ہر سال ہمارے ملک میں 26جنوری کو ’یوم جمہوریہ‘ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن جمہوریت کا جشن منایا جاتا ہے اور اس کے نغمے گائے جاتے ہیں۔ مختلف طرح کی تقریبات اور پروگراموں کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں جمہوریت کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اس پر شکر اور اطمیان کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ملک کی آزادی کے وقت ہمارے رہ نماؤں نے جمہوریت اور سیکولرزم کو اختیار کیا اور انھیں اپنے دستور میں مرکزی حیثیت دی۔ جشن کی اس ہمہ ہمی میں تھوڑی دیر ٹھہر کر یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم جمہوریت کی خوبیوں سے واقعی لطف اندوز ہو رہے ہیں، یا ہمیں اس کے فریب میں مبتلا کرکے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
جمہوریت کا آغاز یوں تو یونان میں ہوا، لیکن اسے یورپ کی نشأۃ ثانیہ کے بعد فروغ حاصل ہوا۔ اس سے قبل چرچ عوام پر ظلم و ستم ڈھاتا تھا۔ اس کے نظریات سے معمولی انحراف پر انہیں شدید اذیتیں دی جاتی تھیں۔ اس عرصے میں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے چرچ کے غیر فطری نظام سے بغاوت کی۔ چوں کہ انھوں نے دیکھا کہ مذہب کے نام سے عوام پر ظلم کیا جا رہا ہے، اس لیے انھیں خیال ہوا کہ جب تک مذہب کا لبادہ اتار کر پھینک نہیں دیا جائے گا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ انھوں نے یہ تصور پیش کیا کہ مذہب انسانوں کا ذاتی معاملہ ہے، انھیں آزادی ہونی چاہیے کہ وہ جو مذہب چاہیں اختیار کریں، حکومت کو اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں، لیکن نظام حکم رانی مذہبی بنیادوں پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح سیکولر جمہوریت نے جنم لیا۔ اس نظریہ کو تشکیل دینے اور اس کے خدّو خال وضع کرنے میں وولٹائر، مونٹیسکو اور روسو جیسے مفکرین کا اہم کردار ہےـ
جمہوریت کو آج کل مقبول اور پسندیدہ طرزِ حکومت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کی متعدد خصوصیات اور خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔ اس میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ عوام ہی اپنے حکم رانوں کو منتخب کرتے ہیں اور وہی انہیں جب چاہیں تختِ اقتدار سے اتار سکتے ہیں۔ اس میں مساوات کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ انسانوں کے درمیان مذہب، رنگ و نسل، علاقہ اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ سب کو بنیادی حقوق اور آزادیاں فراہم رہتی ہیں۔ہر فرد کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا پورا موقع رہتا ہے۔ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے اور وہ ان کی بھلائی اور بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔ جمہوریت کی یہ خوبیاں بجا، لیکن انہیں حاصل کرنے کے لیے عوام کا تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر با شعور ہونا ضروری ہے۔ ایسانہ ہو تو حکومت کی باگ ڈور نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ جمہوریت کا ایک نقص یہ ہے کہ اس میں انسانوں کی گنتی کی جاتی ہے،صلاحیتوں اور مہارتوں کے اعتبار سے انہیں تولا نہیں جاتا۔ عملی طور پر یہ صورت حال بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت پر دولت مند طبقہ قابض ہو جاتاہے۔چنانچہ انتخابات کے موقع پر مال دار امیدوار لاکھوں روپے خرچ کرکے ووٹ خریدتے ہیں اور اقتدار حاصل کرلیتے ہیں، یا سرمایہ دار لوگ پس پردہ رہ کر اپنی مملکت قائم کرلیتے ہیں۔ وہ حکم رانوں پر تسلط جما لیتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے کام کرواتے ہیں۔ جمہوریت کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں اقلیت ہمیشہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔اس لیے کہ ملک کے سارے قوانین اکثریت کی مرضی کے مطابق بنتے ہیں اور سارے فیصلے انہی کے مفادات کے مطابق ہوتے ہیں۔جمہوریت کی یہ خرابیاں ہم اپنے ملک میں سات دہائیوں سے برابر دیکھ رہے ہیں اور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا ذائقہ چکھ رہے ہیں۔
اسلام نے حکم رانی کے کچھ اصول دیے ہیں۔ اس اعتبار سے جب ہم جمہوریت اور اسلام کا تقابل کرتے ہیں تو کچھ بنیادوں میں دونوں کے درمیان موافقت نظرآتی ہے اور کچھ بنیادوں میں ٹکراؤ دکھائی دیتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کو بے قید آزادی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اخلاقیات کے پابند نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان کے منتخب نمائندے جو چاہتے ہیں قانون بنا لیتے ہیں، ان پر کوئی بندش نہیں ہوتی۔وہ چاہیں تو قانون بنا کر شراب کو جائز کرلیں، چاہیں تو مردوں اور عورتوں کے درمیان جنسی تعلق کی کھلی چھوٹ دے دیں، چاہیں تو ہم جنس پرستی کو سندِ جواز فراہم کردیں، وغیرہ۔لیکن اسلام کے سیاسی نظام میں اقتدار ِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور قانون کا مأخذ صرف قرآن و سنت ہے۔ اس میں حکم رانوں کو ادنیٰ سا بھی اختیار نہیں ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے ان میں سے کسی چیز کو حلال کرلیں، یا جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں سے کسی چیز کو حرام قراردے دیں۔وہ اخلاقی قدروں کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے لیے لازم ہوتا ہے کہ خیر کے فروغ کے لیے کام کریں اور شر اور فتنہ و فساد کو دفع کرنے کی کوشش کریں۔
جہاں تک جمہوریت کی ان قدروں کا سوال ہے جن کا خوب چرچا کیا جاتا ہے کہ اس میں فکر و خیال کی آزادی ہوتی ہے، بنیادی انسانی حقوق کو تحفّظ حاصل ہوتا ہے، قانون کی بالا دستی ہوتی ہے اور ہر شخص کو یکساں ترقی کے مواقع ملتے ہیں تو حقیقت میں اسلام ان قدروں کا علم بردار ہے۔ قرآن و سنت میں ان کی ضمانت دی گئی ہے۔ خلفائے راشدین اور صدر ِ اوّل کے حکم رانوں نے انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت کی ہے۔ اگر بعد کی صدیوں میں اسلام کی ان بنیادی قدروں کو پامال کیا گیا ہے، عوام کے بنیادی حقوق غصب کیے گئے ہیں، ان پر ظلم و ستم کیا گیا ہے اور جبر کے ساتھ حکم رانی کی گئی ہے تو یہ اسلام کا قصور نہیں، بلکہ ان حکم رانوں کی شامت ِ اعمال ہے۔ اسلام ان کی بداعمالیوں سے بری ہے۔