مرکزی سکریٹری شعبۂ اسلامی معاشرہ،جماعت اسلامی ہند
جناب محمد اقبال ملا ، مرکزی سکریٹری شعبۂ دعوت ، جماعت اسلامی ہند نے کہا : ” آئیے ، حضرت جی سے ملاقات کرنے چلتے ہیں ـ” میں فوراً تیار ہوگیا اور سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ روانہ ہوگیاـ ہمارے ساتھ جناب وارث حسین ، معاون سکریٹری شعبۂ دعوت بھی تھےـ
جماعت اسلامی ہند نے لفظ ‘دعوت’ کو ایک خاص مفہوم میں لیا ہے ، یعنی غیر مسلموں تک اللہ کا پیغام پہنچانا، شعبۂ دعوت اس میدان میں سرگرمِ عمل ہے،اس نے غیر مسلموں کے لیے اور مسلمانوں کو اس کام پر ابھارنے کے لیے خاصا لٹریچر تیار کیا ہے، اقبال ملا صاحب تقریباً دو دہائیوں سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، انھوں نے تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب (حضرت جی) کا ایک بیان سنا ، جس میں انھوں نے غیر مسلموں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی اہمیت بیان کی تھی اور دعوت ، خلافت اور تمکّن کی قرآنی اصطلاحات کی تشریح کی بہت اچھے انداز میں تشریح کی تھی ، بس ان سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کے لیے بے چین ہوگئےـ ملاقات کا یہ پروگرام اسی جذبے سے ترتیب پایا تھاـ
راستے میں میں نے دریافت کیا : ” کیا حضرت جی سے ملاقات کا وقت لیا گیا ہے؟ "جواب ملا : "نہیں ، پہنچ کر ملاقات کی کوشش کریں گےـ”
ہم ساڑھے بارہ بجے مرکز نظام الدین پہنچے، پوری مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، کسی کا بیان چل رہا تھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت جی موجود ہیں اور انہی کا بیان ہورہا ہے، حضرت جی فرما رہے تھے :” لوگ غلط ماحول میں ہیں، اللہ سے دور ہیں،بے حیائی ، عریانی ، فواحش و منکرات میں مبتلا ہیں، ہمیں انہیں وہاں سے نکال کر مسجد کے پاکیزہ ماحول میں لانا ہے”
ایک تبلیغی بھائی سے دریافت کیا کہ ظہر کی نماز کب ہے؟ اس نے بتایا :2 بجے،ہم گھبراگئے کہ شاید ہمیں ظہر تک انتظار کرنا ہوگا، دریافت کیا :” بیان کب ختم ہوگا؟” یہ جان کر اطمینان ہوا کہ تھوڑی دیر میں بیان ختم ہو جائے گا، اس کے بعد حضرت مصافحہ کرکے جماعتوں کو رخصت کریں گےـ
اب ہم اس مخمصے میں تھے کہ حضرت جی سے ملاقات کیسے ہو؟ بیان ختم ہوا تو ہم نے ایک تبلیغی بھائی سے پوچھا : ” حضرت سے ملاقات کرنی ہے؟ کیا ترکیب ہے؟”
اس نے جواب دیا : ” لوگ لائن لگاکر مصافحہ کررہے ہیں، آپ بھی ان میں شامل ہوجائیےـ”ہم نے کہا : ” ہمیں مصافحہ نہیں کرنا ہے ، کچھ گفتگو کرنی ہےـ "اس نے کہا : ” کوئی بات نہیں، آپ لائن میں شامل ہوکر ان تک پہنچیے ، مصافحہ کرتے وقت ان سے اپنا تعارف کروادیجیے گا،وہ آپ کو اپنے بغل میں بٹھالیں گے اور دوسروں سے مصافحہ کرتے ہوئے آپ سے گفتگو کرتے رہیں گےـ ” ہم نے ایسا ہی کیا، لائن لگا کر حضرت تک پہنچے، اقبال ملا صاحب نے اپنا اور ہم لوگوں کا تعارف کرایا، حضرت نے ہمیں اپنے قریب بٹھا لیا اور گفتگو کرنے لگےـ
اقبال ملا صاحب نے غیر مسلموں میں کام کے حوالے سے ان کے بیان کا تذکرہ کرکے اس کی تحسین کی اور کہا کہ یہ بات عوام تک پوری صراحت اور زور دار انداز سے پہنچنی چاہیے، حضرت نے فرمایا : ” ہم دن رات یہی باتیں لوگوں کے سامنے کہتے رہتے ہیں ـ”
وارث صاحب نے خواہش کی کہ یہی بات آپ ہمیں ریکارڈ کروادیجیے ، ہم اسے سوشل میڈیا کے ذرائع سے عام کریں گے، حضرت نے انکار کردیا، فرمایا :
” یہ یہودیوں کا طریقہ ہے، اللہ کے رسول کی سنت یہ ہے کہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے انسانوں کو استعمال کیا جائے، آپ نے بادشاہوں کو خطوط لکھے تو انھیں اپنے اصحاب کے ہاتھوں بھجوایا تھاـ”
اقبال ملا صاحب نے عرض کیا : ” موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کچھ رہ نمائی فرمائیےـ”
حضرت نے فرمایا : ” ہم حالات کی نہیں ، اعمال کی بات کرتے ہیں، ہمیں اعمال کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیےـ”
ہم سے گفتگو کرنے کے دوران حضرت کا مصافحہ جاری تھا، لوگ قطار میں آکر ان سے مصافحہ کر رہے تھے، اندازاً دس منٹ میں ڈیڑھ سو دو سو افراد نے مصافحہ کیا ہوگاـ
وہیں حضرت جی کے رفقا میں جناب اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی ، بہت محبت سے ملے،تعارف پر معلوم ہوا کہ ان کا بھوپال سے تعلق ہے، دورانِ گفتگو کہنے لگے : ” موجودہ حالات کا حل قرآن مجید میں بیان کردیا گیا ہے ” مصحف اٹھا کر کھولا،سورۂ ابراہیم کی آیات :11_13 کی تلاوت کی اور بتایا کہ اس میں کفار کی دھمکیوں کا بیان ہے ، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ظالم ضرور ہلاک ہوں گے ، بس شرط یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ اور آخرت کی بازپرس سے ڈریں ـ
ہمیں اچھا لگا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں میں قرآن سمجھ کر پڑھنے کا رجحان فروغ پا رہا ہےـ
قریب میں ایک نوجوان کھڑا ہماری گفتگو سن رہا تھا، جب اسے معلوم ہوا کہ ہم مرکز جماعت اسلامی ہند سے آئے ہیں تو اس نے دریافت کیا : ” جہاں مولانا جلال الدین عمری اور ڈاکٹر محمد رفعت صاحب رہتے ہیں ـ”
اس نوجوان نے سوال کیا : ” مجھے غیر مسلموں میں کام سے دل چسپی ہے، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی اور مولانا کلیم صدیقی کے طریقۂ دعوت میں کیا فرق ہے؟ ”
ابھی ہم جواب دینے کو سوچ ہی رہے تھی کہ ایک تبلیغی بھائی نے آکر کہا : ” حضرت جی آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں ـ” ہم نے نوجوان کو مرکز جماعت آکر تفصیل سے گفتگو کی دعوت دی ـ
حضرت جی کے پاس پہنچے تو دسترخوان لگ چکا تھا، انھوں نے ہمیں اپنی بغل میں بٹھایا، کھانے کے دوران بھی گفتگو کرتے رہے،انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ہم سعودی عرب گئے،وہاں ایک پروگرام طے کیا گیا، ہم نے دریافت کیا : لوگوں کو کیسے بلائیں گے؟ جواب دیا گیا : ‘جوّالات’ (موبائل فون) سے،ہمارے پاس سب کے نمبر ہیں، انہیں اطلاع کردیں گے، ہم نے جواب دیا : ہم ‘جوّالات’ پر نہیں، ‘جولات’ (گشت) پر یقین رکھتے ہیں ـ
دسترخوان پر اقبال ملا صاحب نے حضرت جی سے کہا :” دعوت کا لفظ غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے، مسلمانوں کے درمیان کیا جانے والا کام تو اصلاح و تربیت میں آتا ہےـ ” حضرت نے فرمایا : ” دعوت کا مطلب پوری انسانیت کو مخاطب بنانا ہے، اس میں غیر مسلم بھی شامل ہیں اور مسلم بھی”ـ
حضرت جی سے خوش گوار ملاقات کے تاثر کے ساتھ ہم لوگ واپس ہوئے، راستے میں اقبال ملا صاحب نے مجھ سے سوال کیا : ” تبلیغی جماعت کے وابستگان اپنے امیر سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں؟ اتنی عقیدت ہمارے کارکنوں میں کیوں نہیں پائی جاتی؟”
میں جواب کیا دیتا؟ میں نے اپنے دل کو ٹٹولا،کیا مجھے اپنے امیر سے اتنی عقیدت ہے؟ دل نے جواب دیا : نہیں ـ