقے سے ہی اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ اب جب کہ اس تحریک کو بدنام کرنے کے لئے یا پھر دبانے کے لئے نئی سازش شروع ہوگئی ہے تو ایسی صورت میں مظاہرین کو اور بھی چاق وچوبند اور ہوشیار رہنا ہوگا کہ جامعہ کا واقعہ کہیں بھی دہرایا جا سکتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کیوں کہ اس طرح کے لوگوں کے سر پر کس کا ہاتھ ہے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔جس طرح دہلی کے انتخابی جلسوں میں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرہ بازی و بیان بازی ہو رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب ملک میں نظم ونسق نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ فکر مندی کی بات تویہ ہے کہ قانون کے محافظ بھی تماشائی بن گئے ہیں بلکہ وہ غیر جمہوری طریقہ کار کے علمبرداروں کے معاون ہوگئے ہیں۔ اتر پردیش کے لکھنؤ میں پولیس کا رویہ کیا ہے وہ سب سامنے ہے اور دہلی میں کیا ہو رہاہے وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ مگر ہمیں اس ملک کو بچانا ہے کہ ملک کی سا لمیت ہی ہمیں امن وسکون عطا کر سکتی ہے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور نفرت کی سیاست کو ناکام کر سکتے ہیں۔صرف اور صرف عدمِ تشدد اور جمہوری طریقے سے۔یہ اور بات ہے کہ ملک میں ظاہری طورپر گاندھی کی مالا جپنے والے گوڈسے کی فکر ونظر کے علمبردار بن گئے ہیں اور ملک میں ہزاروں گوڈسے کو پیدا کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ ملک اب بھی گوتم بدھ اور گاندھی کا ہے، رام اور نانک کا ہے۔ یہاں اب بھی چشتی کے نام لیوا موجود ہیں اور یہ سب ستیہ اور اہنسا کی راہ کو بھولے نہیں ہیں۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ایک وہ تیس جنوری تھی جب 1948ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرونے باپو کے قتل کے بعد کہا تھا کہ ”روشنی گم ہوگئی ہے“۔ لیکن ہزاروں لوگوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ روشنی ہمارے دل میں مکیں ہے کہ روشنی کا کبھی قتل نہیں ہوسکتا۔ آج جب 30/ جنوری 2020ء کو گوڈسے ثانی نے ایک بار پھر چراغِ گاندھی کو بجھانے کی کوشش کی ہے تو چہار طرف سے صدا بلند ہو رہی ہے کہ ہم چراغِ امن کو بجھنے نہیں دیں گے۔ خواب باپو کو شرمندہ تعبیر کرکے رہیں گے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی کو ان کی 73ویں یومِ شہادت پر اس نظم کے ساتھ خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں کہ گاندھی ایک روشنی کا نام ہے اور روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا۔اس نظم کا عنوان بھی یہی ہے کہ ”روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا
روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(گاندھی جی کی 73ویں یوم شہادت پر)
ایک وہ تیس جنوری تھی /ایک یہ تیس جنوری ہے /اس دن کسی نے کہا تھا/”روشنی چلی گئی ہے ”/کہ سچ مچ/تا حد نظر پھیل گئی تھی تاریکی /
مگر نکل پڑا تھا ایک کارواں /شہر شہر،قریہ قریہ/کہ یہ سچ ہے /مسیحائے وقت رہا نہیں /لیکن / ہزاروں دل میں جل رہی ہے/
اس دیوتا ئے امن کی جیوتی /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!/اور / آج بھی تیس جنوری ہے /چہار طرف ہے آندھیوں کا زور /
اور لاکھوں چل پڑے ہیں / اس قطب نما کی جانب /کہ ضد ہے ان کی بھی /چراغ حیات جلانے کی /تیرگی جمہور مٹانے کی /
مگر پھر وہ اپنی تاریخ دہرا گیا ہے /فرمان شاہی سنا گیا ہے /ارادہئ وقت بتا گیا ہے /مگر آئینہ مسکرا رہا ہے /کہ اسے یہ معلوم نہیں /
اب بھی دیوتائے امن کی جیوتی /ہزاروں دل میں جل رہی ہے /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹرخالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025
یہ وہ صنفِ نازک ہے، جس کے بہت ناز و نخرے اٹھائے گئے ہیں
زمانے سے اس کی نزاکت، لطافت کی کتنی عجب داستانیں کہی جارہی ہیں
بھلا کوئی دیوان ایسا کہاں ہے کہ اس کے سراپا کی تمثیل و تشبیہ جس میں نہیں ہو
یہ سب نقش و تصویر، سب رقص و آواز اسی پیکرِ نازک اندام کے ترجماں ہیں
مگر اب وہ لیلیٰ ، وہ شیریں، وہ سلمیٰ، وہ عذریٰ نہیں ہے
وہ شاہین باغی ہے، شاہین باغی
کہ جس کی صدائے بغاوت نے ایوانِ فسطائیت میں قیامت کا لرزہ بپا کردیا ہے
وہ رضیہ ہے، جھانسی کی رانی ہے، شمشیر و خنجر ہی زیور ہے جس کا
وہ درگا کی اوتار ہے، سر کچلتی ہے جو تانا شاہی کے اس راکچھس کا
یہ وہ شیرنی ہے کہ جس کی دہاڑوں سے فسطائیوں کا کلیجہ دہلنے لگا ہے
سنو ہٹلرو، تانا شاہو!
کہ نرگس بھی آئینہ خانے سبھی توڑ کر، حُرّیت کا علم تھامے میدان میں آچکی ہے
کہ اب اس نے طے کرلیا ہے
جنازہ نکالے گی وہ آمریت کا اک دن
منوواد کودفن کرکے ہی دم لے گی اب وہ
سو اے ماہرینِ لغت! آپ سے معذرت، میں اسے آج سے صنفِ نازک نہیں، صنفِ آہن کہوں گا.
نئی دہلی:انگریزی نیوز ویب سائٹ”مکتوب میڈیاڈاٹ کام“کے مطابق صحافی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم شاہین عبداللہ کو آج علی گڑھ میں یوپی پولیس نے ڈٹین کرلیاہے اورانہیں علی گڑھ کے نزدیک اپرکوٹ پولیس اسٹیشن لے جایاگیاہے۔وہ ’’مکتوب میڈیا‘‘ کے لیے علی گڑھ کے شاہ جمال علاقے میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے خواتین کے احتجاج کی رپورٹنگ کے لیے گئے تھے۔قابل ذکرہے کہ شاہین عبداللہ کی تصویر 15دسمبر2019کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی کے دوران وائرل ہوئی تھی،انہیں ان کی ساتھی طالبات عائشہ رینا،چندایادو اور لدیدہ فرزانہ پولیس سے بچاتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔بعدمیں یہی تصویر ملکی و عالمی سطح پرشہریت ترمیمی قانون و این آرسی کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط علامت کے طورپر ابھرکرسامنے آئی۔ابھی دودن قبل بھی شاہین عبداللہ کاایک ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوا تھا،جس میں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دہلی میٹرومیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی نعرے لگارہے تھے۔
چند دنوں قبل ماحولیاتی تحفظ کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ایماء پرریاست بہار میں انسانی زنجیر بنائ گئ تھی لیکن وہ ناکام رہی اس کی بنیادی وجہ نتیش کمار کی دوغلی پالیسی تھی جس کے تحت انہوں شہریت ترمیمی بل کی حمایت کی تھی اور این پی آر کے نفاذ کے لئے مکمل زمین ہموار کی تھی ریاست کے لوگوں کی ناراضگی جائز اور توقع کے مطابق تھی چنانچہ عوام اس انسانی زنجیر میں بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد نے سی اے اے این پی آر اور مجوزہ این آرسی کے خلاف صدائیں بلندکیں دیکھنےوالوں نے دیکھاکہ لوگ سروں پرمذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف پٹیاں باندھ کر اور ہاتھوں میں بینرلیکر انسانی زنجیر میں کھڑے ہیں جس کامطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ ریاست کی عوام ترجیحی بنیاد پرسیاہ قوانین پرقدغن لگانے کامطالبہ کررہی ہیں اب خبر یہ آرہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف جاری جدجہد میں انسانی زنجیرکوشامل کیاہے جسے امارت شرعیہ کی تائید و حمایت حاصل ہے امارت شرعیہ نے اس کا اعلان مورخہ 22 جنوری 2020کو منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں کیاگیا یہی وجہ ہے کہ اور امارت کے کارکنان بھی انسانی زنجیر کوکامیاب بنانے کےلئے تگ و دو کررہے ہیں
*یہ انسانی زنجیر مورخہ25جنوری 2020روز سنیچر کو بنائ جائے گی اور دوبجے سے تین بجے تک لوگ شامل زنجیر رہیں نماز کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے وقت کا تعین کیا گیاہے*
وقت کی نزاکتوں اور حالات کی سنگینیوں سےلوگ واقف ہیں اسلئے یہ بتانے اور سمجھانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ لوگ کیوں شامل زنجیر ہوں تاہم اتنی سی بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ وقت ماضی کی خامیوں کے تلاش کرنے اور خوبیوں پراترانے کا موقع نہیں دیناچاہتاہے بلکہ ہم سے یہ تقاضہ کرتاہے کہ ہم جوکچھ کرسکتےہیں ملک وملت کی بہتری کےلئے کریں جولوگ کچھ بھی اچھاکررہےہیں ان کاساتھ دیں اور متفقہ طور پر خوف کے لباس کواتار پھینکیں ورنہ آنے والے دن بہت تباہ کن ہوسکتےہیں خدا ملک و ملت کی حفاظت فرمائے….!
تحریر: تولین سنگھ
ترجمہ: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
وہ ایک بہت ہی سرد اور ٹھٹھرتی ہوئی اور سیاہ اندھیری رات تھی۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کو بڑی مضبوطی سے اپنے جسم سے چمٹالیا تھا تاکہ انہیں سردی کی شدت سے کچھ راحت دی جا سکے۔ لیکن کوئی بھی احتجاجی مظاہرے سے اس وقت تک ایک پل کے لئے بھی نہیں ہٹا جب تک دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے قومی ترانہ گانے کے ساتھ جلسہ کا اختتام نہیں ہوا۔
سوشل میڈیا آرمی بے بس: یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے احتجاج کی علامت کے طورپر قومی ترانہ گایا ہو۔ اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہواتھا کہ ملک کے آئین اور ترنگے جھنڈے کو احتجاج کی علامتوں کے طورپر اپنایا گیا ہو۔ لیکن جو بات وزیراعظم نریندرمودی اور ان کے قریب ترین ساتھی امت شاہ کو معلوم ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب کی بار احتجاجیوں نے قومیت یا نیشنلزم کا اظہارکرنے والی علامتیں ان کے ہاتھ سے اُچک لی ہیں، اور انہوں نے ان علامتوں کو اپنے احتجاج کے مظہر کے طور پر تھام لیا ہے۔ احتجاجیوں کے اس اقدام کی وجہ سے بی جے پی کی سوشل میڈیا آرمی بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے۔اور اب ان لوگوں کے لئے احتجاج کررہے مسلمانوں، کمیونسٹوں (لیفٹسٹس)،آزاد خیال(لبرلس)اور حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت میں کھڑے ہونے والوں پر ’ملک دشمن‘ جیسا ٹھپّہ لگانا آسان نہیں رہا ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرین کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔
ایک اداکارہ کے مقابلے میں وزیر:اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مودی کے وزیروں میں مایوسی جھلکنے لگی ہے، جسے وہ اپنی ہذیانی تقریروں اور نفرت انگیز بیانو ں میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرف سے احتجاج کے ریلے کوروکنے اور روندنے کی ناکام کوششوں کے بعد وہ خود اور ان کے بغلی ساتھی یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو صف اول سے ذرا پیچھے ہٹالیا ہے اور کچھ دیگر عوامی مقبولیت حاصل کرنے لائق چہروں کو آگے بڑھادیا ہے۔جیسے کہ سمرتی ایرانی نے دیپیکا پڈوکون(فلم ایکٹریس) کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ(جے این یو نقاب پوش حملے میں زخمی طلبہ) کھڑی ہوگئیں، جو ’ملک کو توڑنا‘ چاہتے ہیں اور جو’جب کبھی کوئی سی آر پی ایف کا جوان مارا جاتا ہے تو خوشیاں مناتے ہیں۔‘
یہ تھوڑی شرم کی بات ہے کہ ایک مرکزی حکومت کی وزیر کو بالی ووڈ کی ایک اداکارہ کے ساتھ مقابلے پرآمنے سامنے آناپڑا ہے۔ لیکن یہی چیز ان کی گھبراہٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ حالیہ دنوں پرکاش جاوڈیکر اور نتین گڈکری جیسی ذرا نرم اور معتدل آوازیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ شاید بی جے پی کو امید تھی کہ ان لوگوں کی وجہ سے وزیر اعظم کی بگڑی ہوئی شبیہ کو سدھارا جاسکے گا۔ مگر اب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
منھ بند کرنا آسان نہیں: وزیر اعظم نے خود اپنی طرف سے ہندوستانی مسلمانوں کوایک سے زیادہ مرتبہ یقین دلایا ہے، ان کو اپنی شہریت کھوجانے کے خوف میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور کسی بھی حالت میں مستقبل قریب میں این آر سی جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن جب ایک قوم نے چھ برسوں تک گائے کے محافظوں اور ہجومی قاتل گروہوں (لنچنگ گروپس) کی جانب سے اپنے خلاف برپا کیے گئے خوفناک تشدد کو خاموشی سے گزاراہے، اب ان کے منھ بند کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کو اب اپنی آواز مل گئی ہے۔
’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘: کسی بھی ریاستی حکومت نے مسلم احتجاجیوں کو خاموش کرنے کے لئے اس قدر تشدد کا سہارا نہیں لیا ہے، جتنا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے لیا،پولیس فورس کوتقریباً 30لوگوں کوقتل کرنے کی کھلی چھوٹ دینے کے باوجود بھی وہ ناکام رہ گئے۔مظاہرین اب صرف مسلمان نہیں رہ گئے ہیں۔ ان کی صفوں میں اب وہ لوگ بھی جڑ گئے ہیں جنہیں بی جے پی کے شور مچانے والے بریگیڈس ’لیبٹارڈس‘ اور ’سِکّولرسٹس‘(libtards/sickularists) جیسے طنزیہ خطابات سے نوازا کرتے تھے۔ وہ لوگ اس احتجاج میں اس خوف کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے ہیں کہ جب شہریت کا معائنہ کرنے والے آئیں گے تو انہیں ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔ بلکہ ان کے شامل ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مودی حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ بہت غلط ہے۔ اتنا غلط کہ اگر کسی کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کے نام سے پکارا جاسکتا ہے تو یہی(برسراقتدار) لوگ ہیں۔
اختیارات کا غلط استعمال: میں یہ بات پوری طرح غور وفکر کے بعد کہہ رہی ہوں، کیونکہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے کئی دہائیوں تک پاکستان میں کام کیا ہے۔ اور بہت سارے بڑے بڑے فوجی افسران سے میری ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان سب نے مجھے یہی بات بتائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر مشتمل کثیر آبادی کا ساتھ بدل گیا تو پھر یہ ملک دوبارہ تقسیم ہوسکتا ہے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ جے این یو کے طلبہ کی نعرے بازی کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ یہ اس لئے ہوگا کیونکہ ہمارے سب سے سینئر منتخب لیڈروں نے اپنے بے پناہ اختیارات کا بے جا استعمال کیا۔
احتجاج کیوں جاری ہے:مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ سپریم کورٹ نے کشمیر کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا ہے کہ غیر معینہ مدت کے لئے انٹرنیٹ بندکردینا اور دفعہ 144 جیسے نوآبادیاتی قانون نافذکرکے غیر معینہ مدت کے لئے پابندیاں لگانا’اختیارات کے غلط استعمال‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ بات یہی ہے اور جب سے دوسری مرتبہ مودی وزیر اعظم بن گئے ہیں، سیاسی طاقت کا غلط استعمال بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہمارے شہر کے محلّوں اور تعلیمی اداروں کے کیمپسس کے اندر پورے ملک میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے کے لئے اگر احتجاجی مظاہرے جاری رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں نے محسوس کرلیا ہے کہ انفرادی طور پر وہ حکومت کی طاقت کے آگے کس طرح بے بس ہوگئے ہیں۔
وزیرا عظم کی شبیہ کو نقصان: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال اس حد تک کیا ہے کہ مظاہرے کے مقام پر جن لوگوں کے موجود ہونے کی شناخت ڈیجیٹل ذرائع سے ہوئی ہے ان کی جائدادیں ضبط کرنا شروع کیا ہے۔ وہ جو چاہے کردینے کے جنون میں اس طرح مست ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مصنفوں، شاعروں، اداکاروں اور عام گھریلو خواتین تک کو جیلوں میں ٹھونس دیا ہے۔ اس عمل سے انہوں نے جس شخصیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، وہ ہیں وزیر اعظم مودی۔
وزیر اعظم کو سوچنا ہوگا: مودی جب پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑے اور جدید دور کے لیڈر کے طور پر اپنی پہچان بنالی تھی۔ مگر اب وہ شبیہ ناقابل مرمت حد تک بگڑ چکی ہے۔لیکن وزیراعظم کے لئے سب سے زیادہ اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر ان کی شخصیت اور شبیہ کا کیا حال ہے۔ انہیں ’قومیت پرستوں‘ کے جنونی حجرے سے باہر نکلناہوگا، اور احتجاج کرنے والوں سے آگے بڑھ کربات چیت کرنی ہوگی۔انہیں اس پر توجہ دینی ہوگی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے آئین کو اپنے احتجاج کا لائحۂ عمل اور ہندوستانی جھنڈے کو اپنی شناخت بنائے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ دی انڈین ایکسپریس)
جو کاغذ تم نے مانگا ہے
وہ کاغذ تو مِرے پاس نہیں
مِرے پاس تو بس یہ آنسو ہیں
تمہیں اشکوں کا احساس نہیں
میں غیر نہیں ہوں اپنا ہوں
مجھے بوجھ سمجھ بیٹھے ہو تم؟
میں گاندھی جی کا سپنا ہوں
مرے پاس تو صرف ترنگا ہے
تم یہ بھی چھیننا چاہتے ہو؟
مِرے خون میں خوشبو ہے اِس کی
مِرا خون بہانا چاہتے ہو؟
میں دروازہ اس گھر کا ہوں
تم گھر کو گرانا چاہتے ہو؟
میں گھر میں بسنا چاہتا ہوں
تم کیوں بٹوارہ چاہتے ہو؟
تم کاغذ مانگنے آئے ہو ؟
میں تم کو ترنگا دیتا ہوں
گر ہمت ہے تو آگے بڑھو
مِرا رنگ نکالو جھنڈے سے
مِری ماں کی دعا یہ جھنڈا ہے
مِرے باپ کی بھی پہچان ہے یہ
تمہیں صرف ترنگا لگتا ہے ؟
ارے پورا ہندوستان ہے یہ
جو کاغذ تم نے مانگا ہے
وہ کاغذ تو مِرے پاس نہیں
مِرے پاس تو بس کچھ آنسو ہیں
مِرے پاس تو بس یہ دھرتی ہے
مِرے پاس تو صرف ترنگا ہے
تمہیں کیوں اس کا احساس نہیں
اشعرنجمی
جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں سرکار، گودی میڈیا اور پولیس بار بار کہہ رہی ہے کہ کیمپس میں ‘باہر’ کے لوگ تھے جنھوں نے تشدد کی پہل کی۔ ممکن ہے کہ اس جھوٹ پر ہم سب آج سے دس برس قبل یقین کرلیتے لیکن پل پل ہر پہلو کی رپورٹ دینے والے سینکڑوں ویڈیوز اس لنگڑاتے اور ہکلاتے جھوٹ پر تھپڑوں کی برسات کررہے ہیں۔ اب سوال ہے:
(1) پولیس نے جن ہزاروں لڑکوں کو اپنی حراست میں لیا تھا، ان میں ‘باہر’ کے کتنے لوگ تھے اور کون کون تھے؟
(2) اگر کیمپس کے اندر سے ‘باہر والے’تشدد کررہے تھے، تو یقیناً پولیس نے کیمپس میں گھس کر ان پر ہی جوابی کاروائی کی ہوگی، جب کہ پورے ہندوستان نے طلبا کو پولیس کی لاٹھی سے بری طرح پٹتے دیکھا اور آنسو گیس کا بھی وہی شکار ہوئے۔ کیوں؟
(3) کیا جامعہ کی لائبریری میں ‘باہر والے’ اپنے کالج بیگ کے ساتھ کتاب کاپی کھولے بیٹھے تھے جنھیں پولیس نے بے دردی سے گھسیٹ گھسیٹ کر مارا اور کیا ‘واش روم’ میں باہر والی لڑکیاں جمع تھیں جس میں گھس کر پولیس نے ان سے بدتمیزی کی؟
(4)پولیس کا دعویٰ ہے کہ جامعہ کے بچوں نے بس جلائے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا۔ لیکن افسوس اب تک اس کا ایک بھی ثبوت پولیس پیش نہ کرسکی۔ جب کہ اس کے برخلاف ایک ویڈیو میں پولیس ان بچوں کی موٹر سائیکلوں کو توڑتی نظر آ رہی ہے، کیا ان کی موٹر سائیکلیں پبلک پراپرٹی تھیں؟ اس کے علاوہ جب دہلی حکومت کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے بتایا کہ خود پولیس ان بسوں کو آگ لگا کر اس کا الزام طلبا کے سر مڑھ رہی ہے تو پولیس نے بغیر اس کا معقول جواب دیے، صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ افواہ اور جھوٹ ہے، اس الزام کی رد میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا اور نہ طلبا کے بس جلائے جانے کی کوئی ویڈیو پیش کی۔
(6) کیا پولیس کو جامعہ یا علی گڑھ کیمپس میں کوئی ہتھیار ملا جس سے وہ پولیس پر حملہ آور تھے؟
(5) ملک بھر کی 2500 یونیورسٹیاں اور کالج جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا پر ہونے والے پولیسیانہ تشدد کے خلاف سڑکوں پر ہیں، جس کی فہرست انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان بھر کے یہ لاکھوں طلبا ‘باہر والے’ ہیں؟
(6) کیا آپ کو پتہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقریباً50 فیصد غیر مسلم طلبا زیر تعلیم ہیں؟ آپ کی یاد دہانی کے لیے عرض کردوں کہ اگرچہ اب جامعہ میں اسٹوڈنٹس یونین نہیں ہے لیکن جب تھی تو 6 بار اس یونین کے صدر غیر مسلم طلبا منتخب ہوئے۔
(7) آپ کہتے ہیں کہ طلبا کا کام پڑھنا ہے نہ کہ مظاہرے کرنا۔ چلیے تسلیم، پھر تو تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی ‘اسٹوڈنٹس وِنگ’ بند کردینے چاہئیں۔ پھر تو نریندر مودی کو یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب ہی نہیں کرنا چاہیے۔ پھر تو جے پرکاش کی طلبا تحریک بھی غیر قانونی ٹھہری۔ آپ سے یہ کس نے کہا کہ سرکار پر صرف کوئی سیاسی پارٹی ہی آواز اٹھا سکتی ہے، طلبا نہیں؟ کیا اب آپ اس پر بھی پارلیامنٹ میں کوئی نیا بِل لانے والے ہیں؟
(8) اور آخری سوال یہ کہ کیا برسر اقتدار حکومت سے سوال کرنا یا اس کی کسی پالیسی کی مخالفت کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ طلبا کو عادی مجرموں کی طرح ہاتھ کھڑے کرکے باہر لایا جائے؟ان میں کتنے باہر والے تھے؟
جواب تو آپ کو دینا ہوگا، سوال کرنا ہمارا آئینی حق ہے جس کا آپ کی لاٹھی اور آنسو گیس کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔