نئی دہلی:عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان نے دہلی تشدد میں ملزم بنائے گئے کونسلر طاہر حسین کی گرفتاری پراہم سوال اٹھایاہے۔۔امانت اللہ خان نے طاہر کی گرفتاری پرکہاہے کہ وہ (طاہر حسین) صرف اس بات کی سزا کاٹ رہے ہیں کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔ شاید آج ہندوستان میں سب سے بڑا گناہ مسلم ہوناہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ دہلی کاتشددطاہر حسین نے کرایا ہے۔دوسری طرف کپل مشرا،انوراگ ٹھاکراورپرویش ورماپراب تک کیس درج نہ ہونابھی سوال کاباعث ہے ۔جب کہ دہلی ہائی کورٹ نے جلدکیس درج کرنے کاحکم دیاتھالیکن راتوں رات جج کاتبادلہ کر دیاگیاجس کے بعدپور ے ملک میں اہم سوال اٹھ رہے ہیں۔دریں اثنا، دہلی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین کی لائسنسی پسٹل اور بہت کارتوس ضبط کیے گئے ہیں۔ پستول کو فارنسک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے، جس سے پتہ چل سکے کہ اس پستول سے فائر ہوا تھا یا نہیں. موبائل بھی برآمد کیا گیا ہے۔پولیس نے طاہرکے خلاف مقدمہ درج کیاہے۔ حالانکہ یہ ثبوت کتنے صحیح ہیں، اس کا فیصلہ عدالت میں ہوگا۔
Jafrabad
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
نہ اسے’جھڑپیں‘ کہا جاسکتا ہے نہ ’ احتجاج‘ یہ منظم قتل عام تھا!
دہلی کے فسادات پر یہ جملہ برطانوی خاتون رکن پارلیمان ناڈیا وہٹّوم کا ہے ۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنس میں دہلی فسادات پر جو بحث ہوئی اور جس طرح فسادات پر تشویش کا اظہار کیا گیا وہ ہندوستان کی مودی سرکار کا سرشرم سے جھکانے کے لئے کافی ہے ، بالخصوص اس لئے کہ برطانیہ نے تو اپنے ایوان میں دہلی فسادات پر بحث کروائی لیکن جہاں یہ فسادات ہوئے ، ہندوستان کی راجدھانی دہلی ، وہاں سے سارے ملک میں حکومت کرنے والی مودی سرکار دہلی تشدد پر اپنےایوان میں بحث کرانے کے لئے ہنوز راضی نہیں ہے ۔۔۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کا یہ کہنا ہے کہ ہولی کے تہوار کے بعد دہلی فسادات پر بحث ہوسکتی ہے ۔ تشدد کی وارداتوں پر بحث کی اجازت نہ دے کر شاید ان کی ’ شدت‘ اور ان کی ’ بہمیت‘ بے اثر کرنے کی کوشش اس لئے ہے کہ یہ فسادات اب ساری دنیا میں ’ مسلم کش فسادات‘ مانے جارہے ہیں ۔ ناڈیا وہٹّوم پنجابی سکھ ہیں اور 2019 میں جب انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تب وہ 19 برس کی تھیں ، سب سے کم عمر رکن پارلیمان ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دہلی کے تشدد یا فسادات کو ’ جھڑپیں‘ اور ’ احتجاج‘ ماننے سے انکار کیا بلکہ صاف لفظوں میں وہ بات کہہ دی جسے کہنے سے بہت ساری زبانیں ہچکچا رہی ہیں ، پر سچ تو سچ ہی ہے ، انہوں نے کہا ’’ اسے وہی کہیں جو یہ ہے : ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم طور پر ہندوتوا تشدد ، بی جے پی کی منظوری سے ۔ احتجاج تو مسائل کے اظہار کاقانونی ذریعہ ہے ۔ ‘‘
ایم پی ناڈیا کی کہی ہوئی بات کو کیا جھٹلایا جاسکتا ہے ؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کی سرکار کے قیام کے بعد سے ہندوتوادیوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم پرتشدد سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں؟ جب نریندر مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تب ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ سن کر جی خوش ہوا تھا لیکن یہ خوشی بس چند روز کی تھی کہ چند روز بعد ہی ماب لنچنگ کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اخلاق سے لے کر پہلو خان تک نہ جانے کتنے لوگوں کو ’گئوکشی‘ کے الزام میں بڑی ہی بے رحمی سے قتل کیاگیا ۔۔۔ ننھے حافظ جنید کو پیٹ پیٹ کر موت کی نیند سلانا منظم حملہ نہیں تھا؟ یہ حملے ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں ۔ بلند شہر میں ابھی بس چند روز پہلے دو مسلمانوں کو ، اس شبہہ میں کہ وہ گئوکشی کے مرتکب ہوئے ہیں لاٹھی اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر لہولہان کردیا گیا ۔ دونوں ہی نازک حالت میں اسپتال میں داخل کئے گئے تھے۔ یہ تمام واقعات بی جے پی کی ’ منظوری‘ کے بغیر نہ گذرے ہوئے کل تھے ، نہ آج ہیں ۔ ہم جو کہیں وہی ’ کھانا‘ ہے ، وہی ’ پینا‘ ہے ۔ہم جو پڑھائیں وہ پڑھنا ہی پڑے گا ، چاہے وہ گیتا کا پاٹھ ہو کہ سوریۂ نمسکار میں ’ اوم ‘ کی جاپ ہو ۔ اور ابھی رکیئے، ابھی تو عدالت سے طلاقِ ثلاثہ پر پابندی بھی لگوائیں گے ، نکاح کی سنت کو ہی تمہارے لئے سخت ترین کردیں گے ۔ اور ٹہریئے ابھی تو بابری مسجد کی زمین بھی لیں گے۔ اور یہ سب کام ہو بھی گئے ۔۔۔ پھر بھی یہ مسلمان کتنے ڈھیٹ ہیں ، ہندوستان چھوڑنے کو ابھی بھی تیار نہیں ، کیوں نہ ان کی ’شہریت‘ پر ہی سوالات کھڑے کردیئے جائیں ؟ ان سے وہ دستاویزات مانگ لی جائیں جو اگر مودی سے بھی مانگی جائیں تو نہ دےسکیں، اس طرح انہیں اس ملک سے ، جہاں ان کے پرکھے بسے ، اور مرے ، جہاں انہوں نے محنت کی ، گھر بسائے ، تعلیمی ادارے بنائے ، مسجدیں بنائیں ، انہیں کھدیڑنے کی سبیل نکالی جائے ۔ لو جی ہم این آرسی ، این پی آر اور سی اے اے لے آلے ہیں ۔ اب کیسے بچو گے !! لیکن مسلمان تو آج بھی اسی سرزمین پر کھڑا ہوا ہے ۔ اپنے حق کے لئے آوازیں اٹھا رہا ہے ۔ مسلم خواتین نے دہلی سے لے کر یوپی ، راجستھان، کرناٹک ، بہار اور ممبئی وغیرہ تک نہ جانے کتنے شاہین باغ بنالئے ہیں ۔ ’شاہین باغ‘ جو مودی حکومت کو بھی دہلائے ہوئے ہیں اور سی اے اے کے پیچھے اپنا تخریبی دماغ لگانے والے امیت شاہ کی بھی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ لہٰذا کیوں نہ انہیں ڈرایا جائے اور ڈرانے کی یہ شروعات عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین نے نہیں کی ، نہ ہی ’کاروان ِ محبت‘ نکال کر نفرت کی جگہ محبت کا پرچار کرنے والے سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے کی ، نہ ہی اروندھتی رائے اور دشینت دوے نے کی ، اس کی شروعات ساری دنیا جانتی ہے بی جے پی کے لیڈروں کپل مشرا ، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر نے کی ۔ اسے شرو ع کرنے میں بذات خود مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ پیچھے نہیں تھے ۔ وزیراعظم مودی بھی ’ سنیوگ‘ اور ’ پریوگ‘ کی بات کررہے تھے ۔۔۔ نفرت کی ساری باتیں ، ساری زہریلی تقریریں ،’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسے سارے نفرت سے بھرے ہوئے نعرے مسلسل منظم، منصوبہ بند ۔اور ان کا مقصد تشدد کی وہ لہر پھیلانا تھا جس کی زد میں دہلی آجائے اور نقصان اقلیت کا ہو ، مسلم اقلیت کا ۔۔۔ مرے تو دوسرے بھی ہیں ۔ یہاں ہمارا مقصد لاشوں کو ہندوؤں، مسلمانوں ، دلتوں وغیرہ میں تقسیم کرنا نہیں ہے ۔ تشدد پھوٹے گا تو جیسے سیلاب آتا ہے ، سب کو لپیٹ میں لے گا ، مگر تشدد کا یہ رقص ، اسے ’رقص ابلیس ‘ کہہ سکتے ہیں ، مسلمانوں کے ہی خلاف تھا، سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ’ شاہین باغ‘ اور ایسے ہی ملک بھر کے دوسرے احتجاجی مظاہروں کو ایک ہی جھٹکے میں ’ لپیٹ‘ دیا جائے ! پر یہ نہیں ہوسکا ۔۔۔
بی بی سی پر سوتک بسواس کی ایک رپورٹ آئی ہے جس کا عنوان ہے ’’ دلی فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو چن چن کر آگ لگائی گئی۔‘‘ محمد منظر اور ان کے خاندان کے لٹنے پٹنے اور برباد ہونے کی داستان بڑی ہی المناک ہے ۔۔۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ تشدد پر آمادہ ہندو ہجوم کو پولس اہلکار پتھر چن چن کر دے رہے ہیں کہ وہ مخالف پر پتھراؤ کرسکیں ۔ اور خود پولس والے ساتھ ساتھ پتھراؤ کررہے ہیں ۔ بی بی سی نے جب یہ دریافت کیا کہ کیا پولس والے بھی پتھراؤ کررہے تھے تب کیمرے کے سامنے لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہاں پولس اہلکار انہیں پتھر اٹھا اٹھا کر مسلمانوں پر پھینکنے کے لئے دے رہے تھے اور خود بھی پتھراؤ کررہے تھے۔ ہمانشوراٹھور نام کے ایک شخص کا بیان ہے : ’’ہمارے پاس یہاں پتھر کم تھے لہٰذا پولس والے پتھرلے کر آئے تاکہ ہم پتھراؤ کرسکیں۔‘‘ اس ویڈیو میں بی بی سی نے پولس کے ذریعے مسلمانوں پر تشدد ڈھانے کی مکمل منصوبہ بندی عیاں کی ہے ۔ لاٹھی ڈنڈوں سے نوجوانوں کی پٹائی اور ایسی شدید کہ فیضان نامی نوجوان نے دم توڑ دیا ! لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹتے ہوئے قومی ترانہ پڑھوانا، گویا پولس کی ساری سرگرمیوں کا محور یہ تھاکہ مسلمان ’ قوم پرست‘ یا ’ نیشنلسٹ‘ نہیں ہیں ۔۔۔ دہلی اقلیتی کمیشن کا یہ ماننا ہے کہ ’ تشد د یکطرفہ تھا اور اس کے لئے بہترین منصوبہ بندی کی گئی تھی، بیرونی غنڈے ،شرپسند لوٹ مارمیں شریک تھے لیکن انہیں مقامی مدد بھی حاصل تھی ۔‘‘
ساری دنیا میں ’د ہلی فسادات‘ کی گونج ہے ۔ کئی مسلم ممالک نے ، سعودی عربیہ ان میں شامل نہیں ہے ، دہلی کے فسادات کو ’ مسلم کش‘ قرار دیا ہے ۔ ایران نے سخت مذمت کی ہے ۔ وزارت خارجہ کے سابق سکریٹری کے سی سنگھ ’ سفارتی قیمت‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے علاقائی ایجنڈے نے ہندوستان کی سیکولر خارجہ پالیسی کو مسخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایران کے روحانی رہنما علی خامنہ ای کے دہلی فسادات کی مذمت میں دیئے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اسلامی دنیا سے ہندوستان کے رشتے کٹ سکتے ہیں ۔ ایران سے قبل ملیشیاء اور ترکی نے بھی دہلی فسادات پر ناراضگی جتائی تھی۔ ویسے ’ دہلی فسادات‘ نے صرف مسلم دنیا ہی کو بے چین اور مضطرب نہیں کیا ہے ، ابتداء ہی میں برطانیہ کے ہاوس آف کامنس میں ’ دہلی فسادات‘ پر ہوئی بحث کا ذکر آچکا ہے ۔ امریکہ میں ایک صدارتی امیدوار سینڈرس نے پہلے ہی دہلی کے تشدد کو مسلم کش قرار دے دیا ہے ۔ انہوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ ہند پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمیشن نے صرف تشویش ہی ظاہر نہیں کی اس نے سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں جو شنوائی ہونا ہے اس میں ایک مداخلت کار کی حیثیت سے شامل ہونے کی درخواست تک دے دی ہے ۔ گویا یہ کہ ساری دنیا میں دہلی کے فسادات مودی سرکار کے لئے باعثِ شرم ہیں۔ اب باعث شرم ہیں تو ہوا کریں ! شاید یہ سرکار یہی کہہ رہی ہو، کیونکہ ہنوز فسادیوں اور زہریلی تقریریں کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ بی جے پی کے وہ تمام لیڈر جو ’زہر بورہے تھے ، آزاد ہیں ، ایف آئی آر تک ان کے خلاف درج نہیں ہوئی ہے ، لیکن بڑی تعداد میں انہیں ، جو متاثرین ہیں ، ملزم قرار دے دیا گیا ہے !! افسوس تو یہ ہے کہ ہرش مندر کی ایک تقریر کو بنیاد بناکر۔۔۔ جو کہ توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہے ۔۔۔ سپریم کورٹ ان ہی کے خلاف کارروائی پر مصر ہے ۔۔۔ سی اے اے کو لاگو کرنے پر ابھی بھی زور ہے ، این پی آر میں والدین کی شہریت ثابت کرنے کو ابھی بھی لازمی کہا جارہا ہے ۔۔۔ اور یہ جو شاہین باغ میں بہادر خواتین بیٹھی ہیں ان کے خلاف ابھی بھی نعرے لگ رہے ہیں ۔ ’’گولی مارو۰۰۰۰‘
اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا
شرم تم کو مگر نہیں آتی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دی کارواں میگزین کی خصوصی رپورٹ
رپورٹ: ساگر
ترجمہ: عمیر اعظمی
"میڈیا والے وہی کہ رہے ہیں جو سرکار ان سے کہلوانا چاہ رہی ہے، سچ نہیں دکھا رہے وہ” یہ الفاظ کھجوری خاص مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر شرافت علی کے ہیں۔ فروری کے آخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے بری طرح متاثر علاقوں میں کھجوری خاص بھی تھا۔ اس سے متصل تمام علاقے، بھجن پورا، شو وہار، چاند باغ، چندو نگر، کراول نگر، اور مصطفیٰ باد ۲۴ اور ۲۵ فروری کو یعنی ۴۸ گھنٹے تک راجدھانی سے کٹے رہے۔ یہاں کے باشندوں نے مجھے بتایا کہ ان دو دنوں میں سڑکوں پر بلوائیوں کا راج رہا اور دہلی پولیس یا تو تماشائی بنی رہی یا تشدد میں ان کی مدد کرتی رہی۔
مسلم اکثریت محلہ کھجوری خاص کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ میڈیا سے مایوس ہیں اور انھیں لا اعتبار سمجھتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی توجہ دو ہی معاملوں پر مرکوز ہے،۲۳ سالہ ینٹیلیجینس بیورو(Intelligence Bureau) کے ملازم انکت شرما کے قتل پر جس کی لاش چاند باغ کے ایک نالہ سے برامد ہوئی اور عام آدمی پارٹی کے کاونسیلر طاہر حسین پر جسے دو دن بعد اس قتل کے الزام میں نامزد کیا گیا۔ حسین کا گھر کراول نگر روڈ پر واقع ہے جو کھجوری خاص کا مرکزی راستہ ہے اور انکت شرما کا گھر تقریباً پانچ سو میٹر دور گلی میں ہے۔ یہاں کے باشندوں کے مطابق میڈیا قصداً حسین کو بدنام کر رہی ہے اور دونوں معاملات کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مسلمانوں کو حملہ آور اور ہندووں کو مظلوم کی شکل میں پیش کرنا چاہ رہی ہے۔
یہاں کے آس پاس کے محلہ میں بھی میں جس مسلمان سے بھی ملا اس کایہی کہنا تھا کہ صحافی مسلمانوں کو مجرم ٹھہرانے پر مصر ہیں باوجودیکہ زمینی حقائق، چن چن کر نشانہ بنائے گئے مسلم مکانات اور دکانیں شاہد ہیں کہ نقصان کس کا ہوا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ حسین اور شرما کو مرکزِ توجہ بنا کر میڈیا کے بیانیہ سے مسلمانوں کے جان مال کے نقصان کو بالکل خارج کر دیا گیا ہے۔
کھجوری خاص کراول نگر ایسمبلی حلقہ میں واقع ہے جب کہ اس کے آس پاس کے علاقے مصطفیٰ باد حلقہ میں آتے ہیں۔ جو علاقہ مصطفیٰ باد میں آتے ہیں وہ بھی ۲۰۰۸ تک کراول نگر حلقہ میں ہی شامل تھے۔ ہر محلہ کا الگ نام ہے مگر گنجان سڑکوں اور گلیوں پر مشتمل محلات ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد زیادہ تر مصطفیٰ باد حلقہ کے علاقوں تک ہی محدود تھا۔
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق مصطفیٰ باد میں ۷۸ فی صد مسلم آبادی ہے جب کہ ۲۲ فی صد ہندو ہیں۔ اس کے بر عکس کراول نگر میں ۸۸ فی صد ہندو اور ۱۰ فی صد مسلم ہیں۔ کجھوری خاص کراول نگر کے چند مسلم اکثریتی محلات میں سے ہے اور حلقہ میں تشدد سے سب سے زیادہ متاثر علاقہ ہے۔ کراول نگر ۱۹۹۳ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ مصطفیٰ باد کے نمائندے کانگریس اور بی جے پی سے رہے ہیں اور اس وقت عام آدمی پارٹی نمائندگی کر رہی ہے۔ ۲۰۱۵ میں کپِل مِشرا کی کراول نگر سے بحیثیت عام آدمی پارٹی امیدوار جیت ہوئی تھی۔ ۲۰۱۹ میں پارٹی مخالف سرگرمیوں کی بنا پر پارٹی سے نکالے جانے پر بی جے پی کی رکنیت اختیار کی تھی۔ مشرا نے ۲۳ فروری کو پاس کے علاقہ بابرپور میں ایک اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کی وجہ سے شمال مشرقی دہلی کے تشدد کے لئے اسے ذمہ دار کہا گیا ہے۔ کھجوری خاص کے بہت سے مسلم باشندوں نے بتایا کہ ۲۰۱۵ میں انھوں نے مِشرا کو ہی ووٹ دیا تھا اور انھیں یہ توقع نہیں تھی کہ محض پارٹی بدلنے کی وجہ سے وہ ان کی دشمنی پر اتر آئے گا۔
۲۸ اور ۲۹ فروری کو میں متاثر ہندو اور مسلم محلوں میں گیا جس میں کھجوری خاص، بھجن پورا، چاند باغ، بھگیرتھ وہار، مصطفیٰ باد، مونگا نگر اور چندو نگر شامل ہیں۔ مصطفیٰ باد میں میری ملاقات انعام علی سے ہوئی جو کاروباری آدمی ہیں۔ ان کے علاوہ تقریباً ایک درجن اور سرکردہ افراد سے ملاقات ہوئی جن میں مارکیٹ ایسوسییشن کے صدر شرافت، سماجی کارکن انیس انصاری، اور وکالت کا پیشا کرنے والے محمد اکرام شامل ہیں۔ یہ لوگ کھجوری خاص کی حاج شاہ شبیر صاحب مسجد کے سامنے واقع ایک دوست کے گھر میں اکٹھا ہوئے تھے۔ یہ مسجد عموماً جامع مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ گھر گلی نمبر ۲، مونگا نگر میں واقع ہے۔
ان حضرات نے مجھے بتایا کہ تین دن تک مصطفیٰ باد کے محلوں پر بشمولیت کھجوری خاص کے جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے بلوائیں کا راج تھا۔ ۲۴ فروری سے ۲۶ فروری تک چن چن کر مسلمانوں کے گھر، دکانیں، گاڑیاں اور مساجد کو نظرِ آتش کیا گیا۔ سب کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہلی پولیس کے سپاہیوں نے بلوائیوں کی پتھر اکٹھا کرنے میں مدد کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس نے خود بھی مسلمانوں کے گھروں پر پتھربازی کی۔ ہندو بلوائیوں نے الہند ہسپتال کے سارے راستے بھی بند کر دیے تھے۔ یہ ہسپتال نئے مصطفیٰ باد میں واقع ہے اور زخمیوں کے علاج میں پیش پیش تھا۔ آخر کار دہلی ہائی کورٹ نے آدھی رات کی شنوائی کے بعد ۲۶ فروری کو دہلی پولیس کو حکم دیا کہ ناکہ بندی توڑیں اور ہسپتال سے آنے جانے والی ایمبولینس کو حفاظت فراہم کریں۔
سب کا کہنا تھا کہ ہندو بلوائیوں کو جو بھی مسلمان دکھا اس پر ٹوٹ پڑے۔ انصاری کے اندازہ کے مطابق مصطفیٰ باد حلقہ سے کم از کم ۵۰۰ افراد ابھی لا پتہ ہیں۔ گمان ہے کہ ان میں سے بہت سے جلا دئے گئے ہوں گے یا قتل کر دیے گئے ہوں گے۔ انصاری کا کہنا ہے کہ بہت سی گلیوں سے مسلمان غائب ہیں۔ لوگ فرض کر رہے ہیں کہ کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی ریلیف کیمپ میں پناہ لی ہوگی۔ مگر ایسے لوگوں کی کوئی معتبر گنتی ابھی معلوم نہیں ہے۔ آے دن پتہ چلتا ہے نالوں سے لاشیں برامد ہوئی ہیں۔ ان لوگوں پر کیا بیتی یہ ابھی تک نہیں معلوم۔
دل دہلانے والے قصوں میں سے ایک انعام کے بھتیجہ محمد محسن کا ہے۔ ۲۵ فروری کو ۲۹ سالہ محسن اتر پردیش کے شہر ہاپوڑ میں تھا جو دہلی سے ۶۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ محسن کی شادی کو دو مہینہ گزرے تھے اور کاروباری سلسلہ میں ہاپوڑ گیا تھا۔ صبح ناشتہ کرکے محسن کھجوری خاص میں واقع اپنے گھر سے نکلا اور اپنی گاڑی سے ہاپوڑ گیا۔ انعام نے بتایا کہ محسن کو اس روز کے ہندو بلوائیوں کے حملہ کا علم نہیں تھا۔ وہ خود اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ دن بھر چھپا رہااور انھیں کوئی خبر نہیں تھی کہ محسن کہاں تک پہنچا۔ انعام کا گھر محسن کے گھر کے پاس ہی واقع تھا۔ دونوں خاندان پورے دن چھپے رہے۔ جب ۲۶ فروری کی صبح کو پولیس کے آنے کے بعد وہ نکلے تب بھی محسن کی کوئی خبر نہیں تھی۔
محسن کو تلاش کرنے انعام اور محسن کے گھر والے نکلے اور پاس کے محلہ کھجوری پشتا پہنچےجہاں انھیں محسن کی گاڑی ملی۔ یہ پوری طرح سے جل چکی تھی اور اس کے پاس ایک لاش تھی جو اتنی جھلس چکی تھی کہ شناخت ناممکن تھی۔ انعام نے بتایا کہ اگلے چار روز تک وہ لاش کی شناخت کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لئے آٹھ کلومیٹر دور واقع گرو تیغ بہادر ہسپتال اور دیال پور پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتا رہا۔
انعام نے بتایا کہ” فورینسک سینٹر(Forensic Science Laboratory, Nangloi) والوں کا کہنا تھا کہ انویسٹیگیٹنگ آفیسر کی اجازت کے بغیر وہ ڈی این اے جانچ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ IO کی موجودگی ضروری ہے۔ تین دن سے میں درخواست کر رہا ہوں مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ میرے بھتیجہ کی لاش ابھی بھی ہسپتال میں ہی ہے۔” شمال مشرقی دہلی کے ڈپٹی کمیشنر وید پرکاش سوریا کا کہنا ہے کہ ڈی این اے جانچ میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور سب کچھ standard operating procedure کے مطابق ہو رہا ہے۔
محلات کا جائزہ لے کر میں نے تصدیق کی کہ لوگوں کے بتانے کے مطابق مسلمانوں کی جائداد کو چن چن کر تہس نہس کر دیا گیا تھا۔ دیال پور روڈ سے کراول نگر روڈ کے قدم قدم پر واضح تھا کہ صرف مسلمانوں کے مکان ودوکان جلائے گئے تھے۔ ایسے بھی چند ہندووں کے گھر اور دکانیں تھیں جن کو کچھ نقصان پہنچا تھا مگر ان کا تناسب نا کے برابر تھا۔
کھجوری خاص کی گلی نمبر ۴ اور ۲۹ میں کم از کم مسلمانوں کے ۳۰ گھروں اور فاروقی مسجد کوجلایا گیا۔ گلی کے باشندوں کے مطابق تشدد رات کے ساڑھے نو بجے شروع ہوا اور ریپڈ ایکشن فورس رات کے ساڑھے تین بجے آئی۔ ان چھہ گھنٹوں میں اکثر آبادی چھتیں پھلانگ کر یہاں سے بھاگی۔
مقیمین نے بلوائیوں کے ہاتھوں، جن میں ان کے پڑوسی بھی شامل تھے، قرب از موت پہنچانے والے حملہ اور تذلیل وتحقیر کی روداد سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا سرکار پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ انھوں نے دیکھا کہ گلیوں میں موجود پولیس نے بلوائیوں کی آگزنی کے سامنے منہ موڑ لیا۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ پولیسن والے خود بھی حملہ کرنے میں شامل تھے۔ کھجوری خاص کے ساکن محمد امجد کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں نے بھی دیکھ لیا کہ ملک کی پولیس ان کے لئے نہیں ہے۔ امجد کا گھر بھی تشدد میں ضائع ہو گیا ہے۔
اس گلی میں ہندووں کے گھر بھی تھے مگر وہ بالکل محفوظ رہے۔ ۲۸ فروری کو یہ گلی خالی تھی اور مرکزی پولیس اس کے داخلہ پر تعینات تھی۔ انھوں نے مجھے اندر جانے دیا اور مجھے صرف ایک باشندہ ملا۔ محمد شاہد جلی ہوئی مسجد میں کھڑے ہوئے رو رہے تھے۔ وہ مسجد کے متولی تھے اور بیوی بچوں کے ساتھ مسجد میں ہی رہتے تھے۔ "بھائی، مسجد جلا دی۔ قرآن بھی جلا دیا۔” مجھے جلے ہوئے اوراق دکھائے۔ انھوں نے بتایا کہ دو تین سو آدمی جے شری رام کے نعرہ لگاتے ہوئے گلی میں آئے اور گھروں کو جلانے لگے۔
انھوں نے بتایا کہ ان سے بھیک مانگی کہ گھروں کو جلا دو مگر مسجد کو چھوڑ دو مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔ شاہد کے مطابق اس وقت مسجد میں تقریباً ۸۰ مسلمان تھے۔ جب بھیڑ وہاں تک پہنچ گئی تو کچھ بغل کے نالہ میں کود گئے اور کچھ دوسرے گھروں کی چھت پر کود گئے۔ شاہد، ان کی اہلیہ اور دو بچے جن کی عمر سات برس سے زیادہ نہیں ہے، دوسری منزل پر ہی چھپے رہے یہاں تک کہ ان کے ایک ہندو دوست دیویندر سنگھ نے آکر انھیں بچایا۔ تب تک ایک بچہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ سب کے ہاتھ اور پیٹھ جگہ جگہ جل گئے تھے۔ شاہد خوش قسمت تھے ورنہ دوسرے باشندوں نے پولیس اور ہندو پڑوسیوں کو اپنے خلاف پایا۔
۲۹ فروری کو جب پولیس کی حفاظت میں گلی کے کچھ لوگ واپس آئے تو میں نے ان سے ملاقات کی۔ مسجد کے بغل میں رہنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ وہ ۴۵ سال سے وہیں مقیم تھے اور ہندو پڑوسیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ مگر ۲۵ فروری کی رات کو ایسے لوگوں کو فسادات میں شریک پایا جنھیں وہ پہچانتے ہیں۔ جب تباہی شروع ہوئی تو وہ گھر کی زمینی منزل پر تھے۔ آگ لگنے پر وہ چھت پر بھاگے۔ انھوں نے دیکھا کہ ہندو پڑوسیوں کے گھروں پر ہاتھوں میں پیٹرول بم لئے بھیڑ کھڑی ہے۔ مسلمانوں کی چھتوں پر پتھراو ہو رہا تھا۔ "مگر نیچے رکنا بھی ناممکن تھا۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر بخشے جانے کی بھیک مانگی۔ تبھی ایک بلوائی نے نقاب ہٹا کر میرا نام لیا۔ میں اسے پہچانتا نہیں مگر خیال آیا کہ مجھے پہچان رہا ہے تو چھوڑ دے گا۔ مگر تبھی اس نے میری طرف پیٹرول بم پھینک دیا۔” رات کو ساڑھے تین کے آس پاس آر اے ایف نے عالم کو بچایا۔
گلی کے ایک اور ساکن محمد خطیب اللہ کا تجربہ بھی اس سے ملتا جلتا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہندو بھیڑ ان کے ہندو پڑوسی کے گھر سے پتھر برسا رہی تھی جس کے ساتھ وہ تہوار منایا کرتے تھے۔ "میں جانتا ہوں کہ بھیڑ باہر سے آئی ہے مگر ہم پر حملہ کے لئے آپ اپنی چھت کیسے دے سکتے ہیں؟” انھوں نے بتایا کہ اگلے مہینہ ان کی بھتیجی کی شادی طے پائی تھی اور جمع کیا ہوا سارا زیور پیسہ آگ میں ضائع ہو گیا۔
۲۰ سالہ سلیم کی بہن کی شادی بھی اگلے مہینہ ہونی تھی۔ محنت مشْقت سے اکٹھا کیا ہوا سب کچھ ضائع ہو گیا۔ سلیم نے بتایا کہ چھت پر اس نے رحم کی بھیک مانگی۔ "بھائی گھر میں شادی ہے۔ مت جلاو، سب برباد ہو جائیگا۔” ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ سب کچھ برباد کرنے کا حکم ملا ہے۔ سلیم نے بتایا کہ گھر جلنے سے پہلے بھیڑ نے اس کے والد کو پکڑ لیا تھا اور انھیں جلانے والے تھے مگر سلیم کے ایک دوست نے انھیں بچا لیا۔
ہندو محلوں کا بیانیہ اس کے برعکس تھا۔ ہندووں کی نظر میں وہ خود مسلمانوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس کی بنیاد ٹی وی چینل تھے خاص طور سے زی ٹی وی، ریپبلیک ٹی وی اور سدرشن ٹی وی۔ ہندو باشندوں کا کہنا تھا کہ ہندووں کا بھاری نقصان ہوا تھا اور یہ سب طاہر حسین کا کیا دھرا تھا۔ اندازہ لگا کہ ان خیالات کو فروغ دینے میں زی ٹی وی، ریپبلیک ٹی وی اور سدرشن ٹی وی کا اہم کردار تھا۔ مونگا نگر میں مقیم دسویں جماعت میں پڑھنے والے سچِن کشیپ کے مطابق یہاں صرف ہندووں کا قتل ہوا تھا۔ مگر مسلم باشندوں کے بر عکس جنھوں نے لا پتہ لوگوں کے نام اور پتہ کی تفصیل بتائی تھی، ہندو باشندے انکِت شرما کے علاوہ کوئی نام نہیں بتا سکے۔ اس کے باوجود انھیں یقین تھا کہ مصطفیٰ باد کے مقتولین میں زیادہ تر ہندو ہی تھے۔
بہت سے ہندو باشندے زی نیوز کے سدھیر چودھری کی زبان بول رہے تھے۔ ۲۷ فروری کو چودھری نے کھجوری خاص پر پروگرام کیا تھا جس میں طاہر حسین کی "فسادی فیکٹری” کا "ڈی این اے ٹیسٹ” کیا گیا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ حسین کے گھر میں ایک عورت ماری گئی ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں یہ کیسے پتہ چلا تو انھوں نے زی نیوز یا سدرشن ٹی وی کا حوالہ دیا۔ حسین کے گھر میں عورت کے قتل کا دعوہ سدرشن ٹی وی پر کیا گیا تھا اور پھر دوسرے چینلوں پر بھی دہرایا گیا تھا مثلاً ABP کی ویب سائٹ صرف نیوز پر۔ Boomlive نامی ویب سائٹ نے اس دعوہ کی تحقیق کر کے جھوٹا قرار دیا تھا۔ سدرشن ٹی وی کا مالک سریش چوہانکے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا میمبر ہے۔ جتنے بھی ہندو باشندوں سے بات ہوئی سب کا کہنا تھا کہ حسین کا گھر "فسادی فیکٹری” تھا۔ سب کو یقین تھا کہ حسین ہی تشدد کا سرغنہ تھا اور اس نے ہندووں کے قتل عام کے منصوبے بنائے تھے۔
ان میں سے کوئی بھی نہ تو کبھی حسین کے گھر گیا تھا نہ ہی کبھی اس سے ملا تھا اور نہ ہی انھوں نے وہ ویڈیو دیکھے تھے جو حسین نے ۲۴ فروری کی شام کو آج تک چینل کو بھیجے تھے جس میں وہ بلڈنگ کے باہر بھیڑ سے بچائے جانے کی التجا کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو آج تک نے نشر بھی کیا تھا۔ حسین کے متعلق معلومات کے ان لوگوں کے ذرائع صرف زی نیوز یا سدرشن ٹی وی جیسے چینل ہی تھے۔قابل غور ہے کہ پولیس کی تفتیش شروع ہونے سے قبل ہی یہ چینل حسین کے گھر پہنچ چکے تھے اور اسے سرغنہ قرار دے چکے تھے۔
مسلمان باشندوں کا ماننا تھا کہ مسلم مخالف بیانیہ کے فروغ کے لئے حسین کو بے جا پھنسایا جا رہا ہے۔ سماجی کارکن انصاری نے کہا کہ "طاہر حسین ۲۴ فروری کو اپنی چھت پر کھڑا مدد مانگ رہا تھا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اور اسی شام اس کو پولیس بچا کر لے گئی۔ اگر حسین سرغنہ تھا تو پھر بھاری تعداد میں مسلمانوں کے گھر اور دکان کیسے جلے؟”
مونگا نگر میں نوجوان گرجروں کے بیچ میں ایک ادھیڑ عمر مسلمان نے، جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتا تھا، حسین کا دفاع کیا۔ "اگر حسین ہی فساد کا سرغنہ تھا تو اس کا اپنا گھر کیسے جلا؟” مونگا نگر کے ایک گرجر، پروین کمار نے جواب دیا کہ اس نے خود ہی اپنا گھر جلایا۔ مسلمان نے سوال کیا کہ کوئی اپنا گھر کیوں جلائے گا؟ اس پر گرجروں نے چلا کر اسے چپ کرا دیا اور کہا کہ وہ اندھا ہے جو اسے ٹی وی چینلوں پر دکھائے گئے حسین کی چھت پر پیٹرول بم نہیں نظر آرہے۔ ایک گرجر نے بڑے وثوق سے کہا "کیمرا جھوٹ نہیں بولتا۔”
مسلمان باشندوں کا ماننا تھا کہ حسین ۲۴ فروری کو اپنا گھر چھوڑ چکا تھا جب کہ شرما کا قتل ۲۵ فروری کو ہوا۔ مارکیٹ ایسوسییشن کے صدر شرافت کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلوں پر حسین کی چھت پر جو پیٹرول بم اور پتھروں کے انبار دکھائے گئے ہیں وہ ویڈیو ۲۵ فروری کا ہے جب کہ اس سے قبل ہی حسین اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ "دیکھئے، یہاں سیکڑوں کی بھیڑ آ رہی تھی تو لوگ کیا کرتے؟ تو وہ چھت پر گئے۔ تب جا کر بھیڑ کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ بس بھیڑ کو روک ہی پائے، وہ بھی اپنی جان بچانے کے لئے۔ چھت پر یہی نظر آرہا ہے۔”
مونگا نگر، کھجوری خاص اور مصطفیٰ باد کے جن ہندووں سے بات ہوئی ان میں اکثر کا کہنا تھا کہ حسین کے گھر سے نکلے گروہ نے شرما کو پکڑ کر مار ڈالا۔ مگر میں نے بیس سے زائد ہندووں سے پوچھا اور ہر ایک نے یہ بات کسی دوسرے سے سنی تھی اور انھوں نے کسی اور سے۔ سب کو یہی بتایا گیا تھا کہ شرما کو اس کے دو قریبی دوستوں کے ساتھ بھیڑ نے پکڑا تھا، وہ دونوں بھاگنے میں کامیاب ہو گئے جب کہ انکِت مارا گیا۔ حسین کے گھر کے سامنے رہنے والے منیش کمار کا کہنا تھا کہ اس نے خود تو نہیں دیکھا تھا مگر سب کو یقین تھا کہ یہی حقیقت ہے۔ مونگا نگر کے منوج کمار نے بتایا کہ شرما سے جان پہچان تھی اور وہ ان کی ٹائر اور ٹیوب کی دکان پر اکثر آیا کرتا تھا۔ انھوں نے بھی یہی کہانی سنائی اور بتایا کہ شرما کے قریبی دوستوں سے یہ بات سنی ہے، مگر کسی کا نام لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں بتا سکا کہ یہ دونوں لوگ کون ہیں؟ کسی کو بھی شرما کی موت سے پہلے تک یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ اینٹیلیجینس بیورو میں کام کرتا تھا۔
کھجوری خاص کے بہت سے باشندوں نے بتایا کہ تباہی مچانے والے ہندو بلوائیوں کے ساتھ ایسے لوگ تھے جو "خاکی شرٹ، بولیٹ پروف جیکٹ، پولیس ہیلمیٹ اور نیلی جینس” میں ملبوس تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سفید لاٹھیاں تھیں جیسا کہ پولیس کے پاس ہوتی ہیں۔ کھجوری خاص کے محمد امجد، جن کا گھر جل گیا، کا کہنا تھا "پہلے تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ہماری مدد کرنے آئے ہیں یا بھیڑ کے ساتھ ہیں۔ جب ہم پر گولیاں چلانا اور آگ لگانا شروع کیا تب واضح ہوا کہ ان کے ساتھ ہیں۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بھیڑ کا حصہ تھے تو انھیں پولیس یونیفارم کہاں سے ملے؟”
یہاں کے مسلم باشندوں نے مجھے ویڈیو بھی دکھائے جس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ تین دن کے تشدد کے دوران انھوں نے خود ریکارڈ کئے تھے۔ ویڈیو میں ویسے ہی کپڑوں میں ملبوس لوگ تھے جیسا کہ بتایا گیا تھا اور وہ مسلمانوں پر گولیاں چلا رہے تھے۔ لوگوں کا بتانا تھا کہ یونیفارم میں ملبوس لوگوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔ تین دنوں تک ان کا راج رہا، یہ باقی بھیڑ کی پشت پناہی کرتے رہے اور بارہا خود شریک بھی ہوئے۔ مصطفیٰ باد کے جتنے بھی مسلمانوں سے بات ہوئی سب نے یونیفارم والوں کو دیکھنے کا دعوہ کیا۔ ان کے خیال میں یہ کسی ہندو مسلح جماعت کے افراد رہے ہوں گے۔
اس سے ملتا جلتا واقعہ دسمبر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں طلبہ کے احتجاجات کے دوران پیش آیا تھا۔ ۱۵ دسمبر کو پولیس سے مار کھاتے ہوئے طلبہ کی ایک فوٹو وائرل ہوئی تھی۔ اس میں ایک شخص پولیس کا ساتھ دیتا ہوا طالبات کو لاٹھی مارتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کے پھیلنے کے بعد سوال اٹھا تھا کہ کیا یہ کسی شہری مسلح جماعت کا فرد ہے؟ پولیس کے مطابق وہ گاڑی چوری کی روک تھام والے دستہ کا فرد تھا جسے احتجاجات کو دبانے کے لئے بلایا گیا تھا۔
تیس ہزاری کورٹ کے وکیل محمد اکرام نے بتایا کہ تشدد ۲۳ فروری کی رات کو شروع ہوا جب جے شری رام کا نعرہ لگاتی ہوئی ایک بھیڑ نے چندو نگر میں ایک ہوٹل اور ایک صیدلیہ کو نظرِ آتش کیا۔ پھر چندو نگر کی پوری مسلم بستی کو آگ لگا دی۔ اکرام کے مطابق مسلمانوں کو پولیس پر ذرہ برابر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے مقیمین نے گھروں کی تباہی، مقتول اور لا پتہ لوگوں سے متعلق شکایت درج کرانے سے انکار کر دیا۔ جتنے مسلمانوں سے بات ہوئی، سب نے یہی بات دہرائی، کہ انھیں نہ پولیس پر بھروسہ ہے نہ ہی انصاف کی کوئی امید۔ سب کا کہنا تھا کہ پولیس انھیں کے ساتھ تھی، یعنی ہندو بلوائیوں کے ساتھ۔ اکرام نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو شکایت کے لئے بمشکل راضی کر کے جب وہ مقامی پولیس اسٹیشن لے گئے تو پولیس نے شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ آن لائن شکایت درج کریں جس کے لئے آدھار، پین اور دیگر کاغذات کی تفصیل درکار ہوتی ہے۔
شمال مشرقی دہلی کے ڈی سی پی سوریا نے سارے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے آدمیوں نے بہت سی جانیں بچائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود میر پور چوک پر موجود تھے جو کھجوری خاص سے ۴۰۰ میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ "میں وہاں پر موجود تھا۔ میں نے اور میرے عملہ نے ۳۰۰ سے ۴۰۰ کے بیچ مسلمانوں کو بچایا۔ ہم انھیں حفاظت کے ساتھ نکال لائے۔ بھیڑ نہایت جارحانہ تھی اس کے باوجود ہم انھیں بچا لائے۔ یہ غلط ہے کہ ہم بھیڑ کے ساتھ پتھر بازی کر رہے تھے۔ جب کسی مسلمان بھیڑ نے یا کسی اور بھیڑ نے پولیس پر حملہ کیا صرف تب ہی پولیس نے جواب دیا۔” ان کا کہنا تھا کہ مقیمین خود اس کی گواہی دیں گے کہ پولیس نے ان کی مدد کی ہے اور "چند لوگوں کے الزامات کو سب پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ یہ بالکل غلط ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ نوعیت اختیار کرنے پر انھوں نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور جب بھیڑ زیادہ جارحانہ رویہ دکھانے لگی تب ہی پولیس کو مجبوراً زور کا استعمال کرنا پڑا۔
مسلمانوں کے پولیس اور میڈیا پر عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ کئی نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ ان کے بیان میں کانٹ چھانٹ کر کے میں انھیں مجرم کے طور پر پیش کروں گا چونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ایک بزرگ نے اپنا نام بتانے سے منع کیا مگر کہا کہ انھوں نے پاکستان سے ۱۹۶۵ کی جنگ اور ایمرجینسی سب دیکھا ہے۔ اس کے آگے کچھ اور کہنے سے معذرت کی مگر ایک شعر سنا کر چل دیے:
مجھ کو لفظِ مکروہ سمجھ کر ہٹانے والے کل کتابوں سے مری ہی آواز آئے گی
(اصل رپورٹ کی لنک:https://caravanmagazine.in/conflict/media-focus-ankit-sharma-tahir-hussain-subsumed-brutalisation-muslims-khajoori-khas)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
توصیف القاسمی
دہلی کے منظم فساد 24/25فروری 2020جس نے شمالی دہلی کے تقریبا 15 علاقوں کو اپنی زد میں لے لیا اور مسلمانوں کا زبردست جانی ومالی نقصان ہوا۔اس سلسلے
میں عالم اسلام کو جو کردار ادا کرناچاہٸے تھا وہ اس نے نہیں کیا۔بالخصوص سعودی عرب ار متحدہ عرب امارات نے۔
مغربی ممالک نے CAA اور دہلی فساد کےخلاف آواز بلند کی ہے عالم اسلام کی مٶقر تنظیم OICنے بھی نحیف سی آواز بلند کی ۔ مگر ملکی سطح پر 57 اسلامی ملکوں کو جوکردار ادا کرناچاہٸے تھا وہ نہیں کیا سواٸےترکی ملیشیا اور ایران کے۔ہم شکرگزار ہیں ایرانی قیادت کے۔ جس نے، باوجود بھارتی حکومت کے ساتھ مخصوص اور گہرےتعلقات کے،دو مرتبہ اپنی تشویش کا سرکاری طورپر اظہار کیا ہے، پہلی مرتبہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اور دوسری مرتبہ 5/مارچ 2020کوایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے،اسی کے ساتھ ساتھ 3/مارچ 2020 کو ایرانی عوام نے بھی بھارتی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا ہےاورتہران میں بھارتی سفارت خانے پر احتجاج بھی درج کرایاہے۔
باقی اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب،متحدہ عرب امارات کو ضرور 30 کروڑ بھارتی مسلمانوں کیلٸے آواز اٹھانی چاہٸے تھی۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب مغربی ممالک اور اقوام متحدہ بھی CAA کو غیر انسانی مان رہے ہیں اور دہلی فساد پر قریبی نگاہ رکھے ہوٸے ہیں تو یہ عرب ممالک کیوں خاموش ہیں؟ کیوں اپنے حصے کی جاٸز اور قانونی وشرعی ذمہ داری پوری نہیں کرتے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ عالم اسلام اس قدر وسیع اور مالا مال ہے کہ انکی متحدہ آواز اور ایکشن کی، کوٸی بھی ملک بشمول امریکہ کے-تاب نہیں لاسکتا ۔ہاں یہ سچ ہے۔ مگر ! یہ بھی سچ ہے کہ امت مسلمہ میں اتحاد ہی تو معدوم ہے۔جس سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم اتحاد امت کے عظیم علمبردار تھے اسی سعودی عرب کے ناخلف اخلاف، خاندانی بادشاہت کو بچانے کے لٸے پوری امت کو داٶ پر لگاٸے ہوٸے ہیں۔قرآن کہتا ہے ”تم آپس میں مت جھگڑو،تم ناکام ہوجاٶگے، اور تمہاری ہوا اکھڑ جاٸیگی“ (الانفال)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز / معصوم مراد آبادی
دہلی میں 23، 24 اور25 فروری کو وہی سب کچھ ہوا جو جرمنی میں 80 سال پہلے ہوا تھا۔ یہودیوں کی نسل کشی یا قتل عام ہٹلر نے کرایا تھا۔ پولس بلوائیوں کی مدد کر رہی تھی یا تماش بیں بنی ہوئی تھی۔ بالکل یہی منظر تین چار دنوں تک دہلی میں بھی تھا۔ ایک مخصوص فرقہ کو انسان نہیں بلکہ مسلمان سمجھ کر درندہ صفت انسان نسل کشی یا قتل عام کر رہے تھے۔ اس کیلئے 23 فروری سے پہلے یہاں کی فضا کو زہر آلود اور نفرت انگیز بنایا گیا تھا۔ کسی نے گولی مارنے کا نعرہ بلند کیا تھا، کسی نے ہندو بھائیوں کو خوفزدہ کیا تھا کہ الیکشن بعد شاہین باغ کے مسلمان ہندوؤں کے گھروں میں داخل ہوکر بہنوں اور بیٹیوں کا بلتکار اور قتل کریں گے۔ کسی نے شاہین باغ کو پاکستان سے تشبیہ دی تھی اور انتخابی مقابلہ کو ہندستان اور پاکستان جیسا بتایا تھا۔ ان سب کے گرو نے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سلیم پور میں دھرنے اور احتجاج کو ’سنجوگ‘ (اتفاقیہ) نہیں ’پریوگ‘ (تجربہ) بتایا تھا، کہاکہ ایسے لوگوں کا ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ ہے۔ دوسرے گرو جن کو چانکیہ بھی کہتے ہیں انھوں نے ووٹروں سے اپیل کی تھی کہ ووٹ دیتے وقت ای وی ایم کے بٹن کو اس قدر زور سے دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ والوں کو لگے۔ گیارہ بارہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی دہلی اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران بلا روک ٹوک زہر اگلتے رہے۔ جس سے ماحول بالکل نفرت انگیز اور فساد انگیز ہوگیا۔ 23فروری کو جعفر آباد میں دھرنے پر بیٹھی خواتین سے محاذ آرائی کیلئے بدنام زمانہ کپل مشرا اپنے پیادہ سپاہیوں کے ساتھ پہنچے۔ دہلی کے شمالی علاقے کے ڈی سی پی کی موجودگی میں انھوں نے دھمکی دی کہ اگر تین دنوں کے اندر دھرنا ختم نہیں کیا گیا تو وہ بزور بازو ہٹا دیں گے۔
معصوم مرادی کے قلم سے:تین دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہنے والی اس قتل وغارت گری میں 50 سے زائد بے گناہ اور بے قصور لوگ دردناک موت کا شکار ہوئے ہیں۔سینکڑوں اسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں اور ہزاروں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اربوں روپے کی املاک جلا کر خاک کردی گئیں ہیں۔تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل مشرقی دہلی کی آبادیوں مصطفی آباد، کھجوری، چاند باغ، کراول نگر اور موج پورمیں تباہی وبربادی کے دلخراش مناظر دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں دشمن کی فوج نے بمباری کی ہے اور زندہ رہنے کے تمام اسباب فنا کردئیے گئے ہیں۔ زندگی بھر کی محنت ومشقت کے بعد جمع کئے گئے اپنے مال واسباب کو کہیں راکھ اور کہیں کھنڈروں کی شکل میں دیکھ کر مجبور ولاچار لوگ دھاڑیں مار مار کر رورہے ہیں۔ان میں بے شمارغریب ایسے ہیں جودوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوپائیں گے۔ جس وقت تباہی اور بربادی کی یہ داستان راجدھانی دہلی کی غریب آبادیوں میں قلم بند کی جارہی تھی تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ راجدھانی میں ہی موجود تھے۔کہا جاتا ہے کہ پولس ان کو تحفظ دینے میں مصروف تھی‘اسی لئے وہ دہلی کے فساد زدہ علاقوں پر توجہ نہیں دے سکی۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو پولس والے فساد زدہ علاقوں میں موجود تھے‘ وہ لاچار اور مظلوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے فسادیوں کی مدد کررہے تھے۔ملک کی سب سے زیادہ پیشہ ور قرار دی جانے والی دہلی پولس کا فرقہ وارانہ کردار تو اسی وقت بے نقاب ہوگیا تھا جب اس نے جامعہ ملیہ کے طلبا پر قہر ڈھایا تھا۔پولس اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے میں مشغول تھی۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ یہ ملک کا پہلا فساد ہے جس کی تیاری اعلانیہ طور پر کی گئی تھی۔
گزشتہ دو ماہ سے حکمراں جماعت کے لوگ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلی اور دھمکی آمیز زبان استعما ل کررہے تھے۔پولس خاموش تماشائی کے کردار میں نظر آرہی تھی۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ نفرت کی جو فصل بوئی جارہی ہے‘ اس کا نتیجہ کتنا بھیانک برآمد ہوگا۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ تھا اورشرپسندوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ میدان میں اتارا گیاتھا کہ وہ کچھ بھی کرلیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر نے دہلی پولس سے اس کی بے عملی پر سوال کیا اورزہر پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔جن دوسرے ججوں کو اس مقدمے کی ذمہ داری سونپی گئی،انھوں نے اٹارنی جنرل کی منشا کے مطابق اس معاملے کی سماعت ایک ماہ کیلئے ٹال دی۔ اس طرح ان بی جے پی لیڈروں کو کسی قانونی کارروائی کا کوئی خوف نہیں رہا‘جنھوں نے حملہ آور وحشی درندوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بھرا تھا اور جس کے نتیجہ میں انھوں نے بلا خوف وخطر شمال مشرقی دہلی میں جہنم کی تخلیق کی ہے۔ دہلی پولس ابھی تک ان لوگو ں کی شناخت نہیں کرپائی ہے جنھوں نے درندگی اور بربریت کی انتہائی وحشت ناک داستانیں قلم بند کی ہیں۔ ہاں پولس نے قربانی کے بکروں کی تلاش شروع کردی ہے۔
آنے والے دنوں میں بلی کے مزید بکروں کو تلاش کرکے انھیں فساد پھیلانے کا مجرم گردانا جائے گا اور اس بات کی پورا امکان ہے کہ باقاعدہ پولس کے تحفظ میں فساد پھیلانے کی دھمکی دینے والے کپل مشرا سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ نہ ہی بی جے پی کے انتخابی جلسہ میں دیش کے غداروں پر گولیاں برسانے کے نعرے لگوانے والے وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی دہلی کی مسجدوں پر بلڈوزر چلوانے کی کھلے عام دھمکیاں دینے والے پرویش ورما کو کوئی گزند پہنچے گی۔ کیونکہ ان تمام لوگوں کو حکومت اور وزیرداخلہ امت شاہ کا تحفظ حاصل ہے جو دہلی پولس کو کنٹرول کرتے ہیں۔فسادیوں کے دل ودماغ میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت تھی کہ انھوں نے کئی مسجدوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور ان کی میناروں پر بھگوا جھنڈا پھیرا دیا گیاہے۔ظلم وبربریت کی داستانیں اتنی ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب بھی کم ہوگی۔ اپنی تباہی اور بربادی، درندگی اور سفاکی کے اعتبار سے یہ حالیہ تاریخ کا سب سے خوفناک فساد ہے۔امید کی کرن صرف اتنی ہے کہ کئی ہندوؤں نے اپنے مسلمان پڑوسیوں کی اور کئی مسلمانوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی جانیں اپنی جانوں پر کھیل کر بچائی ہیں۔
شمال مشرقی دہلی کے جن علاقوں میں تباہی وبربادی کی داستانیں رقم ہوئی ہیں انھیں عرف عام میں جمنا پار کہا جاتا ہے۔یہاں غریب لوگوں کی انتہائی گھنی آبادیاں ہیں۔ ان میں سے بیشتر یومیہ مزدور ہیں اور باقی لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں۔ تنگ وتاریک گلی کوچوں پر مشتمل جمنا پار کی ان آبادیوں میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، لیکن ان آبادیوں کی خوبی یہ رہی ہے کہ یہاں کے ہندو مسلم باشندوں نے ہمیشہ بنیادی ضرورتوں سے سروکار رکھا ہے اور وہ فرقہ وارانہ موضوعات سے دور رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جگہوں پرمسلمان، ہندوؤں کے مکانوں میں اور کچھ ہندو مسلمانوں کے کرایہ دار ہیں۔ملی جلی آبادیوں میں لوگوں کے مذہب کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ لوگ زندگی کے جن مسائل سے ہرروز جوجھتے ہیں، ان میں انھیں اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ وہ ان موضوعات پر سوچ سکیں۔ لیکن گذشتہ ایک ہفتہ کے واقعات نے ان سب لوگوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ گذشتہ پیر، منگل اور بدھ کے روز ان علاقوں میں جس طرح چن چن کر مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور کارخانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس نے تمام لوگوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ دہلی میں وہی سب کچھ دہرایا گیا ہے جو2002ء میں گجرات کی سرزمیں پر مسلمانوں کے ساتھ ہواتھا۔ وہاں بھی پولس اور سرکاری مشنری کی مدد سے وحشی درندوں کو مسلمانوں کے قتل وغارت گری کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی اور یہاں دہلی میں بھی تین روزتک جمنا پار میں فسادیوں کو پوری آزادی کے ساتھ سب کچھ کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ تین روزبعد اس وقت کرفیو نافذ کرنے اور دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دئیے گئے جب سب کچھ تباہ وبرباد ہوچکا تھا۔ گجرات کی نسل کشی کے دوران بھی یہی سب کچھ ہواتھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت گجرات کا وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کون تھا۔ کیونکہ سبھی لوگ ان کے نام اور کردار سے واقف ہیں۔
گولی مارنے کا نعرہ امیت شاہ کے دورہ کے موقع پر کلکتہ میں بھی لگایا گیا۔ 20 لوگوں میں سے اب تک 6 کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ گولی مارنے والوں کے یا انسانیت کے دشمنوں کے خلاف عوامی تحریک سے ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحریک جاری رہنی چاہئے جب تک انسانیت کے دشمنوں یا گولی مارنے والوں کی آواز بند نہ ہوجائے۔ ملک کی عدلیہ کا رویہ مایوس کن ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ کے اندر بیداری آئے گی اور دستور ی مشنری کے بریک ڈاؤن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
(اِس وقت دل ودماغ کی کیفیت دگر گوں ہے۔شمال مشرقی دہلی کے فسادکی اتنی تفصیلات سامنے ہیں کہ اس تحریرکے بہت طویل ہوجانے کا اندیشہ ہے۔دنیا بھر میں مقیم میرے احباب اور قارئین درست اور سلسلہ وارصورتحال جاننا چاہتے ہیں۔۔اردو میڈیا کے وسائل بہت محدود ہیں۔۔انگریزی میڈیا کے وسائل جہاں بہت ہیں وہیں اس کے صحافی نسبتاً بے خوف بھی ہیں۔اس لئے انگریزی میڈیا میں اور خاص طورپر Print Media میں آنے والی رپورٹوں‘ خبروں‘ مضامین‘انٹرویوز اور ممتاز شخصیات کی آراء سے واقفیت بہت ضروری ہے۔۔۔ میں اللہ کا نام لے کر یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ منظم طورپر جاری رہ سکے گا یا نہیں لیکن نیت یہی ہے کہ اپنے احباب کو تمام تفصیلی نکات سے باخبر کیا جائے۔ اس سلسلہ کا پہلا حصہ آج اس التماس کے ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں کہ احباب زیادہ سے زیادہ دوستوں تک اسے پہنچائیں۔)
پہلی قسط
".23 فروری 2020 کی شب شروع ہونے والے شمال مشرقی دہلی کے فسادات میں اب تک 49 افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔۔۔ہر روز ایک دو لاشیں نالوں سے برآمد ہورہی ہیں۔۔۔ 400 سے زیادہ زخمی ہیں۔۔۔ان زخمیوں میں بتایا جاتا ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگوں کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کی حالت نازک ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 200 سے زیادہ لوگوں کو گولی لگی ہے۔تین سو سے زیادہ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور ایک ہزارسے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اسی طرح سینکڑوں مکانات کو جلاکر خاکستر کردیا گیا ہے۔بڑی تعداد میں دوکانوں کو بھی لوٹا اور جلایاگیا ہے۔صرف گوکل پوری میں ہی پرانے ٹائروں کی 224 دوکانوں کو جلاکر تباہ کردیا گیا ہے۔۔۔شو وہار سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔اس علاقہ میں کمزور اور متوسط طبقے کے ان لوگوں کی آبادی ہے جو مغربی یوپی‘خاص طورپر بجنور وغیرہ سے آکر آباد ہوئے تھے۔اس علاقہ میں این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کے مطابق 1500سے دوہزارتک چھوٹی بڑی بیکریاں تھیں جنہیں پوری طرح برباد کردیاگیا ہے۔۔۔یہاں کے لوگ اس صورت حال کا موازنہ ملک شام میں ہونے والی بربادی سے کر رہے ہیں۔رویش کمار کہتے ہیں کہ یہ سب متاثرین مسلمان ہیں۔
اس صورتحال سے فوری طورپر تین سوالات پیدا ہوتے ہیں:
-1 یہ 200 یااس سے زیادہ گولیاں کس نے چلائیں؟
-2 کیا ان گولیوں کے چلنے کی آواز ان علاقوں کے پولیس تھانوں اور پولیس چوکیوں تک نہیں پہنچی؟
-3 اور ان گولیوں کے چلنے کے دوران پولیس کہاں تھی؟
مذکورہ سوالات کو ذہن میں رکھ کر یہ اطلاع پڑھئے گا کہ بہت سے علاقوں میں پڑوس میں رہنے والے ہندوؤں نے‘ مسلمانوں کی اور مسلمانوں نے ہندؤں کی حملہ آوروں سے جان بھی بچائی۔ایک درجن سے زائد بیانات یہ ہیں کہ حملہ آور علاقہ کے نہیں تھے بلکہ باہر سے آئے تھے۔ان کے ہاتھوں میں سبھی کچھ تھا۔لاٹھی“ڈنڈے‘ترشول‘تلواریں‘بندوق اور پٹرول سے بھری ہوئی بوتلیں۔۔۔یہی نہیں انہیں جرم انجام دے کر باہر نکلنے کے محفوظ راستوں کا بھی پیشگی علم تھا۔ظاہر ہے کہ یہ کام اچانک نہیں کیا جاسکتا۔اس کے لئے ایک طرف جہاں پہلے سے راستوں کا گہرا جائزہ لیا گیا ہوگا وہیں دوسری طرف کچھ مقامی شرپسندوں کی بھی مدد لی گئی ہوگی۔۔۔ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک خاص پہچان کے لوگوں کے مکانات اور دوکانوں کو برباد کرتے وقت دوسروں کے مکانوں اور دوکانوں کو بخش دیا گیا۔رویش کمار نے بتایا ہے کہ ایک مسلمان حجام کی دوکان اس لئے نہیں جلائی گئی کہ اس کے اوپر ایک ہندو وکیل کا دفتر تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگریہ حملہ آورمتاثرہ علاقوں کے نہیں تھے تو اتنی تیاری کے ساتھ یہ بھیڑ کہاں سے آئی تھی؟ کیا اس مسلح ہجوم کو آتے ہوئے اور پھر جاتے ہوئے کسی ایک پولیس والے نے بھی نہیں دیکھا؟ پھر دہلی میں جگہ جگہ دہلی حکومت نے جو CCTV کیمرے لگائے تھے ان میں سے کسی کیمرے میں اس بھیڑ کو آتے ہوئے نہیں دیکھا گیا؟
ایک بڑاسوال یہ ہے کہ ان سوالات کا جواب کون دے گا؟اس لئے کہ خود مرکزی حکومت فسادکی نوعیت کے تعلق سے ایک رائے نہیں ہے۔وزیر مملکت برائے داخلہ کرشنا ریڈی نے 25 فروری کوکہا تھا کہ یہ فسادات منظم منصوبہ کے تحت رونما ہوئے ہیں۔لیکن اگلے ہی روز مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ فسادات اچانک پھوٹ پڑے۔۔۔اول الذکر کی بات درست ہوسکتی ہے۔اس لئے کہ بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے تو 23 فروری کو دن میں ہی کھلی دھمکی دے کر اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ آنے والا ہجوم کس قسم کی تیاری کر رہا ہے۔کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی جسے خود کپل مشرا نے اپلوڈ کیا تھا۔اس ویڈیو میں کپل مشرا کے پیچھے شاہدرہ کے ڈی سی پی کھڑے ہیں اور کپل مشرا کہہ رہا ہے کہ ابھی تو ہم جارہے ہیں۔ٹرمپ (امریکی صدر) کے جانے کے بعد پھر آئیں گے۔ سی اے اے کے خلاف جمنار پارمیں جو مظاہرے ہورہے ہیں انہیں پولس ہٹوادے نہیں تو تین دن کے بعد پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے ڈی سی پی صاحب!
کیا کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اس کا اتنا کہنا کافی نہیں تھا؟ کیا اس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کپل مشرا اور اس کے حامیوں نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی۔مان لیجئے کہ یہ فساد نہ پھوٹ پڑتا اور پولس مظاہرین کو بھی نہ ہٹواسکتی تو تین دن کے بعد کپل مشرا کیا کرتا؟کیا وہی کرتا جو اب ہوا؟ یا اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور پرامن طریقہ تھا؟ دہلی کے سابق پولس کمشنر اجے راج شرما نے "دی وائر” کے لئے معروف صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں ہوتا تو بی جے پی لیڈروں کو فوراً گرفتار کرلیتا۔انہوں نے کہا کہ ڈی سی پی کو چاہئے تھا کہ وہ اسی وقت کپل مشرا کو گرفتار کرلیتے۔ اور جب ڈی سی پی نے کوتاہی برتی تو پولیس کمشنر کو چاہئے تھا کہ اسے عہدہ سے ہٹادیتے۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کے جی بالا کرشنن نے بھی کہا ہے کہ منافرت انگیز تقریریں کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرکے پولس نے خلاف قانون کام کیا۔جبکہ معروف کالم نگار بھانو پرتاپ مہتا نے تو خود ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پر ہی سخت تنقید کی ہے۔
اب آئیے دوسری طرف چلتے ہیں۔۔۔23 فروری کو دن میں کپل مشرا نے کھلے عام وہ دھمکی دی تھی جس کا اوپر ذکر ہوا۔23 فروری کی شب 12بجے دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبرحِمال اختر صدیقی ایڈوکیٹ نے مجھے فون کرکے بتایا کہ جعفر آباد میں سی اے اے کے حامی اور مخالف لوگ آمنے سامنے ہیں۔ایک طبقہ نے دوسرے طبقہ پر حملہ کردیا ہے۔لوگ گھروں میں بند ہیں۔کپل مشرا بھی اپنے لوگوں کو لے کر آیا تھا۔پتھراؤ بھی ہوا ہے۔اس سے قراول نگراور بھجن پورہ کے علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولس کپل مشرا کی کھلی دھمکی کے بعد یہ سوچ کر آرام سے بیٹھ گئی تھی کہ ابھی تو تین دن کی مہلت ہے‘بعد میں دیکھیں گے؟ آخر اسی وقت کیوں احتیاطی اقدامات نہیں کئے گئے جب مشتعل بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے کپل مشرا ڈی سی پی کی موجودگی میں دھمکی دے رہا تھا؟ ان تمام سوالات اور حالات سے ایک اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ یہ سب منظم منصوبہ کے تحت ہواجس کی طرف امت شاہ کے جونیر وزیر نے اشارہ بھی کیا۔اس قتل عام اور نسل کشی کی تیاری بہت پہلے سے ہورہی تھی۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیاری پڑوسی ریاست یوپی میں ہورہی تھی۔۔۔ یوپی کا وزیر اعلیٰ مظاہرین سے جس انداز سے نپٹا ہے اس کی روشنی میں یہ کچھ بعید بھی نہیں ـ
اب ذرا کچھ پیچھے چلتے ہیں۔ایسٹ دہلی کے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ گوتم گمبھیر نے کھلے طورپرکپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے پارٹی سے بھی کہا تھا کہ وہ ایسے بدزبان اور مشتعل کرنے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی کرے۔اس کے ساتھ دہلی بی جے پی کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔
اس صورتحال سے مندرجہ ذیل سوالات پھر جنم لیتے ہیں:
-1 کپل مشرا کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
-2 اس کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئی کہ اس نے تین دن کی مہلت کے بعد کی دھمکی کس بنیاد پر دی تھی اوریہ کہ اس کا منصوبہ کیا تھا؟
-3 جس ڈی سی پی نے سامنے ہوتے ہوئے بھی کوئی کارروائی مشرا کے خلاف نہیں کی خود اس کے خلاف دہلی کے پولس کمشنر نے کارروائی کیوں نہیں کی؟
-4 فرض سے کوتاہی کرنے والے پولس کمشنر کے خلاف وزارت داخلہ نے کیا کارروائی کی؟
-5 اور پتھراؤ کرنے والی بھیڑ کو نہ روکنے والے بلکہ خود بھیڑ کو پتھراؤ کرنے پرحوصلہ افزائی کرنے والے پولیس عملہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
کیا ان تمام سوالات کے جواب خود وزیر داخلہ امت شاہ کو نہیں دینے چاہئیں؟ لیکن وہ اس سلسلہ میں بالکل لاتعلق بنے ہوئے ہیں۔محض دوتین میٹنگیں کیں اور بس۔حیرت انگیز طورپر ان میں سے ایک میٹنگ میں دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال کو بھی مدعو کیا گیا۔حالانکہ دہلی کے وزیر اعلی کے پاس نہ پولیس محکمہ ہے اور نہ لااینڈ آرڈر کا نظام۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کجریوال اپنی ذمہ داری سے بچ جائیں گے۔ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوری طورپران بے یارومددگار لوگوں کے درمیان جاکر ان کے احوال پوچھتے جنہوں نے چند ہفتوں پہلے ہی انہیں تیسری بار دہلی کی باگ ڈور سونپی ہے۔گوکہ وہ دیر سے ہی سہی لیکن کچھ علاقوں میں گئے اور ان کے نائب منیش سسودیا نے بھی کچھ علاقوں کا دورہ کیا۔لیکن یہ کام نہ علاقوں کے اعلی پولس افسران نے کیا اور نہ پولس کمشنر نے۔بلکہ یہ کام نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزراجیت دووال نے کیا۔اجیت دووال براہ راست وزیر اعظم کے تحت کام کرتے ہیں اور انہیں کابینی وزیر کا درجہ بھی حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں وزیر اعظم نے ہی بھیجا ہوگا۔اس کے بغیر وہ آبھی نہیں سکتے۔۔۔کیوں کہ یہ کام ان کا ہے بھی نہیں۔۔۔تو کیا ان دنوں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے درمیان تال میل ٹھیک نہیں ہے؟
کیا یہ اطلاعات وزیر داخلہ تک نہیں پہنچیں کہ ایسٹ دہلی کے مختلف مقامی ہسپتالوں میں جو شدید زخمی داخل ہیں انہیں ضروری علاج کی خاطر بڑے ہسپتالوں تک جانے نہیں دیا جارہا ہے؟ ان زخمیوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کو گولیاں لگی تھیں۔کیا پولس والوں نے یہ بات اپنے کمشنر کو نہیں بتائی؟آخر کارسماجی خدمت گار ہرش مندر اور فرح نقوی نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور شب کے ساڑھے بارہ بجے ایک دوسرے جج کے ساتھ جسٹس ایس مرلی دھر نے اپنی رہائش گاہ پر سماعت کرکے پولس کو حکم جاری کیا کہ زخمیوں کو مقامی شفاخانوں سے بڑے ہسپتالوں تک لے جانے کا انتظام کیا جائے اور کل دن میں اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔اس حکم کے بعد ہی شدید قسم کے زخمیوں کو الہند جیسے چھوٹے ہسپتالوں سے جی ٹی بی جیسے بڑے ہسپتالوں کو منتقل کیا جاسکا۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام عدالت کا تھا؟کیا زخمیوں کے مناسب اور موثر علاج کو یقینی بنانا حکومت کا کام نہیں تھا؟دہلی اور مرکزی حکومتیں آخر کیسے اس ذمہ داری سے جان بچاسکتی ہیں؟ اگر پولس اور حکومت ان زخمیوں کی مدد نہیں کر رہی تھی تو کیا وہ انہیں مارنا چاہتی تھی؟ ایسے میں حکومت اور فسادیوں میں کیا فرق رہ گیا؟ یکم مارچ کو کئی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ پولس شدید زخمیوں کو خود ہی دیکھ رہی تھی اور انہیں بڑے ہسپتالوں کو منتقل کرنے میں جان بوجھ کر روڑے اٹکا رہی تھی۔ اروند کجریوال نے اب مابعد فساد کئی موثر فلاحی اقدامات اور اعلانات کئے ہیں ۔۔۔ لیکن جب فساد جاری تھا اس وقت وہ کیوں نکل کر نہیں آئے۔۔۔۔؟ کیوں انہوں نے اپنے نہتے عوام کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا؟
پولس نے آفت زدگان کی کس طرح مددکی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین دنوں تک پولس کو دس ہزار فون کال موصول ہوئیں لیکن زیادہ تر کال کا یا تو جواب نہیں دیا گیا یا پھر وعدہ کرکے پولس مدد کو نہیں پہنچی۔اس ضمن میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کا واقعہ مثالی ہے۔انہوں نے این ڈی وی کو بتایا کہ انہوں نے 24فروری کی شب پولس کو بہت مرتبہ کال کی۔انہوں نے کال کی ریکارڈنگ بھی این ڈی ٹی وی کو سنوائی ہیں۔انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ جب ان کے مکان پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا تو پولس نے ہی انہیں اور ان کی بیوی کو بچاکر کسی دوسری جگہ منتقل کیا۔لیکن اب طاہر حسین پر ہی فساد میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ان پر آئی بی افسر انکت شرما کے گھروالوں نے انکت شرما کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔اسی طرح کانگریس کی کونسلر عشرت جہاں ایڈوکیٹ کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان کی درخواست ضمانت بھی عدالت نے مسترد کردی۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ منعقد کرایا تھا۔
اس سلسلہ میں یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ایک طرف جہاں بی جے پی کے ساتھ ساتھ حکومت اور پولس سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوکسی بڑے جرم کا مرتکب سمجھ کر کارروائی کر رہی ہے وہیں ملک کی مختلف عدالتوں میں بھی اب یہی رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔مظاہروں کے سلسلہ میں ماخوذ لوگوں کو ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔۔۔لیکن بعض عدالتوں نے پولس کی سخت گوشمالی کرتے ہوئے ماخوذ لوگوں کو ضمانتوں پر رہا بھی کیا ہے۔ان میں سب سے شاندار تبصرہ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ کی جج کامنی لاؤ نے دلت لیڈر چندر شیکھر کی گرفتاری کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران کیا تھا۔۔۔دو دن کی سماعت کے بعد انہوں نے چندر شیکھر کو ضمانت بھی دیدی تھی۔چندر شیکھر پر الزام تھا کہ انہوں نے دہلی کی جامع مسجد شاہ جہانی کے باہر مظاہرہ منعقد کیا تھا۔عدالت نے پولس کے اس الزام پر سخت تنقید کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا شہریوں کو احتجاج کا حق نہیں ہے؟ اس کے علاوہ کرناٹک ہائی کورٹ کا تبصرہ بھی بہت عمدہ ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے مظاہرہ کرنے کی پاداش میں گرفتار 21 لوگوں کو ضمانت دیدی تھی اورایک طویل تبصرہ میں پولس کو بہت سخت سست کہا تھا۔
اتر پردیش کے بعض اضلاع میں بھی عدالتوں سے ایسی ہی خبریں موصول ہوئیں۔۔۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر نے بھی پولس کی سخت گوشمالی کی تھی۔خود سپریم کورٹ میں بھی بنچ نے مظاہرین کے حق احتجاج کو تسلیم کیا ہے۔لیکن اس کے باوجود مظاہرین پر پولس اور حکومت کا ظلم جاری ہے۔افسوس ناک پہلو یہی ہے کہ حکومت نے جہاں پُر اسرار طورپر جسٹس ایس مرلی دھر کا آدھی رات کو تبادلہ کردیا وہیں اگلے روز کی سماعت میں دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بنچ نے پولس کو ایک مہینے کی مہلت دے کر جسٹس مرلی دھر کے ذریعہ کی گئی گرفت کو ہلکا کردیا۔۔۔یہی نہیں سپریم کورٹ میں بھی سماعت کے لئے لمبی لمبی تاریخیں دی جارہی ہیں اور حوصلہ شکن تبصرے کئے جارہے ہیں اور سب کا محور شاہین باغ ہے۔ (جاری)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دہلی صرف بھارت کی راجدھانی نہیں ہے بلکہ اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنیاد پ پوری دنیا کے لئے مرکز توجہ ہے قدیم زمانے میں یہ شہرمتعدد سلطنتوں کا دار الحکومت رہا ہے تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس خوبصورت شہر کو ماضی میں جس طرح متعدد بار شادابی کی فضا میں مسکرانے کا موقع ملاہی اسی طرح متعدد بار ویرانی کا درد بھی جھیلنا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ شہر میں عہد قدیم کی بے شمار یادیں اور یادگاریں موجود ہیں جنہیں دنیابھرسے لوگ دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے آتےہیں عظیم تاریخ رکھنے والے اس شہرکے تذکرے سے شعراء کے کلام میں جان پیداہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر مرزا اسد اللہ خان غالب میر تقی میر غلام ہمدانی مصحفی الطاف حسین حالی اور شیخ ابراہیم ذوق جیسے متعدد قدیم اور بڑے شعرا نے بھی اپنے کلام میں دہلی کا تذکرہ بڑی خوش اسلوبی سے کیاہے لیکن انسان طاقت کے نشے میں چور ہوکر جب حیوانیت پر اترجاتاہے تو وہ انسانیت کو ختم کرنے میں یا کسی حسین شہر کوتاراج کرنے میں کوئی دریغ محسوس نہیں کرتاہے حکمرانوں کی تاریخ میں ایسے متعدد واقعات مل جاتےہیں گذشتہ ہفتہ دہلی میں مورخہ 23 فروری 2020سے مورخہ 25فروری 2020 تک مسلسل جوکچھ ہوا وہ بھی اسی کڑی کاایک حصہ ہے دہلی فساد کی جو تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا کے واسطے سے موصول ہونی ہیں انہیں دیکھنے کی ہمت جٹانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں نے ان اذیت ناک مرحلوں کا سامنا کیا ہے ان پر کیا کچھ گزرا ہوگا درندوں نے بے قصور اور نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی وہ تاریخ رقم کی ہے جوپوری انسانیت کو شرمسار کرنے والی ہے موصولہ اطلاعات کے مطابق اب تک 47 افراد دم توڑ چکےہیں سیکڑوں افراد زخمی ہیں ہوکر ہاسپیٹل میں زیر علاج ہیں جبکہ متعدد افراد لاپتہ ہیں ہیں بڑی تعداد میں دوکانیں اورمکانات آگ کے حوالے کردیئے گئے اورکچھ مساجد بھی جلادی گئیں ہیں یہ سچ ہے ابھی فسادنہیں ہورہاہے لیکن تباہی کے اثار جگہ جگہ صاف دکھائی دیتے ہیں جو ذہنی اذیتوں میں اضافہ کرتے ہیں اور بہترمستقبل کی موہوم امیدوں پر بھی پانی پھیرتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ساری بدتمیزیاں مخصوص نظریات کی بنیاد پر اور مرکزی حکومت کی سرپرستی میں انجام دی گئیں ہیں ورنہ پولس دنگائیوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہوتیں اور دنگائیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا تبادلہ کیوں ہوتا؟ تاہم اس معاملے میں ریاستی حکومت کے مایوس کن روپے نے بھی بہت سے سوالات کھڑے کردئیے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیجریوال کی وہ شبیہ ہے جس کی بنیاد پر انہیں انصاف پسند طبقات بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ ملتے رہے ہیں اور گذشتہ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں بھی بڑی تعداد میں ملے ہیں لیکن کیجریوال کی حالیہ غلط اور غیر منصفانہ پالیسیوں نے واضح کر دیا ہے کہ کیجریوال اور دوسرے سوکالڈ سیکولرپارٹیوں کی منزل بھی وہی ہے جو بی جے پی کی ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ بی جے پی منزل مقصود تک جلد پہونچناچاہتی ہے اور دوسری سیکولرجماعتیں کچھ تاخیر سے تاہم یہ طے ہے کہ منزل سب کی ایک ہی ہے اور وہ ہے نتیجے کی پرواہ کیے بغیر اکثریت کے مزاج کی ہر ممکن رعایت اگر یہ مقصد نہ ہوتا سیکولر ازم کا دم بھرنے والی پارٹیاں متفقہ لائحہ عمل کے تحت نفرت انگیز سیاہ قوانین کی مخالفت بڑے پیمانے پر کرتیں اور بی جے پی کو سی اے اے واپس لیناپڑتا میرا احساس ہے کہ اگر سی اے اے واپس نہیں لیاگیا تو مستقبل میں این آرسی رام مندر سے بڑامدعی بن کرسامنے آئے گا جس کے نتیجے میں نفرت کی سیاست کو مزید قوت حاصل ہوگی اور دیر سویر وہ سب کچھ ہوگا جوہماری نگاہیں دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں ہیں کون نہیں جانتا ہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ کانگریس کو حکومت میں رہنے کا موقع ملا ہے اور کانگریس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بی جے پی نے عروج کی منزل طے کی ہے یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو اپنی مسلم مخالف ذہنیت کی ترویج و اشاعت میں ساری دلیلیں کانگریس کی تاریخ سے ہی ملتی ہیں بابری مسجد سے لیکر سی اے اے این پی آر اور این آرسی تک کے معاملات اس کی واضح ترین مثالیں اب سوال یہ ہے کہ کب تک یہ سب چلتارہے گا کیا ہمیں جلد از جلد کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کرناچاہئے اگرہاں تو کیا کرناچاہئے میرے نزدیک اس سوال کا جواب بحث و تمحیص کا موضوع ہے لیکن حد سے زیادہ بحث و تمحیص بھی کسی کام کے وقوع کےلئے مضرت رساں ہی ہے ضرورت اس بات کی ہے موقرتنظیمیں جلد از جلد اس پرغورکرکے کوئی لائحہ عمل طے کریں اور مسلمان اس پر عمل کریں مرکزی سطح پر نہ سہی لیکن ریاستی سطح پر تو ضرور کریں اگر کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا تو فسادات ہوتے رہیں گے جیسا کہ ہوتے رہے ہیں بلکہ مزید بڑے پیمانے پرہونگے مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہورہی ہے کہ سب کچھ لٹ پٹ جانے کے بعد جومرہم رکھے جاتےہیں خواہ وہ جمیعت و جماعت کی طرف سے ہوں یا ریاستی اور مرکزی سرکاروں کی طرف سے ان مرہموں کی حیثیت قتل کے بعدریاکاری کےلئے کئےگئے توبے سے زیادہ کچھ نہیں ہے تاکہ عوامی ہمدردیاں وصول کی جاسکیں اور سب کچھ اسی طرح چلتارہے جیساچلتارہاہے کون نہیں جانتا ہے کہ یہ دنیادارالاسباب ہے جہان وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو کامیابیوں کے اسباب اختیار کرتی ہیں کامیاب بننے کےلئے اسباب اختیار کرنے میں مسلم وغیرمسلم برابر ہیں اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ غیر مسلم اسباب پر ہی بھروسہ کرتےہیں اور انہیں وہی کرناچاہئے جبکہ مسلمان اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور نہ انہیں کرناچاہئے تاہم اسباب اختیار کر نابہرصورت ضروری ہے اب سوال یہ ہوتاہے کہ کیاکیاجائے اور کون سا سبب اختیار کیاجائے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کم ازکم تین کام کرنے ہونگے
1- اپنی صفوں میں اتحاد پیدا پیداکرناہوگا اتحاد قائم کرنے کے معنی یہ ہوئے کہ اپنے مسلک پرعمل کرتے ہوئے دوسرے کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر قدغن لگاناہوگا عموماً ہوتایہی ہے کہ اسٹیج پر اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت پردلائل پیش کئےجاتےہیں لیکن ذاتی مفادات کے تحت نجی مجلسوں میں انتشار کوہوادی جاتی ہے جو نہ صرف نفاق کی علامت ہے بلکہ امت کو کمزور کرنے کی حسب استطاعت ایک کوشش ہے اس کے علاوہ مختلف مسالک کے سرکردہ افراد کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے کاماحول بناناہوگا ملاقاتوں سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور اپنی قوم اور ہم خیال لوگوں کو سمجھاناہوگا کہ ہم کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ایک ہیں اس سلسلے سنگھ کے نظریات سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے جس نے واضح طبقاتی نظام ہونے کے باوجود دلتوں کی اکثریت اپنی طرف موڑ لیاہے یہ الگ بات ہے کہ دلتوں کو ہی اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی ہمارے یہاں تواتحاد کے امکانات بہت زیادہ ہیں پھر ہم یہ کام اپنی انفرادی و اجتماعی سطح پر کیوں نہیں کرسکتے ہیں جب بھی پریشانیاں آئ ہیں تو سب پرآئ ہیں اور اگر آئیں گی تو سب پر آئیں گی تاریخ یہی ہے کہ
ہواچلی تو کوئی نقش معتبر نہ بچا
کوئی دیا کوئی بادل کوئی شجر نہ بچا
کیفی سنبھلی
2- سیاسی استحکام کےلئے ایک نیاسیاسی محاذ بناناہوگا جمہوریت میں سیاسی قوت کی وہی حیثیت ہے جو جسم میں روح کی ہے جس قوم کے پاس سیاسی قوت نہیں ہوتی ہے وہ قوم استحصال کی شکار رہتی ہے اس کے افراد کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں اور اس پر اس پر سیاسی اعتبار سے مضبوط قوم کےلئے ظلم کرناآسان ہوجاتاہے کورٹ کے حکم کے باوجود کپل مشرا انوراگ ٹھاکر اور پردیش ورما جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہونا اور عابد حسین جیسے لوگوں پر کارروائی ہوجانا اس کی بہت تازہ مثالیں ہیں اسلئے ہمیں جلد از جلد سیاسی قوت کی مضبوطی کیلئے قدم بڑھاناہوگا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ سوکالڈ سیکولرپارٹیوں میں شامل ہوکر زیادہ سے زیادہ ٹکٹ حاصل کرلئےجائیں اس لیے کہ اراکین پارلیمان یا اراکین اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ملت کے حق میں بہت زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکاہےاس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے مسلمان بھی پارٹی کی
وفاداری کے اونچے درجے پر فائز ہونے کےلئےناانصافیوں کے خلاف مضبوط آواز بلند کرنےکی ہمت نہیں جٹا سکتے ہیں یا سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر پارٹی انہیں آواز بلند کرنے سے روک دیتی ہے ٹرپل طلاق بل پر حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی مرحوم جیسے شخص نے چندسال قبل اس کی وضاحت بھی کی تھی اسلئےنیاسیاسی محاذبنانے کا مطلب یہ ہے صوبائی سطح پر سیکولر ذہیت کے حامل افراد کوساتھ لیکر ایک سیاسی پارٹی بنانی ہوگی اور دوسری قدیم سیاسی پارٹیوں سے طے شدہ شرائط پر اتحاد کرکے انتخاب حصہ لیناہوگا اس سے سلسلے میں مولانا ابوالمحاس محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کوآئڈیل بنایاجاسکتاہے انہوں نے کانگریس میں ضم ہوکرکام کرنے کےبجائے اپنی سیاسی پارٹی بنانی تھی اور اپنی حکمت عملی سے ایسی تدبیر کی تھی کہ بہار میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کانگریس کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اور معاملہ یہاں تک پہونچا تھق کہ بہار میں ان کی حکومت بن گئ تھی جس کےتحت بیرسٹر یونس وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے یہ سچ ہے کہ مسلمانان ہند مولانا آزاد رحمہ اللہ علیہ کی پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے اگر مولانا ابوالمحاس محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی سیاسی پالیسیوں پر عمل کرتے توآج کاماحول بالکل دوَسراہوتا مولانا کی سیاسی پالیسی پر عمل کیوں نہیں ہوسکا یہ الگ موضوع ہے مجھے معلوم ہے آج کے دور میں مولانا کی سیاسی پالیسی پر عمل کرناپہلے کے بنسبت زیادہ دشوار ہے تاہم اس دشوار گزار راہ کوطے کئے بغیر مستقبل کاتابناک ہونااس سے زیادہ دشوار ہے
3- طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی اداروں کومضنوط بناناہوگا مضبوط بنانے کا مفہومِ یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام اداروں میں ایسے افراد بڑی تعداد میں تیار کرنے ہونگے جو مسلمان بن کر ملک کے اعلی عہدوں خاص طور پر عدلیہ وانتظامیہ سے منسک اعلی عہدوں پر فائز ہوسکیں اس کے لئےعصری کوچنگ یوپی ایس سی،جوڈیشیل یعنی ججوں کے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری ،وکلاء کی تربیت نرسری سےبارہویں تک کے معیاری اسکول جیسے آرایس ایس کی شاکھائوں کے ہیں جن میں ذہن سازی ہوتی ہے اور بڑے ہوکر یہی لوگ ہرجگہ ہوتے ہیں قائم کرنے ہونگے بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ملک کے طول عرض میں پھیلے ہوئے مدارس کے ذمہ داران خانقاہوں کے سجادگان اور بااثر مسلم شخصیات چاہ لیں یہ مشکل آسان ہوسکتاہے کم ازکم ضلعی سطح پر تو ہوہی سکتاہے باطل طاقتیں اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کےلئے جس طرح مصروف عمل ہیں ہم بہتر نظریات کی اشاعت کے لیے اگر اس قدر بھی مصروف عمل نہیں ہوسکتےتو ہمارے زندہ رہنے کا کیافائدہ ہے جب کہ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے
آخری بات یہ ہے کہ وقت نے سب کچھ واضح کردیاہے اسلئے ہمیں پدرم سلطان بود کی نفسیات سے باہر نکل بالکل نئ پلاننگ کے ساتھ مذکورہ تینوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا ذاتی مفادات کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی ہرممکن کوششیں کرنی ہونگی آگ اور پانی کے دریاسے گزرناہوگا اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف گالیاں دیں گی ملت کے نمائندہ افراد کو اس جانب جلدازجلد قدم بڑھانا چاہئے اسلئے کہ اب کچھ بچانہیں خوف کے سائے میں ہماری زندگی ہے اور ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(اقبال)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
دُشینت دیو (صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا)
ترجمہ: عبدالعزیز
عام طورپر جب کسی شخص کا نا حق قتل ہوتا ہے یا ناحق کسی شخص پر حملہ ہوتا ہے یا کسی شخص کو گولی یا بندوق سے مار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کارروائی ایک فرد یا ایک شخص کے خلاف ہوئی، لیکن پروردگار عالم نے اپنی کتابِ مقدس میں فرمایا ہے: ”ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتاہے“۔ اس سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی کسی ایک شخص پر حملہ کرتا ہے یا دھمکی دیتا ہے تو صرف ایک شخص پر حملہ نہیں کرتا، ایک شخص کو دھمکی نہیں دیتا بلکہ ساری انسانیت پر حملہ کرتا ہے اور سارے انسانوں کو دھمکی دیتا ہے۔ کتابِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ ”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بخش دی“۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی و بقا اور احترام اس بات پر منحصر ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کی جان اور عزت و آبرو کا احترام موجود ہو اورہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا اور تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک فرد پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل انسانی ہمدردی کے جذبے سے خالی ہے، لہٰذا وہ پوری انسانیت کادشمن ہے؛ کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو تمام افرادِ انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسانی کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے، جس پر انسانیت کے بقا کا انحصار ہے“۔
دہلی میں فساد سے پہلے اور فساد کے بعد جو کچھ ہوا یا جو کچھ ہورہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ عدلیہ کا کردار آہستہ آہستہ قابل گرفت اور افسوسناک ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے بار ایسوسی ایشن کے صدر دُشینت دیو نے عدلیہ کی سست روی اور غیر مستعدی پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ””Jstice no done – Judiciary should have acted with greater alacrity in cases involving hate speech”۔ان کا یہ مضمون انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں آج (3مارچ) شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”27 فروری 2020ء کو بی جے پی کے لیڈروں کی جو نفرت انگیز تقریریں ہوئیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنا دستوری فرائض سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ وقت آچکا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو بتایا جائے کہ یہ دستوری اور آئینی طور پر کتنا اہم اور ضروری ہے“۔ مضمون نگار نے آگے کی سطروں میں لکھا ہے کہ جب کوئی پارلیمنٹ کا ممبر یا وزیر دستور کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ”میں سچائی پر قائم رہوں گا اور ہندستان کے دستور کی وفاداری کروں گا اورجو بھی میری معلومات میں فیصلے کیلئے لایا جائے گا بغیر کسی خوف، جانبداری، بغیر کسی غلط خواہش اور جذبہئ شفقت کے اپنی پوری ایمانداری اور سے بہتر صلاحیت کے ساتھ دستور کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی کروں گا“۔ دستور کی دفعہ 21کے مطابق ہر ایک جج پابند ہوگا کہ کوئی شخص اپنی زندگی اور ذاتی آزادی سے محروم نہ ہو۔ جو قانون دستور کی جانب سے مسلم ہے اس کا پاس اور لحاظ رکھا جائے“۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر پر مشتمل ایک بنچ نے مرکزی حکومت کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا کہ ”نفرت انگیز تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے وقت سازگار نہیں ہے، امن وامان کو یقینی بنانے کی اس وقت ضرورت ہے۔ سماعت ملتوی کردی گئی اور 13 اپریل کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ عدالت یہ سمجھنے سے قاصر رہ گئی کہ دہلی میں 40 سے زیادہ انسانی جانوں کا تلف ہوا اور 200سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ ہزاروں مکانات، دکانیں اور کارخانے تباہ و برباد ہوئے۔یہ انتہائی پریشان کن اور حیران کن ہے کہ حکومت کی طرف سے موزوں وقت کی بات کہی جارہی ہے۔ عدالت دستور کی گارجین اور دہلی کے شہریوں کی سرپرست ہے۔ اسے مستعدی سے کام لینا چاہئے تھا۔ قانون کا نفاذ مناسب وقت اور مناسب دن کیلئے ٹالا نہیں جاتا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں، جبکہ انتظامیہ پورے طور پر ناکام ہو، ایسی حالت میں عدالت کو چاہئے کہ وہ حکومت کی مشنری کو عملی قدم اٹھانے پر زور دے“۔
یہی دہلی پولس ہے کہ جن لوگوں نے مرکزی حکومت پر تنقید کی تھی ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے میں کسی موزوں وقت کا انتظار نہیں کیا۔ کنہیا کمار اور ہرش مندر جیسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی ایک دستوری بنچ کے مقدمے کیدار ناتھ سنگھ بنام حکومت بہار (1962ء) میں ججوں نے غدارِ ی وطن کی دفعہ 124A (sedition under Section 124 A.) کے متعلق کہا کہ ”بطور تبصرہ و تنقید ایک شہری کا حق ہے کہ حکومت کے بارے میں جو کچھ چاہے لکھ سکتا ہے، کہہ سکتا ہے۔ اس وقت تک جب تک حکومت کے خلاف عوام کو تشدد برپا کرنے کیلئے اکسائے نہیں اور نہ ہی بدنظمی پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کرے۔ مزید لکھا گیا کہ الفاظ، تحریر یا گفتگو وغیرہ سے جب عوام میں بدنظمی اور بدامنی پیدا ہو تو عوامی مفاد کیلئے قانون دخل انداز ہوسکتا ہے“۔
نہارندو دت مجمدار بنام سلطان برطانیہ کے مقدمے میں 1942ء میں فیڈرل کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا لب لباب بھی سپریم کورٹ کے 1962ء کے فیصلے کے مطابق ہے۔ ”2013ء میں للیتا کماری بنام حکومت اتر پردیش کا جو فیصلہ ہوا تھا اس کو بھی دہلی ہائی کورٹ نے بالکل نظر انداز کیا، اس میں کہا گیا تھا کہ دفعہ 154 کے مطابق ایف آئی آر درج کرنا ضروری ہے۔ اگر قابل دست درازی جرم (cognisable offence)ہے اور اس کیلئے کوئی ابتدائی تفتیش کی اس معاملے میں ضرورت نہیں ہوتی“۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:شمال مشرقی دہلی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تیار کردہ ایک عبوری رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے تشدد کے دوران کم از کم 122 مکانات، 322 دکانیں اور 301 گاڑیوں کونقصان پہنچا یاوہ مکمل طور پرتباہ ہوگئیں۔ حتمی رپورٹ پیش کرنے تک ان کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔سینئر عہدیداروں نے پیر کے روز بتایا کہ عبوری رپورٹ اتوار کی صبح تک سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) کی سربراہی میں 18 ٹیموں کی ان پٹس کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ہدایت کے بعد یہ ٹیمیں شمال مشرقی دہلی میں فسادات سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات سروے کر رہی ہیں۔شمال مشرقی دہلی کے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر تعداد بڑھے گی کیونکہ ایس ڈی ایم کا سروے جاری ہے، جو ہفتے کے روز شروع ہوا تھا۔ اس تشدد میں اب تک کم از کم 47 افراد ہلاک اور 350 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ضلعی مجسٹریٹ (شمال مشرقی دہلی) ششی کوشل نے بتایا کہ ہر ایس ڈی ایم 60 محکمہ کی ٹیم کی قیادت کر رہا ہے، جس میں محکمہ محصولات کے عہدیدار اور سول رضاکار شامل ہیں، جو سروے میں مدد اور متاثرین کو امدادی ریلیف فراہم کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔ تاہم انہوں نے ’نقصانات کاجائزہ‘ عمل کے نتائج یا کتنے مقامات کا سروے کرنا باقی ہے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ رپورٹ میں درج ان اعدادوشمار سے ان املاک کی عکاسی ہوتی ہے جن کا سروے ایس ڈی ایم ٹیموں نے آزادانہ طور پر کیا تھا اور ساتھ ہی معاوضے کے دعوے کی درخواستیں جن میں جسمانی تصدیق ان ٹیموں نے مکمل کی تھی۔ساتھ ہی انھوں نے کہاکہ اس ہفتے کے آخرتک سروے مکمل ہوجائے گا۔گذشتہ ہفتے دہلی فائر سروسز کی تیار کردہ ایک عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیر اور جمعرات کی صبح کے درمیان کم از کم 79 مکانات، 52 دکانیں، پانچ گودام، چار مساجد، تین فیکٹریاں اور دو اسکول جلائے گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ دو پہیوں سمیت 500 سے زیادہ گاڑیوں کونقصان پہنچاہے۔سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ ان تخمینوں میں بھی اضافے کا امکان ہے۔
نئی دہلی:ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کی ہے اور ہندوستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ”جنونی تشدد“ کو غالب نہ ہونے دے۔ وہ شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات پر ردعمل کا اظہار کررہے تھے جس میں اب تک 46 افراد کی موت ہوچکی ہے اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ پر لکھاہے”ایران ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کرتا ہے۔ صدیوں سے ایران، ہندوستان کا دوست رہا ہے۔ ہم ہندوستانی حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور جنونی تشدد کو غالب نہ ہونے دیں۔آگے کی طرف پیش قدمی پرامن بات چیت اور قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے“۔
صفدر امام قادری
صدر شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
دلّی کے الیکشن میں جہاں ہر طبقے کے افرادنے کجریوال کو ووٹ دے کر تیسری بار وزیرِ اعلی کی کرسی پر بٹھایا، ٹھیک ایک ہفتے میں فرقہ وارانہ صورتِ حال میں ایسی ابتری آگئی ہے کہ اب آسانی سے اس سلسلے کو ختم ہوناخارج از امکان نظر آتا ہے۔ اقلیتی طبقے کے افراد فرقہ پرستوں کی زد پہ ہیں اور چار درجن سے زیادہ افراد جاں بہ حق ہو چکے ہیں۔ دلّی کی پولیس مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ہے، اُس نے کھُلی چھوٹ دے کر فساد برپا کرنے والوں کو سہولت دے رکھی ہے مگر ایسے عالم میں دلّی کی حکومت کے سربراہ اروند کجریوال اور اُن کی پارٹی ہر طرح سے یہ سوالوں کے حصار میں ہے۔ کیا اس انتشار اور نفرت کے ماحول کو ایک تماش بین کی طرح سے یہ لوگ دیکھتے رہیں گے؟ اقلیت آبادی جس نے ننانوے فی صد ووٹ عام آدمی پارٹی کو دے کر اُسے فاتح بنانے میں سرگرم تھی، اب خود کو ٹھگا ہوامحسوس کر رہی ہے۔
دلّی کے انتخاب کے پہلے جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور پھر شاہین باغ کے احتجاج سے اروند کجریوال کی سوٗجھ بوٗجھ کے ساتھ خود اختیار کردہ دوٗری نے سیاسی مبصّرین کے ذہن میں چند سوالات ڈال رکھے تھے۔ آخر دلّی پولیس کا بہانہ بنا کر وزیرِ اعلا سماجی اور سیاسی مسئلوں سے خود کو الگ تھلگ کیسے رکھ سکتا ہے؟ وہ اگر پورے سماج کا نگہہ بان ہے تو اسے میدانِ کارزار میں اُترنا ہی پڑے گا۔ وہ ساحل سے رزم ِ خیر و شر کب تک دیکھتا رہے گا؟ مگر اُس دور میں عام آدمی پارٹی کے بہی خواہوں نے بتایا کہ کجریوال بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوئی اضافی فائدہ نہیں دینا چاہتے، اس لیے اقلیتی مسئلوں میں دور سے ہی کام کر رہے ہیں۔ ہر چند اصولی سیاست جس کا دعوا اروند کجریوال کو ہے،اس کا یہ شعار نہیں مگر انھوں نے ووٹ کی خاطر جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور شاہین باغ احتجاج سے خود کو الگ رکھا اور اقلیت اور اکثریت دونوں طبقے کے افراد کے ووٹ لوٗٹنے میں کامیاب ہوئے۔
دلّی فسادات میں جس سیاسی چہرے کو سب سے زیادہ شہرت ملی، وہ عام آدمی پارٹی کے سابق رکنِ اسمبلی اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کپل مشرا ہیں۔ لوگ اسی سے دونوں پارٹیوں کے کردار و عمل کے اشتراک کی کہانیاں گڑھنے میں لگے ہیں۔کمار وشواس، شاذیہ علمی اور نہ جانے کتنے افراد ہیں جو اِن دونوں مورچوں پر حسبِ ضرورت فِٹ ہو جاتے رہے ہیں۔ ابھی درجنوں چہرے وقت آنے کے بعد اصلی شکل میں پہچانے جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے افراد تو کھُلے طور پر فرقہ پرستانہ سیاست کے کھیل تماشے کا حصہ ہیں مگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ انھی خیالات کا حامل ہے اور اسی طور پر سرگرمِ عمل ہے؛ اس کی شناخت ایک لازمی امر ہے۔
اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کی سیاسی پیدایش اور مکمل تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ انّا ہزارے کی تحریک اب کہاں ہے اور خود انّا ہزارے ہندستان میں کون سا سیاسی کام انجام دے رہے ہیں؟ اروند کجریوال خود کو اسی تحریک سے پیدا شدہ قرار دیتے ہیں۔ کیا اس تحریک کا یہی ایجنڈا تھا کہ کانگریس کی جگہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدارمیں بٹھا دیا جائے۔ ہزاروں جھوٹ اورغلط اشتہارات کی بنیاد پر انّا ہزارے کی تحریک آگے بڑھی تھی اور جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی حکمراں ہوئی، انّا ہزارے خاموش ہو گئے۔ کہاں گاندھی جیسے تیاگی لیڈر کہے جاتے تھے اور اب ان کے منھ پر تالا لگا ہوا ہے اور اُن کے تحریک کاربھارتیہ جنتا پارٹی میں اندر یا باہر سے تعاون کر رہے ہیں۔
اروند کجریوال کے ساتھ سب سے بڑی تعداد میں نوجوان لیڈروں کی وہ جماعت ہے جس کی پیدایش ‘Citizens for Equality’تحریک کے دوران ہوئی۔ یہ تحریک ہندستان میں کمزور طبقوں کے ریزرویشن کے خلاف مورچہ بندی میں سامنے آئی تھی۔ اُس زمانے کے احوال پر نظر رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس حلقے کے افراد کو نہ ہندستان کے آئینی ارتقا کا پاس تھا اور نہ ہی غلامی سے آزاد ہوئی قوم کے درجہ بند ماحول سے نکال کر مساوات کے راستے پر لانے کے لیے جنگِ آزادی کے مجاہدین نے کون سے خواب دیکھے تھے، اس کا کچھ لحاظ تھا۔ بس چند نوجوانوں کو مشتعل کرکے سڑکوں پر اُتار دینا اُن کا مقصد تھا۔ عام آدمی پارٹی میں اس تحریک سے نکلے ہوئے افراد ہزاروں کی تعداد میں شامل ہیں۔
اس بار دلّی الیکشن کے اختتام کے فوراً بعد اروند کجریوال کا پہلا بیان آیا کہ اگر ان کے پاس پولیس ہوتی تو شاہین باغ کے احتجاج اور سڑک جام دو گھنٹے میں ختم کرا دیتے۔ انھوں نے عوامی احتجاج کے نفسِ مضمون پر ایک لفظ نہ کہا اور نہ ہی انھیں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ اور ملک بھر کے بے چین عوام کے مسئلے یاد آئے۔ جس دن نتائج سامنے آئے، وہ ہنومان مندر کی طرف روانہ ہوئے اور حلف برداری کے ساتھ یہ بیان سامنے آیا کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ مل جُل کر دلّی کی ترقی کا راستا صاف کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جس مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرکے آپ نے انتخاب جیتا ہے، اسی سے مل کر کس طرح آگے بڑھیں گے؟اروند کجریوال کے سیاسی نظریے میں کتنا لچیلا پن ہے اور وہ کس طرح ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک پہنچ سکتے ہیں، یہ اب دیکھنے کی چیز ہے۔
اروند کجریوال کی پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے تئیں خصوصی توجہ کی تو خوب خوب داد دی گئی اور دلّی ہی نہیں، پورے ملک میں اس کے لیے ان کی پذیرائی ہوئی۔مگر صرف انھی کاموں کے لیے حکومت نہیں بنائی جاتی۔ انگریزوں کی غلامی میں تعلیم، صحت اور مادّی ترقی کے دوسرے وسائل رفتہ رفتہ سامنے آنے لگے تھے۔ مگر ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر ہمارے آباواجدادنے یوں ہی غلامی سے نجات حاصل نہیں کی تھی۔ سیاسی قیادت صرف پانی، بجلی اور صحت نہیں۔ روتی، کپڑا اور مکان کا سیاسی نعرہ چار دہائی پہلے لگا تھا۔ آج ملک میں عوام کو اس سے آگے بہت کچھ چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزادی کی حصولیابیوں کے چھیننے والی قوّتوں سے لڑائی سب سے پہلے ہو۔
اروند کجریوال سماجی انصاف اور سماجی ہم آہنگی کے لیے جنگ کی قیادت نہیں کرسکتے۔ وہ یوں بھی کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق نوکرشاہ ہیں۔ ایک طرف فائدے سے رغبت اور دوسری جانب اعلا عہدے دار کی تابع داری۔ بھلے وہ تیسری بار وزیرِ اعلا بنے ہوں مگر ان کے ذہن سے یہ آرکی ٹائپ ابھی بھی زائل نہ ہوا۔ اسے بعض لوگ سنسکار بھی کہتے ہیں۔ انھیں کمزور طبقے، محروم جماعتوں اور اقلیت آبادی کے حقوق اور ان کے سلسلیسے حساس ذہن سے کام کرنے کی توفیق نہیں۔ اس لیے اب آیندہ پانچ برس کی مشکلات کو سمجھنا پڑے گا۔
انّا ہزارے سے لے کر بابا رام دیو تک اروند کجریوال کے متعدد ساتھیوں کو ہندستانی عوام نے اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔ یہ سب لوگ فرقہ ورانہ خیر سگالی اور قومی اتحاد کے علم بردار نہیں ہوسکتے۔یہ اکثریتی آبادی کے نمایندہ بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کبھی باہر سے اور کبھی اندر سے تعاون کرنے کے کھلاڑی ہیں۔ یوں بھی ووٹ کی تعداد سیاست میں اقلیت، پس ماندہ طبقات اور محروم جماعتوں کا محافظ کوئی نہیں ہوتا۔ دلّی کی تعلیم یافتہ آبادی میں بھی کہاں کوئی عوامی انقلاب سامنے آ رہا ہے؟ عوام اور خاص طو ر سے کمزور اقلیت آبادی پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور باقی دوسرے افراد تماش بین ہیں۔
ملک کی تقسیم کے وقت فسادزدہ علاقوں میں کانگریس کے کارکنوں کے ذریعہ سرد مہری دکھانے پر گاندھی بہت ناراض ہوئے تھے۔ رام منوہر لوہیا کو خط لکھ کر جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی حفاظت کے لیے کلکتے سے بلایا تھا۔ مصیبت کی اُس گھڑی میں سیاست دانوں کو گاؤں اورمحلّوں میں پھیل جانے کو فسادات کو روکنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کا نسخہ بتایاتھا۔ اسی لیے فرقہ پرستوں نے اُن کی جان لی تھی۔ اروند کجریوال اور ان کے عوامی نمایندے اگر دلّی کے فساد زدہ علاقوں میں سڑکوں پر آجائیں تو نہ صرف یہ کہ فسادات رُک سکتے ہیں بلکہ یہ بات یقین تک پہنچ سکتی تھی کہ وہ ووٹ کے بدلے اپنے عوام کی جان اور مال کی حفاظت کرنے کا وعدہ بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اروند کجریوال کے لیے یہ موقع تاریخ میں عظمت پانے کا ہے یا اُس کے سیاہ ابواب میں اضافہ کرنے کا؛ اب اسی کا انتظار ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:نارتھ ایسٹ کے تشدد سے متاثرہ علاقوں میں گلی محلے میں راشن کی کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ لیکن راشن لینے والوں کی بھیڑ اتنی زیادہ ہو گئی کہ کچھ ہی دیر میں دکانوں سے راشن ہی ختم ہوگیا۔ موج پور کے رہائشی ایک بزرگ سجادنے بتایا کہ گزشتہ پانچ چھ دنوں سے کھانے پینے تک کی دکانیں بندتھیں۔لوگوں کے گھروں میں راشن ختم ہوگیاہے۔ ارد گرد کی تمام دکانیں بند تھیں۔ جمعہ کو4سے 5 دکانیں کھلی تھیں۔ دکانیں کھلتے ہی اتنی زیادہ بھیڑ ہو گئی کہ ایک گھنٹے میں ہی دکانوں سے آٹا، چاول، دال، تیل،صابن تک ختم ہوگیا۔ لوگ لائن لگا کر سامان لے رہے تھے۔ اس کے بعدسیکورٹی کے پیش نظر دوکانوں کو ڈیڑھ سے دوگھنٹے کے بعد بند کر دیا گیا۔برہم پوری کے رہائشی عارف احمد نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ مزدوری کرنے والے ہیں۔روزکماکرلاتے ہیں، پھر راشن لا کر کھاتے ہیں۔کرایہ پر رہنے والے بہت سے خاندان راشن نہیں ملنے کی وجہ سے اپنے گاؤں چلے گئے ہیں۔ ایک بزرگ شمشاد احمد نے بتایا کہ لوگوں نے دکانیں کھلوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بزرگ نے کہاہے کہ دوکاندار اب دکان کھولنے سے منع کر رہیں۔ لیکن انہیں سیکورٹی دیے جانے کی بات سمجھا کر منا لیاگیاہے۔موج پور کے وجے پارک میں بھی دکانیں نہیں کھلنے پر لوگ پریشان ہیں۔وجے پارک کے رہائشی شکیل احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سے چھ دنوں سے گھر میں نصف کھانا بن رہاہے۔ اس سے پہلے دن میں تین بار کھانا بنتا تھا، لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے گھر میں رکھے راشن کے مطابق ہی کھانابنا رہے ہیں۔گزشتہ پانچ دنوں سے سبزی نہیں مل رہی ہے۔گھر میں پہلے سے رکھی دال اور چاول بنا کرگزارا چلا رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان ساحل انصاری نے بتایا کہ حالات عام نہیں ہیں۔ دوکاندار اپنی دکانیں کھولنے کوتیارنہیں ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں کھانے کے لیے راشن نہیں بچاہے۔ بتا دیں نارتھ ایسٹ کے جعفرآباد، سیلم پور، موج پور، گھونڈا،کروال نگر بھجن پورہ، چاند باغ سمیت دیگر علاقوں میں ہوئے تشدد کے بعد سے پولیس نے دفعہ -144 لگائی ہوئی ہے۔ ڈر کی وجہ سے مارکیٹ اور دکانیں بندہیں۔
(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن
حوصلے نہیں چھین سکتے ۔شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین ، اُس وقت بھی ڈٹی ہوئی تھیں جب شہر دہلی جل رہا تھا ۔ اور آج جب حالات کچھ کچھ قابو میں آرہے ہیں تب بھی ڈٹی ہوئی ہیں ۔ حالانکہ ایک ویڈیو، جووائرل ہورہا ہے ، چند ’شرپسندوں‘ کی شاہین باغ پر حملے کی ’ منصوبہ بندی‘ کو ظاہر کررہا ہے ۔ یرقانی شرپسندوں اور فسادیوں نے ساری دہلی پر خوف ودہشت کی فضا طاری کررکھی ہے لیکن سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے صرف دہلی ہی میں نہیں ملک بھر میں جاری ہیں ۔ اِن احتجاجی مظاہروں کا جاری رہناحوصلوں کی برقراری کا بھی ثبوت ہے اور اس کا بھی کہ جان لے سکتے ہو اور مال بھی لیکن آئین مخالف سیاہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بند نہیں کرواسکتے ہو ۔۔۔
دہلی میں تشدد کا مقصد سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں بالخصوص شاہین باغ کے مظاہرے کو روکنا ہی تو تھا۔۔۔ دو مہینے سے زائد عرصے سے جاری ان مظاہروں کے دوران نہ کبھی کوئی تشدد ہوا اور نہ ہی مظاہرین کی جانب سے کبھی کوئی شرپسندی کی گئی ، یہ مظاہرے اپنے آغاز ہی سے ’پرامن ‘ تھے اور ہیں ۔۔۔ لیکن صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر بی جے پی کے ایک قائد کپل مشرا نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی ٹھانی۔ پولس کے حفاظتی گھیرے میں’موج پور‘ میں کھڑے ہوکر دھمکی دی کہ اگر تین دن کے اندر سی اے اے کے خلاف مظاہرے کرنے والے نہ ہٹے تو دیکھ لیں گے ۔ دھمکی بے حد صاف تھی ۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جو کسی زمانے میں عام آدمی پارٹی میں ہوا کرتے تھے حالانکہ ان کا خاندانی پس منظر آر ایس ایس کا ہے ۔ پارٹی سے نکالے گئے اور جہاں کا ’خمیر‘ تھا اسی پارٹی یعنی بی جے پی میں شامل ہوئے ۔ چونکہ ’ ضمیر‘ کے نام پر ان کے پاس ’بے ضمیری‘ کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے یہ ’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسا زہریلا نعرہ لگاتے اور یرقانی ٹولے کو اشتعال انگیزی کے لئے اکساتے رہے ۔ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں دو بھگوا دھاریوں کے ذریعے گولی باری کی وارداتیں ہوئی تھیں تب ہی اگر بی جے پی کی مرکزی سرکار چاہتی تو کچھ دنوں بعد جلنے والی دہلی کو جلنے سے روک سکتی تھی۔ لیکن یہ اسےمنظور نہیں تھا۔ جس روز چھٹ پٹ تشدد کی وارداتیں شروع ہوئی تھیں اس روز بھی اگر وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی پولس چاہتی تو ’شرپسندوں‘ کو جن میں کپل مشرا پیش پیش ہیں حراست میں لے کر دہلی کو جلنے سے بچاسکتی تھی ، لیکن انہیں تو شاید دہلی کو جلتا دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔ شاید یہ چاہتے تھے کہ نیرو نے جس طرح روم کو جلتے ہوئے دیکھا اور بانسری بجائی تھی، یہ دہلی کو جلتے دیکھیں ۔ یہ بانسری تو خیر نہیں بجارہے تھے لیکن صدر ٹرمپ کی ’ مہمان نوازی‘ میں لگے تھے ، اور یہ ’ مہمان نوازی‘ بھی ایک اعلیٰ ترین قسم کی تفریح ہی تھی۔ لہٰذا ’ شر پسند‘ جو یقیناً دہلی کے ساتھ بیرون دہلی سے آئے تھے جی بھر کر دہلی کو لوٹتے رہے ۔ وہ دہلی جو ماضی میں بار بار لٹی ہے اور اب لگ رہا تھا کہ اس کے لٹنے کے دن ختم ہوئے ، پھر سے لٹ گئی۔ ویسے تو دہلی ۱۹۸۴ء میں بھی لٹی تھی، اس وقت کانگریس کا راج تھا ۔ اس وقت سکھ فرقہ نشانے پر تھا۔ اس معاملے میں کانگریس کے کئی سیاست دانوں کو سزا بھی ملی ہے ۔ منموہن سنگھ جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے سکھوں کے قتل عام کا ’ کفارہ‘ ادا کرنے کی ہمت بھی کی تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کے دور میں دہلی لٹی ہے ، جلی ہے اور نشانے پر مسلمانوں کے ساتھ عام دہلی والے بھی رہے ہیں ، ہندو بھی۔ اور یقین مانیئے کسی بھی شرپسند کو سزا نہیں ملے گی ۔ کم از کم وہ جو شرپسندی کے لئے لوگوں کو اکسارہے تھے ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما سب محفوظ رہیں گے ۔ امیت شاہ جی نے بھی لوگوں کو مشتعل کرنے میں کوئی کم اہم کردار ادا نہیں کیا ۔ شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے والے بیان کو ’شریفانہ‘ بیان تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اور نہ ہی وزیراعظم نریندر مودی کے ’ سینوگ‘ اور ’ پریوگ‘ والا بیان ایک جمہوری سیکولر ملک کے وزیراعظم کے شایانِ شان کہلاسکتا ہے ۔ پر ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ گجرات فسادات میں بھی ملوث ہونے کا ان پر الزام ہے پر کیا ان کا کچھ بگڑا ؟ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس مرلی دھر نے ان شرپسند بھاجپائی لیڈروں کو لگام لگانے کی کوشش کی تھی، ان کا راتوں رات تبادلہ کردیاگیا ۔ باقی عدلیہ بغیر ریڑھ کی ہڈی والی ہے ۔ یہ دہلی کو جلتا تو دیکھ سکتی ہے پراسے جلانے والوں کو لگام نہیں لگاسکتی۔
دہلی اسمبلی کے الیکشن سے ہی سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہرے بالخصوص شاہین باغ اور وہاں کی خواتین بی جے پی کے نشانے پر تھیں ، آج بھی ہیں ۔ انہیں دیش کے غدار قرار دیا گیا ، انہیں گولی مارنے کی بات کی گئی۔ اور پھر ساری دہلی پر سی اے اے کی حمایت کرنے والوں نے آگ اور خون کی برسات کردی ۔ یہ فسادات گجرات 2002ء کی یاد دلاتے ہیں ، کیونکہ گجرات فسادات ہی کی طرح یہاں بھی لوگ زندہ جلائے گئے ۔ اکبری بیگم کی عمر ۸۵ سال کی تھی، وہ اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ دہلی کے کھجوری خاص سے کوئی ڈیڑھ کلو میٹر دور گمری ایکس ٹنیشن میں رہتی تھیں ۔ ایک مسلح ہجوم وہاں پہنچا ، یہ دوکانوں مکانوں کو جلارہا تھا ، اس نے اکبری بیگم کے چار منزلہ مکان کو بھی آگ کے حوالے کردیا ۔ اکبری مکان کے تیسرے منزلے پر تھیں، وہ آگ سے بچ نہیں سکیں ۔ اکبری کے بیٹے ۴۸ سالہ سلمانی کا کہنا ہے کہ ماں گئی ، مکان اور دوکان کچھ نہیں بچ سکا ۔ شاہد کی داستان لے لیں ، ابھی چار مہینے قبل اس ۲۸ سالہ نوجوان کی شادی ۲۰ سالہ شازیہ سے ہوئی تھی ۔ شاہد کو مشتعل ہجوم نے ماردیا ۔ اور شازیہ دوماہ کی حاملہ ہے ! راہل سولنکی نوجوان تھا ، اسے پولس کی گولی چاٹ گئی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کی موت کا ذمے دار کپل مشرا ہے ۔ درد اور الم بھری بے شمار کہانیاں ہیں ، مہتاب کی ، فاروقیہ مسجد کو جلانے کی ، اشوک نگر کی مسجد پر ہنومان کا جھنڈا لہرانے کی ، مصطفےٰ آباد کے ایک نوجوان محمد عمران کے پولس کی گولی سے اعضاء مخصوص کے چیتھڑے بن کر اڑنے ، لوگوں کے اپنے گھروں سے ہجرت کرنے کی ۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ نفرت پر محبت حاوی رہی ہے ۔ دونوں فرقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو پناہ دینے ، مندر کی حفاظت کرنے اور اپنی جانوں کو دوسروں کے لئے خطرے میں ڈالنے کی ۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقی ہندوستان جس کو ختم کرنے کے لئے یہ سب ہورہا ہے ۔ یہ سب یعنی نفرت کا پرچار ، زہریلی تقریریں ، غداروں اور گولی ماروں کے نعرے، کرنٹ پہنچانے کی باتیں اور سی اے اے جیسے غلیظ قانون کے ذریعے فرقہ وارانہ سطح پر فرقوں کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج قائم کرنے کی کوششیں۔
دہلی کو جلانا منصوبہ بند تھا۔ یہ سازش کس کی تھی ،اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے کہ جلتی دہلی کو ، عوام کو اور دہلی والوں کو جب مدد کی ضرورت تھی ، جب آگ بجھانے کے لئے انہیں پانی چاہیئے تھا تب مدد دینے اور پانی پہنچانے والے ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھے ۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کا ذکر کرنا اب فضول ہے ۔ ان میں ’ سیاسی جرأت‘ کا فقدان ہے لہٰذا وہ چاہے جس قدر ترقی دہلی کو دلادیں جب بھی دہلی کو آگ اور خون سے بچانے کی ضرورت ہوگی وہ بہت دور کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔۔۔ ان پر چھپا ہوا ’ سنگھی‘ ہونے کا الزام
لگ رہا ہے ، میں اس الزام کو نہیں مانتا لیکن میں یہ بھی نہیں مانتا کہ پولس محکمہ آپ کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے آپ بے بس تھے ۔ آپ مرکزی فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کرسکتے تھے ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آپ کو جوابدہ ہیں ان کی لگامیں کس سکتے تھے ، اپنے ممبرانِ اسمبلی اور کونسلروں اور لیڈروں کی پوری فوج سڑکوں پر اتارسکتے تھے اور خود ان کے ساتھ اترکر امن وامان کے لئے مارچ کرسکتے یا دھرنا دے سکتے تھے ۔آپ خاموش رہے ، یہ خاموشی بہت کچھ بولتی ہے ۔ کانگریس کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ دہلی اسمبلی میں اس کا ایک بھی رکن نہیں ہے ۔ لیکن رکن نہ ہونے کا مطلب ’ بے بسی‘ تو نہیں ہے ۔۔۔ پنڈت نہرو کانگریس ہی کے تو تھے۔۔۔ ایک واقعہ ابھی حال ہی میں پڑھا ہے ۔ ۱۹۴۷ء کے تقسیم فسادات کے دوران جب پنڈت جی اپنی کار سے کٹاٹ پلیس کے پاس سے گذر رہے تھے تو انہوں نے دو فرقوں میں تشدد ہوتے دیکھا، وہ کار سے اترے ، اپنے حفاظتی گھیرے کو توڑا اور نہتے دوڑتے ہوئے دنگائیوں تک پہنچے اور دنگا روک دیا ۔ کانگریسی پنڈت جی کی میراث کی بات تو کرتے ہیں پر ان میں میراث سنبھالنے کی استعداد نہیں ہے ۔ یہ بزدل ہیں ۔ پولس پوری طرح متعصب اور جانبدار رہی ۔۔ ۔مسلم قیاد ت کا ذکر کیا کریں ، کہ یہ قیادت تو ذکر کے قابلِ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ۔سچ بے حد تلخ ہے ، بی جے پی اور مودی وشاہ کی سرکار نے تو دہلی تشدد کو نہیں روکا ، کپل مشرا ، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسوں کو لگام نہیں دی ، پولس کو بے لگام کیا ، نفرت بھڑکائی پر اس کام میں ان کی مدد کیجریوال اینڈ کمپنی نے بھی کی ، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اور مسلم لیڈروں نے بھی ، وہ مسلم لیڈر جو ابتدا ہی سے شاہین باغ احتجاجی مظاہرے اور وہاں خواتین کے دھرنے کے مخالف رہے ہیں۔۔۔ گویا یہ کہ دہلی کا یہ قتل عام سب کی ’ محنتوں کا ثمرہ ہے ‘۔۔۔ مگر کچھ ہوجائے سی اے اے مخالف احتجاج جاری رہے گا ، جاری رہنا بھی چاہیئے ، امیت شاہ لاکھ یہ کہتےرہیں کہ یہ مسلم مخالف قانون نہیں ہے ، نہ ہو مسلم مخالف ، یہ آئین مخالف قانون توہے ۔اور اس کا ہونا سارے ملک کے لئے خطرناک ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی : دہلی تشدد پر کانگریس نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت، وزارت داخلہ اور دہلی پولیس پرنشانہ لگایاہے۔ کانگریس کے ترجمان آنند شرما نے ایک پریس کانفرنس میں دہلی تشدد پر مرکز اور دہلی حکومت کو جم کر گھیراہے۔ آنند شرما نے کہاہے کہ ملک اور قومی راجدھانی دہلی میں حالیہ دنوں میں جوواقعات ہوئے ہیں، ان سے کچھ اہم سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ مخالفت کرناشہریوں کابنیادی حق ہے۔ احتجاجی مظاہروں پر انتظامیہ کا رویہ تشویش ناک ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ہر قانونی دفعات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے ہی سہی لیکن کہاہے کہ دفعہ 144 لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ مخالفت کرنے پر دفعہ 124 اے کے تحت کیس کیا جا رہاہے۔ غداری کاالزام لگایاجارہاہے۔دہلی تشدد کا ذکر کرتے ہوئے آنند شرمانے کہاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد اور تشدد کے بعد لوگوں کی ہوئی موت پر کانگریس کی تجویزمیں ہم نے کہا کہ جان بوجھ کر کارروائی نہیں کی گئی۔ تشددرک سکتاتھا۔اسی پولیس نے تشدد روکا ہے ایک دن میں، جس نے 4 دن تک دہلی کو جلانے دیا۔ اب جو کارروائی ہورہی ہے، وہ بھی یک طرفہ ہو رہی ہے۔ جولوگ دھرنے پر مخالفت میں بیٹھے تھے، ان پر سنگین دفعات کے تحت مقدمے تیارکیے جا رہے ہیں۔ عدالتوں سے ابھی کوئی راحت نہیں ملی ہے۔آنند شرما نے کہاہے کہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں، وکیل ہیں، بھارت کے شہری ہیں اورحقوق کی بات کرتے ہیں، ان پر سنگین دفعات لگانا غلط ہے۔ جولوگ مخالفت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں اٹھیں گے، ان پر دفعہ 307 کے تحت کیس درج کرنا غلط ہے۔ اتنی سنگین دفعات کے تحت کیس کا بننا غلط پیغام دیتا ہے۔ اس پر حکومت سے کوئی امید نہیں کرتے ہیں کہ وہ انصاف کرے گی۔ہمیں نہ وزارت داخلہ سے، مرکزی حکومت سے نہ ہی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے، نہ ہی دہلی کے وزیراعلیٰ سے توقع ہے جو ان موضوعات پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔پر یہ توقع اور امید ہماری عدالتوں سے ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گی۔ آئین کی صحیح معنوں میں حفاظت بھارت کی سپریم کورٹ کا مذہب اور فرض ہے۔ اگر شہریوں کے حق پراثرپہنچتا ہے اور انصاف ملنے میں تاخیر ہوئی تو صحیح معنوں میں وہ آئین کو چوٹ پہنچاتی ہے۔آنند شرما نے کہا کہ ہم یہ سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قانونی مقدموں کودیکھے کہ لوگوں پر ایسے مقدمے لگائے گئے ہیں، جن میں ضمانتیں نہیں ملتیں۔کچھ لوگوں کو ضمانت دی نہیں جا رہی ہے۔ ان کی جانچ کرائی جائے۔ اس سے حکومت کی نیت سامنے آئی ہے، حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر انتشار اور تصادم نہ ہو۔ حکومت چاہتی ہے ماحول بگڑے۔ حکومت یہ کام حکومت، انتظامیہ اور پولیس کے غلط استعمال سے کر رہی ہے۔
ابھیشیک شریواستو
ترجمہ: اشعر نجمی
منگل کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی واپسی کی فلائٹ پکڑی،ایک غیر معمولی شخصیت دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئی۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال دیر رات پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، پھر وہاں اگلے دن فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چلے گئے۔ بدھ کے روز، ان کا دورہ ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوا، جب انھیں مقامی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا ،”جو ہوا سو ہوا ، انشااللہ،امن ہوگا …”
وزارت داخلہ نے 1978 میں جاری کردہ ایک اہم نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ دہلی کے ایس ڈی ایم اور مجسٹریٹ کے اختیارات دہلی کے کمشنر آف پولیس کے ماتحت ہیں۔ اسی اطلاع کا استعمال کرتے ہوئے ، 5 اگست 2016 کو دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر ایس ڈی ایم کے ذریعہ عائد کردہ دفعہ 144 کو دہلی پولیس کے ڈی سی پی نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔دہلی کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں دہلی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے درمیان حقوق کی ترجیحات کے تنازعہ کا فیصلہ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی پولیس کمشنر کے حقوق میں دراندازی کی ہے۔ اس کے ایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ڈوبھال نے وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا اور یہ مقتدر اعلیٰ کی منظوری سے کیا گیا۔
اگر یہ بات ڈوبھال کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ امن کے قیام کے لیے ڈوبھال نے جس طرح سے مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور ٹیلی ویژن پر جس طرح سے اس کو نشر کیا گیا ، یہ اپنے آپ میں نہ صرف ایگزیکٹیو بلکہ مقننہ کے دائرہ اختیار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ شورش زدہ علاقے میں مقننہ سے بطور قاصد قومی سلامتی صلاح کار کوبھیجا جانا سب کی نظر میں آگیا۔ اگر ہم اس کا موازنہ بالکل اسی نوعیت کے ایک منظر سے کرتے ہیں جو آج سے چھ ماہ قبل سری نگر کی سڑکوں پر ہوا تھا ، تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہلی کی سیاست کی کوکھ میں کیا پوشیدہ ہے۔
ڈوبھال کو سڑک پر آئے دو دن نہیں ہوئے تھے کہ تین ہفتہ قبل تیسری بار دہلی کے وزیر اعلی بننے والے اروند کیجریوال نے دھماکہ کردیا۔ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت ایک ہی جھٹکے میں دے دی گئی۔
کیجریوال، جنھوں نے شیلا دکشت کے خلاف سیاست کا آغاز کیا تھا، آج وہ سیاست کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں جہاں وہ خود شیلا دکشت بن گئے ہیں۔ اسے دو واقعات سےسمجھیں۔ 2013 میں اروند کیجریوال کا سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اس بحث میں واپس آگیا ہے جس میں وہ شیلا دکشت کو عصمت دری کے واقعات پر قابو نہ پانے پر لعنت بھیج رہے ہیں اورالزام عائد کرتے ہیں کہ شیلا دکشت دوسروں کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دہلی میں تین روزہ فسادات کے پہلے دو دن میں، اگر کیجریوال اور ان کے حمایتی، ایم ایل اے اور وزیروں کے ٹوئٹ دیکھیں تو وہ سب فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں کوئی زمینی کام کرنے کے بجائے بالکل شیلا دکشت کے انداز میں "پولیس اپنے ہاتھ میں نہیں” ہونے کا رونا رو کر دنگوں سے اپنا پلہ جھاڑ رہے تھے۔
دوسرا واقعہ سال 2012 کا ہے۔ اسی سال ایک کارٹونسٹ، اسیم ترویدی کے خلاف ممبئی میں "دیش دروہ” کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اروند کیجریوال نے ممبئی سے دہلی تک متعدد دھرنا مظاہروں کے ذریعے اسیم کے خلاف غداری کے درج شدہ الزامات کی مخالفت کی اور اپنی ابتدائی سیاست کو دھار بخشی۔ آج اسی اروند کیجریوال نے کنہیا کمار اور دیگر طلباکے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے گرین سگنل دے کر اپنی سیاست کا ایک کامیاب دائرہ مکمل کیا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ کیجریوال کا "شیلانیاس ” ہو گیا ہے۔
شاہ اور مودی کے جال میں:
جس دن اجیت ڈوبھال کو ٹی وی پر ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ، امریش مشرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھی۔واضح رہے کہ امریش مشرا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بنارس سے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑے تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے آر ایس ایس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کے دو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں ، وہ ایک "سازشی تھیورسٹ” کا تمغہ حاصل ہے، لیکن اس بار انھوں نے یہ سوال اٹھا کر نبض پر انگلی رکھ دی کہ ایک منتخبہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر کیوں مکالمہ کررہے ہیں؟
اگر دہلی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی حکومت خود منتخب کرتی ہے تو پھر یہاں کی منتخبہ حکومت نے اپنے علاقے میں این ایس اے کو اپنی جگہ کیسے دے دی؟ اول تو ہر بات پر یہ دلیل دینا کہ "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے” دہلی سرکار کی قوت ارادی کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے، دوسرے معاملے کا دہلی پولیس یعنی وزارت داخلہ کے بھی پار چلے جانا آخر کس رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ آدھی ریاست کا رونا روتے ہوئے کیا اروند کیجریوال خود بھی "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep state) کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیجریوال کی آدھی ادھوری طاقت میں اور کتنے دن باقی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر پوری کرونولوجی دیکھیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اتوار کی شام، سموار اور منگل کو فسادات ہوئے تھے۔ دہلی میں پچاسوں گواہ ہیں جو بتائیں گے کہ انھووں نے کتنے ایم ایل اے اور وزراکو فون لگایا۔ ایک وکیل نے نومنتخب ایم ایل اے آتشی مارلینا سے فون پر التجا کی تودوسری جانب سے آواز آئی ،”یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔”راقم الحروف نے بدھ کے روز دو بار وزیر گوپال رائے کو فون کیا، نہ ہی فون اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کال بیک ہوا ۔دو دن بعد آخر کار چارو ناچار کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گئے، جہاں شہید سپاہی رتن لال کے دروازے پر مقامی لوگوں نے انھیں اور منیش سسودیا کو پیچھے دھکیل دیا۔” کیجریوال واپس جاؤ”کے نعرے لگ گئے، وہ لوٹ آئے۔
اگلی صبح انھوں نے دہلی اسمبلی میں اپنی تقریر کا آغاز میلینیا ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کیا اور پھر فسادات پر آئے۔ ان کے اس جملے کو غور سے پڑھیں:
"میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ان فسادات سے کس کا نقصان ہوا۔ ان فسادات سے سب کو نقصان پہنچا۔ ان فسادات میں کون مرا، بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ویربھان کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ محمد مبارک کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ پرویش کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ ذاکر کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل سولنکی کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ شاہد کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ محمد فرقان کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل ٹھاکر کی موت ہوگئی،وہ ہندو تھا۔ ”
عام طور پر جہاں دو فرقوں کے مابین جھگڑے میں،مقتول اور حملہ آور دونوں کی شناخت بتانا صحافت میں ممنوع ہوتاہے، وہیں ایک منتخب رہنما اور وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقتولین کا مذہب بتا رہے تھے اور ایک ہندو کو ایک مسلمان کے ساتھ گنتی کرکے توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے دن پریس کانفرنس میں اپنی تقریر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کیجریوال نے لکھا،”ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔”
یہ کس کی زبان ہے؟ یہی بات منموہن سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے عہدے کے دوران لیفٹ وِنگ انتہا پسندی یعنی کمیونسٹ انتہا پسندی سے نبرد آزما ریاستوں کے ڈی جی پی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ اب یہی بات ہم گزشتہ چھ سالوں سے نریندر مودی کے منہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی ملک کی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کرنا چاہتا ہے تو پھر مقتولین کے مذہب کو گن کر لاشوں کے انبار کو متوازن کرنا ، اپنے دائرہ اختیار کو این ایس اے کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور چار سال سے اٹکے ہوئے دیش دروہ کے ایک فیصلے کو فساد کی گرمی کے درمیان پاس کر دینا کون سی سیاست ہے؟
بدھ کے روز اسمبلی جانے سے پہلے، کیجریوال کو اپنے دروازے پر طلبا اور نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعہ اور جے این یو کے طلبا نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کیجریوال اور دہلی حکومت کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور واٹر کینن اور لاٹھیوں سے انھیں کھدیڑا گیا۔ کیجریوال، جنھوں نے کبھی دفعہ 144 کو توڑ کر اور ایک دہلی کے قلب میں ریل بھون کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، جنھوں نے کبھی 26 جنوری جیسے حساس وقت کی بھی پرواہ نہیں کی، گزشتہ وہ ہفتے بالکل مختلف اوتار میں نظر آئے۔
کتنا دور کتنے پاس:
کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے کی منظوری کے بعد، جمعہ کی شام سے ہی ان کے پرستاروں میں کیجریوال کے بارے میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ وہی رائے دہندگان ہیں جنھوں نے 11 فروری کو انتخابی نتائج کے دن کیجریوال کی کامیابی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین باغ سے سیاسی فاصلہ بنا کر عام آدمی پارٹی نے حکمت عملی سے کام لیا جو درست تھا۔ جب کیجریوال نے سموار اور منگل کو فسادات سے دوری بنائی تو ان کے حمایتیوں کی منطق وہی پرانی تھی ، "دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے۔”
دہلی پولیس ساتھ نہ ہونے کی منطق میں جو بھی پھنسے ، انھوں نے اس حقیقت سے منھ موڑ لیا کہ ایسا کہہ کر کیجریوال نے 48 گھنٹوں کے لیے میدان فسادیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ ڈوبھال نے یہیں بازی مار لی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کیجریوال کے پاس دہلی پولیس ہوتی بھی تو کیا الگ ہوجاتا ؟ (یاد کیجیے الیکشن پرچار کے دوران اروند کیجریوال ایک سے زائد بار اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر دہلی پولیس ان کے پاس ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔مترجم)
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران دہلی پولیس کے پاس 13200فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ 23 فروری کو 700 پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی کال، 24 فروری کو 3400 کالز، 25 فروری کو 7500 کال اور 26 فروری کو 1500 کالز۔
اکالی دَل کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نریش گجرال کا ایک خط وائرل ہوا ہے ، جسے انھوں نے جمعرات کو دہلی پولیس کمشنر کو لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے لوگوں کے کہنے کے باوجود مصیبت میں پھنسے لوگوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ شرومنی اکالی دَل برسوں سے پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اگر اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کال پر دہلی پولیس عمل نہیں کرتی ہے تو پھر کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کو کس بات پر خوش فہمی ہے؟
در حقیقت ، لااینڈ آرڈر یعنی پولیس کا اپنے پاس نہ ہونا، دہلی حکومت کے لیے ایک آسان بہانہ تھا اور ہے، جس کے سہارے اس نے اہم امور سے خود کو دور رکھا۔ شاہین باغ میں شہریت مخالف ترمیم قانون تحریک سے متعلق کیجریوال کا بیان یاد رکھیں، جس میں انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو للکارا تھا کہ پولیس ان کی ماتحت ہے تو وہی راستہ کیوں نہیں خالی کرالیتے؟ اب ایک بار پھر انھوں نے اپنے کونسلر طاہر حسین کو پارٹی سے نکال کر اور ہر مجرم کو یکساں طور پر سزا دینے کا مطالبہ کرکے اپنا پلہ جھاڑ لینے والی سیاست کی ہے، جب کہ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انھوں نے کپل مشرا کے معاملے پر اب تک اپنی زبان نہیں کھولی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کپل مشرا بھی ان ہی کی پارٹی کے نیتا رہے ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کیجریوال کپل مشرا پر خاموش ہیں، وہی کپل مشرا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے والے جسٹس مرلی دھرکا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے!
پانچ سال پہلے کا سبق:
آخرکیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ لا اینڈ آرڈر کی آڑ میں متنازعہ معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی کیجریوال کی سیاست دراصل وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے، بلکہ مرکزی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید قریب ہونے کی ایک مشق ہے؟ "ڈیپ اسٹیٹ” (Deep State) یکطرفہ نہیں بنتی، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہیں۔ اگر ہم کیجریوال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ان کی تیسری انتخابی کامیابی میں "ڈیپ اسٹیٹ” کی شمولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور زیادہ پیچھے جائیں گے توہمیں وہی سوال اٹھانا پڑے گا جو نومبر 2014 میں اٹھایا گیا تھا لیکن جسے ہوا میں اڑا دیا گیا: "Modi for PM, Kejriwal for CM” کا نعرہ کس نے دیا تھا؟
اگر آپ اپنی یادداشت پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پر پراسرار طور پر ایک نعرہ شائع ہوا تھا جو کہتا تھا: "Delhi Speaks: Modi for PM, Arvind for CM”! جب اس پر ہنگامہ ہوا تو پارٹی نے اسے فوراً ہی ہٹا دیا تھا، لیکن فروری 2015 میں دہلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ نعرہ عام آدمی پارٹی کے غیر آفیشیل انتخابی اعلان کی طرح ہوگیا۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا گیا کہ مودی کا وزیر اعظم بننا اور دہلی میں کیجریوال کی فتح دونوں ایک دوسرے پر منحصر مظاہر ہیں اور ضروری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آج سے چند سال قبل اس طرح کی باتوں کو سازشی تھیوری سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جاتا تھا۔ کانگریسی لیڈر آنند شرما نے توکھل کر اس تھیوری کو میڈیا میں ڈال دیا تھا لیکن اس وقت سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ڈوبھال این ایس اے تھے ، نہ مودی وزیر اعظم تھے اور نہ ہی اروند کیجری وال دہلی کےوزیر اعلیٰ۔
آج یہ تینوں اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ اگر دہلی جلتی ہے تو مودی احمد آباد میں ہوتے ہیں ، ڈوبھال سڑک پر ہیں اور اروند کیجریوال اپنے گھر میں۔ کیا کچھ اور یاد کرنے کرانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
[email protected]
اتوار ۳۲ فروری کو بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں ایک ریلی کی اور اسٹیج پر ایک ڈی سی پی کی موجود گی میں ریلی میں شامل لوگوں کی طرف سے دہلی پولس کو وارننگ دی کہ اگر ٹرمپ کے جانے تک آپ نے چاند باغ اور جعفرآباد علاقوں میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نہیں ہٹایا تو پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے ہمیں راستے پر آنا پڑے گا۔ کپل مشرا کا یہ بیان دراصل اس پریشر کوکر کی سیٹی تھی جو دہلی اسمبلی انتخابات کی پرچار مہم کے دوران وزیر اعظم مودی جی نے سنیوگ اور پریوگ کی سیاست کے نام، وزیر داخلہ امت شاہ نے شاہین باغ کو کرنٹ پہنچانے کے نام،مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے گولی مارو سالوں کو کے نام کپل مشرا نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ مقابلے کے نام اور گری راج سنگھ نے اسلامک اسٹیٹ کے نام تیار کیا تھا، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف خوب مسالہ بھرا تھا اور اسے نفرت کی آگ پر رکھ چھوڑا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ جب یہ پریشر کوکر پھوٹے گا تو ووٹوں کے ذریعہ ان کو فائدہ پہنچائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کا ووٹ فیصد ضرور بڑھا لیکن وہ ہار گئے۔ شاید اسی ہار سے بوکھلا کر انہوں نے اس پریشر کوکر کو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں خاص طور سے مسلمانوں پر پھوڑ دیا۔ یوں تو کپل مشرا نے ٹرمپ کے جانے تک شانتی بنائے رکھنا کا اعلان کیا تھالیکن شاید اسے بھی دوسروں کے سر تھوپنے کے لئے ٹرمپ کی موجودگی میں ہی اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنا دیا، ویسے بھی کوکر میں پریشراتنا تھا کہ تین دن تک اس کا نہ پھٹنا ممکن نہیں تھا، نفرت کی آگ میں دہک رہے لوگ تین دن کا صبر نہیں کرسکے اور انہوں نے چن چن کر مسلمانوں اور ان کی گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور سی اے اے کے خلاف پرامن مظاہرین پر بری طرح لاٹھیاں برسانے والی، آنسو گیس کے گولے داغنے والی، یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں گھس کے طلبا کو بری طرح مارنے والی، یہاں تک کہ نہتے مظاہرین پر فائرنگ تک کرنے والی پولس نے سی اے اے کے حمایتیوں کے ذریعہ ہوئے فساد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، لاٹھی چارج اور فائرنگ تو دور کی بات ہے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لئے پولس کی طرف سے آنسو گیس کے گولے داغنے کی بھی کوئی خبر نہیں ہے بلکہ scroll.in نے ۵۲فروری کے ایک مضمون میں مختلف رپورٹرس کے ٹویٹ کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ پولس یا تو چپ چاپ کھڑی فسادیوں کی بربریت کا تماشہ دیکھتی رہی یا خود بھی ان کے ساتھ فساد میں شامل ہو گئی، کہیں تو فسادیوں نے اپنا سمجھتے ہوئے پولس کے لئے ناشتے وغیرہ کا بھی انتظام کر رکھا تھا جسے اس نے قبول بھی کیا۔ پولس کا یہ رویہ حیرانی کی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اور نظام قانون و انصاف کے لئے شرم کی بات ہے۔ فسادات پولس نے کنٹرول نہیں کئے بلکہ اس وقت کنٹرول ہوئے جب قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوال میدان میں اترے فساد زدہ علاقوں کے گلی کوچوں میں گئے لیکن یہ بھی پورے تین دن کے ننگے ناچ کے بعد ہوا اور اس میں بھی فسادیوں پر اور انہیں بھڑکانے والوں پر کسی کارروائی کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ مسلم علاقوں میں جاکر ان شاء اللہ ماشاء اللہ کا دور چلایا گیا،سوال یہ ہے کہ ڈوال صاحب نے یہی کام فسادات کی ابتداء میں کیوں نہیں کرلیا؟ اگر ڈوال صاحب شراعات میں ہی مورچہ سنبھال لیتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوئے ہوتے۔ کیا سرکار نے کوئی ٹارگیٹ سیٹ کر رکھا تھا جس کے لئے تین دن درکار تھے؟ کیا ڈوال صاحب مسلم علاقوں میں یہ پیغام دینے گئے تھے کہ ان گھبرانے کی ضرورت نہیں اب کھیل ختم ہوچکا مقصد حاصل ہوچکا؟ یہ فسادات دراصل سرکار کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں یہ ہم نہیں کہہ رہے خود سرکار کے فیصلے اور اس کے افسروں کی باتیں کہہ رہی ہیں، ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ سرکار فسادات کو روکنے کے لئے فساد بھڑکانے والے اپنے لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس ضمن میں جب دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے ایک عرضی کی سماعت کے دوران دہلی پولس پر پھٹکار لگاتے ہوئے کمشنر اور سالیسیٹر جنرل کو بھڑکاؤ بھاشن دینے والے بی جے پی لیڈروں انوراگ ٹھاکر پرویش ورما اور کپل مشرا پر ایف آئی آر درج کرنے کے متعلق فیصلہ کرنے اور دوسرے ہیدن کورٹ کو جانکاری دینے کا حکم دیا اور پوچھا کہ ان لیڈروں پر پہلے ہی کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو دونوں افسروں نے اول تو اس میں ٹال مٹول کرتے ہوئے ایک دن کا وقت مانگا اور پھر صاحب اسی دن رات میں سرکار نے جسٹس مرلی دھر کا دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کالیجیم اس تبادلے کی سفارش پہلے ہی کرچکا تھا لیکن عین اس وقت جب کہ دہلی میں فساد جاری تھا اور اس فساد کو روکنے کے لئے جج صاحب اہم سنوائی کر رہے تھے پولس کے متعلق ان کا رویہ بھی سخت تھا اور اگلے ہی دن اس ضمن میں کوئی اہم فیصلہ ہونا تھاایسے وقت میں آناً فاناً ان کا تبادلہ کردئے جانے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتاہے کہ سرکار نہیں چاہتی کہ فسادات کنٹرول نہ کرنے والی پولس پر کوئی قانونی آنچ آئے اور فسادات کے محرک بنے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے لیڈروں پر کارروائی کی جائے اور ہوا بھی ایسا ہی جب اگلے دن دوسری بینچ نے مذکورہ عرضی کی سماعت کی تو جیسے فیصلہ ہی بدل گیا،جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے نیتاؤں پر آف آئی آر درج کرنے کے جس فیصلے کے لئے مشکل سے ایک دن کا وقت دیا تھا اب اسی فیصلے کے لئے نئی بینچ نے چار ہفتوں کا وقت دے دیا ہے۔ یعنی بھیا کپل مشرا بولتے رہئے۔ اور اب تو انہیں کپل مشرا کے مقابلے طاہر حسین مل گیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس کے چھت پر فسادی سامان ملا اور اس نے ہی انفارمیشن بیورو کے ایک افسر کو قتل کیا، فسادات بھڑکانے والا بیان دینے والے اور اس ضمن میں خود پولس کو وارننگ دینے والے کپل مشرا پر تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی وہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنی گرفتاری کی مانگ کرنے والوں کو دہشت گردوں کے حمایتی کہہ رہے ہیں۔ طاہر حسین کو بھی تا دم تحریر گرفتار تو نہیں کیا جاسکا لیکن اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے اس کی پراپرٹی سیل کردی گئی ہے۔ دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ کپل مشرا کی پارٹی بی جے پی اس کے بچاؤ میں کھڑی ہے جبکہ طاہر حسین کی پارٹی عآپ نے ابھی تحقیقات ہونے اور گناہ طے ہونے سے پہلے ہی اسے ڈس اون کر دیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ طاہر حسین پر کوئی کارروائی نہ ہو ہمارا کہنا تو یہ ہے اگر وہ واقعی مجرم ہے تو اس کے خلاف کٹھور کارروائی ہو لیکن اتنی ہی کٹھور کارروائی فریق مخالف کے دنگائیوں پر اور دنگا بھڑکانے والوں پر بھی ہونی چاہئے، جس طرح فسادات مسلم مخالف تھے اسی طرح کارروائی بھی یک طرفہ مسلمانوں کے خلاف نہ ہو۔لیکن ایسا کچھ ہوگا اسکی کوئی گارنٹی نہیں کیوں کہ خبروں کے مطابق ابھی بھی بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بی ایل سنتوش پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کہا کہ ’گیم اب شروع ہوا ہے‘ بعد میں اسے چینج کر کے کہا کہ ’فسادیوں کو انڈین قانون کے ایک یا دو سبق سکھائے جانے چاہئے‘ چہ معنی دارد؟ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ فسادیوں سے ان کی مراد اپنی پارٹی کے اشتعال انگیز لیڈر ہوں، یعنی کیا اب مسلمانوں کے خلاف پولس کارروائی کا فساد ہوگا؟ مسلمانوں کو قانونی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ کیجریوال کی کارروائی بھی دیکھئے،مانا کہ پولس ان کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن لوگ تو ان کے ہیں، دلی کے لوگوں کی اکثریت نے انہیں منتخب کر کے وزیر اعلیٰ بنایا ہے اور انہیں دیکھئے کہ ادھر دلی جل رہی ہے اور وہ اپنے ممبران کے ساتھ راج گھاٹ پر امن کے لئے دعا کرنے بیٹھ گئے، ارے صاحب جس طرح آپ ووٹ مانگنے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکلے تھے اسی طرح اب لوگوں کو فسادات سے باز رکھنے کے لئے اورفسادات سے بچانے کے لئے بھی سڑکوں اور گلی کوچوں میں آپ کو جانا چاہئے تھا، جو کام پولس نہیں کرسکی وہ کام آپ کے جانے سے ہوسکتا تھا،عآ ؑپ کے سبھی ممبران اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کرفساد زدہ علاقوں میں نکل جاتے تو دنگائیوں کی ہمت بھی ٹوٹتی،اور پولس بھی شرم کے مارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے لگتی لیکن گاندھی واد کا ڈھونگ کرنے والوں کو یہ نہیں سوجھا۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ جس گاندھی کی سمادھی پریہ امن کی دعا مانگنے کے لئے گئے تھے فسادات روکنے کے لئے وہ گاندھی اکیلا فسادیوں کے بیچ چلا جایا کرتا تھا؟پولس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے کہہ کر انہوں نے دراصل اپنی اخلاقی ذمہ داری سے منھ موڑا ہے؟ انہوں نے فساد متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا بہت اچھا کیا قابل ستائش کام کیا لیکن زخم لگنے سے روکنا مرحم لگانے سے بہتر اہم اور ضروری ہوتا ہے یہ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز / رام چندر گوہا
بھارتیہ جنتا پارٹی میں دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اور دہلی کے فساد میں سرکار کی ناکامی سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پولس کمشنر کے پر کترے گئے۔ دوسرے شخص کو اسپیشل پولس کمشنر کے عہدے پر بٹھایا گیا، پھر دہلی کا پورا چارج قومی دفاع کے صلاح کار اجیت ڈوبھال کو دے دیا گیا۔ یہ دونوں کام وزیر اعظم نے ہی کیا ہوگا۔ اس میں وزیر داخلہ کا کتنا دخل ہے کہنا مشکل ہے۔ ممتاز صحافی آسو توش کا کہنا ہے کہ امیت شاہ سے کویا تو حاشیہ پر لاکھڑا کر دیا گیا یا دہلی کے نظم و نسق کو پٹری پر لانے کی ایسی کوشش کی گئی ہے۔
آج (29فروری) مشہورکے تاریخ داں رام چندر گوہا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں شائع ہوا ہے۔ "The home minister must be replaced, but that is unlikely to happen.” (وزیر داخلہ کو بدلنا ضروری ہے مگر ایسا شاید ہی ہو- نظریاتی تعلق مانع ہوگا)۔
مسٹر رام چندر لکھتے ہیں کہ ”جیسے ہی نریندر مودی 2019ء کے انتخاب میں کامیاب ہوئے میں نے اپنے ایک کاروباری دوست سے جو اپنی تجارت کو ٹیکنیکل جدت کاری سے ترقی دی اور جو غیر متعصب ہے اور سیاست دانوں سے احتراز کرتا ہے، بات چیت کی جس کا میں معترف ہوں، حلف وفاداری سے پہلے میرے کاروباری دوست کو بڑی بے چینی تھی کہ کابینہ میں کن لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ دوسری بار کے الیکشن میں بھی کامیابی کا سہرا امیت شاہ کے سر باندھا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر کے بجائے حکومت میں کوئی بڑا عہدہ سنبھالیں گے، مگر کون سا عہدہ ان کو دیا جائے گا اس پر قیاس آرائی زوروں پر تھی۔ عام طور پر یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ انھیں وزیر خزانہ کا عہدہ سونپا جائے گا۔ اس سے میرے کاروباری دوست کو بیحد اضطراب اور بے چینی تھی کیونکہ امیت شاہ کے اندر جارحیت اور لا ابالی پن ہے۔ وہ کب کیا کریں گے کہنا اور سمجھنا مشکل ہے۔ ملک کی معاشی حالت بدتر ہے۔ بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ایسے وقت میں امیت شاہ جیسے شخص کو وزیر خزانہ بنانے کی بات سے میرے دوست اور دیگر کاروباری لوگ بیحد پریشان تھے۔
آخر کار امیت شاہ کو وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ اس سے کاروباری دنیا کے لوگوں کو راحت ملی۔ ناتجربہ کاری کے باوجود نرملا سیتا رمن کے بارے میں ان لوگوں نے سوچا کہ وہ کم خراب ثابت ہوں گی“۔
تاریخ داں رقمطراز ہیں کہ ”مجھے امیت شاہ کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پہلے سے ہی ہیں۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت ہے۔ الیکشن لڑانے کی بھی قابلیت ہے مگر الیکشن میں کامیابی اور ایک وزیر کی حیثیت سے اپنے عہدہ کے حق کی ادائیگی اور ذمہ داری بالکل دوسری چیز ہے۔ ایک ایسا متعصب شخص جو اقلیت کا کھلا دشمن ہو اس پر لوگ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟میرے اندر یہ احساس تھا۔ امیت شاہ ایک اچھے یا خراب وزیر خزانہ ہوسکتے تھے، یہ ایک قیاس آرائی تھی مگر اس وقت وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا وزیر داخلہ ہونا تباہ کن ثابت ہوچکا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کو ہٹانا اور شہریت کیلئے سیاہ قانون سازی سے ہندستان کی سوسائٹی کو دو حصوں میں بانٹ دینا تباہی کو دعوت دینا ہے۔
یہ کہنا کہ دفعہ 370 کے ہٹانے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی یہ ایک خواب و خیال کی بات تھی۔ جو لوگ بھاجپا کی تاریخ اور پالیسی سے واقف ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کشمیر جیسا مسلم اکثریتی علاقہ ان کی نظر میں کھٹکتا تھا جسے وہ کمزور و کمتر کرنا چاہتے ہیں۔ ’سی اے اے‘ کو انھوں نے ہندو/مسلم کو دو حصوں میں بانٹنے کیلئے بنایا ہے۔ باہر کے تین ملکوں سے مذہبی ایذا رسانیوں سے عاجز غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات ایک بہانہ ہے۔ اصل میں مسلمان ان کا نشانہ ہے کہ ان کو کیسے ستایا اور پریشان کیا جائے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے بار بار ’این آر سی‘ کے نفاذ کی باتیں ہوئیں اور بعد میں سی اے اے کے نفاذ کے متعلق تکرار سے باتیں دہرائی گئیں جن سے مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس شدت کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلمانوں نے کالے قانون کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔ خاص طور پر مسلم خواتین مردِمیدان بنیں اور ملک بھر میں یہ تحریک زوروں سے چل پڑی اور مقبول عام ہوگئی۔ اس تحریک میں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی قابل لحاظ حدتک شریک ہونے لگے ہیں۔ یہ تحریک اتنے زوروں پر ہوگی اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت اتنی زبردست ہوجائے گی مودی اور شاہ کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ میں مگن تھے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے بیرون ملک ہندستان اور سرکار کی زبردست بدنامی ہورہی ہے۔ سی اے اے سے بھی بیرونی ممالک ناخوش ہیں اور مذمت و مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ ملک بھر میں اس احتجاج کی مقبولیت ہورہی ہے اور دھرنا تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے پھر بھی وزیر اعظم کی ضد ہے کہ وہ ایک انچ بھی ’سی اے اے‘ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر وہ فرماتے رہتے ہیں کہ ان کا ’این آر سی‘ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے برعکس ان کے وزیر داخلہ کا رخ کچھ اور ہے۔ وہ سی اے اے پر بضد ہیں اور این آر سی سے بھی سی اے اے کا تعلق ہے اس پر اپنی رایوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
دسمبر 2019ء کے آخری ہفتہ میں یہ بالکل عیاں ہوگیا تھا کہ CAA (شہریت ترمیمی قانون) hot potato (شکل اور پیچیدہ) ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہوتا گیا“۔
مسٹر رام چندر گوہا آگے لکھتے ہیں کہ ”میں نے ایک دانشور سے جو سرکاری افسر رہ چکا ہے جو ہندستان کی تاریخ جدید پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ایک لمبی گفتگو کی جس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی شخصیت اور دونوں کے تعلق پر ایک اچھا خاکہ پیش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے تعلقات کچھ ایسے ہیں جیسے ماضی میں جواہر لعل نہرو اور کرشنا مینن کے تھے۔ دونوں میں ایک نظریاتی تعلق تھا اور ذاتی لگاؤ بھی تھا۔ دونوں سماج وادی جمہوریت پسند (Democratic Socialist) تھے۔ دونوں فطری طور پر امریکہ کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کرشنا مینن نہرو کی نازک حالات میں ایک ادبی ایجنٹ کی حیثیت سے کتاب وغیرہ فراہم کرنے میں مدد کرتے تھے۔ 1930ء میں ان کی کتابوں کی اشاعت کیلئے یورپ کا دورہ بھی کیا تھا۔
آزادی کے بعد کرشنا مینن نے امریکہ میں سفیر ہند کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد بیرون ملک خاص طورسے اقوام متحدہ میں ہندستان کے مفادات کی نمائندگی کی۔ بعد میں جواہر لعل نہرو نے انھیں اپنی کابینہ کے اہم عہدہ پر فائز کیا۔ 1959ء میں فوج کے سربراہ کے ایس تھیمیا سے کھلے عام لڑ پڑے۔ اسی سال چین نے ہماری سرحدوں پر حملے کردیئے۔ اس وقت یہ بالکل عیاں تھا کہ کرشنا مینن کی دوسری چیزوں کے علاوہ ان کی تلون مزاجی اور جارحیت مغرب سے ہتھیاروں کی سپلائی مشکل میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے جواہر لعل نہرو کیلئے کرشنا مینن قرضہ جات (Liabality) بن گئے تھے۔ انھیں 1959ء میں ہٹا دینا چاہئے تھا مگر نہرو ان کی ہر غلطی اور خامی کو نظر انداز کرتے رہے۔ 1962ء تک کام سے لگائے رہے لیکن چین کے ہاتھوں ہندستان کی شرمناک شکست کی وجہ سے کرشنا مینن کو از خود گدی چھوڑنی پڑی۔
ہمارے اور سول سرونٹ دانشور کے مکالمہ کے دوران اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا امیت شاہ نریندر مودی کیلئے اس وقت وہی ثابت نہیں ہورہے ہیں،جو جواہر لعل نہرو کے آخری دور میں کرشنا مینن ان کیلئے ثابت ہوئے تھے۔ میں نے کہاکہ ان دونوں کے تعلقات ان دونوں کے مقابلے میں گہرے ہیں لیکن کچھ دنوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ ایسا لگا کہ وزیر اعظم اپنے وزیر داخلہ کو بدل دیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ نہرو اور مینن کی طرح دونوں ذاتی طور پر گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ایک ہی نظریہ اور مسلک سے منسلک ہیں۔
مکالمہ کے دو مہینے بعد امیت شاہ نے زبردست طریقے سے دہلی الیکشن میں پولرائزیشن کیا۔ پولس کی رپورٹ کے مطابق جب بی جے پی کے سیاستدانوں نے نفرت انگیز اور زہر آلود تقریریں کیں تو وہ خاموش رہے جس کی وجہ سے دہلی جلنا شروع ہوگئی، جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ہندستان کے دورے پر تھے۔
امیت شاہ کو وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ایک سال سے کم ہواہے لیکن اس مدت میں ہمارے سماج کا تانا بانا، ان کی گفتار و کردار کی وجہ سے انتہائی بگڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ آواز مسلسل اٹھ رہی ہے کہ ایک نئے وزیر داخلہ کا تقرر کیا جائے۔ وزیر اعظم کو یہ گونج ضرور سنائی دے رہی ہوگی۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس پر لوگوں کو شک و شبہ ہے کہ اس وقت جو انصاف اور قومی مفاد کا تقاضہ ہے کیا وہ پورا کرسکیں گے؟“
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی فساد کی بابت ایک دوست نے پوچھا : اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب دیا : وہی جو ہم کرتے ہیں تو وہ تعجب سے بولے: لیکن ہم لوگ تو بڑے سکون سےاقامت دین کا کام کررہے تھے کہ درمیان میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ اب ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ان سے دریافت کیا کہ ہم لوگ اقامت دین کا کام کیوں کرتے ہیں ؟ وہ بولے : تاکہ دنیا کا نظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلے اور ہر سو عدل و انصاف قائم ہوجائے ۔ سوال کیا : اگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے تو کیا فرقہ وارانہ فساد ہوں گے؟ یا ان کو جاری و ساری رہنے کی چھوٹ ملے گی؟ تووہ بولے : یہ کیسے ممکن ہے؟ پھرپوچھا : تو کیا آپ فساد کی آگ بجھاتے رہنا چاہتے ہیں ، لیکن اس کو لگنے سے روکنا نہیں چاہتے؟ انہوں نے کہا : جی ، اسی لیے ہم اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں اور یہی ہمارے لیے رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے ، مگر کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان نامساعد حالات میں بھی ہم انہیں روایتی سرگرمیوں میں مصروف رہیں؟ جب پوچھا کہ یہ کس نے کہا تو وہ خاموش ہوگئے۔
زندہ تحریکات اپنے حالات سے بے نیاز نہیں ہوتیں ۔اس دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے تقاضے ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے ۔ وقت کے ساتھ مختلف سرگرمیوں کی اہمیت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔ فسادات کے دوران اس کو رکوانے کے لیے انتظامیہ پر سیاسی اور سماجی دباو ڈالنا۔ فساد کا شکار ہونے والوں کی باز آباد کاری کا اہتمام کرنا۔ پست ہمت ہونے والے لوگوں کا حوصلہ بلند کرنا ۔ زخمیوں کا علاج کروانا، یتیم اور بیوہ ہونے والوں سہارہ بن جانا اور فساد برپا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلانے کی جدوجہد کرنا وہ اضافی کام ہیں جو ان حالات کا تقاضہ ہوتے ہیں ۔معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ یا انہیں قربان کرکے اس عارضی ذمہ داری کو اداکرنا لازمی ہوتا ہے لیکن یہ ساری سرگرمیاں بھی اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں جس کے لیے تحریک اسلامی برپا ہوئی ہے۔ یہ کوئی الگ سے کیا جانے والا کام نہیں ہے اور ان کی اہمیت یا اجروثواب کسی صورت کم نہیں ہے۔
فساد کے زمانے میں جب کے مکان و روجان کے جلنے اور لوگوں کے مرنے کی خبریں اور ویڈیوز کی سوشیل میڈیا میں بھرمار ہو جاتی ہے توعوام کے اندر ہیجان و اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ایسےمیں انسان کے اندر ٹھہراؤ نہیں رہتا ، عقل ماند پڑ جاتی ہے اور راہِ حق پر گامزن رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں فرمانِ ِ ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبرو نماز سے مدد لو، ‘‘۔آزمائش کے دوران مستقل مزاجی کے ساتھ مقصد حیات پر ڈٹے رہنا امشکل ہوتا ہے ۔ایسے میں صبر کے ساتھ نماز کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ بندۂ مومن جس طرح خوشی و غمی ہر حال میں نماز پڑھتا ہے، اسی طرح تنگی و آسانی کے مراحل میں اپنے مقصد حقیقی پر قائم رتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کی جدوجہد میں منہمک رہے۔ مشکل ترین حالات میں چونکہ ہم اگر نماز نہیں چھوڑ سکتے تو دین حق سے کیسے دست بردار ہوسکتے ہیں ؟صبر و نماز میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان کواپنے رب سے قریب ترکرکے اللہ کی مددو نصرت کا حقدار بناتے ہیں ۔ اس لیے آگے یہ بشارت دی گئی ہے کہ ’’ اللہ صبر کرنے الوں کے ساتھ ہے‘‘۔
انسان جب یہ بھول جاتاہے کہ قضاء و قدر کے فیصلے آزمائشوں کے توسط سے نافذ ہوتے ہیں تو تذبذب کا شکار ہونےلگتا ہے حالانکہ ارشادِ قرآنی ہے’’ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ محض یہ کہنے سے ، چھوڑ ئیے جائيں گے کہ ہم ایمان لے آئے ؟ اور ا ن کی آزمائش نہیں کی جائيگی ـ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ہم نے اُنہیں آزمایا تھا ( اور انہیں بھی آزمائيں گے ) سو اللہ ضرور معلوم کر لے گا جو ( اپنے ایمان میں ) سچے ہیں اور انہیں بھی ( جان لے گا ) جو کہ جھوٹے ہیں ـ (العنکبوت : 1 3). یہی بات ایک اور جگہ اس طرح فرمائی گئی ’’(اے اہل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائیگی‘‘۔ جہانِ فانی میں سنت الہی کی اس معرفت کے بعد مشکل ترین حالات میں صبر و استقلال کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنا سہل ہوجاتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
(اروند کیجری وال کی ایماپر دہلی پولس کا طلبہ پر ظلم اور میرے ساتھ بربریت کی انتہا،میری داڑھی نوچی گئی اور پولس والے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسلسل مارتے رہے، یہاں تک کہ میں لہو لہان ہوگیاـ جامعہ ملیہ اسلامیہ کےطلبہ لیڈرقاسم عثمانی کی آپ بیتی)
اس تحریک میں گزشتہ دو ماہ میں تین بار پولس کی بربریت کا شکار ہوچکا ہوں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ حوصلہ نہیں ٹوٹتا، لیکن ۲۶ فروری کی رات میں جو واقعہ پیش آیا اس نے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اس لیے لکھ رہا ہوں، کیوں کہ ایسے حالات ہو گئے ہیں کہ کسی کے ساتھ بھی یہ چیزیں پیش آسکتی ہیں اگر آپ کے ساتھ ہو تو حیران مت ہونا ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں پر یہ پتہ ہو پولس مار سکتی ہے تو وہاں مت جایا کرو تو میں ان کو یہ بتاناچاہتا ہوں کہ میرا دل ایسا نہیں ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے اپنے بھائی اور بہنوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھوں اور بس موبائل سے ویڈیو آگے شیئر کرکے یہ سوچ لوں کہ میں نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ جہاں تک بھی ہوتا ہے ظلم کے خلاف سڑک پر آواز اُٹھانے میں حصہ لیتا ہوں اور ان شاء اللہ لیتا رہوں گا۔ تین دن دلی جلتی رہی اور دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال راج گھاٹ پر آنکھ بند کرکے شانتی کا ڈرامہ رچتے رہے اور بار بار وزیر داخلہ سے حالات کو سدھارنے کی اپیل کرتے رہے، وہی وزیر صاحب جو ایک کمیونٹی کو کرنٹ لگا کر مار دینا چاہتے تھے۔ کیجری وال کی اس خاموشی پر جامعہ الومنائی ایسوسی ایشن اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے کیجری وال کے گھر جاکر ان سے سوال کرنے کا اعلان کیا،جب ہم کیجری وال کے گھر پہنچے اس وقت بھی ہر جگہ سے ظلم کی خبریں آرہی تھیں ،ہم نے ان سے بات کرناچاہا تو اندر سے خبر آئی صاحب ابھی سو رہے ہیں، صبح ساڑھے نو بجے اُٹھیں گے۔ تین دن ہم لوگ سو نہیں پائے لیکن ایک وہ وزیر اعلیٰ جو آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے مارے گئے لوگوں کے ووٹ پاکر وزیر اعلیٰ بنا وہ مزے کی نیند لے رہا تھا۔
ہم لوگوں نے ٹھان لیا تھا کہ بنا ملے ہم واپس نہیں جائیں گے لیکن وزیر اعلیٰ جس بنا پر اپنی لاچاری کا اظہار کرتا ہے کہ پولس ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے اس پولس کو اس نے طلبا پر حملہ کرنے کےلیے آگے کردیا ، پولس نے تین بج کر تیس منٹ پر ہمارے اوپر واٹر کینن کا استعمال کیا جس سے تمام طلبہ بری طرح بھیگ گئے لیکن ہم لوگ وہاں سے نہیں ہٹے اس کے بعد انہوں نے غنڈہ گردی کا اصل ننگا ناچ شروع کردیا، وہ لاٹھی لے کر ہمیں دوڑانے لگے ۳۰۰ میٹر تک ہمارے پیچھے بھاگتے رہے، ہم ایک جگہ جاکر رک گئے کیوں کہ ہم سوچ رہے تھے شاید سویا ہوا وزیر اعلیٰ طلبا کے مطالبات کو سنے گا لیکن وہ خواب میں بھی مجھے لگتا ہے کہ امیت شاہ سے امن کی اپیل کررہا ہوگا ۔ ہمیں چاروں طرف سے پولس نے گھیر لیا تھا، سبھی نے میری طرف اشارہ کیا کہ اسے پکڑو کیوں کہ میرے چہرے پر داڑھی تھی اور میرا لباس کرتا پاجامہ تھا۔ چار پانچ پولس والوں نے مجھے گھیر لیا اور مجھے مارنے لگے، مجھے سڑک پر ہی گرا دیا ایک پولس والا میری داڑھی کھینچنے لگا اورمجھے زبردستی پولس وین میں ڈال دیا۔ جیپ کے اندر ایک پولس والاتھا اس کی سوچ ایسی تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے،وہ بار بار کہہ رہا تھا میں کٹر گجر ہوں، تجھے کاٹ دوں گا اور لگاتار مجھے مارتے رہے،مجھے پاکستانی کٹوا کہتے رہے، وہ اپنے ہاتھوں سے بوٹ سے مار رہے تھے اور مارتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگا رہےتھے،وہ سوچ رہے تھے کہ میں بھی ان کے ساتھ یہ نعرہ لگاؤں، وہ اس طرح مار رہے تھے کہ کہیں سے خون نہ نکلے لیکن ایک پولس والے نے اپنا بوٹ میرے منہ پر مارا جس کی وجہ سے میرا پورا منہ خون سے بھر گیا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، مجھ سے اُٹھا نہیں جارہا تھا میرے اور دوسرے ساتھیوں کو دوسرے کمرے میں رکھا تھا مجھے زبردستی کھینچتے ہوئے اس کمرے تک لے کر گئے، وہاں بھی لگاتار میری داڑھی اور کرتے پاجامے پر غلط تبصرے کرتے رہے، اس کے بعد سب لوگوں کو ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا صرف مجھے چھوڑ کر، جب سب چلے گئے تو دو پولس والوں نے مجھے دوبارہ مارنا شروع کردیا اس کے بعد مجھے ایس ایچ او کے کمرے میں لے جایاگیا ۔ میں بالکل بھی بات کرنے کی حالت میں نہیں تھا ہمیں وہاں سے اسپتال لےجایاگیا، اسپتال میں بھی وہ لوگ مسلسل مجھے گالیاں دیتے رہے، ڈاکٹر کے سامنے مجھے ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا۔ ایک پولس والا بولا اسے رات ہی گولی مار دیتے دھرتی کا بوجھ ختم ہوجاتا ۔ پولس والے ڈاکٹر پر بار بار یہ دباؤ بناتے رہے کہ میڈیکل رپورٹ میں سب کچھ نارمل لکھنا، اس اندھے ڈاکٹر کو میرے منہ سے نکلتا ہوا خون بھی نظر نہیں آرہا تھا اور اس نے بھی یہی لکھ دیا۔خیر دوبارہ پولس اسٹیشن لایا گیا اور میں شکر ادا کرتا ہوں اللہ کا اور ان تمام لوگوں کا جنہوں نے بہت کوشش کرکے ہمیں ظالموں کے ظلم سے آزاد کرایا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نئی دہلی:اشتعال انگیز تقریر کرنے کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ وہ فی الحال کسی بھی شخص کے خلاف جلدبازی کیس درج نہیں کرناچاہتی ہے۔ اگرچہ اشتعال انگیز تقریروں کی ویڈیوز کی جانچ کی جارہی ہے لیکن پولیس کی پہلی ترجیح دہلی کے حالات کو معمول پرلانے کی ہے جس کے بعد کیس کی سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ٹال دیا گیا۔بی جے پی کے تین متنازعہ لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے اوپر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگانے والی درخواست پر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کیاہے۔ دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس کے پاس صرف ان رہنماؤں کے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ساری ویڈیوزموجودہیں جن کی پڑتال کی جا رہی ہے، اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان پر کارروائی کی جائے گی. دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنا ٹھیک نہیں ہوگا. کیونکہ اس وقت دہلی پولیس کو حالات کو معمول پر کی کوشش کر رہی ہے اس کے کام کاج کے اوپر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔وہیں مرکزی حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں قانون و انتظام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مرکزی حکومت کو پارٹی نہیں بنایاگیاہے،لہٰذامرکزی حکومت کو بھی اس میں پارٹی بنایا جائے تا کہ مرکزی حکومت بھی اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ سکے۔ مرکز کی اس مانگ کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو پارٹی بنا کر نوٹس جاری کیا اور 4 ہفتے میں جواب دینے کوکہا ہے۔سماعت کے دوران ہی دہلی پولیس نے کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ دہلی تشدد معاملے میں اب تک کل 48 ایف آئی آردرج کی جاچکی ہیں لیکن یہ تمام ایف آئی آر تشدد کے معاملے میں ہیں۔ پولیس علاقوں کے حالات کو جلد سے جلد معمول پرکرنے کی کوشش کر رہی ہے۔غور طلب ہے کہ کل دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مرلی دھرنے دہلی پولیس کمشنر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اشتعال انگیز تقریر معاملے میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے اس بات پر غور کریں اور کورٹ میں آج دہلی پولیس کو وہ رپورٹ دینی تھی لیکن آج اس معاملے کی سماعت جسٹس مرلی دھرکے سامنے نہیں بلکہ چیف جسٹس کے سامنے ہوئی۔ بتا دیں کہ کل اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کرنے والے تھے لیکن کل چیف جسٹس کے چھٹی پر رہنے کی وجہ سے جسٹس مرلی دھر نے معاملے کی سماعت کی تھی۔وہیں آج اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس نے کی اور انہوں نے مرکزی حکومت کو پارٹی بناتے ہوئے نوٹس جاری کرکے 13 اپریل تک جواب دینے کو کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی سماعت 13 اپریل کو ہوگی۔
نئی دہلی:دہلی میں ہوئے تشددکی تحقیقات کے لیے خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔ دہلی پولیس کے ایڈیشنل سی پی کرائم بی سنگھ کی قیادت میں یہ ایس آئی ٹی کام کرے گی۔ کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی کی دوٹیمیں بنائی گئی ہیں جو مل کر نارتھ ایسٹ دہلی میں تشدد کی تحقیقات کریں گی۔دہلی میں ہوئے تشددمیں اب تک مرنے والوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔تشددکے معاملات میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اورکیسزدرج کیے جارہے ہیں۔تقریباََایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔ایس آئی ٹی (خصوصی تفتیشی ٹیم) کی جانچ ٹیموں کے سربراہ دوڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ایک ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے اور دوسری ٹیم کے سربراہ ڈپٹی کمشنر راجیش دیوہوں گے۔ دونوں ٹیموں میں چار چار اے سی پی ہوں گے۔یعنی کل آٹھ اے سی پی شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں میں تین تین انسپکٹر، چار چار سب انسپکٹر اور پولیس اہلکار شامل رہیں گے۔دہلی پولیس کے ترجمان ایم ایس رندھاوا نے بتایاہے کہ دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے میں اب تک 48 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 اور کیسز درج کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک ہزار سی سی ٹی وی فوٹیج ملے ہیں جن کی جانچ کی جا رہی ہے۔رندھاوا نے بتایا کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات کنٹرول میں ہیں اورحالات بالکل عام ہیں۔ پہلے کے مقابلے پی سی آر کال بہت کم آ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امن کمیٹی کے ساتھ مل کر امن کی اپیل کی جا رہی ہے۔ہر زاویہ سے تشدد کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔کئی جگہ چھاپے ماری چل رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تشددکی مکمل تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی سے ہوگی۔ یہ ایس آئی ٹی کرائم برانچ کی ہوگی۔
(وائس چانسلرنلسار یونیورسٹی آف لا،حیدرآباد)
ترجمہ:نایاب حسن
بتیسویں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بارکہاتھاکہ ”ایسی جمہوریت زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتی،جواپنی اقلیتوں کے حقوق کے اعتراف کواپنے وجودکی بنیادنہیں سمجھتی“۔دہلی کے حالیہ فسادات میں تیس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں،گھروں کونذرِ آتش کیاگیااور ایک پوری مارکیٹ کوجلادیاگیاہے،مگر جو منظرلمبے عرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ کودہشت زدہ رکھے گا،وہ اشوک نگرکی بڑی مسجد کی شہادت کا منظر ہے،اس نے6دسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پروفیشنلزم کے فقدان پر دہلی پولیس کوڈانٹ پلائی ہے،دہلی ہائی کورٹ نے بھی کہاہے کہ وہ دہلی میں دوسرا1984نہیں ہونے دے گا۔مسلمانوں نے بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیا، حالاں کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں تھیں۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے پر چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزراہے کہ دہلی میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔عہدِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کیاہوگا،مگر اُس وقت اِس ملک میں وہ آئین نہیں تھا،جوکہ اب ہے۔
دستورسازی میں شامل ہمارے ملک کے دوراندیش رہنماؤں کواقلیتوں کے اندیشوں کا ادراک تھا؛اسی وجہ سے انھوں نے ان کواپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے اوراس کی تشہیر وتبلیغ کا حق دیا اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔مہاتما گاندھی نے تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہاتھاکہ ایک ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسابرتاؤ کرتاہے۔دستور ساز اسمبلی میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں تجویز پیش کرتے ہوئے جی بی پنت نے کہاتھا”اقلیتوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کااطمینان بخش حل ہی آزاد ہندوستان کی صحت،ترقی اور مضبوطی کو یقینی بنائے گا،جب تک کہ ملک کی اقلیتیں پوری طرح مطمئن نہ ہوں،ہم ترقی نہیں کرسکتے؛بلکہ ہمارے لیے اچھی طرح ملک میں امن و امان قائم رکھنا بھی مشکل ہوگا“۔
دستورکے آرٹیکل25سے30تک کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے۔اس کے باوجود گزشتہ کم ازکم پانچ سالوں کے دوران ایک کے بعد دوسرے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوں کو”اینٹی نیشنل“ اورملک کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاگیا۔2014کے جنرل الیکشن میں ”گلابی انقلاب“کا حوالہ دینا،2016میں آسام الیکشن کے دوران تمام بنگلہ دیشی مہاجرین کو ملک سے باہر کرنے کی بات کرنا،انھیں دیمک قراردینااور حالیہ دہلی الیکشن کے دوران”گولی مارو…“جیسے نعرے لگانا سب اسی منظم نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے مجرم ہیں،گرچہ انھوں نے بعد میں اپنے بیان پر معافی مانگی اوراسے واپس لے لیا،جبکہ انوراگ ٹھاکر یا کپل مشرانے ایسانہیں کیا۔
منگل کے دن الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی ایک نچلی عدالت کو ایک کیس پرآگےکارروائی سے روکاہے،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ گیان واپی مسجد1664میں اورنگ زیب کے ذریعے کاشی وشوناتھ مندر کوتوڑکربنائی گئی تھی۔حتی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ(1993)میں ”عدمِ رجوع کا تحفظ“ملک کے سیکولر اقدار کا ایک لازمی جز ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کیاتھاکہ”عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ بنیادی طورپرایک سیکولرسٹیٹ کے فرائض کاحصہ ہے۔یہ تمام مذاہب کی برابری کے تعلق سے ہندوستان کے عہد کی عکاسی کرتاہے۔اس سب سے اوپر عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس پختہ ذمے داری کا اعتراف ہے جوکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی دستوری قدر کے طورپرتمام مذاہب کی برابری کا تحفظ کرے،یہ ہمارے دستورکاایک بنیادی وصف ہے“۔
اس ایکٹ میں تمام عبادت گاہوں کی صورتِ حال کو15اگست1947کی حالت پر برقراررکھنے کی بات کی گئی ہے۔اسی وجہ سے کورٹ نے تبصرہ کیا کہ”قانون تاریخ اور قوم کے مستقبل سے خطاب کرتا ہے، تاریخی غلطیاں ان لوگوں کے ذریعے نہیں ٹھیک کی جاسکتیں،جو قانون کواپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔عوامی عبادت گاہوں کے تحفظ کے سلسلے میں پارلیمنٹ نے واضح طورپر کہاہے کہ تاریخ اور تاریخی غلطیوں کو حال اورمستقبل کوبربادکرنے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا“۔
سپریم کورٹ نے22-23دسمبر1949کاحوالہ بھی دیاتھا،جب کچھ بیراگی زبردستی بابری مسجد میں جاگھسے اور مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے خفیہ طورپررام کی مورتیاں نصب کردی تھیں۔کہاجاتاہے کہ مورتیوں کی تنصیب ہی”مسجدکے انہدام اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر مسلمانوں کو اس سے بے دخل کرنے کاسبب بنی“۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس وقت بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں یقین دہانی کے باوجود اسے منہدم کردیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اب تک عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کلیان سنگھ کو کوئی سزانہیں دے سکاہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے صاف طورپر کہا تھا کہ”مسجد کا انہدام اوراسلامی ڈھانچے کو گراناقانون کی حکمرانی(rule of law)کی شرمناک خلاف ورزی تھی“۔
بابری مسجد شہادت کے دوملزمین اب نئے رام مندر ٹرسٹ کے ممبرہیں،اگریہ مسجد کومنہدم کرنے کاانعام نہیں توکیاہے؟حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مجرمانہ کیسز میں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک حقیقت جس پر زیادہ بات نہیں ہوتی،وہ یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بارہااُس کارسیواسے منع کیاتھا،جوبابری مسجد کے انہدام پر منتج ہوا۔یہ اطلاعات تھیں کہ مسجد کو منہدم کرنے کے آلات بڑی تعداد میں ایودھیا پہنچائے جارہے ہیں،مگرایسالگتاہے کہ فیصلہ سازی میں غلطی ہوئی۔2017میں سپریم کورٹ نے ریاستِ گجرات بنام آئی آرسی جی کیس میں 2002کے گجرات فسادات کے دوران 567 مذہبی مقامات،مساجد،درگاہوں اور خانقاہوں کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی ذمے داری حکومتِ گجرات پر ڈالنے سے منع کردیا،جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کوان مقامات کی مرمت اور تعمیرِ نوکا حکم دیاتھا؛بلکہ یہ بھی کہاتھاکہ اگر ان جگہوں کے متولی اور دیکھ ریکھ کرنے والوں نے ان کی تعمیر یا مرمت کروالی ہے،تواس پر ہونے والا خرچہ حکومت اٹھائے۔اس کیس میں جسٹس دیپک مشرااورجسٹس پی سی پنت کی دورکنی بنچ نے پرائیویسی فیصلے میں نو ججوں کی بنچ کے اس نظریے کو نظرانداز کردیاکہ بنیادی حقوق کوایک ساتھ پڑھنا چاہیے، گودام میں بند ہوکر نہیں۔دوججوں کی بنچ نے یہ بھی کہاتھاکہ معاوضہ صرف اس صورت میں دیاجائے گا،جب زندگی اور شخصی آزادی کا حق تلف کیاجائے،دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر معاوضہ نہیں دیاجاسکتا،حالاں کہ اصل بات یہ تھی کہ معاوضہ اس لیے دیاجاناتھاکہ ریاستی حکومت مذہبی مقامات کے تحفظ میں ناکام رہ گئی تھی۔
کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرمذہبی مقامات کی مرمت کے لیے سرکار کی طرف سے پیسہ دیاجائے،تواس سے سیکولر سٹیٹ کے دستور کے آرٹیکل27کی خلاف ورزی ہوگی،مگر ایسا لگتاہے کہ یہ موقف تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ اختیارکیاگیا گیا؛کیوں کہ کیرالا حکومت آرٹیکل290Aکے تحت تراونکور دیوسوم فنڈ کو سالانہ46.5لاکھ روپے دیتی ہے اور تمل ناڈوحکومت دیوسوم فنڈکومندروں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ13.5لاکھ روپے دیتی ہے،اس کے علاوہ متعدد حکومتیں مندرسمیت مساجد، مدارس اور چرچوں پر بہت ساراپیسہ خرچ کرتی ہیں۔
سی اے اے کی دستوری حیثیت کے سلسلے میں دائر پٹیشن کو نہ سن کراورطلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی پر توجہ نہ دے کرعدالتِ عظمیٰ نے صورتِ حال کی حساسیت کے تئیں غفلت کا اظہار کیاہے۔سپریم کورٹ نے اوبی سیز کے ریزرویشن کے تعلق سے منڈل کمیشن کی سفارشات ماننے سے اس لیے انکارکردیاتھاکہ اونچی ذات کے ہندواحتجاج کریں گے،اسی طرح اگرسی اے اے پر روک لگادیاجاتا،توملک بھر میں جاری احتجاجات بھی ختم ہوجاتے۔آج اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں،دستور کے آرٹیکل25سے 30میں ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں،ان کی بے رحمی کے ساتھ خلاف ورزی ہورہی ہے۔سینٹ زویرس کالج،احمد آباد فیصلے (1974)میں جسٹس ایچ آرکھنا کے الفاظ میں ”یہ قوانین اقلیتوں کے حق میں ایک پختہ عہد کی طرح ہیں…جب تک دستور اپنی موجودہ حالت میں باقی رہے گا،ان حقوق کونظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔اگر ایسی کوئی بھی کوشش کی جائے،تویہ نہ صرف اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی؛بلکہ یہ قانونی طورپر ایک ناقابلِ معافی عمل ہوگا“۔لہذاعدالتِ عظمی اور حکومت کوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کا اعتماد بحال کریں؛ تاکہ یہ حقوق محض دستورِ ہند کے صفحات کی زینت بن کرنہ رہ جائیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ انڈین ایکسپریس)
وزیر اعظم نریندر مودی سے تو اُمید تھی ہی نہیں
ایک آپ ہی سے اُمید تھی لیکن اروند کیجریوال جی ! آپ نے بڑا مایوس کیا ۔جب دہلی اسمبلی الیکشن کی تاریخی جیت کے بعد ، جسے ہم سب بی جے پی اور بھگوا ٹولے کی ذلیل ترین شکست قرار دیتے ہیں ، آپ اپنے ماتھے پر بڑا سا ٹیکہ لگا کر نمودار ہوئے ، یا جب آپ نے ’ہنومان چالیسا‘ کا پاٹھ کیا اور ہنومان مندر گئے ، تب ہم سب نے اسے آپ کا دھارمک معاملہ قرار دیا۔ اب اس ملک میں جسے جمہوری اور سیکولر کہا جاتا ہے اور جہاں کا آئین سب کو اپنے اپنے مذاہب پر چلنے کی آزادی دیتا ہے اگر آپ نے پوجا پاٹھ کرلی تو کوئی گناہ تو نہیں کیا ۔ ہاں ، دِل میں ایک شک سا ضرور اُٹھا کہ بھلا اروند کیجریوال جیسا شخص جس نے اب سے پہلے کبھی بھی یوں کھلم کھلااپنے دھرم کا اظہار نہیں کیا تھا بھلا کیوں خود کو اس قدر دھارمک ’جتلانے ‘ میں لگا ہوا ہے ! لیکن اس شک کو بھی ہم سب نے ذہنوں سے جھٹک دیا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ آدمی زیادہ سے زیادہ مذہبی ہوتا جاتا ہے (بہتوں کے ساتھ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے ) ممکن ہے کیجریوال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ حالانکہ آئین کی بات کرنے اور’نئی طرح کی سیاست کی شروعات‘ کا اعلان کرنے والے کیجریوال اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کسی عوامی پلیٹ فارم سے مذہب کا پرچار نہیں کیا جاتا ۔سرکار ی افسران ، عہدیداران ،وزرائے اعلیٰ ،وزراءاور وزیر اعظم و صدر جمہوریہ ہند تک کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی تو ہے ، لیکن سرکاری تقریبات میں مذہب کے استعمال کی یا سیاسی اجتماعات میں مذہب کے دکھاوے کی آزادی نہیں ہے ۔ جو بھی یہ کرتا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پھر بھی سوچا کہ شاید آپ یہ سب بی جے پی کو چڑھانے ، جلانے کیلئے کررہے ہیں ۔ بی جے پی والوں کے ذہنوں میں یہ حقیقت ٹھونسنے کیلئے یہ سب کررہے ہیں کہ دھارمک ہوتے ہوئے بھی سیکولر ہوا جاسکتا ہے ۔ لیکن دہلی فسادات کے دوران آپ اور آپ کی سیاسی جماعت ’آپ‘ کے لیڈروں اورو دھائکوں کے روّیے نے ’شک‘ کوزائل ہونے نہیں دیا۔
کیجریوال جی! دلّی والوں نے آپ کو کتنے پیار اور کس محبت سے ووٹ دیا تھا! انہوں نے بی جے پی ، آر ایس ایس اور مودی و شاہ ، انوراگ ٹھاکر ،کپل مشرا ، پرویش ورما ان سب کی نفرتوں کو اپنے پر حاوی ہونے نہیں دیا اور نہ ہی ان کی دھمکیوں سے ڈر محسوس کیا ، باہر نکلنے، قطار میں لگے اور ’آپ‘ کی جھولی میں ووٹ ڈال دیئے ۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ جب دہلی جل رہی تھی اور آپ کو ووٹ دینے والے ’مدد مدد ‘ کی گہار لگا رہے تھے ، جب مار کھاتے ، لٹتے ، پٹتے لوگ آپ کی طرف اُمید کی نظر لگائے تھے ، تب آپ نے اپنی نظریں پھیر لیں ! ان پر جوامن و امان کے مطالبے کیلئے آپ کے مکان پر پہنچے پولس کی لاٹھیاں چلیں ۔ دہلی جلتی رہی اور آپ امیت شاہ سے ملاقات کرکے یاتو ان کی تعریف کرتے رہے یا فوج بلانے کا مطالبہ ۔ افسوس ہے کیجریوال جی ! دہلی نے آپ کو محبت دی اور آپ نے دہلی کو جلوا دیا۔ آپ کے اراکین اسمبلی کو جب مدد کیلئے پکارا گیا تو ان کا جواب تھا ’پولس کا محکمہ ہمارے پاس نہیں ہے ‘ ’ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے‘ ’یہ علاقہ ہماری اسمبلی کی حد میں نہیں آتا‘ ۔یا پھر کچھ کہنا نہ ہوتا تو فون ہی نہیں اُٹھاتے تھے ۔کیا اسی لیے دہلی والوں نے اور خود شہر دہلی نے آپ کو منتخب کیا تھا! ہم سب آپ کے چاہنے والے تھے ،آپ ’بھکت‘ بھی کہہ سکتے ہیں ، اسی لیے جب آپ پر تنقید یا نکتہ چینی ہوتی تھی تب عقل کو کہیں دور رکھ کر آپ کا دفاع کرتے تھے ۔ اب یہ آپ کی ’چاہ ‘ دل سے نکل سی گئی ہے ۔ یقیناً اب آپ خوب کام کریں گے ، آپ نے موت ، تباہی ، بربادی ،یتیمی اور معذوروں کے ’ریٹ ‘ طئے کردیئے ہیں ، ۲۰؍ ہزار سے لے کر دس لاکھ روپئے تک کا معاوضہ ممکن ہے کہ بربادوں کے چہروں پر کچھ مسکان لے آئے لیکن وہ شہر دہلی جس سے آپ نے بار بار ’محبت‘ کا اظہار کیا ہے وہ تو اب بدل ہی گیا ہے۔ اور یہ تبدیلی وہ عناصر چاہتے تھے جن کے خلاف آپ کھڑے تھے اور لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ وہ تو کامیاب ہوگئے، نفرت جیت گئی ،آپ ہارگئے ۔ یہ لچر جواب کہ’میرے پاس پولس نہیں ہے ‘آپ کے اوپر لگے داغ کو دھو نہیں سکتا۔ الزام سخت ہے کہ آپ اندر سے ’سنگھی‘ ہیں ۔ کاش یہ الزام ’غلط ہو‘۔ ٹھاکر سنجے سنگھ آپ کے راجیہ سبھا کے رُکن کا ایک آڈیو وائرل ہوا ہے ، وہ ایک مسلم رکن اسمبلی کو ڈانٹ رہے ہیں ، ان کی کچھ باتیں سن کر از حد تکلیف ہوئی ،وہ تو سیکولر تھے-اللہ کرے وہ سیکولر ہی رہیں ۔ کیجریوال آپ سے مایوسی نہ ہوتی اگر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہتے جلتی ، لٹتی ، پِٹتی دہلی کی سڑکوں پر اُتر آتے ، جیسے مہاتما گاندھی اُترآیا کرتے تھے ، اور پھر آپ دیکھتے کہ شہر دہلی جلنے سے بچ جاتا ۔ پر آپ کیا اب تو یہاں کوئی بھی مہاتما گاندھی نہیں ۔ سب گوڈسے واد ی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
ایسے ماحول میں جب مذہبی نفرت کا بول بالا ہو، وہاں لاشوں کا مذہب طے کرکے امن نہیں قائم کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس یہی ہو رہا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی لاشوں کو گننے اور انھیں دوسرے سے زیادہ مظلوم قرار دینے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو اور تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے اس بات کو دھیان میں رکھا جارہا ہے کہ کسے مظلوم دکھانا اور کسے ظالم؟ کس کی جارحیت پر پردہ ڈال دینا ہے اور کس کے حملے کو فوٹو شاپ کی مدد سے ایک خاص قوم کے سر پر منڈھنا ہے؟ حملہ آور کا نام شاہ رخ ہے یا انوراگ مشرا؟ سوشل میڈیا ہی نہیں، بیشتر اردو ہندی اخبار بھی یہی کررہے ہیں، ظاہر ہے انھیں اپنے قارئین کے مذہب اور اس مذہبی نفسیات کا خوب اچھی طرح علم ہے، اس لیے وہ بھی نیوز چینلوں کی طرز پر اپنا اپنا خیمہ منتخب کرچکے ہیں۔ نتیجتاً عوام کے درمیان سنسنی، مایوسی، دل گرفتگی، بیچارگی، بے بسی اور ساتھ ساتھ غصہ بڑھ رہا ہے۔ یہ غصہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، اس سے یہ اخبار خوب اچھی طرح واقف ہیں لیکن انھیں بھی اپنا رزق حلال کرنا ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خبریں پیش نہ کی جائیں لیکن سنسنی خیز خبریں کیسے پیش کی جائیں، سرخیاں کیسے لگائی جائیں، کالم کیسے طے کیے جائیں، تجزیے کس طرح کے ہوں، اس آرٹ سے بیشتر پروفیشنل اردواور ہندی صحافی بے خبر ہیں۔ معاف کیجیے گا، سوائے ایک خاص قوم یا فرقے کے جذبات سے یہ اخبارات اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح ہمارے قومی لیڈر۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندی اور اردو صحافت میں جری اور انصاف پسند صحافیوں کی کمی ہے، لیکن اس ٹرینڈ کے لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے موقف یا تحفظات کے خلاف سننا ہی نہیں چاہتے۔ میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال دیتا ہوں۔”ممبئی اردو نیوز” کے ایڈیٹر شکیل رشید کے قلم سے جب جب ایسی تحریریں نکلیں جو ہماری قومی لیڈرشپ کا محاسبہ کرتی نظر آتی ہیں یا مذہبی قیادت کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کے مداح بھی ان کے خلوص کو طعنہ مارتے نظر آئے، گویا ایک اردو اخبار کو صرف مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے نہ کہ حقائق کی گرفت کرنی چاہیے، یا ایک اردو اخبار کو مسلمانوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کی جواز جوئی کرنی چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کرکے ان کی صفوں کو درست کرنا چاہیے۔
کیا وجہ ہے کہ دہلی فسادات میں مرنے والے ہندوؤں کی فہرست اردو اخباروں میں نظر نہیں آتی؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مارنے والوں کی قوم کے نام پر بٹہ لگتا ہے جسے بچانے کا کام اردو اخباروں کا ہے؟ اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ فساد اور بربریت کا مذہب بھی اب طے ہوچکا ہے، جب کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک ہم یہ سنتے آئے تھے کہ دہشت گردی اور فسادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس جملے کا استعمال حسب ضرورت اور حسب مصلحت جگہ جگہ بدلا بھی جا سکتا ہے؟ بلاشبہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کا ہی زیادہ نقصان ہوا یا مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن پھر یہاں سوال کرنے کا جی چاہتا ہے کہ کیا ایک جان کی قیمت نہیں ہے؟ کیا اب ترازو کے دونوں پلڑوں پر لاشوں کو رکھ کر تول کر فیصلہ کیا جائے کہ کس قوم کی لاشوں کا پلڑا بھاری ہے؟ کیا اب تعداد کے اعتبار سے مظلوم اور ظالم طے کیے جائیں گے؟ اگر 85 سال کی بوڑھی اکبری کو زندہ جلانے کی خبرسنسنی خیز ہے تو کیا 19 سالہ وویک چودھری جس کے بائیں طرف ڈرلنگ مشین گھسیڑ دی گئی، وہ کم خوفناک ہے؟ اگر 22 سالہ اشفاق کی گردن میں دو بار وار اور اسے پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ہمارے دلوں کو مٹھیوں میں جکڑنے کے لیے کافی ہے تو کیا دوسری طرف 25 سالہ نتن کمار اور اس کے ضعیف والد پر جنونی بھیڑ کا حملہ ہمارے دل و دماغ دونوں کو نہیں جھنجھوڑتا؟ اگر ایک طرف اسحاق خان (24)، محمد مدثر (30)، محمد مبارک حسین (28)، شان محمد (35)، مہتاب (22)، شاہد (25)، محمد فرقان (30)، دلبر محسن علی (24)، اور معروف علی (30) وغیرہ جیسے مرنے والوں کے نام ہیں تو دوسری طرف دیپک کمار (34)، ویر بھان (50)، پرویش (48)، راہل سولنکی (26)، راہل ٹھاکر (23)، رتن لال (42)، انکت شرما (26)، ونود کمار (50) اور امن (17) جیسے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں تو کیا آپ ان لاشوں کو گنیں گے کہ اس میں کتنے مسلم ہیں اور کتنے ہندو؟ اور پھر الیکشن میں جس طرح ووٹنگ کی تعداد پر جیت اور ہار طے کی جاتی ہے، کیا اسی طرح ظالم اور مظلوم طے کیے جائیں گے؟ آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سامنے جو لاشیں پڑی ہیں وہ مذہبی شدت پسندی اور جارح قوم پرستی کا شکار انسانیت کی لاشیں ہیں اور آپ کو باور کرارہی ہیں کہ نہ ہندو خطرے میں ہے اور نہ مسلمان، اگر کچھ خطرے میں ہے تو صرف انسانیت خطرے میں ہے، جسے بچانا ہمارا کام ہے۔ سرکار، پولیس، سیاسی پارٹی اور نیتا جب بے کار ہوجائیں تو انسانیت حرکت میں آتی ہے اور وہ اپنا کام اپنی صفوں اور اپنے گھر سے شروع کرتی ہے۔ اس کی آنکھوں پر تعصب کا اور قوم پرستی کا چشمہ نہیں ہوتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کو صرف کپل مشرا نظر آتا ہے لیکن وہ ہندو افسر نظر نہیں آتا جس نے اس کے خلاف رپورٹ کی تھی جس کے پاداش میں اسے سسپنڈ کردیا گیا؟ آپ کو گوتم گمبھیر بھی نظر نہیں آتا جسے اب ٹوئٹر میں غدار کہا جارہا ہے؟ آپ کو وہ ہندو بھی نظر نہیں آتا جو 9 مسلم خاندانوں کو بچاتے ہوئے خود فسادیوں کی نذر ہوگیا۔ آپ دہلی بھر کے گردواروں پر نظر کیوں نہیں ڈالتے جن کے دروازے مسلمانوں اور دیگر فسادزدگان کے لیے کھول دیے گئے۔ آپ کو وہ دلت بھی نہیں دکھتے جو حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مسلم محلوں کے سامنے بیری کیڈ لگا کر سینہ سپر ہوگئے۔یہ کہانی یک طرفہ نہیں ہے، ہمیں دوسری طرف ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جو مظلوموں کی شناخت ان کے مذہب سے نہیں کرتے۔ کئی مسلمانوں نے ہندو خاندانوں کی جان بچائی، انھیں اپنے گھروں میں پناہ دی اور بعد میں انھیں ان کے لوگوں کے پاس بحفاظت پہنچا دیا۔ ایک ویڈیو تو ایسا بھی میری نظروں سے گزرا جس میں مسلمانوں نے ایک فسادی کی بھی حفاظت کی، اس سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ ذرا سوچیے یہ کیسے ہندو اور مسلمان تھے جنھوں نے نفرتوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ محبت کا جزیرہ بنایا تھا۔یہ لوگ لاشوں کو گننے والوں میں سے نہیں تھے، یہ انسانیت کی تسبیح پڑھتے تھے اور انھی کے دم سے یہ ملک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب سماج کی ہم آہنگی اور اس کے اعتبار پر چوٹ لگائی جارہی ہو اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس کے تانے بانے کو بکھیرا جا رہا ہو تو ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟ کیا ہم بھی اس جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈال کر اس کی تپش بڑھاتے رہیں گے یا ہم ٹوٹے بکھرے اور خوفزدہ سماج میں حوصلے اور خود اعتمادی کی شمع روشن کریں گے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نایاب حسن
دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا،جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات،دکانوں اور املاک کو جلایاگیا،لوٹاگیااور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیارپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیاہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور،جعفرآباد،شاہدرہ،کردم پوری،موج پور،کھجوری خاص،گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سرآنکھوں پر بٹھایا،محمودپراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتارکیااور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرواسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے،یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے،مسجدکومسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظرآرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے،ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ہر پانچ دس سال بعد ہماراسیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بنناچاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہاہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکروہ تقریرکرتاہے،اس جگہ کی دھلائی،صفائی کرتے ہیں،بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانش وران اوردیگر مبینہ سیکولرسیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم،ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!
دہلی کے خوں ریز فساد کے تعلق سے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ میں آج پہلی سرخی ہے: "The Real Beast” (اصلی درندے)۔ دوسری ذیلی سرخی ہے: ”بدمعاشوں کی دہلی کے علاقے میں مٹر گشتی، 4کی ہلاکت، پولس کی ملی بھگت“۔ اسی خبر میں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے بیسیوں بلوائی ایک نہتے نوجوان احتجاجی کو گھیر کر لاٹھی، ڈنڈے اور لوہے کی چھڑ سے وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے مار رہے ہیں۔ مظلوم بے سدھ زمین پر پڑا تھا اور اس کا کپڑا خون آلود ہے۔ اسی روز صبح کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ سے دہلی ہوائی اڈہ پر پہنچے۔ عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی کے ’سابر متی آشرم‘ دیکھنے گئے۔ پھر ٹرمپ اور مودی نے احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں مودی اور ٹرمپ نے دھواں دھار تقریر کی۔ دونوں کی زبان پر ہندستان کی مذہبی آزادی، کثرت میں وحدت جیسی باتیں رواں تھیں۔ جب ٹرمپ تقریر کر رہے تھے تو دہلی فساد کی آگ سے جل رہا تھا۔ دہلی کے متعدد علاقے اور خاص طور پر شمال مشرقی حصے کے مسلم فرقے پر ہتھیار بند غنڈے پولس کے ساتھ حملے کر رہے تھے۔ دکانیں، مارکیٹ اور مسجدوں کو جلا رہے تھے۔ اس فساد کی تیاری اتوار کے دن ہی ہوگئی تھی۔ دہلی کے شمالی اور مشرقی حصے جعفر آباد میں بی جے پی کا بدنام زمانہ لیڈر کپل مشرا نے جلوس نکالا جہاں عورتیں، بچے CAA کے خلاف پُرامن دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کپل مشرا نے پولس کو اَلٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تین روز میں دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کو ہٹایا نہیں گیا تو وہ خود طاقت کے زورپر ہٹادیں گے۔ الٹی میٹم میں تین روز کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کے بعد ہی وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ٹرمپ احمد آباد میں تھے اور جعفر آباد میں کپل مشرا کے غنڈے پولس کے ساتھ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والوں اور مقامی لوگوں پر اینٹ پتھر سے حملے کر رہے تھے۔ ایک کلپ وائرل کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اتوار کے دن شام کے وقت پتھر، اینٹ کے ٹکڑے لاریوں پر لادے جارہے ہیں۔ پولس کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بیان دیا ہے کہ ابھی اس ویڈیو کی تصدیق ہورہی ہے۔
سوموار کے دن دہلی کے جعفر آباد سے فساد شروع ہوا، جہاں مسلمانوں کی بہت معمولی آبادی ہے اور موج پور میں بھی فساد برپا ہوا جہاں پڑوس میں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ مقامی باشندوں نے ایک اخبار کے نامہ نگار کو بتایا کہ پولس کی موجودگی میں دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے۔ پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی رہی۔ روئٹرس نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جو لوگ شہریت ترمیمی قانو کی حمایت کر رہے تھے پولس ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ بھیڑ پولس کی موجودگی میں مسلمان کے اسٹور کو تباہ و برباد کر رہی تھی اور ایک گاڑی میں آگ لگا رہی تھی۔ پولس نے آواز دے کر شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں کو پتھر پھینکنے کیلئے اکسایا۔ کئی نوجوان لڑکے موٹر سائیکل سے پٹرول نکال کر آگ لگا رہے تھے۔ روئٹرس کا کہنا ہے کہ ان میں ایک امیت نام کے شخص نے کہا کہ ہم لوگ CAA کے حامی ہیں۔ اگر یہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور جگہ تلاش کرلیں۔ روئٹرس نے بھی لکھا ہے کہ ایک مسلمان اور ایک برقعہ پوش عورت کو لاٹھیوں اور لوہے کی چھڑوں سے فسادی نوجوان زدوکوب کر رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ بلوائی ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’سی اے اے‘ کے مخالفین کی مذمت کر رہے تھے۔ سوموار کے دن ’سی اے اے‘ کے حامیوں نے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا تھا۔ بہت سے گھروں پر زعفرانی جھنڈے لہرائے گئے تھے۔ اس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ’سی اے اے‘ کے حامیوں کا گھر ہے۔
جعفر آباد کے ایک اسکول کے معلم امین سبحان نے ’ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”نوجوانوں کا گروپ ہندو بھائیوں کے گھروں پر زعفرانی جھنڈے کیوں لگا رہے تھے؟ یہ فساد منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے متنازعہ لیڈر کپل مشرا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ پولس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی“۔ مشتعل بلوائیوں نے اتوار کے دن دھرنے اور احتجاج پر پرامن طریقے سے بیٹھے مرد اور خواتین کو راستے سے زبردستی اٹھا رہے تھے۔ ان سب کو مرکزی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ سلیم پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کملیش کمار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم لوگ دہشت گردی کے ماحول میں رہ رہے ہیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی دہلی کے لوگوں کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ نہ دینے کی سزا دے رہی ہے۔ کملیش کے ایک دوست فیضل نے جن کی ایک لاؤنڈری کی دکان ہے کہاکہ پولس اگر حرکت میں آگئی ہوتی تو یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا اور جو لوگ فساد میں مارے گئے ہیں وہ بچ جاتے۔ اس سے کس کا فائدہ ہوا؟ فیضل نے پوچھا۔ سماجی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ”ہریانہ کے ایک علاقہ لونی سے بجرنگ دل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس فسادمیں حصہ لیا اور بلوائیوں سے مل کر دہشت اور خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ پولس تماشائی بنی رہی اور ان علاقوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں پولس بلوائیوں کی مدد بھی کرتی رہی“۔ رادھے شیام نے کہا۔ جعفر آباد کے قریب کا علاقہ نور الٰہی کے مسلمانوں کے بارے میں اکرام علی نے کہاکہ ”اب ڈر اور خوف سے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں“۔
دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے بڑے اور چھوٹے لیڈروں نے شر انگیز اور فساد انگیز بیان بازی کرتے رہے۔ کپل مشرا نے جو اس فساد کے خاص مجرم ہیں انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ شاہین باغ کی طرف سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی نہ تو الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی اورنہ پولس کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔ کپل مشرا اپنی جیت درج کرانے کیلئے مہم کوفرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئے مگر فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سارے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ان کا نام آیا ہے کہ اتوار کے دن ہی پولس کے بغلگیر ہوکر سی اے اے کے مخالفین کو الٹی میٹم دے رہے تھے کہ دھرنے پر جو خواتین اورمرد بیٹھے ہوئے ہیں ان سے تین دنوں کے اندر جگہ خالی کرادی جائے ورنہ وہ خود خالی کرادیں گے۔ پولس ان کی باتوں کو ہنس ہنس کر ٹال رہی تھی۔ پولس کے اندر خفیہ کارندے ہوتے ہیں جن کو ان حالات میں خاص طور پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لیکن جب پولس خود فسادیوں سے ملی ہو تو پھر فسادیوں پر قابو پانا مشکل ہے۔ نیوز ایجنسیوں اور اخبارات کے نامہ نگار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ فساد کے دوران پولس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کو اینٹ پتھر پھینکنے کیلئے اکساتی رہی۔ جب خود پولس بلوائی بن جائے یا بلوائیوں کا ساتھ دے تو فسادی کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
دہلی کی پولس جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہوئی ہے زعفرانی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سانحہ ہو۔ شاہین باغ کے قریب کا معاملہ ہو، ہر جگہ پولس کی جانبداری اور طرفداری دیکھنے میں آتی ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ جامعہ ملیہ کے طالبعلموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے اس کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے کہا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ دہلی ہائی کورٹ تاریخ پر تاریخ دینے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ چندر شیکھر آزاد نے دہلی کے حالیہ فساد کے سلسلے میں آج ہی (25فروری) سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تحقیقات کی مانگ کی ہے۔ مہلوکین کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی سپریم کورٹ کا رویہ پہلے جیسا ہی رہے گا یا حق و انصاف مظلومین کو ملے گا۔اس بار پہلے سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ چار افراد مارے بھی گئے ہیں۔ ڈر اور خوف سے اقلیتی فرقے کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ پناہ لے رہے ہیں۔ پولس کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ ایسی صورت میں پولس سے حق و انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا عدالت کو فساد کی تحقیق کا بلا تاخیر آرڈر دینا چاہئے تاکہ اصلی فسادیوں اور درندوں کے خلاف جلد کارروائی ہو اور دہلی پولس کے سیاہ کارناموں پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ بھی فاش ہو۔ امید ہے کہ اس بار عدالت انصاف مانگنے والوں کو مایوس نہیں کرے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، عورت کے اندر طاقت نہیں ہے، عورت کے اندر کار آمد صلاحیت نہیں ہے اس لیے کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بیشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اس میں عورت کا کردار انتہائی اہم رہا ہے. کیونکہ ایک عورت کے اندر بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اگر صبر کے میدان میں دیکھا جائے تو اس میں بھی عورت یعنی حوا کی بیٹیاں کامیاب نظر آتی ہیں صرف کمانے والی عورت کامیاب نہیں ہوتی بلکہ گھر بسانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے، ماں باپ کی خدمت کرنے والی اور شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے بچوں کی پرورش کرنے والی عورت کامیاب ہوتی ہے اور جہاں مرد کی آواز کو دبانے اور طاقت کے بل پر کچلنے کا ماحول پیدا ہوجائے تو وہاں ڈھال بن کر کھڑی ہوجانے والی عورت کامیاب ہوتی ہے. فرعون ایک ظالم تھا لیکن اس کی بیوی آسیہ کا مقام بہت بلند ہے، حضرت ہاجرہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکی اداؤں کو حج کے ارکان میں شامل کر دیا، حضرت خدیجہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ بیوہ ہوتے ہوئے چالیس سال کی عمر میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، حضرت فاطمہ اتنی کامیاب عورت ہیں کہ جنتی خاتون کی سردار ہوں گی جب انکی سواری پل صراط سے گذرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ سارے کے سارے لوگ اپنی نگاہیں نیچی کرلو فاطمہ کی سواری گذرنے والی ہے حضرت بی بی رحمت ایک کامیاب عورت ہیں جب حضرت ایوب علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہونے لگی یعنی امتحان ہونے لگا تو سخت مصیبت کے عالم میں جب سبھی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور بستی سے بھی نکال دیا تب بھی بی بی رحمت نے ساتھ نہیں چھوڑا.
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ سید الکونین کی بیٹی ہو کر چکیاں چلاتے چلات ہاتھوں میں چھالے پڑجایا کرتے تھے پھر بھی دن رات اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں.
حضرت حنظلہ کی شادی ہوئی ہے ابھی پہلی رات ہے بیوی کے ساتھ شب زفاف منارہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ہوتا ہے حنظلہ اٹھتے اور جہاد میں شریک ہونے کیلئے نکلنے لگتے ہیں بیوی غسل کرنے کے لئے روکنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ نہیں رکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے میں بہت دیر ہو جائے گی اور پھر بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر جنگ میں میں شہید ہوجا ؤں تو تمہیں دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے تم دوسری شادی کرلینا بیوی بھی بول تی ہے کہ ائے میرے سرتاج جاؤ رسول اللہ کی جانب سے جہاد کا اعلان ہوگیا ہے تو ضرور جاؤ مگر ایک وعدہ کرو کہ جنگ میں شہید ہوگئے تو کل میدان محشر میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل کریگا تو مجھے بھول نہ جانا بلکہ مجھے بھی ساتھ جنت میں لیجانے کے لیے اللہ رب العالمین سے سفارش ضرور کرنا جنگ میں حضرت حنظلہ کی شہادت ہوئی روایات میں یہی ملتا ہے کہ بیوی نے دوسری شادی نہیں کی.
تعلیم و تربیت کے میدان میں دیکھا جائے تو صحابی ربیع الفروخ کی بیوی حاملہ ہیں اور ربیع الفروخ جہاد کے لیے جارہے ہیں اور چالیس ہزار اشرفیاں بیوی کو دیکر میدان جنگ کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں اور واپس آنے میں ستائیس سال لگ جاتے ہیں یعنی ستائیس سال کے بعد جب واپس آتے ہیں تو ڈائریکٹ گھر نہیں آتے بلکہ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی کو پیغام بھیجتے ہیں کہ میں گھر آرپار ہوں شریعت کا یہی اصول بھی ہے کہ جب تم زیادہ دنوں کے بعد گھر واپس آؤ تو پہلے گھر خبر کردو، بیوی ہو تو اس تک پیغام پہنچا دو تاکہ وہ تمہارے استقبال کی تیاری کرلے چنانچہ جب ربیع الفروخ نے گھر آنے کا پیغام بھیجا تو بیوی نے کہا کہ آپ مسجد میں ٹھہریں عشا کے بعد گھر آنے کی اجازت ہے ربیع الفروخ مسجد میں ٹھہرتے ہیں ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز ادا کرتے ہیں ایک نوجوان امامت کرتا ہے شاندار قرأت سن کر اور بعد نماز خطاب سن کر ربیع الفروخ نے نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کر دعائیں کرتے ہوئے زبان سے یہ کلمات ادا کیا اے اللہ کاش میرے پاس بھی کوئی بیٹا ہوتا تو میں بھی اسے ایسا ہی عالم دین بناتا بعد نماز عشاء بیوی نے پیغام بھیجا اے ربیع الفروخ اب آپ گھر تشریف لاسکتے ہیں پیغام ملنے کے بعد وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے دروازے پر پہنچ کر دستک دیتے ہیں تو وہی امامت کرنے والا نوجوان آکر دروازہ کھول تا ہے ربیع الفروخ سوچتے ہیں کہ میں کہیں کسی اور کے دروازے پر تو نہیں پہنچ گیا لیکن پھر دل میں یہ خیال آیا کہ یہ گھر تو میرا ہی ہے نوجوان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ گھر میرا ہے ان کی بات سن کر نوجوان کہتا ہے کہ یہ گھر آپ کا نہیں ہے بلکہ یہ گھر میرا ہے میں نے آج تک آپ کو اس گھر میں کبھی دیکھا ہی نہیں ہے ساری باتیں سن کر بیوی دروازے پر آتی ہے سلام کرتی ہے استقبال کرتی ہے اور گھر میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے نوجوان سے کہتی ہے کہ بیٹے یہ تمہارے باپ ہیں جب تم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے میرے پیٹ میں تھے تبھی تمہارے والد جہاد کے لیے چلے گئے تھے اور آج ستائیس سال بعد واپس آئے ہیں اس کے بعد ربیع الفروخ سے بیوی بولتی ہے کہ آپ نے جاتے وقت چالیس ہزار اشرفیاں جو دی تھیں میں نے اس سے تمہارے اس بیٹے کی پرورش کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا بتائیے کیا آپ مجھ سے خوش ہیں تو انہوں نے جواب دیا ائے میری بیوی تم ایک کامیاب عورت ہو حوصلہ مند عورت ہو تم نے میری شریک حیات ہونے کا حق ادا کردیا تم نے امانت میں کوئی خیانت نہیں کی میں تم سے بیحد خوش ہوں.
ایک اور عورت جن کا نام اسما ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور جب حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر دیا تو اسما بنت ابوبکر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں تو حضرت اسما نے حجاج کے دربار میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا حجاج بن یوسف نے قتل کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر لٹکا دیا تو حضرت اسما وہاں پہنچ کر مسکراتی بھی ہیں اور روتی بھی ہیں حجاج بن یوسف یہ ماجرا دیکھ کر ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ ماں ہونے کی بنیاد پر بیٹے کے قتل پر غم ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ قتل ہونے کے بعد بھی میرے بیٹے کا سر اونچائی پر ہے اور قاتل زمین پر میرے بیٹے کے پیروں کے برابر کھڑا ہے یہ سن کر حجاج بن یوسف غصے میں آگ بگولہ ہوکر بولتا ہے اے عورت اپنے بیٹے کا انجام دیکھ تو حضرت اسما نے جواب دیا کہ دیکھ رہی ہوں تونے میرے بیٹے کی زندگی تباہ کردی لیکن میرے بیٹے نے راہ حق میں شہادت پاکر تیری آخرت تباہ کردی یہ تھا حضرت اسما کا دو ٹوک جواب کہ ظالم کے سامنے بھی حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا.
بلند ترین مقام رکھنے والی عورتوں میں ایک نام حضرت مریم کا بھی ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں وہ حضرت مریم جنہوں نے ملک الموت سے بھی گفتگو کی ہے جب انکی روح قبض کرنے کی غرض سے عزرائیل آئے تو حضرت مریم نے کہا کہ کس لئے آئے ہو انہوں نے جواب دیا کہ روح قبض کرنے کے لئے تو مریم نے کہا کہ میں روزے سے ہوں اور میرا بیٹا جنگل میں پھل لینے کے لیے گیا ہے اسے واپس آلینے دو تو عزرائیل نے کہا کہ تمہارا بیٹا جنگل سے آئے یا نہیں آئے مجھے اس سے مطلب نہیں ہے وقت مقررہ سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا اور ایسا ہی ہوا کہ جب وقت پورا ہوا تو عزرائیل نے روح قبض کرلی حضرت عیسٰی علیہ السلام جنگل سے پھل لیکر واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ والدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے.
عورت یقیناً گھروں کی زینت ہے عورت بذات خود ایک زیور ہے اس لیے ضروری ہے کہ عورت کی خوبیوں پر نگاہ ڈالا جائے خوبصورتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ نیک سیرت ہونا کامیابی کی ضمانت ہے عورت کے اندر صبر کا مادہ بھی زیادہ ہوتا ہے جب اس کا چھوٹا بچہ سخت سردی کے موسم میں بھی بستر پر پیشاب کردیتا ہے تو اس وقت وہ عورت اتنا حصہ لپیٹ کر بچے کو اس پر سلاتی ہے اور خود بغیر بستر کے سوجاتی ہے یہ صبر نہیں تو اور کیا ہے، یہ مضبوط حوصلہ نہیں تو اور کیا ہے آج کے ماحول میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ مرد کو رمضان المبارک کا فرض روزہ گراں گذر تاہے لیکن عورت ہے جو رمضان کے روزے بحسن خوبی رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایام میں نفلی روزے کا بھی اہتمام کرتی ہے.
ایک عورت کا حوصلہ اور صبر دیکھنا ہو تو کربلا کی تاریخ کا مطالعہ کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یکے بعد دیگرے لوگ شہادت کا جام پیتے جارہے ہیں اور حضرت زینب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتی جارہی ہیں بلکہ لاشوں کو ترتیب سے خیمے کے اندر رکھتی جارہی ہیں اور وہ وقت بھی آیا کہ اب بھائی کا نمبر آگیا یعنی حضرت زین العابدین بیمار ہیں بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خود میدان کارزار میں جارہے ہیں اور حضرت زینب نے میدان جنگ میں اپنے بھائی حسین کو روانہ کرکے صبح قیامت تک کے لئے پیغام دیدیا کہ ائے حوا کی بیٹیوں جب اسلام پر آنچ آئے تو اپنے بھائیوں کو شہادت کی راہ میں دولہا بنا کر روانہ کر دینا اسی سرزمین کربلا سے حضرت شہربانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ اے حوا کی بیٹیوں جب کوئی اسلام کا سہاگ اجاڑنا چاہے تو تم اپنا سہاگ اجاڑ کر مذہب اسلام کا سہاگ اجڑنے سے بچالینا.
اور آج ہندوستان میں بھی عورتوں کا حوصلہ دیکھا جاسکتا ہے جمہوریت ھندوستان کی آن، بان اور شان ہے، دستور ہند ملک کا زیور ہے، امن و رواداری ہندوستان کا سرمایہ ہے اور اس سرمائے کو لوٹنے کی کوشش کی جانے لگی، آئین تحت آئینی منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر آئینی قدم اٹھایا جانے لگا، این آر سی، سی اے اے جیسا قانون بنایا گیا تو شاہین باغ، گھنٹہ گھر سمیت بیشمار مقامات پر عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا اور آج دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہین باغ میں خواتین جمہوریت بچانے کی آواز بلند کر رہی ہیں اور متنازعہ شہریت قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اس دوران انکے اوپر الزامات بھی لگائے گئے، سردی کے موسم میں بچوں کی موتیں بھی ہوئیں، انہیں توڑنے کی اور منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن وہ ملک اور ملک کے آئین کو اصلی حالت میں برقرار رکھنے کے لئے شیشہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں اور آج ملک کے کسی بھی حصے میں شہریت قانون سے متعلق احتجاج ہوتا ہے تو اس میں شاہین باغ کا ذکر ضرور ہوتا ہے آئے حوا کی بیٹیاں تمہارے حوصلوں کو سلام !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
مرکزی وزیر نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ مودی حکومت مظاہرین سے بات چیت کے لیے تیارہے
نئی دہلی: مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے آج مظاہرین کے ساتھ سی اے اے کے ایشوپر بات چیت کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ طے شدہ فریم ورک کے مطابق شاہین باغ کے مظاہرین سے بات کریں گے۔ اس دوران CAA پران کے شکوک و شبہات کو بھی دور کیا جائے گا۔واضح رہے کہ شاہین باغ میں گزشتہ 15 دسمبر سے ہی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج جاری ہے۔اس سے قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں انتخابی جلسے کے دوران شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج پر ایک اشتعال انگیزبیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بابرپور میں ای وی ایم کے بٹن کو اتنے غصے سے دباؤکہ اس کا کرنٹ شاہین باغ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے کہا تھاکہ اگر اقتدار میں آئے تو ہم سرکاری اراضی پر تعمیر مساجد کو مسمار کردیں گے اور ایک گھنٹے میں شاہین باغ کو بھی صاف کردیا جائے گا۔قابل ذکر ہے کہ دہلی میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہونے والے مظاہرے دہلی میں 20 مقامات تکپہنچ چکے ہیں۔ گیٹ 7 جامعہ یونیورسٹی ، شاہین باغ روڈ نمبر 13جنوب مشرقی ضلعے میں لالہ لاجپت رائے مارگ نظام الدین ، جنوبی ضلع کے ڈانڈی پارک ،حوض رانی، مالویہ نگر ، وسطی ضلع میں ترکمان گیٹ ، نارتھ ضلع میں اندرلوک میٹرو اسٹیشن کے قریب ، ڈیری والا پارک آزاد مارکیٹ جنگل والی مسجد ، شاہی عیدگاہ کے مشرقی دروازہ پراحتجاجات مسلسل چل رہے ہیں۔
ممبئی: (نمائندہ خصوصی) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ریڈیو کلب قلابہ میں پرچم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف اداکارہ پوجا بھٹ نے کہا کہ نہ ہماری خاموشی ہمیں بچائے گی، اور نہ ہی حکومت کی خاموشی اسے بچائے گی‘‘۔ اس اجلاس سے پوجا بھٹ کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے آئی پی ایس افسر عبدالرحمان، فہد احمد (ٹی آئی ایس ایس)، عمر خالد(طلبہ لیڈر) ڈاکٹر کفیل احمد خان، مشکور احمد عثمانی (طلبہ لیڈر) پروفیسر سراج چوگلے، ارشد صدیقی (ریڈ کریسنٹ سوسائٹی) نے بھی خطاب کیا۔پوجا بھٹ نے مزید کہاکہ میرے خون میں ہندوستان کی روح ہے اور میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ مجھ سے کہے کہ میں کس سے محبت کروں؟ کس کو چاہوں؟ گھر میں جھگڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہندوستان ہمارا گھر نہیں ہے؟ اگر کوئی شکایت ہے تو ہم سرکار سے ہی کہیں گے۔ میں اس سرکار کی شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں متحد کردیا ہے، یہ میرا دیش ہے، یہ میرا گھر ہے یہ میرے اپنے لوگ ہیں اگر میں اپنے گھر میں سوال نہیں پوچھوں گی تو کہاں جاؤں گی سوال پوچھنے۔ انہوں نے کہاکہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جائیے ، جاؤں گی، مگر چھٹیاں منانے ویزہ لے کر، میرے بہت پیارے دوست وہاں رہتے ہیں، وہاں بہت پیار ملتا ہے مجھے، وہاں بھی ایسے عجیب لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں کیوں آئے ہو؟ یہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کیوں گئے ہو؟ انہوں نے کہاکہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ طلباکی تحریک کے تعلق سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ تو میرا جواب ہے کہ طلبا نے کہدیا ہے کہ ’جاگ جاؤ‘ ۔